الروم آية ۵۴
اَللّٰهُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَّشَيْبَةً ۗ يَخْلُقُ مَا يَشَاۤءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ
طاہر القادری:
اﷲ ہی ہے جس نے تمہیں کمزور چیز (یعنی نطفہ) سے پیدا فرمایا پھر اس نے کمزوری کے بعد قوتِ (شباب) پیدا کیا، پھر اس نے قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا پیدا کر دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور وہ خوب جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے،
English Sahih:
Allah is the one who created you from weakness, then made after weakness strength, then made after strength weakness and white hair. He creates what He wills, and He is the Knowing, the Competent.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت میں تمہاری پیدائش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ ہے جس نے تمہیں ابتداء میں کمزور بنایا پھر تمہیں ناتوانی سے طاقت بخشی پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا، بناتا ہے جو چاہے اور وہی علم و قدرت والا ہے،
3 Ahmed Ali
الله ہی ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد قوت عطا کی پھر قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا بنایا جو چاہتاہے پیدا کرتا ہے اوروہی جاننے والا قدرت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں (١) پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد توانائی (٢) دی، پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا (۳) جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (٤) وہ سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے۔
٥٤۔١ یہاں سے اللہ تعالٰی اپنی قدرت کا ایک اور کمال بیان فرما رہا ہے اور وہ ہے مختلف اطوار سے انسان کی تخلیق۔ ضعف (کمزوری کی حالت) سے مراد نطفہ یعنی قطرہ آب ہے یا عالم طفولیت۔
٥٤۔٢ یعنی جوانی، جس میں قوائے عقلی و جسمانی کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ ٥٤۔۳ کمزوری سے مراد کہولت کی عمر ہے جس میں عقلی و جسمانی قوتوں میں نقصان کا آغاز ہو جاتا ہے اور بڑھاپے سے مراد شیخوخت کا وہ دور ہے جس میں ضعف بڑھ جاتا ہے۔ ہمت پست ہاتھ پیروں کی حرکت اور گرفت کمزور، بال سفید اور تمام ظاہری و باطنی صفات متغیر ہو جاتی ہیں۔ قرآن نے انسان کے یہ چار بڑے اطوار بیان کیے ہیں۔ بعض علماء نے دیگر چھوٹے چھوٹے اطوار بھی شمار کر کے انہیں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جو قرآن کے اجمال کی توضیح اور اس کے اعجاز بیان کی شرح ہے مثلا امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ انسان یکے بعد دیگرے ان حالات واطوار سے گزرتا ہے۔ اس کی اصل مٹی ہے یعنی اس کے باپ آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی یا انسان جو کچھ کھاتا ہے جس سے وہ منی پیدا ہوتی ہے جو رحم مادر میں جاکر اس کے وجود و تخلیق کا باعث بنتی ہے، وہ سب مٹی ہی کی پیداوار ہے پھر وہ نطفہ، نطفہ سے علقہ پھر مضغہ پھر ہڈیاں جنہیں گوشت کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر ماں کے پیٹ سے اس حال میں نکلتا ہے کہ نحیف و نزار اور نہایت نرم ونازک ہوتا ہے۔ پھر بتدریج نشوونما پاتا، بچپن، بلوغت اور جوانی کو پہنچتا ہے اور پھر بتدریج رجعت قہقری کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ کہولت، شیخوخت اور پھر کبر سنی تاآنکہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔
