القصص آية ۸۳
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِى الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ
طاہر القادری:
(یہ) وہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم نے ایسے لوگوں کے لئے بنایا ہے جو نہ (تو) زمین میں سرکشی و تکبر چاہتے ہیں اور نہ فساد انگیزی، اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے،
English Sahih:
That home of the Hereafter We assign to those who do not desire exaltedness upon the earth or corruption. And the [best] outcome is for the righteous.
1 Abul A'ala Maududi
وہ آخرت کا گھر تو ہم اُن لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اور انجام کی بھَلائی متقین ہی کے لیے ہے
2 Ahmed Raza Khan
یہ آخرت کا گھر ہم ان کے لیے کرتے ہیں جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد، اور عاقبت پرہیزگاروں ہی کی ہے،
3 Ahmed Ali
یہ آخرت کا گھر ہم انہیں کو دیتے ہیں جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارادہ نہیں رکھتے اور نیک انجام تو پرہیز گاروں ہی کا ہے
4 Ahsanul Bayan
آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لئے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں پرہزگاروں کے لئے نہایت ہی عمدہ انجام ہے۔ (۱)
۸۳۔۱ علو کا مطلب ہے ظلم و زیادتی، لوگوں سے اپنے کو بڑا اور برتر سمجھنا اور باور کرانا، تکبر اور فخر غرور کرنا اور فساد کے معنی ہیں ناحق لوگوں کا مال ہتھیانا یا نافرمانیوں کا ارتکاب کرنا کہ ان دونوں باتوں سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ فرمایا کہ متقین کا عمل و اخلاق ان برائیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوتا ہے اور تکبر کے بجائے ان کے اندر تواضع، فروتنی اور معصیت کیثی کی بجائے اطاعت کیسی ہوتی ہے اور آخرت کا گھر یعنی جنت اور حسن انجام انہی کے حصے میں آئے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہ (جو) آخرت کا گھر (ہے) ہم نے اُسے اُن لوگوں کے لئے (تیار) کر رکھا ہے جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارادہ نہیں رکھتے اور انجام (نیک) تو پرہیزگاروں ہی کا ہے
6 Muhammad Junagarhi
آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لیے مقرر کر دیتے ہیں جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے نہایت ہی عمده انجام ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کیلئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں تکبر و سرکشی اور فساد برپا کرنے کا ارادہ بھی نہیں کرتے اور (نیک) انجام تو پرہیزگاروں کے ہی لئے ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ دا» آخرت وہ ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نہیں ہوتے ہیں اور عاقبت تو صرف صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے
9 Tafsir Jalalayn
وہ (جو) آخرت کا گھر (ہے) ہم نے اسے ان لوگوں کے لئے (تیار) کر رکھا ہے جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارادہ نہیں کرتے اور انجام (نیک) تو پرہیزگاروں ہی کا ہے
آیت نمبر 83 تا 88
