آل عمران آية ۱۳۰
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَأْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۖ وَّاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ،
English Sahih:
O you who have believed, do not consume usury, doubled and multiplied, but fear Allah that you may be successful.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والوں سود دونا دون نہ کھاؤ اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو سود دونے پر دونا نہ کھاؤ اور الله سے ڈرو تاکہ تمہارا چھٹکارا ہو
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ (١) اللہ تعالٰی سے ڈرو تاکہ تمہیں نجات ملے۔
١٣٠۔١ چونکہ غزوہ احد میں ناکامی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور مال دنیا کے لا لچ کے سبب ہوئی تھی اس لئے اب طمع دنیا کی سب سے زیادہ بھیانک اور مستقل شکل سود سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت کی تاکید کی جا رہی ہے اور بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ کا یہ مطلب نہیں کہ بڑھا چڑھا کر نہ ہو تو مطلق سود جائز ہے بلکہ سود کم ہو یا زیادہ مفرد ہو یا مرکب مطلقًا حرام ہے جیسے کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے جس سے تنبیہ بھی مقصود ہے کہ سود خوری سے باز نہ آئے تو یہ فعل تمہیں کفر تک پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ و رسول سے محاربہ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اےایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور خدا سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہیں نجات ملے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! یہ دوگنا چوگنا بڑھتا چڑھتا سود نہ کھاؤ (اللہ کی نافرمانی) سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے ایمان والو یہ دوگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور ا للہ سے ڈرو کہ شاید نجات پاجاؤ
9 Tafsir Jalalayn
اے ایمان والو ! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور خدا سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو
آیت نمبر ١٣٠ تا ١٤٣
ترجمہ : اے ایمان والو ! یہ بڑھتا ثڑھتا سود کھانا چھوڑ دو (مُضٰعَفَۃً ) الف اور بغیر الف دونوں طریقوں پر ہے۔ اس طور پر کہ مدت پوری ہونے پر مالی مطالبہ بڑھا دو ۔ اور مطالبہ میں مہلت دے دو ۔ (اکل ربا) کو ترک کرکے اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ اور اس آگ سے ڈرو جو (اصالۃً ) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے کہ تم کو اس میں عذاب دیا جائے اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑو کہ جس کی وسعت زمین و آسمان ہیں (سَارِعُوْا) میں قبل السین واؤ اور بدون واؤ دونوں (قراءتیں) ہیں۔ یعنی (جنت کی وسعت) ان دونوں کی وسعت کے مانند ہے اگر ایک دوسرے کے ساتھ ملا لیے جائیں، اور ” عرض “ کے معنی وسعت کے ہیں، عمل اطاعت اور ترک معاصی کرکے جو اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو فراغت اور تنگی (دونوں حالتوں) میں اللہ کی اطاعت میں خرچ کرتے ہیں، (یعنی فراخ دستی اور تنگ دستی میں خرچ کرتے ہیں) اور غصہ کو پی جانے والے ہیں یعنی قدرت کے باوجود غصہ کو ضبط کرنے والے ہیں اور جن لوگوں نے ان پر ظلم کیا ہے ان کو درگذر کرنے والے ہیں یعنی اس کی سزا کو ترک کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان اعمال کے ذریعہ نیکوکاروں سے محبت کرنے والا ہے یعنی ان کو ثواب عطا کرنے والا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کوئی ناشائستہ حرکت ناپسندیدہ برائی کر بیٹھتے ہیں، مثلاً زنا یا زنا سے کم مثلا بوسہ کے ذریعہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یعنی اس کی وعید کو یاد کرلیتے ہیں اور اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنے لگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو معاف کرسکتا ہے ؟ اور یہ لوگ اپنے کیے پر اڑ نہیں جاے ئ بلکہ اس سے باز آجاتے ہیں حال یہ ہے کہ وہ اس کی (قباحت) کو جانتے ہیں کہ ان سے جو حرکت سرزد ہوئی ہے وہ گناہ ہے ایسے لوگوں کو جزاء ان کے پروردگار کی طرف سے مغفرت ہے اور ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے جب ان میں داخل ہوجائیں گے (خٰلدین) حال مقدرہ ہے یعنی ان کے لیے ان باغوں میں رہنا مقدر کردیا گیا ہے، اطاعت گزاروں کے لیے یہ بہترین اجر ہے اور شکست احد کے بارے میں (آئندہ آیت) نازل ہوئی، تم سے پہلے بھی کفار کو مہلت دینے اور پھر گرفت کرنے کے واقعات گزر چکے ہیں تو اے مومنو ! زمین میں چلو پھر و اور رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کے انجام میں غور کرو یعنی ان کا انجام ہلاکت ہی ہوا۔ لہٰذا تم ان کے (وقتی) غلبہ سے کبیدہ خاطر نہ ہو میں ان کو (ان کی ہلاکت) کے وقت تک مہلت دے رہا ہوں۔ یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے بیان ہے۔ اور ان میں سے پرہیزگاروں کے لیے گمراہی سے ہدایت اور نصیحت ہے اور نہ ہمت ہارو یعنی کفار کے مقابلہ میں قتال میں کمزور نہ پڑو۔ اور احد میں جو کچھ تم کو پیش آیا اس سے غم زدہ نہ ہو اور اگر تم صحیح معنی میں مومن رہے تو ان پر فتح حاصل کرکے تم ہی غالب رہو گے اور جواب شرط پر مجموعہ ماقبل یعنی (فسیر و اولا تھنوا الخ) دلالت کرتا ہے یعنی اگر تم احد میں زخمی ہوئے (قَرح) میں قاف کے فتحہ کے ساتھ اور اس کے ضمہ کے ساتھ۔ زخم وغیرہ کی تکلیف۔ تو بدر میں کفار کو بھی اسی قسم کا زخم لگ چکا ہے اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان الٹ پھیر کرتے رہتے ہیں (یعنی) ادل بدل کرتے رہتے ہیں، ایک دن ایک فریق کے حق میں اور دوسرے دن دوسرے فریق کے حق میں، تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ (شکست اُحد) اس لئے تھی کہ مخلص مومنوں کو دوسروں (غیر مخلصوں) سے ممتاز کرکے ظاہر کر دے اور تم میں سے بعض کو شہادت عطا فرمائے اور بذریعہ شہادت ان کو اعزاز بخشے۔ اللہ تعالیٰ ظالموں یعنی کافروں سے محبت نہیں کرتا یعنی ان کو سزا دے گا۔ اور ان پر جو کچھ انعام کیا جاتا ہے وہ ڈھیل ہے۔ اور تاکہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اس تکلیف کے ذریعہ جو ان کو پہنچی گناہوں سے پاک و صاف کر دے اور کافروں کو ہلاک کر دے شاید تم اس خیال میں ہو کہ جنت میں داخل ہوگے حالآنکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے علم ظہور کے طور پر ان لوگوں کو جانا نہیں کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں ؟ اور تکالیف میں صبر کرنے والے کون ہیں ؟ جنگ سے پہلے تو تم موت کی آرزو کر رہے تھے، اصل میں ایک تاء کو حذف کرکے۔ جب تم نے کہا تھا کہ کاش ہمارے لیے بھی یوم بدر کے مانند ہوتا تاکہ ہم بھی وہ حاصل کرتے جو شہداء بدر نے حاصل کیا سو تم موت کو یعنی اس کے سبب کو کہ وہ حرب ہے کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے شکست کے اسباب میں غور و فکر کر رہے تھے کہ یہ شکست کن اسباب کی وجہ سے ہوئی، یعنی تم کیوں شکست کھا گئے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : کعَرْضِھمَا، اس میں اشارہ ہے کہ حرف تشبیہ اور مضاف محذوف ہے۔ سوال : مضاف محذوف ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی
جواب : تاکہ جنت کی وسعت کی تشبیہ ارض و سماوات کے ساتھ صحیح ہوجائے، اس لیے کہ عرض جنت مقولہ کم متصل یعنی مقدر سے ہے اور ارض و سماوات مقولہ جوہر سے ہے حالانکہ جواز تشبیہ کے لیے مقولہ کا متحد ہونا ضروری ہے، اور جب عرض محذوف مان لیا تو دونوں یعنی مشبہ اور مشبہ بہ مقولہ کم متصل سے ہوگئے۔ لہٰذا تشبیہ درست ہوگئی۔
قولہ : بِمَادرونہ۔ اس حذف کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ عطف درست ہوجائے کیونکہ عطف کیلئے مغایرت ضروری ہے۔
قولہ : ای وَعِیْدہ اس اضافہ کا مقصد اس شبہ کا جواب ہے کہ اللہ کے ذکر سے استغفار ہی مراد لینا ضروری نہیں ہے۔
جواب : ذکر سے مراد اسکی وعید کا ذکر ہے۔
قولہ : حال مقدرۃ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ، حال کے لیے مقارنت یعنی حال اور ذوالحال کا زمانہ متحد ہونا ضروری ہے، حالانکہ خلود نفس جزاء کے ثبوت کے بعد ہوگا۔ جواب : ان کے لیے خود مقدر کردیا گیا ہے۔
