اور جو لوگ کل اس کے مقام و مرتبہ کی تمنا کر رہے تھے (اَز رہِ ندامت) کہنے لگے: کتنا عجیب ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرماتا اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ فرماتا ہے، اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ فرمایا ہوتا تو ہمیں (بھی) دھنسا دیتا، ہائے تعجب ہے! (اب معلوم ہوا) کہ کافر نجات نہیں پا سکتے،
English Sahih:
And those who had wished for his position the previous day began to say, "Oh, how Allah extends provision to whom He wills of His servants and restricts it! If not that Allah had conferred favor on us, He would have caused it to swallow us. Oh, how the disbelievers do not succeed!"
1 Abul A'ala Maududi
اب وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے "افسوس، ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا تلا دیتا ہے اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دَھنسا دیتا افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے"
2 Ahmed Raza Khan
اور کل جس نے اس کے مرتبہ کی آرزو کی تھی صبح کہنے لگے عجب بات ہے اللہ رزق وسیع کرتا ہے اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے اگر اللہ ہم پر احسان فرماتا تو ہمیں بھی دھنسادیتا، اے عجب، کافروں کا بھلا نہیں،
3 Ahmed Ali
اور وہ لوگ جو کل اس کے مرتبہ کی تمنا کرتے تھے آج صبح کو کہنے لگے کہ ہائے شامت! الله اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ کر دیتا ہے اگر ہم پر الله کا احسان نہ ہوتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا ہائے! کافر نجات نہیں پا سکتے
4 Ahsanul Bayan
اور جو لوگ کل اس کے مرتبہ پر پہنچنے کی آرزو مندیاں کر رہے تھے وہ آج کہنے لگے کہ کیا تم نہیں دیکھتے (١) کہ اللہ تعالٰی ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی؟ اگر اللہ تعالٰی ہم پر فضل نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا (٢) کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ناشکروں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی (٣)۔
٨٢۔١ مکان سے مراد دنیاوی مرتبہ و منزلت ہے جو دنیا میں عارضی طور پر ملتا ہے۔ جیسے قارون کو ملا تھا، مطلب یہ ہے کہ قارون کی سی دولت و حشمت کی آرزو کرنے والوں نے جب قارون کا عبرت ناک حشر دیکھا تو کہا کہ مال و دولت، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی اس صاحب مال سے راضی بھی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالٰی کسی کو مال زیادہ دیتا ہے اور کسی کو کم اس کا تعلق اس کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، مال کی فروانی اس کی رضا کی اور مال کی کمی اس کی نارضگی کی دلیل نہیں ہے نہ یہ معیار فضیلت ہے۔ ٨٢۔٢ یعنی ہم بھی اسی حشر سے دوچار ہوتے جس سے قارون دو چار ہوا۔ ٨٢۔٣ یعنی قارون نے دولت پا کر شکر گزاری کے بجائے ناشکری اور معصیت کا راست اختیار کیا تو دیکھ لو اس کا انجام بھی کیسا ہوا؟ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور وہ لوگ جو کل اُس کے رتبے کی تمنا کرتے تھے صبح کو کہنے لگے ہائے شامت! خدا ہی تو اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے۔ اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا۔ ہائے خرابی! کافر نجات نہیں پا سکتے
6 Muhammad Junagarhi
اور جو لوگ کل اس کے مرتبہ پر پہنچنے کی آرزو مندیاں کر رہے تھے وه آج کہنے لگے کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے روزی کشاده کر دیتا ہے اور تنگ بھی؟ اگر اللہ تعالیٰ ہم پر فضل نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا، کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ناشکروں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی؟
7 Muhammad Hussain Najafi
اور وہ لوگ جو کل اس کے جاہ و مرتبہ کی تمنا کر رہے تھے اب کہنے لگے افسوس (اب پتہ چلا) کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ اگر اللہ ہم پر (تنگدست بنا کر) احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا اور کافر کبھی فلاح نہیں پاتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جن لوگوں نے کل اس کی جگہ کی تمناّ کی تھی وہ کہنے لگے کہ معاذ اللہ یہ تو خدا جس بندے کے لئے چاہتا ہے اس کے رزق میں وسعت پیدا کردیتا ہے اور جس کے یہاں چاہتا ہے تنگی پیدا کردیتا ہے اور اگر اس نے ہم پر احسان نہ کردیا ہوتا تو ہمیں بھی دھنسا دیا ہوتا معاذاللرُ کافروں کے لئے واقعا فلاح نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور وہ لوگ جو کل اس کے رتبے کی تمنا کرتے تھے صبح کو کہنے لگے ہائے شامت خدا ہی تو اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کردیتا ہے اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا ہائے خرابی کافر نجات نہیں پاسکتے
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ﴾ ” اور وہ لوگ جو کل اس کے مقام و مرتبے کی تمنا کرتے تھے۔“ یعنی وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کے خواہش مند تھے اور کہا کرتے تھے : ﴿ يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ ﴾ ” کاش ہمیں بھی وہ کچھ مل جاتا جو قارون کو عطا کیا گیا ہے۔‘‘ ﴿يَقُولُونَ ﴾ ” وہ کہنے لگے“ دکھ محسوس کرتے، عبرت پکڑتے اور ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ بھی عذاب کی گرفت میں نہ آجائیں : ﴿وَيْكَأَنَّ اللّٰـهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ﴾ ” ہماری حالت پر افسوس ! اللہ اپنے بندوں سے جس کا چاہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کا چاہے تنگ کردیتا ہے“ تب ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قارون کے رزق میں فراخی، اس بات کی دلیل نہیں کہ اس میں اس میں کوئی بھلائی ہے، اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہ تھے ﴿ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾ ” قارون تو بڑے ہی نصیبے والا ہے۔ “ ﴿لَوْلَا أَن مَّنَّ اللّٰـهُ عَلَيْنَا ﴾ ” اگر ہم پر اللہ کی عنایت نہ ہوتی“ تو وہ ہماری بات پر ہماری گرفت کرلیتا اور اگر اس کا فضل و کرم نہ ہوتا ﴿لَخَسَفَ بِنَا ﴾ ” تو وہ ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا“۔ قارون کی ہلاکت اس کے لئے سزا اور دوسروں کے لئے عبرت اور نصیحت تھی۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی، جو قارون پر رشک کیا کرتے تھے نادم ہوئے اور قارون کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بدل گیا۔ ﴿وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ﴾ ” اور حقیقت یہی ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے“ یعنی دنیا و آخرت میں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur kal jo log uss jaisa honey ki tamanna ker rahey thay , kehney lagay : ooho ! pata chal gaya kay Allah apney bandon mein say jiss kay liye chahta hai rizq mein wusat ker deta hai , aur ( jiss kay liye chahta hai ) tangi ker deta hai . agar Allah ney hum per ehsan naa kiya hota to woh hamen bhi zameen mein dhansa deta . ooho ! pata chal gaya kay kafir log falah nahi paatay .