القصص آية ۶۱
اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ مَتَاعَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ
طاہر القادری:
کیا وہ شخص جس سے ہم نے کوئی (آخرت کا) اچھا وعدہ فرمایا ہو پھر وہ اسے پانے والا ہو جائے، اس (بدنصیب) کی مثل ہو سکتا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کے سامان سے نوازا ہو پھر وہ (کفرانِ نعمت کے باعث) روزِ قیامت (عذاب کے لئے) حاضر کئے جانے والوں میں سے ہو جائے،
English Sahih:
Then is he whom We have promised a good promise which he will meet [i.e., obtain] like he for whom We provided enjoyment of worldly life [but] then he is, on the Day of Resurrection, among those presented [for punishment in Hell]?
1 Abul A'ala Maududi
بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف حیات دنیا کا سروسامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟
2 Ahmed Raza Khan
تو کیا وہ جسے ہم نے اچھا وعدہ دیا تو وہ اس سے ملے گا اس جیسا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کا برتاؤ برتنے دیا پھر وہ قیامت کے دن گرفتار کرکے حاضر لایا جائے گا
3 Ahmed Ali
پھر کیا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو سو وہ اسے پانے والا بھی ہو اس کے برابر ہے جسے ہم نے دنیا کی زندگی کا فائدہ دیا پھر وہ قیامت کے دن پکڑا ہوا آئے گا
4 Ahsanul Bayan
کیا وہ شخص جس سے ہم نے نیک وعدہ کیا ہے وہ قطعاً پانے والا ہے مثل اس شخص کے ہو سکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانی دنیا کی کچھ یونہی دے دی پھر بالآخر وہ قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا (١)
٦١۔١ یعنی سزا اور عذاب کا مستحق ہوگا مطلب ہے اہل ایمان، وعدہ الٰہی کے مطابق نعمتوں سے بہرہ ور اور نافرمان عذاب سے دو چار، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا اور اُس نے اُسے حاصل کرلیا تو کیا وہ اس شخص کا سا ہے جس کو ہم نے دنیا کی زندگی کے فائدے سے بہرہ مند کیا پھر وہ قیامت کے روز ان لوگوں میں ہو جو (ہمارے روبرو) حاضر کئے جائیں گے
6 Muhammad Junagarhi
کیا وه شخص جس سے ہم نے نیک وعده کیا ہے جسے وه قطعاً پانے واﻻ ہے مثل اس شخص کے ہوسکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانیٴ دنیا کی کچھ یونہی سی منفعت دے دی پھر بالﺂخر وه قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہے اور وہ اسے پانے والا بھی ہے۔ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف دنیوی زندگانی کا (چند روزہ) سامان دیا ہے۔ اور پھر قیامت کے دن (سزا کیلئے پکڑ کر) حاضر کیا جائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا وہ بندہ جس سے ہم نے بہترین وعدہ کیا ہے اور وہ اسے پا بھی لے گا اس کے مانند ہے جسے ہم نے دنیا میں تھوڑی سی لذّت دے دی ہے اور پھر وہ روزہ قیامت خدا کی بارگاہ میں کھینچ کر حاضر کیا جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا اور اس نے اسے حاصل کرلیا تو کیا وہ اس شخص کا سا ہے جس کو ہم نے دنیا کی زندگی کے فائدے سے بہرہ مند کیا ؟ پھر وہ قیامت کے روز ان لوگوں میں ہو جو (ہمارے روبرو) حاضر کئے جائیں گے
آیت نمبر 61 تا 75
