النور آية ۳۵
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۗ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۗ الْمِصْبَاحُ فِىْ زُجَاجَةٍ ۗ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَّـكَادُ زَيْتُهَا يُضِىْۤءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۗ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ ۗ يَهْدِى اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۤءُ ۗ وَ يَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِۗ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ ۙ
طاہر القادری:
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے؛ (وہ) چراغ، فانوس (قلبِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پرتَو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے (یہ چراغِ نبوت) جو زیتون کے مبارک درخت سے (یعنی عالم قدس کے بابرکت رابطہ وحی سے یا انبیاء و رسل ہی کے مبارک شجرۂ نبوت سے) روشن ہوا ہے نہ (فقط) شرقی ہے اور نہ غربی (بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالم گیر ہے) ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل (خود ہی) چمک رہا ہے اگرچہ ابھی اسے (وحی ربّانی اور معجزاتِ آسمانی کی) آگ نے چھوا بھی نہیں، (وہ) نور کے اوپر نور ہے (یعنی نورِ وجود پر نورِ نبوت گویا وہ ذات دوہرے نور کا پیکر ہے)، اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور (کی معرفت) تک پہنچا دیتا ہے، اور اللہ لوگوں (کی ہدایت) کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز سے خوب آگاہ ہے،
English Sahih:
Allah is the Light of the heavens and the earth. The example of His light is like a niche within which is a lamp; the lamp is within glass, the glass as if it were a pearly [white] star lit from [the oil of] a blessed olive tree, neither of the east nor of the west, whose oil would almost glow even if untouched by fire. Light upon light. Allah guides to His light whom He wills. And Allah presents examples for the people, and Allah is Knowing of all things.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، (اِس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں) اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ نور ہے آسمانوں اور زمینوں کا، اس کے نور کی مثال ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے وہ چراغ ایک فانوس میں ہے وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا روشن ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ پچھم کا قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے نور پر نور ہے اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے، اور اللہ مثالیں بیان فرماتا ہے لوگوں کے لیے، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے،
3 Ahmed Ali
الله آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو چراغ شیشے کی قندیل میں ہے قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارا ہے زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو روشنی ہے الله جسے چاہتا ہے اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے اور الله کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے اور الله ہر چیز کا جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا (١) اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے جس پر چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی طرح قندیل میں ہو اور شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی خود وہ تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھائے نور پر نور ہے اللہ تعالٰی اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے (٢) لوگوں (کے سمجھانے) کو یہ مثالیں اللہ تعالٰی بیان فرما رہا ہے (٣) اور اللہ تعالٰی ہرچیز کے حال سے بخوبی واقف ہے۔
٣٥۔١ یعنی اگر اللہ نہ ہوتا تو آسمان میں نور ہوتا نہ زمین میں، نہ آسمان و زمین میں کسی کو ہدایت نصیب ہوتی۔ پس وہ اللہ تعالٰی ہی آسمان و زمین کو روشن کرنے والا ہے اس کی کتاب نور ہے، اس کا رسول (بحیثیت صفات کے) نور ہے۔ یعنی ان دونوں کے ذریعے سے زندگی کی تاریکیوں میں رہنمائی اور روشنی حاصل کی جاتی ہے، جس طرح چراغ اور بلب سے انسان روشنی حاصل کرتا ہے۔ حدیث سے بھی اللہ کا نور ہونا ثابت ہے، پس اللہ، اس کی ذات نور ہے، اس کا حجاب نور ہے اور ہر ظاہری اور معنوی نور کا خالق، اس کا عطا کرنے والا اور اس کی طرف ہدایت کرنے والا صرف ایک اللہ ہے۔
٣٥۔٢ نور سے مراد ایمان و اسلام ہے، یعنی اللہ تعالٰی جن کے اندر ایمان کی رغبت اور اس کی طلب دیکھتا ہے، ان کی اس نور کی طرف رہنمائی فرما دیتا ہے، جس سے دین و دنیا کی سعادتوں کے دروازے ان کے لئے کھل جاتے ہیں۔