٥٤۔٣ انہی اشیاء میں ضعف و قوت بھی ہے، جس سے انسان گزرتا ہے جیسا کہ ابھی تفصیل بیان ہوئی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا ہی تو ہے جس نے تم کو (ابتدا میں) کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد طاقت عنایت کی پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ صاحب دانش اور صاحب قدرت ہے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ وه ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد توانائی دی، پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وه سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ ہی وہ ہے جس نے کمزوری کی حالت سے تمہاری پیدائش کا آغاز کیا۔ پھر کمزوری کے بعد (تمہیں جوانی کی) قوت بخشی اور پھر اس نے قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا پیدا کر دیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ بڑا جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللرُ ہی وہ ہے جس نے تم سب کو کمزوری سے پیدا کیا ہے اور پھر کمزوری کے بعد طاقت عطا کی ہے اور پھر طاقت کے بعد کمزوری اور ضعیفی قرار دی ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے کہ وہ صاحب هعلم بھی ہے اور صاحب قدرت بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا ہی تو ہے جس نے تم کو (ابتدا میں) کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد طاقت عنایت کی پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ صاحب دانش اور صاحب قدرت ہے
آیت نمبر 54 تا 60
ترجمہ : اللہ وہ ذات ہے کہ جس نے تم کو ضعف (یعنی) بےوقعت پانی سے پیدا کیا پھر ضعف آخر یعنی ضعف طفولیت کے بعد توانائی بخشی یعنی قوت شباب پھر قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا دیا یعنی کلاں سالی کی کمزوری اور بڑھاپے کی سفیدی اور (لفظ ضعف) تینوں جگہ ضاد کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ ہے (اور) وہ ضعف وقوت جوانی اور بڑھاپا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ اپنی مخلوق کی تدبیر سے باخبر اور جو چاہے اس پر قادر ہے اور جس دن قیامت برپا ہوگی تو یہ مجرم کافر قسمیں کھائیں گے کہ وہ قبروں میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اسی طرح یہ حق یعنی بعث بعد الموت سے (دنیا) میں الٹے چلا کرتے تھے جیسا کہ مدت بعث کے بارے میں سچی حقیقت سے الٹے چل رہے ہیں اور جن ملائکہ وغیرہ کو علم و ایمان عطا کیا گیا وہ کہیں گے تم تو نوشتۂ خداوندی کے مطابق جو کہ اس کے علم ازلی میں ہے قیامت کے دن تک ٹھہرے رہے یہ (دن) یوم بعث ہی ہے جس کا تم انکار کرتے رہے لیکن تم تو اس کے وقوع کا یقین ہی نہیں کرتے تھے، غرض یہ کہ اس دن ظالموں کو بعث کے انکار کے بارے میں معذرت کرنا کوئی فائدہ نہیں دے گا تنفعُ میں یا اور تا دونوں صحیح ہیں اور نہ ان سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا یعنی نہ ان سے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کہا جائے گا اور ہم نے لوگوں کے لئے اس قرآن میں ان کو تنبیہ کرنے کے لئے ہر قسم کے عمدہ مضامین بیان کئے ہیں اور قسم ہے اے محمد اگر آپ ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا اور ید بیضاء جیسے معجزے لے آئیں تو بھی ان میں جو کافر ہیں یہی کہیں گے کہ تم اور تمہارے ساتھی نرے اہل باطل ہو جو لوگ توحید کا علم (یقین) نہیں رکھتے اللہ تعالیٰ ان کے قلوب پر مہر لگا دی لہٰذا آپ صبر کیجئے بلاشبہ ان کے مقابلہ میں اللہ کا وعدہ آپ کی نصرت کا سچا ہے اور بعث بعد الموت کا یقین نہ رکھنے والے یہ لوگ (کہیں) آپ کو ورغلاکر جلد بازی اور غصہ پر مجبور نہ کردیں یعنی ہرگز آپ کے ہاتھ سے دامن صبر چھوٹنے نہ پائے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : ماءٍ مھِیْنٍ یہ ضُعْفٍ کی تفسیر ہے اس تفسیر کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے، اعتراض یہ ہے کہ ضُعْف صفت ہے اس سے کسی چیز کی تخلیق نہیں ہوسکتی۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ضعف سے مراد اصل ضعیف ہے جیسا کہ نطفہ اصل ضعیف ہے یعنی ضعف مصدر ذو ضعفٍ کے معنی میں ہے۔ قولہ : اللہ الذی خَلَقَکُمْ جملہ مبتداء وخبر ہے۔
قولہ : شَیْبَۃ بالوں کی سفیدی جو عام طور پر تینتالیس سال کی عمر میں ظاہر ہوتی ہے، اور یہی کہولت کی ابتداء ہوتی ہے۔
قولہ : من الضعفِ والقوۃ، ما، کا بیان ہے۔ قولہ : من الملائکۃ وغیر ھم ای الانبیاء المؤمنون .
