الشعراء آية ۱۰۵
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ ِلْمُرْسَلِيْنَ ۚ
طاہر القادری:
نوح (علیہ السلام) کی قوم نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا،
English Sahih:
The people of Noah denied the messengers.
1 Abul A'ala Maududi
قوم نوحؑ نے رسولوں کو جھٹلایا
2 Ahmed Raza Khan
نوح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا
3 Ahmed Ali
نوح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا
4 Ahsanul Bayan
قوم نوح نے بھی نبیوں کو جھٹلایا (١)
٠٥۔١ قوم نوح علیہ السلام نے اگرچہ صرف اپنے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کی تھی۔ مگر چونکہ ایک نبی کی تکذیب، تمام نبیوں کی تکذیب کے مترادف ہے۔ اس لئے فرمایا کہ قوم نوح علیہ السلام نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
قوم نوح نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
6 Muhammad Junagarhi
قوم نوح نے بھی نبیوں کو جھٹلایا
7 Muhammad Hussain Najafi
نوح(ع) کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور نوح کی قوم نے بھی مرسلین کی تکذیب کی
9 Tafsir Jalalayn
تو قوم نوح نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
آیت نمبر 105 تا 122
ترجمہ : قوم نوح نے حضرت نوح کی تکذیب کرکے تمام رسولوں کی تکذیب کا ارتکاب کیا ان سب کے توحید کے لانے میں مشترک ہونے کی وجہ سے یا ان کے اپنی قوم میں طویل زمانہ تک قیام کرنے کی وجہ سے گویا کہ وہ کئی رسولوں کے قائم مقام تھے (لفظ) قوم اپنے معنی کے اعتبار سے مؤنث ہے اور اپنے لفظ کے اعتبار سے مذکر جبکہ ان سے ان کے نسبی بھائی نوح نے فرمایا کیا تم اللہ کے عذاب سے ڈرتے نہیں ہو ؟ میں تمہاری طرف اللہ کا امانت دار رسول ہوں اس پیغام کے پہچانے میں جس کو مجھے دیکھ بھیجا گیا ہے لہٰزا تم اللہ سے ڈرو اور اللہ کی توحید اور اس کی طاعت میں جس کا میں تم کو حکم کروں میری اطاعت کرو میں تم سے اس پر یعنی اس کی تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں چاہتا میرا اجر یعنی میرا ثواب تو صرف رب العالمین پر ہے اللہ سے ڈرتے رہو اور میری اطاعت کرو بطور تاکید اس کو مکرر ذکر کیا ہے قوم نے جواب دیا کیا ہم تجھ پر ایمان لے آئیں یعنی تیرے قول کی تصدیق کریں حالانکہ تیری اتباع رذیل لوگوں نے کی ہے یعنی کم حیثیت لوگوں نے مثلاً جولا ہوں اور موچیوں نے اور ایک قرأۃ میں اِتَّبَعَکَ کے بجائے اَتْباعُکَ ہے جو کہ تابع کی جمع ہے (اور) مبتداء ہے (اور ارذلون اس کی خبر ہے) حضرت نوح (علیہ السلام) نے جواب دیا مجھے ان کے پیشوں سے کیا غرض ؟ (یعنی مجھے ان کے پیشے سے کوئی مطلب نہیں خواہ ان کا پیشہ رذیل ہو یا شریف، اب رہا یہ احتمال کہ ان کا ایمان دل سے نہیں ہے تو اس کا حساب اللہ پر ہے) ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے سو وہی ان کو جزاء دے گا، اگر یہ حقیقت تمہاری سمجھ میں آجاتی تو تم عیب جوئی نہ کرتے ہیں ایمان والوں کو دھکا دینے والا نہیں میں تو صاف طور پر ڈرانے والا ہوں یعنی کھلم کھلا ڈرانے والا، وہ لوگ کہنے لگے اے نوح اگر تم باز نہ آئے ان باتوں سے جو تم ہم سے کہتے ہو تو یقیناً سنگسار کر دئیے جاؤ گے پتھروں کے ذریعہ یا گالی گلوچ کے ذریعہ (تو پھر مجبور ہوکر) نوح (علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے پروردگار میری قوم نے میری تکذیب کردی سو آپ میرے اور ان کے درمیان (قطعی) فیصلہ کر دیجئے اور مجھے اور جو میرے ساتھ باایمان لوگ ہیں نجات دیجئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا چناچہ ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو بھری ہوئی کشتی میں نجات دی، یعنی انسانوں اور حیوانوں اور پرندوں سے بھری ہوئی کشتی میں ان کو نجات دینے کے بعد اس کی قوم کے باقی لوگوں کو غرق کردیا یقیناً اس میں بہت بڑی عبرت ہے ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے تھے ہی نہیں بیشک آپ کا پروردگار ہی زبر دست رحم کرنے والا ہے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : