العنکبوت آية ۲۳
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَلِقَاۤٮِٕهٖۤ اُولٰۤٮِٕكَ يَٮِٕسُوْا مِنْ رَّحْمَتِىْ وَاُولٰۤٮِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ
طاہر القادری:
اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ لوگ میری رحمت سے مایوس ہوگئے اور ان ہی لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ہے،
English Sahih:
And the ones who disbelieve in the signs of Allah and the meeting with Him – those have despaired of My mercy, and they will have a painful punishment.
1 Abul A'ala Maududi
جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہو چکے ہیں اور ان کے لیے درد ناک سزا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور وہ جنہوں نے میری آیتوں اور میرے ملنے کو نہ مانا وہ ہیں جنہیں میری رحمت کی آس نہیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
3 Ahmed Ali
اور جن لوگو ں نے الله کی آیتوں اور اس کے ملنے سے انکار کیا وہ میری رحمت سے نا امید ہو گئے ہیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
4 Ahsanul Bayan
جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں اور اس کی ملاقات کو بھلاتے ہیں وہ میری رحمت سے نا امید ہوجائیں (١) اور ان لئے دردناک عذاب ہے۔
٢٣۔١ اللہ تعالٰی کی رحمت، دنیا میں عام ہے جس سے کافر اور مومن، منافق اور مخلص اور نیک اور بد سب یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں اللہ تعالٰی سب کو دنیا کے وسائل، آسائش اور مال و دولت عطا کر رہا ہے یہ رحمت الٰہی کی وہ وسعت ہے جسے اللہ تعالٰی نے دوسرے مقام پر فرمایا ' میری رحمت نے ہرچیز کو گھیر لیا ہے ' لیکن آخر میں چونکہ دارالجزاء ہے، انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہوگا اسی کی فصل اسے وہاں کاٹنی ہوگی، جیسے عمل کئے ہونگے اس کی جزاء اسے وہاں ملے گی۔ اللہ کی بارگاہ میں بےلاگ فیصلے ہوں گے۔ دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک وبد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن وکافر دونوں ہی رحمت الہی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالٰی کی صفت عدل پر حرف آتا ہے، دوسرے قیامت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ قیامت کا دن تو اللہ نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں جنت اور بدوں کو انکی بدیوں کی جزا میں جہنم دی جائے۔ اس لیے قیامت والے دن اللہ تعالٰی کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی۔ جسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت اور معاد کے ہی منکر ہوں گے وہ میری رحمت سے نا امید ہوں گے یعنی ان کے حصے میں رحمت الہی نہیں آئے گی۔ سورہ اعراف میں اس کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ (فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ) 7۔ الاعراف;156) میں یہ رحمت (آخرت میں) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی، زکوۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہوں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جن لوگوں نے خدا کی آیتوں سے اور اس کے ملنے سے انکار کیا وہ میری رحمت سے نااُمید ہوگئے ہیں اور ان کو درد دینے والا عذاب ہوگا
6 Muhammad Junagarhi
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور اس کی ملاقات کو بھلاتے ہیں وه میری رحمت سے ناامید ہو جائیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہوگئے ہیں اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو لوگ خدا کی نشانیوں اور اس کی ملاقات کا انکار کرتے ہیں وہ میری رحمت سے مایوس ہیں اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جن لوگوں نے خدا کی آیتوں سے اور اسکے ملنے سے انکار کیا وہ میری رحمت سے ناامید ہوگئے ہیں اور ان کو درد دینے والا عذاب ہوگا
آیت نمبر 23 تا 30
