العنکبوت آية ۶۴
وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌۗ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِىَ الْحَـيَوَانُۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ
طاہر القادری:
اور (اے لوگو!) یہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے، اور حقیقت میں آخرت کا گھر ہی (صحیح) زندگی ہے۔ کاش! وہ لوگ (یہ راز) جانتے ہوتے،
English Sahih:
And this worldly life is not but diversion and amusement. And indeed, the home of the Hereafter – that is the [eternal] life, if only they knew.
1 Abul A'ala Maududi
اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے
2 Ahmed Raza Khan
اور یہ دنیا کی زندگی تو نہیں مگر کھیل کود اور بیشک آخرت کا گھر ضرور وہی سچی زندگی ہے کیا اچھا تھا اگر جانتے
3 Ahmed Ali
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور اصل زندگی عالم آخرت کی ہے کاش وہ سمجھتے
4 Ahsanul Bayan
اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے (۱) البتہ آخرت کے گھر کی زندگی حقیقی زندگی ہے (۲) کاش! یہ جانتے ہوتے (۳)
٦٤۔١ یعنی جس دنیا نے انہیں آخرت سے اندھا اور اس کے لیے توشہ جمع کرنے سے غافل رکھا ہے وہ ایک کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، کافر دنیا کے کاروبار میں مشغول رہتا ہے، اس کے لیے شب وروز محنت کرتا ہے لیکن جب مرتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح بچے سارا دن مٹی کے گھروندوں سے کھیلتے ہیں پھر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ سوائے تھکاوٹ کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا
۔٦٤۔۲اس لئے ایسے عمل صالح کرنے چاہئیں جن سے آخرت کا یہ گھر سنور جائے۔
٦٤۔۳ کیونکہ اگر وہ یہ بات جان لیتے تو آخرت سے بےپرواہ ہو کر دنیا میں مگن نہ ہوتے۔ اس لئے ان کا علاج علم ہے، علم شریعت۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور (ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش یہ (لوگ) سمجھتے
6 Muhammad Junagarhi
اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے، کاش! یہ جانتے ہوتے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور یہ دنیاوی زندگی تو محض کھیل تماشہ ہے اور حقیقی زندگی تو آخرت والی ہے۔ کاش لوگوں کو اس (حقیقت) کا علم ہوتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہ زندگانی دنیا ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے اگر یہ لوگ کچھ جانتے اور سمجھتے ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور (ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے کاش یہ لوگ سمجھتے
آیت نمبر 64 تا 69
ترجمہ : اور یہ دنیوی زندگی کھیل تماشہ کے سوا کچھ نہیں البتہ عبادت تو یہ امور آخرت میں ظاہر ہونگے اور اصل زندگی دار آخرت ہی کی ہے اگر یہ لوگ اس بات کو سمجھ لیتے تو دینوی زندگی کو آخرت پر ترجیح نہ دیتے پھر جب یہ لوگ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو خالص اعتقاد کے ساتھ اللہ ہی سے دعا کرتے ہیں یعنی اس کے ساتھ غیر کو نہیں پکارتے اس لئے کہ وہ (اس وقت) ایک عظیم پریشانی میں (مبتلا) ہوتے ہیں اور اس پریشانی کو اس کے علاوہ کوئی دور نہیں کرسکتا پھر جب ان کو نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو فوراً ہی اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے لگتے ہیں تاکہ ہماری دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرتے رہیں اور یہ لوگ بتوں کی بندگی پر مجتمع ہو کر قدرے اور فائدہ اٹھالیں اور ایک قراءت میں وَلْیَتَمَتَّعُوْا کے لام کے سکون کے ساتھ امر تہدیدی ہے ان کو اس کے انجام کا جلدی ہی پتہ چل جائے گا، کیا یہ نہیں جانتے کہ ہم نے مکہ شہر کو امن والا بنادیا اور ان کے اطراف میں دوسرے لوگوں کو قتل و قید کے ذریعہ اچک لیا جاتا ہے کیا یہ لوگ جھوٹے معبودوں (بتوں) پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کے ساتھ شریک کرکے اس کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا ؟ یعنی اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں، جو اللہ پر بہتان لگائے بایں طور کہ اس کے ساتھ شرک کرے یا جب اس کے پاس حق یعنی نبی یا کتاب آجائے تو وہ اس کی تکذیب کرے کیا کافروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ؟ اور ایسا شخص جہنمیوں میں سے ہے اور جو لوگ خالص ہمارے لئے جہاد کرتے ہیں تو ہم ایسے لوگوں کو ہم تک پہنچانے والے راستے ضرور دکھائیں گے بلاشبہ اللہ تعالیٰ (اپنی) نصرت اور مدد کے ذریعہ محسنین (یعنی) مومنین کے ساتھ ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اللَّھْوُ دینوی لذتوں سے لذت اندوز ہونا، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ لھو لا یعنی چیزوں میں مشغول ہونے کو کہتے ہیں اور اللعب ھو العبث .
