النمل آية ۴۵
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِيْقٰنِ يَخْتَصِمُوْنَ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے قومِ ثمود کے پاس ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو تو اس وقت وہ دو فرقے ہو گئے جو آپس میں جھگڑتے تھے،
English Sahih:
And We had certainly sent to Thamud their brother Saleh, [saying], "Worship Allah," and at once they were two parties conflicting.
1 Abul A'ala Maududi
اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو، تو یکایک وہ دو متخاصم فریق بن گئے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا کہ اللہ کو پوجو تو جبھی وہ دو گروہ ہوگئے جھگڑا کرتے
3 Ahmed Ali
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجاکہ الله کی بندگی کرو پھر وہ دو فریق ہو کر آپس میں جھگڑنے لگے
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو پھر بھی وہ دو فریق بن کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے (١)
٤٥۔١ ان سے مراد کافر اور مومن ہیں، جھگڑنے کا مطلب ہر فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حق پر ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے ثمود کی طرف اس کے بھائی صالح کو بھیجا کہ خدا کی عبادت کرو تو وہ دو فریق ہو کر آپس میں جھگڑنے لگے
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے ﺛمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو پھر بھی وه دو فریق بن کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بےشک ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو رسول بنا کر (اس پیغام کے ساتھ) بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ تو وہ دو فریق (مؤمن و کافر) ہوگئے جو آپس میں جھگڑنے لگے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو تو دونوں فریق آپس میں جھگڑا کرنے لگے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ خدا کی عبادت کرو تو دو فریق ہو کر آپس میں جھگڑنے لگے
آیت نمبر 45 تا 59
ترجمہ : اور یقیناً ہم نے ثمود کے پاس ان کی برادری کے بھائی صالح کو بھیجا یہ کہ تم سب اللہ کی بندگی کرو یعنی اس کی توحید کے قائل ہوجاؤ اچانک (خلاف توقع) ان میں دو فریق ہوگئے دین کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے ایک فریق مومنوں کا تھا، ان کی طرف صالح (علیہ السلام) کو بھیجنے کے وقت سے اور دوسرا فریق کافروں کا تھا، آپ نے جھٹلانے والوں سے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم نیکی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں کرتے ہو ؟ یعنی رحمت سے پہلے عذاب کی (جلدی کیوں کرتے ہو ؟ ) اس اعتبار سے کہ تم نے کہا جو تم ہمارے پاس لائے ہو اگر وہ حق ہے تو ہمارے اوپر عذاب لے آؤ، تم کس لئے اللہ سے شرک سے معافی نہیں مانگتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے، کہ عذاب میں مبتلا نہ کئے جاؤ وہ لوگ کہنے لگے ہم تو تم کو اور تمہارے ساتھ والوں یعنی مومنوں کو منحوس سمجھتے ہیں اِطّیّرْنَا اصل میں تَطَیَّرْنَا تھا تا کو طا میں ادغام کردیا (ابتداء بالسکون لازم آنے کی وجہ سے) ہمزہ شروع میں داخل کردیا الطَّیَّرْنا ہوگیا یعنی تیری وجہ سے ہم نحوست میں مبتلا ہوگئے، اس لئے کہ قوم خشک سالی اور بھکمری کا شکار ہوگئی، حضرت صالح نے فرمایا تمہاری نحوست اللہ کے پاس ہے، وہ ہی اس کو تمہارے پاس لایا ہے بلکہ تم وہ لوگ ہو جو خیر و شر کے