ترجمہ : جو لوگ اللہ کی آیتوں اور اس کی ملاقات کو بھولے ہوئے ہیں یعنی قرآن کو اور بعث بعد الموت کو یہ لوگ میری رحمت سے ناامید ہوں گے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا، اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا تو ان کی قوم کے پاس بجز اس کے کوئی جواب نہیں تھا کہ کہنے لگے ان کو یا تو قتل کر ڈالو یا ان کو جلا دو آخرش اللہ نے ان کو اس آگ سے بچالیا جس میں ان کو ڈالا تھا اس طریقہ سے کہ اس آگ کو ابراہیم (علیہ السلام) پر ٹھنڈی اور سلامتی والی کردیا بلا شبہ اس میں یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے نجات دینے میں کئی نشانیاں ہیں ان نشانیوں میں ایک اس آگ کا باوجود اس کے عظیم ہونے کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں اثر نہ کرنا اور اس کا بجھ جانا ہے اور اس کی جگہ قلیل مدت میں گلستان کا پیدا ہوجانا ہے ایمان والوں کے لئے (یعنی) اللہ کی توحید اور اس کی قدرت کی تصدیق کرنے والوں کے لئے، اس لئے کہ یہی لوگ نشانیوں سے نفع حاصل کرنے والے ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ (بھی) فرمایا تم نے خدا کو چھوڑ کر بتوں کو (معبود) بنا رکھا ہے جن کی تم بندگی کرتے ہو بس یہ تمہارے آپسی دینوی تعلقات کی وجہ سے ہے ما اتخذتم میں مامصدریہ ہے اور مَوَدَّۃُ بینکم، اِنّ کی خبر ہے اور نصب میں (مودۃ) مفعول لہ ہے اور ما کافہ ہے، آیت کے معنی یہ ہیں ان بتوں کی عبادت کی وجہ سے تمہارے درمیان باہمی دوستی قائم ہے پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کے منکر ہوجاؤ گے سردار اپنے ماتحتوں سے اظہار براءت کردیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر لعنت کریں گے یعنی ماتحت سرداروں پر لعنت کریں گے اور تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی مدگار (یعنی) آگ سے بچانے والا ہوگا سو لوط (علیہ السلام) نے ابراہیم (علیہ السلام) کی (نبوت) کی تصدیق کی اور ان کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میں اپنی قوم کو چھوڑ کر اپنے رب کی طرف یعنی میرے رب کی بتائی ہوئی جگہ ہجرت کرجاؤں گا اور اپنی قوم کو چھوڑ دیا اور اطراف عراق سے شام کی طرف ہجرت کرگئے بیشک وہ اپنے ملک میں بڑا ہی غالب اور اپنی غالب اور اپنی صنعت میں بڑا ہی حکمت والا ہے اور ہم نے اس کو اسماعیل کے بعد اسحٰق اور اسحٰق کے بعد یعقوب عطا کئے اور ہم نے ان کی اولاد میں نبوت جاری کردی چناچہ تمام انبیاء ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ان کی نسل سے ہوئے اور کتاب (کاسلسلہ جاری کیا) اور کتاب بمعنی کتب تورات اور انجیل اور زبور اور قرآن کا اور ہم نے ان کا صلہ ان کو دنیا میں بھی دیا اور وہ تمام اہل ملت میں ان کا ذکر جمیل ہے اور بلا شبہ وہ آخرت میں بھی صالحین میں ہے جن کے لئے عالی شان درجات ہیں اور لوط (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کیا تم ایسی بےحیائی کا کام کرتے ہو یعنی مردوں کے ساتھ بدفعلی کرتے ہو کہ کسی نے تم سے پہلے عالم والوں یعنی وانس نے نہیں کیا، دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کی تسہیل اور دونوں کے درمیان دونوں صورتوں میں دونوں مقام پر الف داخل کرکے کیا تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور تم گذرنے والوں کے ساتھ بےحیائی کا کام کرکے مسافروں کا راستہ روکتے ہو جس کی وجہ سے لوگوں نے تمہارے پاس سے گذرنا ترک کردیا اور تم اپنی گفتگو کی مجلسوں میں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بےحیائی کا کام کرتے ہو تو ان کی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں تھا کہ کہنے لگے اگر تم اس فعل کو قبیح سمجھنے میں اور اس بات میں کہ ایسی حرکت کرنے والے پر عذاب نازل ہونے والا ہے سچے ہو تو اللہ کا عذاب لے آؤ تو لوط (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار عذاب نازل کرنے کے بارے میں میری بات کو سچ کرکے مردوں کے ساتھ بدفعلی کرکے نافرمانی کرنے والی قوم پر میری مدد فرما چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعاء قبول فرمالی۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : یَئِسُوْا مِنْ رَحْمَتِیْ یہی ہیں وہ لوگ جو قیامت کے دن میری رحمت سے ناامید ہوں گے یَئِسُوْا ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے۔
قولہ : اقتلوہ او حرّقوہ یہاں حرف تردید کے ساتھ فرمایا اور سورة الانبیاء میں صرف ایک یعنی حرّقوہُ فرمایا۔
جواب : یہاں انکے مشورہ کو بیان فرمایا ہے اور سورة الانبیاء میں مشورہ کے بعد فصلہ ہوگیا (یعنی جلانے کا) اسکو عملی جامہ پہنانے کا بیان ہے۔
قولہ : التی قَذََفوہ فیھا شارح نے اس عبارت سے کلام محذوف کی طرف اشارہ کیا ہے، تقدیر کلام یہ ہے فقذفوہ فی النار فاَنجاہ اللہ من النار وقال ابراھیم کا عطف فانجاہ اللہ من النار پر ہے، ای قال بعد انْجَائِہٖ من النار .
