آل عمران آية ۱۴۴
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُۗ اَفَاۡٮِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْۗ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيْـــًٔا ۗ وَسَيَجْزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ
طاہر القادری:
اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو) رسول ہی ہیں (نہ کہ خدا)، آپ سے پہلے بھی کئی پیغمبر (مصائب اور تکلیفیں جھیلتے ہوئے اس دنیا سے) گزر چکے ہیں، پھر اگر وہ وفات فرما جائیں یا شہید کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنے (پچھلے مذہب کی طرف) الٹے پاؤں پھر جاؤ گے (یعنی کیا ان کی وفات یا شہادت کو معاذ اللہ دینِ اسلام کے حق نہ ہونے پر یا ان کے سچے رسول نہ ہونے پر محمول کرو گے)، اور جو کوئی اپنے الٹے پاؤں پھرے گا تو وہ اللہ کا ہرگز کچھ نہیں بگاڑے گا، اور اللہ عنقریب (مصائب پر ثابت قدم رہ کر) شکر کرنے والوں کو جزا عطا فرمائے گا،
English Sahih:
Muhammad is not but a messenger. [Other] messengers have passed on before him. So if he was to die or be killed, would you turn back on your heels [to unbelief]? And he who turns back on his heels will never harm Allah at all; but Allah will reward the grateful.
1 Abul A'ala Maududi
محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا
2 Ahmed Raza Khan
اور محمد تو ایک رسول ان سے پہلے اور رسول ہوچکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤں گے اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، اور عنقریب اللہ شکر والوں کو صلہ دے گا،
3 Ahmed Ali
اور محمد تو ایک رسول ہے اس سے پہلے بہت رسول گزرے پھرکیا اگر وہ مرجائے یا مارا جائے تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو کوئی الٹے پاؤں پھر جائے گا تو الله کا کچھ بھی نہیں بگاڑے گا اور الله شکر گزاروں کو ثواب دے گا
4 Ahsanul Bayan
(حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیں (١) اس سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا شہید ہوجائیں تو اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو اللہ تعالٰی کا کچھ نہ بگاڑے گا عنقریب اللہ تعالٰی شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا (٢)۔
١٤٤۔١ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیں ' یعنی ان کا امتیاز بھی وصف رسالت ہی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ بشری خصائص سے بالاتر اور خدائی صفات سے متصف ہوں کہ انہیں موت سے دو چار نہ ہونا پڑے
١٤٤۔۲ جنگ احد میں شکست کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے بارے میں کافروں نے یہ افواہ اڑا دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دیئے گئے۔ مسلمانوں میں جب یہ خبر پھیلی تو اس سے بعض مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے اور لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کافروں کے ہاتھوں قتل ہو جانا یا ان پر موت کا وارد ہو جانا، کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ پچھلے انبیاء علیہم السلام بھی قتل اور موت سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (بالفرض) اس سے دو چار ہو جائیں تو کیا تم اس دین سے ہی پھر جاؤ گے۔ یاد رکھو جو پھر جائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سانحہ وفات کے وقت جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ شدت جذبات میں وفات نبوی کا انکار کر رہے تھے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑے ہو کر انہی آیات کی تلاوت کی جس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی متاثر ہوئے اور انہیں محسوس ہوا کہ یہ آیات ابھی ابھی اتری ہیں۔
