لقمان آية ۲۰
اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِى اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ
طاہر القادری:
(لوگو!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو مسخّر فرما دیا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، اور اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے (بھی) ہیں جو اﷲ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب (کی دلیل) کے،
English Sahih:
Do you not see that Allah has made subject to you whatever is in the heavens and whatever is in the earth and amply bestowed upon you His favors, [both] apparent and unapparent? But of the people is he who disputes about Allah without knowledge or guidance or an enlightening Book [from Him].
1 Abul A'ala Maududi
کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟ اِس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب
2 Ahmed Raza Khan
کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لیے کام میں لگائے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں اور تمہیں بھرپور دیں اپنی نعمتیں ظاہر اور چھپی اور بعضے آدمی اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں یوں کہ نہ علم نہ عقل نہ کوئی روشن کتاب
3 Ahmed Ali
کیا تم نے نہیں دیکھا جو کچھ آسمانوں میں اورجوکچھ زمین میں ہے سب کو الله نے تمہارے کام پر لگایا رکھا ہے اور تم پراپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو الله کے معاملے میں جھگڑتے ہیں نہ انہیں علم ہے اور نہ ہدایت ہے اور نہ روشنی بخشنے والی کتاب ہے
4 Ahsanul Bayan
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالٰی نے زمین اور آسمان کی ہرچیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے (١) اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں (٢) بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں (٣)۔
٢٠۔١ تسخیر کا مطلب ہے انتفاع (فائدہ اٹھانا) جس کو ' یہاں کام سے لگا دیا ' سے تعبیر کیا گیا ہے جیسے آسمانی مخلوقْ، چاند، سورج، ستارے وغیرہ ہیں، انہیں اللہ تعالٰی نے ایسے ضابطوں کا پابند بنا دیا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور انسان ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا مطلب تسخیر کا تابع بنا دینا ہے۔ چنانچہ بہت سی زمینی مخلوق کو انسان کے تابع بنا دیا گیا ہے جنہیں انسان اپنی حسب منشا استعمال کرتا ہے جیسے زمین اور حیوانات وغیرہ ہیں، گویا تسخیر کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں انسانوں کے فائدے کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں، چاہے وہ انسان کے تابع اور اس کے زیر اثر تصرف ہوں یا اس کے تصرف اور تابعیت سے بالا ہوں۔ (فتح القدیر)
٢٠۔٢ ظاہری سے وہ نعمتیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل، حواس وغیرہ سے ممکن ہو اور باطنی نعمتیں وہ جن کا ادراک و احساس انسان کو نہیں۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کو شمار بھی نہیں کر سکتا۔
٢٠۔٣ یعنی اس کے باوجود لوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں، کوئی اس کے وجود کے بارے میں کوئی اس کے ساتھ شریک گرداننے میں اور کوئی اس کے احکام و شرائع کے بارے میں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو خدا نے تمہارے قابو میں کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔ اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں نہ علم رکھتے ہیں اور نہ ہدایت اور نہ کتاب روشن
