السجدہ آية ۱۲
وَلَوْ تَرٰۤى اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًـا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ
طاہر القادری:
اور اگر آپ دیکھیں (تو ان پر تعجب کریں) کہ جب مُجرِم لوگ اپنے رب کے حضور سر جھکائے ہوں گے اور (کہیں گے:) اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور ہم نے سُن لیا، پس (اب) ہمیں (دنیا میں) واپس لوٹا دے کہ ہم نیک عمل کر لیں بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں،
English Sahih:
If you could but see when the criminals are hanging their heads before their Lord, [saying], "Our Lord, we have seen and heard, so return us [to the world]; we will work righteousness. Indeed, we are [now] certain."
1 Abul A'ala Maududi
کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اُس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) "اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سُن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور کہیں تم دیکھو جب مجرم اپنے رب کے پاس سر نیچے ڈالے ہوں گے اے ہمارے رب اب ہم نے دیکھا اور سنا ہمیں پھر بھیج کہ نیک کام کریں ہم کو یقین آگیا
3 Ahmed Ali
اور کبھی تو دیکھے جس وقت منکر اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے اے رب ہمارے ہم نے دیکھ اور سن لیا اب ہمیں پھر بھیج دے کہ اچھے کام کریں ہمیں یقین آ گیا ہے
4 Ahsanul Bayan
کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناہگار لوگ اپنے رب تعالٰی کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں (١) گے، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب (٢) تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں (٣)۔
١٢۔١ یعنی اپنے کفر و شرک اور معصیت کی وجہ سے مارے ندامت کے۔
١٢۔٢ یعنی جس کو جھٹلایا کرتے تھے، اسے دیکھ لیا، جس کا انکار کرتے تھے، اسے سن لیا۔ یا تیری وعیدوں کی سچائی کو دیکھ لیا اور پیغمبروں کی تصدیق کو سن لیا، لیکن اس وقت کا دیکھنا، سننا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا۔
١٢۔٣ لیکن اب یقین کیا تو کس کام کا؟ اب تو اللہ کا عذاب ان پر ثابت ہو چکا جسے بھگتنا ہوگا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تم (تعجب کرو) جب دیکھو کہ گنہگار اپنے پروردگار کے سامنے سرجھکائے ہوں گے (اور کہیں گے کہ) اے ہمارے پروردگار ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہم کو (دنیا میں) واپس بھیج دے کہ نیک عمل کریں بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناه گار لوگ اپنے رب تعالیٰ کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کاش! تم دیکھتے جب مجرم اپنے سر جھکائے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں (کھڑے) ہوں گے اور (عرض کریں گے) اے ہمارے پروردگار! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو (ایک بار دنیا میں) ہمیں واپس بھیج دے۔ (اب) ہم نیک کام کریں گے اب ہمیں یقین آگیا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کاش آپ دیکھتے جب مجرمین پروردگار کی بارگاہ میں سر جھکائے کھڑے ہوں گے - پروردگار ہم نے سب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں دوبارہ واپس کردے کہ ہم نیک عمل کریں بیشک ہم یقین کرنے والوں میں ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور (تم تعجب کرو) جب دیکھو کہ گنہگار اپنے پروردگار کے سامنے سر جھکائے ہوں گے اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہم کو (دنیا میں) واپس بھیج دے کہ نیک عمل کریں بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں
آیت نمبر 12 تا 22