١٤٤۔۳ یعنی ثابت قدم رہنے والوں کو جنہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کر کے اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ادا کیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور محمد (صلی الله علیہ وسلم) تو صرف (خدا کے) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر یہ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ؟ (یعنی مرتد ہو جاؤ؟) اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہ کر سکے گا اور خدا شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا
6 Muhammad Junagarhi
(حضرت) محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور حضرت محمد (ص) نہیں ہیں مگر پیغمبر جن سے پہلے تمام پیغمبر گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو تم الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پلٹ جاؤگے اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا تو وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور عنقریب خدا شکرگزار بندوں کو جزا دے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں کیااگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم اُلٹے پیروں پلٹ جاؤ گے تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صرف (خدا کے) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ (یعنی مرتد ہوجاؤ گے) اور جو الٹے پاؤں پھرجائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہیں کرسکے گا اور خدا شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا۔
آیت نمبر ١٤٤ تا ١٤٨
ترجمہ : اور آئندہ آیت صحابہ کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب یہ بات مشہور ہوگئی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید کر دئیے گئے، اور صحابہ (مخلصین) سے منافقین نے کہا اب جب کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کر دئیے گئے تو اپنے (سابق) دین کی طرف پلٹ جاؤ۔ تو (وَمَا محمدٌ اِلاّ رسول الخ) نازل ہوئی۔ اور محمد تو بس ایک رسول ہیں، اور ان سے پہلے اور بھی رسول گزر چکے ہیں سو اگر یہ وفات پاجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم الٹے پاؤں واپس چلے جاؤ گے ؟ یعنی کفر کی طرف پلٹ جاؤ گے ؟ اور آخری جملہ استفہام انکاری کے محل میں ہے۔ یعنی وہ معبود نہیں تھے (کہ اس کی موت کی وجہ سے) تم پلٹ جاؤ اور جو کوئی الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پلٹ جائے گا تو وہ اللہ کا کچھ بھی نقصان نہ کرے گا بلکہ خود اپنا نقصان کرے گا۔ اور اللہ عنقریب اس کی نعمتوں کے شکر گزاروں کو ثواب کی صورت میں اچھا صلہ دے گا۔ اور ممکن نہیں کہ کوئی جاندار مقررہ وقت پر قضائے الہیٰ کے بغیر مرجائے (کتابًا) مصدر ہے یعنی اللہ نے موت کا وقت مقرر لکھ دیا ہے۔ موت نہ مقدم ہوتی ہے اور نہ مؤخر پھر تم کیوں ہمت ہار گئے ؟ ہمت کا ہارنا موت کو نہیں ٹال سکتا، اور ثابت قدمی حیات کو ختم نہیں کرسکتی، اور جو شخص اپنے عمل سے دنیا کا فائدہ چاہتا ہے۔ یعنی دنیا کا صلہ چاہتا ہے تو ہم اس میں سے جو اس کی قسمت میں ہوتا ہے اس کو دیدیتے ہیں اور جو آخرت کا نفع چاہتا ہے تو ہم اس کو اس کا ثواب دیں گے اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو صلہ دیں گے اور کتنے ہی نبی قتل کیے جا چکے ہیں اور ایک قراءت قاتَلَ ہے اور فاعل اس کی ضمیر ہے، کہ ان کے ساتھ میں بہت سے اللہ والے تھے۔ مَعَہٗ خبر ہے اور ربّیون کثیرٌ، اس کا مبتدا ہے، بڑی جماعت۔