ذریعہ آزمائش میں مبتلا کئے گئے ہو اور ثمود کے شہر (حجر) میں نو شخص ایسے تھے جو معاصی کے ذریعہ زمین (ملک) میں فساد برپا کرتے تھے، ان ہی فساد کے طریقوں میں دراہم و دنانیر کا کاٹنا بھی شامل تھا اور طاعت کے ذریعہ (ذرا) اصلاح نہ کرتے تھے، ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم رات کو صالح (علیہ السلام) اور اس کے ابل پر ضرور شب خون ماریں گے یعنی رات کو ہم ان کو ضرور قتل کردیں گے لَنُبَیِّتَنَّہٗ نون کے ساتھ اور (بجائے نون کے) تا اور تاء ثانیہ کے ضمہ کے ساتھ ہے، اور اَھْلٌ سے حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے مراد ہیں اور پھر ہم اس کے دلی دم سے صاف کہہ دیں گے کہ ہم ان کے اہل کے ہلاک کرنے کے وقت موجود (ہی) نہیں تھے لَنَقُولَنَّ نون کے ساتھ اور تاء اور الم ثانیہ کے ضمہ کے ساتھ ہے مُھْلِکَ میم کے ضمہ کے ساتھ یعنی ان کو ہلاک کرنے کے وقت اور میم کے فتحہ کے ساتھ یعنی ان کی ہلاکت کے وقت، لہٰذا ہم نہیں جانتے کہ اسکو کس نے قتل کیا ؟ اور ہم بالکل سچے ہیں انہوں نے اس معاملہ میں ایک خفیہ تدبیر کی اور ہم نے (بھی ایک تدبیر کی یعنی ہم نے ان کو فوری عذاب میں گرفتار کرکے سزا دی اور ان کو خبر بھی نہ ہوئی سو دیکھ لو ان کے مکر کا انجام کیسا ہوا ؟ ہم نے ان کو اور ان کی پوری قوم کو جبرائیل کی چیخ کے ذریعہ یا فرشتوں کے پتھر مارنے کے ذریعہ ہلاک کردیا وہ پتھروں کو دیکھتے تھے مگر فرشتوں کو نہیں دیکھتے تھے ان کے مکانات جو ظلم کی وجہ سے خالی پڑے ہیں یعنی ان کے کفر کی وجہ سے خاوِیَۃً حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور اس میں عامل اسم اشارہ کے معنی (یعنی اشیر ) ہے بلاشبہ اس (تدبیر) میں بڑی عبرت ہے ان لوگوں کے لئے جو ہماری قدرت کو جانتے ہیں سو نصیحت حاصل کرتے ہیں، اور ہم نے ان لوگوں کو جو صالح (علیہ السلام) پر ایمان لاتے تھے اور وہ چار ہزار تھے بچا لیا اور وہ شرک سے پرہیز کرتے تھے اور لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ کیجئے لوطاً اپنے ما قبل اذکر محذوف کی وجہ سے منصوب ہے اور اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖ اس سے (یعنی اذکر لوطاً ) سے بدل ہے جبکہ لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کیا تم بےحیائی کا کام یعنی لواطۃ کرتے ہو درآنحالیکہ تم ایک دوسرے کو معصیت میں منہمک ہونا دکھاتے ہو ایک دوسرے کو مشغول ہوتا دیکھتے ہو کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو ؟ اَئِنَّکُمْ میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کی تسہیل اور دونوں صورتوں میں دونوں کے درمیان الف داخل کرکے بلکہ تم ایسی قوم ہو جو اپنے فعل کے انجام سے بیخبر ہے قوم کے پاس جواب سوائے یہ کہنے کے کچھ نہ تھا کہ لوط کے متعلقین کو اپنی بشتی سے نکالدو یہ لوگ مردوں کی دبروں کے معاملہ میں بڑے پاک بنتے ہیں پس ہم نے اس کو اور اس کے اہل کو بجز اس کی بیوی کے بچا لیا اور ہم نے اس کو اپنی تقدیر سے عذاب میں باقی رہنے والوں میں کردیا اور ان پر ہم نے ایک خاص قسم کی بارش برسادی اور وہ کنکریلے پتھر تھے جنہوں نے ان کو ہلاک کردیا سو ان عذاب سے ڈرائے ہوئے لوگوں پر وہ بری بارش تھی اے محمد کہہ دیجئے سابقہ قوموں کے ہلاک کرنے پر سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے، کیا اللہ بہتر ہے اس کے لئے جو اس کی بندگی کرتا ہے یا وہ جس کو یہ لوگ شریک ٹھہراتے ہیں ءٰاللہ خیرٌ میں دونوں ہمزوں کی تحقیق کے ساتھ اور دوسرے کو الف سے بدل کر اور مسہلہ اور محققہ کے درمیان الف داخل کرکے اور اس کو ترک کرکے یشرکونَ یا اور تا کے ساتھ یعنی اے اہل مکہ اللہ بہتر ہے یا وہ چیزیں جن کو تم اس کے ساتھ معبود ہونے کی حیثیت سے شریک کرتے ہو اپنے عابدین کے لئے بہتر ہیں۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
