الحج آية ۳۹
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۗ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصْرِهِمْ لَـقَدِيْرُ ۙ
طاہر القادری:
ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے،
English Sahih:
Permission [to fight] has been given to those who are being fought, because they were wronged. And indeed, Allah is competent to give them victory.
1 Abul A'ala Maududi
اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے
2 Ahmed Raza Khan
پروانگی (اجازت) عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بناء پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے،
3 Ahmed Ali
جن سے کافر لڑتے ہیں انہیں بھی لڑنے کی اجازت دی گئی ہے اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور بیشک الله ان کی مدد کرنے پر قادر ہے
4 Ahsanul Bayan
جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں (١) بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے۔
٣٩۔١ اکثر سلف کا قول ہے کہ اس آیت میں سب سے پہلے جہاد کا حکم دیا گیا، جس کے دو مقصد یہاں بیان کئے گئے ہیں۔ مظلومیت کا خاتمہ اور اعلائے کلمۃ اللہ۔ اس لئے کہ مظلومین کی مدد اور ان کی داد رسی نہ کی جائے تو پھر دنیا میں زور آور کمزوروں کو اور بےوسیلہ لوگوں کو جینے ہی نہ دیں جس سے زمین فساد سے بھر جائے۔ اور اگر باطل تو باطل کے غلبے سے دنیا کا امن و سکون اور اللہ کا نام لینے والوں کے لئے کوئی عبادت خانہ باقی نہ رہے (مذید تشریح کے لئے دیکھئے سورہ بقرہ، آیت ٢٥١ کا حاشیہ)۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ اور خدا (ان کی مدد کرے گا وہ) یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے
6 Muhammad Junagarhi
جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وه مظلوم ہیں۔ بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ان مظلوموں کو (دفاعی جہاد کی) اجازت دی جاتی ہے جن سے جنگ کی جا رہی ہے اس بناء پر کہ ان پر ظلم کیا گیا ہے۔ اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارہی ہے انہیں ان کی مظلومیت کی بنائ پر جہاد کی اجازت دے دی گئی ہے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور خدا (انکی مدد کرے گا وہ) یقینا انکی مدد پر قادر ہے
آیت نمبر 39 تا 48
ترجمہ : اجازت دیدی گئی ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جاتی ہے یعنی مومنین کو، یہ کہ وہ قتال کریں اور یہ پہلی آیت ہے جو (اجازت قتال) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس سبب سے کہ وہ مظلوم ہوئے کافروں کے ان پر ظلم کرنے کی وجہ سے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں جو اپنے گھروں سے بلاوجہ نکالے گئے یعنی ان کے اخراج کی کوئی وجہ نہیں تھی محض اتنی بات پر نکالے گئے کہ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا رب اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اور یہ قول حق ہے اور اس کی وجہ سے نکالنا ناحق نکالنا ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ دفع نہ کرتا رہتا، بعضھم الناس سے بدل البعض ہے تو راہبوں کے خلوت خانے لھدمت تشدید کے ساتھ ہے کثرت کو بیان کرنے کے لئے اور تخفیف کے ساتھ بھی ہے اور نصاریٰ کے عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے عبرانی میں صلوٰۃ عبادت خانہ کو کہتے ہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں مسمار کردی جائیں جن میں یعنی مذکورہ مواضع میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے اور ان مقامات کے ویران ہوجانے کی وجہ سے عبادات منقطع ہوجاتیں، اور بیشک اللہ اس کی مدد کرے گا جو اس کی یعنی اس کے دین کی مدد کرے گا بلاشہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر قوی ہے اپنی سلطنت اور قدرت میں غالب ہے یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں حکومت دیدیں ان کے دشمن پر ان کو غلبہ دے کر تو یہ لوگ خود بھی نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم کریں اور برائی سے منع کریں، اور اقاموا الصلوٰۃ سے آخر تک جواب شرط ہے اور شرط اور جواب شرط مل کرموصول ہے الذین کا، اور الذین موصول اپنے صلہ سے مل کر، ھم مبتدا محذوف کی خبر ہے اور تمام کاموں کا انجام تو اللہ ہی ہے ہاتھ میں ہے یعنی آخرت میں وہ تمام امور کا مرجع ہے اور اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے تو ان لوگوں سے پہلے قوم نوح قوم معنی کے اعتبار سے مؤنث تھی (اپنے اپنے نبیوں کی) تکذیب کرچکی ہیں، اور موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی کاذب قرار دیا گیا موسیٰ کی تکذیب قبطیوں نے کی نہ کہ ان کی قوم بنی اسرائیل نے، یعنی ان لوگوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی، لہٰذا آپن کے لئے ان انبیاء کے طریقہ میں نمونہ ہے تو میں نے ان کافروں کو مہلت دی یعنی ان کے عذاب کو مؤخر کرکے ان کو مہلت دی پھر میں نے ان کو عذاب میں پکڑ لیا تو میرا عذاب ان پر کیسا ہوا ان کی تکذیب کی وجہ سے ان کو ہلاک کرکے اور استفہام تقریر کے لئے ہے یعنی میرا عذاب برمحل و برموقعہ واقعہ ہوا، غرضیکہ کتنی ہی بستیاں ہیں کہ جن کو میں نے ہلاک کردیا اور ایک قرأت میں ہم نے ان کو ہلاک کردیا (یعنی ایک قرأۃ میں اھلک تھا ہے اور ایک قرأۃ میں اھلکناھا ہے، اور حال یہ ہے کہ وہ بستیاں ظالم تھیں یعنی ان بستیوں کے باشندے اپنے کفر کی وجہ سے ظالم تھے، اور اب وہ بستیاں اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں اور کتنے ہی بےکار کنویں یعنی بستی والوں کی ہلاکت کی وجہ سے متروک پڑے ہوئے ہیں اور کتنے ہی عالی شان محل خالی پڑے ہیں بستی والوں کے ہلاک ہوجانے کی وجہ سے، کیا یہ لوگ یعنی مکہ کے کافر ملک میں چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ ان کے قلوب ایسے ہوجائیں کہ انکے ذریعہ ان کی ہلاکت اور ان کے گھروں کی بربادی کی خبروں کو سنیں بعد ازاں عبرت حاصل کریں بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ وہ قلوب اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں فی الصدور قلوب کی تاکید ہے، یہ لوگ آپ سے عذاب کے بارے میں جلدی کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ عذاب نازل کرنے کے اپنے وعدہ کا خلاف نہ کرے گا، چناچہ یوم بدر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پورا فرما دیا اور آپ کے رب کے پاس کا ایک دن آخرت کے دونوں میں سے عذاب کی وجہ سے ہزار سال کے برابر ہے تمہارے شمار کے اعتبار سے دنیا میں یعدون یاء اور تاء کے ساتھ ہے اور بہت سی بستیاں ہیں کہ جن کو میں نے مہلت دی تھی حال یہ ہے کہ وہ ظالم تھیں پھر میں نے ان بستیوں کو پکڑ لیا، اور مراد بستی سے بستی والے ہیں اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