قولہ : وَجوابہ دَلَّ علیہ مجموع ما قبلہٗ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : اِنْ کُنْتُمْ مومنین شرط ہے اس کی جزاء اگر ماقبل کا جملہ فَسِیْرُوْا فِی الارضِ الخ ہے تو یہ درست نہیں ہے اس لیے کہ ماقبل کے جملہ فَسِیْرُوا فی الارض سے مفہوم ہے۔
قولہ : لَیَتَّعِظُوا، یہ لفظ محذوف مان کر مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ لِیَعْلَمَ کا عطف محذوف پر ہے۔
قولہ : یکرمھم بالشھادۃ اس میں اشارہ ہے کہ شہداء شہید کی جمع ہے نہ کہ شاہد کی۔ قولہ : بل، یعنی ام، بمعنی بل ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ یہ اَم منقطعہ ہے نہ کہ متصلہ کو اس کو عدیل (مقابل) کی ضرورت ہو۔ قولہ : ای بُصَرَاءُ ۔
سوال : فَقَدْرَ أیْتُمُوْہُ کے بعد انتم تنظرون کہنے کا کیا مطلب ہے ؟ جواب : پہلی رویت سے مراد رویت بصری ہے، رَأیْتُمُوْہُ کی ضمیر مفعولی موت کی طرف راجع ہے گر موت چونکہ نظر آنے والی چیز نہیں اس لیے سبب مضاف، محذوف مانا یعنی سبب موت، یعنی حرب کو دیکھ لیا اور انتم تنظرون سے صاحب بصیرت و علم و دانش ہونا مراد ہے لہٰذا معلوم ہوگیا کہ دونوں معنیٰ الگ الگ ہیں۔
اللغۃ والبلاغۃ
یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبوٰا یہ کلام مستانف ہے بیان ربا کے لیے لایا گیا ہے۔ قولہ : الکاظمین، یہ کَظَمٌ کا اسم فاعل ہے، اس کے اصل معنیٰ مشک وغیرہ بھر کر اس کا منہ بند کرنے کے ہیں تاکہ اندر کی چیز باہر نہ آسکے، یہ کَظَم القِربۃ سے ماخوذ ہے۔
التنکیت فی التشبیہ : أن یقصد المتکلم الیٰ شئ بالذکر دون غیرہ مِمّاَ یَسُدّ مسدہ لِاَجْل نُکْتَۃٍ ، وَاذا وَقَعَ فی التشبیہ فقد بَلَغَ الْغَایَۃَ ، وَھو ھنا فی قولہ تعالیٰ ۔ عَرْضُھَا السمٰوات والارض ” فقد اَرَادَ وَصْفَھَا بالسعۃِ فخص عَرضَھَا بالذکر دون الطول، وَاِنما عَدَلَ عن ذکر الطول، لأنہ مستقر فی الاذھان أنّ الطول، اَدَل علی السعۃ فاِذا کان عَرْضُھَا مِمّا یَسَعُ السمٰوت والارض، فَما بالک بطولھا۔
قولہ : لَاتَھِنُوْا، تم سست مت ہوجاؤ، تم کمزور مت پڑجاؤ۔ وَھْنٌ، سے فعل ہے جمع مذکر حاضر۔ قولہ : نُدَاوِلُھَا، مُدَاوَلَت، سے مضارع جمع متکلم، ہم اس کو ادلتے بدلتے رہتے ہیں مادہ، دولۃٌ۔
تفسیر و تشریح
ربط : چونکہ غزوہ احد میں ناکامی کا بڑا سبب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور عین کامیابی کے موقع پر مال کی طمع سے مغلوب ہوجانا تھا۔ اس لیے اللہ رب العزت نے اس حالت کی اصلاح کے لیے زرپرستی اور ناجائز طریقہ سے زراندوزی کے سرچشمہ پر بند باندھنا ضروری سمجھا۔ اور حکم دیا کہ سود خوری سے باز آجاؤ جس میں انسان رات دن اپنے نفع کے بڑھنے اور چڑھنے کا حساب لگاتا رہتا ہے اور جس کی وجہ سے انسان کے اندر مال کی حرص بےحد بڑھ جاتی ہے۔
یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَاتَاْکُلُوْا الرِّبوٰا اَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً : اَضعَافًا مُضَاعَفَۃً کی قید حرمت کے لیے بطور شرط کے نہیں ہے، بلکہ واقع کی رعایت کے طور پر ہے یعنی زمانہ جاہلیت میں ایسا کرتے تھے اس لیے اَضْعَافاً مُضاعَفَۃً ، کی قید بیان واقعہ کے لیے ہے۔ زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ رائج تھا کہ جب ادائیگی کی مدت آجاتی اور ادائیگی ممکن نہ ہوتی تو مدت میں مزید اضافہ کے ساتھ سود میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ جس سے سود کی رقم بڑھ کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتی اور ایک عام آدمی کے لیے اس کی ادائیگی ناممکن ہوجاتی، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس آگ سے ڈرو کہ جو درحقیقت کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے، اس میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ اگر تم سود خوری سے باز نہ آئے تو یہ سود خوری تم کو کفر تک پہنچا سکتی ہے کیوں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محاربہ ہے۔