ولقد ارسلنا۔۔۔ اخاھم ثمود قبیلہ کے جداَ بعد کا نام ہے سالح (علیہ السلام) بھی ان ہی کی نسل سے ہیں اس ابوالجد ہی کے نام پر قبیلہ کا نام ہے، مگر قبیلہ ہی مراد ہے حضرت صالح (علیہ السلام) کی امت ثمود کو عاد ثانیہ بھی کہتے ہیں عاد اولیٰ قوم ہود کا نام ہے عاداولیٰ اور عاد ثانیہ کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے (جمل)
قولہ : صَالِحًا، اَخَاھم سے بدل یا عطف بیان ہے حضرت صالح (علیہ السلام) نے دو سو اسی سال کی عمر پائی، ہود (علیہ السلام) کی عمر چار سو چونسٹھ سال ہوئی، ہود (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان آٹھ سو سال کا فاصلہ ہے (جمل) فَاِذَا ھُمْ فَرِیقانِ یختَصِمُوْنَ فریقان سے قوم صالح مراد ہے یعنی کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ نہیں لائے علامہ زمخشری نے دو فریقوں میں ایک فریق حضرت صالح (علیہ السلام) کو اور دوسرا ان کی قوم کو قرار دیا ہے، علامہ زمخشری کو فریقان کا یہ مطلب لینے پر فا کے ذریعہ عطف نے آمادہ کیا ہے اس لئے کہ فا تعقیب بالاتصال پر دلالت کرتی ہے یعنی دعوۂ رسالت سے متصلاً دو فریق ہوگئے یعنی ایک فریق حضرت صالح اور دوسرا فریق ان کی قوم۔ قولہ : یختصمون باعتبار معنی کے فریقان کی صفت ہے یعنی فریقان موصوف اگرچہ باعتبار لفظوں کے تثنیہ ہے مگر چونکہ ہر فریق چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے اس میں جمعیۃ کے معنی ہیں لہٰذا موصوف وصفت میں مطابقت موجود ہے۔ قولہ : لِمَ تَسْتَعْجلُوْنَ بِالسَّیِّئَۃِ ای بطلب السَّیّئَۃِ ای بطلب السَّیّئَۃِ اور سیئۃ سے عذاب اور الحّسَنَۃِ سے رحمت مراد ہے جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کیا ہے۔ قولہ : قُحِطُوْا المَطَرَ ای حُبِسُوّا المطرَ یعنی تمہاری نحوست کی وجہ سے بارش روک دی گئی۔
قولہ : مدینۃ ثمود کہا گیا ہے کہ ثمود کے شہر کا نام حجر تھا، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ حجر مدینہ اور شام کے درمیان وادی ہے یہیں پر ثمود کی آبادی تھی۔ قولہ : رَھْطٍ کی تفسیر رجالٍ سے کرکے اشارہ کردیا کہ رَھْطٍ تسعۃُ سے معنی کے اعتبار سے تمیز واقع ہے رَھْطٌ گو لفظوں کے اعتبار سے مفرد ہے مگر معنی کے اعتبار سے جمع ہے لہٰذا اس کا تمیز واقع ہونا صحیح ہوگیا تِسْعۃٌ رھطٍ میں اضافت بیانیہ ہے، تسعۃً ھم رَھْطٌ، رھطٌ دس سے کم اشخاص کو کہتے ہیں جن میں عورتیں نہ ہوں تَقَاسَمُوْا کی تفسیر اِحْلَفُوا سے کرکے اشارہ کردیا کہ منصوبہ بنایا تھا انہوں نے آپس میں کہا کہ قسمیں کھاؤ کہ ہم صالح اور ان کے اہل خانہ پر شب خون ماریں گے، تَقَاسَمُوْا فعل ماضی بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں لقالوا کی تفسیر واقع ہوگا، گویا کہ سوال کیا گیا ماقالوا ؟ فقیل تقاسموا نُبَیّتُنَّہٗ مضارع جمع متکلم بانون تاکید ثقیلہ ہٗ ضمیر مفعول، باب تفعیل ہم اس پر ضرور رات میں حملہ کریں گے۔
