الحج آية ۱
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَىْءٌ عَظِيْمٌ
طاہر القادری:
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرتے رہو۔ بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی سخت چیز ہے،
English Sahih:
O mankind, fear your Lord. Indeed, the convulsion of the [final] Hour is a terrible thing.
1 Abul A'ala Maududi
لوگو، اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی سخت چیز ہے،
3 Ahmed Ali
اے لوگو اپنے رب سے ڈرو بے شک قیامت کا زلزلہ ایک بڑی چیز ہے
4 Ahsanul Bayan
لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو۔ کہ قیامت کا زلزلہ ایک حادثہٴ عظیم ہوگا
6 Muhammad Junagarhi
لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے لوگو! اپنے پروردگار (کی ناراضی) سے ڈرو۔ بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی شے ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی شے ہے
9 Tafsir Jalalayn
لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ ایک حادثہ عظیم ہوگا
آیت نمبر 1 تا 10
ترجمہ : سب سے زیادہ مہربان بہت رحم والے اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے مکہ وغیرہ کے لوگو اپنے رب یعنی اس کے عذاب سے ڈرو بایں طور کہ اس کی اطاعت کرو، بیشک قیامت کا زلزلہ یعنی زمین کی شدید حرکت جو کہ مغرب کی جانب سے طلوع شمس کے بعد ہوگی، اور وہ قرب قیامت ہوگا، لوگوں کو بےقرار کرنے (خوف زدہ کرنے) میں بڑی بھاری چیز ہوگی، وہ عذاب کی ایک قسم ہوگی، جس روز تم اس کو دیکھو گے اس (زلزلہ) کی وجہ سے بالفعل ہر دودھ پلانے والی عورت دودھ پیتے بچہ کو فراموش کر دے گی، یعنی بھول جائے گی، اور ہر حمل والی یعنی حاملہ اپنے حمل کو ساقط کر دے گی اور (اے مخاطب) تو لوگوں کو شدت خوف کی وجہ سے نشہ کی سی حالت میں دیکھے گا حالانکہ وہ شراب کی وجہ سے نشہ میں نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا جس کی وجہ سے لوگ خوف زدہ ہوں گے، اور نضر بن حارث اور ایک جماعت کے بارے میں آئندہ آیت نازل ہوئی، اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کے بارے میں بےعلمی کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں (اور) کہتے ہیں فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور قرآن پچھلے لوگوں کے گھڑے ہوئے قصے ہیں، اور وہ بعث کے منکر ہیں، اور مٹی ہونے کے بعد زندہ ہونے کے منکر ہیں، اور اس جھگڑے میں ہر سرکش شیطان کے پیچھے ہو لیتے ہیں اور شیطان کی بابت یہ بات لکھی جا چکی ہے یعنی اس کے بارے میں فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ جو کوئی اس کی رفاقت کرے گا یعنی اس کی اتباع کرے گا تو وہ اس کو گمراہ کر دے گا، اور اس کو عذاب نار کی طرف لے جائے گا، اے مکہ کے لوگو اگر تم دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں شک میں ہو (تو ذرا غور کرو) ہم نے تم کو یعنی تمہاری اصل آدم کو مٹی سے پیدا کیا پھر آدم کی ذریت نطفہ منی اور پھر علقہ سے اور وہ خون بستہ ہے اور پھر لوتھڑے سے اور وہ چپائے جانے کی مقدار گوشت کا ٹکڑا ہے (بوٹی) کہ خلقت کے اعتبار سے پوری بھی ہوتی ہے اور ادھوری بھی ہوتی ہے تاکہ ہم تم پر اپنی کمال قدرت کو ظاہر کردیں تاکہ تم ابتداء تخلیق پر قدرت سے اعادہ تخلیق پر استدلال کرو ونقر جملہ مستانفہ ہے، اور ہم رحم مادر میں جس کو چاہتے ہیں ایک معین مدت یعنی پیدائش کے وقت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر ہم تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے بچہ بنا کر باہر لاتے ہیں اور طفلاً اطفالاً کے