Skip to main content

وَاَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا ۗ اِنْ كَادَتْ لَـتُبْدِىْ بِهٖ لَوْلَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ

And became
وَأَصْبَحَ
اور ہوگیا
(the) heart
فُؤَادُ
دل
(of the) mother
أُمِّ
ماں کا
(of) Musa
مُوسَىٰ
موسیٰ کی
empty
فَٰرِغًاۖ
خالی
That
إِن
بیشک
she was near
كَادَتْ
قریب تھا
(to) disclosing
لَتُبْدِى
کہ ظاہر کردیتی
about him
بِهِۦ
اس کو
if not
لَوْلَآ
اگر نہ
that
أَن
کہ
We strengthened
رَّبَطْنَا
ہم باندھ دیتے
[over]
عَلَىٰ
پر
her heart
قَلْبِهَا
اس کے دل
so that she would be
لِتَكُونَ
تاکہ وہ ہو
of
مِنَ
سے
the believers
ٱلْمُؤْمِنِينَ
ایمان لانے والوں میں (سے)

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اُدھر موسیٰؑ کی ماں کا دل اڑا جا رہا تھا وہ اس راز کو فاش کر بیٹھتی اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھا دیتے تاکہ وہ (ہمارے وعدے پر) ایمان لانے والوں میں سے ہو

English Sahih:

And the heart of Moses' mother became empty [of all else]. She was about to disclose [the matter concerning] him had We not bound fast her heart that she would be of the believers.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اُدھر موسیٰؑ کی ماں کا دل اڑا جا رہا تھا وہ اس راز کو فاش کر بیٹھتی اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھا دیتے تاکہ وہ (ہمارے وعدے پر) ایمان لانے والوں میں سے ہو

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور صبح کو موسیٰ کی ماں کا دل بے صبر ہوگیا ضرو ر قریب تھا کہ وہ اس کا حال کھول دیتی اگر ہم نہ ڈھارس بندھاتے اس کے دل پر کہ اسے ہمارے وعدہ پر یقین رہے

احمد علی Ahmed Ali

اور صبح کو موسی ٰکی ماں کا دل بے قرار ہو گیا قریب تھی کہ بے قراری ظاہر کر دے اگر ہم اس کے دل کو صبر نہ دیتے تاکہ اسے ہمارے وعدے کا یقین رہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

موسٰی (علیہ السلام) کی والدہ کا دل بےقرار ہوگیا (١) قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے یہ اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں رہے (٢)

١٠۔١ یعنی ان کا دل ہرچیز اور فکر سے فارغ(خالی) ہوگیا اور ایک ہی فکر یعنی موسیٰ علیہ السلام کا غم دل میں سما گیا، جس کو اردو میں بےقراری سے تعبیر کیا گیا ہے۔
١٠۔٢ یعنی شدت غم سے یہ ظاہر کر دیتیں کہ یہ ان کا بچہ ہے لیکن اللہ نے ان کے دل کو مضبوط کر دیا جس پر انہوں نے صبر کیا اور یقین کر لیا کہ اللہ نے اس موسیٰ علیہ السلام کو بخریت واپس لٹانے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ پورا ہوگا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور موسٰی کی ماں کا دل بے صبر ہو گیا اگر ہم اُن کے دل مضبوط نہ کر دیتے تو قریب تھا کہ وہ اس (قصّے) کو ظاہر کر دیں۔ غرض یہ تھی کہ وہ مومنوں میں رہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