قولہ : حَیَوَان زندگی، جینا، حَیَوَان حَیِیَ یَحْیٰ (س) کا مصدر ہے اصل میں حَیَیَانٌ تھا، ثانی یا واؤ سے بدل دی گئی ہے یہ حَیَاۃٌ سے زیادہ بلیغ ہے اس لئے کہ فَعَلَانٌ کے وزن میں حرکت اور اضطراب کے معنی ہیں جو لازمۂ حیات ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مقام میں حیات کے بجائے حَیَوَان کا استعمال کیا گیا ہے۔ (لغات القرآن)
قولہ : لَوْ کَا نُوْا یَعْلَمُوْنَ ذٰلک۔ ذٰلک یَعلمون کا مفعول ہے لَوْ حرف شرط ہے مَا آثرُوا الدنیا علَیْھَا جواب شرط ہے۔
قولہ : ای الدُّعَاء یہ تعیین معنی کے لئے ہے دین کے چونکہ مختلف معنی آتے ہیں الدعاءُ کے ذریعہ تفسیر کرکے چند معنی میں سے ایک معنی کو متعین کرلیا۔
قولہ : اِذَاھم یشرکون یہ فَلَمَّا کا جواب ہے، مطلب یہ ہے کہ غرق سے نجات پاتے ہی بلاتاخیر شک شروع کردیتے ہیں، لیکفروا میں لام، لامِ کَی ہے اور لِیَتَمَتَّعُوْا کا لِیَکْفُرُوْا پر عطف ہے۔ (تنبیہ) لام کَی کے بجائے اس کو لام عاقبت مانا جائے تو زیادہ مناسب ہے (جمل) ایک قراءت میں لام کے سکون کے ساتھ ہے اس صورت میں لام امر ہوگا دونوں فعلوں میں مگر یہاں یہ شبہ پیدا ہوگا کہ اس سے اللہ کا فعل قبیح کا امر کرنا لازم آتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ حکیم ہیں اور حکیم قبیح شئ کا امر نہیں کرتا، امرُ تھدیدٍ کہہ کر اس سوال کا جواب دیدیا یعنی امر سے مراد امتثال امر نہیں ہے بلکہ تہدید وتوبیخ مراد ہے فَسَوْفَ یعلمون امر کے تہدیدی ہونے کا قرینہ ہے۔
قولہ : وَیُتَخَطَّفُ جملہ حالیہ ہے اور اس سے پہلے ھُمْ مبتداء فی جَھَمَّمَ میں ہمزہ انکار کے لئے ہے اور یہ استفہام تقریری اس لئے ہے کہ لیس حرف نفی ہے جب اس پر ہمزہ انکاری داخل ہوا تو نفی ایجاب ہوگیا، لہٰذا اس میں تقریر کے معنی پیدا ہوگئے، مطلب یہ ہے کہ کافروں کا بلاشبہ ٹھکانہ جہنم ہے۔
تفسیر وتشریح
وما۔۔۔ الدنیا (الآیۃ) سابقہ آیات میں مشرکین کا یہ حال مذکورہ ہوا ہے کہ آسمان اور زمین کی پیدائش شمس وقمر کا نظام، بارش برسانے اور اس سے نباتات اگانے کا پورا نظام مشرکین بھی اللہ ہی کے قبضے میں ہونے پر یقین رکھتے ہیں، اس میں کسی بت یا دیوی دیوتا کو شریک نہیں مانتے مگر پھر بھی وہ خدائی میں بتوں کو شریک ٹھہراتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اَکثَرُھم لا یعلموْنَ یعنی ان میں اکثر لوگ ایسے ہیں کہ جو جانتے نہیں ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، آخر یہ لوگ مجنون یا دیوانے تو نہیں ہیں، ہوشیار اور سمجھ دار ہیں دنیا کے بڑے بڑے کام نخوبی انجام دیتے ہیں، پھر ان کے ناسمجھ ہونے کے کیا معنی ؟ اس کا جواب مذکورہ الصدر آیات سے سابقہ آیات میں یہ دیا گیا ہے کہ دنیا اور اس کی مادی اور فانی لذتوں و خواہشات نفسانی کی محبت نے ان کو آخرت اور انجام میں غور و فکر کرنے سے اندھا کردیا ہے، حالانکہ یہ دنیا کی زندگی لہو ولعب کے سوا کچھ نہیں اور اصلی زندگی جو لافانی اور جاودانی ہے وہ آخرت کی زندگی ہے، مذکورہ آیت میں بھی دنیوی زندگی کو لہو ولعب فرمایا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح کھیلوں کا کوئی ثبات وقرار نہیں ہوتا اور نہ ان سے کوئی بڑا مقصد حل ہوتا ہے، تھوڑی دیر کے بعد سب تماشہ ختم ہوجاتا ہے یہی حال اس دنیا کا ہے۔
