المؤمنون آية ۱۲
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ ۚ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتداء) مٹی (کے کیمیائی اجزاء) کے خلاصہ سے فرمائی،
English Sahih:
And certainly did We create man from an extract of clay.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے آدمی کو چنی ہوئی (انتخاب کی) مٹی سے بنایا،
3 Ahmed Ali
اور البتہ ہم نے انسان کومٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا (١)
١٢۔١ مٹی سے پیدا کرنے کا مطلب، ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے پیدائش ہے یا انسان جو خوراک بھی کھاتا ہے وہ سب مٹی سے ہی پیدا ہوتی ہیں، اس اعتبار سے اس نطفے کی اصل، جو خلقت
انسانی کا باعث بنتا ہے، مٹی ہی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا
7 Muhammad Hussain Najafi
یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں انسان کی ابتدائے تخلیق سے لے کر آخر تک مختلدادوار اور مراحل کا ذکر کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوع بشری کے جد امجد آدم علیہ اسلام کی پیدائش کا ذکر فرمایا کہ ﴿ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ﴾ ’’اسے زمین کے ست سے پیدا کیا۔ جو کہ تمام زمین سے حاصل کیا گیا تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney insan ko mitti kay satt say peda kiya ,
12 Tafsir Ibn Kathir
انسان کی پیدائش مرحلہ وار
اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی ابتدا بیان کرتا ہے کہ اصل آدم مٹی سے ہیں، جو کیچڑ کی اور بجنے والی مٹی کی صورت میں تھی پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کے پانی سے ان کی اولاد پیدا ہوئی۔ جیسے فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کرکے پھر انسان بنا کر زمین پر پھیلادیا ہے۔ مسند میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو خاک کی ایک مٹھی سے پیدا کیا، جسے تمام زمین پر سے لیا تھا۔ پس اسی اعتبار سے اولاد آدم کے رنگ روپ مختلف ہوئے، کوئی سرخ ہے، کوئی سفید ہے، کوئی سیاہ ہے، کوئی اور رنگ کا ہے۔ ان میں نیک ہیں اور بد بھی ہیں۔ آیت (ثم جعلنہ) ۔ میں ضمیر کا مرجع جنس انسان کی طرف ہے جیسے ارشاد ہے آیت ( ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ ۚ ) 32 ۔ السجدة :8) ۔ اور آیت میں ہے ( اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ 20ۙ ) 77 ۔ المرسلات :20) پس انسان کے لئے ایک مدت معین تک اس کی ماں کا رحم ہی ٹھکانہ ہوتا ہے جہاں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف اور ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ پھر نطفے کی جو ایک اچھلنے والا پانی ہے جو مرد کی پیٹ سے عورت کے سینے سے نکلتا ہے شکل بدل کر سرخ رنگ کی بوٹی کی شکل میں بدل جاتا ہے پھر اسے گوشت کے ایک ٹکڑے کی صورت میں بدل دیا جاتا ہے جس میں کوئی شکل اور کوئی خط نہیں ہوتا۔ پھر ان میں ہڈیاں بنادیں سر ہاتھ پاؤں ہڈی رگ پٹھے وغیرہ بنائے اور پیٹھ کی ہڈی بنائی۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں انسان کا تمام جسم سڑ گل جاتا ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے۔ اسی سے پیدا کیا جاتا ہے اور اسی سے ترکیب دی جاتی ہے۔ پھر ان ہڈیوں کو وہ گوشت پہناتا ہے تاکہ وہ پوشیدہ اور قوی رہیں۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے جس سے وہ ہلنے جلنے چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے اور ایک جاندار انسان بن جائے۔ دیکھنے کی سننے کی سمجھنے کی اور حرکت وسکون کی قدرت عطا فرماتا ہے۔ وہ بابرکت اللہ سب سے اچھی پیدائش کا پیدا کرنے والا ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ جب نطفے پر چار مہنیے گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھجتا ہے جو تین تین اندھیریوں میں اس میں روح پھونکتا ہے یہی معنی ہے کہ ہم پھر اسے دوسری ہی پیدائش میں پیدا کرتے ہیں یعنی دوسری قسم کی اس پیدائش سے مراد روح کا پھونکا جانا ہے پس ایک حالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف ماں کے پیٹ میں ہی ہیر پھیر ہونے کے بعد بالکل ناسمجھ بچہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ جوان بن جاتا ہے پھر ادھیڑپن آتا