ترجمہ : بھلا وہ شخص کہ جس سے ہم نے ایک پسندیدہ وعدہ کر رکھا ہے جسے وہ قطعاً پانے والا ہے یعنی اس وعدۂ (موعودبہٖ ) کو پہنچنے والا ہے اور وہ جنت ہے کیا اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جس کو ہم نے دنیوی زندگی کا چند روزہ فائدہ دے رکھا ہے، جو عنقریب زائل ہوجائے گا پھر وہ قیامت کے روز ان لوگوں میں ہوگا جو گرفتار کرکے دوزخ میں حاضر کئے جائیں گے اول شخص مومن ہوگا اور دوسرا کافر یعنی دونوں میں کوئی مساوات نہ ہوگی اور اس دن کو یاد کرو کہ جس دن خدا تعالیٰ ان کافروں کو پکار کر کہے گا میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کو تم سمجھتے تھے وہ میرے شریک ہیں جن پر خدا کا دخول نار کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے اور وہ گمراہی کے سردار ہوں گے اے ہمارے پروردگار یہ وہی لوگ ہیں جنہیں ہم نے بہکایا تھا یہ مبتداء اور اس کی صفت ہے اور اَغْوَیْنَاھُمْ اس کی خبر ہے ہم نے ان کو اسی طرح بہکایا جس طرح ہم خود بہکے تھے تو یہ بہک گئے ہم نے ان کو گمراہی پر مجبور نہیں کیا تھا ہم تیری سرکار میں ان سے اپنی طرف سے اظہار برأت کرتے ہیں یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے، ما نافیہ ہے مفعول فواصل کی رعایت کے لئے مقدم کیا گیا ہے اور کہا جائے گا اپنے شرکاء کو بلا لو یعنی ان بتوں کو جن کو تم سمجھتے تھے کہ یہ میرے شریک ہیں چناچہ وہ ان کو پکاریں گے مگر وہ ان کی پکار کا جواب تک نہ دیں گے اور یہ لوگ عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، کاش یہ لوگ دنیا میں راہ راست پر ہوتے تو اس عذاب کو آکرت میں نہ دیکھتے اور اس دن کو یاد کرو جس دن اللہ ان سے پکار کر پوچھے گا تم نے اپنے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا ؟ پھر تو اس دن ان کی جواب میں پیش کرکے نجات دلانے والی سب دلیلیں گم ہوجائیں گی (یعنی ہ کے بکے رہ جائیں گے) یعنی ان کی سمجھ میں کوئی ایسی دلیل نہیں آئے گی کہ جس میں ان کی نجات ہو اور وہ آپس میں بھی دلیل کے بارے میں پوچھ تاچھ نہ کرسکیں گے جس کی وجہ سے لاجواب ہوجائیں گے البتہ جس شخص نے شرک سے توبہ کی اور ایمان لے آیا یعنی اللہ کی توحید کی تصدیق کی اور نیک اعمال کئے یعنی فرائض ادا کئے تو یقین ہے کہ ایسے لوگ اللہ کے وعدے کے مطابق کامیاب ہوں گے اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہتا چنتا ہے اور ان میں سے کسی مشرک کو کسی چیز میں کوئی اختیار نہیں اللہ ہی کے لئے پاکی ہے اور وہ برتر ہے ان کے شرک کرنے سے اور آپ کا رب ان سب کفر وغیرہ کی باتوں کو جانتا ہے جن کو ان کے سینے چھپاتے ہیں اور جس جھوٹ کو وہ اپنی زبان سے ظاہر کرتے ہیں وہی معبود ہے اس کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں دینا اور آخرت میں جنت میں اسی کی تعریف ہے اور اسی کے لئے فرما روائی ہے (یعنی) ہر چیز میں اسی کا فیصلہ نافذ ہے اور زندہ کرکے اسی طرف لوٹائے جاؤ گے آپ اہل مکہ سے کہئے بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لئے قیامت تک رات رہنے دے تو خدا کے سوا تمہارے خیال میں وہ کونسا معبود ہے کہ تمہارے لئے دن کی روشنی کو لے آئے کہ جس میں تم روزی طلب کرو، کیا تم اس بات کو سمجھنے کے لئے سنتے نہیں ہو ؟ کہ تم شرک سے باز آجاؤ ان سے پوچھئے کہ یہ بھی بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ قیامت تک دن ہی دن رکھے تو تمہارے خیال کے مطابق اس کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آئے ؟ کہ جس میں تم تکان کی وجہ سے آرام کرو کیا تم شرک کے معاملہ میں اپنی غلطی کو نہیں دیکھتے (غور نہیں کرتے) کہ تم اس شرک سے باز آجاؤ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن بنائے تاکہ رات میں آرام کرو اور دن میں کسب کے ذریعہ اس کی روزی تلاش کرو اور تاکہ تم رات اور دن کی نعمت کا شکر ادا کرو اور یاد کرو جس دن انہیں پکار کر اللہ فرمائے گا کہ جنہیں تم میرا شریک سمجھتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ ان کے شرک کو) دوبارہ ذکر کیا تاکہ آئندہ قول کی اس پر بناء کرے، ہم ہر امت سے ایک ایک گواہ نکال کر لائیں گے اور وہ ان کا نبی ہوگا جو کچھ انہوں نے اس سے کہا ہوگا اس پر شہادت دے گا تو ہم ان مشرکوں سے کہیں گے کہ تم اپنے شرک کے دعوے پر دلیل پیش کرو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ الوہیتہ کے بارے میں سچی بات اللہ کی تھی کہ الوہیتہ میں اس کا کوئی شریک نہیں اور جو کچھ وہ دنیا میں گھڑا کرتے تھے کہ اس کا شریک ہے حالانکہ اللہ اس سے بری ہے وہ سب ان کے پاس سے غائب ہوجائے گا۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