قولہ : بِمَا ظَلَمُوْا کی تفسیر بظلمھم سے کرکے اشارہ کردیا کہ ما مصدریہ ہے اور باسببیہ ہے۔ قولہ : آمنوا بصالحٍ دیگر تفاسیر میں آمنوا صالحاً ہے، قولہ : وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ تاتونَ کی ضمیر سے جملہ ہو کر حال ہے مقصد نکیر کی تاکید و تشدید ہے یَبْصُرْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رویت سے رویت بصری مراد ہے (یعنی ایک دوسرے کے سامنے خبیث حرکت کرتے تھے) بعض نے تبصرون سے رویت قلبی مراد لی ہے یعنی جانتے بوجھتے بھی ایسی حرکت کرتے ہو۔ قولہ : لَتَاتُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَۃً مِنْ دُوْنِ النِّسَاءِ سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ میں جو ابہام ہے اس کی تعیین ہے اولاً مبہم رکھنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ حرکت ناقابل بیان بلکہ اس کے وصف کا بیان کرنا نہایت مشکل اور دشوار ہے کوئی بھی ذی عقل اور ہوشمند اس کی تصدیق نہیں کرے گا کہ کسی سے ایسی حرکت صادر ہوسکتی ہے۔ قولہ : مِن دون النِّساءِ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس حرکت میں دو طرفہ معصیت ہے یعنی مردوں کے ساتھ فعل معصیت ہے اور عورتوں کا ترک معصیت ہے۔
قولہ : تجھلونَ (سوال) قوم کی صفت ہے حالانکہ دونوں میں مطابقت نہیں ہے اس لئے کہ قومٌ غائب ہے اور تجھلون حاضر (جواب) غیبت اور مخاطبت جب جمع ہوجاتی ہے تو مخاطبت کے اقویٰ ہونے کی وجہ سے مخاطبت کو غیبت پر غلبہ دیدیا جاتا ہے (جمل) یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ مخاطب قوم ہے اس لئے اس کو حاضر کے درجہ میں رکھ کر صفت مخاطب کے صیغہ کے ساتھ لایا گیا ہے۔ قولہ : عاقبۃً اس سے اشارہ ہے کہ تجھلون کا مفعول محذوف ہے۔ قولہ : فما کان جوابَ قومہٖ کان کی خبر مقدم ہے وَاِلاَّ اَن قالوا اس کا اسم ہے ای اِلاَّ قولُھم اور ابن ابی اسحٰق نے جوابُ کو اسم کان قرار دیکر رفع پڑھا ہے اور مابعد کو اس کی خبر قرار دیا ہے۔
قولہ : وَاَمْطَرْنَا علَیْھِمْ مَطَرًا یہ تاکید شدت مطر پر دلالت کرنے کے لئے یعنی وہ بارش غیر معہود اور غیر معمولی تھی بالعذاب منذرین کے متعلق ہے اور مَطَرُھم مخصوص بالذم ہے۔
تفسیر و تشریح
ولقد ارسلنا۔۔۔ اخاھم یہ اس سورت کا چوتھا قصہ ہے، حضرت صالح (علیہ السلام) کا نام قرآن کریم میں آٹھ جگہ آیا ہے، حضرت صالح (علیہ السلام) جس قوم میں پیدا ہوئے اس کو ثمود کہتے تھے حضرت صالح (علیہ السلام) کا سلسلہ نسب چھ واسطوں سے ان کے جداعلیٰ ثمود تک پہنچ جاتا ہے یہ امام بغوی کی تحقیق ہے اور یہی تاریخی حیثیت سے راجح ہے (قصص القرآن) اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ قوم ثمود کا نام ثمود ان کے مورث اعلیٰ کے نام پر ہے، ثمود سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک کہ سلسلہ نسب میں دو قول ہیں (1) ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح (2) ثمود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح (علیہ السلام) ، صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ امام ثعلبی دوسرے قول کو راجع سمجھتے ہیں، قوم ثمود سامی اقوام ہی کی ایک شاخ ہے، عاد اولیٰ کی ہلاکت کے وقت حضرت ہود (علیہ السلام) کے ساتھ بچ گئے تھے یہ وہی لوگ ہیں اور یہی نسل، عاد ثانیہ کہلائی۔
ثمود کی بستیاں : ثمود کہاں آباد تھے ؟ اور کس خطہ میں پھیلے ہوئے تھے ؟ اس کے متعلق یہ طے شدہ امر ہے کہ ان کی آبادیاں حجر میں تھیں، حجاج اور شام کے درمیان وادی قریٰ تک جو میدان نظر آتا ہے یہ سب ان کا مقام سکونت ہے، اور آج کل فج الناقہ کے نام سے مشہور ہے ثمود کی بستیوں کے خرابات اور آثار آج تک موجود ہیں۔