٣٥۔ ٣ جس طرح اللہ نے مثال بیان فرمائی، جس میں اس نے ایمان کو اور اپنے مومن بندے کے دل میں اس کے راسخ ہونے اور بندوں کے احوال قلوب کا علم رکھنے کو واضح فرمایا کہ کون ہدایت کا اہل ہے اور کون نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے۔ اور چراغ ایک قندیل میں ہے۔ اور قندیل (ایسی صاف شفاف ہے کہ) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارہ ہے اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے (یعنی) زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف۔ (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے (پڑی) روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے) خدا اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ اور خدا نے (جو مثالیں) بیان فرماتا ہے (تو) لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے جس میں چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو اور شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو وه چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی خود وه تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوئے، نور پر نور ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے، لوگوں (کے سمجھانے) کو یہ مثالیں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کے حال سے بخوبی واقف ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال یہ ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو (اور) چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو۔ اور (وہ) قندیل گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے (اور وہ چراغ) زیتون کے بابرکت درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے۔ جو نہ شرقی ہے نہ غربی قریب ہے کہ اس کا تیل خود بخود بھڑک اٹھے اگرچہ آگ نے اسے چھوا بھی نہ ہو۔ یہ نور بالائے نور ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ اور اللہ لوگوں کیلئے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللرُ آسمانوں اور زمین کا نور ہے .اس کے نور کی مثال اس طاق کی ہے جس میں چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو اور قندیل ایک جگمگاتے ستارے کے مانند ہو جو زیتون کے بابرکت درخت سے روشن کیا جائے جو نہ مشرق والا ہو نہ مغرب والا اور قریب ہے کہ اس کا روغن بھڑک اٹھے چاہے اسے آگ مس بھی نہ کرے یہ نور بالائے نور ہے اور اللہ اپنے نور کے لئے جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے اور اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے اور وہ ہر شے کا جاننے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل (ایسی صاف و شفاف ہے کہ) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے (یعنی) زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے (بڑی) روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے) خدا اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور خدا (جو مثالیں) بیان فرماتا ہے (تو) لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
آیت نمبر 35 تا 40
ترجمہ : اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے یعنی ان دونوں کو شمس و قمر کے ذریعہ منور کرنے والا ہے اور اس کے نور کی مثال یعنی اس کی صفت قلب مومن میں ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے اس میں ایک چراغ ہے اور وہ چراغ ایک قندیل میں ہے زُجَاجَۃٌ بمعنی قندیل اور المصباح بمعنی چراغ یعنی جلتی ہوئی بتی (شعلہ) اور المشکوٰۃ بمعنی طاق جو آرپار نہ ہو یعنی قندیل کی نلکی (پائپ) اور وہ قندیل حال یہ کہ اس میں نور ہو ایسا ہے جیسا کہ روشن ستارہ دال کے کسرہ کے ساتھ اور دال کے ضمہ کے ساتھ (اس وقت) دَرْءٌ سے مشتق ہوگا اور معنی دفع کرنے کے ہوں گے اس کے تاریکی کو دفع کرنے کی وجہ سے، اور دال کے ضمہ اور یا کی تشدید کے ساتھ (دُرِّیٌ) دُرٌّ کی طرف منسوب ہوگا اور معنی ہوں گے موتی تَوَفَّدَ ماضی ۂتفعَّلَ ) ای تَوَفَّدَ المصباحُ اور ایک قرأۃ میں اَوْقَدَ سے مضارع مجہول ہے یُوْقَدُ (اس وقت نائب فاعل المصباح ہوگا) اور تیسری قرأۃ میں تا کے ساتھ ہے ای تُوْقَدُ اس وقت نائب فاعل الزجاجہ ہوگا، روشن کیا جاتا ہے وہ چراغ ایک مبارک درخت کے قیل سے جو کہ وہ زیتون کا ہے وہ درخت نہ شرقی اور نہ غربی بلکہ ان کے درمیان میں واقع ہے چناچہ وہ گرمی اور سردی اس (درخت) پر مضر ہو کر واقع نہیں ہوتی، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل اپنی صفائی کی وجہ سے جل اٹھے گا اگرچہ اس کو آگ نہ چھوئے وہ زیت آگ کی وجہ سے نورٌ علیٰ نورٍ ہے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور یعنی دین اسلام تک رہنمائی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کیلئے مثال بیان فرماتا ہے ان کی عقلوں سے قریب کرنے کیلئے تاکہ عبرت حاصل کریں اور ایمان لائیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے اور اسی (علم) میں سے مثالیں بیان کرنا بھی ہے اور ان گھروں میں اس کی تسبیح بیان کی جاتی ہے جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کی توحید کے ساتھ اس کا نام لیا جائے فِی بُیُوتٍ آنے والے یُسبِّحُ کے متعلق ہے یُسبِّحُ کی یاء کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ اور یُسَبَّحُ کے معنی یُصَلّٰی کے ہیں صبح کے وقت الغُدُوُّ مصدر بمعنی غَدَوات کے ہے بمعنی تڑکے اور شام کے وقت زوال کے بعد رجالٌ یُسَبَحُ کا فاعل ہے با کے کسرہ کی صورت میں اور اگر با کے فتحہ کے ساتھ ہو تو لہٗ میں ہٗ ضمیر اس کا نائب فاعل ہوگی، اور رجالٌ فعل مقدر کا فاعل ہوگا، اور سوال مقدر کا جواب ہوگا، گویا کہ سوال کیا گیا کون تسبیح بیان کرے ؟ تو جواب دیا گیا، رِجَالٌ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کو اللہ کے ذکر سے اور اقامت صلوٰۃ سے اور اداء زکوٰۃ سے نہ خرید غفلت میں ڈالتی ہے اور نہ فروخت اقام کے آخر سے ۃ کو تخفیفاً حذف کردیا گیا ہے (اصل میں اقامۃ تھا) وہ ایسے دن سے ڈرتے ہیں جس میں بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں خوف کی وجہ سے مضطرب ہوں گے، قلوب نجات اور ہلاک کے درمیان مضطرب ہوں گے اور آنکھیں دائیں بائیں جانب مضطرب ہوں گی اور وہ قیامت کا دن ہوگا (اور وہ) ایسا اس لئے کریں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا اچھا بدلہ عطا فرمائے، یعنی اعمال کا ثواب اور اَحَسَنَ بمعنی حسن ہے اور ان کو اپنے فضل سے اور بھی زیادہ دے گا اور اللہ جس کو چاہے بےحساب دیتا ہے کہا جاتا ہے فلاں بےحسان خرچ کرتا ہے یعنی خرچ میں اس قدر فراخی کرتا ہے گویا کہ وہ جو کچھ خرچ کرتا ہے اس کا حساب نہیں کرتا اور جو لوگ کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت قِیعۃ جمع قاعٍ بِقِیعَۃٍ بمعنی فی فلاۃٍ ، فلاۃ بمعنی صحرا، چٹیل میدان سراب ان شعاعوں کو کہتے ہیں جو دوپہر کے وقت سخت گرمی میں بہتے ہوئے پانی کے مانند نظر آتی ہیں اور اس سراب کو پیاسا پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو اس کو کچھ بھی نہ پایا جس کو وہ پانی سمجھتا تھا، اسی طرح کافر سمجھتا ہے کہ اس کا عمل مثلاً صدقہ اس کو نفع پہنچائے گا حتی کہ جب مرجائے گا اور اپنے رب کے پاس پہنچے گا تو اپنے عمل کو نہ پائے گا یعنی اس کا عمل اس کو کوئی نفع نہیں دے گا، اور اللہ کو اپنے عمل کے پاس پایا کہ اس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا یعنی (اللہ نے) اس (کافر) کے عمل کی جزا دنیا ہی میں پوری پوری دیدی، اور اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے یعنی جلدی جزا دینے والا ہے یا کافروں کے اعمال سیئہ کی مثال ایسی ہے جیسا کہ گہرے سمندر کی تاریکی جس کو ایک بڑی موج نے ڈھانپ لیا ہو اور اس موج کے اوپر ایک اور موج ہو اور اس دوسری موج کے اوپر بادل ہو، یہ تاریکیاں تہہ بہ تہہ بہت سی تاریکیاں ہیں دریا کی تاریکی موج اول کی تاریکی موج ثانی کی تاریکی اور بادل کی تاریکی اگر دیکھنے والا ان تاریکیوں میں اپنا ہاتھ نکالے تو اس کو نہ دیکھ سکے، یعنی اس (ہاتھ) کے دیکھنے کا امکان ہی نہیں اور جس کو اللہ ہی نور نہ دے تو اسکو نور نہیں جس کو اللہ نے ہدایت نہ دی اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
اللہُ نُورُ السمٰوٰتِ وَالاَرْضِ یہ جملہ مستانفہ ماقبل کی تاکید کیلئے ہے اللہ مبتداء اور نور السمٰوات والارض اس کی خبر، نور کا حمل ذات باری پر یا تو مبالغۃً ہے، جیسا زیدٌ عدلٌ میں یا پھر مضاف محذوف ہے ای اللہ ذُوْ نُورِ السَّمٰوٰتِ وَالَارْضِ یا نُورٌ مصدر اسم فاعل مُنَوِّرٌ کے معنی میں ہے جیسا کہ علامہ محلی نے اختیار کیا ہے۔
قولہ : مَثَلُ نورہٖ بترکیب اضافی مبتداء کمشکوٰۃ فیھا مصباحٌ اس کی خبر، مشکوٰۃ سے پہلے نور مضاف محذوف ہے ای صفتہ نورہ تعالیٰ فی قلب المؤمن کنور مشکوٰۃ فیھا مصباحٌ۔ قولہ : زُجاجۃ بالتثلیث شیشہ، شیشہ کا برتن، قندیل بھی چونکہ شیشیہ کا ہوتا ہے لہٰذا قندیل کو بھی کہا جاسکتا ہے۔ قولہ : الموقودۃ صحیح المُوْقَدَۃُ ہے، قولہ : الاُنبوبۃ وہ نلکی جس میں بتی ہوتی ہے یہ مشکوٰۃ کی دوسری تفسیر ہے مناسب تھا کہ مفسر علام اور الانبوبۃ فرماتے۔ قولہ : توقد المصباحُ توقد میں تین قرأتیں ہیں (2) فعل ماضی تَوَفَّدَ بروزن تَفَعَّلَ ، المصباح اس کا فاعل ہے (2) یُوقَدُ اَوْقَدَ سے مضارع مجہول واحد مذکر غائب المصباح نائب فاعل (3) تُوْقَدُ بالتاء اَوْقَدَ سے مضارع مجہول، نائب فاعل الزجاجۃ حذف مضاف کے ساتھ ای فَتِیلَۃُ الزُجَاجَۃِ ۔
قولہ : زیتونۃٍ یہ شجرۃ سے بدل ہے یہی اظہر ہے یا عطف بیان ہے کو فیین کے نزدیک اس لئے کہ نکرات میں کو فیین عطف بیان کو جائز کہتے ہیں، شجرۃ موصوف مبارکۃ صفت موصوف صفت سے مل کر مبدل منہ زیتونۃ بدل، بدل مبدل منہ سے مل کر مضاف الیہ زیتٌ مضاف محذوف، مضاف مضاف الیہ سے مل کر مجرور جار مجرور سے مل کر متعلق ہوا توقد کے۔ قولہ : لاشرقیۃٍ ولا غربیۃٍ شجرۃٍ کی صفت ہے۔ قولہ : مُضِرَّیْنِ یہ جَرٌّ ولا بَرْدً سے حال ہے۔ قولہ : وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نارٌ شرط ہے اس کا جواب محذوف ہے ای لأضَاءَ نورٌ بہٖ ای بالزیت۔ قولہ : علیٰ نورٍ ای مع نورٍ ایمان خود ایک نور ہے، ایمان کے ساتھ ساتھ دیگر اعمال صالحہ کی توفیق و ہدایت یہ نورٌ علیٰ نور ہے، اللہ تعالیٰ تقریب الی الفھم کیلئے معقولات کو محسوسات کے ذریعہ مثال دے کر سمجھاتا ہے تاکہ عبرت حاصل کریں اور ایمان لائیں۔
تنبیہ : آیت کریمہ مَثَلُ نُوْرِہٖ کِمِشْکٰوۃٍ (الآیہ) اس میں تشبیہ معقول بالمحسوس ہے، نور اللہ سے اَدِلَّہ یا قرآن، یا توحید والشرایع، یا ہدایت مراد ہیں اور یہ مشبہ ہے اور نور مشکوٰۃ مع اپنی صفات کے مشبہ بہ ہے، تشبیہ کیلئے مشبہ کا اشہر ہونا کافی ہے، اقوی ہونا ضروری نہیں ہے لہٰذا تشبیہ مذکور درست ہے، مشبہ بہ میں چونکہ اجزاء نہیں ہیں کہ جس سے وجہ شبہ کو متنزع کیا جائے اور اس کی وجہ سے تشبیہ کو مرکب یا مفرق (مفرد) کہا جائے۔ (روح المعانی)
نیز بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر نورٌ بمعنی ہدایت ہو جس پر آیات مبینات دلالت کرتی ہیں تو اس صورت میں تشبیہ مرکب عقلی ہوگی اس لئے کہ اس صورت میں مشبہ سے ہیئت منتزعہ کو تشبیہ اس ہیئۃ منتزع سے ہے جو مشبہ بہ سے اتتزاع کی گئی ہے اس لئے کہ لفظ نور اگرچہ مفرد ہے مگر دال علی المتعدد ہے اس لئے کہ نور سے مراد متعدد چیزیں ہیں مثلاً ادلہ، قرآن، توحید و شرائع، ہدایت وغیرہ اسی طرح مشبہ بہ میں بھی متعدد چیزیں مراد ہیں، مشبہ بہ قلب مومن ہے جس کو اللہ نے نور ہدایت سے منور کیا ہے جو کہ علوم و معارف ہیں۔ (روح المعانی)