بتکذیبِھم لہٗ الخ اس اضافہ کا مقصد اس شبہ کی توجیہ ہے کہ نوح کے لئے مرسلین جمع کا صیغہ لانے کا کیا مقصد ہے حالانکہ وہ ایک فرد تھے، شارح نے اس کے دو جواب دئیے ہیں اول جواب کا خلاصہ یہ ہے تمام انبیاء ومرسلین اصول دین یعنی توحید و رسالت بعث بعد الموت اور آخرت میں جزاوسزا جیسے بنیادی امور میں متفق ہوتے ہیں لہٰذا ایک کی تکذیب سب کی تکذیب شمار ہوگی اَوْ لِاَنَّہٗ سے دوسرا جواب ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کی رسالت کا زمانہ نہایت طویل ہے عام طور پر اتنی مدت میں کئی رسول مبعوث ہوسکتے تھے مگر تنہا حضرت نوح (علیہ السلام) ہی نے اس طویل زمانہ میں فرائض رسالت انجام دئیے اس لئے بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ متعدد رسولوں کے قائم مقام ہیں، جیسا کہ بجّو کو اس کے کئی افراد کے برابر کھانے کی وجہ سے حجاضر کہہ دیا جاتا ہے۔
قولہ : تانیث قوم کذّبت قوم نوحٍ میں قوم کو مؤنث مان کر فعل کو مؤنث لائے ہیں اس لئے کہ لفظ قوم اپنے معنی کے اعتبار سے مؤنث اور لفظ کے اعتبار سے مذکر ہے قوم کی تصغیر قُوَیْمَۃٌ آتی ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ لفظ قوم معنی کے اعتبار سے مؤنث ہے، یہی حال ہر اس اسم جمع کا ہے جس کا واحد نہیں ہے جیسا رَھْطٌ و نَفْرٌ یہی وجہ ہے کہ ضمائر مثلا لھُمْ ، اَخُوْھُمْ ، تَتَّقُوْنَ میں معنی کی رعایت کی گئی ہے۔ قولہ : مِنْ اَجْرٍ من مفعول پر زائدہ ہے۔
قولہ : اتباعُکَ مبتداء ہے اَرْذَلُوْنَ خبر، جملہ ہو کر اَنُوْمِنُ کی ضمیر سے حال ہے مفسر علام جہاں وفی قرأۃ اخریٰ فرماتے ہیں اس سے قرأۃ سبعہ مراد ہوتی ہے مگر ان کا یہ طریقہ اغلبی ہے کلی نہیں، اس لئے کہ یہاں اتباعُکَ والی قرأۃ سبعیہ نہیں ہے یہ قرأۃ یعقوب کی ہے عشرہ میں سے اَلسَّفْلَۃُ سافِلَۃٌْکی جمع ہے، بےحیثیت یا کم حیثیت لوگ کہتے ہیں الحائک (نور باف) قال فی القاموس، حاک الثوبَ حوْکاً وحِیَاکًا نَسَجَہٗ فھُوَ حَائِکَ الاَ سَاکِفَۃ جمع اِسْکَافٍ کفش دوز (موچی) ۔
قولہ : وَمَا عِلْمِیْ اس میں دو صورتیں ہیں اول ما استفہامیہ انکاریہ مبتداء اور علمی خبر اور با علمی سے متعلق ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَیُّ شَیْیٍ عِلمی ؟ دوسری صورت ما نافیہ اس صورت میں بھی با علمی سے متعلق ہوگی، مفسر علام نے اَیُّ عِلِمٍ لی کہہ کر اول صورت کی طرف اشارہ کیا ہے عِلْمِیْ کی اصل عِلْمً بِیْ ہے تخفیفاً حذف کردیا گیا۔ قولہ : اَیْ اُحْکم اس عبارت کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے فَافْتَحْ انفتاحۃ سے مشتق ہے جس کے معنی حکومت کے ہیں الفتاح ای الحاکم، یفتحہ المغلق من الامور۔
تفسیر و تشریح
کذبت۔۔۔۔ المرسلینَ قوم نوح نے اگرچہ صرف ایک رسول حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی مگر چونکہ ایک رسول کی تکذیب تمام رسولوں کی تکذیب کے مترادف اور اس کو مستلزم ہے اس لئے فرمایا کہ قوم نوح (علیہ السلام) نے رسولوں کی تکذیب کی، حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کا بھائی اس لئے کہا کہ حضرت نوح اسی قوم کے ایک فرد تھے۔
طاعات پر اجرت لینے کا حکم : وَمَا اَسْئَلُکُمْ علیہِ مِن اجرٍ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم و تبلیغ پر اجرت لینا درست نہیں ہے اس لئے سلف صالحین نے تعلیم و تبلیغ وغیرہ دینی امور پر اجرت لینے کو ناجائز کہا ہے، لیکن متاخرین نے بحالت مجبوری اس کو جائز قرار دیا ہے۔
شرافت کا تعلق اعمال و اخلاق سے ہے نہ کہ نسب سے : قَالُوا اَنُوْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الاَرّذَلُوْنَ اَرْذلونَِ ارذا، کی جمع ہے، جاہ و مال نہ رکھنے والے اور اس کی وجہ سے معاشرہ میں کمتر سمجھے جانے والے اور ان ہی میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو عرف میں حقیر پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں، اس آیت میں قوم نوح نے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ آپ پر ایمان لانے والے رذیل اور بےحیثیت لوگ ہیں ہم باعزت اور شریف لوگ ان کے ساتھ کیسے شامل ہوجائیں، حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کے جواب میں فرمایا مجھے ان کے پیشہ ورانہ کاموں سے کیا مطلب ؟ مطلب یہ کہ تم لوگ خاندانی شرافت یا مال و دولت کا شرافت کی بنیاد سمجھتے ہو یہ غلط ہے بلکہ عزت و ذلت یا شرافت و رذالت کا دارومدار دراصل اعمال و اخلاق ہیں، تم نے جن پر یہ حکم لگایا ہے کہ یہ سب رذیل ہیں وہ تمہاری جہالت ہے چونکہ ہم ہر شخص کے اعمال و اخلاق کی حقیقت سے واقف نہیں، اس لئے ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے کہ حقیقت میں کون رذیل اور کون شریف ہے ؟