موسیٰ (علیہ السلام) کی والده کا دل بے قرار ہوگیا، قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ﻇاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے یہ اس لیے کہ وه یقین کرنے والوں میں رہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور مادرِ موسیٰ کا دل بے چین ہوگیا اور قریب تھا کہ وہ اس (بچہ) کا حال ظاہر کر دے۔ اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے تاکہ وہ (ہمارے وعدہ پر) ایمان لانے والوں میں سے ہو۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور موسٰی کی ماں کا دل بالکل خالی ہوگیا کہ قریب تھا کہ وہ اس راز کو فاش کردیتیں اگر ہم ان کے دل کو مطمئن نہ بنادیتے تاکہ وہ ایمان لانے والوں میں شامل ہوجائیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور موسٰی (علیہ السلام) کی والدہ کا دل (صبر سے) خالی ہوگیا، قریب تھا کہ وہ (اپنی بے قراری کے باعث) اس راز کو ظاہر کردیتیں اگر ہم ان کے دل پر صبر و سکون کی قوّت نہ اتارتے تاکہ وہ (وعدۂ الٰہی پر) یقین رکھنے والوں میں سے رہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ؟
موسیٰ (علیہ السلام) کی و الدہ نے جب ان کو صندوقچہ میں ڈال کر دریا میں بہادیا تو بہت پریشان ہوئیں اور سوائے اللہ کے سچے رسول اور اپنے لخت جگر حضرت موسیٰ کے آپ کو کسی اور چیز کا خیال ہی نہ رہا۔ صبر وسکون جاتارہا دل میں بجز حضرت موسیٰ کی یاد کے اور کوئی خیال ہی نہیں آتا تھا۔ اگر اللہ کی طرف سے ان کی دلجمعی نہ کردی جاتی تو وہ تو بےصبری میں راز فاش کردیتیں لوگوں سے کہہ دیتیں کہ اس طرح میرا بچہ ضائع ہوگیا۔ لیکن اللہ نے اس کا دل ٹھہرا دیا ڈھارس دی اور تسکین دے دی کہ تیرا بچہ تجھے ضرور ملے گا۔ والدہ موسیٰ نے اپنی بڑی بچی سے جو ذرا سمجھ دار تھیں فرمایا کہ بیٹی تم اس صندوق پر نظر جماکر کنارے کنارے چلی جاؤ دیکھو کیا انجام ہوتا ہے ؟ مجھے بھی خبر کرنا تو یہ دور سے اسے دیکھتی ہوئی چلیں لیکن اس انجان پن سے کہ کوئی اور نہ سمجھ سکے کہ یہ اس کا خیال رکھتی ہوئی اس کے ساتھ جارہی ہے۔ فرعون کے محل تک پہنچتے ہوئے اور وہاں اس کی لونڈیوں کو اٹھاتے ہوئے تو آپ کی ہمشیرہ نے دیکھا پھر وہیں باہر کھڑی رہ گئیں کہ شاید کچھ معلوم ہوسکے کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ وہاں یہ ہوا کہ جب حضرت آسیہ نے فرعون کو اس کے خونی ارادے سے باز رکھا اور بچے کو اپنی پرورش میں لے لیا تو شاہی محل میں جتنی دایاں تھیں سب کو بچہ دیا گیا۔ ہر ایک نے بشری محبت وپیار سے انہیں دودھ پلانا چاہا لیکن بحکم الٰہی حضرت موسیٰ نے کسی کے دودھ کا ایک گھونٹ بھی نہ پیا۔ آخر اپنی لونڈیوں کے ہاتھوں اسے باہر بھیجا کہ کسی دایہ کو تلاش کرو جس کا دودھ یہ پئے اس کو لے آؤ۔ چونکہ رب العلمین کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کا اپنی والدہ کے سوا کسی اور کا دودھ پئے اور اس میں سب سے بڑی مصلحت یہ تھی کہ اس بہانے حضرت موسیٰ اپنی ماں تک پہنچ جائیں۔ لونڈیاں آپ کو لے کر جب باہر نکلیں تو آپ کی بہن نے آپ کو پہچان لیا لیکن ان پر ظاہر نہ کیا اور نہ خود انہیں کوئی پتہ چل سکا آپ کی بہن تو پہلے بہت پریشان تھی لیکن اس کے بعد اللہ نے انہیں صبر وسکون دے دیا اور وہ خاموش اور مطمئن تھیں۔ بہن نے انکو کہا کہ تم اس قدر پریشان کیوں ہو ؟ انہوں نے کہا یہ بچہ کسی دائیہ کا دودھ نہیں پیتا اور ہم اس کے لئے دایہ کی تلاش میں ہیں۔ یہ سن کر ہمشیرہ موسیٰ نے فرمایا اگر تم کہو تو تمہیں ایک دائی کا پتہ دوں ؟ ممکن ہے بچہ ان کا دودھ پی لئے اور اسکی پرورش کریں اور اس کی خیر خواہی کریں۔ یہ سن کر انہیں کچھ شک گزرا کہ یہ لڑکی اس لڑکے کی اصلیت ہے اور اس کے ماں باپ سے واقف ہے اسے گرفتار کرلیا اور پوچھا تمہیں کیا معلوم کہ وہ عورت اسکی کفالت اور خیر خواہی کرے گی ؟ اس نے فورا جواب دیا سبحان اللہ۔ کون نہ چاہے گا کہ شاہی دربار میں اس کی عزت ہو۔ انعام و اکرام کی خاطر کون اس سے ہمدردی نہ کریگا۔ ان کی سمجھ میں بھی آگیا کہ ہمارا پہلا گمان غلط تھا یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہے اسے چھوڑ دیا اور کہا اچھاچل اس کا مکان دکھا یہ انہیں لیکر اپنے گھر لے آئیں اور اپنی والدہ کی طرف اشارہ کرکے کہا انہیں دیجئے۔ سرکاری آدمیوں نے انہیں دیا تو بچہ دودھ پینے لگا۔ فورا یہ خبر حضرت آسیہ کو دی گئی وہ یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور انہیں اپنے محل میں بلوایا اور بہت کچھ انعام و اکرام کیا لیکن یہ علم نہ تھا کہ فی الواقع یہی اس بچے کی والدہ ہیں۔ فقط اس وجہ سے کہ حضرت موسیٰ نے ان کا دودھ پیا تھا وہ ان سے بہت خوش ہوئیں۔ کچھ دنوں تک تو یونہی کام چلتارہا۔ آخرکار ایک روز حضرت آسیہ نے فرمایا میری خوشی ہے کہ تم محل میں آجاؤ یہیں رہو سہو اور اسے دودھ پلاتی رہو۔ ام موسیٰ نے جواب دیا کہ یہ تو مجھ سے نہیں ہوسکتا میں بال بچوں والی ہوں میرے میاں بھی ہیں میں انہیں دودھ پلادیا کرونگی پھر آپ کے ہاں بھیج دیا کرونگی۔ یہ طے ہوا اور اس پر فرعون کی بیوی بھی رضامند ہوگئیں ام موسیٰ کا خوف امن سے، فقیری امیری سے، بھوک آسودگی سے، دولت وعزت میں بدل گئی۔ روزانہ انعام و اکرام پاتیں۔ کھانا، کپڑا، شاہی طریق پر ملتا اور اپنے پیارے بچے کو اپنی گود میں پالتیں۔ ایک ہی رات یا ایک ہی دن یا ایک دن ایک رات کے بعد ہی اللہ نے اس کی مصیبت کو راحت سے بدل دیا۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص اپنا کام دھندا کرے اور اسمیں اللہ کا خوف اور میری سنتوں کا لحاظ کرے اسکی مثال ام موسیٰ کی مثال ہے کہ اپنے ہی بچے کو دودھ پلائے اور اجرت بھی لے۔ اللہ کی ذات پاک ہے اسی کے ہاتھ میں تمام کام ہے اسی کا چاہا ہوا ہوتا ہے اور جس کام کو وہ نہ چاہے ہرگز نہیں ہوتا۔ یقینا وہ ہر اس شخص کی مدد کرتا ہے جو اس پر توکل کرے۔ اس کی فرمانبردای کرنے والے کا دستگیر وہی ہے۔ وہ اپنے نیک بندوں کے آڑے وقت کام آتا ہے اور ان کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور ان کی تنگی کو فراخی سے بدلتا ہے۔ اور ہر رنج کے بعد راحت عطا فرماتا ہے۔ فسبحانہ ما اعظم شانہ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اسے اسکی ماں کی طرف واپس لوٹادیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور اسے اپنے بچے کا صدمہ نہ رہے۔ اور وہ اللہ کے وعدوں کو بھی سچا سمجھے اور یقین مان لے کہ وہ ضرور نبی اور رسول بھی ہونے والا ہے، اب آپ کی والدہ اطمینان سے آپ کی پرورش میں مشغول ہوگئیں اور اسی طرح پرورش کی جس طرح ایک بلند درجہ نبی کی ہونی چاہیے۔ ہاں رب کی حکمتیں بےعلموں کی نگاہ سے اوجھل رہتی ہیں۔ وہ اللہ کے احکام کی غایت کو اور فرمانبردای کے نیک انجام کو نہیں سوچتے۔ ظاہری نفع نقصان کے پابند رہتے ہیں۔ اور دنیا پر ریجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں یہ نہیں سوجھتا کہ ممکن ہے جسے وہ برا سمجھ رہے ہیں اچھاہو اور بہت ممکن ہے کہ جسے وہ اچھاسمجھ رہے ہیں وہ برا ہو یعنی ایک کام برا جانتے ہوں مگر کیا خبر کہ اس میں قدرت نے کیا فوائد پوشیدہ رکھیں ہیں۔