قولہ : وَلاَ ھُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ (استفعال) سے استعتاب مصدر ہے، ان سے (اللہ کو) رضا مند کرنے کی خواہش نہیں کی جائے گی، بعض مفسرین نے ترجمہ کیا ہے، ان کے عذر قبول نہیں کئے جائیں گے، علامہ محلی نے اس لفظ کی تشریح میں فرمایا لا یُطْلَبُ منھم العتبٰی ای الرجوع الی مَا یرضی اللہ ان ظالموں سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا یعنی ایسے عمل کی طرف رجوع کرنے کے لئے کہا جائے گا جس سے اللہ راضی ہو، امام بغوی نے معالم میں لکھا ہے لایکلفون اَن یَرْضَوْا ربَّھُمْ لأن الآخرۃَ لیست بدار التکلیف قیامت کے دن وہ اللہ کو رضا مند کرنے کے مکّف نہ ہوں گے کیونکہ دارآخرت دار تکلیف نہیں ہے بلکہ دار جزا ہے، صاوی نے کہا ہے العُتْبٰی، الرُجْعٰی کے مانند ہے وزن اور معنی میں، اور لاَ یُستَعْتَبُوْنَ کے معنی ہیں دنیا میں واپس جانے کی ان کی درخواست قبول نہیں کی جائے گی، دیگر آیات میں بھی اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ کفار و مشرکین قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں گے کہ ہم کو دنیا میں واپس بھیج کر ایک موقع دیا جائے تاکہ تلافی مافات کرسکیں۔
قولہ : لَیَقُوْلَنَّ اس کے بعد کی عبارت شارح کے قلم کی سبقت ہے غالبًا جمع مذکر غائب کا صیغہ سمجھ کر مذکورہ تعلیل کی ہے، ورنہ باتفاق قراء لیقولَنَّ میں لام مفتوح ہے اور الذین کفروا اس کا فاعل ہے۔
قولہ : فاصبِرْ شرط محذوف کی جزاء ہے، ای اِذَاعَلِمتَ حالَھم انَّھم لایؤمنون فاصْبِرْ ۔
تفسیر وتشریح
اس سورت کا بڑا حصہ منکرین قیامت کے شبہات کے ازالہ سے متعلق ہے، جس کے لئے حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی بہت سی آیات اور نشانیاں دکھلا کر غافل انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا سامان کیا گیا ہے، مذکورہ الصدر آیت میں قوت و ضعف کے اعتبار سے انسانی وجود کا ایک مکمل خاکہ پیش کیا گیا ہے، جس میں دکھلایا گیا ہے کہ انسان کی ابتداء بھی کمزور اور انتہا بھی درمیان میں بہت تھوڑے دنوں کے لئے اس کو قوت ملتی ہے عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ اس چند روزہ قوت کے زمانہ میں اپنی پہلی کمزوری اور آنے والی کمزوری سے غافل نہ ہو۔
خلقکم۔۔ ضعفٍ انسان کو یہی سبق دیا گیا ہے کہ اپنی اصل بنیاد کو دیکھ کہ کس قدر ضعیف بلکہ عین ضعف ہے کہ قطرۂ بےشعور بےجان ہے کہ کسی قدرت و حکمت نے اس حقیر اور ناپاک قطرے کو مختلف اطوار و حالات سے گذار کر ایک عاقل وباشعور، باعزت وبا وقار انسان کا وجود بخشا۔ کمزوری سے مراد کہولت کی عمر ہے جس میں عقلی اور جسمانی قوتوں میں نقصان کا آغاز ہوجاتا ہے اور بڑھاپے سے مراد شیخوخت کا دور ہے جس میں ضعف بڑھ جاتا ہے، ہمت پست، ہاتھ پیروں کی حرکت اور گرفت کمزور، بال سفید اور تمام ظاہری و باطنی صفات متغیر ہوجاتی ہیں۔
ویوم۔۔۔ ساعۃ یعنی جس روز قیامت قائم ہوگی تو منکرین قیامت وہاں کی ہولناکی اور شدائد کو دیکھ کر قسمیں کھانے لگیں گے کہ ہمارا قیام تو ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہا، اس قیام سے مراد ہوسکتا ہے کہ دنیا کا قیام ہو کیونکہ ان کی دنیا عیش و آرام سے گذری تھی اور اب یہاں مصائب و شدائد سامنے آئے تو انسانی عادت اور فطرت کے مطابق انسان آرام و راحت کے زمانہ کو بہت مختصر سمجھتا ہے اس لئے قسمیں کھائیں گے کہ دنیا میں تو ہمارا قیام بہت ہی مختصر صرف ایک گھڑی کا تھا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس قیام سے قبر اور برزخ کا قیام مراد ہو اور ” بہت قلیل مدت “ کے قیام سے برزخ کا قیام مراد ہو یہ انسانی فطرت ہے کہ مصائب کے وقت پچھلی راحت کو بہت مختصر سمجھنے لگتا ہے، اور کافروں کو اگرچہ قبر و برزخ میں بھی عذاب ہوگا مگر قیامت کے عذاب کے مقابلہ میں وہ بھی راحت محسوس ہونے لگے گا اور اس زمانہ کو مختصر سمجھ کر قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا قیام قبر میں بہت مختصر تھا۔
