الفرقان آية ۴۵
اَلَمْ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ ۚ وَلَوْ شَاۤءَ لَجَـعَلَهٗ سَاكِنًا ۚ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا ۙ
طاہر القادری:
کیا آپ نے اپنے رب (کی قدرت) کی طرف نگاہ نہیں ڈالی کہ وہ کس طرح (دوپہر تک) سایہ دراز کرتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اسے ضرور ساکن کر دیتا پھر ہم نے سورج کو اس (سایہ) پر دلیل بنایا ہے،
English Sahih:
Have you not considered your Lord – how He extends the shadow, and if He willed, He could have made it stationary? Then We made the sun for it an indication.
1 Abul A'ala Maududi
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا ہم نے سورج کو اُس پر دلیل بنایا
2 Ahmed Raza Khan
اے محبوب! کیا تم نے اپنے رب کو نہ دیکھا کہ کیسا پھیلا سایہ اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرایا ہوا کردیتا پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل کیا،
3 Ahmed Ali
کیا تو نے اپنے رب کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیسے پھیلایا ہے اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا رکھتا پھر ہم نے سورج کو اس کا سبب بنا دیا ہے
4 Ahsanul Bayan
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ہے؟ (١) اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا ہی کر دیتا (٢) پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنایا (٣)۔
٤٥۔١ یہاں سے پھر توحید کے دلائل کا آغاز ہو رہا ہے۔ دیکھو، اللہ تعالٰی نے کائنات میں کس طرح سایہ پھیلایا ہے، جو صبح صادق کے بعد سے سورج طلوع ہونے تک رہتا ہے۔ یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی، دھوپ کے ساتھ یہ سمٹتا سکڑنا شروع ہوتا جاتا ہے۔
٤٥۔٢ یعنی ہمیشہ سایہ ہی رہتا، سورج کی دھوپ سائے کو ختم ہی نہ کرتی۔
٤٥۔٣ یعنی دھوپ سے ہی سایہ کا پتہ چلتا ہے کہ ہرچیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر سورج نہ ہوتا، تو سائے سے بھی لوگ متعارف نہ ہوتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بلکہ تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر (کے پھیلا) دیتا ہے۔ اور اگر وہ چاہتا تو اس کو (بےحرکت) ٹھیرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنا دیتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ہے؟ اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا ہی کر دیتا۔ پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنایا
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے اپنے پروردگار کی (قدرت کی) طرف نہیں دیکھا کہ اس نے سایہ کو کیونکر پھیلایا ہے؟ اور اگر وہ چاہتا تو اسے (ایک جگہ) ٹھہرا ہوا بنا دیتا۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل راہ بنایا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے پروردگار نے کس طرح سایہ کو پھیلا دیا ہے اور وہ چاہتا تو ایک ہی جگہ ساکن بنا دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس کی دلیل بنادیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
