وَمَاۤ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَاۡ فِىْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ وَمَاۤ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
جو سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں
English Sahih:
And whatever you give for interest [i.e., advantage] to increase within the wealth of people will not increase with Allah. But what you give in Zakah, desiring the face [i.e., approval] of Allah – those are the multipliers.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
جو سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو انہیں کے دُونے ہیں
احمد علی Ahmed Ali
اور جو سود پر تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے سو الله کے ہاں وہ نہیں بڑھتا اور جو زکواة دیتے ہو جس سے الله کی رضا چاہتے ہو سو یہ وہ ہی لوگ ہیں جن کے دونے ہوئے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالٰی کے ہاں نہیں بڑھتا (١) اور جو کچھ صدقہ زکوۃ تم اللہ تعالٰی کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ہیں (٢)۔
٣٩۔١ یعنی سود سے بظاہر اضافہ معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کی نحوست بالآخر دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور متعدد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت میں ربا سے مراد سود نہیں بلکہ وہ تحفہ اور ہدیہ لیا جو کوئی غریب آدمی کسی مال دار کو یا رعایا کا کوئی فرد بادشاہ یا حکمران کو اور ایک خادم اپنے مخدوم کو اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں مجھے اس سے زیادہ دے گا۔ اسے ربا سے اسی لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ دیتے وقت اس میں زیادتی کی نیت ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ مباح ہے تاہم اللہ کے ہاں اس پر اجر نہیں ملے گا۔ (فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ) 30۔ الروم;39) سے اسی اخروی اجر کی نفی ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا (جو تم عطیہ دو) اس نیت سے کہ واپسی کی صورت میں زیادہ ملے، پس اللہ کے ہاں اس کا ثواب نہیں۔
٣٩۔٢ زکوۃ صدقات سے ایک تو روحانی و معنوی اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی بقیہ مال میں اللہ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ دوسرے قیامت والے دن اس کا اجر و ثواب کئی کئی گنا ملے گا، جس طرح حدیث میں ہے کہ حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بڑھ بڑھ کر احد پہاڑ کے برابر ہو جائے گا (صحیح مسلم)
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو خدا کے نزدیک اس میں افزائش نہیں ہوتی اور جو تم زکوٰة دیتے ہو اور اُس سے خدا کی رضا مندی طلب کرتے ہو تو (وہ موجبِ برکت ہے اور) ایسے ہی لوگ (اپنے مال کو) دو چند سہ چند کرنے والے ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وه اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ اور جو کچھ صدقہ زکوٰة تم اللہ تعالیٰ کا منھ دیکھنے (اورخوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی اپنا دو چند کرنے والے ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جو چیز (روپیہ) تم اس لئے سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں شامل ہوکر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو زکوٰۃ تم خوشنودئ خدا کیلئے دیتے ہو ایسے ہی لوگ اپنا مال (کئی گنا) بڑھانے والے ہیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور تم لوگ جوبھی سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں اضافہ ہوجائے تو خدا کے یہاں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے ہاں جو زکوِٰ دیتے ہو اور اس میں رضائے خدا کا ارادہ ہوتا ہے تو ایسے لوگوں کو دگنا چوگنا دے دیا جاتا ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور جو مال تم سود پر دیتے ہو تاکہ (تمہارا اثاثہ) لوگوں کے مال میں مل کر بڑھتا رہے تو وہ اﷲ کے نزدیک نہیں بڑھے گا اور جو مال تم زکوٰۃ (و خیرات) میں دیتے ہو (فقط) اﷲ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ (اپنا مال عند اﷲ) کثرت سے بڑھانے والے ہیں،