القصص آية ۵۱
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَۗ
طاہر القادری:
اور درحقیقت ہم ان کے لئے پے در پے (قرآن کے) فرمان بھیجتے رہے تاکہ وہ نصیحت قبو ل کریں،
English Sahih:
And We have [repeatedly] conveyed to them the word [i.e., the Quran] that they might be reminded.
1 Abul A'ala Maududi
اور (نصیحت کی) بات پے در پے ہم انہیں پہنچا چکے ہیں تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہوں
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے ان کے لیے بات مسلسل اتاری کہ وہ دھیان کریں،
3 Ahmed Ali
اور البتہ ہم ان کے پاس ہدایت بھیجتے رہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
4 Ahsanul Bayan
اور ہم برابر پے درپے لوگوں کے لئے اپنا کلام بھیجتے رہے (۱) تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔(۲)
۵۱۔۱ یعنی ایک رسول کے بعد دوسرا رسول، ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب ہم بھیجتے رہے اور اس طرح مسلسل لگاتار ہم اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے رہے۔
۵۱۔۲ مقصد اس سے یہ تھا کہ لوگ پچھلے لوگوں کے انجام سے ڈر کر اور ہماری باتوں سے نصیحت حاصل کر کے ایمان لے آئیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم پے درپے اُن لوگوں کے پاس (ہدایت کی) باتیں بھیجتے رہے ہیں تاکہ نصیحت پکڑیں
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم برابر پے درپے لوگوں کے لیے اپنا کلام بھیجتے رہے تاکہ وه نصیحت حاصل کرلیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے ان کیلئے کلام (ہدایت نظام) کا تسلسل جاری رکھا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے مسلسل ان لوگوں تک اپنی باتیں پہنچائیں کہ شاید اسی طرح نصیحت حاصل کرلیں
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم پے درپے ان لوگوں کے پاس (ہدایت کی) باتیں بھیجتے رہے ہیں تاکہ نصیحت پکڑیں
آیت نمبر 51 تا 60
ترجمہ : اور ہم نے لوگوں کے لئے قول یعنی قرآن کو (کھول کر بیان کیا) پیہم بھیجا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لے آئیں جن کو ہم نے اس قرآن سے پہلے کتاب عطا فرمائی وہ اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں یہ آیت یہود کی اس جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، جیسا کہ عبد اللہ بن سلام وغیرہ اور ان نصاریٰ کے بارے میں جو حبشہ اور شام سے آئے تھے اور جب ان کو قرآن پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کے ہمارے رب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے ہم تو اس سے پہلے ہی سے مسلمان یعنی موحد ہیں یہ لوگ اپنے دونوں کتابوں پر ایمان رکھنے کی وجہ سے اور دونوں پر عمل (کی مشقت) پر صبر کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر دئیے جائیں گے، اور یہ لوگ نیکی سے بدی کا دفعیہ کردیتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے اس میں سے (راہ خدا میں) صدقہ کرتے ہیں اور جب کسی سے لغو بات اور اذیت کی بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرلیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں ہمارا عمل ہمارے لئے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے ہم تو تم کو سلام کرتے ہیں یہ سلام متارکت (یعنی پیچھا چھڑانے کا سلام) ہوتا ہے (نہ کہ سلام تحیہ) یعنی تم ہماری طرف سے گالی وغیرہ سے سلامت رہو ہم ناسمجھ لوگوں سے مصاحبت (الجھنا) نہیں چاہتے (آئندہ آیت) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنے چچا ابو طالب کے ایمان پر زیادہ حریص ہونے کے بارے میں نازل ہوئی آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت کردیتا ہے، ہدایت پانے والوں کا علم اسی کو ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم کہنے لگی اگر ہم آپ کے ساتھ ہو کر ہدایت کے تابعدار بن جائیں تو ہم اپنے ملک سے اچک لئے جائیں یعنی فی الفور ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کیا جائے کیا ہم نے ان کو امن اور امن والے حرم میں جگہ نہیں دی ؟ کہ وہ اس میں قتل و غارت گری سے جو کہ عرب میں باہم (عام طریقہ پر) واقع ہو رہی ہے مامون رہ رہے ہیں جہاں ہر قسم کے پھل ہر جانب سے کھچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس سے ان کے لئے بطور رزق کے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ حق ہے اور ہم بہت سی ایسی بستیاں ہلاک کرچکے ہیں جو اپنے سامان عیش پر نازاں تھیں اور قریہ سے اہل قریہ مراد ہیں یہ ہیں ان کے مکانات، جو ان کے بعد آئے نہ رہ سکے مگر بہت کم، مسافروں کے لئے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ اور آخر کار ہم ہی ان کے وارث رہے اور تیرا رب کسی ایک بستی کو بھی اہل بستی کے ظلم کی وجہ سے (اس وقت تک) ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ (بستیوں) کے صدر مقام میں کسی پیغمبر کو نہ بھیج دے جو ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ہم بستیوں کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں جب کہ بستی والے رسولوں کی تکذیب کرکے ظلم پر کمر کس لیں اور جو کچھ تم کو دیا گیا ہے وہ محض دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے جس سے تم اپنی زندگی میں فائدہ اٹھاتے ہو اور اس سے زینت حاصل کرتے ہو پھر فنا ہوجاتا ہے ہاں اللہ کے پاس جو ہے وہ بہت ہی بہتر اور دیرپا ہے کیا تم نہیں سمجھتے ؟ یعقلون میں یا اور تا کے ساتھ دونوں قرأتیں ہیں اور یقیناً باقی فانی سے بدر جہا بہتر ہے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
وَصَّلْنَا ماضی جمع متکلم (تفعیل) ہم نے پے در پے بھیجا، ہم نے کھول کر بیان کیا۔ قولہ : الذین موصول اپنے صلہ سے مل کر جملہ ہو کر مبتدا ھُمْ مبتدا کی خبر اور بہٖ یومنون سے متعلق مبتداء ثانی اپنی خبر سے مل کر مبتدا اول کی خبر۔ قولہ : ایضاً ای کما آمنوا بکتابھم۔ قولہ : بصبرھم سے اشارہ کردیا کہ ما مصدریہ ہے۔ قولہ : یَدْرَءُوْنَ ، یُنْفِقُونَ ، وَاِذَا سِمِعُوْا ان سب کا عطف، یُوْتُوْنَ پر ہے۔
قولہ : وَالاَذٰی من الکفارِ یہ عطف عام علی الخاص کے قبیل سے ہے۔ قولہ : لا تَھْدِی مَنْ اَحْبَبْتَ اس میں ایصال الی المطلوب کی نفی ہے نہ کہ اراء ۃِ طریق کی، لہٰذا اس قول اور اِنَّکَ لَتَھْدِی اِلی صِراط المستقیمِ میں کوئی تعارض نہیں ہے وقالوا ای قومہ قوم سے مراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم ہے اور قائل حارث بن عثمان بن نوفل بن عبد مناف ہے۔ قولہ : یُجْبٰی ای یُحْمَلُ ویُسَاقُ الیہ، مِنْ کُلِّ اوبٍ ای من کلِّ جانبٍ ۔ قولہ : ثمرات کلِّ شیئ یہ کثرت سے کنایہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شیئٍ میں ہر ضرورت کی شئ مراد ہے نہ کہ دنیا کی ہر شئ۔
قولہ : معِیْشتھا ای عَیْشَھا معِیٌشتَھَا حذف مضاف کے ساتھ ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے اور مفسر علام نے معِیْشۃً کی تفسیر عیشٌ سے کی ہے اب تقدیر عبارت یہ ہوگی بَطِرَتْ فِی زمن حیَاتِھا۔ قولہ : لَمْ تُسْکَنْ یہ جملہ ہو کر حال ہے اور عامل تِلْکَ بمعنی اشیر ہے تلک مبتداء کی خبر ثانی بھی ہوسکتی ہے۔ قولہ : وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِنْ شئ فَمَتاعُ الحیوٰۃِ الدنیا ما شرطیہ ہے اور مِن شیئٍ اس کا بیان ہے فمَتاعُ الحیوٰۃ الدنیا ھو مبتداء محذوف کی خبر ہے اور جملہ ہو کر جواب شرط ہے۔
تفسیر و تشریح
ولقد وصلنا (الآیۃ) وصلنا توصلٌ سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی تاروں میں تار ملا کر رسی بٹنا، حق تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ جاری رکھا یعنی ایک رسول کے بعد دوسرا اور ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب بھیجتے رہے حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد رشد و ہدایت کا امت مرحومہ کے ذریعہ ایساتکوینی سلسلہ جاری فرما دیا کہ اب کسی نبی کی ضرورت نہیں رہی۔
شان نزول : الذین آتینھم الکتاب (الآیۃ) اس آیت میں ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے
پہلے ہی تورات اور انجیل کی دی ہوئی بشارتوں کی بناء پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور نزول قرآن پر یقین رکھتے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی تو اپنے سابق یقین کی بنا پر ایمان لے آئے، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نجاشی بادشاہ حبشہ کے درباریوں میں سے چالیس آدمی مدینہ طیبہ میں اس وقت حاضر ہوئے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوۂ خیبر میں مشغول تھے یہ لوگ بھی جہاد میں شریک ہوگئے، بعض کو کچھ زخم بھی لگے مگر ان میں سے کوئی مقتول نہیں ہوا، ان لوگوں نے جب صحابہ کرام کی معاشی تنگی کا حال دیکھا تو آپ سے درخواست کی کہ ہم اللہ کے فضل سے مالدار اور صاحب ثروت ہیں ہم اپنے ملک واپس جاکر صحابہ کے لئے مال فراہم کرکے لائیں آپ اجازت دیدیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (اخرجہ ابن مردویہ الطبرنی، مظہری) ۔ اور حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ حضرت جعفر (رض) اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب ہجرت مدینہ سے پہلے حبشہ گئے تھے اور نجاشی کے دربار میں اسلامی تعلیمات پیش کیں تو نجاشی اور اس کے اہل دربار جو اہل کتاب تھے اور توریت و انجیل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت اور علامتیں دیکھے ہوئے تھے ان کے دلوں میں اسی وقت اللہ نے ایمان ڈال دیا۔ (مظہری)
اولئک یؤتون اجرھم مرتین بما صبروا صبر سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیاء اور کتاب الٰہی پر ایمان لانا اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے، پہلی کتاب آئی تو اس پر اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا، پہلے نبی پر ایمان لائے اس کے بعد دوسرا نبی آیا تو اس پر ایمان لائے، ان کے لئے دوہرا اجر ہے، حدیث شریف میں بھی ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین آدمیوں کے لئے دوہرا اجر ہے ان میں ایک وہ اہل کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لایا۔ (مسلم شریف کتاب الایمان)
برائی کو جواب برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں اور درگزر سے کام لیتے ہیں، اور جاہلوں سے صاحب سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں یعنی ان لوگوں کی ایک عمدہ عادت یہ ہے کہ جب کسی جاہل دشمن سے لغویات سنتے ہیں تو اس کا جواب دینے کی بجائے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا سلام لو ہم جاہل لوگوں سے الجھنا پسند نہیں کرتے، اس کو سلام متارکت یا مسالمت کہتے ہیں اور جس سلام کی ممانعت ہے وہ سلام تحیہ ہے جو مسلمانوں میں بوقت ملاقات رائج ہے۔
شان نزول : انک لا تھدی من احببت (الآیۃ) جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمدرد اور غمگسار چچا ابو طالب کا انتقال ہونے لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چچا کی خدمت میں تشریف لے گئے اور فرمایا چچا جان آپ اپنی زبان سے ایک مرتبہ یہ کلمہ لا الٰہ الاَّ اللہ کہہ لیں تاکہ میں روز قیامت اللہ کے سامنے سفارش کو سکوں لیکن دیگر رؤساء قریش موجود تھے جن کی وجہ سے ایمان سے محروم رہے، مگر یہ فرمایا اے میرے بھتیجے میں جانتا ہوں کہ تم سچے ہو لیکن میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگ میرے مرنے کے بعد کہیں کہ موت سے ڈر گیا، اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا تو میں یہ کلمہ کہہ کر ضرور تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا ہے اس لئے کہ میں تمہارے شدت غم اور خیر خواہی کو دیکھ رہا ہوں، پھر یہ اشعار پڑھے
لقد علمت باَنّ دین محمد من خیر ادیان البریۃ دینا
لو لا الملامۃ او حذار مسبّہ لوجدتنی سمعًا بذاک مبینا
اور پھر فرمایا، لکنی سوف اموت علیٰ ملۃ الاشیاخ عبد المطلب وھاشم وعبد مناف ثم مات، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کا بڑا قلق اور صدمہ ہوا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ اِنّکَ لا تھدی من اَحْبَبْتَ نازل فرمائی، یعنی کسی کو مومن بنادینا اور ایمان دل میں اتار دینا آپ کی قدرت میں نہیں ہے آپ کا کام کوشش کرنا ہے اور بس، تفسیر روح المعانی میں ہے کہ خواجہ ابو طالب کے کفر و ایمان کے بارے میں بےضرورت گفتگو اور بحث و مباحثہ سے اجتناب کرنا چاہیے کہ اس سے آنحضرت کی طبعی ایذا کا احتمال ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