قولہ : اِنّ مَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْثَانًا الخ ما میں تین ترکیبیں ہوسکتی ہیں۔
اول ترکیب : ما موصولہ بمعنی الذی اور عائد محذوف ہے اور وہی اتخذتم کا مفعول اول اور اوثانًا مفعول ثانی اور مَوَدَّۃٌ اِنَّ کی خبر تقدیر عبارت یہ ہوگی اِنَّ الَّذِی اتخذتموہ او ثاناً مَوَدَّۃٌ (اس صورت میں مودۃٌ کا حمل اوثاناً پر مبالغۃ ہوگا، اور اگر موَدَّۃٌ سے پہلے ذومحذوف مان لیا جائے تو حمل درست ہوگا) اور مَوَدَّۃَ پر نصب کی صورت میں اِنّ کی خبر محذوف ہوگی تقدیر عبارت یہ ہوگی الذی اتخذتموہ اوثاناً لاجل المودۃِ لا ینفعوکم .
دوسری ترکیب : ما کافہ جو کہ اِنَّ کو عمل سے مانع ہے اَوْثاناً اِتخذتم کا مفعول بہ اگر اتخذتم کو متعدی بیک مفعول مانا جائے، اور اگر متعدی بدومفعول مانا جائے تو مفعول من دون اللہ ہوگا، اگر موَدَّۃُ کو مرفوع پڑھا جائے تو مبتدا محذوف ھِیَ کی خبر ہوگی، ای ھِیَ مَوَدَّۃٌ جملہ اس صورت میں اوثاناً کی صفت ہوگا، اور مستانفہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور اگر مَوَدَّۃ پر نصب پڑھا جائے تو اتخذتم کا مفعول لہ ہوگا، نیز اعنی محذوف کے ذریعہ بھی منصوب ہوسکتا ہے۔
تیسری ترکیب : مَا کو مصدریہ مانا جائے، اس کے بعد دو صورتیں ہیں، اتخاذ سے پہلے سبب مضاف محذوف مانا جائے اور تقدیر عبارت یہ ہو اِنّ سَبَبَ اتخاذکم اَوْثاناً مَوَدَّۃٌ اور یہ بھی جائز ہے کہ مضاف محذوف نہ مانا جائے بلکہ مبالغہ نفس اتخاذ ہی کو مَوَدَّۃ قرار دیدیا جائے اور مَوَدّۃ پر نصب کی صورت میں خبر محذوف ہوگی جیسا کہ اول صورت میں ہے۔
قولہ : المعنی قراءات مذکورہ کا حاصل معنی یعنی ان بتوں کی پوجا پاٹ ہی کی وجہ سے تم متفق ہوگئے ہو۔
قولہ : صَدَّقَ بابراھیم یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت کی تصدیق کی، نہ یہ کہ نفس ایمان کی تصدیق کی اس لئے کہ حضرت لوطعلیہ الصلاۃ والسلام تو مومن تھے ہی، لوط پر وقف لازم ہوگا۔
قولہ : الیٰ حیثُ اَمَرَنی رَبّیِ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا جواب ہے وہ یہ کہ اِلیٰ رَبّیِ سے باری تعالیٰ کے لئے جہت ثابت ہوتی ہے حالانکہ باری تعالیٰ جہات سے پاک ہے تو اس کا الیٰ حیثُ امرنی ربّی کہہ کر جواب دیدیا۔
قولہ : سَوادَ العراق ای اطرافھا یقال سواد البلدی اطراف البلد . قولہ : لمن الصالحینَ ای الصالحین الکاملین .