اذن للذین یقاتلون اذن کا ماذون فیہ محذوف تھا مفسر علام نے أن یقاتلوا کہہ کر اس کو ظاہر کردیا اور حذف پر یقاتلون دلالت کر رہا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ستر سے کچھ زیادہ آیات میں جہاد سے منع کرنے کے بعد ہجرت کے بعد یہ پہلی آیت ہے جس میں جہاد کی اجازت دی گئی ہے، یہ دن صحابہ کے لئے گویا کہ عید کا دین تھا، ایک قرأۃ میں یقاتلون مبنی بھی ہے مومنین کو قبل القتال مقاتل یا تو مایؤل کے اعتبار سے کہا گیا ہے یا اس لئے کہ مومنین کا قتال کا ارادہ تھا، قولہ : بأنھم ظلموا میں با سببیہ ہے گویا کہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مومنین کو قتال کی اجازت کی وجہ، ان پر ظلم کا کیا جانا ہے، امام رازی (رح) نے فرمایا ہے ان یقاتلوا کا مطلب ان یقاتلوا فی المستقبل ہے اس صورت میں یہ اعتراض ختم ہوجائے گا کہ یہ صورت مکی ہے اور جہاد کی اجازت مدینہ میں نازل ہوئی ہے، وان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر یہ جملہ مستانفہ ہے اور اس آیت میں اشارہ کے طور پر نصرت کا وعدہ ہے
قولہ : ھم الذین اخرجوا مفسر علام نے ھم مقدر مان کر اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ اسم موصول مبتداء محذوف کی صفت ہے، اس کے علاوہ بھی چند اور وجوہ اعراب ہوسکتے ہیں (1) موصول اول کی صفت یا بیان یا بدل ہونے کہ وجہ سے محلا مجر ہوسکتا ہے (2) اعنی یا امدح وغیرہ محذوف کی وجہ سے جملہ ہو کر منصوب بھی ہوسکتا ہے، قولہ : الا أن یقولوا الآیہ مفسر علام نے ما اخرجوا محذوف مان کر اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ متصل ہے، ای ما اخرجوا بشئ من الاشیاء الا بقولھم ربنا اللہ یعنی مکہ سے مومنین کے نکالے جانے کا کوئی سبب نہیں تھا جو ان کو نکالنے کا موجب ہو سوائے اس کے کہ انہوں نے ربنا اللہ کہا، اور یہ سبب موجب اخراج نہیں بلکہ یہ تو سبب استقرار و تمکین ہے یہ دراصل مدح بما یشبہ الذم کے قبیل سے ہے یعنی جو شئی سبب مدح ہے وہ ان کے نزدیک سبب ذم ہے، جیسا کہ نابغہ کے قول میں ہے : ؎
لا عیب فیھم غیر ان سیوفھم بھن فلول من قراع الکتائب
مجھ میں ایک عیب ہے بڑا کہ وفا دار ہوں ہیں
الا ان یقولوا یہ مستثنیٰ منقطع بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ مستثنیٰ جو الا ان یقولوا ہے مستثنیٰ منہ جو کہ بغیر حق ہے کی جنس سے نہیں ہے، مگر مستثنیٰ منقطع ماننا درست نہیں ہے اس لئے کہ اگر یوں کہیں الذین اخرجوا من دیارھم الا ان یقولوا ربنا اللہ تو یہ درست نہیں ہے اسی وجہ سے مفسر علام نے عامل محذوف مان کر مستثنیٰ متصل بنادیا ہے ای ما اخرجوا بشئ من الاشیاء الا بقولھم ربنا اللہ اور مضارع بمعنی ماضی ہے مفسر علام نے ان یقولوا کی تفسیر بقولھم سے کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ان مصدریہ ہے اور ان یقولوا، قول کے معنی میں ہے اور بقولھم میں با سببیہ ہے۔