قولہ : بل بینھما یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ درخت نہ انتہائی مشرق میں ہے اور نہ مغرب میں بلکہ درمیان میں ہے، جس کو مشرق و سطیٰ کہتے ہیں، ملک شام بھی اسی علاقہ میں واقع ہے مشرق وسطیٰ کی آب و ہوا چونکہ معتدل ہے نہ زیادہ گرم ہے اور نہ سرد، اس لئے زیتون کا تیل نہایت صاف شفاف ہوتا ہے بخلاف انتہائی مشرق و مغرب کے کہ ان میں گرمی سردی زیادہ ہوتی ہے جو کہ مضر ہیں۔ قولہ : فی بیوت اس کا تعلق آئندہ آنے والے یُسَبِحُ سے ہے اس صورت میں ظرف یعنی (فیہا) تاکید کیلئے مکرر ہوگا، مفسر علام کا بھی یہی مختار ہے، اور محذوف کے متعلق بھی ہوسکتا ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی سبحوا ربکم فی بیوت اس صورت میں علیمٌ پر وقف ہوگا، اور یہ بھی درست ہے کہ فی بیوت کائن وغیرہ محذوف کے متعلق ہو کر مشکوٰۃٌ یا مصباح یا زجاجۃ کی صفت ہو یا توقد کے متعلق ہو، ان چاروں صورتوں میں علیمٌ پر وقف نہ ہوگا، قولہ : اذِن اللہ أن ترفَعَ یہ جملہ بیوت کی صفت ہے اَنْ ترفع الخ بتاویل مصدر ہو کر باحرف جار مقدر کا مجرور ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَمَرَ اللہُ بِرَفْعِھَا یُسَبِّحُ کو اگر فتح باء کے ساتھ پڑھا جائے تو لہٗ نائب فاعل ہوگا، اور رجال فعل محذوف کا فاعل ہوگا اور وہ فعل مقدر سوال مقدر کا جواب ہوگا جب کہا گیا یُسَبِّحُ لہٗ تو سوال پیدا ہوا مَنْ یُّسَبِّحُ قال رجلٌ لاتلھیھم تجارۃ۔
قولہ : لیجزیھم میں لام عاقبیہ کا ہے ای عاقِبَۃُ امرھم الجزاءُ الحسن، یسبح سے بھی متعلق ہوسکتا ہے ای یُسَبِّحُوْنَ لاجل الجزاء اور محذوف کے متعلق بھی ہوسکتا ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی فَعَلُوْا ذٰلک لِیَجزیَھُم اللہ۔ قولہ وَالذیَن کفرُوْا اعمالُھُمْ کسَرابٍ بِقِیْعَۃٍ والذین کفروْا موصول صلہ سے مل کر مبتداء اول والذین کی خبر ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ اعمالُھم والَّذینَ کفرُوْا سے بدل الاشتمال ہو اور کسرابٍ ، الذین کی خبر۔ قولہ : بِقیْعَۃ باء جارہ ہے اور قیعۃٌ قاع کی جمع ہے چٹیل میدان کو کہتے ہیں۔ قولہ : ظمآن ظمآن کی شدت حاجت کی وجہ سے تخصیص کی گئی ہے ورنہ تو ظمآن اور غیر ظمآن سب کو دوپہر کے وقت ریت دھوپ میں سراب (جاری پانی) نظر آتا ہے اَوْ کظلماتٍ او تقسیم کے لئے ہے یعنی کافر کے اعمال دو قسم کے ہیں ایک وہ جو سراب کے مانند ہوں گے یہ ان کے وہ اعمال صالحہ ہوں گے جو انہوں نے دنیا میں صدقہ و خیرات یا صلہ رحمی کی شکل میں کئے ہوں گے یہ بظاہر اعمال صالحہ ہیں مگر آخرت میں چونکہ ان کا کوئی صلہ نہیں اس لئے کچھ نہیں دوسرے ان کے اعمال سیئہ ہوں گے ان کی مثال ظلمات کی سی ہے، ظلمات کا عطف کسرابٍ پر ہے حذف مضاف کے ساتھ، تقدیر عبارت یہ ہے او کذی ظلماتٍ ۔
تنبیہ : اَوْ کظُلُماتٍ الخ میں تشبیہ مرکب بالمرکب ہے آیت میں تین قسم کی ظلمتوں کو تین قسم کی ظلمتوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ظلمت اعتقاد، ظلمت قول، ظلمت فعل کو تشبیہ دی گئی ہے ظلمت بحر، ظلمت امواج، ظلمت سحاب کے ساتھ۔
تفسیر و تشریح
اللہ نور السموت والارض، اس آیت کو اہل علم آیت نور لکھتے ہیں اس آیت میں نور ایمان اور ظلمت کفر کو بڑی تفصیل سے مثال کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے۔
نور کی تعریف : ایک تعریف تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان تحریر کی جا چکی ہے یہ دوسری تعریف ہے، امام غزالی نے نور کی تعریف اس طرح بیان فرمائی ہے النور الظاھر بنفسہٖ والمظھر لغیرہٖ یعنی خود اپنی ذات میں ظاہر اور روشن ہو اور دیگر اشیاء کو ظاہر اور روشن کرنے والا ہو، اور تفسیر مظہری میں ہے کہ نور دراصل اس کیفیت کا نام ہے جس کو انسان کی قوت باصرہ پہلے ادراک کرتی ہے اور پھر اس کے ذریعہ ان تمام چیزوں کا ادراک کرتی ہے جو آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں، جیسے آفتاب اور چاند کی شعائیں اپنے مقابل اجسام کثیفہ پر پڑ کر اول اس چیز کو روشن کردیتی ہیں پھر اس سے شعاعیں منعکس ہو کر دوسری چیزوں کو روشن کردیتی ہیں، اس سے معلوم ہوا لفظ نور کا اطلاق اپنے لغوی اور عرفی معنی کے اعتبار سے حق تعالیٰ شانہ کی ذات پر نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جسم اور جسمانیات میں سے بری اور پاک ہے اس لئے آیت مذکورہ میں جو حق تعالیٰ کیلئے لفظ نور کا اطلاق ہوا ہے اس کے معنی باتفاق ائمہ تفسیر منور یعنی روشن کرنے والے کے ہیں یا پھر مبالغہ کے طور پر صاحب نور کو نور سے تعبیر کردیا گیا ہے جیسے صاحب عدل کو عدل کہہ دیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کی تمام مخلوق کو منور کرنے والے، نور بخشنے والے ہیں اور نور سے نور ہدایت مراد ہے، ابن کثیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس کی تفسیر میں نقل کیا ہے ” اللہُ ھادی اھل السمٰوات والارض “۔
نور مؤمن : مثل نورہ کمشکوۃ (الآیہ) اللہ تعالیٰ کا نور ہدایت جو قلب مومن میں آتا ہے یہ اس کی ایک عجیب مثال ہے، ابن جریر نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے اس کی تفسیر میں نقل کیا ہے ھو المومن الذی جعل اللہ الایمان والقرآن فی صدرہ فَضَرَبَ اللہ مثلہ فقال اللہ نورُ السمٰوات والارض فبدأ بنور نفسہٖ ثمَّ ذکرَ نور المومنِ فقال مَثَلُ نور مَنْ آمَنَ بہٖ فکان ابی بن کعب یقرأھا مثَلُ نور مَنْ آمَنَ بہٖ ۔ (ابن کثیر)