بھلا تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر کے پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اس کو بےحرکت ٹھہرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنادیا ہے
آیت نمبر 45 تا 60
ترجمہ : کیا تو اپنے رب کی صنعت کو نہیں دیکھتا وقت اسفار سے طلوع شمس کے وقت تک اگر وہ چاہتا تو اس کو ایک ھالت پر ٹھہرا ہوا رکھتا، یعنی ساکن رکھتا جو طلوع شمس سے زائل نہ ہوتا پھر ہم نے سورج کو اس سایہ کو اپنی طرف بتدریج سمیٹ لیا یعنی طلوع شمس کی وجہ سے شیئاً فشیئاً اور وہ ایسا ہے کہ اس نے تمہارے لئے رات کا لباس یعنی لباس کے مانند ساتر بنایا اور نیند کو قطع کرنے والی یعنی جسموں کے لئے اعمال کو موقوف کرکے راحت کی چیز بنایا اور دن کو منتشر ہونے کا وقت بنایا اس میں رزق وغیرہ حاصل کرنے کے لئے اور وہ ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ خوش کردیتی ہیں اور ایک قرأت میں (الریاح کے بجائے) الریح ہے یعنی بارش سے پہلے پھیلتی ہوئی (ہوائیں) اور ایک قرأت میں نُشْرًا میں شین کے سکون کے ساتھ ہے تخفیف کے لئے اور ایک قرأت میں شین کے سکون اور نون کے فتحہ کے ساتھ ہے (نَشْرًا) مصدر ہے اور دوسری قرأت میں شین کے سکون اور نون کے بجائے با کے ضمہ کے ساتھ (یعنی بُشْرًا ہے خوشخبری دینے والی، (پہلی قرأۃ یعنی نُشُرًا) کا مقرر نشورٌ ہے، جیسا کہ رُسُلٌ کا واحد رَسُوْلٌ ہے (اور اسی طرح ثانی قرأۃ یعنی نُشْرًا) کا مفرد ہے، اور قرأت اخیرہ یعنی بُشْرًا کا واحد بشیرٌ ہے اور ہم آسمان سے پاک یعنی پاک کرنے والا پانی برساتے ہیں تاکہ ہم اس کے ذریعہ خشک زمین کو سرسبز اور شاداب کریں مَیْتًا تخفیف کے ساتھ ہے، بَلْدَۃً میں مذکر اور مؤنث دونوں برابر ہیں، یا بَلْدۃً کی صفت مَیْتًا کو اس لئے مذکر لایا گیا ہے کہ بلدۃ کو مکان کی تاویل میں کرلیا ہے اور ہم وہ پانی اپنی مخلوق میں سے (بہت سے) چوپایوں (مثلاً ) اونٹ، گائے، اور بکریوں کو اور بہت سے انسانوں کو پلاتے ہیں، اَنَاسیّ انسان کی جمع ہے اَناسِیّ کی اصل اَناسِین تھی نون کو یا سے بدلا اور یا لو یا میں ادغام کردیا اَناسِیٌّ اِنسِیٌّ کی جمع ہے اور ہم اس پانی کو مخلوق کے درمیان تقسیم کردیتے ہیں تاکہ لوگ غور و فکر کریں یَذَّکَّرُوْا کی اصل یَتَذَکَّرُوا تھی تا کو ذال میں ادغام کردیا اور ایک قرأۃ میں لِیَذْکُرُوْا ذال کے سکون اور کاف کے ضمہ کے ساتھ ہے یعنی تاکہ بارش (پانی) کے سبب سے اللہ کی نعمتوں کو یاد کریں پھر اکثر لوگ ناشکری ہی کرتے رہے یعنی نعمت کے منکر رہے، اس طرح سے کہ وہ کہتے تھے کہ فلاں ستارے کے طلوع (یا غروب) ہونے کی وجہ سے ہم کو بارش دی گئی اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ڈرانے والا (پیغمبر) بھیج دیتے جو اس بستی والوں کو ڈراتا لیکن ہم نے آپ کو تمام بستی والوں کی جانب نذیر بنا کر بھیجا تاکہ آپ کا اجر زیادہ ہو لہٰذا آپ کافروں کا ان کی خواہشات میں اتباع نہ کریں اور آپ ان کے ساتھ قرآن کے ذریعہ پوری طاقت سے جہاد کریں اور وہ ایسا ہے کہ جس نے دو دریا ملا کر جاری کئے ہیں جن میں ایک میٹھا مزایدار یعنی نہایت شیریں ہے اور دوسرا نمکین اور کڑوا یعنی نہایت شور ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب آڑ ہے تاکہ ایک دوسرے سے نہ مل سکے اور قوی مانع رکھ دیا یعنی ایسا مانع کہ جس کی وجہ سے ان دونوں دریاؤں کا ملنا ممنوع ہوگیا وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے انسان کو اپنی یعنی منی سے پیدا کیا پھر اس کو صاحب نسب (خونی رشتہ والا) اور صاحب صہر (سسرالی رشتوں والا) بنایا بایں طور کہ وہ افزائش نسل کے لئے نکاح کرتا ہے مذکر ہو یا مؤنث، اور تیرا پروردگار بڑی قدرت والا ہے جو وہ چاہے اس پر قادر ہے اور یہ لوگ یعنی کافر اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی بندگی کرتے ہیں کہ جو ان کی بندگی کی وجہ سے نہ ان کو نفع پہنچانے پر قادر ہیں اور نہ ترک بندگی پر نقصان پہنچانے پر قادر ہیں، اور وہ بت ہیں اور کافر تو اپنے رب کی مخالفت میں شیطان کا مددگار ہے ہی شیطان کی اطاعت کرکے اور ہم نے آپ کو صرف اس لئے بھیجا ہے کہ آپ جنت کی خوشخبری سنائیں اور نار جہنم سے ڈرائیں آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس چیز کی تبلیغ پر جس کو میں دیکر بھیجا گیا ہوں کوئی معاوضہ نہیں چاہتا مگر یہ کہ جو چاہے اپنے رب کی مرضیات میں مال خرچ کرکے اپنے رب تک (رسائی) کا راستہ اختیار کرے تو میں اس کو اس سے منع نہیں کرتا اور آپ اس حی لایموت پر توکل رکھئے اور اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کیجئے یعنی سبحان اللہ وبحمدہٖ کہئے، اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے بخوبی واقف ہے، بذنوب خبیراً سے متعلق ہے اور وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا دنیا کے دنوں کے حساب سے یعنی ان کی مقدار میں اس لئے کہ اس وقت سورج نہیں تھا، اور اگر وہ چاہتا تو ان کو ایک لمحہ میں پیدا کردیتا، اب رہا اپنی اس قدرت سے عدول تو یہ اپنی مخلوق کو جلدی نہ کرنے (اور نرمی) کی تعلیم کے لئے ہے پھر وہ عرش پر مستوی ہوگیا عرش لغت میں تخت شاہی کو کہتے ہیں وہ رحمٰن ہے رحمٰن استویٰ کی ضمیر سے بدل ہے، اور استویٰ سے وہ استویٰ مراد ہے جو اس کی شایان شان ہے تو رحمٰن (کی شان) کے بارے میں کسی واقف کار سے دریافت کر وہ تجھے اس کی صفات کے بارے میں بتائے گا اور جب کفار مکہ سے کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمٰن کیا چیز ہے ؟ کیا ہم اس کو سجدہ کریں جس کو تو سجدہ کرنے کا حکم دے رہا ہے تامرنا تا اور یا دونوں کے ساتھ ہے اور فاعل محمد ہیں، حال یہ ہے کہ ہم اس (رحمٰن) کو نہیں جانتے، ہم ایسا نہیں کریں گے، اس قول نے ان کو ایمان سے اور زیادہ نفرت کرنے والا بنادیا۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
اَلَمْ تَرَ تنظر، تَنْظُر سے رویت بصری کی طرف اشارہ ہے نیز اس کی تائید الیٰ سے بھی ہو رہی ہے اس لئے کہ رویت بصری کا صلہ الیٰ آتا ہے۔ قولہ : اِلیٰ ربکَ میں مضاف محذوف ہے اس لئے کہ ذات باری کی رویت دنیا میں ممکن نہیں ہے اس لئے تقدیر عبارت یہ ہوگی اَلَمْ تَرَ اِلیٰ صنِیْعِ رَبِّکَ اور بعض حضرات نے رویت سے رویت قلبی بھی مراد لی ہے اور اَلَمْ تَرَ معنی میں اَلَمْ تَعلَمْ کے لیا ہے اور مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہر وہ شخص ہے جو کائنات عالم میں غور و فکر کی صلاحیت رکھتا ہو، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات میں اپنے منفرد بالا لوہیۃ ہونے پر پانچ دلیلیں از قبیل محسوسات بیان فرمائی ہیں (1) اَلَمْ تَرَ کیفَ مَدّ الظِّلَّ (2) ھو الَّذِیْ جَعَلَ لکُم اللَّیل لباسًا (3) ھو الَّذِی اَرْسلَ الرِّیاحَ (4) ھو الَّذِیْ مرجَ البحرینِ (5) ھو الَّذِی خَلَقَ من الماءِ بشرًا۔ قولہ : من وقت الاسفار الیٰ وقت طلوع الشمس مفسر (رح) کے لئے زیادہ مناسب تھا کہ ای من طلوع الفجر الیٰ طلوع الشمس کہتے اور اگر مطلق رکھتے اور کسی بھی قید کے ساتھ مقید نہ کرتے تو اور زیادہ بہتر ہوتا اس لئے کہ رات میں تو زمین کا ظل ہوتا ہے دن میں اشجار وغیرہ کا ظل ہوتا ہے، اسفار کو شاید سہانا وقت ہونے کی وجہ سے خاص کیا ہو، کَیْفَ مَدَّ الظِّلِّ کی تفسیر میں مفسرین کے تین قول ہیں (1) من الفجر الیٰ الشمس (2) من المغرب الیٰ طلوعِ الشمس (3) من طلوع الشمسِ الیٰ زوال الشمس صاحب بحر نے پہلے قول کو جمہور کا قول نقل کیا ہے، اور مفسر علام نے جو تفسیر فرمائی ہے وہ دیگر مفسرین کے موافق نہیں ہے (صاوی وجمل) ۔ قولہ : جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْلَ لِبَاسًا اس میں لیل کو لباس سے تشبیہ دی ہے وجہ شبہ ساترہونا ہے حرف تشبیہ اور وجہ شبہ کی حذف کردیا ہے اس کو تشبیہ بلیغ کہتے ہیں، جیسے زیدٌا اسدٌ میں تشبیہ بلیغ ہے۔ قولہ : بُشْرًا اس میں چند قرأتیں ہیں، مفسر علام کے سامنے قرآن کریم کا وہ نسخہ ہے کہ جس میں بُشرًا کے بجائے نُشرًا ہے اس میں چار قرأتین ہیں نُشُرًا، نُشْرًا، نَشْرًا، نَشْرًا، بُشْرًا پہلی اور دوسری نَشُورٌ کی جمع ہیں جیسا کہ رسولٌ کی جمع رُسُلٌ اور رُسْلٌ آتی ہے اور تیسری یعنی نَشْرًا یہ مصدر ہے جس میں واحد اور جمع برابر ہیں اور چوتھی یعنی بُشْرًا بشیرٌ کی جمع ہے خوشخبری دینے والا۔
قولہ : مفرد الاولیٰ ای والثانیۃ یعنی مفسر علام کو اولیٰ کے ساتھ والثانیہ بھی کہنا چاہیے تھا اس لئے پہلی اور دوسری قرأت کا واحد ایک ہی ہے اور وہ ہے نشورٌ اور چوتھی قرأت یعنی بُشْرا کا واحد بشیرٌ ہے، قولہ : مَیْتًا مَیْت اور مَیّتْ میں فرق یہ ہے کہ میْت اس کو کہتے ہیں جو مرچکا ہو اور میت اسے کہتے ہیں جو مرنے والا ہو یا مرنے کے قریب ہو۔ قولہ : یستوی فیہ المذکر والمؤنث یہ اس اعتراض کا جواب ہے کہ بَلْدَۃً موصوف اور مَیْتًا اس کی صفت ہے مَیْتًا کے بجائے مَیْتَۃً ہونا چاہیے تھا تاکہ موصوف اور صفت میں مطابقت ہوجاتی، اس کا ایک جواب تو یہ دیا کہ مَیْت کا اطلاق مذکر اور مؤنث دونوں پر ہوتا ہے، دوسرا جواب وَذَکَّرَہٗ باعتبار المکان مفسر علام کو واؤ کے بجائے اَوْ کہنا چاہیے تھا تاکہ دوسرے جواب کی طرف اشارہ ہوجاتا، دوسرے جواب کا خلاصہ یہ ہے بَلْدۃ، مکان کی تاویل میں ہے لہٰذا میتًا لانا درست ہے۔ قولہ : ونُسْقیَہ اس کا عطف نجییْ پر ہے۔ قولہ : اَنْعَامًا یہ نُسْقِیَّۃٗ کا مفعول ثانی ہے اور خَلَقْنَا پر اَنْعامًا مقدم ہونے کی وجہ سے حال ہے ورنہ تو خَلَقْنَا اَنْعَامًا کی صفت ہے، قاعدہ ہے کہ موصوف اگر نکرہ ہو اور اس کی صفت کو مقدم کردیا گیا ہو تو وہ حال ہوجاتی ہے۔ قولہ : اَنَاسِیّ یہ انسانٌ کی جمع ہے یہ سیبویہ کا مذہب اور یہی راجح ہے اور بعض نے کہا ہے اِنسِیّ کی جمع ہے یہ فراء کا مذہب ہے اور یہ اعتراض سے خالی نہیں ہے اس لئے کہ اِنِسِیٍّ میں یا نسبتی ہے اور جس میں یا نسبتی ہوتی ہے اس کی جمع فعالِیٍّ کے وزن پر نہیں آتی، جیسا کہ ابن مالک نے فرمایا وَاجْعَلْ فَعَالِیٍّ لغیرِ ذِی نَسَبٍ ۔ قولہ : وَلَقَدْ صَرَّفْنَاہٗ ای وَاللہِ لقد صرّفناہٗ ای الماء مفسر علام نے صَرَّفناہٗ کی ہٗ ضمیر کا مرجع ماء قرار دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم نے بارش کو مختلف شہروں اور علاقوں میں مقدار کے اعتبار سے تقسیم کردیا اسی طرح صفت کے اعتبار سے بھی تقسیم کردیا کہیں موسلا دھار ہوتی ہے تو کہیں ہلکی، اسی طرح مختلف اوقات میں تقسیم کردیا، حضرت ابن عباس (رض) سے یہی تفسیر منقول ہے، بعض حضرات نے صَرّفناہٗ کی ہٗ ضمیر کا مرجع قرآن کو قرار دیا ہے اور اس کا قرینہ جاھِدھُمْ بہٖ کو قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے المطر کو مرجع قرار دیا ہے، صاحب جلالین نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، قرآن کو مرجع قرار دینے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اس قرآن میں مختلف امثال و عنوان سے عمدہ عمدہ مضامین بیان کئے اور مختلف حجج وبراہین سے لوگوں کو سمجھایا تاکہ وہ غور و فکر کریں (صفوۃ التفاسیر ملخصاً ) ۔ قولہ : اَلنَّوْءُ اس کی جمع َنواء آتی ہے اس کے معنی مائل ہونے اور ساقط ہونے کے ہیں یقال نَاءَ بہٖ الجملُ ای اثقلہٗ واَمَالَہٗ بوجھ نے اس کو گراں بار کردیا اور جھکا دیا زمانہ جاہلیت میں عرب کواکب کو موثر حقیقی مانتے تھے اور سردی گرمی نیز بارش وغیرہ کی نسبت بعض نجوم کے طلوع یا غروب کی طرف کرتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ آخر شب میں جب ایک مخصوص تارہ جانب مغرب میں غروب ہوتا ہے اور اس کے بالمقابل مشرق میں اس کا حریف طلوع ہوتا ہے تو بارش ہوتی ہے، یہ لوگ اللہ کو مؤثر حقیقی نہ مان کر نجوم و کواکب کو مؤثر حقیقی مانتے تھے اسی لئے اس کو کفران سے تعبیر کیا ہے (روح البیان ملخصاً ) ۔
قولہ : مَرَجَ (ماضی باب نصر) مُرُوْجٌ آزاد چھوڑنا، جاری کرنا، فُرَات بہت شیریں خوش ذائقہ تسکین بخش (ک) الرَّحْمٰنُ رحمٰن کے مرفوع ہونے کی تین وجہ ہوسکتی ہیں (1) اَلَّذِیْ خَلَقَ الخ مبتداء کی خبر ہو (2) ھو مبتداء محذوف کی خبر ہو (3) استویٰ کی ضمیر سے بدل ہو مفسر (رح) نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ قولہ : فأسأل بہٖ خبیرًا بہٖ خبیرًا سے متعلق ہے، رعایت فواصل کی وجہ سے مقدم کردیا گیا ہے ای فسأل خبیرًا بہ یا اسئل سے متعلق ہے ای اِسئل عنہٗ خبیراً یعنی رحمٰن کی صفات کے بارے میں عالم سے معلوم کرلے۔ قولہ : یُخّبِرُکَ بِصِفَاتِہٖ یہ جواب امر ہے۔
تفسیر و تشریح
الم تر۔۔۔۔ مد الظل یہاں اللہ تعالیٰ پھر توحید کے دلائل کا اغاز فرما رہے ہیں، صبح صادق کے بعد سے طلوع شمس تک سب جگہ سایہ رہتا ہے یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی اگر حق تعالیٰ سورج کو طولع نہ ہونے دیتا تو یہ سایہ ہی قائم رہتا، مگر اس نے اپنی قدرت سے سوج نکالا جس کی وجہ سے دھوپ پھیلنی شروع ہوئی اور سایہ بتدریج ایک طرف سمٹنے لگا اگر دھوپ نہ آتی تو ہم سایہ کو نہ سمجھ سکتے اس لئے کہ شئ اپنی ضد ہی سے پہچانی جاتی ہے اور ہمیشہ سایہ ہی قائم رہ جاتا ہے۔
وھو الذی ارسل الریح الخ یعنی رات کی تاریکی چادر کی طرح سب پر محیط ہوجاتی ہے جس میں لوگ کاروبار چھوڑ کر آرام کرتے ہیں، جب دن کا اجالا ہوجاتا ہے تو لوگ نیند سے اٹھ کر ادھر ادھر چلنے پھرنے لگتے ہیں، اسی طرح موت کی نیند کے بعد قیامت کی صبح آئے گی جس میں سارا جہاں اٹھ کھڑا ہوگا، اور یہی حالت اس وقت پیش آتی ہے جب انبیاء کرام وحی والہام کی روشنی