اہل ثمود کا مذہب : ثمود اپنے پیش دو ، بت پرستوں کی طرح بت پرست تھے اور خدائے وحدہٗ لاشریک کے علاوہ بہت سے معبود ان باطلہ کے پرستار تھے، اس کی اصلاح کے لئے ان ہی کے قبیلہ میں سے حضرت صالح کو ناصح اور رسول بنا کر بھیجا گیا، ان کی قوم کے تقریباً چار ہزار افراد ان پر ایمان لائے تھے عذاب آنے سے پہلے جن کو لیکر حضرت صالح (علیہ السلام) حضرموت تشریف لے گئے جہاں حضرت صالح کا انتقال ہوگیا اسی وجہ سے اس کا نام حضرموت مشہور ہوگیا۔
ناقۃ اللہ : حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم ثمود کو بہت سمجھایا، قوم بجائے اس کے کہ ان کی نصیحت کو قبول کرتی، بت پرستی سے باز آتی، ان کا بغض وعناد ترقی پاتا رہا اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی مخالفت میں اضافہ ہی ہوتا رہا، اگرچہ کمزور اور مختصر جماعت نے ایمان قبول کرلیا مگر سربرآوردہ اور اہل اقتدار اور خوشحال لوگوں کی جماعت بت پرستی پر قائم رہی، خدا کی دی ہوئی ہر قسم کی خوش عیشی اور رفاہیت کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے کفران نعمت کو شعار بنا لیا، حضرت صالح کی نہ صرف یہ کہ تکذیب کی بلکہ ان کا مذاق بھی اڑاتی رہی، اور پیغمبرانہ دعوت و نصیحت کو قبول کرنے سے انکار کردیا، اور نشان نبوت کا مطالبہ کیا۔
تاریخی حیثیت سے واقعہ کی تفصیل : واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم جب حضرت صالح (علیہ السلام) کی تبلیغ حق سے اکتا گئی تو ان کے سرخیل اور سرگروہ افراد نے قوم کی موجودگی میں مطالبہ کیا اے سالح اگر تو واقعہ خدا کافر ستادہ ہے تو کوئی نشان (معجزہ) دکھا، تاکہ ہم تیری صداقت پر ایمان لے آئیں، حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ نشان آنے کے بعد بھی انکار پر مصر اور سرکشی پر قائم رہو، قوم کے ان سرداروں نے بتاکید وعدہ کیا کہ ہم فوراً ایمان لے آئیں گے، تب حضرت صالح (علیہ السلام) نے دریافت کیا کہ وہ کس قسم کا نشاہ چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ سامنے والے پہاڑ سے یا بستی کے اس پتھر سے جو کنارہ پر نصب ہے ایک ایسی اونٹنی ظاہر کر کہ جو گیا بھن ہو اور فوراً بچہ دے، حضرت صالح (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی جس کے نتیجے میں اسی وقت اس پتھر سے حاملہ اونٹنی ظاہر ہوئی اور اس نے بچہ دیا، یہ دیکھ کر ان سرداروں میں سے جندع بن عمر تو اسی وقت مسلمان ہوگیا اور دوسرے سرداروں نے بھی جب اس کی پیروی میں اسلام لانے کا ارادہ کیا تو ان کے ہیکلوں اور مندروں کے مہنتوں نے ان کو اسلام لانے سے باز رکھا۔
اب صالح (علیہ السلام) نے قوم کے تمام افراد کو تنبیہ کی کہ دیکھو یہ نشانی تمہاری طلب پر بھیجی گئی ہے خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ پانی کی باری مقرر ہو ایک دن اس اونٹنی کا ہوگا اور ایک دن پوری قوم اور ان کے جانوروں کا، اور خبردار اس کو کوئی اذیت نہ پہنچے، اگر اس کو آزار پہنچا تو تمہاری خیر نہیں ہے ایک مدت تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، اور پوری قوم اس کے دودھ سے فائدہ اٹھاتی رہی، آہستہ آہستہ یہ بات بھی ان کو کھٹکنے لگی اور آپس میں صلاح و مشورے ہونے لگے کہ اس ناقہ کا خاتمہ کردیا جائے تاکہ باری کے قصے سے نجات ملے، کیونکہ اب ہمارے چوپایوں کے لئے اور خود ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے مگر قتل کرنے کی کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی، ایک حسین و جمیل مالدار عورت صدوق نے خود کو ایک شخص مصدع کے سامنے اور دوسری مالدار عورت عنیزہ نے اپنی ایک خوبصورت لڑکی کو قیدار (قدار) کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیا کہ اگر وہ ناقہ کو ہلاک کردیں تو یہ تمہاری ملک ہیں، تم ان کو بیوی بنا کر عیش کرو آخر قیدار بن سالف اور مصدع کو اس کے لئے آمادہ کرلیا گیا اور طے پایا کہ وہ راہ میں چھپ کر بیٹھ جائیں اور ناقہ جب چراگاہ جانے لگے تو اس پر حملہ کردیں اور چند دیگر آدمیوں نے بھی مدد کا وعدہ کیا۔
