وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَٮِٕنْ اَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۚ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا ۚ طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ ۗ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
یہ (منافق) اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ "آپ حکم دیں تو ہم گھروں سے نکل کھڑے ہوں" اِن سے کہو "قسمیں نہ کھاؤ، تمہاری اطاعت کا حال معلوم ہے، تمہارے کرتوتوں سے اللہ بے خبر نہیں ہے"
English Sahih:
And they swear by Allah their strongest oaths that if you ordered them, they would go forth [in Allah's cause]. Say, "Do not swear. [Such] obedience is known. Indeed, Allah is [fully] Aware of that which you do."
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
یہ (منافق) اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ "آپ حکم دیں تو ہم گھروں سے نکل کھڑے ہوں" اِن سے کہو "قسمیں نہ کھاؤ، تمہاری اطاعت کا حال معلوم ہے، تمہارے کرتوتوں سے اللہ بے خبر نہیں ہے"
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں حد کی کوشش سے کہ اگر تم انہیں حکم دو گے تو وہ ضرور جہاد کو نکلیں گے تم فرماؤ قسمیں نہ کھاؤ موافق شرع حکم برداری چاہیے، اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو
احمد علی Ahmed Ali
اور الله کی پکی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں تو سب کچھ چھوڑ کر نکل جائیں کہہ دو قسمیں نہ کھاؤ دستور کے موافق فرمانبرداری چاہیئے بے شک الله جانتا ہے جو تم کرتے ہو
أحسن البيان Ahsanul Bayan
بڑی پختگی کے ساتھ اللہ تعالٰی کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ آپ کا حکم ہوتے ہی نکل کھڑے ہونگے۔ کہہ دیجئے کہ بس قسمیں نہ کھاؤ (تمہاری) اطاعت (کی حقیقت) معلوم ہے (١) جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالٰی اس سے باخبر ہے۔
٥٣۔١ اور وہ یہ ہے کہ جس طرح تم قسمیں جھوٹی کھاتے ہو، تمہاری اطاعت بھی نفاق پر مبنی ہے۔ بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تمہارا معاملہ اطاعت معروف ہونا چاہیئے۔ یعنی معروف میں بغیر کسی قسم کے حلف کے اطاعت، جس طرح مسلمان کرتے ہیں، پس تم بھی ان کی مثل ہو جاؤ۔ (ابن کثیر)
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور (یہ) خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تم ان کو حکم دو تو (سب گھروں سے) نکل کھڑے ہوں۔ کہہ دو کہ قسمیں مت کھاؤ، پسندیدہ فرمانبرداری (درکار ہے) ۔ بےشک خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
بڑی پختگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ آپ کا حکم ہوتے ہی نکل کھڑے ہوں گے۔ کہہ دیجیئے کہ بس قسمیں نہ کھاؤ (تمہاری) اطاعت (کی حقیقت) معلوم ہے۔ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور یہ (منافق) اپنے مقدور بھر اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں گے تو وہ (اپنے گھروں سے بھی) نکل کھڑے ہوں گے آپ کہیئے کہ تم قسمیں نہ کھاؤ۔ پس معروف و معلوم فرمانبرداری مطلوب ہے۔ بےشک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ان لوگوں نے باقاعدہ قسم کھائی ہے کہ آپ حکم دے دیں گے تو یہ گھر سے باہر نکل جائیں گے تو آپ کہہ دیجئے کہ قسم کی ضرورت نہیں ہے عمومی قانون کے مطابق اطاعت کافی ہے کہ یقینا اللرُ ان اعمال سے باخبر ہے جو تم لوگ انجام دے رہے ہو
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور وہ لوگ اللہ کی بڑی بھاری (تاکیدی) قَسمیں کھاتے ہیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں تو وہ (جہاد کے لئے) ضرور نکلیں گے، آپ فرما دیں کہ تم قَسمیں مت کھاؤ (بلکہ) معروف طریقہ سے فرمانبرداری (درکار) ہے، بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہو،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
مکار منافق