تفسیر وتشریح
والذین۔۔۔ اللہ الخ اللہ تعالیٰ کی رحمت، دنیا میں عام ہے جس سے کافر و مومن، مخلص و منافق اور نیک وبد یکساں طور پر مستفیض ہورہے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو دنیا کے وسائل، آشائش اور مال و دولت عطا کررہا ہے یہ رحمت الہٰی کی وہ وسعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا رحمتی وسعت کل شئ (اعراف) لیکن آخرت چونکہ دارلجزاء ہے انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہوگا اس کی فصل اسے وہاں کاٹنی ہوگی، جیسے عمل کئے ہوں گے ویسی ہی جزاء وہاں ملے گی، اللہ کی بارگاہ میں بےلاگ فیصلے ہوں گے دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک و بد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن و کافر دونوں ہی رحمت الہٰی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف آتا ہے، دوسرے قیامت کا مقصود ہی فوت ہوجائے گا قیامت کا دن تو اللہ تعالیٰ نے رکھا ہی اس لئے ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلہ میں جنت ملے اور بدوں کی جزاء میں جہنم دی جائے، اس لئے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت اہل ایمان کے ساتھ خاص ہوگی جس کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔
فما۔۔۔ قومہٖ ان آیات سے قبل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہورہا تھا، یہاں سے اس کا بقیہ حصہ بیان کی جارہا ہے، دومیان میں جملہ معترضہ کے طور پر اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و طاقت کو بیان کیا گیا ہے، بعض مفسرین فرماتے ہیں یہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وعظ کا حصہ ہے جس میں حضرت ابرہیم نے توحید اور معاد کے اثبات میں دلائل دیئے ہیں جن کا کوئی جواب ان کی قوم سے جب نہ بن پڑا تو انہوں نے اس کا جواب ظلم و تشدد کی اس کاروائی سے دیا جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اسے قتل کردو یا جلا دو ، چناچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کرکے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو منجنیق کے ذریعہ اس میں پھیک دیا۔
فانجاہ۔۔ النار اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آگ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے چشم زدن میں گل و گلزار کردیا اور اپنے خلیل کو بچالیا آگ ان کے کندھوں کے علاوہ کچھ نہ جلا سکی۔
وقال۔۔۔ مودۃ (الآیۃ) یعنی یہ تمہارے قوی بت ہیں جو تمہاری اجتماعت اور آپس کی دوستی کی بنیاد ہیں، اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو تمہاری قومیت اور دوستی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔
فآمَنَ لَہٗ لُوط حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادرزاد تھے یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے، بعض مفسرین نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھانجے لکھا ہے وہ درست نہیں ہے، آتش نمرود میں حضرت ابراہیم کا معجزہ دیکھ کر حضرت ابراہیم کی نبوت کی سب سے پہلے انہوں نے تصدیق کی، حضرت ابراہیم اور آپ کی زوجہ محترمہ سارہ جو آپ کی چچا زاد بہن بھی تھیں، اور مسلمان ہوچکی تھیں اور حضرت لوط (علیہ السلام) کو ساتھ لیکر اپنے وطن سے ہجرت کا ارادہ فرمایا اور کسی ایسی جگہ کا قصد فرمایا کہ جہاں بفراغت و اطمینان قلبی کیساتھ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرسکیں۔
ووھبنا۔۔۔ یعقوب یعنی حضرت اسحٰق (علیہ السلام) سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) پیدا ہوئے حضرت یعقوب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پوتے ہیں، حضرت یعقوب ہی کو اسرائیل کہتے ہیں (اس کے معنی ہیں اللہ کا بندہ) بنی اسرائیل انہیں کی نسل سے ہیں، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ بعد کے انبیاء حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہی کی نسل سے ہیں، اسی لئے ان کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں جو کہ حضرت ہاجرہ کے بطن سے تھے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل کو بنی اسماعیل کہا جاتا ہے عرب کا تعلق اسی نسل سے ہے۔