ترجمہ : اور اگر آپ دیکھیں جبکہ گنہگار لوگ یعنی کافر اہنے رب کے سامنے سرنگوں ہوں گے یعنی ندامت کی وجہ سے سر جھکائے ہوئے کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو دیکھ لیا جس کے ہم منکر تھے، اور تیری جانب سے رسولوں کی ان باتوں کی تصدیق سن لی جن باتوں میں ہم ان کی تکذیب کیا کرتے تھے اب تو ہمیں دنیا میں واپس لوٹا دے ہم دنیا میں جاکر نیک اعمال کریں گے اب ہم کو یقین آگیا ان کو ان کا (یہ اقرار ویقین) کوئی فائدہ نہیں دے گا اور نہ ان کو دنیا میں واپس لوٹا یا جائے گا، اور لو کا جواب لَرَأیْتَ اَمْرًا فظیعًامحذوف ہے اور اگر ہم چاہتے تو ہر ایک کو ہدایت نصیب فرمادیتے تو وہ ایمان و اطاعت کو قبول کرکے ہدایت یافتہ ہوجاتا، لیکن میری بات بالکل حق ہوچکی ہے اور وہ یہ ہے کہ میں بالیقین جہنم کو جن اور انسانوں سے پر کردوں گا جب وہ جہنم میں داخل ہوں گے تو جہنم کے نگران ان سے کہیں گے کہ اب تم اس دن کو فراموش کرنے کے عذاب کا مزہ چکھو یعنی
تمہارے اس دن پر ایمان کو ترک کرنے کی وجہ سے ہم نے بھی تم کو بھلا دیا (یعنی) تم کو عذاب میں چھوڑ دیا اور تم اپنے اعمال (کی
شامت) یعنی کفر و تکذیب کے دائمی عذاب کا مزہ چکھو ہماری آیتوں (یعنی) قرآن پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جنہیں جب کبھی اس کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے تو سجدہ میں گرجاتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتے ہیں یعنی سبحان اللہ وبحمدہ کہتے ہیں اور وہ ایمان وطاعت کے مقابلہ میں تکبر نہیں کرتے اور ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں یعنی راتوں میں تہجد کی نماز پڑھنے کی وجہ سے خوابگاہوں میں بچھے ہوئے بستروں کو چھوڑ دیتے ہیں اپنے رب کو اس کے عذاب کے خوف اور اس کی رحمت کی امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا ہے اس میں سے راہ خدا میں صدقہ کرتے ہیں اور کوئی نفس اس کو نہیں جانتا جو ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان پردۂ غیب میں مخفی کر رکھا ہے یعنی ایسا سامان کہ جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، اور ایک قراءت میں (اُخْفِیْ ) کی یا کے سکون کے ساتھ مضارع کا صیغہ ہے یہ ان کے اعمال کے صلہ کے طور پر ہے، کیا وہ شخص جو مومن ہو اس کے مثل ہوسکتا ہے جو فاسق ہو ؟ برابر نہیں ہوسکتے یعنی مومن اور فاسق (کافر) برابر نہیں ہوسکتے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بھی کئے تو ان لوگوں کے لئے دائمی ٹھکانہ جنتوں میں بطور مہمانی کے ہوگا (نُزُل) اس چیز کو کہا جاتا ہے جو مہمان کے لئے تیار کی جاتی ہے اور جن لوگوں نے کفر و تکذیب کے ذریعہ حکم عدولی کی تو ان کا ٹھکانہ جہنم سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں دھکیل دیئے جائیں گے اور ان سے کہہ دیا جائے گا اس دوزخ کا عذاب چکھو جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے اور ہم ان کو قتل و قید اور قحط سالی اور امراض کا ادنیٰ دینوں عذاب (بھی) چکھائیں گے عذاب آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے تاکہ وہ یعنی جو ان میں سے باقی رہ گئے ہیں ایمان کی طرف رجوع کریں اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس کو اس کے رب کی آیتوں یعنی قرآن کے ذریعہ نصیحت کی جائے پھر وہ اس سے اعراض کرے ؟ یعنی ایسے شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں یقیناً ہم مجرموں یعنی مشرکوں سے انتقام لیں گے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : وَلَوْ تریٰ اِذ المجرمونَ روز قیامت مجرمین کی عام حالت کو بیان کرنے کے کئے یہ جملہ مستانفہ ہے، خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے یا ہر وہ شخص مخاطب ہے جس میں مخاطب بننے کی صلاحیت ہے اس آیت میں مجرموں کی روز محشرنا گفتہ بہٖ حالت کی منظر کشی کی گئی ہے، اور ان کی معنوی حالت کو محسوس و مجسم کرکے پیش کیا گیا ہے، لَوْ اور اِذْ اگرچہ ماضی کے لئے ہیں مگر یہاں مضارع پر داخل ہیں اس لئے کہ مجرمین کی حالت مذکورہ کا وقوع یقینی ہے اس لئے ان کا مضارع پر داخل ہونا درست ہے اور ابوالبقاء نے کہا ہے کہ اِذْ ، اِذَا
کی جگہ واقع ہے۔
قولہ : ترٰی کا مفعول محذوف ہے اسلئے رویت سے رویت بصر یہ مراد ہے، تقدیر عبادت یہ ہے لو تری المجرمینَ جواب لَوْ محذوف ہے ای لَرَأیْتَ امرًا فظِیْعًا لا یمکن وصفہ اور علامہ زمخشری نے لَوْ کو تمنی کے لئے کہا ہے اس صورت میں جواب کی ضرورت نہ ہوگی۔
قولہ : یقولون ربَّنَا مفسر علام نے یقولون کا اضافہ کرکے اس بات کیطرف اشارہ کردیا کہ رَبَّنا بتقدیر قول حال ہے ای قائلین یا رَبَّنا .
قولہ : اَبْصَرنا فعل با فاعل ہے اور مفعول محذوف ہے ای ابصرنا صِدقَ وَعْدِکَ ووَعِیدکَ.