سود خوری کے نقصانات : سود خوری جس سوسائٹی میں موجود ہوتی ہے اس کے اندر سورخوری کی وجہ سے دو قسم کے اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ (١) سود لینے والوں میں حرص و طمع، بخل و خود غرضی اور (٢) سود دینے والوں میں نفرت اور غصہ اور بغض و حسد۔
انفاق فی سبیل اللہ کے فوائد : سودخوری سے جو اوصاف فریقین میں پیدا ہوتے ہیں اس کے برعکس انفاق فی سبیل اللہ سے فیاضی، ہمدردی، فراخ دلی اور عالی ظرفی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں، کون نہیں جانتا کہ ان دونوں صفات کے مجموعوں میں سے پہلا مجموعہ بدترین اور دوسرا مجموعہ بہترین ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اس تفسیر کے مقدمہ میں گزر چکا ہے کہ بندہ مومن کو چاہئے کہ وہ خود اپنی ذات میں اور دوسروں میں اوامرو نواہی کا خیال رکھے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا حکم دیتا ہے تو سب سے پہلے بندہ مومن پر یہ فرض عائد ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی حدود کو پہچانے کہ وہ کیا چیز ہے جس پر عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تاکہ وہ اس کے حکم کی اطاعت کرسکے۔ جب اسے اس حکم کی حدود کی معرفت حاصل ہوجائے تو اپنی طاقت اور امکان بھر اپنی ذات اور دوسروں پر اس حکم کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرے اور اس پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے۔ اسی طرح جب اسے کسی امر سے روک دیا جائے تو وہ اس کی حدود کی معرفت حاصل کرے کہ کیا چیز اس کی حدود میں داخل ہے اور کیا چیز اس سے باہر ہے پھر اس کو ترک کرنے کی کوشش کرے اور اپنے رب سے مدد طلب کرے۔
یہ ایسا اصول ہے جسے اللہ تعالیٰ کے تمام اوامر اور نواہی میں ملحوظ رکھنا چاہئے۔ یہ آیات کریمہ بھلائی کے ان احکام اور خصائل پر مشتمل ہیں جن کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم اور ان کی ترغیب دی ہے اور ان کے اجر و ثواب سے آگاہ فرمایا ہے اور ایسی منہیات پر مشتمل ہیں جن کو ترک کرنے کی اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے اور احد کے قصے کے درمیان ان آیات کو بیان کرنے کی حکمت شاید یہ ہے۔ واللہ اعلم۔۔ کہ گزشتہ آیات میں گزر چکا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو ان کے دشمنوں پر فتح دے گا اور ان کے دشمنوں کی مدد چھوڑ دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ﴾ (آل عمران :3؍ 120) ” اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی سازش تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔“ فرمایا : ﴿بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم ﴾ (آل عمران :3؍ 125) ” کیوں نہیں اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور کفار تم پر اچانک زور کا حملہ کردیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کرے گا۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! kaee guna barha charha ker sood matt khao , aur Allah say daro , takay tumhen falah hasil ho
12 Tafsir Ibn Kathir
سود خور جہنمی ہے اور غصہ شیطان کی دین ہے اس سے بچو
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو سودی لین دین سے اور سود خوری سے روک رہا ہے، اہل جاہلیت سودی قرضہ دیتے تھے مدت مقرر ہوتی تھی اگر اس مدت پر روپیہ وصول نہ ہوتا تو مدت بڑھا کر سود پر سود بڑھا دیا کرتے تھے اسی طرح سود در سود ملا کر اصل رقم کئی گنا بڑھ جاتی، اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو اس طرح ناحق لوگوں کے مال غصب کرنے سے روک رہا ہے اور تقوے کا حکم دے کر اس پر نجات کا وعدہ کر رہا ہے، پھر آگ سے ڈراتا ہے اور اپنے عذابوں سے دھمکاتا ہے پھر اپنی اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہے اور اس پر رحم و کرم کا وعدہ دیتا ہے پھر سعادت دارین کے حصول کیلئے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کو فرماتا ہے اور جنت کی تعریف کرتا ہے، چوڑائی کو بیان کر کے لمبائی کا اندازہ سننے والوں پر ہی چھوڑا جاتا ہے جس طرح جنتی فرش کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا آیت (مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي فُرُشٍۢ بَطَاۗىِٕنُهَا مِنْ اِسْتَبْرَقٍ ) 55 ۔ الرحمن :54) یعنی اس کا استر نرم ریشم کا ہے تو مطلب یہ ہے کہ جب استر ایسا ہے تو ابرے کا کیا ٹھکانا ہے اسی طرح یہاں بھی بیان ہو رہا ہے کہ جب عرض ساتوں آسمانوں اور ساتویں زمینوں کے برابر ہے تو طول کتنا بڑا ہوگا اور بعض نے کہا ہے کہ عرض و طول یعنی لمبائی چوڑائی دونوں برابر ہے کیونکہ جنت مثل قبہ کے عرش کے نیچے ہے اور جو چیز قبہ نما ہو یا مستدیر ہو اس کا عرض و طول یکساں ہوتا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس کا سوال کرو وہ سب سے اونچی اور سب سے اچھی جنت ہے اسی جنت سے سب نہریں جاری ہوتی ہیں اور اسی کی چھت اللہ تعالیٰ رحمن رحیم کا عرش ہے، مسند امام احمد میں ہے کہ ہرقل نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بطور اعتراض کے ایک سوال لکھ بھیجا کہ آپ مجھے اس جنت کی دعوت دے رہے ہیں جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے تو یہ فرمایئے کہ پھر جہنم کہاں گئی ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یعلیٰ بن مرہ کی ملاقات حمص میں ہوئی تھی کہتے ہیں اس وقت یہ بہت ہی بوڑھا ہوگیا تھا کہنے لگا جب میں نے یہ خط حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا تو آپ نے اپنی بائیں طرف کے ایک صحابی کو دیا میں نے لوگوں سے پوچھا ان کا کیا نام ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت معاویہ ہیں (رض) حضرت عمر (رض) سے بھی یہی سوال ہوا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ دن کے وقت رات اور رات کے وقت دن کہاں جاتا ہے ؟ یہودی یہ جواب سن کر کھسیانے ہو کر کہنے لگے کہ یہ توراۃ سے ماخوذ کیا ہوگا، حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یہ جواب مروی ہے، ایک مرفوع حدیث میں ہے کسی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ نے جواب میں فرمایا جب ہر چیز پر رات آجاتی ہے تو دن کہاں جاتا ہے ؟ اس نے کہا جہاں اللہ چاہے، آپ نے فرمایا اسی طرح جہنم بھی جہاں چاہے (بزار) اس جملہ کے دو معنی ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ رات کے وقت ہم گو دن کو نہیں دیکھ سکتے لیکن تاہم دن کا کسی جگہ ہونا ناممکن نہیں، اسی طرح گو جنت کا عرض اتنا ہی ہے لیکن پھر بھی جہنم کے وجود سے انکار نہیں ہوسکتا جہاں اللہ چاہے وہ بھی ہے، دوسرے معنی یہ کہ جب دن ایک طرف چڑھنے لگا رات دوسری جانب ہوتی ہے اسی طرح جنت اعلیٰ علیین میں ہے اور دوزخ اسفل السافلین میں تو کوئی نفی کا امکان ہی نہ رہا واللہ اعلم پھر اللہ تعالیٰ اہل جنت کا وصف بیان فرماتا ہے کہ وہ سختی میں اور آسانی میں خوشی میں اور غمی میں تندرستی میں اور بیماری میں غرض ہر حال میں راہ اللہ اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت (اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :274) یعنی وہ لوگ دن رات چھپے کھلے خرچ کرتے رہتے ہیں کوئی امر انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باز نہیں رکھ سکتا اس کی مخلوق پر اس کے حکم سے احسان کرتے رہتے ہیں۔ یہ غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کی برائیوں سے درگزر کرنے والے ہیں (کظم) کے معنی چھپانے کے بھی ہیں یعنی اپنے غصہ کا اظہار بھی نہیں کرتے بعض روایتوں میں ہے اے ابن آدم اگر غصہ کے وقت تجھے یاد رکھوں گا یعنی ہلاکت کے وقت تجھے ہلاکت سے بچا لوں گا (ابن ابی حاتم) اور حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو شخص اپنا غصہ روک لے اللہ تعالیٰ اس پر سے اپنے عذاب ہٹا لیتا ہے اور جو بھی اپنی زبان (خلاف شرع باتوں سے) روک لے اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف معذرت لے جائے اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرماتا ہے (مسند ابو یعلیٰ ) یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں بھی اختلاف ہے اور حدیث شریف میں ہے۔ آپ فرماتے ہیں پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ حقیقتاً پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے (احمد) صحیح بخاری صحیح مسلم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو ؟ لوگوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی نہیں آپ نے فرمایا میں تو دیکھتا ہوں کہ تم اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال چاہتے ہو اس لئے کہ تمہارا مال تو درحقیقت وہ ہے جو تم راہ اللہ اپنی زندگی میں خرچ کردو اور جو چھوڑ کر جاؤ وہ تمہارا مال نہیں بلکہ تمہارے وارثوں کا مال ہے تو تمہارا راہ اللہ کم خرچ کرنا اور جمع زیادہ کرنا یہ دلیل ہے اس امر کی کہ تم اپنے مال سے اپنے وارثوں کے مال کو زیادہ عزیز رکھتے ہو، پھر فرمایا تم پہلوان کسے جانتے ہو ؟ لوگوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے جسے کوئی گر انہ سکے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ حقیقتاً زور دار پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر پورا قابو رکھے، پھر فرمایا بےاولاد کسے کہتے ہو ؟ لوگوں نے کہا جس کی اولاد نہ ہو، فرمایا نہیں بلکہ فی الواقع بےاولاد وہ ہے جس کے سامنے اس کی کوئی اولاد مری نہ ہو (مسلم) ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو مفلس کنگال کون ہے ؟ لوگوں نے کہا جس کے پاس مال نہ ہو آپ نے فرمایا بلکہ وہ جس نے اپنا مال اپنی زندگی میں راہ اللہ نہ دیا ہو (مسند احمد) حضرت حارثہ بن قدامہ سعدی (رض) حاضر خدمت نبوی میں عرض کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کوئی نفع کی بات کہیے جو مختصر ہو تاکہ میں یاد بھی رکھ سکوں آپ نے فرمایا غصہ نہ کر اس نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا کئی کئی مرتبہ یہی کہا (مسند احمد) کسی شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا مجھے کچھ وصیت کیجئے آپ نے فرمایا غصہ نہ کر وہ کہتے ہیں میں نے جو غور کیا تو معلوم ہوا کہ تمام برائیوں کا مرکز غصہ ہی ہے (مسند احمد) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوذر (رض) غصہ آیا تو آپ بیٹھ گئے اور پھر لیٹ گئے ان سے پوچھا گیا یہ کیا ؟ تو فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ فرماتے تھے جسے غصہ آئے وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اگر اس سے بھی غصہ نہ جائے تو لیٹ جائے (مسند احمد) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے کہ عروہ بن محمد کو غصہ چڑھا آپ وضو کرنے بیٹھ گئے اور فرمانے لگے میں نے اپنے استادوں سے یہ حدیث سنی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا ہوا ہے اور آگ بجھانے والی چیز پانی ہے پس تم غصہ کے وقت وضو کرنے بیٹھ جاؤ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا اپنا قرض اسے معاف کر دے اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے آزاد کردیتا ہے لوگو سنو جنت کے اعمال سخت اور مشکل ہیں اور جہنم کے کام آسان اور سہل ہیں نیک بخت وہی ہے جو فتنوں سے بچ جائے کسی گھونٹ کا پینا اللہ کو ایسا پسند نہیں جتنا غصہ کے گھونٹ کا پی جانا ایسے شخص کے دل میں ایمان رچ جاتا ہے (مسند احمد) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو شخص اپنا غصہ اتارنے کی طاقت رکھتے ہوئے پھر بھی ضبط کرلے اللہ تعالیٰ اس کا دل امن وامان سے پر کردیتا ہے جو شخص باوجود موجود ہونے کے شہرت کے کپڑے کو تواضع کی وجہ سے چھوڑ دے اسے اللہ تعالیٰ کرامت اور عزت کا حلہ قیامت کے دن پہنائے گا اور جو کسی کا سر چھپائے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن بادشاہت کا تاج پہنائے گا (ابوداؤد) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو شخص باوجود قدرت کے اپنا غصہ ضبط کرلے اسی اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے پسند کرلے (مسند احمد) اس مضمون کی اور بھی حدیثیں ہیں، پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے غصہ میں آپے سے باہر نہیں ہوتے لوگوں کو ان کی طرف سے برائی نہیں پہنچتی بلکہ اپنے جذبات کو دبائے رکھتے ہیں اور اللہ سے ڈر کر ثواب کی امید پر معاملہ سپر دالہ کرتے ہیں، لوگوں سے درگزر کرتے ہیں ظالموں کے ظلم کا بدلہ ابھی