6 Muhammad Junagarhi
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے اور تمہیں اپنی ﻇاہری وباطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں، بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ تعالیٰ نے سب کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور اپنی سب ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو علم، ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر خدا کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو تمہارے لئے لَسخّر کردیا ہے اور تمہارے لئے تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کو مکمل کردیا ہے اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو علم و ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر بھی خدا کے بارے میں بحث کرتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو خدا نے تمہارے قابو میں کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ؟ اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں نہ علم رکھتے ہیں اور نہ ہدایت اور نہ کتاب روشن
آیت نمبر 20 تا 30
ترجمہ : اے مخاطبو ! کیا تم اس بات کو نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ان تمام چیزوں کو جو آسمانوں میں ہیں یعنی سورج اور چاند اور ستارے تاکہ تم ان سے فائدہ حاصل کرو اور ان چیزوں کو جو زمین میں ہیں، پھل اور نہریں اور جانور (وغیرہ) اور تم کو اپنی ظاہری نعمتیں اور وہ حسن صورت اور تناسب اعضاء وغیرہ وغیرہ ہیں، اور باطنی (نعمتیں) (اور) وہ معرفت (الہٰی) وغیرہ ہے بھر پور دے رکھی ہیں اور کچھ لوگ یعنی اہل مکہ ایسے بھی ہیں کہ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے اور رسول کی جانب سے بغیر ہدایت کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے کہ جس کو اللہ نے نازل کیا ہو، جھگڑتے ہیں بلکہ تقلید کی وجہ سے (جھگڑتے ہیں) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی تابعداری کرو تو کہتے ہیں کہ ہم نے جس طریق پر اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے، اسی کی تابعداری کریں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا یہ اسی راستہ کی پیروی کریں گے اگرچہ ان کو شیطان نے ذوزخ کے عذاب کی طرف یعنی اس کے موجبات کی طرف بلایا ہو ؟ نہیں اور جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردے یعنی اس کی اطاعت کی طرف متوجہ ہوجائے اور حال یہ ہے کہ وہ نیکو کار یعنی موحد ہو تو یقیناً اس نے مضبوط حلقہ یعنی ایسا مضبوط کنارا تھام کیا کہ جس کے ٹوٹنے کا اندیشہ نہیں اور تمام کاموں کا انجام یعنی مرجع اللہ ہی کی طرف ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کافروں کے کفر سے رنجیدہ نہ ہوں، یعنی آپ کے کفر سے کبیدہ خاطر نہ ہوں، (آخر) ان کو ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے تو ہم ان کو ان کے سب کرتوت بتادیں گے بلاشبہ اللہ تعالیٰ سینوں کے رازوں سے یعنی جو کچھ دلوں میں ہے واقف ہے جیسا کہ دلوں کے رازوں کے علاوہ سے واقف ہے تو ان کا بدلہ دے گا ہم ان کو دنیا میں کچھ تھوڑا سا (یعنی) ان کی مدت حیات تک فائدہ دیدیں گے، بالآخر ہم انہیں نہایت بیچارگی کی حالت میں آخرت میں سخت عذاب کی طرف ہنکا لیجائیں گے، اور وہ دوزخ کا عذاب ہے کہ وہ اس سے جائے پناہ پائیں گے اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے ؟ تو یقیناً یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہے اس سے نون رفع کو پے درپے چند نونوں کے آجانے کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے، اور ضمیر کا واؤ (بھی) التقاء ساکنین کی وجہ سے ساقط ہوگیا، ان پر توحید کی حجت ہونے پر آپ الحمدللہ کہئے، لیکن ان میں اکثر لوگ اپنے اوپر توحید کے وجوب سے واقف نہیں ہیں، آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے مملوک اور مخلوق اور غلام ہونے کے اعتبار سے اللہ ہی کا ہے، لہٰذا آسمانوں اور زمینوں میں اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں یقیناً اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بےنیاز ہے اور اپنی صنعت میں قابل ستائش ہے اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم ہوں اور تمام سمندر روشنائی ہوجائیں، اِنّ کے اسم پر عطف ہے اور ان کے ساتھ سات سمندر اور شامل ہوجائیں تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوسکتے، اللہ تعالیٰ کی معلومات کو کلمات سے تعبیر کیا ہے ام معلومات کے ان قلموں سے لکھنے کی وجہ سے اس روشنائی سے اور نہ اس (مذکور) سے زیادہ (مقدار) سے ختم ہوسکتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی معلومات غیر متناہیہ ہیں بلا شبہ اللہ تعالیٰ بڑے غلبہ والے ہیں اس کو کوئی شئ عاجز نہیں کرسکتی اور بڑی حکمت والے ہیں کوئی شئ اس کے علم و حکمت سے خارج نہیں ہے تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ایسا ہی ہے جیسے نفس واحد کا پیدا ہونا اور زندہ ہونا، اس لئے کہ یہ سب (کچھ) کلمہ کن فیکون سے ہوتا ہے، بیشک اللہ تعالیٰ ہر بات کو سنتا ہے ہر مرئی شئ کو دیکھتا ہے اس کو کوئی شئ کسی شئ سے نہیں روک سکتی، اے مخاطب کیا تو نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے، ان میں سے ہر ایک میں اتنا اضافہ ہوجاتا ہے جتنا دوسرے سے کم ہوتا ہے شمس وقمر میں سے ہر ایک کو اس نے مسخر کر رکھا ہے کہ مقررہ وقت تک اپنے محور پر چلتا رہے اور مقررہ وقت کا دن ہے، اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے باخبر ہے، یہ مذکورہ (تسخیر و انتظامات) اس لئے ہیں کہ اللہ برحق ثابت الالوہیتہ ہے اور اس کے علاوہ جن جن (معبودوں) کو پکارتے ہیں یعنی بندگی کرتے ہیں سب باطل ہیں، زائل ہونے والے ہیں یَدْعون یا اور تا دونوں قراءتیں ہیں، اور یقیناً اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر غلبہ کے اعتبار سے عالی ہے اور عظیم ہے۔
تحقیق و ترکیب وتفسیری فوائد
قولہ : اَلَمْ تَرَوْا أنّ اللہَ ، الآیۃ یہ رد علی المشرکین کے مضمون سابق کی جانب رجوع ہے۔
قولہ : یا مخاطبین منادی مفرد کی وجہ سے قیاس یہ تھا کہ یا مخاطبون ہوتا، اس لئے کہ منادی مفرد مبنی علی علامۃ الضم ہوتا ہے، مگر ہوسکتا ہے کہ نکرہ غیر مقصودہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہو۔
قولہ : یقبلُ علیٰ طاعتہٖ کے اضافہ کا مقصد یہ بتایا ہے کہ وَجْہٌ سے چہرہ مراد نہیں ہے بلکہ ذات مراد ہے۔
قولہ : مُوّحِّدٌ، مُحْسِنٌ کی تفسیر مُوَحدٌ سے کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ یہاں احسان سے مراد احسان کامل نہیں ہے جو کہ أن
تعبداللہ کانک تراہ کا درجہ ہے یہاں تو توحید کا قائل مسلمان مراد ہے تاکہ عام مسلمان بھی اس میں داخل ہوجائیں۔
قولہ : لَیَقُوْلُنَّ اللہ یہ جملہ، قسم محذوف کا جواب ہے اور جواب شرط قاعدہ کے مطابق محذوف ہے لفظ اللہ یا تو فعل محذوف کا فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے، تقدیر عبارت یہ ہے خَلَقَھُنَّ اللہ اور اس حذف کا قرینہ خَلَقَھُنَّ العزیزُ العلیمُ ہے، یا مبتداء محذوف کی خبر ہے تقدیر عبارت یہ ہے الخالق لَھُنَّ اللہ .