ترجمہ : یہ دار آخرت یعنی جنت ہم انہیں لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں نہ ظلم کے ذریعہ بڑا بننا چاہتے ہیں اور نہ نافرمانی کرکے فساد کرتے ہیں اور بہتر انجام فرما نبرداری کرکے اللہ کے عذاب سے ڈرنے والوں کے لئے ہے جو شخص نیکی لیکر آئے گا اس کو اس سے بہتر ملے گا ان کو نیکیوں کا اجر ملے گا اور وہ ان نیکیوں کا دس گنا ہوگا اور جو شخص بدی لیکر آئے گا سو ایسے لوگوں کو جو بدی کا کام کرتے ہیں اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنا وہ کرتے تھے جس خدا نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لوٹانے والا ہے یعنی مکہ (کی طرف) اور آپ نے مکہ کے لئے اشتیاق ظاہر فرمایا تھا، آپ کہہ دیجئے کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت لیکر آیا ہے اور کون صریح گمراہی میں ہے یہ آیت کفار مکہ کے اس قول کے جواب میں نازل ہوئی کہ ان لوگوں نے آپ کے بارے میں کہا کہ تم تو صریح گمراہی میں ہو، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہدایت لیکر آنے والے ہیں اور وہ گمراہی میں ہیں اور اعلم عالم کے معنی میں ہے آپ کو تو یہ توقع نہ تھی کہ آپ پر یہ کتاب قرآن نازل کی جائے گی مگر آپ پر محض آپ کے رب کی مہربانی سے نازل کی گئی لہٰذا آپ کافروں کے ان کے دین کے بارے میں جس کی طرف وہ آپ کو دعوت دیتے ہیں ہرگز معاون نہ بنیں اور (خیال رکھئے) کہ یہ کفار آپ کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تبلیغ سے روک نہ دیں، بعد اس کے کہ وہ آیتیں نازل ہوچکی ہیں وَلاَ یَصُدُّنَّکَ اصل میں یَصُدُّوْنَنَکَ تھا، نون رفع کو جازم کی وجہ سے حذف کردیا گیا، اور واؤ فاعل کو نون ساکنہ کے ساتھ التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف کردیا گیا، یعنی آپ اس معاملہ میں ان کی (خرافات کی) طرف التفات نہ کیجئے اور آپ لوگوں کو اپنے رب کی توحید و عبادت کی طرف دعوت دیتے رہئے اور ہرگز ان کی اعانت کرکے مشرکوں میں سے نہ ہوجئے اور جازم (یعنی لا) نے فعل کو مبنی ہونے کی وجہ سے جزم نہیں دیا اور اللہ کے ساتھ کسی غیر کی بندگی نہ کیجئے، بجز اللہ کے کوئی اور معبود نہیں اس کی ذات کے سوا ہر شئ فنا ہونے والی ہے اسی ذات کا فیصلہ نافذ ہونے والا ہے اور قبروں سے زندہ کرنے کے بعد تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
تحقیق، و ترکیب و تفسیری فوائد
تلک الدار الآخرۃ تلک مبتداء موصوف الدار الآخرۃ بترکیب توصیفی اس کی صفت نَجْعَلُھَا جملہ ہو کر اس کی خبر۔ قولہ : لَزَادُّکَ اِلیٰ مَعَادٍ معاد سے اکثر مفسرین نے مکہ مراد لیا ہے اور بعض نے مقام محمود مراد لیا ہے۔ قولہ : وَلاَ یَصُدُّنَّکَ لاَ ناہیہ جازمہ ہے اور یَصُدُّنُّکَ فعل مضارع مجزول اور علامت جزم حذف نون اور واؤ فاعل کاف مفعول بہ اور نون تاکید۔ قولہ : عَنْ آیَاتِ اللہِ یہاں مضاف محذوف ای عن تبلیغ آیات اللہ۔ قولہ : لَمْ یُؤثِر الجَازِم ولا تکوننَّ میں لا جازمہ نے لفظوں میں کوئی اثر نہیں کیا اگرچہ محلاً اثر کیا ہے، اثر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تکوننَّ تاکید ثقیلہ کی وجہ سے مبنی ہوگیا ہے۔
قولہ : تعبدُ تدْعُ کی تفسیر تَعْبُدْ سے کرکے خوارج کا رد کیا ہے، خوارج کہتے ہیں کہ طلب خواہ زندہ سے ہو یا مردہ سے شرک ہے، یہ خوارج کا جہل ہے اس لئے کہ مؤثر بالذات سمجھ کر غیر اللہ سے طلب شرک ہے، مگر اسباب کے درجہ میں طلب شرک نہیں ہے۔
تفسیر و تشریح