معنی میں ہے پھر تم کو عمر دیتے ہیں تاکہ تم بھرپور جوانی کو یعنی کمال اور قوت کو پہنچ جاؤ اور وہ تیس سے چالیس سال کے درمیان ہے اور بعض تم میں کے وہ بھی ہیں جو بالغ ہونے سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں اور بعض تم میں سے وہ ہیں جو نکمی عمر کو پہنچا دئے جاتے ہیں یعنی بڑھاپے کی وجہ سے عمر کے گھٹیا مرحلہ اور فساد عقل کی منزل کو پہنچ جاتے ہیں (جس کا اثر یہ ہوتا ہے) کہ ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد بیخبر ہوجاتے ہیں (حضرت) عکرمہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص قرآن خوانی کا شغف رکھتا ہے وہ اس حالت کو نہیں پہنچتا، اور اے مخاطب تو دیکھتا ہے زمین کو کہ خشک ہے اور جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ہلتی ہے یعنی حرکت کرتی ہے اور ابھرتی ہے مرتفع اور زیادہ ہوتی ہے اور ہر قسم کی خوشنما نباتات اگاتی ہے یہ جو مذکور ہوا ابتداء آفرینش انسان سے احیاء ارض تک اس سبب سے ہے کہ اللہ ہی ثابت اور دائم ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور ہر شئ پر قادر ہے اور قیامت یقیناً آنے والی ہے اس میں ذرہ برابر شک نہیں اور اللہ تعالیٰ قبر والوں کو دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ آیت ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کے بارے میں بدون واقفیت اور بدون دلیل کے کہ جو اس کے پاس ہو اور بغیر کسی روشن کتاب کے جو اس کے لئے ہو اور اس کتاب کے ساتھ نور (وحی) ہو پہلو تہی کرتے ہوئے (یہ یجادل کی ضمیر سے) حال ہے، یعنی ایمان سے متکبرانہ طور پر گردن موڑتے ہوئے اور عطف دائیں یا بائیں جانب کو کہتے ہیں، لیضل یا کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ تاکہ اللہ کے راستہ یعنی اس کے دین سے بہکا دے ایسے شخص کے لئے دنیا میں رسوائی عذاب ہے چناچہ یوم بدر میں قتل کیا گیا اور قیامت کے دن بھی ہم اسے جلنے یعنی آگ میں جلانے کا عذاب چکھائیں گے، اور یہ تیرے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کا بدلہ ہے یعنی ان اعمال کا جو تو نے کئے شخص (ذات) کو ید سے تعبیر کیا ہے نہ کہ دیگر اعضاء سے اس لئے کہ اکثر اعمال کا صدور ہاتھوں ہی سے ہوتا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے کہ ان کو بغیر کسی جرم کے سزا دے۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : زلزلۃ الساعۃ قیامت کے دن کا زلزلہ اس میں اضافت الی الظرف کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ یا سارق اللیل میں، اور یہ اتساعاً ہے۔
قولہ : التی یکون بعدھا طلوع الشمس مفسر علام کا مقصد اس عبارت کے اضافہ سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ زلزلہ دنیا ہی میں ہوگا اور مغرب کی جانب سے سورج کا طلوع ہونے سے بعد ہوگا، اور اسی قول کی تائید اللہ تعالیٰ کے قول ” تذھل کل مرضعۃ عما ارضعت “ سے بھی ہوتی ہے۔ قولہ : بالفعل کا مطلب ہے دودھ پلانے کی حالت جب کہ ماں بچہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتی ہے ایسی حالت میں اس شدید زلزلہ کو دیکھ کر اپنے بچہ سے غافل ہوجائے گی، عما ارضعت میں ما مصدریہ بھی ہوسکتا ہے ای عن ارضاعھا اور موصولہ بھی ہوسکتا ہے ای عن الذی ارضعتہ۔
قولہ : یوم ترونھا یوم کے نصب میں چند وجوہ ہیں (1) تذھل کی وجہ سے منصوب ہے (2) اذکر فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے (3) الساعۃ سے بدل ہے (4) عظیم کی وجہ سے منصوب ہے، قولہ : تذھل ترونھا کی ضمیر سے حال ہے اور رویت بصری مراد ہے، قولہ : ولکن عذاب اللہ شدید یہ محذوف سے استدراک ہے فھٰذہٖ الاحوال المذکورہ لیست بشدیدۃ ولکن عذاب اللہ شدید، لکن کا ما بعد ما قبل کے مخالف ہوا کرتا ہے۔ قولہ : وجماعۃ جماعت سے مراد ابوجہل اور ابی بن خلف وغیرہ ہیں۔