غرضیکہ ایسا ہی کیا گیا اور ناقہ کو اس طرح سازش کرکے قتل کردیا گیا اور آپس میں قسمیں کھائیں کہ رات ہونے پر ہم سب صالح اور اس کے اہل و عیال کو بھی قتل کردیں گے اور پھر اس کے اولیاء کو قسمیں کھا کر یقین دلا دیں گے کہ یہ کام ہمارا نہیں ہم تو اس وقت موجود بھی نہیں تھے ادھر بچہ یہ دیکھ کر بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور چیختا چلاتا پہاڑی میں غائب ہوگیا۔
صالح (علیہ السلام) کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو فرمایا آخر وہی ہوا جس کا مجھے خطرہ تھا، اب خدائی عذاب کا انتطار کرو جو تین دن کے بعد تم کو تباہ کر دے گا، اور پھر بجلی کی چمک اور کڑک کا عذاب آیا اس نے رات میں سب کو تباہ کردیا اور آنے والے انسانوں کے لئے تاریخی عبرت کا سبق دے گیا۔
صاحب روح المعانی سید آلوسی (رح) اپنی تفسیر روح المعانی میں تحریر فرماتے ہیں کہ ثمود پر عذاب کی علامات اگلی صبح ہی سے نمودار ہونے لگیں، پہلے روز ان سب کے چہرے اس طرح زرد پڑگئے جیسا کہ خوف کی ابتدائی حالت میں ہوجایا کرتا ہے، اور دوسرے روز سب کے چہرے سرخ تھے گویا کہ خوف و دہشت کا یہ دوسرا درجہ تھا اور تیسرے روز ان سب کے چہرے سیاہ تھے اور یہ خوف و دہشت کا وہ تیسرا مقام ہے کہ جس کے بعد موت ہی کا درجہ باقی رہ جاتا ہے۔
بہرحال ان تین دن کے بعد وقت موعود آپہنچا اور رات کے وقت ایک ہیبت نال آواز نے ہر شخص کو اسی حالت میں ہلاک کردیا جس حالت میں وہ تھا قرآن عزیز نے اس ہلاکت آفریں آواز کو کسی مقام پر صاعقہ (کڑک دار بجلی) اور کسی جگہ (زلزلہ ڈال دینے والی شئ) اور بعض جگہ طاغیہ (دہشت ناک) اور بعض جگہ صیحہ (چیخ) فرمایا، یہ سب ایک ہی حقیقت کی مختلف اوصاف کے اعتبار سے تعبیرات ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ خدا تعالیٰ کے اس عذاب کی ہولناکیاں کیسی گونا گوں تھیں۔
ایک طرف ثمود پر یہ عذاب نازل ہوا دوسری طرف حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے پیرو مسلمانوں کو خدا نے اپنی حفاظت میں لے لیا اور ان کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔
قصہ لوط (علیہ السلام) : ولوطاً گزشتہ صفحات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر آچکا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زادہ ہیں ان کے والد کا نام ہاران تھا، حضرت لوط (علیہ السلام) کا بچپن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زیر سایہ گزرا تھا حضرت لوط (علیہ السلام) ہجرت میں بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ رہے ہیں اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مصر تشریف لے گئے تھے تو اس وقت بھی حضرت لوط (علیہ السلام) ہمراہ تھے، اور مصر میں بھی قیام ساتھ ہی میں رہا باہم مشورہ سے یہ بات طے پائی کہ لوط مصر سے ہجرت کرکے مشرق اردن کے علاوہ سدوم اور عامورہ چلے چائیں اور وہاں رہ کر دین حنیف کی تبلیغ و اشاعت کا کام کریں اور حضرت ابراہیم واپس فلسطین چلے جائیں۔