قولہ : وَلَوْ انّ مَا فِی الارضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقلامٌ یہ پورا جملہ أنّ کا اسم ہے اور اَقْلامٌ اس کی خبر ہے۔
قولہ : وَالْبَحْرُ عطف علی أن یہ البحرَ کے نصب کی توجیہ ہے، شارح نے رفع کی توجیہ ترک کردی ہے، رفع کی توجیہ یہ ہوسکتی ہے کہ البحرُ کا عطف أنّ اور اس کے اسم و خبر سے مل کر جملہ پر ہے، اس لئے کہ جملہ، فعل محذوف کے فاعل ہونے کی وجہ سے محل میں رفع کے ہے، تقدیر عبارت یہ ہے لَوْ ثَبَتَ أَنّ مَا فی الارضِ الخ یا البحر مبتداء ہے اور یمدہٗ اس کی خبر ہے اور جملہ حالیہ ہے۔
قولہ : مِدادٌ یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے ای الجمیعُ مِدادٌ یہ جملہ مستانفہ ہے۔
قولہ : مَا نَفِدَتْ الخ یہ لَوْ کا جواب ہے مگر لَوْ یہاں اپنے مشہور معنی یعنی انتفاء شرط کی وجہ سے انتقاء جزاء کے لئے نہیں ہے۔
قولہ : بکتبِھا بتلکَ الْاََقلام الخ اس عبارت سے اشارہ کردیا کہ کلام میں حذف ہے اور کلمات اللہ سے اللہ تعالیٰ کے کلام نفسی قدیم قائم بالذات کے مدلولات مراد ہیں۔
قولہ : ذٰلک المذکور، ذٰلک مبتداء بِاَنَّ اللہَ ھو الحقُّ اس کی خبر ہے۔
تفسیر وتشریح
سخر۔۔۔ الارض اللہ نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، مسخر کرنے کے مشہور معنی کسی چیز کو کسی کے تابع کردینے کے ہیں، یہاں اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے اول تو زمین کی سب چیزیں بھی انسان کے تابع فرمان نہیں، بلکہ بہت سی چیزیں اس کے مزاج کے خلاف کام کرتی ہیں، خصوصاً جو چیزیں آسمانوں میں ہیں ان میں تو انسان کے تابع فرمان ہونے کا کوئی احتمال ہی نہیں۔
جواب یہ ہے کہ دراصل تسخیر کے معنی کسی چیز کو زبردستی کسی خاص کام میں لگا دینا ہے اور اس پر مجبور کردینا ہے، آسمان و زمین کی تمام مخلوق انسان کے تابع اور مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام مخلوقات کو انسان کی خدمت اور نفع رسانی میں لگا دیا ہے، ان میں بہت سی چیزوں کو تو اس طرح خدمت میں لگایا کہ ان کو انسان کا تابع فرمان بھی بنادیا وہ جس وقت جس طرح چاہیے ان کو استعمال کرتا ہے، بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو انسان کے کام میں تو لگادیا ہے کہ وہ انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں، مگر بتقاضائے حکمت ربانی ان کو انسان کے تابع نہیں بنایا گیا مثلاً آسمانی مخلوق، سیارات، برق و باراں وغیرہ، کہ ان کو انسان کے حکم کے تابع بنادیا جاتا تو انسان کی طبائع اور مزاجوں اور حالات کے اختلاف کا ان پر اثر پڑتا، ایک انسان چاہتا کہ آفتاب جلدی طلوع ہو اور دوسرے کی خواہش یہ ہوتی کہ دیر سے طلوع ہو ایک بارش چاہتا اور دوسرا چاہتا کہ بارش نہ ہو یہ متضاد تقاضے آسمانی کائنات کے عمل میں خلل پیدا کرتے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب چیزوں کو انسان کی خدمت میں لگا دیا مگر ان کا تابع حکم نہیں بنایا یہ بھی ایک قسم کی تسخیر ہی ہے۔ (معارف)
ولو اقلام اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی معلومات اور اپنی قدرت کے تصرفات اور اپنی نعمتوں کی مثال دی ہے کہ وہ غیر متناہی ہیں نہ وہ زبان سے شمار ہوسکتی ہیں اور نہ قلم سے ان کو لکھا جاسکتا ہے، مثال یہ بیان فرمائی کہ ساری زمین میں جتنے درخت ہیں اگر ان سب کی شاخوں کے قلم بنالئے جائیں اور ان سے لکھنے کے لئے سمندروں کو روشنائی بنادیا جائے اور یہ سب قلم حق تعالیٰ کی معلومات اور تصرفات قدرت کو لکھنا شروع کردیں تو سمندر ختم ہوجائیں گے مگر معلومات اور تصرفات ختم نہ ہوں گے۔
