المؤمنون آية ۷۸
وَهُوَ الَّذِىْۤ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـِٕدَةَ ۗ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ
طاہر القادری:
اور وہی ہے جو تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل (و دماغ) رفتہ رفتہ وجود میں لایا، (مگر) تم لوگ بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو،
English Sahih:
And it is He who produced for you hearing and vision and hearts [i.e., intellect]; little are you grateful.
1 Abul A'ala Maududi
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سُننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دیے مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو
2 Ahmed Raza Khan
اور وہی ہے جس نے بنائے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل تم بہت ہی کم حق مانتے ہو
3 Ahmed Ali
اور اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائےہیں تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو
4 Ahsanul Bayan
وہ اللہ ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کئے، مگر تم بہت (ہی) کم شکر کرتے ہو (١)
٧٨۔١ یعنی عقل و فہم اور سننے کی صلاحتیں عطا کیں تاکہ ان کے ذریعے سے وہ حق کو پہچانیں، سنیں اور اسے قبول کریں۔ یہی ان نعمتوں کا شکر ہے۔ مگر یہ شکر کرنے والے یعنی حق کو اپنانے والے کم ہی ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور وہی تو ہے جس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔ (لیکن) تم کم شکرگزاری کرتے ہو
6 Muhammad Junagarhi
وه اللہ ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کئے، مگر تم بہت (ہی) کم شکر کرتے ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے جان، آنکھیں اور دل بنائے (لیکن) تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہ وہی خدا ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں مگر تم بہت کم شکریہ ادا کرتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور وہی ہے جس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے لیکن تم کم شکر گزاری کرتے ہو
آیت نمبر 78 تا 92
ترجمہ : وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے تمہارے کان بنائے سمع بمعنی اسماع اور آنکھیں اور دل بنائے تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو ما، قلت کی تاکید کے لئے اور وہ ذات ہے کہ جس نے مٹی سے پیدا کیا اور اسی کی طرف تم جمع کئے جاؤ گے، یعنی مرنے کے بعد زندہ کئے جاؤ گے اور وہ ایسی ذات کہ جو گوشت کے لوتھڑے میں روح پھونک کر تم کو حیات بخشتی ہے اور موت دیتی ہے اور موت دیتی ہے اور سیاہی اور سفیدی زیادتی اور نقصان کے ذریعہ رات اور دن کو بدلنا اسی کے اختیار میں ہے تو کیا تم اللہ تعالیٰ کی صنعت کو سمجھتے نہیں ہو کہ عبرت حاصل کرو، بلکہ یہ بھی ویسی ہی بات کہتے ہیں جو اگلے لوگ کہتے چلے آئے ہیں پہلے لوگوں نے یوں کہا کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں رہ جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے نہیں، اور ہمزہ میں دونوں جگہوں پر تحقیق ہے اور ثانی ہمزہ کی تسہیل ہے، اور دونوں ہمزوں کے درمیان دونوں صورتوں میں الف داخل کرنا ہے اس کا تو ہم سے اور ہمارے بڑوں سے وعدہ ہوتا چلا آیا ہے یعنی بعث بعد الموت کا، یہ کچھ بھی نہیں محض بےسند جھوٹی باتیں ہیں جو اگلوں سے منقول ہوتی چلی آرہی ہیں جیسا کہ ہنسی کی اور تعجب کی باتیں، اَساطیر اسطورۃ کی جمع ہے ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ آپ ان سے دریافت کیجئے کہ یہ زمین اور اس میں جو مخلوق ہے کس کی ملک ہیں اگر تم اس کے خالق کو اور مالک کو جانتے ہو تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ کی ملک میں ہیں (تو) ان سے کہئے کہ پھر کیوں غور نہیں کرتے تَذَّکرُون (اصل میں تَتَذَکَّرُوْنَ تھا) تاثانیہ کو ذال کیا اور ذال کو ذال میں ادغام کردیا تَذَّکَّرٗوْنَ ہوگیا، کہ تم جان سکو کہ جو ابتداءً پیدا کرنے پر قادر ہے وہ موت کے بعد زندہ کرنے پر قادر ہے آپ ان سے یہ بھی دریافت کیجئے کہ ان ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کرسی کا مالک کون ہے ؟ تو وہ ضرور یہی جواب دیں گے کہ یہ بھی اللہ کا ہے (اس وقت) کیئے تو پھر تم غیر اللہ کی عبادت سے کیوں نہیں بچتے ؟ آپ ان سے یہ بھی دریافت کیجئے کہ وہ کون ہے کہ جس کے ہاتھ میں تمام چیزوں کا اختیار ہے ملکوت میں تا مبالغہ کیلئے ہے وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا یعنی وہ حمایت کرتا ہے اس کے مقابلہ حمایت نہیں کی جاسکتی، اگر تم کو کچھ خبر ہے تو وہ ضرور یہی کہیں گے (ان صفات کا مالک) اللہ ہے اور ایک قرأت میں (اللہ کے بجائے) للہ ہے لام جر کے ساتھ دونوں جگہوں میں اس بات کی طرف نظر کرتے ہوئے کہ (مَنْ بیَدِہٖ ) کے معنی مَنْ لہ مَاذُکِرَ کے ہیں تو آپ (اس وقت) کہئے کہ پھر تم کو کیا خبط ہو رہا ہے ؟ یعنی دھوکے میں پڑے ہوئے ہو اور حق یعنی اللہ وحدہ کی عبادت سے برگشتہ ہو رہے ہو یعنی تم کو یہ تصور کیسے ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ باطل ہے بلکہ ہم نے ان کو سچی بات پہنچائی ہے اور یقیناً یہ خود جھوٹے ہیں اس سچی بات کی نفی کرنے میں اور وہ سچی بات جو ہم نے پہنچائی ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اولاد قرار نہیں دیا اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ورنہ تو اگر اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو جدا کرلیتا یعنی خود تن تنہا اس کا مالک ہوجاتا اور دوسرے کو اس پر غلبہ کرنے سے روک دیتا، اور ایک دوسرے پر چڑھائی کرتا غلبہ حاصل کرنے کے لئے جیسا کہ دنیا کے بادشاہ کرتے ہیں اللہ ان تمام مذکورہ باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کا جاننے والا ہے جو غائب اور جو ظاہر ہے عَالِمِ کے جر کے ساتھ لفظ اللہ کی صفت ہے اور رفع کے ساتھ ھو مبتداء محذوف کی خبر ہے غرضیکہ وہ ان چیزوں سے بالا تر ہے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قلیلا ما تشکرون ما اس قلت کی تاکید کے لئے ہے جو قلیلاً کی تنوین تنکیر سے مستفاد ہے اور قلیلاً مفعول مطلق کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اس کی تقدیر عبارت یہ ہے ای تشکرون شکراً قلیلاً اور یہ عدم شکر سے کنایہ ہے اس لئے کہ قلت عدم کے معنی میں بھی مستعمل ہے اور یہی معنی حال کفار کے زیادہ نامناسب ہیں۔ قولہ : اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ہمزہ، محذوف پر داخل ہے فا عاطفہ ہے ای اَغَفَلْتُمْ فَلاَ تَعْقِلُوْنَ انَّ القَادِرَ انشاء الخلق قادرٌ علیٰ اِعَادَتِھِمْ بَعْدَ المَوْتِ ۔ قولہ : بَلْ قَالُوْا ای کفار مکۃَ یہ محذوف سے اضراب انتقالی ہے تقدیر عبارت یہ ہے فَلَمْ یَعْتَبِرُوْا بَل قَالُوْا ابوسعود نھے کہا بَلْ قَالُوْا کا عطف مقدر ہے ای فَلَمْ یَعقِلُوْا۔ قولہ : لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤبَا، آبَاؤنَا کا عطف وُعِدْنَا کی ضمیر متصل پر ہے جب کہ قاعدہ یہ ہے کہ اگر ضمیر مرفوع متصل پر عطف کرنا ہو تو ضمیر منفصل کے ذریعہ تاکید ضروری ہوتی ہے مگر یہاں چونکہ نحن کا فصل آگیا ہے جو کہ قائم مقام ہے ضمیر منفصل کے لہٰذا عطف درست ہوگیا ھٰذا، وُعِدْنَا کا مفعول ثانی ہے اور نا ضمیر اس کا نائب فاعل ہے تقدیر عبارت یہ ہے کہ وَعَدَنَا الآنَ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالبعثِ وَعَدَ غیرہ آبَائَنَا مِنْ قبلِنا بہ۔ قولہ : لا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ءَاِذَا مِتْنَا میں ہمزہ استفہام انکاری ہے۔ قولہ : اِنْ کنتم تعلمون شرط ہے اس کا جواب محذوف ہے ای اِنْ کنتُمْ تعلمونَ فاخبرُونی بخالقِھا۔ قولہ : مَلَکُوتُ اس میں واؤ اور تا مبالغہ کیلئے زائد ہیں جیسا کہ رحموت میں۔ قولہ : ولا یجارُ علَیہ علیٰ کے ساتھ تعدیہ نصرت کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے ہے۔ قولہ : نظرًا الیٰ أن المعنیٰ مَنْ لہ لفظ اللہ اوپر تین جگہ واقع ہوا ہے پہلی جگہ لام جر کے ساتھ متعین ہے اس لئے کہ سوال میں لام ظاہر ہے یعنی قل لِمَنْ الارض ومَنْ فیھا لہٰذا جواب یعنی سیقولون للہ میں بھی لام کو ظاہر کرنا متعین ہے، دوسرے مقام پر معنی کی رعایت کی وجہ سے لام کو ظاہر کرتے ہیں اور لفظ کی رعایت کی وجہ سے لام کو حذف کرتے ہیں اس لئے کہ سوال کے الفاظ یہ ہیں قل مَن رب السمٰوات (الآیہ) تو اس وقت جواب ہوگا اللہ، اور معنی کی رعایت کریں تو مَن رب السمٰوات معنی میں لِمَن السمٰوات تو اس وقت جواب میں للہ واقع ہوگا، اسی طرح تیسرے مقام قل مَنْ بیدہڈ ملکوتُ کُلَّ شئ اگر سوال کے لفظ کی رعایت کی جائے تو لام حذف ہوگا اور اگر سوال کے معنی کی رعایت کی جائے تو لام ظاہر ہوگا، اس لئے کہ معنی یہ ہیں لِمَن ملکوتُ کُلُّ شئ خلاصہ یہ ہے کہ ان تین مقاموں میں سے پہلے مقام میں اظہار لام جر متعین ہے اور بعد کے دونوں مقاموں میں سوال کے لفظ کی رعایت سے حذف لام ہوگا اور معنی کی رعایت سے اظہار لام ہوگا یعنی اظہار اور حذف دونوں جائز ہیں، قولہ : تُخْدَعُوْنَ تُسْحَرُوْنَ کی تفسیر تُخْدَعُوْنَ سے کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ تُسْحَرُوْنَ مجازاً تخدعُوْن کے معنی میں ہے۔ قولہ : وتُصْرَفُوْنَ عن الحقِّ عِبَادۃِ اللہِ ، عِبَادَۃِ اللہِ حق سے بدل ہے اسی وجہ سے عبادۃ اللہ مجرور ہے۔ قولہ : کَیْفَ یُخَیَّلُ لکُمْ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اَنّٰی کَیْفَ کے معنی میں ہے اور تُسْحَرُوْنَ تُخَیَّلُ کے معنی میں ہے۔ قولہ : مِنْ وَلَدٍ من مفعول پر زائدہ ہے اور مِن الٰہٍ میں مِنْ کان کے اسم پر زائد ہے۔ قولہ : اِذًا ای لو کان معہ الٰہ لَذَھَبَ (الآیہ) اِذًا کے بعد لو کان معہٗ کا اضافہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ اذا ایسے کلام پر داخل ہوتا ہے کہ جو شرط و جزاء پر مشتمل ہو اور یہاں لَذَھَبَ صرف جزا ہے جواب یہ ہے کہ شرط محذوف ہے جس کی طرف شارح نے لو کان معہٗ الٰہٌ محذوف مان کر اشارہ کردیا ہے، اِذًا بمعنی لو امتناعیہ ہے، قولہ : ما ذُکِرَ ای مِن الاولاد والانداد۔ قولہ : عالم الغیبِ جر کے ساتھ ہے لفظ اللہ سے بدل یا صفت واقع ہونے کی وجہ سے اور عالِمُ الغیب کو رفع کے ساتھ پڑھا جائے تو ھُوَ مبتدا محذوف کی خبر ہوگی، قولہ : فتعالیٰ اس کا عطف ما قبل کے معنی پر ہے، ای عَلِمَ الغَیبَ فتعالیٰ عما یشرکون۔
تفسیر و تشریح
ھو الذی انشالکم (الآیہ) یعنی عقل و فہم اور سننے سمجھنے کی یہ صلاحیتیں عطا کیں تاکہ ان کے ذریعہ وہ حق پہچانیں، سنیں اور اسے قبول کریں یہی ان نعمتوں کا شکریہ ہے مگر یہ شکر کرنے والے یعنی حق کو قبول کرنے والے کم ہی ہیں۔
اَسَاطِیْرُ ، اُسطُورۃ کی جمع ہے یعنی مُسَطَّرَۃ مکتوبۃ لکھی ہوئی کہانیاں یعنی دوبارہ زندہ ہونے کا وعدہ کب سے ہوتا آرہا ہے، ہمارے آباواجداد سے مگر ابھی تک روبعمل تو نہیں ہوا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ کہانیاں ہیں جو پہلے لوگوں نے کتابوں میں لکھ دی ہیں جو نقل در نقل ہوتی چلی آرہی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں، بھلا کہیں یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں ملنے کے بعد زندہ کئے جائیں گے ایسی باتیں اور ایسے وعدہ تو ہم اپنے باپ دادوں سے سنتے چلے آرہے ہیں لیکن ہم نے آج تک خاک کے ذروں اور ہڈیوں کے ریزوں کو آدمی بنتے ہیں دیکھا۔