یعنی یہ مثال اس مومن کی ہے جس کے دل میں اللہ نے ایمان اور قرآن کا نور ہدایت ڈال دیا ہے اس آیت میں پہلے تو اللہ نے خود اپنے نور کا ذکر فرمایا اللہ نُورُ السَّمٰوات والارْضِ پھر قلب مومن کے نور کا ذکر فرمایا مَثَ نورہٖ اور اس آیت کی قرأت بھی حضرت ابی بن کعب کی مَثلُ نورہٖ کے بجائے مَثَلُ نور مَنْ آمَنَ بہٖ کی ہے، مَثَلُ نورہٖ کی ضمیر کے متعلق ائمہ تفسیر کے دو قول ہیں ایک یہ کہ یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ کا نور ہدایت جو مومن کے قلب میں فطرۃُ رکھا گیا ہے اس کی مثال کمشکٰوۃ الخ ہے یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ضمیر مومن کی طرف راجع ہے جس پر سیاق کلام دلالت کر رہا ہے اس لئے حاصل اس مثال کا یہ ہے کہ مومن کا سینہ ایک طاق کی مثل ہے اس میں اس کا دل ایک قندیل کی مثل ہے اس میں نہایت شفاف روغن زیتون فطری نور ہدایت کی مثل ہے جو مومن کی فطرت میں ودیعت رکھا گیا ہے جس کا خاصہ خود بخود ہی قبول حق کا ہے پھر جس طرح روغن زیتون آگ کے شعلہ سے روشن ہو کر دوسروں کو روشن کرنے لگتا ہے اسی طرح فطری نور ہدایت جو قلب مومن میں رکھا گیا ہے جب وحی الٰہی اور علم الہٰی کے ساتھ اس کا اتصال ہوجاتا ہے تو روشن ہو کر عالم کو روشن کرنے لگتا ہے یہ نور ہدایت اگرچہ آغاز تخلیق میں ہر فرد کے قلب میں ودیعت رکھا گیا ہے، مومن کے ساتھ خاص نہیں ہے مگر چونکہ اس کا فائدہ مومن کو ہوتا ہے اس لئے مثال میں قلب مومن کو خاص فرمایا ہے، ایک حدیث سے بھی اس عموم کی تائید ہوتی ہے کل مولود یولد علی الفطرۃ یعنی ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اس کو فطرت کے تقاضوں سے ہٹا کر غلط راستوں پر ڈال دیتے ہیں، اس فطرت سے مراد ہدایت ایمان ہے۔ (معارف)
نور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : امام بغوی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے کعب احبار جو توریت و انجیل کے بڑے مسلمان عالم تھے، انہوں نے فرمایا کہ یہ مثال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک کی بیان کی گئی ہے مشکوٰۃ آپ کا سینہ ہے زجاجۃ (قندیل) آپ کے قلب مبارک ہے اور مصباح (چراغ) نبوت ہے، اور اس نور ہدایت کا خاصہ یہ ہے کہ نبوت کے اظہار و اعلان سے پہلے ہی اس میں لوگوں کیلئے روشنی کا سامان ہے پھر جب وحی الٰہی اور اس کے اعلان کا اس کے ساتھ اتصال ہوجاتا ہے تو یہ ایسا نور ہوتا ہے کہ سارے عالم کو روشن کرنے لگتا ہے۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اظہار نبوت، بعثت بلکہ آپ کی پیدائش سے بھی پہلے جو بہت سے عجیب و غریب واقعات عالم میں ایسے پیش آئے جو آپ کی نبوت کی بشارت دینے والے تھے جن کو اصطلاح محدیثن میں ارہاصات کہا جاتا ہے، جن کو بہت سے علماء نے مستقل کتاب کے طور پر جمع کردیا ہے، شیخ جلال الدین سیوطی (رح) نے خصائص کبریٰ میں، اور ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں جمع کردیا ہے
قولہ : فی بُیُوتٍ اَذِنَ اللہُ (الآیہ) سابقہ آیت میں حق تعالیٰ نے قلب مومن میں اپنا نور ہدایت ڈالنے کی ایک خاص مثال بیان فرمائی تھی، اور آخر میں یہ فرمایا تھا کہ اس نور سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جن کو اللہ توفیق عطا فرماتے ہیں، اس آیت میں ایسے مومن کا محل اور مستقر بیان فرمایا گیا ہے کہ ایسے مومنین کا اصل مقام و مستقر جہاں وہ اکثر اوقات رہتے ہیں خصوصاً پانچ وقت نمازوں کے اوقات میں دیکھے جاتے ہیں وہ بیوت (مساجد) ہیں جن کیلئے اللہ کا حکم یہ ہے کہ ان کو بلندو الا رکھا جائے اور ان میں اللہ کا نام ذکر کیا جائے۔
آیت کی اس تقریر کی بنا اس پر ہے کہ نحوی ترکیب میں فی بیوتٍ کا تعلق (یھدی اللہ لنورہٖ ) کے ساتھ ہو اَذِنَ اللہُ ان تُرفَعَ ، اَذِنَ اِذْنٌ سے مشتق ہے اس کے معنی اجازت دینے کے ہیں اور تُرْفَعَ رفعٌ سے مشتق ہے جس کے معنی بلند کرنا اور تعظیم کرنے کے ہیں آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ مساجد کی تعظیم کی جائے یعنی ان میں لغوکام اور لغوکلام کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) ۔ عکرمہ اور مجاہد امام تفسیر نے فرمایا، رفع سے مراد مسجد بنانا ہے جیسے بناء کعبہ کے متعلق قرآن میں آیا ہے اِذْ یَرفَعُ اِبْرَاھِیْمُ القَوَاعِدَ مِنَ البَیْتِ اس آیت میں رفع قواعد سے مراد بناء قواعد ہے اور حسن بصری (رح) نے فرمایا رفع مساجد سے مراد مساجد کی تعظیم ہے۔
یْسَبَّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالغُدُوِّ وَالآصَالِ الغُدُوّ غداۃٌ کی جمع ہے یا مصدر ہے اس کا اطلاق وقت کیلئے ہوا ہے اور آصال اصیل کی جمع ہے جیسے شریف کی جمع اشراف ہے، ایک جماعت نے اس کو اختیار کیا ہے حالانکہ فعیل کی جمع افعال قیاسی نہیں ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مناسب اوقات میں خدا کو یاد کرتے ہیں، بعض مفسرین نے غُدُوٌ سے صبح کی نماز مراد لی ہے، اور آصال میں باقی چار نمازیں داخل کی ہیں اس لئے کہ اصیل زوال شمس سے صبح تک کے اوقات کو کہتے ہیں۔
قولہ : لا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَلاَ بَیْعٌ عن ذِکْرِ اللہِ اس میں ان مومنین کی ایک خاص صفت بیان کی گئی ہے جو اللہ کے نور ہدایت کے خاص مقامات اور مساجد کو آباد رکھتے ہیں، اس میں رجال کی تعبیر میں اس طرف اشارہ ہے کہ مساجد کی حاضری دراصل مردوں ہی کے لئے ہے عورتوں کی نماز ان کے گھروں میں افضل ہے، مسند احمد اور بیہقی میں حضرت ام سلمہ (رض) کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خیر مساجِدِ النِّساءِ قَعْرَ بَیْتِھِنَّ یعنی عورتوں کی بہترین مساجد ان کے گھر کے تنگ و تاریک گوشے ہیں، اس آیت میں مومنین صالحین کی یہ صفت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان کو تجارت خریدو فروخت اور لین دین کا مشغلہ اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتا۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت بازار والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ان کے صاحبزادے حضرت سالم نے فرمایا کہ ایک روز حضرت عبداللہ بن عمر بازار سے گذرے تو نماز کا وقت ہوگیا تھا لوگوں کو دیکھا کہ دکانیں بند کرکے مسجد کی طرف جا رہے ہیں تو فرمایا انہی لوگوں کے بارے میں قرآن کا یہ ارشاد ہے رِجَالٌ لاتُلْھِیْھِمْ تِجارۃ ولاَبَیْعٌ عنْ ذِکْرِ اللہِ ۔