ولا۔۔۔ یستعتبون اس کا مطلب یہ ہے کہ مجرموں سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ تم توبہ کرکے یا نیک اعمال کرکے خدا کو راضی کرلو کیونکہ قیامت کا دن دارلجزاء ہے، دارالعمل نہیں ہے، صاحب جلالین نے یہی مطلب بیان کیا، ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا کہ مجرمین اللہ تبارک و تعالیٰ سے دنیا میں واپس بھیجے جانے کی درخواست کریں گے تاکہ دنیا میں نیک عمل کرکے تلافی مافات کرسکیں مگر ان کی یہ درخواست قبول نہیں کی جائے گی، تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان اس کی مزید تفصیل گذرچ کی ہے دیکھ لیا جائے۔
تم بحمد اللہ
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وسعت علم، عظمت اقتدار اور کمال حکمت کو بیان کرتا ہے کہ اس نے انسان کو کمزوری سے پیدا کیا اور وہ اس کی تخلیق کے ابتدائی مراحل ہیں یعنی اس نطفے سے جما ہوا خون بنایا پھر گوشت کا لوتھڑا بنایا اور پھر رحم کے اندر زندہ انسان بنایا پھر اس کو ماں کے پیٹ سے پیدا کیا۔ جب وہ سن طفولیت میں ہوتا ہے تو انتہائی ضعیف اور اس میں قوت و قدرت معدوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی قوت میں اضافہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جوانی کو پہنچ جاتا ہے، اس کی قوت اور اس کے ظاہری و باطنی قویٰ مکمل ہوجاتے ہیں۔ پھر اس مرحلے سے کمزوری اور بڑھاپے کی طرف لوٹتا ہے۔
﴿ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ﴾ وہ اپنی حکمت کے مطابق جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ بندہ اپنے ضعف کا مشاہدہ کرے۔ اس کی قوت دو قسم کی کمزوریوں سے گھری ہوئی ہے اور فی نفسہ اس کے پاس نقص کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے طاقت عطا نہ کرے تو اسے طاقت حاصل ہوسکتی ہے نہ قدرت اور اگر اس کی قوت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے تو وہ بغاوت اور سرکشی میں بڑھتا چلاجائے گا۔ بندوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا کمال قدرت دائمی ہے وہ اپنی قدرت سے جو چاہتا ہے تخلیق کرتا ہے، اپنی قدرت سے تمام امور کی تدبیر کرتا ہے اسے تھکن لاحق ہوتی ہے نہ کمزوری اور نہ کسی طرح اس میں کمی واقع ہوتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah woh hai jiss ney tumhari takhleeq ki ibtida kamzori say ki , phir kamzori kay baad taqat ata farmaee , phir taqat kay baad ( dobara ) kamzori aur burhapa taari kerdiya . woh jo chahta hai , peda kerta hai , aur wohi hai jiss ka ilm bhi kamil hai , qudrat bhi kamil .
12 Tafsir Ibn Kathir
پیدائش انسان کی مرحلہ وار روداد
انسان کی ترقی وتنزل اس کی اصل تو مٹی سے ہے۔ پھر نطفے سے پھر خون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے پھر اسے ہڈیاں پہنائی جاتی ہیں پھر ہڈیوں پر گوشت پوست پہنایا جاتا ہے پھر روح پھونکی جاتی ہے پھر ماں کے پیٹ سے ضعیف ونحیف ہو کر نکلتا ہے پھر تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے اور مضبوط ہوتا جاتا ہے پھر بچپن کے زمانے کی بہاریں دیکھتا ہے پھر جوانی کے قریب پہنچتا ہے پھر جوان ہوتا ہے آخر نشوونما موقوف ہوجاتی ہے۔ اب قوی پھر مضمحل ہونے شروع ہوتے ہیں طاقتیں گھٹنے لگتی ہیں ادھیڑ عمر کر پہنچتا ہے پھر بڈھا ہوتا پھونس ہوجاتا ہے طاقت کے بعد یہ کمزوری بھی قابل عبرت ہوتی ہے۔ کہ ہمت پست ہے، دیکھنا سننا چلنا پھرنا اٹھنا اچکنا پکڑنا غرض ہر طاقت گھٹ جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ بالکل جواب دے جاتی ہے اور ساری صفتیں متغیر ہوجاتی ہے۔ بدن پر جھریاں پڑجاتی ہیں۔ رخسار پچک جاتے ہیں دانت ٹوٹ جاتے ہیں بال سفید ہوجاتے ہیں۔ یہ قوت کے بعد کی ضعیفی اور بڑھاپا۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ بنانا بگاڑنا اس کی قدرت کے ادنی کرشمے ہیں۔ ساری مخلوق اس کی غلام وہ سب کا مالک وہ عالم و قادر نہ اس کا سا کسی کا علم نہ اس جیسی کسی کی قدرت۔ حضرت عطیہ عوفی کہتے ہیں میں نے اس آیت کو ضعفا تک حضرت ابن عمر (رض) کے سامنے پڑھا تو آپ نے بھی اسے تلاوت کی اور فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس آیت کو اتناہی پڑھا تھا جو آپ پڑھنے لگے جس طرح میں نے تمہاری قرأت پر قرأت شروع کردی (ابوداؤد ترمذی مسند احمد )