قولہ : سَمِعْنَا کا عطف ابصرنا پر ہے سمعنا کا بھی مفعول محذوف ہے ای سمعنا منک تصدیق رُسُلِکَ اور یہ بھی جائز ہے کہ مفعول محذوف نہ مانا جائے، ای صرنا ممن یَبْصر ویَسْمع وکنّا من قبل سمًّا وعمیانًا .
قولہ : نَعْمَلْ جواب امر کی وجہ سے مجزوم ہے۔ قولہ : فتھتدی یہ لو کا جواب ہے جس کو شارح نے ظاہر کردیا ہے۔
قولہ : بترککم مفسر علام نے نسیان کی تفسیر ترک کرکے اشارہ کردیا کہ نسیان سے دونوں جگہ لازم معنی مراد ہیں اس لئے کہ نسیان کے لئے ترک لازم ہے، ورنہ تو نسیان پر مواخذہ نہیں ہے، نیز اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب نسیان کی نسبت محال ہے یہ نسبت استعارہ یا مجاز مرسل کے طور پر ہی ہوسکتی ہے۔
قولہ : ذوقوا عذاب الخلد کی تکرار اول ذوقوا کے مفعول محذوف ہونے پر دلالت کرنے کے لئے ہے۔
قولہ : بما کنتم میں باسببیہ ہے من اکفر والتکذیب، ما کا بیان ہے۔
قولہ : تتجافیٰ جنوبھم، تجَافِیٌ سے مضارع واحد مؤنث غائب، دور رہتی ہے، الگ رہتی ہے، یہ جملہ مستانفہ بھی ہوسکتا ہے اور یستکبرون کی ضمیر سے حال بھی ہوسکتا ہے، اسی طرح یدعون میں بھی یہی دونوں احتمال ہیں، یدعون کو حال قرار دینے کی صورت میں یہ بھی احتمال ہے کہ حال ثانیہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جنوبھم کی ضمیر سے حال ہو۔
قولہ : خوفًا وطمعًا یہ دونوں مفعول لہ ہیں، اور حال بھی ہوسکتے ہیں اور فعل محذوف کے مفعول مطلق بھی ہوسکتے ہیں ای جو زوا جزاءً اور اُخْفِیَ کا مفعول لہ بھی ہوسکتے ہیں ای اُخفِیَ لا جل جزاء ھم .
تفسیر وتشریح
ولوتَرَیٰ اس آیت میں مجرمین کی اس ناگفتہ بہ حالت کا بیان ہے جو محشر میں رب العالمین کے روبرو پیشی کے وقت ذلت و رسوائی کی صورت میں ہوگی، ذلت و رسوائی ندامت و شرمندگی کو جو کہ معنوی اور غیر مرئی شئ ہے اللہ تعالیٰ نے محسوس اور مرئی صورت میں بیان فرمای ہے، اور مجرمین سے یہاں وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے کہا تھا ءَ اِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جدیدٍ جب ہم خاک میں رل مل جائیں گے تو کیا ہم کو نئے سرے سے پیدا کیا جائے گا ؟ مذکورہ مجرمین کہیں گے کہ ہمارے کان اور آنکھیں کھل گئیں، پیغمبر جو فرمایا کرتے تھے اب ہم کو ان کا یقین آگیا بلکہ آنکھوں سے مشاہدہ کرلیا، اب ایک مرتبہ پھر دنیا میں بھیج دیجئے، دیکھئے ہم کیسے نیک کام کرتے ہیں، مگر اس وقت کا یقین کرنا کچھ کام نہ آئے گا مشاہدہ کرنے کے بعد تو ہر مشرک و کافر ایمان لے ہی آتا ہے، لہٰذا ایمان بالمشاہدہ معتبر نہیں، یہی وجہ ہے کہ حالت غرغرہ کا ایمان معتبر نہیں ہے، آگے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے فرماتے ہیں کہ آپ اہل مکہ کے ایمان نہ لانے پر اس قدر غم نہ کریں، کہ خود کو ہلاک ہی کرڈالیں، اس لئے کہ اگر ہم چاہتے تو ہر کافر و مشرک کی ہدایت عطا کردیتے لیکن یہ ہدایت جبری ہوتی جس میں امتحان اور آزمائش کی گنجائش نہ ہوتی آزمائش کی گنجائش تو اختیاری ایمان ہی میں ہوتی ہے، دوسری جگہ فرمایا وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُھُوْ عَنْہُ (انعام : رکوع ٣) یعنی جھوٹے ہیں اگر دنیا کی طرف لوٹائے جائیں پھر ان کی وہی روش رہے گی، ان کی طبیعت کی افتادہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ شیطان کے اغوا کو قبول کرلیں اور اللہ کی رحمت سے دور بھاگیں م بلا شبہ ہم کو قدرت ہے اگر ہم چاہتے تو انسانوں کو زبردستی اسی راہ ہدایت پر قائم رکھتے جس کی طرف انسان کا دل فطرۃً رہنمائی کرتا ہے لیکن اس طرح سب کو ایک ہی طور و طریق اختیار کرنے کے لئے مضطر و مجبور کردینا حکمت کے خلاف تھا، اور وہ بات بھی پوری ہونی تھی جو ابلیس کے دعوے لَاُغوِینَّھُمْ اَجْمعِین اِلاَّ عِبَادَکَ مِنْھُم المخلَصین کے جواب میں فرمائی تھی فَالحقُّ والحقَّ اقُوْلُ لأملَئَنَّ جھَنَّمَ مِنْکَ ومِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ ، معلوم ہوا کہ یہاں جن وانس سے شیاطین اور ان کے اتباع مراد ہیں، اِنَّا نَسِینٰکُمْ میں نسیان سے ترک کرنا اور نظر انداز کرنا مراد ہے جو کہ نسیان کے لئے لازم ہے، اس لئے کہ نسیان اللہ تعالیٰ سے محال ہے۔