عہد رسالت میں دو صحابی تھے، ایک تجارت کرتے تھے اور دوسرے لوہار کا کام کرتے اور تلوار بنا کر بیچتے تھے، پہلے صحابی کی تجارت کا یہ حال تھا کہ اگر سودا تولنے کے وقت اذان کی آواز کان میں پڑگئی تو ترازو کو پٹک کر نماز کیلئے کھڑے ہوجاتے تھے، اور دوسرے بزرگ کا یہ عالم تھا کہ اگر گرم لوہے پر ہتھوڑے کی ضرب لگا رہے ہیں اور کان میں اذان کی آواز آگئی تو اگر ہتھوڑا مونڈھے پر اٹھائے ہوئے ہیں تو ہتھوڑا مونڈھے کے پیچھے ڈال کر نماز کو چل دیتے تھے، اٹھائے ہوئے ہتھوڑے کی ضرب سے کام لینا بھی گوارا نہیں تھا، ان کی مدح میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (قرطبی)
یوما۔۔۔۔ والابصار اس آیت کا مطلب یہ ہے اس روز دل وہ باتیں سمجھ لیں گے جو ابھی تک نہیں سمجھتے تھے، اور آنکھیں وہ ہولناک واقعات دیکھیں گی جو کبھی نہ دیکھے تھے، یا مطلب یہ ہے کہ قلوب میں کبھی نجات کی توقع پیدا ہوگی اور کبھی ہلاکت اور خوف کا اندیشہ اور آنکھیں کبھی داہنی جانب دیکھیں گی اور کبھی بائیں جانب کہ کس طرف سے پکڑے جائیں ؟ یا اعمال نامے کس جانب سے ملتے ہیں ؟ دائیں جانب سے یا بائیں جانب سے ؟
والذین۔۔۔ کسراب (الآیہ) کافر دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اپنے خیال اور عقیدے کے اعتبار سے کچھ اچھے کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد یہ کام آئیں گے، حالانکہ اگر کوئی کام بظاہر اچھا بھی ہو تو وہ کفر کی نحوست سے عند اللہ مقبول و معتبر نہیں، ان فریب خوردہ کافروں کی مثال ایسی سمجھو کہ دوپہر کے وقت جنگل میں ایک پیاسے کو دور سے پانی دکھائی دیا اور وہ حقیقت میں چمکتی ہوئی ریت تھی پیاسا شدت تشنگی سے بیتاب ہو کر وہاں پہنچا تو پانی وانی کچھ نہیں، ہاں ہلاکت کی گھڑی سامنے کھڑی تھی، اور اللہ تعالیٰ عمر بھر کا حساب لینے کیلئے وہاں موجود تھا چناچہ اضطراب و حسرت کے وقت اللہ تعالیٰ نے اس کا حساب ایک دم میں چکا دیا کیونکہ وہاں حساب کرتے کیا دیر لگتی ہے، کافر کی دوسری قسم وہ ہے جو سر سے پاؤں تک دنیا کے مزوں میں غرق اور کفر و جہل، ظلم و عصیان کی اندھیریوں میں پڑے گو طے کھا رہے ہیں ان کی مثال آگے بیان فرمائی، ان کے پاس روشنی کی اتنی بھی چمک نہیں جتنی کہ سراب سے دھوکا کھانے والے کو نظر آتی تھی، یہ لوگ خالص اندھیریوں میں اور تہہ بہ تہہ ظلمات میں بند ہیں کسی طرف سے
روشنی کی شعاع اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے، نعوذ باللہ منہا، کافروں کی اسی قسم کو اَوْ کظُلُمٰتٍ فی بحرٍ لُجِّیٍ (الآیہ) سے بیان فرمایا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ للّٰـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” اللہ تعالیٰ(حسی اور معنوی طور پر) آسمانوں اور زمین کا نور ہے“ اللہ تعالیٰ بذات خود نور ہے اس کا حجاب نور ہے۔ اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کے چہرہ مبارک کے انوار جلال حد نگاہ تک تمام مخلوق کو جلا کر راکھ کردیں۔ اس کے نور سے عرش، کرسی، سورج، چاند اور جنت منور ہیں۔۔۔ اسی طرح معنوی نور کا منبع بھی اللہ تعالیٰ ہے اس کی کتاب نور ہے، اس کی شریعت نور ہے، ایمان نور ہے، اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کے مومن بندوں کے دلوں میں موجود معرفت الہی نور ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا نور نہ ہو تو گمراہیوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے چھا جائیں، ﴿ مَثَلُ نُورِهِ ﴾’’اس کے نور کی مثال “یعنی وہ نور جس کی طرف اللہ تعالیٰ راہ نمائی فرماتا ہے اور وہ اہل ایمان کے دلوں میں ایمان اور قرآن کا نور ہے۔ ﴿ كَمِشْكَاةٍ ﴾ ” ایک طاق کی مانند ہے“ ﴿ فِيهَا مِصْبَاحٌ ﴾ ” جس میں چراغ ہو شیشے کے فانوس میں رکھا ہوا ہو اور وہ فانوس“ اپنی صفائی اور خوبصورتی کی وجہ سے یوں لگے ﴿ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ ﴾ ” جیسے وہ چمکتا ہوا ستارہ ہو“ یعنی وہ موتی کی مانند چمکتا ہو۔ ﴿ يُوقَدُ ﴾” جلایا جائے“ یعنی وہ چراغ جو اس چمک دار فانوس کے اندر ہے ﴿ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ ﴾ یعنی وہ زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے جس کا شعلہ سب سے زیادہ روشن ہوتا ہے۔
﴿ لَّا شَرْقِيَّةٍ ﴾ یعنی وہ فقط مشرقی جانب نہیں کہ دن کے آخری حصے میں اس کو سورج کی روشنی نہ پہنچتی ہو ﴿ وَلَا غَرْبِيَّةٍ ﴾ اور وہ فقط مغربی جانب بھی نہیں کہ دن کے پہلے حصے میں اس کو سورج کی روشنی حاصل نہ ہوتی ہو۔ جب یہ دونوں امور نہیں تو وہ زمین کے درمیان میں اگا ہوا ہے۔ جیسے ملک شام کا زیتون، جسے صبح و شام سورج کی روشنی حاصل ہوتی ہے اس وجہ سے وہ نہایت عمدہ ہوتا ہے اور اس کا تیل انتہائی صاف ہوتا ہے، اس لیے فرمایا : ﴿ يَكَادُ زَيْتُهَا ﴾ ” قریب ہے کہ اس کا تیل۔“ یعنی انتہائی صاف ہونے کی وجہ سے ﴿ يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ﴾ ” آپ ہی روشنی دینے لگے، اگرچہ اسے اگ بھی نہ چھوئے۔“ اور جب اسے آپ چھوئے تو بہت زیادہ روشنی ہو ﴿ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ﴾ ”روشنی پر روشنی۔“ یعنی آگ کی روشنی اور زیتون کے تیل کی روشنی۔