دوسرا ترجمہ : اور بہت سے نبیوں کے ہم رکاب ہو کر بہت سے اللہ والے جہاد کرچکے ہیں۔ جو کچھ انہیں زخم اور ان کے انبیاء و اصحاب کا قتل اللہ کی راہ میں پیش آیا۔ اس سے نہ تو انہوں نے ہمت ہاری اور نہ وہ جہاد میں کمزور پڑے اور نہ وہ اپنے دشمن سے ربے جیسا کہ تم نے کیا جب مشہور ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید کر دئیے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ مصیبتوں پر صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے یعنی ان کو اجر دیتا ہے ان کے نبی کے قتل کے وقت ان کی ثابت قدمی اور صبر کے باوجود ان کی دعاء تو بس اتنی تھی کہ وہ دعاء کرتے رہے کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملہ میں ہماری زیادتیوں یعنی ہمارے حد سے تجاوز کرنے کو معاف کر دے یہ ظاہر کرنے کے لیے جو کچھ ان کو پیش آیا ہے وہ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ہے اور اپنی کسی نفسی کو ظاہر کرنے کے لیے تھا۔ اور جہاد میں قوت دے کر ہم کو ثابت قدم رکھ اور ہم کو کافروں پر غلبہ عطا فرما سو اللہ نے ان کی دنیا کا بھی عوض دیا یعنی نصرت اور غنیمت، اور آخرت کا بھی عمدہ بدلہ دیا۔ اور وہ جنت ہے، اور ثواب کا حسن، استحقاق سے بڑھ کر عطا کرنا ہے، اور اللہ نیکوکاروں سے محبت رکھتا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : الجملۃ الاخیرۃ محل الاستفھام الانکاری۔ مطلب یہ ہے کہ اَفَاِنْ مَاتَ ، پر جو ہمزہ استفہام داخل ہے وہ دراصل اِنْقَلَبْتُمْ علیٰ اَعْقَابِکُمْ ۔ پر داخل ہے اور یہی محل استفہام ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے ” اَاِنْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَابِکُمْ اِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ الخ “ ای لا ینبغی منکم الانقلاب والارتداد لانّ محمدًا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبلَّغ لَا مَعْبُوْدٌ۔ لہٰذا ان یہ اعتراض واقع نہیں ہوگا کہ موت اور قتل سے سوال کے کیا معنی ؟
قولہ ؛ بقضائہٖ ، اِذن کی تفسیر قضاءٌ سے کرکے ایک سوال مقدر کا جواب دیا ہے۔
سوال : مَا کَانَ لِنَفْسٍ أنْ تَمُوْتَ اِلاَّ بِاِذْنِ اللہِ ، سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی موت اس کے اختیار میں ہے اس لیے کہ موت کی نسبت نفس کی طرف کی گئی ہے۔ جواب : اِذن بمعنی قضاء ہے۔
قولہ : مصدرٌ، یعنی کتاباً مفعول لہ نہیں ہے اس لیے کہ مفعول لہ کی صورت میں معنی درست نہیں۔ کتاباً کی صفت ہے اور ابن عطیہ نے منصوب علی التمیز کہا ہے۔
قولہ : جزاء۔ یہ ایک شبہ کا جواب ہے۔ شبہ : اس شبہ کا جواب ہے کہ ثواب کا اطلاق اجر دنیا پر نہیں ہوتا ثواب کا اطلاق تو اجر آخرت پر ہوتا ہے۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ ثواب بمعنی جزاء ہے جس کا اطلاق اجر آخرت اور صلہء دنیا دونوں پر ہوتا ہے۔ خاص بول کر عام مراد ہے۔
قولہ : فیھا، کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ ثواب کی اضافت دنیا کی طرف اضافت مظروف الی الظرف ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ دنیا ثواب کا نہ فاعل ہے اور نہ مفعول لہٰذا ثواب کی اضافت دنیا کی طرف کیا معنی ؟
نوٹ : بعض نسخوں میں جزاء منھا کے بجائے جزاء فیھا ہے جو زیادہ صحیح ہے مذکورہ تشریح جزاء فیھا کے نسخہ کے مطابق کی گئی ہے۔
قولہ : کَأَیِّنْ یہ دراصل اَیٌّ تھا، اس پر کاف تشبیہ داخل کیا نون، نون، تنوین ہے خلاف قیاس اس کو باقی رکھا ہے، کَاَین بمعنی کم خبر یہ برائے تکثیر ہے۔
قولہ : مَعَہ، خبر مقدم ہے اور ربّیون، مبتداء موخر ہے، مبتدا خبر مقدم سے مل کر جملہ اسمیہ ہو کر حال ہے۔
قولہ : وَمَا کَانَ قَوْلَھُمْ اِلاَّ اَنْ قَالُوْا الخ، قَوْلَھُمْ ، کَانَ کی خبر مقدم اور أن قَالُوْا بتاویل مصدر ہو کر کَانَ کا اسم مؤخر ہے، ابن کثیر اور عاصم رحمہما اللہ تعالیٰ نے ” قَوْلَھُمْ “ کو کان کے اسم ہونے کی وجہ سے مرفوع پڑھا ہے اس صورت میں ” أنْ قالوا “ کان کی خبر ہوگی۔
اللغۃ والبلاغۃ