قولہ : کمال قدرتنا اس عبارت کو مقدر ماننے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ لنبین لکم کا مفعول محذوف ہے۔
قولہ : طفلاً یہ نکرجکم کی کم ضمیر سے حال ہے اور طفلا چوں کہ مصدر ہے جس کی وجہ سے معنی میں جمع کے ہے جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کردیا ہے۔ قولہ : ارذل العمر گھٹیا اور ناکارہ عمر، خرف دونوں کے فتحہ کے ساتھ، کبر سنی کی وجہ سے فساد عقل، جس کو اردو میں سٹھیانا کہتے ہیں۔ قولہ : لکیلا یعلم اس کا تعلق یرد سے ہے، قولہ : ھامدۃ یہ ھمدت النار سے مشتق ہے، اس کے معنی ہیں بجھ جانا۔
قولہ : ذٰلک بان اللہ اس میں تین وجہ اعراب ہوسکتی ہیں (1) ذٰلک مبتدا اور مابعد اس کی خبر اور مشار الیہ ما قبل میں تخلیق بنی آدم وغیرہ ہے، (2) ذٰلک مبتدا محذوف کی خبر ہے، ای الامر ذٰلک (3) ذٰلک فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے، ای فعلنا ذٰلک بسبب ان اللہ ھو الحق، قولہ : یجادل فی اللہ الخ یعنی یہ شخص اللہ کی ذات وصفات میں مجادلہ کرتا ہے حالانکہ نہ اس کے پاس علم ہے اور نہ دلیل اور نہ اس کے پاس کوئی روشن کتاب ہے، وأن الساعۃ آتیۃ، وأنہ یحییٰ الموتٰی کی تاکید ہے، ونزل فی ابی جھل اس کا ناعم عمر بن ہشام ہے اور ابو جہل کنیت ہے، اس کی ایک کنیت ابو الحکم بھی ہے، ومن یجادل فی اللہ کا عطف پہلے من یجادل فی اللہ بغیر علم پر ہے۔
قولہ : نورٌ معہٗ کا تعلق کتاب سے ہے ای ولا وحی کائن معہ، قولہ : حال ثانی عطفہ یجادل کی ضمیر سے ھال ہے اور لیضل کا تعلق یجادل سے ہے، قولہ : عذاب الحریق یہ اضافت موصوف الی الصفت کے قبیل سے ہے ای العذاب المحرق، قولہ : ای بذی ظلم یہ اشارہ ہے کہ ظلام جو کہ مبالغہ کا صیغہ ہے ذی ظلم (اس فاعل) کے معنی میں ہے۔
تفسیر و تشریح
سابقہ سورة سے ربط : سورة انبیاء کے اختتام پر بعث بعد الموت کا ذکر تھا، اس سورة کو حق سبحانہ تعالیٰ نے قیامت اور اس کی ہولناکی کے بیان سے شروع فرمایا ہے، تاکہ انسان تقویٰ اختیار کرے جو کہ راہئ آخرت کے لئے بہترین زادراہ ہے، فرمایا یا ایھا الناس اتقوا ربکم۔
سورة حج کی خصوصیات : اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، حضرت ابن عباس (رض) سے دونوں قسم کی روایتیں منقول ہیں، جمہور مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ سورة آیات مکیہ اور مدنیہ سے مخلوط ہے، قرطبی نے اسی کو راحج قرار دیا ہے۔
اس سورة کے عجائب میں سے یہ بات ہے کہ اس کی آیات کا نزول بعض کا رات میں بعض کا دن میں، بعض کا سفر میں اور بعض کا حضر میں اور بعض کا مکہ میں اور بعض کا مدینہ میں اور بعض کا حالت جنگ و جہاد میں اور بعض کا صلح و امن کی حالت میں ہوا ہے اور اس میں بعض آیات ناسخ ہیں اور اور بعض منسوخ اور بعض محکم ہیں اور بعض متشابہ۔
زلزلہ قیامت کب ہوگا ؟ قیامت قائم ہونے اور لوگوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد یا اس سے پہلے، بعض نے کہا ہے کہ یہ قیامت سے پہلے اسی دنیا میں ہوگا اور قیامت کی آخری علامت میں شمار ہوگا جس کا ذکر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ زلزلہ حشر و نشر برپا ہونے کے بعد ہوگا، حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، اس زلزلہ قیامت کی جو کیفیت آگے آیت میں ذکر کی گئی ہے کہ تمام حمل والی عورتوں کے حمل ساقط ہوجائیں گے اور دودھ پلاتی عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی، اگر یہ زلزلہ اسی دنیا میں وقوع قیامت سے پہلے ہے تو ایسا واقعہ پیش آنے میں کوئی