لقمان آية ۲۷
وَلَوْ اَنَّ مَا فِى الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِۗ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ
طاہر القادری:
اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں (سب) قلم ہوں اور سمندر (روشنائی ہو) اس کے بعد اور سات سمندر اسے بڑھاتے چلے جائیں تو اﷲ کے کلمات (تب بھی) ختم نہیں ہوں گے۔ بیشک اﷲ غالب ہے حکمت والا ہے،
English Sahih:
And if whatever trees upon the earth were pens and the sea [was ink], replenished thereafter by seven [more] seas, the words of Allah would not be exhausted. Indeed, Allah is Exalted in Might and Wise.
1 Abul A'ala Maududi
زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر زمین میں جتنے پیڑ ہیں سب قلمیں ہوجائیں اور سمندر اس کی سیاہی ہو اس کے پیچھے سات سمندر اور تو اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی بیشک اللہ عزت و حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
اوراگروہ جو زمین میں درخت ہیں سب قلم ہوجائیں گے اور دریا سیاہی اس کے بعد اس دریا میں سات اور دریا سیاہی کے آ ملیں تو بھی الله کی باتیں ختم نہ ہوں بے شک الله زبردست حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
روئے زمین کے (تمام) درختوں کے اگر قلمیں ہوجائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے (١) بیشک اللہ تعالٰی غالب اور باحکمت ہے۔
٢٧۔١ اس میں اللہ تعالٰی کی عظمت و کبریائی، جلالت شان، اس کے اسمائے حسنٰی اور صفات عالیہ اور اس کی عظمتوں کا بیان ہے کہ وہ اتنے ہیں کہ کسی کے لئے ان کا احاطہ یا ان سے آگاہی یا ان کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں اگر ان کا شمار کرنا حیطہ تحریر میں لانا چاہے، تو دنیا بھر کے درختوں کے قلم گھس جائیں، سمندروں کے پانی سے بنائی ہوئی سیاہی ختم ہو جائے، لیکن اللہ کی معلومات، اس کی تخلیق و صنعت کے عجائبات اور عظمت و جلالت کے مظاہر کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ سات سمندر بطور مبالغہ ہے، حصر مراد نہیں (ابن کثیر) اس لیے کہ اللہ کی آیات و کلمات کا حصر و احصاء ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی مفہوم کی ایک آیت سورہ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں اور سمندر (کا تمام پانی) سیاہی ہو (اور) اس کے بعد سات سمندر اور (سیاہی ہو جائیں) تو خدا کی باتیں (یعنی اس کی صفتیں) ختم نہ ہوں۔ بیشک خدا غالب حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
روئے زمین کے (تمام) درختوں کے اگر قلمیں ہو جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہی ہو اور ان کے بعد سات سمندر اور ہوں تاہم اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے، بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور باحکمت ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جتنے درخت زمین میں ہیں اگر وہ سب قَلمیں بن جائیں اور سمندر (سیاہی بن جائیں) اور اس کے علاوہ سات سمندر اسے سہارا دیں (سیاہی مہیا کریں) تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے بے شک اللہ بڑا غالب (اور) بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کا سہارا دینے کے لئے سات سمندر اور آ جائیں تو بھی کلمات الہٰی تمام ہونے والے نہیں ہیں بیشک اللہ صاحبِ عزت ّبھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں اور سمندر (کا تمام پانی) سیاہی ہو (اور) اسکے بعد سات سمندر اور (سیاہی ہوجائیں) تو خدا کی باتیں (یعنی اس کی صفتیں) ختم نہ ہوں بیشک خدا غالب حکمت والا ہے
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی وسعت اور اپنے قول کی عظمت کو ایسی شرح کے ساتھ بیان کیا جو دل کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہے، جس سے عقل و خرد حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور عقل مند اور اصحاب بصیرت اس کی معرفت میں سیاحت کرتے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ ﴾ ” اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں (سب کے سب) قلم ہوں۔“ جن کے ساتھ لکھا جائے ﴿وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ﴾ ” اور سمندر روشنائی ہو اور اس کے بعد سات سمندر اور“ روشنائی بن جائیں جن سے لکھنے میں مدد لی جائے تو قلم ٹوٹ جائیں گے اور یہ روشنائی ختم ہوجائے گی لیکن ﴿ كَلِمَاتُ اللّٰـهِ ﴾ اللہ تعالیٰ کی باتیں لکھنے سے کبھی ختم نہ ہوں گی۔