للذین لا یریدون علوا فی الارض ولا فسادا اس آیت میں دار آخرت کی نجات اور فلاح کی صرف ان لوگوں کے لئے مخصوص فرمایا گیا ہے جو زمین میں علو اور فساد کا ارادہ نہ کریں، علو سے مراد تکبر ہے یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا بنانے بڑا سمجھنے اور دوسروں کا حقیر کرنے کی فکر اور فساد سے مراد لوگوں پر ظلم کرنا۔
فائدہ : تکبر جس کی حرمت اور وبال اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے وہ وہی ہے جس میں لوگوں پر تفاخر اور ان کی تحقیر مقصود ہو، ورنہ اپنے لئے اچھے لباس اچھی غذا اچھے مکان کا انتظام جبکہ دوسروں پر تفاخر کے لئے نہ ہو مذموم نہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کی تصریح ہے۔
معصیت کا پختہ عزم بھی معصیت ہے : اس آیت میں علو اور فساد کے ارادہ پر دار آخرت سے محروم ہونے کے وعید ہے، اس سے معلوم ہوا کہ کسی معصیت کا پختہ ارادہ جو عزم مصمم کے درمہ میں ہو، وہ بھی معصیت ہی ہے، (کما فی الروح) البتہ پھر اگر وہ خدا کے خوف سے اس ارادہ کو ترک کر دے تو گناہ کی جگہ ثواب اس کے اعمال نامہ میں درج ہوتا ہے، اور اگر کسی غیر اختیاری سبب سے اس گناہ پر قدرت نہ ہوئی اور عمل نہ کرسکا مگر اپنی کوشش گناہ کے لئے پوری کی تو وہ بھی معصیت اور گناہ میں لکھا جائے گا (کما ذکرہ الغزالی) آخر آیت میں فرمایا والعاقبۃُ للمتقین اس کا حاصل یہ ہے کہ آخرت کی نجات اور فلاح کے لئے دو چیزیں تکبر و فساد سے اجتناب ضروری ہے، اور تقویٰ یعنی اعمال صالحہ کی پابندی بھی ضروری ہے صرف تکبر اور فساد سے اجتناب کرلینا کافی نہیں بلکہ فرائض و واجبات کا ادا کرنا بھی شرط ہے۔ (معارف)
ان الذی فرض علیک القرآن (الآیۃ) آخر سورت میں یہ آیات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور اپنے فریضہ رسالت و نبوت پر پوری طرح قائم رہنے کی تاکید کے لئے ہے۔
شان نزول : ائمہ تفسیر میں سے مقاتل سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کے وقت غار ثور سے رات کے وقت نکلے اور مدینہ جانے والے معروف راستہ کو چھوڑ کر غیر معروف راستہ سے سفر کیا کیونکہ دشمن تعاقب میں تھے، جب مقام جحفہ پر پہنچے جو مدینہ طیبہ کے راستہ کی مشہور منزل رابغ کے قریب ہے اور وہاں مکہ سے مدینہ کا معروف راستہ مل جاتا ہے اس وقت مکہ مکرمہ کے راستہ پر نظر پڑی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ اور اپنا وطن عزیز یاد آگیا، اسی وقت جبرئیل امین مذکورہ آیت لیکر نازل ہوئے جس میں آپ کو بشارت دی گئی ہے کہ مکہ مکرمہ سے یہ جدائی چند روزہ ہے بالآخر آپ کو پھر مکہ پہنچا دیا جائے گا جو فتح مکہ کی بشارت تھی، حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت میں ہے کہ یہ آیت چونکہ جحفہ میں نازل ہوئی تھی جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ہے لہٰذا یہ آیت نہ مکی ہے اور نہ مدنی۔
تم المجلد الرابع بالخیر
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قارون اور جو کچھ اس کو عطا کیا گیا اور اس کے انجام کا ذکر کیا نیز اہل علم کے اس قول سے آگاہ فرمایا : ﴿ ثَوَابُ اللّٰـهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا﴾ ” اس شخص کے لئے اللہ کا ثواب بہتر ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے آخرت کی ترغیب اور وہ سبب بیان فرمایا جو آخرت کے گھر تک پہنچاتا ہے۔ فرمایا : ﴿ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ﴾ ” آخرت کا یہ گھر“ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں خبر دی، اس کے رسولوں نے آگاہ کیا، جس میں ہر نعمت جمع کردی گئی اور جہاں سے ہر تکدر کو دور کردیا گیا ہے ﴿نَجْعَلُهَا ﴾ ہم اس کو گھر اور ٹھکانا بنا دیں گے ﴿لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾ ” ان لوگوں کے لئے جو زمین میں اپنی بڑائی چاہتے ہیں نہ فساد کرتے ہیں“ یعنی ان کا زمین میں فساد کرنے کا ارادہ تک نہیں تو پھر زمین میں اللہ تعالیٰ کے بندوں پر بڑائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا، ان کے ساتھ تکبر سے پیش آنا اور حق کے بارے میں تکبر کا رویہ رکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ﴿وَلَا فَسَادًا﴾ ” اور نہ فساد“ اور یہ تمام معاصی کو شامل ہے۔ جب ان کا زمین میں بڑائی حاصل کرنے اور فساد برپا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تو اس سے یہ بات لازم آئی کہ ان کے ارادے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں مصروف، آخرت کا گھر ان کا مطلوب و مقصود، اللہ کے بندوں کے ساتھ تواضع سے پیش آنا ان کا حال ہے، وہ حق کی اطاعت اور عمل صالح میں مشغول رہتے ہیں۔ یہی وہ اہل تقویٰ ہیں، جن کے لئے اچھا انجام ہے بنا بریں فرمایا : ﴿وَالْعَاقِبَةُ﴾ یعنی فلاح اور کامیابی دائمی طور پر ان لوگوں کا حال ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ اگرچہ ان کو کچھ غلبہ اور راحت حاصل ہوتی ہے مگر یہ لمبی مدت کے لئے نہیں ہوتی، جلد ہی زائل ہوجاتی ہے۔ آیت کریمہ میں اس حصر سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو لوگ زمین میں بڑائی یا فساد کا ارادہ کرتے ہیں ان کے لئے آخرت کے گھر میں کوئی حصہ نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh aakhirat wala ghar to hum unn logon kay liye makhsoos kerden gay jo zameen mein naa to barai chahtay hain , aur naa fasad , aur aakhri anjam perhezgaron kay haq mein hoga .
12 Tafsir Ibn Kathir
جنت اور آخرت
فرماتا ہے کہ جنت اور آخرت کی نعمت صرف انہی کو ملے گی جن کے دل خوف الٰہی سے بھرے ہوئے ہوں اور دنیا کی زندگی تواضع فروتنی عاجزی اور اخلاق کے ساتھ گزاردیں۔ کسی پر اپنے آپ کو اونچا اور بڑا نہ سمجھیں ادھر ادھر فساد نہ پھیلائیں سرکشی اور برائی نہ کریں۔ کسی کا مال ناحق نہ ماریں اللہ کی زمین پر اللہ کی نافرمانیاں نہ کریں۔ حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ جسے یہ بات اچھی لگے کہ اس کی جوتی کا تسمہ اپنے ساتھی کی جوتی کے تسمے سے اچھا ہو تو وہ بھی اسی آیت میں داخل ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ فخر غرور کرے۔ اگر صرف بطور زیبائش کے چاہتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ! میری تو یہ چاہت ہے کہ میری چادر بھی اچھی ہو میری جوتی بھی اچھی ہو تو کیا یہ بھی تکبر ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں یہ تو خوبصورتی ہے اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ پھر فرمایا جو ہمارے پاس نیکی لائے گا وہ بہت سی نیکیوں کا ثواب پائے گا۔ یہ مقام فضل ہے اور برائی کا بدلہ صرف اسی کے مطابق سزا ہے۔ یہ مقام عدل ہے اور آیت میں ہے ( وَمَنْ جَاۗءَ بالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ ۭ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 90) 27 ۔ النمل :90) جو برائی لے کر آئے گا وہ اندھے منہ آگ میں جائے گا۔ تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے۔