سے دنیا میں اجالا کرتے ہیں تو جہل و غفلت کی نیند میں سوئی ہوئی مخلوق ایک دم آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھتی ہے۔
ھو الذی ارسل الریح یعنی اول برساتی ہوئیں بارش کی خوشخبری لاتی ہیں پر آسمان کی طرف سے پانی برستا ہے جو کہ خود پاک اور دوسروں کو پاک کرنے والا ہے، پانی پڑتے ہی مردہ زمین میں جان پڑجاتی ہے کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اور کتنے جانور اور انسان بارش کا پانی پی کر سیراب ہوتے ہیں۔
ولقد صرفناہ بعض نے صَرَّفْنَاہٗ میں ھا کا مرجع قرآن قرار دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن میں عمدہ اور اعلیٰ قسم کے مضامین اور ضرب الامثال اور نصیحتیں مختلف عنوان سے بار بار بیان فرمائی ہیں تاکہ اہل عقل و دانش اس میں غور کریں اور خدا کی توحید کے قائل ہوجائیں اور بعض حضرات نے ھا کا مرجع بارش کو قرار دیا ہے، جیسا کہ مفسر علام کی رائے بھی یہی ہے مطلب یہ ہے کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقہ میں اور کبھی دوسرے علاقہ میں حتی کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شہر کے ایک حصہ میں بارش ہوتی ہے اور دوسرے حصہ میں نہیں ہوتی کبھی ایک علاقہ میں زیادہ ہوئی اور دوسرے علاقہ میں کم، اور کبھی اس کا برعکس ہوتا ہے، یہ سب اس کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہوتا ہے اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگ اس کی وحدت اور قدرت کے قائل ہوجائیں اور اس کی نعمت کے شکر گزار ہوں، لیکن بہت سے لوگ پھر بھی نہیں سمجھتے اور نعمت الٰہی کا شکریہ ادا نہیں کرتے، الٹے کفر اور ناشکری پر اتر آتے ہیں، مثلاً یہ کہ بارش کو مشیت الٰہی کے بجائے ستاروں کی گردش یا کسی ستارے کے غروب و طلوع کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جیسا کہ اہل جاہلیت کیا کرتے تھے۔
ولو شئنا لبعثنا الخ مطلب یہ ہے کہ نبی کا آنا کوئی تعجب کی بات نہیں اللہ اگر چاہے تو اب بھی نبیوں کی کثرت کر دے کہ ہر بستی میں علیحدہ علیحدہ نبی ہو مگر اس کو منظور ہی یہ ہوا کہ اب آخر میں سارے جہاں کے لئے اکیلئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی بنا کر بھیجے تاکہ تمام نبیوں کا اجر آپ ہی کو ملے سو آپ کافروں کی احمقانہ طعن وتشنیع اور سفیہانہ نکتہ چینیوں کی طرف التفات نہ کریں، اپنا کام پوری قوت اور تندہی سے انجام دئیے جائیں اللہ آپ کو کامیاب کرنے والا ہے۔
وھو الذی مرج البحرین لفظ مَرَجَ آزاد چھوڑنے کے معنی میں آتا ہے، اسی وجہ سے مَرَجْ چراگاہ کو کہتے ہیں جہاں جانور آزادی سے چل پھر کر چر سکیں، عَذْبٌ میٹھے پانی کو کہتے ہیں فرات خوش ذائقہ اور خوشگوار تسکین بخش کو کہتے ہیں مِلْحٌ نمکین کو کہتے ہیں اُجَاج تیز اور تلخ کو کہتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے اپنے فضل اور حکمت بالغہ سے دنیا میں دو قسم کے پانی پیدا فرمائے ہیں، بحر محیط جو کہ زمین کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں، زمین جو کہ کرۂ ارض کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے اور باقی تین حصہ پانی ہے بحرمحیط کا پانی بتقاضائے حکمت نہایت نمکین اور بدمزہ ہے زمین کے آباد حصہ پر بارش کے پانی کے چشمے، ندیاں، نہریں اور بڑے بڑے دریا ہیں یہ سب میٹھے خوشگوار اور خوش ذائقہ ہیں انسان کو اپنے پینے اور