اَلَاعْقَاب۔ جمعُ عَقَبٍ ، ایڑھی، الٹے پاؤں واپس ہونا، راہ فرار اختیار کرنا، قصر موصوف علی الصفت فی اللغۃ : الحبس، وفی الاصلاح تخصیص احد الامرین علی الآخر ونفیہ عما عداہ۔ وھو یقع للموصوف علی الصفۃ وبالعکس، والآیۃ من النوع الاول، ای قصر الموصوف علی الصفۃ بالاضافۃ۔ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفت رسالت پر ہی مقصود ہیں موت کی طرف متعدی نہیں۔ صحابہ کرام (رض) آپ کو بعید عن الہلاک سمجھتے تھے اور آپ کی جدائی کو امر عظیم سمجھتے تھے تو گویا کہ صحابہ (رض) نے آپ کے لیے دو وصف ثابت کیے، الرسالۃ، وعدم الھلاک، پھر تخصیص کے ذریعہ وصف رسالت پر مقصود کردیا۔
قولہ : رِبّیُّوْنَ ۔ اللہ والے۔ خدا پرست، ہزاروں، جماعتیں، یہ رِبِّیٌّ کی جمع ہے امام بخاری (رح) تعالیٰ نے اس کے معنی جماعتوں کے کیے ہیں۔ بقول قاضی بیضاوی (رح) تعالیٰ ربّیۃ کی طرف بطور مبالغہ منسوب ہے جس کے معنیٰ جماعت کے ہیں، حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور قتادہ نے ربّیون کثیر، کے معنی جماعات کثیر، بیان کیے ہیں، صاحب جلالین نے بھی جموع کثیر، کہہ کر اسی معنیٰ کی طرف اشارہ کیا ہے، کلبی کا قول ہے کہ ربّیۃ دس ہزار کا ہوتا ہے۔ (لغات القرآن، ملخصًا)
تفسیر و تشریح
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، نام مبارک قرآن میں پہلی مرتبیہ آیا ہے، اس کے لفظی معنی ہیں وہ شخص جس کی مدح بہت زیادہ یا بار بار کی جائے۔ یا جو صفات حسنہ کا مجموعہ ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل اس نام کا رواج بہت کم تھا۔ علامہ ابو جعفر محمد بن حبیب بغدادی المتوفی ٢٤٥ ھ نے کل سات آدمیوں کے نام گنائے ہیں۔ (کتاب المعتبر، بحوالہ ماجدی) ۔ ان میں سے ایک شخص محمد بن سفیان بن مجاشع کی بابت لکھا ہے کہ اس کے والد نے ایک شامی راہب سے یہ سن کر کہ آئندہ پیغمبر کا نام محمد ہوگا یہ نام اپنے لڑکے کا رکھ دیا۔ کان سفیان اتی الشام فنزل علی راھب فاعحبتہُ فصاحتہ وعقلہ فسال الراھب عن نسبہٖ فانتسب لہ اِلیٰ مُضَرَ فقال لہ اما انّہ یُبْعَثُ فی العرب نبی یقال لہ محمد فسمّٰی سفیان اِبْنَہ محمداً (ماجدی)
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف رسول ہیں، یعنی ان کا امتیاز یہی وصف رسالت ہی ہے یہ نہیں کہ وہ بشری خصائص سے بالا تر اور خدائی صفات سے متصف ہوں کہ انہیں موت سے دوچار ہونا نہ پڑے۔
جنگ احد کی شکست کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کافروں نے یہ افواہ اڑا دی کہ محمد قتل کر دئیے گئے۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ ابن قمیہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک پتھر مارا جس کی وجہ سے آپ کی رباعی مبارک (آگے کے چار دانت) شہید ہوگئے۔ اور قتل کرنے کے لیے آگے بڑھا تو مصعب بن عمیر (رض) نے آپ کا دفاع کیا اور وہی صاحب الرایہ (پرچم بردار) تھے ابن قمیہ نے حضرت مصعب بن عمیر کو شہید کردیا اور وہ سمجھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقتول ہوگئے تو اس نے شور مچا دیا ” قتلتُ محمدٌا “ اور کہا گیا ہے کہ شیطان نے شور مچا دیا کہ محمد قتل کر دئیے گئے۔ یہ خبر آناً فاناً مشہور ہوگئی۔ اس خبر کو سن کر مسلمانوں میں بددلی اور کم ہمتی پیدا ہوگئی اور لڑائی سے پیچھے ہٹنے لگے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کافروں کے ہاتھوں قتل ہوجانا ان کا موت سے دوچار ہوجانا کوئی نئی بات نہیں ہے پچھلے انبیاء بھی موت اور قتل سے دوچار ہوچکے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بالفرض اگر اس سے دوچار ہوجائیں تو کیا تم اس دین ہی سے پھر جاؤ گے ؟ یاد رکھو جو پھرجائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سانحہ وفات کے وقت جب حضرت عمر (رض) شدّت جذبات میں وفات نبوی کا انکار کر رہے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے نہایت حکمت سے کام لے کر منبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں کھڑے ہو کر انہی آیات کی تلاوت کی جس سے حضرت عمر (رض) متأثر بھی ہوئے اور انہیں محسوس ہوا کہ یہ آیات ابھی ابھی نازل ہوئی