اہل نفاق کا حال بیان ہو رہا ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر اپنی ایمانداری اور خیر خواہی جتاتے ہوئے قسمیں کھا کھا کر یقین دلاتے تھے کہ ہم جہاد کیلئے تیار بیٹھے ہیں بلکہ بےقرار ہیں، آپ کے حکم کی دیر ہے فرمان ہوتے ہی گھر بار بال بچے چھوڑ کر میدان جنگ میں پہنچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے ان سے کہہ دو کہ قسمیں نہ کھاؤ تمہاری اطاعت کی حقیقت تو روشن ہے، زبانی ڈینگیں بہت ہیں، عملی حصہ صفر ہے۔ تمہاری قسموں کی حقیقت بھی معلوم ہے، دل میں کچھ ہے، زبان پر کچھ ہے، جتنی زبان مومن ہے اتنا ہی دل کافر ہے۔ یہ قسمیں صرف مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ ان قسموں کو تو یہ لوگ ڈھال بنائے ہوئے ہیں تم سے ہی نہیں بلکہ کافروں کے سامنے بھی ان کی موافقت اور ان کی امداد کی قسمیں کھاتے ہیں لیکن اتنے بزدل ہیں کہ ان کا ساتھ خاک بھی نہیں دے سکتے۔ اس جملے کے ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ تمہیں تو معقول اور پسندیدہ اطاعت کا شیوہ چاہے نہ کہ قسمیں کھانے اور ڈینگیں مارنے کا۔ تمہارے سامنے مسلمان موجود ہیں دیکھو نہ وہ قسمیں کھاتے ہیں نہ بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں، ہاں کام کے وقت سب سے آگے نکل آتے ہیں اور فعلی حصہ بڑھ چڑھ کرلیتے ہیں۔ اللہ پر کسی کا کوئی عمل مخفی نہیں وہ اپنے بندوں کے ایک ایک عمل سے باخبر ہے۔ ہر عاصی اور مطیع اس پر ظاہر ہے۔ ہر ایک باطن پر بھی اس کی نگاہیں ویسی ہی ہیں جیسی ظاہر پر، گو تم ظاہر کچھ کرو لیکن وہ باطن پر بھی اگاہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یعنی قرآن اور حدیث کی اتباع کرو اگر تم اس سے منہ موڑ لو، اسے چھوڑ دو تو تمہارے اس گناہ کا وبال میرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نہیں۔ اس کے ذمے تو صرف پیغام الہٰی پہنچانا اور ادائے امانت کردینا ہے۔ تم پر وہ ہے جس کے ذمے دار تم ہو یعنی قبول کرنا، عمل کرنا وغیرہ۔ ہدایت صرف اطاعت رسول میں ہے، اس لئے کہ صراط مستقیم کا داعی وہی ہے جو صراط مستقیم اس اللہ تک پہنچاتی ہے جس کی سلطنت تمام زمین آسمان ہے۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے صرف پہنچادینا ہی ہے۔ سب کا حساب ہمارے ذمے ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( فَذَكِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ 21ۭ ) 88 ۔ الغاشية ;21) ، تو صرف ناصح و واعظ ہے۔ انہیں نصیحت کردیا کر، تو ان کا وکیل یا داروغہ نہیں۔ وہب بن منبہ (رح) فرماتے ہیں کہ شعیاء کی طرف وحی الہٰی آئی کہ تو بنی اسرائیل کے مجمع میں کھڑا ہوجا۔ میں تری زبان سے جو چاہوں گا نکلواؤں گا، چناچہ آپ کھڑے ہوئے تو آپ کی زبان سے بہ حکم الہٰی یہ خطبہ بیان ہوا۔
اے آسمان سن، اے زمین خاموش رہ، اللہ تعالیٰ ایک شان پوری کرنا اور ایک امر کی تدبیر کرنے والا ہے وہ چاہتا ہے کہ جنگلوں کو آباد کردے۔ ویرانے کو بسا دے، صحراوں کو سرسبز بنا دے، فقیروں کو غنی کر دے، چرواہوں کو سلطان بنا دے، ان پڑھوں میں سے ایک امی کو نبی بنا کر بھیجے جو نہ بدگو ہو نہ بد اخلاق ہو، نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا ہو، اتنا مسکین صفت ہو اور متواضع ہو کہ اس کے دامن کی ہوا سے چراغ بھی نہ بجھے، جس کے پاس سے وہ گزرا ہو۔ اگر وہ سوکھے بانسوں پر پیر رکھ کر چلے تو بھی چراچراہٹ کسی کے کان میں نہ پہنچے۔ میں اسے بشیر و نذیر بنا کر بھیجوں گا، وہ زبان کا پاک ہوگا، اندھی آنکھیں اس کی وجہ سے روشن ہوجائیں گی، بہرے کان اس کے باعث سننے لگیں گے، غلاف والے دل اس کی برکت سے کھل جائیں گے۔ ہر ایک بھلے کام سے میں اسے سنواردوں گا۔ حکمت اس کی باتیں ہوں گی، صدق و وفا کی کی طبیعت ہوگی، عفو و درگزر کرنا اور عمدگی و بھلائی چاہنا اس کی خصلت ہوگی۔ حق اس کی شریعت ہوگی، عدل اس کی سیرت ہوگی، ہدایت اس کی امام ہوگی۔ اسلام اس کی ملت ہوگا۔ احمد اس کا نام ہوگا۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گمراہی کے بعد اس کی وجہ سے میں ہدایت پھیلاوں گا، جہالت کے بعد علم چمک اٹھے گا، پستی کے بعد اس کی وجہ سے ترقی ہوگی۔ نادانی اس کی ذات سے دانائی میں بدل جائے گی۔ کمی زیادتی سے بدل جائے گی، فقیری کو اس کی وجہ سے میں امیری سے بدل دوں گا۔ اس کی ذات سے جداجدا لوگوں کو میں ملا دوں گا، فرقت کے بعد الفت ہوگی، انتشار کے بعد اتحاد ہوگا، اختلاف کے بعد اتفاق ہوگا، مختلف دل، جداگانہ خواہشیں ایک ہوجائیں گی۔ بیشمار بند گان رب ہلاکت سے بچ جائیں گے، اس کی امت کو میں تمام امتوں سے بہتر کردوں گا جو لوگوں کے نفع کے لئے ہوگی، بیشمار بندگان رب ہلاکت سے بچ جائیں گے، اس کی امت کو میں تمام امتوں سے بہتر کر دونگا جو لوگوں کے نفع کے لئے ہوگی، بھلائیوں کا حکم کرنے والی برائیوں سے روکنے والی ہوگی، موحد مومن مخلص ہوں گے، اللہ کے جتنے رسول اللہ کی طرف سے جو لائے ہیں یہ سب کو مانیں گے، کسی کے منکر نہ ہوں گے۔