یہ مبالغہ نہیں ہے، جس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ عقل انسانی اللہ کی بعض صفات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور وہ جانتا ہے کہ بندوں کے لیے اس کی معرفت سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اس نے انہیں سرفراز کیا ہے اور سب سے بڑی منقبت ہے جو انہیں حاصل ہوئی ہے جس کا کامل طور پر ادراک ممکن نہیں، مگر جس چیز کا کامل ادراک ممکن نہ ہو اس کو کامل طور پر ترک نہیں کیا جاسکتا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان میں سے بعض صفات کی طرف اس طرح توجہ دلائی ہے جس سے ان کے قلب منور ہوتے ہیں اور انہیں شرح صدر حاصل ہوتی ہے وہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے جس پر وہ نہیں پہنچے، اس چیز سے راہنمائی لیتے ہیں جس تک وہ پہنچ چکے ہیں اور وہ اسی طرح کہتے ہیں جیسے ان میں سے بہترین انسان اور اپنے رب کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والی ہستی نے کہا : (( لَانُحْصِی [اصل لفظ ((لاَاُحْصِی)) ہے اور یہ مولف رحمۃ اللہ علیہ کی سبقت قلم ہے۔] ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ )) [صحیح مسلم ،الصلاۃ، باب مایقال فی الرکوع والسجود؟،ح:486]” ہم تیری ثناء بیان نہیں کرسکتے، تو ایسے ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی ثناء بیان کی۔“ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس سے جلیل تر اور عظیم تر ہے۔
یہ تمثیل ان معانی کو قریب کرنے کے باب میں سے ہے جہاں تک پہنچنے کی ذہن اور فہم طاقت نہیں رکھتا۔ ورنہ اگر درختوں کو کئی گنا کرلیا جائے اور سمندروں کو بھی کئی گنا کرکے ان کی روشنائی بنا لی جائے تب بھی ان کے ختم ہونے کا تو تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ مخلوق ہیں۔۔۔ رہا اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام، تو اس کے ختم ہونے کا تصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ عقلی اور نقلی دلیل دلالت کرتی ہے کہ اس کا کلام ختم ہوتا ہے نہ اس کی کوئی انتہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کے سوا باقی ہر چیز کی انتہا ہے۔ ﴿ وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنتَهَىٰ ﴾ (النجم : 53؍42) ” اور تیرے رب ہی کے پاس پہنچنا ہے۔ “
جب عقل اللہ تعالیٰ کی ” اولیت“ اور ” آخریت“ کا تصور کرے تو، ذہن گزرے ہوئے زمانوں کو فرض کرے۔ وہ ازمان گزشتہ کا جتنا بھی اندازہ لگائے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بھی پہلے ہے جس کا کوئی منتہیٰ نہیں۔ اسی طرح عقل و ذہن میں آنے والے زمانوں کے بارے میں خواہ کتنا ہی اندازہ کرلیں اور قلب و زبان کے ذریعے سے اس کی مدد بھی لے لیں، اللہ تعالیٰ ان کے ان اندازوں سے بھی زیادہ متاخر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے تمام اوقات میں فیصلہ کرتا ہے، کلام کرتا ہے، وہ جیسے چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اپنا قول و فعل صادر کرتا ہے اسے اپنے اقوال و افعال سے کوئی چیز مانع نہیں۔ جب عقل نے اس حقیقت کا تصور کرلیا تو معلوم ہوا کہ یہ مثال جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ضمن میں بیان کی ہے صرف اس لیے ہے کہ بندوں کو اس کا تھوڑا سا ادراک ہوجائے ورنہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس سے عظیم تر اور جلیل تر ہے۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عزت کے جلال اور کمال حکمت کا ذکر کیا۔ فرمایا ﴿إِنَّ اللّٰـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾ ” بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔“ یعنی تمام عزت و غلبے کا وہی مالک ہے، تمام عالم علوی اور عالم سفلی میں جو بھی قوت پائی جاتی ہے وہ اسی کی طرف سے ہے، وہی ہے جس کی توفیق کے بغیر گناہ سے بچنے کی ہمت ہے نہ نیکی کرنے کی طاقت ہے۔ وہ اپنے غلبے کے ذریعے سے تمام مخلوق پر غالب ہے، ان میں تصرف اور ان کی تدبیر کرتا ہے۔ اس نے اپنی حکمت سے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔ اس کی تخلیق سے اس کی غرض و غایت اور مقصد بھی حکمت ہی ہے۔ اسی طرح امر و نہی بھی اس کی حکمت ہی سے وجود میں آئے ہیں، اور ان کو وجود میں لانے کی غایت مقصود بھی حکمت ہی ہے۔ پس وہ اپنے خلق و امر میں حکمت والا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur zameen mein jitney darkht hain , agar woh qalam ban jayen , aur yeh jo samandar hai , uss kay ilawa saat samandar uss kay sath aur mil jayen , ( aur woh roshnai ban ker Allah ki sifaat likhen ) tab bhi Allah ki baaten khatam nahi hon gi . haqeeqat yeh hai kay Allah iqtidar ka bhi malik hai , hikmat ka bhi malik .
12 Tafsir Ibn Kathir
حمد و ثنا کا حق ادا کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں
اللہ رب العلمین اپنی عزت کبریائی بڑائی جلالت اور شان بیان فرما رہا ہے اپنی پاک صفتیں اپنے بلند ترین نام اور اپنے بیشمار کلمات کا ذکر فرما رہا ہے جنہیں نہ کوئی گن سکے نہ شمار کرسکے نہ ان پر کسی کا احاطہ ہو نہ ان کی حقیقت کو کوئی پاسکے۔ سید البشر ختم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے (لا احصی ثناء علیک کما اثنیت علی نفسک) اے اللہ میں تیری تعریفوں کا اتنا شمار بھی نہیں کرسکتا جتنی ثناء تو نے اپنے آپ فرمائی ہے۔ پس یہاں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ اگر روئے زمین کے تمام تر درخت قلمیں بن جائیں اور تمام سمندر کے پانی سیاہی بن جائیں اور ان کیساتھ ہی سات سمندر اور بھی ملالئے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت وصفات جلالت و بزرگی کے کلمات لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ تمام قلمیں گھس جائیں ختم ہوجائیں سب سیاہیاں پوری ہوجائیں ختم ہوجائیں لیکن اللہ وحدہ لاشریک لہ کی تعریفیں ختم نہ ہوں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ سات سمندر ہوں تو پھر اللہ کے پورے کلمات لکھنے کے لئے کافی ہوجائیں۔ نہیں یہ گنتی تو زیادتی دکھانے کے لئے ہے۔ اور یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ سات سمندر موجود ہیں اور وہ عالم کو گھیرے ہوئے ہیں البتہ بنواسرائیل کی ان سات سمندروں کی بات ایسی روایتیں ہیں لیکن نہ تو انہیں سچ کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی جھٹلایا جاسکتا ہے۔ ہاں جو تفسیر ہم نے کہ ہے اسکی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے ( قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا\010\09 ) 18 ۔ الكهف :109) یعنی اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور رب کے کلمات کا لکھنا شروع ہو تو کلمات اللہ کے ختم ہونے سے پہلے ہی سمندر ختم ہوجائیں اگرچہ ایسا ہی اور سمندر اس کی مدد میں لائیں۔ پس یہاں بھی مراد صرف اسی جیسا ایک ہی سمندر لانا نہیں بلکہ ویسا ایک پھر ایک اور بھی ویسا ہی پھر ویسا ہی پھر ویساہی الغرض خواہ کتنے ہی آجائیں لیکن اللہ کی باتیں ختم نہیں ہوسکتی۔ حسن بصری فرماتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ لکھوانا شروع کرے کہ میرا یہ امر اور یہ امر تو تمام قلمیں ٹوٹ جائیں اور تمام سمندروں کے پانی ختم ہوجائیں۔ مشرکین کہتے تھے کہ یہ کلام اب ختم ہوجائے گا جس کی تردید اس آیت میں ہورہی ہے کہ نہ رب کے عجائبات ختم ہوں نہ اس کی حکمت کی انتہا نہ اس کی صفت اور اس کے علم کا آخر۔ تمام بندوں کے علم اللہ کے علم کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ۔ اللہ کی باتیں فنا نہیں ہوتیں نہ اسے کوئی ادراک کرسکتا ہے۔ ہم جو کچھ اس کی تعریفیں کریں وہ ان سے سوا ہے۔ یہود کے علماء نے مدینے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ یہ جو آپ قرآن میں پڑھتے ہیں آیت (وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا 85) 17 ۔ الإسراء :85) یعنی تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے ہم یا آپ کی قوم ؟ آپ نے فرمایا ہاں سب۔ انہوں نے کہا پھر آپ کلام اللہ شریف کی اس آیت کو کیا کریں گے جہاں فرمان ہے کہ توراۃ میں ہر چیز کا بیان ہے۔ آپ نے فرمایا سنو وہ اور تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کے کلمات کے مقابلہ میں بہت کم ہے تمہیں کفایت ہو اتنا اللہ تعالیٰ نے نازل فرمادیا ہے۔ اس پر آیت اتری۔ لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہونی چاہئے حالانکہ مشہور یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے تمام اشیاء اس کے سامنے پست وعاجز ہیں کوئی اس کے ارادے کے خلاف نہیں جاسکتا اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا اس کی منشاء کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ وہ اپنے افعال اقوال شریعت حکمت اور تمام صفتوں میں سب سے اعلی غالب وقہار ہے۔ پھر فرماتا ہے تمام لوگوں کا پیدا کرنا اور انہیں مار ڈالنے کے بعد زندہ کردینا مجھ پر ایسا ہی آسان ہے جیسے کہ ایک شخص کو مارنا اور پیدا کرنا۔ اس کا تو کسی بات کو حکم فرمادینا کافی ہے۔ ایک آنکھ جھپکانے جتنی دیر بھی نہیں لگتی۔ نہ دوبارہ کہنا پڑے نہ اسباب اور مادے کی ضرورت۔ ایک فرمان میں قیامت قائم ہوجائے گی ایک ہی آواز کیساتھ سب جی اٹھیں گے۔ اللہ تعالیٰ تمام باتوں کا سننے والا ہے سب کے کاموں کا جاننے والا ہے۔ ایک شخص کی باتیں اور اس کے کام جیسے اس پر مخفی نہیں اسی طرح تمام جہان کے معاملات اس سے پوشیدہ نہیں۔