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ﴾ یعنی وہ رسولوں میں سے کوئی انوکھا رسول نہیں ہیں بلکہ وہ ان رسولوں کی جنس سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کی ذمہ داری اپنے رب کا پیغام پہنچانا اور اس کے احکام کا نفاذ تھا۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ تھے اور نہ ان کی بقاء اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کے لیے کوئی شرط تھی۔ بلکہ تمام امتوں پر یہ چیز فرض تھی کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ﴾ ” کیا پس اگر ان کو موت آگئی یا قتل کردیئے گئے، تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟“ یعنی یہ نبی ایمان اور جہاد وغیرہ کے جو احکام لے کر مبعوث ہوئے ہیں کیا تم ان کو ترک کر کے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ فرمایا :﴿وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ﴾ ” اور جو شخص الٹے پاؤں پھرجائے گا تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللہ کا کچھ“ وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے دین کو ضرو رقائم کرے گا اور اپنے مومن بندوں کو غلبہ عطا کرے گا۔
جب اللہ تعالیٰ نے الٹے پاؤں پلٹ جانے والوں کو زجر و توبیخ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح و ثناء بھی کی جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدمی سے ڈٹے رہے اور انہوں نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی۔ فرمایا :﴿وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ ﴾ ” اور اللہ شکر گزار بندوں کو جزا دے گا“ اور شکر کے تقاضے اس کے بغیر ادا نہیں ہوتے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی عبودیت اختیار کی جائے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی راہنمائی فرمائی ہے کہ ان کے سربراہ کا مفقود ہونا خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو کسی بھی حالت میں ان کو ان کے ایمان یا کسی لازمہ ایمان سے نہ ہٹا دے مگر یہ تب ہی ممکن ہے کہ امور دین کے ہر شعبہ میں کچھ لوگوں کو تیار کیا جائے جو اس شعبہ میں برابر ہوں۔ ان میں سے ایک کی عدم موجودگی میں دوسرا اس کی جگہ لے لے۔ نیز اہل ایمان کا عمومی مقصد اقامت دین اور اس کے دفاع میں اپنی استطاعت کے مطابق جہاد ہونا چاہئے۔ ان کا مقصد ایک سربراہ کی جگہ دوسرے سربراہ کو لانا نہیں ہونا چاہئے۔ اسی صورت میں ان کا معاملہ درست طریقے سے جاری رہ سکتا ہے اور دیگر تمام امور صحیح نہج پر چل سکتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur Muhammad ( SallAllaho-alehi-wa-aalihi-wasallam ) aik Rasool hi to hain ; inn say pehlay boht say Rasool guzar chukay hain . bhala agar inn ka intiqal hojaye ya enhen qatal kerdiya jaye to kiya tum ultay paon phir jao gay-? aur jo koi ultay paon phiray ga woh Allah ko hergiz koi nuqsan nahi phoncha sakta . aur jo shukar guzaar banday hain Allah unn ko sawab dey ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا مغالطہٰ اور غزوہ احد
