Skip to main content

وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِدْرِيْسَ وَذَا الْكِفْلِ ۗ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيْنَ ۙ

And Ismail
وَإِسْمَٰعِيلَ
اور اسماعیل
and Idris
وَإِدْرِيسَ
اور ادیس
and Dhul-Kifl
وَذَا
اور
and Dhul-Kifl
ٱلْكِفْلِۖ
ذوالکفل
all
كُلٌّ
سب کے سب
(were) of
مِّنَ
میں سے تھے
the patient ones
ٱلصَّٰبِرِينَ
صبر کرنے والوں

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفلؑ کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے

English Sahih:

And [mention] Ishmael and Idrees and Dhul-Kifl; all were of the patient.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفلؑ کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو)، وہ سب صبر والے تھے

احمد علی Ahmed Ali

اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو یہ سب صبر کرنے والے تھے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل (١) (علیہم السلام) یہ سب صابر لوگ تھے۔

٨٥۔١ ذوالکفل کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں؟ بعض نے ان کی نبوت کے اور بعض ولایت کے قائل ہیں۔ امام ابن جریر نے ان کی بابت توقف اختیار کیا ہے، امام ابن کثیر فرماتے ہیں، قرآن میں نبیوں کے ساتھ ان کا ذکر ان کے نبی ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور اسمٰعیل اور ادریس اور ذوالکفل (کو بھی یاد کرو) یہ سب صبر کرنے والے تھے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل، (علیہم السلام) یہ سب صابر لوگ تھے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور اسماعیل (ع)، ادریس (ع) اور ذوالکفل (کا تذکرہ کیجئے) یہ سب (راہ حق میں) صبر کرنے والوں میں سے تھے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور اسماعیل علیھ السّلام و ادریس علیھ السّلام و ذوالکفل علیھ السّلام کو یاد کرو کہ یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل (علیہم السلام کو بھی یاد فرمائیں)، یہ سب صابر لوگ تھے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ذوالکفل نبی نہیں بزرگ تھے
حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے فرزند تھے۔ سورة مریم میں ان کا واقعہ بیان ہوچکا ہے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کا بھی ذکر گزر چکا ہے۔ ذوالکفل بہ ظاہر تو نبی ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ نبیوں کے ذکر میں ان کا نام آیا ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ نبی نہ تھے بلکہ ایک صالح شخص تھے اپنے زمانہ کے بادشاہ تھے بڑے ہی عادل اور بامروت، امام ابن جریر (رح) اس میں توقف کرتے ہیں فاللہ اعلم۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں یہ ایک نیک بزرگ تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے نبی سے عہد و پیمان کئے اور ان پر قائم رہے۔ قوم میں عدل وانصاف کیا کرتے تھے۔ مروی ہے کہ جب حضرت یسع (علیہ السلام) بہت بوڑھے ہوگئے تو ارادہ کیا کہ میں اپنی زندگی میں ہی ان کا خلیفہ مقرر کردوں اور دیکھ لوں کہ وہ کیسے عمل کرتا ہے۔ لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ تین باتیں جو شخص منظور کرے میں اسے خلافت سونپتا ہوں۔ دن بھر روزے سے رہے رات بھر قیام کرے اور کبھی بھی غصے نہ ہو۔ کوئی اور تو کھڑا نہ ہوا ایک شخص جسے لوگ بہت ہلکے درجے کا سمجھتے تھے کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں اس شرط کو پوری کردوں گا۔ آپ نے پوچھا یعنی تو دنوں میں روزے سے رہے گا اور راتوں کو تہجد پڑھتا رہے گا اور غصہ نہ کرے گا ؟ اس نے کہا ہاں۔ یسع (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا اب کل سہی۔ دوسرے روز بھی آپ نے اسی طرح مجلس میں عام سوال کیا لیکن اس شخص کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوا۔ چناچہ انہی کو خلیفہ بنادیا گیا۔ اب شیطان نے چھوٹے چھوٹے شیاطین کو اس بزرگ کے بہکانے کے لئے بھیجنا شروع کیا۔ مگر کسی کی کچھ نہ چلی۔ ابلیس خود چلا دوپہر کو قیلولے کے لئے آپ لیٹے ہی تھے جو خبیث نے کنڈیاں پیٹنی شروع کردیں آپ نے دریافت فرمایا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہنا شروع کیا کہ میں ایک مظلوم ہوں فریادی ہوں میری قوم مجھے ستارہی ہے۔ میرے ساتھ انہوں نے یہ کیا یہ کیا اب لمبا قصہ سنانا شروع کیا تو کسی طرح ختم ہی نہیں کرتا نیند کا سارا وقت اسی میں چلا گیا اور حضرت ذوالکفل دن رات بس صرف اسی وقت ذرا سی دیر کے لئے سوتے تھے۔ آپ نے فرمایا اچھا شام کو آنا میں تمہارا انصاف کردوں گا اب شام کو آپ جب فیصلے کرنے لگے ہر طرف اسے دیکھتے ہیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں یہاں تک کہ خود جا کر ادھر ادھر بھی تلاش کیا مگر اسے نہ پایا۔ دوسری صبح کو بھی وہ نہ آیا پھر جہاں آپ دوپہر کو دو گھڑی آرام کرنے کے ارادے سے لیٹے جو یہ خبیث آگیا اور دروازہ ٹھونکنے لگا آپ نے کھول دیا اور فرمانے لگے میں نے تو تم سے شام کو آنے کو کہا تھا، منتظر رہا لیکن تم نہ آئے۔ وہ کہنے لگا حضرت کیا بتاؤں جب میں نے آپ کی طرف آنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگے تم نہ جاؤ ہم تمہارا حق ادا کردیتے ہیں میں رک گیا پھر انہوں نے اب انکار کردیا اور بھی کچھ لمبے چوڑے واقعات بیان کرنے شروع کردئے اور آج کی نیند بھی کھوئی اب شام کو پھر انتظار کیا لیکن نہ اسے آنا تھا نہ آیا۔ تیسرے دن آپ نے آدمی مقرر کیا کہ دیکھو کوئی دروازے پر نہ آنے پائے مارے نیند کے میری حالت غیر ہو رہی ہے آپ ابھی لیٹے ہی تھے جو وہ مردود پھر آگیا چوکیدار نے اسے روکا یہ ایک طاق میں سے اندر گھس گیا اور اندر سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا آپ نے اٹھ کر پہرے دار سے کہا کہ دیکھو میں نے تمہیں ہدایت کردی تھی پھر بھی آپنے دروازے کے اندر کسی کو آنے دیا اس نے کہا نہیں میری طرف سے کوئی نہیں آیا۔ اب جو غور سے آپ نے دیکھا تو دروازے کو بند پایا۔ اور اس شخص کو اندر موجود پایا۔ آپ پہچان گئے کہ یہ شیطان ہے اس وقت شیطان نے کہا اے ولی اللہ میں تجھ سے ہارا نہ تو نے رات کا قیام ترک کیا نہ تو اس نوکر پر ایسے موقعہ پر غصے ہوا پس اللہ نے ان کا نام ذوالکفل رکھا۔ اس لئے کہ جن باتوں کی انہوں نے کفالت لی تھیں انہیں پورا کر دکھایا۔ (ابن ابی حاتم) ابن عباس (رض) سے بھی کچھ تفسیر کے ساتھ یہ قصہ مروی ہے اس میں ہے کہ بنواسرائیل کے ایک قاضی نے بوقت مرگ کہا تھا کہ میرے بعد میرا عہدہ کون سنبھالتا ہے ؟ اس نے کہا میں چناچہ ان کا نام ذوالکفل ہوا اس میں ہے کہ شیطان جب ان کے آرام کے وقت آیا پہرے والوں نے روکا اس نے اس قدر غل مچایا کہ آپ جاگ گئے دوسرے دن بھی یہی کیا تیسرے دن بھی یہی کیا اب آپ اس کے ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہوئے کہ میں تیرے ساتھ چل کر تیرا حق دلواتا ہوں لیکن راستے میں سے وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت اشعری نے منبر پر فرمایا کہ ذوالکفل نبی نہ تھا بنواسرائیل کا ایک صالح شخص تھا جو ہر روز سو نمازیں پڑھتا تھا اس کے بعد انہوں نے اس قسم کی عبادتوں کا ذمہ اٹھایا۔ اس لئے انہیں ذوالکفل کہا گیا۔ ایک منقطع روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے یہ منقول ہے۔ ایک غریب حدیث مسندامام بن حنبل میں ہے اس میں کفل کا ایک واقعہ بیان ہے ذوالکفل نہیں کہا گیا۔ بہت ممکن ہے یہ کوئی اور صاحب ہوں۔ واقعہ اس حدیث میں یہ ہے کہ کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے بچتا نہ تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ دینار دے کر بدکاری کے لئے آمادہ کیا جب اپنا ارادہ پورا کرنے کے لئے تیار ہوا تو وہ عورت رونے اور کانپنے لگی۔ اس نے کہا میں نے تجھ سے کوئی زبردستی تو کی نہیں پھر رونے اور کانپنے کی وجہ کیا ہے ؟ اس نے کہا میں نے ایسی کوئی نافرمانی آج تک اللہ تعالیٰ کی نہیں کی۔ اس وقت میری محتاجی نے مجھے یہ برا دن دکھایا ہے۔ کفل نے کہا تو ایک گناہ پر اس قدر پریشان ہے ؟ حالانکہ اس سے پہلے تو نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ اسی وقت اسے چھوڑ کر اس سے الگ ہوگیا اور کہنے لگا جا یہ دینار میں نے تجھے بخشے۔ قسم اللہ کی آج سے میں کسی قسم کی اللہ کی نافرمانی نہ کروں گا۔ اللہ کی شان اسی رات اس کا انتقال ہوتا ہے۔ صبح لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے دروازے پر قدرتی حروف سے لکھا ہوا تھا کہ اللہ نے کفل کو بخش دیا۔