قولہ : ولا لا دفع اللہ الناس الآیۃ لو لا امتناعیہ ہے اور لھدمت جواب لولا ہے، دفع اللہ الناس بعضھم لبعضٍ مبتداء ہے موجود محذوف اس کی خبر ہے اور دفع اللہ میں اضافت مصدر الی الفاعل ہے تقدیر عبارت یہ ہے لولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض موجود لھدمت صوامع (الآیۃ) صوامع صومعۃ کی جمع ہے، خلوتخانہ جس میں راہب تنہائی میں ریاضت و عبادت کرتا ہے وبیع جمع بیعۃٍ نصاریٰ کے جماعت خانے جس میں اجتماعی طور پر عبادت کرتے ہیں، صلواٹ جمع صلوٰۃ، عبرانی زبان میں یہود کے عبادت خانوں کو صلوتا کہتے ہیں۔ قولہ : وتنقطع العبادات اس کا عطف لھدمت پر ہے۔ قولہ : الذین ان مکناھم فی الارض اس میں بھی وہ تمام صورتیں ممکن ہیں جو سابق موصول میں بیان ہوچکی ہیں مذکور صورتوں کے علاوہ اس میں یہ صورت بھی درست ہے کہ من ینصرہ سے بدل ہو ان مکناھم فی الارض شرط ہے اور اقاموا الصلوٰۃ مع اپنے معطوفات جزاء ہے، شرط اپنی جزاء سے مل کر الذین کا صلہ ہے، موصول اپنے صلہ سے مل کر ھم مبتداء محذوف کی خبر ہے اور ھم سے مراد ماذون لھم فی القتال ہیں اور وہ مہاجرین ہیں اور یہ آیت اخبار بالغیب کے قبیل سے ہے، اس لئے کہ اس آیت میں مہاجرین کے ان اوصاف کی خبر دی گئی ہے کہ جب پر وہ زمین پر قدرت اور حکومت دینے کے بعد ہوں گے، وکذب موسیٰ یہاں ما سبق کے برخلاف طرز بیان کو بدل دیا بایں طور کہ معروف کے صیغہ کے بجائے مجہول کا صیغہ اختیار فرمایا اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب ان کی قوم نے نہیں کی تھی بلکہ فرعون کی قوم قبط نے کی تھی بخلاف دیگر انبیاء مذکوریں کی تکذیب کے کہ خود ان کی قوم نے کی تھی۔
قولہ : فاملیت للکافرین اس میں ضمیر کہ جگہ اسم ظاہر اختیار فرمایا ہے تاکہ ان کی صفت کفر پر صراحت ہوجائے ورنہ تو فاملیتھم بھی کہا جاسکتا تھا، نکیر بمعنی عذاب مصدر بمعنی انکار ہے جیسے نذیر بمعنی انذار ہوتا ہے۔ قولہ : بتکذیبھم یہ انکاری کا مفعول ہے اور باھلاکھم انکاری سے متعلق ہے، اور استفہام تقریری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مخاطبوں کو میرے عذاب کے برمحل ہونے کا اقرار کرنا چاہیے۔ قولہ : فکاین این بمعنی کم خبر یہ مبتدا ہے اور من قریۃٍ تمیز ہے اور اھلک تھا اس کی خبر ہے، کاین دراصل کای تھا قرآنی رسم الخط میں تنوین کو بصورت نون لکھا گیا، کاین ہمیشہ خبری صورت میں استعمال ہوتا ہے یہ لفظ مبہم طور پر کثرت پر دلالت کرنے کے لئے آتا ہے ابہام کو دور کرنے کے لئے، اس کے بعد بطور تمیز کوئی لفظ ضرور مذکور ہوتا ہے عموماً اس کی تمیز من کے ساتھ آتی ہے، جیسے کاین من قریۃٍ کائن ہمیشہ آغاز کلام میں آتا ہے اس کی خبر ہمیشہ مرکب ہوتی ہے، بعض اوقات کائن استفہام کے لئے بھی آتا ہے، اور ایک قرأت میں اھلکنا ہے اور کائن محل نصب میں بھی ہوسکتا ہے اھلکنا کی دلالت کی وجہ سے، اور وھی ظالمۃ جملہ حالیہ ہے ای اھلھا محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ مضاف محذوف ہے۔
قولہ : وکم من بئرٍ معطۃٍ مفسر علام نے کم محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ بئر کا عطف قریۃ پر ہے أفلم یسیروا ہمزہ، محذوف پر داخل ہے اور فاعاطفہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے أغفلوا فلم یسیروا و کأین یہاں واؤ کے ساتھ لائے ہیں اور ماقبل میں فکاین فا کے ساتھ لائے ہیں اس لئے کہ ماقبل میں فالانا مناسب ہے، اس لئے کہ اس کے ماقبل فکیف کان میں فا ہے اور یہاں واؤ مناسب ہے اس لئے کہ ما قبل میں واؤ ہے ولن یخلف اللہ وعدہ۔
تفسیر و تشریح