وقال الذین۔۔۔ القول یہ جملہ مستانفہ ہے جو ایک سوال مقدر کے جواب میں واقع ہے جب مشرکین سے کہا جائے گا کہ میرے وہ شرکاء کہاں ہیں جن کی تم پوجا پاٹ کیا کرتے تھے ؟ تو اس سوال کا جواب دینے کے بجائے مشرکین کے رؤساء اور اتباع میں جھگڑا شروع ہوجائے گا تابعین متبوعین کو مورد الزام قرار دیں گے اور متبوعین تابعین کو۔ قولہ : مبتداءً و صفتہٗ ھٰؤلاءِ اسم اشارہ موصوف اَلَّذِیْنَ اسم موصول اَغْوَینا جملہ ہو کر صلہ عائد محذوف اور وہ ھُمْ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَغْوَیْنَاھُمْ موصول صلہ سے ملکر صفت موصوف صفت سے مل کر مبتداء، اور اَغوَیْنَا کمَا غَوَینَا مبتداء کی خبر۔
قولہ : قُدِّمَ المفعول للفاصل اصل میں مَا کانُوْا یَعْبُدُونَنَا تھا، فواصل کی رعایت کے لئے مفعول کو مقدم کردیا گیا، ما کانوا اِیَّانَا یعبدون ہوگیا، قولہ : مَا رَاؤہ فی الآخرۃ یہ لَوْ کا جواب ہے، اور بعض حضرات نے لاَنْجَاھُمْ ذٰلکَ محذوف مانا ہے یعنی اگر وہ دنیا میں ہدایت پر ہوتے تو ان کا ہدایت پر ہونا آخرت میں ان کو کامیاب کردیتا۔ قولہ : فعَمِیَتْ علَیْھم الانبَاءُ اس میں قلب ہے جو کہ محسنات کلام میں شمار ہوتا ہے، اصل یہ ہے فعَمُوا عن الاَنْبَاءِ شارح کے قول لَمْ یجدوا خَیْرًا لھُمْ فیہ سے اسی قلب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : فعَمت علَیْھِمْ میں عمیٰ کا صلہ علیٰ خَفِیَ کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے ہے۔ قولہ : عَسٰی اَن یَّکُونَ عسیٰ یہاں تحقیق کے لئے ہے اس لئے کریموں کے یہاں توقع بھی یقین کا درجہ رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ تو اکرم الاکرمین ہیں لہٰذا اللہ کے کلام میں عسیٰ بمعنی حقَّقَ ہوگا، اور اگر ترجی ہی کے معنی میں لیا جائے تو تائب کے اعتبار سے ہوگا۔
شان نزول : وربک یخلق۔۔۔ ویختار جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت کا دعویٰ کیا تو لوگوں کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوئی خاص طور پر ولید بن مغیرہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور آپ پر نزول قرآن کو بڑا عجیب اور عظیم سمجھا اور کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو کسی کو رسول بنانا ہی تھا تو مکہ اور طائف کے ان دو سرداروں میں سے کسی کو کیوں رسول نہیں بنایا ؟ تو اس کے بارے میں مذکورہ آیت نازل ہوئی (جمل) سَرْمَدًا جَعَلَ کا مفعول ثانی ہے بمعنی دائمًا سَرْدٌ سے مشتق ہے اس کے معنی متابعت اور لگاتار کے ہیں، میم زائدہ ہے، عرب اشہر حرام کے بارے میں بولتے ہیں، ثلالثۃٌ سردٌ واحد فردْ تین مسلسل ہیں اور ایک الگ ہے۔