ولو۔۔۔ لقومہٖ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے تین بڑے گناہوں کا ذکر فرمایا ہے اولؔ مرد کی مرد کے ساتھ بدفعلی، دوسرے رہزنی، تیسرے اپنی مجلسوں میں سب کے سامنے بےحیائی کے جرم کرنا، حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” کہ تمہاری شہوت پرستی انتہاء کو پہنچ گئی ہے “ کہ اس کے لئے طبعی طریقے تمہارے لئے ناکافی ہوگئے ہیں اور تم نے غیر طبعی طریقے اختیار کرلئے ہیں۔
وَتقطعون السبیل اس کے ایک معنی نویہ کئے گئے ہیں کہ آنے جانے والے مسافروں کو زبردستی پکڑ کر تم ان سے بےحیائی کا کام کرتے ہو جس کی وجہ سے لوگوں نے اس راستہ سے گذرنا چھوڑ دیا تھا، دوسرے معنی یہ ہیں کہ تم آنے جانے والوں کو لوٹ لیتے ہو اور قتل کردیتے ہو یا ازراہ شرارت انہیں کنکریاں مارتے ہو۔ تیسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ سرراہ بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جس سے وہاں سے گذرتے ہوئے لوگ شرم محسوس کرتے ہیں، ان تمام صورتوں سے راستے بند ہوجاتے ہیں، حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں ان منکرات سے منع کیا تو اس کے جواب میں کہنے لگے اگر تم سچے ہو تو ہمارے اوپر اللہ کا عذاب لے آؤ جب حضرت لوط (علیہ السلام) قوم کی اصلاح سے ناامید ہوگئے تو ان کے لئے بددعاء کردی اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بددعاء قبول فرمائی اور فرشتوں کو ان کے ہلاک کرنے کے لئے بھیج دیا، فرشتے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس گئے اور انہیں اسحٰق و یعقوب (علیہما السلام) کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی یہ بھی بتلادیا کہ ہم لوط (علیہ السلام) کی بستی کو ہلاک کرنے جارہے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جس سے بھلائی زائل ہوگئی اور ان کو شر حاصل ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کا انکار کیا اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو جھٹلایا ان کے پاس دنیا کے سوا کچھ نہیں اسی لئے انہوں نے شرک اور معاصی کا ارتکاب کیا کیونکہ ان کے دلوں میں کوئی ایسی چیز نہیں جو انہیں ان گناہوں کے انجام سے ڈرائے اس لئے فرمایا :﴿ أُولَـٰئِكَ يَئِسُوا مِن رَّحْمَتِي﴾” یہ لوگ میرے رحمت سے ناامید ہوگئے۔“ یعنی ان کے پاس کوئی ایسا سبب نہ ہوگا جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہرہ ورہوں ورنہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید ہوتی تو اس رحمت کے حصول کے لئے عمل کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا بڑے بڑے ممنوعات میں سے ہے اور اس کی دو اقسام ہیں :
(1) کفار کا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو کر ان تمام اسباب کو ترک کردینا جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔
(2) گناہ گاروں کا اپنے گناہوں اور جرائم کی کثرت کے سبب اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا جو انہیں وحشت میں مبتلا کرکے ان کے قلوب پر حاوی ہوجاتے ہیں اور یوں ان کے قلوب میں مایوسی جنم لیتی ہے۔﴿ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔“ یعنی تکلیف دہ اور دل دوز، گویا کہ یہ آیات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنی قوم کے ساتھ کلام اور ان کی قوم کا آپ کی بات رد کرنے کے درمیان بطور جملہ معترضہ آئی ہیں۔ و اللہ اعلم۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jinn logon ney Allah ki aayaton ka aur uss say ja-milney ka inkar kiya hai , woh meri rehmat say mayyus hochukay hain , aur unn kay liye dukh denay wala azab hai .