کفار کے ساتھ جہاد کا پہلا حکم : مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر کفار کے مظالم کا یہ حال تھا کہ کوئی دن کالی نہ جاتا تھا کہ کوئی مسلان دست ستم سے رخمی اور چوٹ کھایا ہوا نہ آتا ہو، قیام مکہ کے دور میں مسلمانوں کی تعداد بھی خاصی ہوچکی تھی وہ کفار کے ظلم و جور کی آپ سے شکایت کرتے اور ان سے قتال کی اجازت مانگتے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب میں فرماتے صبر کرو مجھے ابھی قتال کی اجازت نہیں دی گئی، یہ سلسلہ دس سال تک اسی طرح جاری رہا۔ (قرطبی بحوالہ معارف)
جہاد کی اجازت کے اس آیت میں دو مقصد بیان کئے گئے ہیں مظلومیت کا خاتمہ اور اعلاء کلمۃ اللہ، اس لئے کہ اگر مظلومین کی مدد اور دادرسی نہ کی جائے تو پھر دنیا میں زور آور کمزوروں کو اور با وسائل بےوسیلوں کو جینے ہی نہ دیں، جس کی وجہ سے زمین میں فساد برپا ہوجائے، اسی طرح اعلاء کلمۃ اللہ کی کوشش کرکے باطل کی سرکوبی نہ کی جائے تو باطل کے غلبہ سے دنیا کا امن و سکون غارت ہوجائے اور اللہ کی عبادت کرنے والوں کے لئے عبادت خانہ باقی نہ رہے۔ صوامع صومعۃ کی جمع ہے نصاریٰ کے تارک الدنیا راہبوں کی مخوص عبادت گاہ کو کہا جاتا ہے جس کو خلوت خانہ بھی کہہ سکتے ہیں اور بیع بیعۃ کی جمع ہے، بڑے کنیسہ کو کہتے ہیں جہاں نصاریٰ جمع ہوتے ہیں، اور صلوات صلوتٌ کی جمع ہے، یہودیوں کے عبادت خانہ کو کہتے ہیں، مساجد مسجد کی جمع ہے مسلمانوں کے عبادتخانہ کو کہتے ہیں۔
خلفاء راشدین کے حق میں قرآن کی پیشین گوئی اور اس کا ظہور : الذین ان مکنھم فی الارض اس آیت میں الذین ان لوگوں کی صفت ہے جن کا ذکر اس سے پہلی آیت میں الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق کے عنوان سے آیا ہے، یعنی وہ لوگ کہ جن کو ان کے گھروں سے بلاوجہ نکالا گیا، ان لوگوں کے بارے میں آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان کو زمین میں اقتدار دیدیا جائے تو یہ لوگ اپنے اقتدار کو ان کاموں میں صرف کریں گے، کہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور نیک کاموں کی طرف لوگوں کو دعوت دیں اور برے کاموں سے روکیں۔
یہ آیت ہجرت مدینہ کے فوراً بعد اس وقت نازل ہوئی کہ جب مسلمانوں کو کسی بھی زمین میں حکومت اور اقتدار حاصل نہیں تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں پہلی ہی یہ خبر دیدی کہ جب ان کو کسی زمین میں حکومت و اقتدار حاصل ہوگا تو یہ لوگ دین کی مذکورہ اہم خدمات انجام دیں گے، اسی لئے حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا ثناءً قبل البلاء یعنی عمل کے وجود میں آنے سے قبل ہی تعریف فرمائی ہے۔
قرآن کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف صادق آئی، اور اس کا دنیا میں وقوع اس طرح ہوا کہ چاروں خلفاء راشدین جو الذین اکرجوا من دیارھم کے مصداق صحیح تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو سب سے پہلے زمین کی مکنت اور قدرت یعنی حکومت اور سلطنت عطا فرمائی، اور قرآن کی پیشین گوئی کے مطابق ان کے اعمال و کردار اور کارناموں نے دنیا کو دکھلا دیا کہ انہوں نے اپنے اقتدار کو انہی کاموں میں استعمال کیا جن کی ان سے توقع تھی چناچہ نمازیں قائم کیں، زکوٰۃ کا نظام مضبوط کیا اچھے کاموں کو رواج دیا، برے کاموں کا راستہ بند کیا، اسی لئے علماء نے فرمایا کہ یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ خلفاء راشدین سب کے سب اسی بشارت کے مصداق ہیں اور جو نطام خلافت ان کے زمانہ میں قائم ہو اور حق اور صحیح اور عین اللہ تعالیٰ کے ارادے اور رضا اور پیشگی خبر کے مطابق ہے۔ (روح المعانی بحوالہ معارف)