وھو۔۔۔ علیہ (الآیہ) یعنی اللہ تعالیٰ جس کو چاہے عذاب اور مصیبت سے پناہ دیدے اور یہ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے مقابلہ پر کسی کے مقابلہ پر کسی کو پناہ دیکر اس کے عذاب و تکلیف سے بچائے یہ بات دنیا کے اعتبار سے بھی صحیح ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی (قرطبی) ۔
قل لمن۔۔۔۔ تعلمون یعنی جب تمہیں یہ تسلیم ہے کہ زمین کا اور اس میں موجود تمام اشیاء کا خالق اور مالک تنہا وہی ایک اللہ ہے اور آسمان اور عرش عظیم کا مالک بھی وہی ہے تو پھر تمہیں یہ تسلیم کرنے میں تامل کیوں ہے کہ عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک اللہ ہے پھر تم اس کی وحدانیت کو تسلیم کرکے اس کے عذاب سے بچنے کا اہتمام کیوں نہیں کرتے، تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس اعتراف اور علم کے باوجود تم دوسروں کو اس کی عبادت میں شریک کرتے ہو ؟ قرآن کریم کی اس صراحت سے واضح ہے کہ مشرکین مکہ اللہ کی ربوبیت اور اس کی خالقیت و مالکیت اور رزاقیت کے منکر نہیں تھے بلکہ یہ سب باتیں تسلیم کرتے تھے انہیں صرف توحید الوہیت سے انکار تھا اور یہ سب کچھ صرف اور صرف اس مغالطہ کی بنا پر تھا کہ یہ بھی اللہ کے نیک بندے تھے ان کو اللہ نے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں اور ہم ان کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں یہی مغالطہ آج کل کے مردہ پرستوں اور اہل بدعت کو ہے جس کی بنیاد پر وہ فوت شدگان کو مدد کیلئے پکارتے ہیں ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں حالانکہ اللہ اور اس کے رسول نے کہیں نہیں فرمایا کہ تم غیر اللہ کو امداد اور حاجت روائی کیلئے پکارا کرو، اللہ اور اس کے رسول نے تو اچھی طرف واضح کردیا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور جو لوگ اللہ کے ساتھ غیر کو عبادت میں شریک کرتے ہیں اس لئے نہیں کہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے بلکہ محض ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اور آباء پرستی کی وجہ سے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ کوئی ساجھی، اگر ایسا ہوتا تو ہر شریک اپنے حصہ کی مخلوق لیکر الگ ہوجاتا اور خود اپنی مرضی سے اس کا انتظام کرتا اور ہر شریک دوسرے شریک پر غالب آنے کی کوشش کرتا جیسا کہ دنیوی بادشاہوں کی عادت ہوتی ہے، اور جب ایسا نہیں ہے اور نظام عالم میں ایسی کوئی کشاکش نہیں ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک اور برتر ہے جو مشرکین اس کی بابت باور کرتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی نوازشوں کا ذکر کرتا ہے جو انہیں اس کے شکر اور اس کے حقوق ادا کرنے کی دعوت دیتی ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ ﴾ ” اور وہی ہے جس نے پیدا کیے تمہارے لیے کان۔“ تاکہ مسموعات کا ادراک کرسکو اور اس طرح تم اپنے دین و دنیا میں فائدہ اٹھا سکو ﴿ وَالْأَبْصَارَ ﴾ ” اور آنکھیں“ تاکہ مرئیات کا ادراک کرسکو اور اپنے مصالح میں ان سے فائدہ اٹھا سکو۔ ﴿ وَالْأَفْئِدَةَ ﴾ ” اور دل۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل سے نوازاتاکہ تم اس کے ذریعے سے اشیاء کا ادراک کرسکو اور جانوروں سے ممتاز ہوسکو۔ اگر تم سماعت، بصارت اور عقل سے محروم ہوجاؤ بایں طور کہ تم بہرے، اندھے اور گونگے ہوجاؤ تو تمہارا کیا حال ہو ؟ اور تم کن کن ضروریات اور کون کون سے کمالات سے محروم ہو کر رہ جاؤ؟ کیا تم اس ہستی کا شکر نہیں کرتے جس نے تمہیں ان نعمتوں سے نوازا ہے کہ تم اس کی توحید اور اطاعت پر قائم رہتے ؟ مگر اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی پے درپے نعمتوں کے باوجود، تم اس کا بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh Allah hi to hai jiss ney tumharay liye kaan aur aankhen aur dil peda kiye . ( magar ) tum log boht kam shukar ada kertay ho .