اس کے بعد کی آیت میں ان مشرکوں کے قول میں تضاد کو بیان فرمایا گیا ہے جیسے یہ لوگ تخلیق کائنات میں اللہ کو منفرد ماننے کے باوجود اس جہالت کے شکار ہیں کہ بت خدائی میں شریک ہیں اور جب کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو اس مصیبت کے وقت بھی ان کو یہ یقین اور قرار ہوتا ہے کہ اس مصیبت میں کوئی بت ہمارا مدگار نہیں بن سکتا ایسے موقع پر خدائے واحد ہی کو بڑے اخلاص اور یقین کے ساتھ پکارتے ہیں۔
اس تناقض کو حضرت عکرمہ بن ابی جہل سمجھ گئے تھے جسکی وجہ سے ان کو قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوگئی ان کے بارے میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ مکہ سے فرار ہوگئے تاکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گرفت سے بچ سکیں، یہ حبشہ جانے کیلئے ایک کشتی میں سوار ہوئے کشتی گرداب میں پھنس گئی تو کشتی میں سوار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ پورے خلوص سے رب سے دعائیں کرو اس لئے کہ یہاں اس کے علاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں، حضرت عکرمہ نے یہ سن کر کہا کہ اگر یہاں سمندر میں اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں سے سکتا اور اسی وقت اللہ سے عہد کرلیا کہ اگر میں یہاں سے بخریت ساحل پر پہنچ گیا تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا یعنی مسلمان ہوجاؤں گا، چناچہ یہاں سے نجات پاکر انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ (ابن کثیر بحوالہ سیرت محمد بن اسحاق)
اولم۔۔۔ حولھم بعض مشرک اپنے شرک و کفر کا ایک عذر یہ بھی بیان کرتے تھے کہ ہم آپ کے دین کو تو حق اور درست مانتے ہیں لیکن اس کی پیروی کرنے اور مسلمان ہوجانے میں ہم اپنی جانوں کا خطرہ محسوس کرتے ہیں، کیونکہ پورا عرب اسلام کے خلاف ہے ہم اگر مسلمان ہوگئے تو باقی عرب ہمیں اچک لیجائیں گے اور مار ڈالیں گے۔ (کماروی عن عباس، روح)
اس کے جواب میں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کا یہ عذر بھی لغو ہے کیونکہ اہل مکہ کو تو حق تعالیٰ نے بیت اللہ کی وجہ سے وہ شرف اور بزرگی دی ہے جو دنیا میں کسی مقام کے لوگوں کو حاصل نہیں ہے، حق تعالیٰ نے مکہ کی پوری زمین کو حرم بنادیا عرب کے باشندے مومن ہوں یا کافر سب کے سب حرم کا احترام کرتے ہیں اس میں قتل و قتال ناجائز سمجھتے ہیں، حرم میں انسان تو انسان وہاں کے شکار کو قتل کرنا اور وہاں کے درختوں کو کاٹنا بھی کوئی جائز نہیں سمجھتا، باہر کا کوئی آدمی اگر حرم میں داخل ہوجائے تو وہ بھی قتل سے مامون ہوجاتا ہے تو مکہ مکرمہ کے باشندوں کو اسلام قبول کرنے سے جانوں کا خطرہ بتلانا بھی عذر لنگ ہے۔
والذین۔۔۔ سبلنا جہاد کے اصل معنی دین میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کرنے کے ہیں، ان میں وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو کفار وفجار کی طرف سے پیش آتی ہیں کفار سے مقابلہ اس کا اعلیٰ فرد ہے، اور وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو اپنے نفس اور شیطان کی جانب سے پیش آتی ہیں۔