اشکال نہیں اور حشر و نشر کے بعد ہے تو اس کی توجیہ یہ ہوگی کہ جو عورتیں جس حالت میں مری ہوں گی، ان کا حشر اسی حالت میں ہوگا اور جن کا انتقال دودھ پلانے کی حالت میں ہوا ہوگا، وہ اسی بچہ کے ساتھ اٹھائی جائیں گی، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت میں مجاز مراد ہے حقیقت سے اس کا تعلق نہیں ہے یعنی جس طرح ” یوم یجعل الولدان شیباً “ میں دن کی درازی مراد ہے اسی طرح یہاں روز قیامت کی ہولناکی مراد ہے، اگر حقیقی معنی مراد لئے جائیں تب بھی کوئی استحالہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہر شئ پر قادر ہے۔
ومن الناس من یجادل فی اللہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بڑا جھگڑا لو تھا، فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں اور قرآن کو گزشتہ لوگوں کے افسانے کہا کرتا تھا اور بعث بعد الموت کا منکر تھا۔
انا خلقنکم من تراب ثم من نطفۃ اس آیت میں بطن مادر میں انسان کی تخلیق کے مختلق درجات کا ذکر ہے، اس کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے جو حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کا مادہ رحم مادر میں چالیس روز تک جمع رہتا ہے پھر چالیس روز کے بعد علقہ یعنی منجمد خون بن جاتا ہے پھر چالیس ہی دن میں وہ مضغہ یعنی گوشت بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونک دیتا ہے اور اس کے متعلق چار باتیں اسی وقت فرشتہ کو لکھوا دی جاتی ہیں (1) یہ کہ اس کی عمر کتنی ہے (2) یہ کہ رزق کتنا ہے (3) عمل کیا کرے گا (4) یہ کہ بدبخت ہوگا یا خوش بخت (قرطبی) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب نطفہ مختلف ادوار سے گزرنے کے بعد مضغہ بن جاتا ہے تو جو فرشتہ ہر انسان کی تخلیق پر مامور ہے اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے یا رب مخلقۃ او غیر مخلقۃ یعنی اس نطفہ سے آپ کا انسان کو پیدا کرنا مقدر ہے یا نہیں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب ملتا ہے کہ یہ غیر مخلقہ ہے تو رحم اس کو ساقط کردیتا ہے اور اگر حکم ہوتا ہے کہ یہ مخلقہ ہے تو پھر فرشتہ سوال کرتا ہے لڑکا ہے یا لڑکی ؟ اور شقی یا سعید ؟ اور اس کی عمر کیا ہے ؟ اور اس کا عمل کیسا ہے ؟ اور کہاں مرے گا ؟ یہ سب باتیں اسی وقت فرشتہ کو بتلا دی جاتی ہیں (ابن کثیر)
ومنکم من یرد الی ارذل العمر یعنی وہ عمر کہ جس میں انسان کے عقل و شعور اور حواس میں خلل آنے لگے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی عمر سے پناہ مانگی ہے نسائی شریف میں بروایت سعد (رض) منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسب ذیل الفاظ پر مشتمل یہ دعا بکثرت تھے اور راوی حدیث حضرت سعدیہ دعا اپنی سب اولاد کو یاد کرا دیتے تھے، وہ دعا یہ ہے : اللھم انی اعوذبک من البخل واعوذبک من الجبن واعوذبک من ان ارد الی ارذل العمر واعوذبک من فتنۃ الدنیا و عذاب القبر۔ (قرطبی)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ وہ اپنے رب سے ڈریں جس نے ظاہری اور باطنی نعمتوں کے ذریعے سے ان کی پرورش کی، اس لئے ان کے لائق یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں، شرک، فسق اور نافرمانی کو ترک کردیں اور جہاں تک استطاعت ہو، اس کے احکام پر عمل کریں، پھر ان امور کا ذکر فرمایا جو تقویٰ اختیار کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں اور ان لوگوں کو ڈراتے ہیں جو تقویٰ کو ترک کردیتے ہیں اور وہ ہے قیامت کی ہولناکیوں کی خبر دینا، چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ ﴾ ” بے شک قیامت کا بھونچال، بہت بڑی چیز ہے۔“ کوئی اس کا اندازہ کرسکتا ہے نہ اس کی کنہ کو پہنچ سکتا ہے۔