وَمَا اَنَا بطارِدٍ المؤمنین یہ ان کی اس خواہش کا جواب ہے کہ اگر کمتر حیثیت کے لوگوں کو اپنے پاس سے الگ کردو تو ہم تمہاری جماعت میں شامل ہوجائیں گے، اس کے جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا میں ایمان والوں کو جدا کرنے والا نہیں ہوں، قریش نے بھی اسی قسم کا سوال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں موالی اور فقراء صحابہ کے بارے میں کیا تھا۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کی ساڑھے نو سو سالہ تبلیغ کے باوجود ان کی قوم کے لوگ بد اخلاقی اور اعراض پر قائم رہے بالآخر مجبور ہو کر حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کے لئے بددعاء کی جس کے نتیجہ میں اہل ایمان کے علاوہ سب غرق دریا ہوگئے حتی کہ بیوی اور بیٹے کو بھی جو ایمان نہیں لائے تھے غرق کردیا گیا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی قوم کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اپنے رسول نوح علیہ السلام جو جھٹلایا، نیز نوح علیہ السلام نے ان کے شرک کو رد کیا اور انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کے انجام سے آگاہ فرمایا، چنانچہ فرمایا : ﴿كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ﴾ ”نوح علیہ السلام کی قوم نے تمام رسولوں کو جھٹلایا۔“ گویا حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کو تمام رسولوں کی تکذیب قرار دیا، اس لئے کہ تمام انبیاء و مرسلین کی دعوت ایک اور ان کی خبر ایک ہے اس لئے ان میں سے کسی ایک کی تکذیب اس دعوت حق کی تکذیب ہے جسے تمام انبیاء و مرسلین لے کر آئے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
nooh ki qoam ney payghumberon ko jhutlaya .
12 Tafsir Ibn Kathir
بت پرستی کا اغاز
زمین پر سب سے پہلے جو بت پرستی شروع ہوئی اور لوگ شیطانی راہوں پر چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اولوالعزم رسولوں کے سلسلے کو حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع کیا جنہوں نے آکر لوگوں کو اللہ کے عذابوں سے ڈرایا اور اسکی سزاؤں سے انہیں آگاہ کیا لیکن وہ اپنے ناپاک کرتوتوں سے باز نہ آئے غیر اللہ کی عبادت نہ چھوڑی بلکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو جھوٹا کہا ان کے دشمن بن گئے اور ایذاء رسانی کے درپے ہوگئے حضرت نوح (علیہ السلام) کا جھٹلانا گویا تمام پیغمبروں سے انکار کرنا تھا اس لئے آیت میں فرمایا گیا کہ قوم نوح نے نبیوں کو جھٹلایا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے پہلے تو انہیں اللہ کا خوف کرنے کی نصیحت کی کہ تم جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو اللہ کے عذاب کا تمہیں ڈر نہیں ؟ اس طرح توحید کی تعلیم کے بعد اپنی رسالت کی تلقین کی اور فرمایا میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں اور میں امانت دار بھی ہوں اس کا پیغام ہو بہو وہی ہے جو تمہیں سنارہا ہوں۔ پس تمہیں اپنے دلوں کو اللہ کے ڈر سے پرکھنا چاہئے اور میری تمام باتوں کو بلا چوں وچرا مان لینا چائیے۔ اور سنو میں تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میر امقصد اس سے صرف یہی ہے کہ میرا رب مجھے اس کا بدلہ اور ثواب عطا فرمائے۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میر اکہنا مانو میری سچائی میری خیر خواہی تم پر خوب روشن ہے۔ ساتھ ہی میری دیانت داری اور امانت داری بھی تم پر واضح ہے۔