قولہ : قل لھم۔۔۔۔ سرمدا یہ باب تنازع فعلان سے ہے اَرَأیْتُمْ اور جَعَلَ نے اللَّیْلَ میں نزاع کیا، دونوں ہی اللیل کو اپنا مفعول بنانا چاہتے ہیں، ثانی فعل کو عمل دیدیا اور اول کے لئے مفعول اول محذوف مان لیا اور وہ أرأیتموہٗ میں ہٗ ہے اور اس کا مفعول ثانی بعد میں واقع ہونے والا جملہ استفہامیہ ہے اور فعل ثانی کا مفعول ثانی سرمداً ہے، اِنْ حرف شرط ہے اور جَعَل فعل شرط اور اللہ اس کا فاعل ہے، اللیلَ جَعَلَ کا مفعول اول ہے اور سرمدًا مفعول ثانی ہے اور جواب شرط محذوف ہے وہ مَاذَا تفعَلونَ ؟ ہے ای اِن جَعَلَ اللہ علیکم النھار سرمدًا ماذا تفعلون۔ قولہ : ذُکِرَ ثانیًا لِیَبْنِیَ علیہ، قولہ : اَئِنْ شُرَکَائِیَ الَّذِیْنَ کنتُم تزعمونَ کو دو مرتبہ ذکر کیا ہے، یہی آیت شروع رکوع میں بھی آئی ہے، بیضاوی نے کہا ہے تقریعٌ بعد تقریحٍ یعنی ملامت کے بعد ملامت ہے اس لئے کہ شرک سے زیادہ کوئی شئی اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی نہیں ہے، یا اول ان کی فساد رائے کو بیان کرنے کے لئے ہے اور ثانی یہ بتانے کے لئے ہے کہ شرک کی بات کوئی مستند بات نہیں ہے بلکہ محض تشبہ اور ہوائے نفس ہے۔
تفسیر و تشریح
افمن وعدناہ وعدا حسناً یعنی اہل ایمان وعدۂ الٰہی کے مطابق نعمتوں سے بہرہ ور اور نافرمان عذاب سے دو چار ہوگا، کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟
محشر میں مشرکین سے پہلا سوال شرک سے متعلق ہوگا کہ جن شیاطین وغیرہ کو تم ہمارا شریک ٹھہرایا کرتے تھے اور ان کا کہنا مانتے تھے آج وہ کہاں ہیں ؟ کیا وہ تمہاری کچھ مدد کرسکتے ہیں ؟ سیدھا جواب دینے یا معذرت کرنے کے بجائے آپس میں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائیں گے، تابعین کہیں گے کہ تمہارا کوئی قصور نہیں ہم نے از خود شرک نہیں کیا بلکہ ہمیں تو ان شیاطین نے بہکایا تھا، تو وہ شیاطین کہیں گے کہ ہم نے بہکایا ضرور تھا مگر مجبور تو ہم نے نہیں کیا تھا اس لئے مجرم تو ہم بھی ہیں مگر یہ بھی جرم سے بری نہیں کیونکہ جس طرح ہم نے ان کا بہکایا تھا اس کے بالمقابل انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائبوں نے ان کو ہدایت بھی تو کی تھی اور دلائل کے ساتھ ان پر حق واضح کردیا تھا، انہوں نے اپنے اختیار سے اپنے انبیاء کی بات نہ مانی، ہماری مان لی تو کیسے بری ہوسکتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کے سامنے حق واضح ہوجائے اور حق کے دلائل واضحہ موجود ہوں اور وہ حق کی طرف دعوت دینے والوں کے بجائے گمراہ کرنے والوں کی بات مان کر گمراہی میں پڑجائے تو یہ کوئی عذر معتبر نہیں۔
وربک یخلق ما یشاء ویختار اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یختار سے مراد اختیار احکام ہے کہ حق تعالیٰ جب تخلیق کائنات میں منفرد ہے کوئی اس کا شریک نہیں تو اجراء احکام میں بھی منفرد ہے جو چاہے اپنی مخلوق پر احکام نافذ فرمائے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا اختیار تکوینی میں کوئی شریک نہیں اختیار تشریعی میں بھی کوئی شریک نہیں۔
اس کا دوسرا مفہوم وہ ہے جو اپنی تفسیر میں اور علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں بیان کیا ہے کہ اس اختیار سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق میں سے جس کو چاہیں اپنے اکرام و اعزاز کے لئے انتخاب فرما لیتے ہیں اور بقول بغوی یہ جواب ہے مشرکین مکہ کے اس قول کا لَوْلاَ نُزِّل ھٰذا القرآن علیٰ رجلٍ من القریتین عظیم یعنی یہ قرآن اللہ کو اگر نازل کرنا تھا تو عرب کے دو بڑے شہر مکہ اور طائف میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل فرماتا، ایک یتیم مسکین پر نازل کرنے میں کیا حکمت و مصلحت تھی ؟ اس کے جواب میں فرمایا جس مالک نے تمام مخلوقات کو بغیر کسی شریک کی امداد کے پیدا فرمایا ہے یہ اختیار بھی اسی کو حاصل ہے کہ اپنے خاص اعزاز کے لئے اپنی مخلوق میں سے کس کو منتخب کرے اس میں وہ تمہاری تجویز کا کیوں پابند ہو کہ فلاں اس کا مستحق ہے اور فلاں نہیں۔