میدان احد میں مسلمانوں کو شکست بھی ہوئی اور ان کے بعض قتل بھی کئے گئے۔ اس دن شیطان نے یہ بھی مشہور کردیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شہید ہوگئے اور ابن قمیہ کافر نے مشرکوں میں جا کر یہ خبر اڑا دی کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کر کے آیا ہوں اور دراصل وہ افواہ بےاصل تھی اور اس شخص کا یہ قول بھی غلط تھا۔ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ تو کیا تھا لیکن اس سے صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ قدرے زخمی ہوگیا تھا اور کوئی بات نہ تھی اس غلط بات کی شہرت نے مسلمانوں کے دل چھوٹے کردیئے ان کے قدم اکھڑ گئے اور لڑائی سے بددل ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اگلے انبیاء کی طرح یہ بھی ایک نبی ہیں ہوسکتا ہے کہ میدان میں قتل کردیئے جائیں لیکن کچھ اللہ کا دین نہیں جاتا رہے گا ایک روایت میں ہے کہ ایک مہاجر نے دیکھا کہ ایک انصاری جنگ احد میں زخموں سے چور زمین پر گرا پڑا ہے اور خاک و خون میں لوٹ رہا ہے اس سے کہا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردیئے گئے اس نے کہا اگر یہ صحیح ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اپنا کام کر گئے، اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین پر سے تم سب بھی قربان ہوجاؤ، اسی کے بارے میں یہ آیت اتری پھر فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قتل یا انتقال ایسی چیز نہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے دین سے پچھلے پاؤں پلٹ جاؤ اور ایسا کرنے والے اللہ کا کچھ نہ بگاڑیں گے، اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو جزائے خیر دے گا جو اس کی اطاعت پر جم جائیں اور اس کے دین کی مدد میں لگ جائیں اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تابعداری میں مضبوط ہوجائیں خواہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ ہوں یا نہ ہوں، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال کی خبر سن کر حضرت ابوبکر صدیق جلدی سے گھوڑے پر سوار ہو کر آئے مسجد میں تشریف لے گئے لوگوں کی حالت دیکھی بھالی اور بغیر کچھ کہے سنے حضرت عائشہ کے گھر پر آئے یہاںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حبرہ کی چادر اوڑھا دی گئی تھی آپ نے چادر کا کونا چہرہ مبارک پر سے ہٹا کر بےساختہ بوسہ لے لیا اور روتے ہوئے فرمانے لگے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دو مرتبہ موت نہ لائے گا جو موت آپ پر لکھ دی گئی تھی وہ آپ کو آچکی۔ اس کے بعد آپ پھر مسجد میں آئے اور دیکھا کہ حضرت عمر خطبہ سنا رہے ہیں ان سے فرمایا کہ خاموش ہوجاؤ انہیں چپ کرا کر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرگئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش رہے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اس پر موت نہیں آتی۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی لوگوں کو ایسا معلوم ہونے لگا گویا یہ آیت اب اتری ہے پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہ آیت چڑھ گئی اور لوگوں نے یقین کرلیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے حضرت صدیق اکبر کی زبانی اس آیت کی تلاوت سن کر حضرت عمر کے تو گویا قدموں تلے سے زمین نکل گئی، انہیں بھی یقین ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جہان فانی کو چھوڑ کر چل بسے، حضرت علی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں فرماتے تھے کہ نہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت پر مرتد ہوں نہ آپ کی شہادت پر اللہ کی قسم اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کئے جائیں تو ہم بھی اس دین پر مرمٹیں جس پر پر شہید ہوئے اللہ کی قسم میں آپ کا بھائی ہوں آپ کا ولی ہوں آپ کا چچا زاد بھائی ہوں اور آپ کا وارث ہوں مجھ سے زیادہ حقدار آپ کا اور کون ہوگا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ہر شخص اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اپنی مدت پوری کرکے ہی مرتا ہے جیسے اور جگہ ہے وما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ الی فی کتاب نہ کوئی عمر دیا جاتا ہے نہ عمر گھٹائی جاتی ہے مگر سب کتاب اللہ میں موجود ہے اور جگہ ہے (هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا) 6 ۔ الانعام :2) " جس اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا قھر وقت پورا کیا اور اجل مقرر کی " اس آیت میں بزدل لوگوں کو شجاعت کی رغبت دلائی گئی ہے اور اللہ کی راہ کے جہاد کا شوق دلایا جارہا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ جو انمردی کی وجہ سے کچھ عمر گھٹ نہیں جاتی اور پیچھے ہٹنے کی وجہ سے عمر بڑھ نہیں جاتی۔ موت تو اپنے وقت پر آکر ہی رہے گی خواہ شجاعت اور بہادری برتو خواہ نامردی اور بزدلی دکھاؤ۔ حجر بن عدی جب دشمنان دین کے مقابلے میں جاتے ہیں اور دریائے دجلہ بیچ میں آجاتا ہے اور لشکر اسلام ٹھٹھک کر کھڑا ہوجاتا ہے تو آپ اس آیت کی تلاوت کرکے فرماتے ہیں کہ کوئی بھی بےاجل نہیں مرتا آؤ اسی دجلہ میں گھوڑے ڈال دو ، یہ فرما کر آپ اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیتے ہیں آپ کی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی اپنے گھوڑوں کو پانی میں ڈال دیتے ہیں۔ دشمن کا خون خشک ہوجاتا ہے اور اس پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے۔ وہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو دیوانے آدمی ہیں یہ تو پانی کی موجوں سے بھی نہیں ڈرتے بھاگو بھاگو چناچہ سب کے سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جس کا عمل صرف دنیا کیلئے ہو تو اس میں سے جتنا اس کے مقدر میں ہوتا ہے مل جاتا ہے لیکن آخرت میں وہ خالی ہاتھ رہ جاتا ہے اور جس کا مقصد آخرت طلبی ہو اسے آخرت تو ملتی ہی ہے لیکن دنیا میں بھی اپنے مقدر کا پالیتا ہے جیسے اور جگہ فرمایا من کان یرید حرث الاخرۃ الخ، آخرت کی کھیتی کے چاہنے والے کو ہم زیادتی کے ساتھ دیتے ہیں اور دنیا کی کھیتی کے چاہنے والے کو ہم گو دنیا دے دیں لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں اور جگہ ہے من کان یرید العاجلتہ جو شخص صرف دنیا طلب ہی ہو ہم ان میں سے جسے چاہیں جس قدر چاہیں دنیا دے دیتے ہیں پھر وہ جہنمی بن جاتا ہے اور ذلت و رسوائی کے ساتھ میں جاتا ہے اور جو آخرت کا خواہاں ہو اور کوشاں بھی ہو اور باایمان بھی ہو ان کی کوشش اللہ تعالیٰ کے ہاں مشکور ہے اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ ہم شکر گزاروں کو اچھا دبلہ دے دیتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ احد کے مجاہدین کو خطاب کرتا ہوا فرماتا ہے کہ اس سے پہلے بھی بہت سے نبی اپنی جماعتوں کو ساتھ لے کر دشمنان دین سے لڑے بھڑے اور وہ تمہاری طرح اللہ کی راہ میں تکلیفیں بھی پہنچائے گئے لیکن پھر بھی مضبوط دل اور صابرو شاکر رہے نہ سست ہوئے نہ ہمت ہاری اور اس صبر کے بدلے انہوں نے اللہ کریم کی محبت مول لے لی، ایک یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ اے مجاہدین احد تم یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوئے کیوں ہمت ہار بیٹھے ؟ اور کفر کے مقابلے میں کیوں دب گئے ؟ حالانکہ تم سے اگلے لوگ اپنے انبیاء کی شہادت کو دیکھ کر بھی نہ دبے نہ پیچھے ہٹے بلکہ اور تیزی کے ساتھ لڑے، یہ اتنی بڑی مصیبت بھی ان کے قدم نہ ڈگمگا سکی اور کے دل چھوٹے نہ کرسکی پھر تم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت کی خبر سن کر اتنے بودے کیوں ہوگئے ربیون کے بہت سے معنی آتے ہیں مثلاً علماء ابرار متقی عابد زاہد تابع فرمان وغیرہ وغیرہ۔ پس قرآن کریم ان کی اس مصیبت کے وقت دعا کو نقل کرتا ہے پھر فرماتا ہے کہ انہیں دنیا کا ثواب نصرت و مدد ظفرو اقبال ملا اور آخرت کی بھلائی اور اچھائی بھی اسی کے ساتھ جمع ہوئی یہ محسن لوگ اللہ کے چہیتے بندے ہیں۔