جب قیامت واقع ہوگی تو زمین کو نہایت شدت سے ہلا دیا جائے گا، زمین میں زلزلہ آجائے گا، پہاڑ پھٹ کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور بھربھری ریت کے ٹیلوں کی شکل اختیار کرلیں گے، پھر غبار بن کر اڑ جائیں گے، پھر لوگ تین اقسام میں منقسم ہوجائیں گے۔ آسمان پھٹ جائے گا، سورج اور چاند بے نور ہوجائیں گے، ستارے بکھر جائیں گے، ایسے خوفناک زلزلے آئیں گے کہ خوف کے مارے دل پھٹ جائیں گے، خوف سے بچے بھی بوڑھے ہوجائیں گے اور بڑی بڑی سخت چٹانیں پگھل جائیں گی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey logo ! apney perwerdigar ( kay ghazab ) say daro . yaqeen jano kay qayamat ka bhonchal bari zabardast cheez hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
دعوت تقویٰ
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تقوے کا حکم فرماتا ہے اور آنے والے دہشت ناک امور سے ڈرا رہا ہے خصوصاً قیامت کے زلزلے سے۔ اس سے مراد یا تو وہ زلزلہ ہے جو قیامت کے قائم ہونے کے درمیان آئے گا۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا ۙ ) 99 ۔ الزلزلة :1) ، زمین خوب اچھی طرح جھنجھوڑ دی جائے گی۔ اور فرمایا آیت ( وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً 14 ۙ ) 69 ۔ الحاقة :14) یعنی زمین اور پہاڑ اٹھا کر باہم ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے کردئے جائیں گے۔ اور فرمان ہے آیت ( اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا ۙ ) 56 ۔ الواقعة :4) یعنی جب کہ زمین بڑے زور سے ہلنے لگے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ صور کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب آسمان و زمین کو پیدا کرچکا تو صور کو پیدا کیا اسے حضرت اسرافیل کو دیا وہ اسے منہ میں لئے ہوئے آنکھیں اوپر کو اٹھائے ہوئے عرش کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ کب حکم الٰہی ہو اور وہ صور پھونک دیں۔ ابوہریرہ (رض) نے پوچھا یارسول اللہ صور کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک پھونکنے کی چیز ہے بہت بری جس میں تین مرتبہ پھونکا جائے گا پہلا نفخہ گھبراہٹ کا ہوگا دوسرا بیہوشی کا تیسرا اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا۔ حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کو حکم ہوگا وہ پھونکیں گے جس سے کل زمین و آسمان والے گھبرا اٹھیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے۔ بغیر رکے، بغیر سانس لئے بہت دیرتک برابر اسے پھونکتے رہیں گے۔
اسی پہلے صور کا ذکر آیت (وما ینظر ہولاء الا صیحتہ واحدۃ مالہا من فواق) میں ہے اس سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے زمین کپکپانے لگے گی۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ ۙ ) 79 ۔ النازعات :6) ، جب کہ زمین لرزنے لگے گی اور یکے بعد دیگرے زبردست جھٹکے لگیں گے دل دھڑکنے لگیں گے زمین کی وہ حالت ہوجائے گی جو کشتی کی طوفان میں اور گرداب میں ہوتی ہے یا جیسے کوئی قندیل عرش میں لٹک رہی ہو جسے ہوائیں چاروں طرف جھلارہی ہوں۔ آہ ! یہی وقت ہوگا کہ دودھ پلانے والیاں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی اور حاملہ عورتوں کے حمل گرجائیں گے اور بچے بوڑھے ہوجائیں گے شیاطین بھاگنے لگیں گے زمین کے کناروں تک پہنچ جائیں گے لیکن وہاں سے فرشتوں کی مار کھا کر لوٹ آئیں گے لوگ ادھر ادھر حیران پریشان زمین ایک طرف سے دوسرے کو آوازیں دینے لگیں گے اسی لئے اس دن کا نام قرآن نے یوم التناد رکھا۔ اسی وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت کی گھبراہٹ کا انداز نہیں ہوسکتا اب آسمان میں انقلابات ظاہر ہوں گے سورج چاند بےنور ہوجائیں گے، ستارے جھڑنے لگیں گے اور کھال ادھڑنے لگے گی۔ زندہ لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے ہاں مردہ لوگ اس سے بیخبر ہونگے آیت قرآن ( وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ 68) 39 ۔ الزمر :68) میں جن لوگوں کا استثنا کیا گیا ہے کہ وہ بیہوش نہ ہوں گے اس سے مراد شہید لوگ ہیں۔ یہ گھبراہٹ زندوں پر ہوگی شہید اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے نجات دے گا اور انہیں پر امن رکھے گا۔ یہ عذاب الٰہی صرف بدترین مخلوق کو ہوگا۔ اسی کو اللہ تعالیٰ اس سورت کی شروع کی آیتوں میں بیان فرماتا ہے۔ یہ حدیث طبرانی جریر ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے اور بہت مطول ہے اس حصے کو نقل کرنے سے یہاں مقصود یہ ہے کہ اس آیت میں جس زلزلے کا ذکر ہے یہ قیامت سے پہلے ہوگا۔ اور قیامت کی طرف اس کی اضافت بوجہ قرب اور نزدیکی کے ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے اشراط الساعۃ وغیرہ واللہ اعلم۔ یا اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جو قیام قیامت کے بعد میدان محشر میں ہوگا جب کہ لوگ قبروں سے نکل کر میدان میں جمع ہوں گے۔ امام ابن جریر اسے پسند فرماتے ہیں اس کی دلیل میں بھی بہت سی حدیثیں ہیں \0\01 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر میں تھے آپ کے اصحاب تیز تیز چل رہے تھے کہ آپ نے باآواز بلند ان دونوں آیتوں کی تلاوت کی۔ صحابہ (رض) کے کان میں آواز پڑتے ہی وہ سب اپنی سواریاں لے کر آپ کے اردگرد جمع ہوگے کہ شاید آپ کچھ اور فرمائیں گے۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کونسا دن ہوگا ؟ یہ وہ دن ہوگا جس دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو فرمائے گا کہ اے آدم جہنم کا حصہ نکال۔ وہ کہیں گے اے اللہ کتنوں میں سے کتنے ؟ فرمائے گا ہر ہزار میں سے نو سو نناوے جہنم کے لئے اور ایک جنت کے لئے۔ یہ سنتے ہی صحابہ کے دل دہل گئے، چپ لگ گئی آپ نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ غم نہ کرو، خوش ہوجاؤ، عمل کرتے رہو۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے تمہارے ساتھ مخلوق کی وہ تعداد ہے کہ جس کے ساتھ ہو اسے بڑھا دے یعنی یاجوج ماجوج اور نبی آدم میں سے جو ہلاک ہوگئے اور ابلیس کی اولاد۔ اب صحابہ کی گھبراہٹ کم ہوئی تو آپ نے فرمایا عمل کرتے رہو اور خوشخبری سنو اس کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے تم تو اور لوگوں کے مقابلے پر ایسے ہی ہو جیسے اونٹ کے پہلوکا یا جانور کے ہاتھ کا داغ۔ اسی روایت کی اور سند میں ہے کہ یہ آیت حالت سفر میں اتری۔ اس میں ہے کہ صحابہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ فرمان سن کر رونے لگے آپ نے فرمایا قریب قریب رہو اور ٹھیک ٹھاک رہو ہر نبوت کے پہلے جاہلیت کا زمانہ رہا ہے وہی اس گنتی کو پوری کردے گا ورنہ منافقوں سے وہ گنتی پوری ہوگی۔ اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے تو امید ہے کہ اہل جنت کی چوتھائی صرف تم ہی ہوگے یہ سن کر صحابہ (رض) نے اللہ اکبر کہا ارشاد ہوا کہ عجب نہیں کہ تم تہائی ہو اس پر انہوں نے پھر تکبیر کہی آپ نے فرمایا مجھے امید ہے کہ تم ہی نصفا نصف ہوگے انہوں نے پھر تکبیر کہی۔ راوی کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ پھر آپ نے دوتہائیاں بھی فرمائیں یا نہیں ؟ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں مدینے کے قریب پہنچ کر آپ نے تلاوت آیت شروع کی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جنوں اور انسانوں سے جو ہلاک ہوئے اور روایت میں ہے کہ تم تو ایک ہزار اجزا میں سے ایک جز ہی ہو۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کو پکارے گا وہ جواب دیں گے لبیک ربنا وسعدیک پھر آواز آئے گی کہ اللہ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں جہنم کا حصہ نکال پوچھیں گے اللہ کتنا ؟ حکم ہوگا ہر ہزار میں سے نو سو نناوے اس وقت حاملہ کے حمل گرجائیں گے، بچے بوڑھے ہوجائیں گے، اور لوگ حواس باختہ ہوجائیں گے کسی نشے سے نہیں بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی کی وجہ سے۔ یہ سن کر صحابہ کے چہرے متغیر ہوگئے تو آپ نے فرمایا یاجوج ماجوج میں سے نو سو ننانوے اور تم میں سے ایک۔ تم تو ایسے ہو جیسے سفید رنگ بیل کے چند سیاہ بال جو اس کے پہلو میں ہوں۔ یا مثل چند سفید بالوں کے جو سیاہ رنگ بیل کے پہلو میں ہوں۔ پھر فرمایا مجھے امید ہے کہ تمام اہل جنت کی گنتی میں تمہاری گنتی چوتھے حصے کی ہوگی ہم نے اس پر تکبیر کہی پھر فرمایا آدھی تعداد میں باقی سب اور آدھی تعداد صرف تمہاری۔ اور روایت میں ہے کہ تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدن بےختنہ حاضر کئے جاؤ گے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرد عورتیں ایک ساتھ ؟ ایک دوسرے پر نظریں پڑیں گی ؟ آپ نے فرمایا عائشہ وہ وقت نہایت سخت اور خطرناک ہوگا ( بخاری ومسلم) مسند احمد میں ہے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا دوست اپنے دوست کو قیامت کے دن یاد کرے گا ؟ آپ نے فرمایا عائشہ تین موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا۔ اعمال کے تول کے وقت جب تک کمی زیادتی نہ معلوم ہوجائے۔ اعمال ناموں کے اڑائے جانے کے وقت جب تک دائیں بائیں ہاتھ میں نہ آجائیں۔ اس وقت جب کہ جہنم میں سے ایک گردن نکلے گی جو گھیرلے گی اور سخت غیظ وغضب میں ہوگی اور کہے گی میں تین قسم کے لوگوں پر مسلط کی گئی ہوں ایک تو وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے رہتے ہیں دوسرے وہ جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور تیسرے ہر سرکش ضدی متکبر پر پھر تو وہ انہیں سمیٹ لے گی اور چن چن کر اپنے پیٹ میں پہنچا دے گی جہنم پر پل صراط ہوگی جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہوگی اس پر آنکس اور کانٹے ہوں گے جسے اللہ چاہے پکڑ لے گی اس پر سے گزرنے والے مثل بجلی کے ہوں گے مثل آنکھ جھپکنے کے مثل ہوا کے مثل تیزرفتار گھوڑوں اور اونٹوں کے فرشتے ہر طرف کھڑے دعائیں کرتے ہوں گے کہ اللہ سلامتی دے اللہ بچا دے پس بعض تو بالکل صحیح سالم گزر جائیں گے بعض کچھ چوٹ کھا کر بچ جائیں گے بعض اوندھے منہ جہنم میں گریں گے۔ قیامت کے آثار میں اور اس کی ہولناکیوں میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ جن کی جگہ اور ہے۔ یہاں فرمایا قیامت کا زلزلہ نہایت خطرناک ہے بہت سخت ہے نہایت مہلک ہے دل دہلانے والا اور کلیجہ اڑانے والا ہے زلزلہ رعب و گھبراہٹ کے وقت دل کے ہلنے کو کہتے ہیں جیسے آیت میں ہے کہ اس میدان جنگ میں مومنوں کو مبتلا کیا گیا اور سخت جھنجھوڑ دئے گئے۔ جب تم اسے دیکھوگے یہ ضمیرشان کی قسم سے ہے اسی لئے اس کے بعد اس کی تفسیر ہے کہ اس سختی کی وجہ سے دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور حاملہ کے حمل ساقط ہوجائیں گے۔ لوگ بدحواس ہوجائیں گے ایسے معلوم ہوں گے جیسے کوئی نشے میں بدمست ہو رہا ہو۔ دراصل وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی نے انہیں بیہوش کر رکھا ہوگا۔