جہاد کی دونوں قسموں پر اس آیت میں یہ وعدہ ہے کہ ہم جہاد کرنے والوں کو اپنے راستوں کی ہدایت کردیتے ہیں یعنی ان کے قلوب کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں جس میں ان کے لئے خیرو برکت ہو، حضرت ابوالدرداء نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ کی طرف سے جو علم لوگوں کو دیا گیا ہے، جو لوگ اپنے علم پر عمل کرنے میں جہاد کرتے ہیں ہم ان پر دوسرے علوم بھی منکشف کردیتے ہیں، جواب تک حاصل نہیں تھے، اور فضیل بن عیاض نے فرمایا کہ جو لوگ طلب علم میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کے لئے عمل بھی آسان کردیتے ہیں۔ (مظھری)
تم بحمداللہ
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت کے احوال کی خبر دیتا ہے اور اس ضمن میں دنیا سے بے رغبتی رکھنے کی ترغیب اور آخرت کا شوق پیدا کرتا ہے، اس لیے فرمایا : ﴿وَمَا هَـٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا﴾ ” اور نہیں ہے یہ دنیا کی زندگی“ یعنی اس دنیاوی زندگی کی حقیقت ﴿إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ﴾ ” مگر کھیل کود۔“ جس کی بنا پر دل غافل اور بدن کھیل میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو زیب و زینت اور ان لذات و شہوات سے لبریز کردیا ہے جو دلوں کو کھینچ لیتی ہیں، آنکھوں کو خوبصورت نظر آتی ہیں اور نفوس باطلہ کو فرحت عطا کرتی ہیں۔ پھر دنیا کی یہ زینت و زیبائش جلد ہی زائل ہو کر ختم ہوجائے گی اور اس دنیا سے محبت کرنے والے کو ندامت اور خسارے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
رہا آخرت کا گھر تو وہی ﴿الْحَيَوَانُ﴾ حقیقی زندگی ہے، یعنی آخرت کی زندگی درحقیقت کامل زندگی ہے جس کے لوازم میں سے ہے کہ آخرت کے لوگوں کے بدن نہایت طاقتور اور ان کے قویٰ نہایت سخت ہوں، کیونکہ وہ ایسے ابدان اور قویٰ ہوں گے جو آخرت کی زندگی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس زندگی میں ہر وہ چیز موجود ہو گی جو اس زندگی کی تکمیل کے لیے ضروری ہے اور جس سے لذت پوری ہوتی ہے مثلاً دلوں کو تازگی اور فرحت بخشنے والی چیزیں اور جسموں کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ماکولات، مشروبات اور پاک بدن بیویاں وغیرہ ہوں گی جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے خیال میں کبھی ان کا گزر ہوا ہے۔ ﴿ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾ ” اگر وہ جانتے ہوتے“ تو وہ کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دیتے اور اگر انہیں عقل ہوتی تو آخرت کی کامل زندگی کو چھوڑ کر لہو و لعب کی زندگی کی طرف مائل نہ ہوتے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جنہیں علم ہے انہیں آخرت کو دنیا پر ترجیح دینی چاہئے کیونکہ انہیں دونوں جہانوں کی حالت معلوم ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur yeh dunyawi zindagi khel kood kay siwa kuch bhi nahi , aur haqeeqat yeh hai kay daar-e-aakhirat hi asal zindagi hai , agar yeh log jantay hotay !