یہ تو اس آیت کے شان نزول کا واقعاتی پہلو ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ الفاظ قرآن جب عام ہوں تو وہ کسی خاص واقعہ میں منحصر نہیں ہوتے ان کا حکم عام ہوتا ہے اسی لئے ائمہ تفسیر میں سے ضحاک نے فرمایا کہ اس آیت میں ان لوگوں کے لئے ہدایت بھی ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ حکومت و اقتدار عطا فرما دیں کہ وہ اپنے دور اقتدار میں یہ کام انجام دیں جو خلفاء راشدین نے اپنے وقت میں انجام دئے تھے۔ (قرطبی)
10 Tafsir as-Saadi
اسلام کی ابتداء میں مسلمانوں کو کفار کے خلاف جنگ کرنے کی ممانعت تھی اور ان کو صبر کرنے کا حکم تھا، اس میں حکمت الٰہیہ پوشیدہ تھی۔ جب انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ستایا گیا اور مدینہ منورہ پہنچ کر انہیں طاقت اور قوت حاصل ہوگئی تو انہیں کفار کے خلاف جہاد کی اجازت دیدی گئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ ﴾ ” ان لوگوں کو اجازت دی جاتی ہے جن سے کافر لڑائی کرتے ہیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ اس سے قبل مسلمانوں کو جہاد کی اجازت نہ تھی پس اللہ نے انہیں ان لوگوں کے خلاف جہاد اور جنگ کی اجازت مرحمت فرما دی جو ان کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور انہیں کفار کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت صرف اس لئے ملی کیونکہ ان پر ظلم ڈھائے گئے، انہیں ان کے دین سے روکا گیا، دین کی وجہ سے ان کو اذیتیں دی گئیں اور ان کو ان کے گھروں اور وطن سے نکال دیا گیا۔ ﴿ وَإِنَّ اللّٰـهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ﴾ ” اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناً قادر ہے۔“ اس لئے اہل ایمان اسی سے نصرت طلب کریں اور اسی سے مدد مانگیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon say jang ki jarahi hai , unhen ijazat di jati hai ( kay woh apney difaa mein larren ) kiyonkay unn per zulm kiya gaya hai , aur yaqeen rakho kay Allah unn ko fatah dilaney per poori tarah qadir hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
حکم جہاد صادرہوا
ابن عباس (رض) کہتے ہیں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب مدینے سے بھی نکالے جانے لگے اور کفار مکہ سے چڑھ دوڑے تب جہاد کی اجازت کی یہ آیت اتری۔ بہت سے سلف سے منقول ہے کہ جہاد کی یہ پہلی آیت ہے جو قرآن میں اتری۔ اسی سے بعض بزرگوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ شریف سے ہجرت کی ابوبکر (رض) کی زبان سے نکلا کہ افسوس ان کفار نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وطن سے نکالا یقینا یہ تباہ ہوں گے۔ پھر یہ آیت اتری تو صدیق (رض) نے جان لیا کہ جنگ ہو کر رہے گی۔ اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد پر قادر ہے۔ اگر چاہے تو بےلڑے بھڑے انہیں غالب کردے لیکن وہ آزمانا چاہتا ہے اسی لئے حکم دیا کہ ان کفار کی گردنیں مارو۔ الخ، اور آیت میں ہے فرمایا آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14 ۙ ) 9 ۔ التوبہ :14) ان سے لڑو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور رسوا کرے اور ان پر تمہیں غالب کرے گا اور مومنوں کے حوصلے نکالنے کا موقع دے گا کہ ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوجائیں ساتھ ہی جسے چاہے گا توفیق توبہ دے گا اللہ علم وحکمت والا ہے۔ اور آیت میں ہے ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ 16ۧ) 9 ۔ التوبہ :16) یعنی کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ اب تک تو وہ کھل کر سامنے نہیں آئے جو مجاہد ہیں، اللہ، رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی سے دوستی اور یگانگت نہیں کرتے۔ سمجھ لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ اور آیت میں ہے کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ تم جنت میں چلے جاؤگے حالانکہ اب تک مجاہدین اور صابرین دوسروں سے ممتاز نہیں ہوئے۔ اور آیت میں فرمایا ہے آیت ( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ 31) 47 ۔ محمد :31) ہم تمہیں یقینا آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے غازی اور صبر کرنے والے ہمارے سامنے نمایاں ہوجائیں۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ پھر فرمایا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔ اور یہی ہوا بھی کہ اللہ نے اپنے لشکر کو دنیا پر غالب کردیا۔ جہاد کو شریعت نے جس وقت مشروع فرمایا وہ وقت بھی اس کے لئے بالکل مناسب اور نہایت ٹھیک تھا جب تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں رہے مسلمان بہت ہی کمزور تھے تعداد میں بھی دس کے مقالبے میں ایک بمشکل بیٹھتا۔ چناچہ جب لیلتہ العقبہ میں انصاریوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی تو انہوں نے کہا کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حکم دیں تو اس وقت منیٰ میں جتنے مشرکین جمع ہیں ان پر شبخون ماریں۔ لیکن آپ نے فرمایا مجھے ابھی اس کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ یاد رہے کہ یہ بزرگ صرف اسی \08\00 سے کچھ اوپر تھے۔ جب مشرکوں کی بغاوت بڑھ گئی، جب وہ سرکشی میں حد سے گزر گئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت ایذائیں دیتے دیتے اب آپ کے قتل کرنے کے درپے ہوگئے آپ کو جلاوطن کرنے کے منصوبے گانٹھنے لگے۔ اسی طرح صحابہ کرام پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیئے۔ بیک بینی و دوگوش وطن مال اسباب، اپنوں غیروں کو چھوڑ کر جہاں جس کا موقعہ بنا گھبرا کر چل دیا کچھ تو حبشہ پہنچے کچھ مدینے گئے۔ یہاں تک کہ خود آفتاب رسالت کا طلوع بھی مدینے شریف میں ہوا۔ اہل مدینہ محمدی جھنڈے تلے جوش خروش سے جمع لشکری صورت مرتب ہوگئی۔ کچھ مسلمان ایک جھنڈے تلے دکھائی دینے لگے، قدم ٹکانے کی جگہ مل گئی۔ اب دشمنان دین سے جہاد کے احکام نازل ہوئے تو پس سب سے پہلے یہی آیت اتری۔ اس میں بیان فرمایا گیا کہ یہ مسلمان مظلوم ہیں، ان کے گھربار ان سے چھین لئے گئے ہیں، بےوجہ گھر سے بےگھر کردئیے گئے ہیں، مکہ سے نکال دئیے گئے، مدینے میں بےسرو سامانی میں پہنچے۔ ان کا جرم بجز اس کے سوا نہ تھا کہ صرف اللہ کے پرستار تھے رب کو ایک مانتے تھے اپنے پروردگار صرف اللہ کو جانتے تھے۔ یہ استثنا منقطع ہے گو مشرکین کے نزدیک تو یہ امر اتنا بڑا جرم ہے جو ہرگز کسی صورت سے معافی کے قابل نہیں۔ فرمان ہے آیت (يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰهِ رَبِّكُمْ ۭ اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِيْ ) 60 ۔ الممتحنة :1) تمہیں اور ہمارے رسول کو صرف اس بنا پر نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا حقیقی پروردگار ہے۔ خندقوں والوں کے قصے میں فرمایا آیت (وما نقموا منہم الا ان یومنوا باللہ العزیز الحمید) یعنی دراصل ان کا کوئی قصور نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ غالب، مہربان، ذی احسان پر ایمان لائے تھے۔ مسلمان صحابہ خندق کھودتے ہوئے اپنے رجز میں کہہ رہے تھے۔