سدوم : اردن کی وہ جانب ہے جہاں آج بحر میت یا بحر لوط واقع ہے یہی وہ مقام ہے کہ جہاں سدوم و عامورہ کی بستیاں واقع تھیں وہاں کے گرد و نواح میں بسنے والوں کا یہ اعتقاد ہے کہ وہ تمام حصہ جواب زیر آب نظر آتا ہے کسی زمانہ میں خشک زمین تھی اور اس پر شہر آباد تھے، قوم لوط پر عذاب کی وجہ سے یہ زمین تقریباً چار سو میٹر سطح سمندر سے نیچے چلی گئی، اسی لئے اس کو بحر میت اور بحر لوط کہتے ہیں۔ (بستان جلد 9، ص 537، بحوالہ قصص القرآن ج 1، ص 257)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے معروف قبیلہ ثمود میں، ان کے نسبتی بھائی حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔ انہوں نے ان کو حکم دیا کہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی عبادت چھوڑ دیں۔ ﴿ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ﴾ ” پس وہ دو فریق ہو کر جھگڑنے لگے۔“ ان میں ایک مومنوں کا گروہ تھا اور دوسرا کفار کا گروہ تھا جو بہت بڑا تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney qoam-e-samood kay paas unn kay bhai saleh ko yeh paygham dey ker bheja kay tum Allah ki ibadat kero , to achanak woh do giroh ban gaye jo aapas mein jhagarrney lagay .
12 Tafsir Ibn Kathir
صالح (علیہ السلام) کی ضدی قوم
حضرت صالح (علیہ السلام) جب اپنی قوم ثمود کے پاس آئے اور اللہ کی رسالت ادا کرتے ہوئے انہیں دعوت توحید دی تو ان میں دو فریق بن گئے ایک جماعت مومنوں کی دوسرا گروہ کافروں کا۔ یہ آپس میں گتھ گئے جیسے اور جگہ ہے کہ متکبروں نے عاجزوں سے کہا کہ کیا تم صالح کو رسول اللہ مانتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم کھلم کھلا ایمان لاچکے ہیں انہوں نے کہا بس تو ہم ایسے ہی کھلم کھلا کافر ہیں۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا بجائے رحمت کے عذاب مانگ رہے ہو ؟ تم استغفار کرو تاکہ نزول رحمت ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا تو یقین ہے کہ ہماری تمام مصیبتوں کا باعث تو ہے اور تیرے ماننے والے۔ یہی فرعونیوں نے کلیم اللہ سے کہا تھا کہ جو بھلائیاں ہمیں ملتی ہیں ان کے لائق تو ہم ہیں لیکن جو برائیاں پہنچتی ہیں وہ سب تیری اور تیرے ساتھیوں کی وجہ سے ہیں اور آیت میں ہے ( وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ ۭقُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا 78) 4 ۔ النسآء :78) یعنی اگر انہیں کوئی بھلائی مل جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچ جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری جانب سے ہے تو کہہ دے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے یعنی اللہ کی قضا و قدر سے ہے۔ سورة یسین میں بھی کفار کا اپنے نبیوں کو یہی کہنا موجود ہے آیت ( قَالُوْٓا اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّـنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــيْمٌ 18) 36 ۔ يس :18) ہم تو آپ سے بدشگونی لیتے ہیں اگر تم لوگ باز نہ رہے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے اور سخت دیں گے۔ نبیوں نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو ہر وقت تمہارے وجود میں موجود ہے۔ یہاں ہے کہ حضرت صالح نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو اللہ کے پاس ہے یعنی وہی تمہیں اس کا بدلہ دے گا۔ بلکہ تم تو فتنے میں ڈالے ہوئے لوگ ہو تمہیں آزمایا جارہا ہے اطاعت سے بھی اور معصیت سے بھی اور باوجود تمہاری معصیت کے تمہیں ڈھیل دی جارہی ہے یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اس کے بعد پکڑے جاؤ گے۔