شان نزول : بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت احبار یہود کے ایک سوال کے جواب میں نازل ہوئی وجہ یہ تھی کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے وَمَا اُوتِیْتمْ مِن العِلْمِ اِلَّا قلیلاً یعنی تم کو بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو چنداحبار یہود آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس آیت کے بارے میں معارضہ کیا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے، یہ آپ نے اپنی قوم کا حال ذکر کیا ہے یا اس میں آپ نے ہمیں بھی داخل کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب مراد ہیں یعنی ہماری قوم بھی اور یہود و نصاریٰ بھی، تو انہوں نے یہ معارضہ کیا کہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے توریت عطا فرمائی ہے جس کی شان تبیان لکل شئ ہے یعنی اس میں ہر چیز کا بیان ہے، آپ نے فرمایا کہ وہ بھی علم الہٰی کے مقابلہ میں قلیل ہی ہے، پھر تورات میں جتنا علم ہے اس کا بھی تم کو پورا علم نہیں، بقدر کفایت ہی ہے اس لئے علم الہٰی کے مقابلہ میں ساری آسمانی کتابوں اور سب انبیاء کے علوم کا مجموعہ بھی قلیل ہے، اسی کلام کی تائید کے لئے یہ آیت نازل ہوئی وَلَوْ انّ مافی الارض من شجرۃ اقلام (الآیۃ) ۔ (ابن کثیر)
الم۔۔۔ النھار (الآیۃ) اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ رات کے کچھ حصہ کو دن میں اور دن کے کچھ حصہ میں داخل کردیتا ہے جس سے دن اور رات چھوٹے بڑے ہوتے رہتے ہیں، رات اور دن کے مجموعی گھنٹے چوبیس ہوتے ہیں، مگر ان میں چار گھنٹے ایسے ہیں جو بتدریج کبھی دن میں شامل ہوجاتے ہیں تو دن سولہ گھنٹے کا اور رات آٹھ گھنٹے کی ہوجاتی ہے اور جب یہ چار گھنٹے رات بتدریج شامل ہوجاتے ہیں تو رات سولہ گھنٹے کی اور دن آٹھ گھنٹے کا ہوجاتا ہے، مگر رات اور دن کے مجموعی گھنٹوں کی تعداد چوبیس ہی رہتی ہے۔
فائدہ : ایک سو بیس ہزار سال میں زمین کی حرکت محوری ایک سکنڈ سست ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قرب قیامت میں ایک رات کئی راتوں کے برابر اور ایک دن کئی دنوں کے برابر ہوگا۔ (فلکیات جدیدہ)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتیں یاد دلاتا ہے اور انہیں ان نعمتوں پر شکر کرنے، ان کا مشاہدہ کرنے اور ان سے عدم غفلت کا حکم دیتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿أَلَمْ تَرَوْا ﴾ کیا تم نے مشاہدہ نہیں کیا؟ کیا تم نے اپنی ظاہری اور دل کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی؟ ﴿أَنَّ اللّٰـهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ﴾ ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے )سورج، چاند اور ستاروں میں سے( جو کچھ آسمان میں ہے اسے تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔“ یہ سب بندوں کے فائدے کے لیے مسخر ہیں۔ ﴿وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور جو کچھ زمین میں ہے۔“ یعنی تمام حیوانات، درخت، کھیتیاں، دریا اور معدنیات وغیرہ کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے جیسا کہ فرمایا : ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾ )البقرۃ: 2؍29( ” وہی تو ہے جس نے زمین کی سب چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں۔“ ﴿وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ﴾ اور جس نے تمہیں دین و دنیا کی نعمتوں، بہت سی منفعتوں کے حصول اور مضرتوں سے دور ہونے جیسی وافر ظاہری اور باطنی نعمتوں سے ڈھانپ لیا ہے ان میں سے بعض کو ہم جانتے ہیں اور بعض کو نہیں جانتے۔