12 Tafsir Ibn Kathir
جب عکرمہ طوفان میں گھر گئے
دنیا کی حقارت وذلت اس کے زوال وفنا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اسے کوئی دوام نہیں اس کا کوئی ثبات نہیں یہ تو صرف لہو ولعب ہے۔ البتہ دار آخرت کی زندگی دوام وبقا کی زندگی ہے وہ زوال وفنا سے قلت وذلت سے دور ہے۔ اگر انہیں علم ہوتا تو اس بقا والی چیز پر اس فانی چیز کو ترجیح نہ دیتے۔ پھر فرمایا کہ مشرکین بےکسی اور بےبسی کے وقت تو اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کو ہی پکارنے لگتے ہیں۔ پھر مصیبت کے ہٹ جانے اور مشکل کے ٹل جانے کے بعد اس کے ساتھ دوسروں کا نام کیوں لیتے ہیں ؟ جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا 67) 17 ۔ الإسراء :67) یعنی جب سمندر میں مشکل میں پھنستے ہیں اس وقت اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہیں اور جب وہاں سے نجات پاکر خشکی میں آجاتے ہیں تو فورا ہی منہ پھیر لیتے ہیں۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا تو عکرمہ ابن ابی جہل یہاں سے بھاگ نکلا اور حبشہ جانے کے ارادے سے کشتی میں بیٹھ گیا اتفاقا سخت طوفان آیا اور کشتی ادھر ادھر ہونے لگی۔ جتنے مشرکین کشتی میں تھے سب کہنے لگے یہ موقعہ صرف اللہ کو پکارنے کا ہے اٹھو اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو اس وقت نجات اسی کے ہاتھ ہے۔ یہ سنتے ہی عکرمہ نے کہا سنو اللہ کی قسم اگر سمندر کی اس بلا سے سوائے اللہ کے کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی کی مصیبتوں کا ٹالنے والا بھی وہی ہے۔ اللہ میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر میں یہاں سے بچ گیا تو سیدھا جاکر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دونگا اور آپ کا کلمہ پڑھ لونگا۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری خطاؤں سے درگذر فرمالیں گے اور مجھ پر رحم وکرم فرمائیں گے چناچہ یہی ہوا بھی آیت (لیکفروا) اور (لیتمتعوا) میں لام جو ہے اسے لام عافیت کہتے ہیں اس لئے کہ انکا قصد دراصل یہ نہیں ہوتا اور فی الواقع ان کی طرف نظریں ڈالنے سے بات بھی یہی ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی نسبت سے تو یہ لام تعلیل ہے۔ اس کی پوری تقریر ہم آیت ( فَالْتَقَطَهٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا ۭ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـــــِٕيْنَ ) 28 ۔ القصص :8) میں کرچکے ہیں۔