شعر (لاہم لو لا انت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا
فانزلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا
ان الا ولی قد بغوا علینا اذا ارادوافتنتہ ابینا )
خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کی موافقت میں تھے اور قافیہ کا آخری حرف آپ بھی ان کے ساتھ ادا کرتے اور ابینا کہتے ہوئے خوب بلند آواز کرتے۔ پھر فرماتا ہے اگر اللہ تعالیٰ ایک کا علاج دوسرے سے نہ کرتا اگر ہر سیر پر سوا سیر نہ ہوتا تو زمین میں شرفساد مچ جاتا، ہر قوی ہر کمزور کو نگل جاتا۔ عیسائی عابدوں کے چھوٹے عبادت خانوں کو صوامع کہتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ صابی مذہب کے لوگوں کے عبادت خانوں کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں مجوسیوں کے آتش کدوں کو صوامع کہتے ہیں۔ مقامل کہتے ہیں یہ وہ گھر ہیں جو راستوں پر ہوتے ہیں۔ بیع ان سے بڑے مکانات ہوتے ہیں یہ بھی نصرانیوں کے عابدوں کے عبادت خانے ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں یہ یہودیوں کے کنیسا ہیں۔ صلوات کے بھی ایک معنی تو یہی کئے گئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں مراد گرجا ہیں۔ بعض کا قول ہے صابی لوگوں کا عبادت خانہ۔ راستوں پر جو عبادت کے گھر اہل کتاب کے ہوں انہیں صلوات کہا جاتا ہے اور مسلمانوں کے ہوں انہیں مساجد۔ فیہا کی ضمیر کا مرجع مساجد ہے اس لئے کہ سب سے پہلے یہی لفظ ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ سب جگہیں ہیں یعنی تارک الدنیا لوگوں کے صوامع، نصرانیوں کے بیع، یہودیوں کے صلوات اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام خوب لیا جاتا ہے۔ بعض علماء کا بیان ہے کہ اس آیت میں اقل سے اکثر کی طرف کی ترقی کی صنعت رکھی گئی ہے پس سب سے زیادہ آباد سب سے بڑا عبادت گھر جہاں کے عابدوں کا قصد صحیح نیت نیک عمل صالح ہے وہ مسجدیں ہیں۔ پھر فرمایا اللہ اپنے دین کے مددگاروں کا خود مددگار ہے جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ ) 47 ۔ محمد :7) یعنی اگر اے مسلمانو ! تم اللہ کے دین کی امداد کروگے تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔ کفار پر افسوس ہے اور ان کے اعمال غارت ہیں۔ پھر اپنے دو وصف بیان فرمائے قوی ہونا کہ ساری مخلوق کو پیدا کردیا، عزت والا ہونا کہ سب اس کے ماتحت ہر ایک اس کے سامنے ذلیل وپست سب اس کی مدد کے محتاج وہ سب سے بےنیاز جسے وہ مدد دے وہ غالب جس پر سے اس کی مدد ہٹ جائے وہ مغلوب۔ فرماتا ہے آیت ( وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ\017\01ښ) 37 ۔ الصافات :171) یعنی ہم نے تو پہلے سے ہی اپنے رسولوں سے وعدہ کرلیا ہے کہ ان کی یقینی طور پر مدد کی جائے گی اور یہ کہ ہمارا لشکر ہی غالب آئے گا۔ اور آیت میں ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ 21) 58 ۔ المجادلة :21) خدا کہہ چکا ہے کہ میں اور میرا رسول غالب ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ قوت وعزت والا ہے۔