ومن رحمتہ جعل لکم اللیل والنھار (الآیۃ) دن اور رات یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں، رات کو تاریک بنایا تاکہ سب لوگ آرام کرسکیں اس اندھیرے کی وجہ سے ہر مخلوق سونے اور آرام کرنے پر مجبور ہے، ورنہ اگر آرام کرنے اور سونے کے اپنے اپنے اوقات ہوتے تو کوئی بھی مکمل طریقہ سے سونے کا موقع نہ پاتا، جبکہ معاشی تگ و دو اور کاروبار جہاں کے لئے نیند کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر توانائی بحال نہیں ہوسکتی، اگر کچھ لوگ سو رہے ہوتے اور کچھ جاگ کر مصروف تگ و دو ہوتے تو سونے والوں کے آرام و راحت میں خلل واقع ہوتا نیز لوگ ایک دوسرے کے تعاون سے بھی محروم رہتے جبکہ دنیا کا نظام ایک دوسرے کے تعاون و تناصر کا محتاج ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے رات کو تاریک کردیا تاکہ ساری مخلوق بیک وقت آرام کرے اور کوئی کسی کو نیند اور آرام میں مخل نہ ہوسکے، اسی طرح دن کو روشن بنایا کہ روشنی میں انسان اپنا کاروبار اور بہتر طریقہ سے کرسکے، ان کی اگر یہ روشنی نہ ہوتی تو انسان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اسے ہر شخص بآسانی سمجھتا اور اس کا ادراک کرتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
بنابریں اللہ تعالیٰ نے انسانی عقلوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ دنیا کو ترجیح دینے والوں کے انجام اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کے انجام کے مابین موازنہ کریں، چنانچہ فرمایا : ﴿فَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ﴾ ” بھلا جسے ہم نے کوئی اچھا وعدہ دیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو“ کیا وہ مومن جو آخرت کے لئے کوشاں ہے، اپنے رب کے وعدۂ ثواب یعنی جنت کے لئے عمل پیرا ہے جس میں بڑی بڑی نعمتیں عطا ہوں گی اور بلاشبہ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا کیونکہ یہ ایک کریم ہستی کی طرف سے کیا گیا وعدہ ہے جس کا وعدہ سچا ہوتا ہے، وہ اپنے اس بندے سے کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتی جو اس کی رضا پر چلتا ہے اور اس کو ناراض کرنے والے امور سے اجتناب کرتا ہے۔ ﴿كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ﴾ ” اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جسے ہم نے دنیاوی زندگی کے سروسامان سے نوازا ہو“ جو اس دنیا کو حاصل کرتا ہے وہ کھاتا پیتا اور اس سے یوں متمتع ہوتا ہے جیسے جانورمتمتع ہوتے ہیں؟ یہ شخص اپنی آخرت سے غافل ہو کر اپنی دنیا میں مشغول ہے اس نے ہدایت الٰہی کی کوئی پروا کی نہ انبیاء و مرسلین کی اطاعت کی۔ یہ اپنے اسی رویے پر جما ہوا ہے۔ اس دنیا سے اس نے جو کچھ زاد راہ سمیٹا ہے وہ ہلاکت اور خسارے کے سوا کچھ نہیں۔ ﴿ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ﴾ ” پھر قیامت کے دن وہ ان لوگوں میں ہوگا جو حاضر کئے جائیں گے“۔ یعنی پھر حساب کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے دامن میں کوئی بھلائی نہیں، اس کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اس کے لئے نقصان دہ ہے۔۔۔ کیا تم جانتے ہو اس کا کیا انجام ہوگا؟ اور اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔۔۔ عقل مند شخص کو وہی چیز اختیار کرنی چاہیے جو اختیار کئے جانے کی مستحق ہے اور اسی چیز کو ترجیح دینا چاہیے جو ترجیح دیئے جانے کے قابل ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
bhala batao kay jiss shaks say hum ney acha saa wada ker rakha hai , aur woh uss waday ko paa-ker rahey ga , kiya woh uss jaisa hosakta hai jissay hum ney dunyawi zindagi ki poonji kay kuch mazay dey diye hain , phir woh unn logon mein shamil honey wala hai jo qayamat kay din dhar liye jayen gay-?