تمہارا وظیفہ یہ ہونا چاہیے کہ تم منعم کی محبت کے ساتھ اور اس کے سامنے سرافگندہ ہو کر ان نعمتوں پر شکر کا اظہار کرو، ان نعمتوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرو اور ان نعمتوں سے اس کی نافرمانی پر مدد نہ لو۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ ان نعمتوں کے پے درپے عطا ہونے کے باوجود ﴿مِنَ النَّاسِ مَن﴾ ” لوگوں میں ایسا آدمی بھی ہے جو“ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ ان نعمتوں پر ناشکری کرتا ہے۔ اس ہستی کا انکار کرتا ہے جس نے اسے ان نعمتوں سے نوازا اور اس نے اس کے اس حق کو تسلیم نہ کیا جس کے لیے اس نے کتابیں نازل کیں اور اپنے رسول بھیجے۔ ﴿ يُجَادِلُ فِي اللّٰـهِ ﴾ اور اس نے باطل دلائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں جھگڑنا شروع کیا تاکہ حق کو نیچا دکھائے اور اس دعوت کو جسے رسول لے کر آیا ہے، یعنی اللہ وحدہ کی عبادت کی دعوت کو ٹھکرا دے اور یہ جھگڑنے والا شخص ﴿ بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ کسی علم اور کسی بصیرت کے بغیر جھگڑتا ہے۔ پس اس کا جھگڑا کسی علمی بنیاد پر مبنی نہیں ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ بات چیت میں نرمی کی جائے ﴿ وَلَا هُدًى ﴾ اور نہ کسی ہدایت پر مبنی ہے، جس کی بنا پر ہدایت یافتہ لوگوں کی پیروی کی جاتی ہے ﴿ وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ ﴾ اور نہ اس کا مجادلہ کسی روشن اور حق کو واضح کرنے والی کسی کتاب پر مبنی ہے۔ پس اس کا مجادلہ کسی معقول یا منقول دلیل پر مبنی ہے نہ ہدایت یافتہ لوگوں کی اقتدا پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کی بحث و جدال تو صرف اپنے ان آباء و اجداد کی تقلید پر مبنی ہے جو کسی طرح بھی راہ راست پر نہ تھے، بلکہ خود گمراہ اور گمراہ کنندہ تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tum logon ney yeh nahi dekha kay aasmano aur zameen mein jo kuch hai , ussay Allah ney tumharay kaam mein laga rakha hai , aur tum per apni zahiri aur batni naimaten poori poori nichawar ki hain-? phir bhi insanon mein say kuch log hain jo Allah kay baaray mein behasen kertay hain , jabkay unn kay paas naa koi ilm hai , naa hidayat hai , aur naa koi aesi kitab hai jo roshni dikhaye .
12 Tafsir Ibn Kathir
انعام و اکرام کی بارش
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کا اظہار فرما رہا ہے کہ دیکھو آسمان کے ستارے تمہارے لئے کام میں مشغول ہیں چمک چمک کر تمہیں روشنی پہنچا رہے ہیں بادل بارش اولے خنکی سب تمہارے نفع کی چیزیں ہیں خود آسمان تمہارے لئے محفوظ اور مضبوط چھت ہے۔ زمین کی نہریں چشمے دریا سمندر درخت کھیتی پھل یہ سب نعمتیں بھی اسی نے دے رکھی ہیں۔ پھر ان ظاہری بیشمار نعمتوں کے علاوہ باطنی بیشمار نعمتیں بھی اسی نے تمہیں دے رکھی ہیں مثلا رسولوں کا بھیجنا کتابوں کا نازل فرمانا شک وشبہ وغیرہ دلوں سے دور کرنا وغیرہ۔ اتنی بڑی اور اتنی ساری نعمتیں جس نے دے رکھی ہیں حق یہ تھا کہ اس کی ذات پر سب کے سب ایمان لاتے لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ اب تک اللہ کے بارے میں یعنی اس کی توحید اور اس کے رسولوں کی رسالت کے بارے میں الجھ رہے ہیں اور محض جہالت سے ضلالت سے بغیر کسی سند اور دلیل کے اڑے ہوئے ہیں۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ وحی کی اتباع کرو تو بڑی بےحیائی سے جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے اگلوں کی تقلید کریں گے گو ان کے باپ دادے محض بےعقل اور بےراہ شیطان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے اور اس نے انہیں دوزخ کی راہ پر ڈال دیا تھا یہ تھے ان کے سلف اور یہ ہیں ان کے خلف۔