یہ مثال جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے اور اسے مومن کے احوال کے ساتھ تطبیق دی ہے نیز یہ کہ اس کا قلب اللہ تعالیٰ کے نور سے منور ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی فطرت جس پر اسے پیدا کیا گیا ہے وہ زیتون کے پاس صاف تیل کی مانند ہے۔ پس اس کی فطرت صاف اور تعلیمات الٰہیہ اور اعمال مشروعہ کے لیے مستعد ہے جب۔ جب اس کے پاس علم و ایمان پہنچتا ہے تو یہ نور اس کے قلب میں روشن ہوجاتا ہے جیسے آگ چراغ کی بتی کو روشن کردیتی ہے۔ اس کا قلب برے ارادوں اور فہم کی خرابی سے پاک ہوتا ہے۔ جب قلب میں ایمان جاگزیں ہوتا ہے تو تمام کدورتوں سے پاک ہونے کی وجہ سے اس نور سے جگمگا اٹھتا ہے اور قلب کی یہ صفائی، موتی کی طرح چمکتے ہوئے فانوس کی مانند ہے۔ پس قلب میں نور فطرت، نور ایمان، نور علم اور معرفت کی صفائی، موتی کی طرح چمکتے ہوئے فانون کی مانند ہے۔ پس قلب میں نور فطرت، نور ایمان، نور علم اور معرفت کی صفائی تمام اسباب مجتمع ہوجاتے ہے۔ اور یوں قلب میں روشنی پر روشنی بڑھتی چلی جاتی ہے اور چونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور ہر کسی میں اس نور کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اس لیے فرمایا : ﴿ يَهْدِي اللّٰـهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ﴾ ” رہنمائی کرتا ہے اللہ اپنے نور کے لیے جس کی چاہتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ اپنے نور کے لیے صرف اسی کی راہ نمائی کرتا ہے جس کے متعلق اسے علم ہے کہ وہ پاک اور طیب و طاہر ہے اور یہ نور اس کی معیت میں مزید بڑھے گا۔ ﴿ وَيَضْرِبُ اللّٰـهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے“ تاکہ وہ اس سے عقل و فہم حاصل کریں یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان ہے، نیز یہ مثالیں اس لیے بھی بیان کی گئی ہیں تاکہ باطل سے حق واضح ہوجائے کیونکہ ضرب الامثال معانی معقولہ کو محسواسات کے قریب کردیتی ہیں اور بندوں کو واضح طور پر ان کا علم حاصل ہوجاتا ہے۔
﴿ وَاللّٰـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ پس اس کا علم تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس لیے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ضرب الامثال اس ہستی کی بیان کی ہوئی ہیں جو تمام اشیاء کے حقائق اور ان کی تفاصیل کو جانتی ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ ان میں بندوں کے لیے مصلحت ہے پس تمہیں ان پر اعتراض اور ان کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ تمہیں ان میں تدبر اور غورو فکر کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے تو نہیں جانتے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah tamam aasmano aur zameen ka noor hai . uss kay noor ki misal kuch yun hai jaisay aik taaq ho jiss mein chiragh rakha ho , chiragh aik sheeshay mein ho , sheesha aisa ho jaisay aik sitara , moti ki tarah chamakta huwa ! woh chiragh aesay barkat walay darkht yani zaitoon say roshan kiya jaye jo naa ( sirf ) mashriqi ho naa ( sirf ) maghribi , aisa lagta ho kay uss ka tel khud hi roshni deydey ga , chahye ussay aag bhi naa lagay . noor balaye noor ! Allah apney noor tak jissay chahta hai , phoncha deta hai , aur Allah logon kay faeeday kay liye tamseelen biyan kerta hai , aur Allah her cheez ko khoob janney wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مدبر کائنات نور ہی نور ہے
ابن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ اللہ ہادی ہے، آسمان والوں اور زمین والوں کا۔ وہی ان دونوں میں سورج چاند اور ستاروں کی تدبیر کرتا ہے۔ حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں اللہ کا نور ہدایت ہے۔ ابن جریر اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس کے نور کی مثال یعنی اس کا نور رکھنے والے مومن کی مثال جن کے سینے میں ایمان و قرآن ہے، اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ اولا اپنے نور کا ذکر کیا پھر مومن کی نورانیت کا کہ اللہ پر ایمان رکھنے والے کے نور کی مثال بلکہ حضرت ابی اس کو اس طرح پڑھتے تھے آیت (مثل نور من امن بہ) ابن عباس کا اس طرح پڑھنا بھی مروی ہے آیت (کذالک نور من امن باللہ) بعض کی قرأت میں اللہ نور ہے یعنی اس نے آسمان و زمین کو نورانی بنادیا ہے۔ سدی (رح) فرماتے ہیں اسی کے نور سے آسمان و زمین روشن ہیں۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ جس دن اہل طائف نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت ایذاء پہنچائی تھی آپ نے اپنی دعا میں فرمایا تھا دعا (اعوذ بنور وجہک الذی اشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ امر الدنیا والاخرۃ ان یحل بی غضبک او ینزل بی سخطک لک العتبی حتی ترضی ولا حول ولا قوۃ الا باللہ) اس دعا میں ہے کہ تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ میں آرہا ہوں جو اندھیروں کو روشن کردیتا ہے اور جس پر دنیا آخرت کی صلاحیت موقوف ہے الخ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تہجد کے لئے اٹھتے تب یہ فرماتے کہ " اللہ تیرے ہی لئے ہے سب تعریف سزاوار ہے تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا نور ہے " ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں تمہارے رب کے ہاں رات اور دن نہیں، اس کے چہرے کے نور کی وجہ سے اس کے عرش کا نور ہے۔ نورہ کی ضمیر کا مرجع بعض کے نزدیک تو لفظ اللہ ہی ہے یعنی اللہ کی ہدایت جو مومن کے دل میں ہے اس کی مثال یہ ہے اور بعض کے نزدیک مومن ہے جس پر سیاق کلام کی دلالت ہے یعنی مومن کے دل کے نور کی مثال مثل طاق کے ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ ایک شخص ہے جو اپنے رب کی دلیل اور ساتھ ہی شہادت لئے ہوئے ہے پس مومن کے دل کی صفائی کو بلور کے فانوس سے مشابہت دی اور پھر قرآن اور شریعت سے جو مدد اسے ملتی رہتی ہے اس کی زیتون کے اس تیل سے تشبیہ دی جو خود صاف شفاف چمکیلا اور روشن ہے۔ پس طاق اور طاق میں چراغ اور وہ بھی روشن چراغ۔ یہودیوں نے اعتراضا کہا تھا کہ اللہ کا نور آسمانوں کے پار کیسے ہوتا ہے ؟ تو مثال دے کر سمجھایا گیا کہ جیسے فانوس کے شیشے سے روشنی۔ پس فرمایا کہ اللہ آسمان زمین کا نور ہے۔ مشکۃ کے معنی گھر کے طاق کے ہیں یہ مثال اللہ نے اپنی فرمانبرداری کی دی ہے اور اپنی اطاعت کو نور فرمایا ہے پھر اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں۔ حبشہ کی لغت میں اسے طاق کہتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں ایسا طاق جس میں کوئی اور