روزمرہ کے استعمال کے لئے شیریں پانی کی ضرورت ہے، جو حق تعالیٰ نے زمین کے آباد حصہ میں مختلف صورتوں میں مہیا فرمایا ہے، لیکن بحر محیط کا پانی اگر شیریں ہوتا تو پوری دنیا میں تعفن پیدا ہوجاتا اور تمام جاندار تعفن اور بدبو کی وجہ سے مرجاتے، اسلئے کہ میٹھے پانی کا خاصہ ہے کہ بہت جلد سڑ جاتا ہے خصوصاً سمندر کہ جس کی مخلوق خشکی کی مخلوق سے کہیں زیادہ ہیں جو سمندر ہی میں مرتے گلتے سڑتے ہیں اور تمام روئے زمین سے بہہ کر جانے والی گندگیاں سب سمندر میں جاکر مل جاتی ہیں اگر سمندر کا پانی میٹھا ہوتا تو دو چار روز ہی میں سڑ جاتا جس کی بدبو سے نہ صرف یہ کہ اہل زمین کو بدبو کی وجہ سے رہنا مشکل ہوجاتا بلکہ فضاء کی آلودگی کی وجہ سے کسی جاندار کا زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا، اس لئے حکمت خداوندی نے سمندری پانی کو اتنا نمکین اور کڑوا اور تیز بنادیا کہ دنیا بھر کی گندگیاں اس میں جاکر بھسم ہوجاتی ہیں خود اس میں رہنے والی مخلوق جو اسی میں مرتی ہیں وہ بھی سڑنے نہیں پاتیں۔
وجعل بینھما برزخا وہ ایسی قدرت والا ہے جس نے دو دریاؤں کو (صورۃً ) ملایا جن میں ایک کا پانی نہایت شیریں تسکین بخش ہے اور دوسرے کا نمکین اور کڑوا، اختلاط صوری کے باوجود اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایک حجاب اور قوی مانع رکھ دیا ہے، ان دو دریاؤں سے وہ مواقع مراد ہیں جہاں شیریں ندیاں سمندر میں جاکر گرتی ہیں، باوجود یکہ دونوں کی اوپری سطح ایک معلوم ہوتی ہے لیکن قدرت الٰہیہ نے ان کے درمیان ایک ایسی حد فاصل رکھ دی ہے کہ متقی کی ایک جانب اگر پانی لیا جائے تو شیریں اور دوسری جانب جو کہ اول جانب سے بالکل قریب ہے پانی لیا جائے تو تلخ دنیا میں جہاں بھی شیریں پانی کی ندیاں سمندر میں گرتی ہیں اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ میلوں دور تک شیریں اور کھارا پانی دور تک الگ الگ چلتے ہیں ان ہی مقامات میں سے ایک مقام آرکان اور چاٹگام تک دریا کی شان یہ ہے کہ اس کی دو جانبیں بالکل الگ الگ نوعیت کے دو دریا نظر آتے ہیں، ایک کا پانی سفید ہے اور ایک کا سیاہ، سیاہ میں سمندر تلاطم اور تموج ہوتا ہے اور سفید بالکل ساکن رہتا ہے دونوں کے درمیان ایک دھاری سی برابر چلی گئی ہے جو دونوں کا ملتقی ہے (معارف القرآن ملخصاً )
نسب سے وہ رشتہ داریاں مراد ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے ہوتی ہیں اور صہر سے وہ قرابتداریاں مراد ہیں جو شادی کے بعد بیوی کی طرف سے ہوں جس کو عرف میں سسرالی رشتے کہتے ہیں۔
قل ما اسئلکم علیہ من اجر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ ایمان کی دعوت اور اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانے کا میں تم سے کوئی صلہ نہیں چاہتا اور نہ اس میں میرا کوئی ذاتی فائدہ ہے، اگر میرا کوئی فائدہ ہے تو یہ کہ تم رب کا راستہ اختیار کرلو، اور یہ بات ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص راہ مستقیم اختیار کرلے تو یہ اسی کا فائدہ ہے، اس فائدہ کو اپنا فائدہ قرار دینا یہ پیغمبرانہ شفقت کی طرف اشارہ ہے کہ میں تمہارے فائدہ کو اپنا فائدہ سمجھ رہا ہوں، اور یہ بھی احتمال ہے اس کو اپنا فائدہ اس لحاظ سے فرمایا ہو کہ اس کا اجر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملے گا جیسا کہ احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص کسی کو نیک کاموں کی ہدایت کرتا ہے اور وہ اس کے کہنے کے مطابق نیک عمل کرے تو اس کے عمل کا ثواب خود کرنے والے کو بھی پورا پورا ملے گا اور اتنا ہی ثواب ہدایت کرنے والے شخص کو بھی۔ (مظہری)