ہے پھر بوڑھا ہوجاتا ہے پھر بالکل ہی بڈھا ہوجاتا ہے الغرض روح کا پھونکا جانا پھر ان کے انقلابات کا آنا شروع ہوجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ صادق ومصدوق آنحضرت محمد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی ہے پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت میں رہتا ہے پھر چالیس دن تک وہ گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور بحکم الہٰی چار باتیں لکھ لی جاتی ہیں روزی، اجل، عمل، اور نیک یا بد، برا یا بھلا ہونا پس قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ ایک شخص جنتی عمل کرتا رہتا یہاں تک کہ جنت سے ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے لیکن تقدیر کا وہ لکھا غالب آجاتا ہے اور خاتمے کے وقت دوزخی کام کرنے لگتا ہے اور اسی پر مرتا ہے اور جہنم رسید ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک انسان برے کام کرتے کرتے دوزخ سے ہاتھ بھر کے فاصلے پر رہ جاتا ہے لیکن پھر تقدیر کا لکھا آگے بڑھ جاتا ہے اور جنت کے اعمال پر خاتمہ ہو کر داخل فردوس بریں ہوجاتا ہے۔ (بخاری ومسلم وغیرہ) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں نطفہ جب رحم میں پڑتا ہے تو وہ ہر ہر بال اور ناخن کی جگہ پہنچ جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد اس کی شکل جمے ہوئے خون جیسی ہوجاتی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب سے باتیں بیان کررہے تھے کہ ایک یہودی آگیا تو کفار قریش نے اس سے کہا یہ نبوت کے دعویدار ہیں اس نے کہا اچھا میں ان سے ایک سوال کرتا ہوں جسے نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ آپ کی مجلس میں آکر بیٹھ کر پوچھتا ہے کہ بتاؤ انسان کی پیدائش کس چیز سے ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا مرد عورت کے نطفے سے۔ مرد کا نطفہ غلیظ اور گاڑھا ہوتا ہے اس سے ہڈیاں اور پٹھے بنتے ہیں اور عورت کا نطفہ رقیق اور پتلا ہوتا ہے اس سے گوشت اور خون بنتا ہے۔ اس نے کہا۔ آپ سچے ہیں اگلے نبیوں کا بھی یہی قول ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب نطفے کو رحم میں چالیس دن گزر جاتے ہیں تو ایک فرشتہ آتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرتا ہے کہ اے اللہ یہ نیک ہوگا یا بد ؟ مرد ہوگا یا عورت ؟ جو جواب ملتا ہے وہ لکھ لیتا ہے اور عمل، عمر، اور نرمی گرمی سب کچھ لکھ لیتا ہے پھر دفتر لپیٹ لیا جاتا ہے اس میں پھر کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں رہتی بزار کی حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے جو عرض کرتا ہے اے اللہ اب نطفہ ہے، اے اللہ اب لوتھڑا ہے، اے اللہ اب گوشت کا ٹکڑا ہے۔ جب جناب باری تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پوچھتا ہے اے اللہ مرد ہو یا عورت، شکی ہو یا سعید ؟ رزق کیا ہے ؟ اجل کیا ہے ؟ اس کا جواب دیا جاتا ہے اور یہ سب چیزیں لکھ لی جاتی ہیں ان سب باتوں اور اتنی کامل قدرتوں کو بیان فرما کر فرمایا کہ سب سے اچھی پیدائش کرنے والا اللہ برکتوں والا ہے حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں میں نے اپنے رب کی موافقت چار باتوں میں کی ہے جب یہ آیت اتری کہ ہم نے انسان کو بجتی مٹی سے پیدا کیا ہے تو بےساختہ میری زبان سے فتبارک اللہ احسن الخالقین نکلا اور وہی پھر اترا۔ زید بن ثابت انصاری (رض) جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اوپر والی آیتیں لکھوا رہے تھے اور آیت (ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14ۭ ) 23 ۔ المؤمنون :14) تک لکھوا چکے تو حضرت معاذ (رض) نے دریافت فرمایا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کیسے ہنسے ؟ آپ نے فرمایا اس آیت کے خاتمے پر بھی یہی ہے اس حدیث کی سند کا ایک راوی جابر جعفی ہے جو بہت ہی ضعیف ہے اور یہ روایت بالکل منکر ہے۔ حضرت زید بن ثابت (رض) کاتب وحی مدینے میں تھے نہ کہ مکہ میں حضرت معاذ (رض) کے اسلام کا واقعہ بھی مدینے کا واقعہ ہے اور یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے پس مندرجہ بالا روایت بالکل منکر ہے واللہ اعلم۔ اس پہلی پیدائش کے بعد تم مرنے والے ہو، پھر قیامت کے دن دوسری دفعہ پیدا کئے جاؤگے، پھر حساب کتاب ہوگا خیروشر کا بدلہ ملے گا۔