سوراخ وغیرہ نہ ہو۔ فرماتے ہیں اسی میں قندیل رکھی جاتی ہے۔ پہلا قول زیادہ قوی ہے یعنی قندیل رکھنے کی جگہ۔ چناچہ قرآن میں بھی ہے کہ اس میں چراغ ہے۔ پس مصباح سے مراد نور ہے یعنی قرآن اور ایمان جو مسلمان کے دل میں ہوتا ہے۔ سدی (رح) کہتے ہیں چراغ مراد ہے پھر فرمایا یہ روشنی جس میں بہت ہی خوبصورتی ہے، یہ صاف قندیل میں ہے، یہ مومن کے دل کی مثال ہے۔ پھر وہ قندیل ایسی ہے جیسے موتی جیسا چمکیلا روشن ستارہ۔ اس کی دوسری قرأت درءی اور دراءی بھی ہے۔ یہ ماخوذ ہے در سے جس کے معنی دفع کے ہیں۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ٹوٹتا ہے اس وقت وہ بہت روشن ہوتا ہے اور جو ستارے غیر معروف ہیں انہیں بھی عرب دراری کہتے ہیں۔ مطلب چمکدار اور روشن ستارہ ہے جو خوب ظاہر ہو اور بڑا ہو۔ پھر اس چراغ میں تیل بھی مبارک درخت زیتون کا ہو۔ زیتونتہ کا لفظ بدل ہے یا عطف بیان ہے۔ پھر وہ زیتون کا درخت بھی نہ مشرقی ہے کہ اول دن سے اس پر دھوپ آجائے۔ اور نہ مغربی ہے کہ غروب سورج سے پہلے اس پر سے سایہ ہٹ جائے بلکہ وسط جگہ میں ہے۔ صبح سے شام تک سورج کی صاف روشنی میں رہے۔ پس اس کا تیل بھی بہت صاف، چمکدار اور معتدل ہوتا ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ درخت میدان میں ہے کوئی درخت، پہاڑ، غار یا کوئی اور چیز اسے چھپائے ہوئے نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس درخت کا تیل بہت صاف ہوتا ہے۔ عکرمہ (رح) فرماتے ہیں کہ صبح سے شام تک کھلی ہوا اور صاف دھوپ اسے پہنچتی رہتی ہے کیونکہ وہ کھلے میدان میں درمیان کی جگہ ہے۔ اسی وجہ سے اس کا تیل بہت پاک صاف اور روشن چمک دار ہوتا ہے اور اسے نہ مشرقی کہہ سکتے ہیں نہ مغربی۔ ایسا درخت بہت سرسبز اور کھلا ہوتا ہے پس جیسے یہ درخت آفتوں سے بچا ہوا ہوتا ہے، اسی طرح مومن فتنوں سے محفوظ ہوتا ہے اگر کسی فتنے کی آزمائش میں پڑتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدم رکھتا ہے۔ پس اسے چار صفتیں قدرت دے دیتی ہے
\0\01 بات میں سچ
\0\02 حکم میں عدل
\0\03 بلا پر صبر
\0\04 نعمت پر شکر پھر وہ اور تمام انسانوں میں ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی زندہ جو مردوں میں ہو۔ حسن بصری (رح) فرماتے ہیں اگر یہ درخت دنیا میں زمین پر ہوتا تو ضرور تھا کہ مشرقی ہوتا یا مغربی لیکن یہ تو نور الہٰی کی مثال ہے۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ مثال ہے نیک مرد کی جو نہ یہودی ہے نہ نصرانی۔ ان سب اقول میں بہترین قول پہلا ہے کہ وہ درمیانہ زمین میں ہے کہ صبح سے شام تک بےروک ہوا اور دھوپ پہنچتی ہے کیونکہ چاروں طرف سے کوئی آڑ نہیں تو لامحالہ ایسے درخت کا تیل بہت زیادہ صاف ہوگا اور لطیف اور چمکدار ہوگا۔ اسی لئے فرمایا کہ خود وہ تیل اتنا لطیف ہے کہ گویا بغیر جلائے روشنی دے۔ نور پر نور ہے۔ یعنی ایمان کا نور پھر اس پر نیک اعمال کا نور۔ خود زیتون کا تیل روشن پھر وہ جل رہا ہے اور روشنی دے رہا ہے پس اسے پانچ نور حاصل ہوجاتے ہیں اس کا کلام نور ہے اس کا عمل نور ہے۔ اس کا آنا نور اس کا جانا نور ہے اور اس کا آخری ٹھکانا نور ہے یعنی جنت۔ کعب (رح) سے مروی ہے کہ یہ مثال ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کہ آپ کی نبوت اس قدر ظاہر ہے کہ گو آپ زبانی نہ بھی فرمائیں تاہم لوگوں پر ظاہر ہوجائے۔ جیسے یہ زیتون کہ بغیر روشن کئے روشن ہے۔ تو دونوں یہاں جمع ہیں ایک زیتون کا ایک آگ کا۔ ان کے مجموعے سے روشنی حاصل ہوتی ہوئی۔ اسی طرح نور قرآن نور ایمان جمع ہوجاتے ہیں اور مومن کا دل روشن ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے پسند فرمائے، اپنی ہدایت کی راہ لگا دیتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو ایک اندھیرے میں پیدا کیا پھر اس دن ان پر اپنا نور ڈالا جیسے وہ نور پہنچا اس نے راہ پائی اور جو محروم رہا وہ گمراہ ہوا۔ اس لئے کہتا ہوں کہ قلم اللہ کے علم کے مطابق چل کر خشک ہوگیا۔ (مسند وغیرہ)
اللہ تعالیٰ نے مومن کے دل کی ہدایت کی مثال نور سے دے کر پھر فرمایا کہ اللہ یہ مثالیں لوگوں کے سمجھنے لگ لئے بیان فرما رہا ہے، اسکے علم میں بھی کوئی اس جیسا نہیں، وہ ہدایت و ضلالت کے ہر مستحق کو بخوبی جانتا ہے۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے دلوں کی چار قسمیں ہیں ایک تو صاف اور روشن، ایک غلاف دار اور بندھا ہوا، ایک یلٹا اور اور اوندھا، ایک پھرا ہوا الٹا سیدھا۔ پہلا دل تو مومن کا دل ہے جو نورانی ہوتا ہے۔ اور دوسرا دل کافر کا دل ہے اور تیسرا دل منافق کا دل ہے کہ اس نے جانا پھر انجان ہوگیا۔ پہچان لیا پھر منکر ہوگیا۔ چوتھا دل وہ دل ہے جس میں ایمان بھی ہے اور نفاق بھی ہے۔ ایمان کی مثال تو اس میں ترکاری کے درخت کی مانند ہے کہ اچھا پانی اسے بڑھا دیتا ہے اور اس میں نفاق کی مثال دمثل پھوڑے کے ہے کہ خون پیپ اسے ابھاردیتا ہے۔ اب ان میں سے جو غالب آگیا وہ اس دل پر چھا جاتا ہے۔