نہیں لیتے اسی کو احسان کہتے ہیں اور ان محسن بندوں سے اللہ محبت رکھتا ہے حدیث میں ہے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں تین باتوں پر میں قسم کھاتا ہوں ایک تو یہ کہ صدقہ سے مال نہیں گھٹتا دوسرے یہ کہ عفو و درگزر کرنے سے انسان کی عزت بڑھتی ہے تیسرے یہ کہ تواضع فروتنی اور عاجزی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ بلند مرتبہ عطا کرتا ہے، مستدرک کی حدیث میں ہے جو شخص یہ چاہے کہ اس کی بنیاد بلند ہو اور اس کے درجے بڑھیں تو اسے ظالموں سے درگزر کرنا چاہئے اور نہ دینے والوں کو دینا چاہئے اور توڑنے والوں سے جوڑنا چاہئے اور حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک پکارے گا کہ اے لوگو درگزر کرنے والو اپنے رب کے پاس آؤ اور اپنا اجر لو۔ مسلمانوں کی خطاؤں کے معاف کرنے والے جنتی لوگ ہیں۔ پھر فرمایا یہ لوگ گناہ کے بعد فوراً ذکر اللہ اور استغفار کرتے ہیں۔ مسند احمد میں یہ روایت حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اللہ رحمن و رحیم کے سامنے حاضر ہو کر کہتا ہے کہ پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا تو معاف فرما اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے سے گو گناہ ہوگیا لیکن اس کا ایمان ہے کہ اس کا رب گناہ پر پکڑ بھی کرتا ہے اور اگر چاہے تو معاف بھی فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا، اس سے پھر گناہ ہو تو فرما دیتا ہے میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف فرمایا، اس سے پھر گناہ ہوجاتا ہے یہ پھر توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ پھر بخشتا ہے چوتھی مرتبہ پھر گناہ کر بیٹھتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما کر کہتا ہے اب میرا بندہ جو چاہے کرے (مسند احمد) یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہم آپ کو دیکھتے ہیں تو ہمارے دلوں میں رقت طاری ہوجاتی ہے اور ہم اللہ والے بن جاتے ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو وہ حالت نہیں رہتی عورتوں بچوں میں پھنس جاتے ہیں گھر بار کے دھندوں میں لگ جاتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اگر تمہاری حالت یہی ہر وقت رہتی تو پھر فرشتے تم سے مصافحہ کرتے اور تمہاری ملاقات کو تمہارے گھر پر آتے، سنو اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تمہیں یہاں سے ہٹا دے اور دوسری قوم کو لے آئے جو گناہ کرے پھر بخشش مانگے اور اللہ انہیں بخشے ہم نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرماتے کہ جنت کی بنیادیں کس طرح استوار ہیں آپ نے فرمایا ایک اینٹ سونے کی تو ایک چاندی کی ہے اس کا گارہ مشک خالص ہے اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت ہیں، اس کی مٹی زعفران ہے، جنتیوں کی نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی ان کی زندگی ہمیشہ کی ہوگی ان کے کپڑے پرانے نہیں ہونگے جوانی کبھی نہیں ڈھلے گی اور تین اشخاص کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی عادل بادشاہ کی دعا افطاری کے وقت روزے دار کی دعا اور مظلوم کی دعا بادلوں سے اٹھائی جاتی ہے اور اس کے لئے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جناب باری ارشاد فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ وقت کے بعد ہو (مسند احمد) امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کوئی گناہ کرے پھر وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے اور اپنے گناہ کی معافی چاہے تو اے اللہ عزوجل اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے (مسند احمد) صحیح مسلم میں روایت امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب (رض) مروی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں تم میں سے جو شخص کامل وضو کر کے دعا (اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھدان محمد اعبدہ و رسولہ) پڑھے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس سے چاہے اندر چلا جائے، امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان (رض) سنت کے مطابق وضو کرتے ہیں پھر فرماتے ہیں میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ نے فرمایا جو شخص مجھ جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے (بخاری مسلم) پس یہ حدیث کو حضرت عثمان سے اس سے اگلی روایت حضرت عمر سے اور اس سے اگلی روایت حضرت ابوبکر سے اور اس سے تیسری روایت کو حضرت ابوبکر سے حضرت علی روایت کرتے ہیں تو الحمد اللہ، اللہ تعالیٰ کی وسیع مغفرت اور اس کی بےانتہاء مہربانی کی خبر سید الاولین والاخرین کی زبانی آپ کے چاروں برحق خلفاء کی معرفت ہمیں پہنچی (آؤ اس موقعہ پر ہم گنہگار بھی ہاتھ اٹھائیں اور اپنے مہربان رحیم و کریم اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اس سے معافی طلب کریں اللہ تعالیٰ اے ماں باپ سے زیادہ مہربان اے عفو و درگزر کرنے والے ! اور کسی بھکاری کو اپنے در سے خالی نہ پھیرنے والے ! تو ہم خطاکاروں کی سیاہ کاریوں سے بھی درگزر فرما اور ہمارے کل گناہ معاف فرما دے۔ مترجم) یہی وہ مبارک آیت ہے کہ جب یہ نازل ہوئی تو ابلیس رونے لگا (مسند عبدالرزاق)
استغفار اور لا الہ الاللہ
مسند ابو یعلیٰ میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں لا الہ الا اللہ کثرت سے پڑھا کرو اور استغفار پر مداومت کرو ابلیس گناہوں سے لوگوں کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور اس کی اپنی ہلاکت لا الہ الا اللہ اور استغفار سے ہے، یہ حدیث دیکھ کر ابلیس نے لوگوں کو خواہش پرستی پر ڈال دیا پس وہ اپنے آپ کو راہ راست پر جانتے ہیں حالانکہ ہلاکت میں ہوتے ہیں لیکن اس حدیث کے دو راوی ضعیف ہیں۔ مسند احمد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ ابلیس نے کہا اے رب مجھے تیری عزت کی قسم میں بنی آدم کو ان کے آخری دم تک بہکاتا رہوں گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے میرے جلال اور میری عزت کی قسم جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں بھی انہیں بخشتا رہوں گا مسند بزاز میں ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا مجھ سے گناہ ہوگیا آپ نے فرمایا پھر استغفار کر اس نے کہا مجھ سے اور گناہ ہوا فرمایا استغفار کئے جا، یہاں تک کہ شیطان تھک جائے پھر فرمایا گناہ کو بخشنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک قیدی آیا اور کہنے لگا یا اللہ میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف توبہ نہیں کرتا (یعنی اللہ میں تیری ہی بخشش چاہتا ہوں) آپ نے فرمایا اس نے حق حقدار کو پہنچایا۔ اصرار کرنے سے مراد یہ ہے کہ معصیت پر بغیر توبہ کئے اڑ نہیں جاتے اگر کئی مرتبہ گناہ ہوجائے تو کئی مرتبہ استغفار کرتے ہیں، مسند ابو یعلیٰ میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں وہ اصرار کرنے والا اور اڑنے والا نہیں جو استغفار کرتا رہتا ہے اگرچہ (بالفرض) اس سے ایک دن میں ستر مرتبہ بھی گناہ ہوجائے پھر فرمایا کہ وہ جانتے ہوں یعنی اس بات کو کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت (اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ ھُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَيَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّاب الرَّحِيْمُ ) 9 ۔ التوبہ :104) کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جگہ ہے آیت (وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا) 4 ۔ النسآء :110) جو شخص کوئی برا کام کرے یا گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ عزوجل بخشش کرنے والا مہربان ہے۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر بیان فرمایا لوگو تم اوروں پر رحم کرو اللہ تم پر رحم کرے گا لوگو تم دوسروں کی خطائیں معاف کرو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخشے گا باتیں بنانے والوں کی ہلاکت ہے گناہ پر جم جانے والوں کی ہلاکت ہے پھر فرمایا ان کاموں کے بدلے ان کی جزا مغفرت ہے اور طرح طرح کی بہتی نہروں والی جنت ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑے اچھے اعمال ہیں۔