واذا قیل۔۔۔ للرحمن، رحمٰن اور رحیم اللہ کی صفات اور اسماء حسنیٰ میں سے ہیں لیکن عرب اللہ کو ان ناموں سے نہیں جانتے تھے، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوایا تھا تو مشرکین مکہ نے کہا تھا کہ ہم رحمٰن و رحیم کو نہیں جانتے، باسمک اللہ لکھو۔
10 Tafsir as-Saadi
کیا تم نے اپنی آنکھ اور اپنی بصیرت سے اپنے رب کی قدرت کاملہ اور بے پایاں رحمت کا مشاہدہ نہیں کیا کہ وہ بندوں پر سائے کو پھیلا دیتا ہے اور یہ طلوع آفتاب سے قبل ہوتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ ﴾ ” پھر بنایا ہم نے سورج کو اس پر‘‘ یعنی سائے پر ﴿ دَلِيلًا ﴾ ” دلیل“ اگر سورج نہ ہوتا تو سایہ نہ پہچانا جاتا کیونکہ تمام اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tum ney apney perwerdigar ( ki qudrat ) ko nahi dekha kay woh kiss tarah saye ko phelata hai-? aur agar woh chahta to ussay aik jagah thehra deta . phir hum ney sooraj ko uss kay liye rehnuma bana diya hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اگر وہ چاہے تو رات دن نہ بدلے
اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت پر دلیلیں بیان ہو رہی ہے کہ مختلف اور متضاد چیزوں کو وہ پیدا کر رہا ہے۔ سائے کو وہ بڑھاتا ہے کہتے ہیں کہ یہ وقت صادق سے لے کر سورج کے نکلنے تک کا ہے اگر وہ چاہتا تو اسے ایک ہی حالت پر رکھ دیتا۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر وہ رات ہی رات رکھے تو کوئی دن نہیں کرسکتا اور اگر دن ہی دن رکھے تو کوئی رات نہیں لاسکتا۔ اگر سورج نہ نکلتا تو سائے کا حال ہی معلوم نہ ہوتا۔ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے سائے کے پیچھے دھوپ دھوپ کے پیچھے سایہ بھی قدرت کا انتظام ہے۔ پھر سہج سہج ہم اسے یعنی سائے کو یا سورج کو اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ ایک گھٹتا جاتا ہے تو دوسرا بڑھتا جاتا ہے اور یہ انقلاب سرعت سے عمل میں آتا ہے کوئی جگہ سایہ دار باقی نہیں رہتی صرف گھروں کے چھپڑوں کے اور درختوں کے نیچے سایہ رہ جاتا ہے اور ان کے بھی اوپر دھوپ کھلی ہوئی ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کرکے ہم اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ اسی نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا ہے کہ وہ تمہارے وجود پر چھا جاتی ہے اور اسے ڈھانپ لیتی ہے جیسے فرمان ہے قسم ہے رات کی جب کہ ڈھانپ لے، اسی نے نیند کو سبب راحت وسکون بنایا کہ اس وقت حرکت موقوف ہوجاتی ہے۔ اور دن بھر کے کام کاج سے جو تھکن چڑھ گئی تھی وہ اس آرام سے اترجاتی ہے۔ بدن کو اور روح کو راحت حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر دن کو اٹھ کھڑے ہوتے ہو پھیل جاتے ہو۔ اور روزی کی تلاش میں لگ جاتے ہو۔ جیسے فرمان ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے رات دن مقرر کردیا ہے کہ تم سکون وآرام بھی حاصل کرلو اور اپنی روزیاں بھی تلاش کرو۔