وقالوا ان تتبع الھدیٰ معک یہ آیت الحارث بن عثمان بن نوفل بن مناف کے بارے میں نازل ہوئی تھی حارث بن عثمان وغیرہ نے اپنے ایمان نہ لانے کی ایک وجہ یہ بیان کی کہ اگرچہ ہم آپ کی تعلیمات کو حق جانتے ہیں مگر ہمیں خطرہ یہ ہے کہ اگر ہم آپ کی ہدایت پر عمل کرکے آپ کے ساتھ ہوجائیں تو سارا عرب ہمارا دشمن ہوجائے گا اور ہمیں ہماری زمین مکہ سے اچک لیا جائے گا (نکال باہر کیا جائے گا) قرآن کریم ان کے اس عذر لنگ کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے اَوَلَمْ نُمَکَنْ لَھُمْ (الآیۃ) یعنی ان کا یہ عذر اس لئے باطل ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے باوجود ان کی حفاظت کا ایک قدرتی سامان یہ کر رکھا ہے کہ ارض مکہ کو حرام بنادیا جس میں قتل و غارت گری سخت حرام ہے، جب اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر و شرک کے باوجود اس سرزمین میں امن دے رکھا ہے تو ایمان لانے کی صورت میں وہ ان کو کیسے ہلاک ہونے دے گا ؟
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ﴾ یعنی ہم نے اپنی بات کو لگاتار طریقے سے ان تک پہنچایا اور ان پر اپنی رحمت اور لطف و کرم کی بنا پر اسے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل فرمایا ﴿لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴾ ” تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔“ جب ان پر آیات الہٰی بتکرار نازل ہوں گی اور بوقت ضرورت ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح دلائل نازل ہوں گے۔ پس کتاب اللہ کا ٹکڑوں میں نازل ہونا، ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا لطف و کرم ہے۔ تب وہ اسی بات پر کیوں اعتراض کرتے ہیں جس میں ان کی بھلائی ہے؟
قصہء موسیٰ علیہ السلام سے بعض فوائد اور عبرتوں کا استنباط
* آیات الہٰی، اللہ تعالیٰ کے نشانات عبرت اور گزشتہ قوموں میں اس کے ایام سے صرف اہل ایمان ہی فائدہ اٹھاتے اور روشنی حاصل کرتے ہیں۔ بندہ مومن اپنے ایمان کے مطابق عبرت حاصل کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انہی کی خاطر گزشتہ قوموں کے قصے بیان کرتا ہے۔ رہے دیگر لوگ تو اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں، ان کے نصیب میں روشنی ہے نہ ہدایت۔
* اللہ تبارک و تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے لئے اسباب مہیا کردیتا ہے اور اسے یک لخت منصۂ شہود پر نہیں لاتا، بلکہ بتدریج آہستہ آہستہ وجود میں لاتا ہے۔
* ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مستضعفین خواہ کمزوری اور محکومی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوں ان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ سستی اور مایوسی کا شکار ہو کر اپنے حق کے حصول اور بلند مقاصد کے لئے جدوجہد کو چھوڑدیں خاص طور پر جبکہ وہ مظلوم ہوں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی کمزور اور محکوم قوم کو فرعون اور اس کے سرداروں کی غلامی سے نجات دی، پھر انہیں زمین میں اقتدار بخشا اور انہیں اپنے شہروں کا مالک بنایا۔
* ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک قوم مقہورومحکوم رہتی ہے اور اپنے حقوق حاصل کرتی ہے نہ ان کا مطالبہ کرتی ہے اس کے دین و دنیا کا معاملہ درست نہیں ہوتا اور نہ وہ دین میں امامت سے سرفراز ہوتی ہے۔
* حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ پر اللہ تعالیٰ کا لطف وکرم تھا کہ اس نے اس بشارت کے ذریعے سے ان کی مصیبت کو آسان کردیا کہ وہ ان کو ان کا بیٹا واپس لوٹائے گا اور اسے رسول بنائے گا۔
* یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے کے لئے بعض سختیاں مقدر کردیتا ہے۔ تاکہ مآل کار اسے ان شدائد سے بڑھ کر سرور حاصل ہو یا ان سے بڑا کوئی شر دور ہو، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو شدید حزن و غم میں مبتلا کیا پھر یہی حزن و غم ان کے لئے اپنے بیٹے تک پہنچنے کا وسیلہ بنا جس سے ان کا دل مطمئن اور آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں اور ان کی فرحت و مسرت میں اضافہ ہوا۔
* ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق کا طبعی خوف ایمان کے منافی ہے نہ ایمان کو زائل کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کو خوف کے مقام پر خوف لاحق ہوا۔
* اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے اور سب سے بڑی چیز جس سے ایمان میں اضافہ اور یقین کی تکمیل ہوتی ہے، مصائب کے وقت صبر اور شدائد کے وقت ثابت قدمی اور استقامت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (القصص : 28 ؍ 10) ” اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھاتے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے“ یعنی تاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے ایمان میں اضافہ ہو اور ان کا دل مطمئن ہو۔
* اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت اور بندے کے معاملات میں اس کی طرف سے سب سے بڑی اعانت یہ ہے کہ وہ اس کو اپنی طرف سے ثابت قدمی اور استقامت سے سرفراز کرے، خوف اور اضطراب کے وقت اس کے دل کو قوت عطا کرے کیونکہ اسی صورت میں بندہ مومن صحیح قول و فعل پر قادر ہوسکتا ہے اس کے برعکس جو شخص پریشانی، خوف اور اضطراب کا شکار ہے اس کے افکار ضائع اور اس کی عقل زائل ہوجاتی ہے اور وہ اس حال میں اپنے آپ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔
* اگر بندے کو اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر اور اس کے وعدے کا نفاذ لازمی امر ہے، تب بھی وہ اسباب کو ترک نہ کرے اور یہ چیز، اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی خبر پر ایمان کے منافی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ سے وعدہ فرمایا تھا کہ انہیں ان کا بیٹا لوٹادے گا۔ بایں ہمہ وہ اپنے بیٹے کو واپس لینے کے لئے کوشش کرتی رہیں انہوں نے اپنی بیٹی کو بھیجا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے پیچھے جائے اور دیکھے کہ وہ کہاں جاتا ہے۔
* اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ عورت کا اپنی ضروریات کے لئے گھر سے باہر نکلنا اور مردوں سے ہم کلام ہونا جائز ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن اور صاحب مدین کی بیٹیوں کے ساتھ پیش آیا۔
* اس قصہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کفالت اور رضاعت پر اجرت لینا جائز ہے اور جو اس طرح کرتا ہے، اس کے لئے دلیل ہے۔
* ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے کمزور بندے کو، جسے وہ اپنے اکرام و تکریم سے سرفراز کرنا چاہتا ہے، اسے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور واضح دلائل کا مشاہدہ کراتا ہے جن سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ کے پاس لوٹادیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔
* اس قصہ سے ثابت ہوا کہ ایسے کافر کو، جو کسی معاہدے اور عرف کی بنا پر ذمی ہو، قتل کرنا جائز نہیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کافر قبطی کے قتل کو گناہ شمار کیا اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے، وہ ان جابروں میں شمار ہوتا ہے جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔
* نیز جو کوئی لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے اور بزعم خود زمین میں اصلاح کرتا ہے اور اہل معاصی کو ہیبت زدہ کرتا ہے، وہ جھوٹا اور فساد برپا کرنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قبطی کا قول نقل فرمایا: ﴿ إِن تُرِيدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ﴾ (القصص 28؍ 19) ” تو زمین میں صاحب جبر و استبداد بن کررہنا چاہتا ہے، تو اصلاح کرنا نہیں چاہتا۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ قول انکار کے لئے نہیں بلکہ تحقیق و تقریر کے لئے نقل فرمایا ہے۔
* کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کو اس کے بارے میں خبر دینا کہ اس کے خلاف کوئی منصوبہ بن رہا ہے، تاکہ وہ اس کے شر سے بچ سکے، چغلی اور غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ بلکہ بسا اوقات ایسا کرنا واجب ہے جیسا کہ اس درباری شخص نے خیر خواہی کے طور پر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بچانے کے لئے دربار فرعون کے منصوبے کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آگاہ کیا تھا۔
* جب کسی جگہ قیام کرنے میں جان و مال کا خطرہ ہو تو انسان کو اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہیے اور نہ اپنے آپ کو ہلاکت کے حوالے کرنا چاہیے بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے وہاں سے نکل جانا چاہیے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے فرار ہوئے۔
* جب انسان کو دو برائیوں کا سامنا ہوا اور ان میں سے کسی ایک کو اختیار کئے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو وہ خفیف تر برائی کو اختیار کرے جس میں قدرے زیادہ سلامتی ہو۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کا معاملہ دو امور کے مابین تھا :
1۔ مصر میں رہتے، مگر اس صورت میں یقیناً قتل کردئیے جاتے۔
2۔ یا دور کسی شہر میں چلے جاتے جس کا راستہ بھی انہیں معلوم نہ تھا اور ان کے رب کے سوا کوئی راہنمائی کرنے والا بھی ان کے ساتھ نہ تھا، مگر اس صورتحال میں، مصر میں رہنے کی نسبت، مصر چھوڑ جانے میں سلامتی کی زیادہ توقع تھی۔
* علم میں شغف رکھنے والے کو جب کبھی علمی بحث کی ضرورت پیش آئے، دو اقوال میں سے کوئی قول اس کے نزدیک راجح نہ ہو تو وہ اپنے رب سے ہدایت کی استدعا کرے کہ وہ اس کی راہ صواب کی طرف راہنمائی کرے، اپنے دل میں حق کو مقصود مطلوب بنائے رکھے اور حق ہی کو تلاش کرے اور جس کا یہ حال ہو اللہ تعالیٰ اس کو کبھی خائب و خاسر نہیں کرتا۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے نکل کر مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے : ﴿قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ﴾ (القصص : 28 ؍ 22) ” امید ہے میرا رب سیدھے راستے کی طرف میری رہنمائی کرے گا۔ “
* ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مخلوق پر رحم کرنا اور جان پہچان رکھنے والے یا اجنبی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا انبیائے کرام کا اخلاق ہے، پیا سے مویشیوں کو پانی پلانا اور کسی عاجز اور لاچار کی مدد کرنا احسان کے زمرے میں آتا ہے۔
* اپنے حال کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا مستحب ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کو بندے کے احوال کا علم ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کو بندے کی عاجزی اور اس کی تذلل و مسکنت کا اظہار پسند ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : ﴿ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ﴾ (القصص : 28 ؍ 24)” اے میرے رب ! جو بھلائی بھی تو مجھ پر نازل کرے، میں اس کا ضرورت مند ہوں۔ “
* شرم و حیاء، خاص طور پر باعزت لوگوں میں، ایک قابل مدح صفت ہے۔
* حسن سلوک کا اچھا بدلہ دینا گزشتہ قوموں کا بھی وتیرہ رہا ہے۔
* بندہ جب کوئی کام اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کرتا ہے اور بغیر کسی قصد و ارادے کے اس کو اس کام کا اچھا بدلہ عطا ہوجاتا ہے تو وہ اس پر قابل ملامت نہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے، صاحب مدین سے، اپنی نیکی کا بدلہ قبول کیا جو انہوں نے کسی عوض کے لئے کی تھی نہ وہ اپنے دل میں کسی عوض کے منتظر تھے۔
* اس قصہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ملازم رکھنا مشروع ہے نیز بکریاں وغیرہ چرانے یا کسی ایسے ہی کام کی اجرت ادا کرنا جائز ہے جسے کرنے پر وہ خود قادر نہ ہو، البتہ اس کا دارومدار عرف عام پر ہے۔
* کسی کام کی اجرت میں کوئی منفعت حاصل کرنا جائز ہے خواہ یہ منفعت نکاح کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔
* کسی ایسے شخص سے اپنی بیٹی کے رشتے کی درخواست کرنا جسے وہ پسند کرتا ہو تو یہ جائز ہے اس پر کوئی ملامت نہیں ہے۔
* بہترین نوکر اور مزدور وہ ہے جو طاقتور اور امانت دار ہو۔
* اپنے خادم اور نوکر سے حسن سلوک سے پیش آنا اور اس سے پر مشقت کام نہ لینا مکارم اخلاق میں شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ فرمایا : ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ مِنَ الصَّالِحِينَ﴾ (القصص :28 ؍ 27) ” میں تمہیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا اور تم مجھے ان شاء اللہ نیک آدمی پاؤ گے۔ “
* آیت کریمہ : ﴿وَاللّٰـهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ﴾ (القصص : 28؍ 28) سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر کسی گواہی کے اجرت کا معاہدہ کرنا جائز ہے۔
* اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر واضح نشانات اور ظاہری معجزات جاری کئے، مثلاً عصا کا سانپ بن جانا، ہاتھ کا بغیر کسی عیب کے سفید ہوجانا اور اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کی اذیتوں اور سمندر میں غرق ہونے سے بچانا۔
* انسان کے لئے بدترین سزا یہ ہے کہ وہ برائی میں لوگوں کا امام ہو اور یہ امامت آیات الہٰی اور روشن دلائل کی مخالفت کے مطابق ہوتی ہے جس طرح بہترین نعمت جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو سرفراز فرماتا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے نیکی کے راستے میں امامت کے مرتبے پر فائز کرے اور اسے لوگوں کے لئے ہادی اور مہدی بنادے۔
* ان آیات کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر واضح دلیل ہے کیونکہ حضرت رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قصہ کو تفصیل کے ساتھ اصل واقعات کے عین مطابق بیان کیا جس کے ذریعے سے آپ نے رسولوں کی تصدیق اور حق مبین کی تائید کی، حالانکہ آپ ان واقعات کے وقت حاضر تھے نہ آپ ان مقامات میں سے کسی مقام کا مشاہدہ کیا تھا، آپ نے ان امور کے بارے میں کچھ پڑھا تھا نہ کسی سے درس لیا تھا اور نہ کسی اہل علم کی مجلس میں بیٹھے تھے یہ تو صرف رحمٰن و رحیم کی طرف سے رسالت اور وحی ہے جسے بے پایاں احسان کے مالک، اللہ کریم نے نازل کیا تاکہ وہ اس کے ذریعے سے جاہل اور انبیاء ورسل سے غافل قوم کو اس کے برے انجام سے ڈرائے۔
اللہ تعالیٰ کے درود و سلام ہوں اس ہستی پر جس کی مجرد خبر ہی آگاہی کرتی ہے کہ بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہے اور جس کے مجرد اوامر و نواہی عقلوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ یہ احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، کیونکر نہ ہوں جبکہ اولین و آخرین کی خبر، اس کی لائی ہوئی خبر اور وحی کی صحت و صداقت کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔
وہ شریعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ رب العالمین سے لے کر مبعوث ہوئے ہیں، وہ اخلاق فاضلہ جو آپ کی جبلت میں رکھ دئیے گئے، صرف اسی ہستی کے لائق اور اسی کے لئے مناسب ہیں جو اخلاق کی بلند ترین درجہ پر فائز ہو جس کے دین اور امت کو فتح مبین سے سرفراز کیا گیا ہو۔ یہاں تک کہ آپ کا دین اس مقام تک پہنچ گیا جہاں تک سورج طلوع ہوتا اور غروب ہوتا ہے۔ آپ کی امت نے بڑے بڑے شہروں کو شمشیر و سناں کے ذریعے سے اور لوگوں کے دلوں کو علم و ایمان کے ذریعے سے فتح کرلیا۔
تمام معاند قومیں اور شاہان کفار اسلام کے خلاف متحد رہے اور اس کی روشنی کو بجھانے اور روئے زمین سے اس کو نیست و نابود کرنے کے لئے سازشیں کرتے رہے مگر دین ظاہر اور غالب ہو کر رہا، دین بڑھتا ہی رہا اس کے دلائل و براہین ظاہر ہوتے رہے۔ ہر وقت دین کی ایسی نشانیاں ظاہر ہوتی رہی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے عبرت، اہل علم کے لئے ہدایت اور فراست مندوں کے لئے روشنی اور بصیرت ہیں۔ والحمد اللہ وحدہ
11 Mufti Taqi Usmani
aur waqiaa yeh hai kay hum inn kay faeeday kay liye aik kay baad aik ( naseehat ki ) baat bhejtay rahey hain , takay woh mutanabeh hon .