انما۔۔۔ ب آیتنا (الآیۃ) سے اسلوب قرآن کے مطابق تقابل کے طور پر مومنین اور ان کے اوصاف کا ذکر ہے یعنی مشرکین متمردین کے برخلاف مومنین کا حال یہ ہے کہ وہ خوف و خشیت اور خشوع و خضوع سے سجدہ میں گرپڑتے ہیں، زبان سے اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں دل میں کبروغرور نہیں، مومنین مخلصین کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ سردی کے موسم میں میٹھی نیند اور نرم گرم بستروں کو چھوڑ کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں اس سے مراد تہجد کی نماز ہے، روایات حدیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے، مسند احمد، ترمذی، نسائی وغیرہ میں حضرت معاذ بن جبل سے راویت ہے کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں تھا، ایک روز میں دوران سفر صبح کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرے، اور جہنم سے دور کرے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے ایک بڑی چیز کا سوال کیا مگر جس کو اللہ آسان کردے اس کے لئے آسان ہوجاتی ہے، اور فرمایا کہ وہ عمل یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو اور فرمایا کہ لو اب میں تم کو خیر کے ابواب بتلاتا ہوں وہ یہ ہیں روزہ ڈھال ہے جو عذاب سے بچاتا ہے، اور صدقہ آدمی کے گناہوں کی آگ کو بجھا دیتا ہے، اسی طرح آدمی کی نماز درمیان شب میں، اور یہ فرما کر قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی تتجافی جنوبُھم عن المضاجع .
حضرت قتادہ، ابوالدرداء اور ضحاک (رض) نے فرمایا ہے کہ پہلوؤں کے بستروں سے الگ ہونے کی صفت ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو عشاء کی نماز جماعت سے ادا کریں پھر فجر کی نماز جماعت سے ادا کریں، اور ترمذی میں صحیح سند کے ساتھ انس (رض) سے روایت ہے کہ تتجافیٰ جنوبُھم عشاء کی نماز سے پہلے نہ سونے اور جماعت عشا کا انتظار کرنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں سے متعلق ہے جو مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل پڑھتے ہیں (رواہ محمد بن نصر) اور حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کے متعلق فرمایا کہ جو لوگ جب آنکھ کھلے اللہ کا ذکر کریں لیٹے بیٹھے اور کروٹ پر وہ بھی اس میں داخل ہیں، امام تفسیر ابن کثیر نے فرمایا کہ ان تمام اقوال میں کوئی تعارض نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت ان سب کو شامل ہے آخر شب کی نماز ان سب میں اعلیٰ و افضل ہے۔ (بیان القرآن)
اور حضرت اسماء بنت یزید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین و آخرین کو جمع فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی کھڑا ہوگا جس کی آواز تمام مخلوق سنے گی، وہ ندا دے گا کہ آج اہل محشر جان لیں گے کہ اللہ کے نزدیک کون لوگ عزت واکرام کے مستحق ہیں، پھر وہ فرشتہ ندا دے گا کہ اہل محشر میں سے وہ لوگ کھڑے ہوں جن کی صفت یہ تھی تتجافیٰ جنوبُھُمْ عن المضاجع یعنی ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوجاتے ہیں، اس آواز پر یہ لوگ کھڑے ہوں گے جن کی تعداد قلیل ہوگی اور اسی روایت کے بعض الفاظ میں ہے کہ یہ لوگ بغیر حساب کے جنت میں بھیج دیئے جائیں گے، اس کے بعد اور تمام لوگ کھڑے ہوں گے ان سے حساب لیا جائے گا۔ (مظھری)
یَدعون۔۔۔ وطمعًا یعنی اس کی رحمت و فضل و کرم کی امید بھی رکھتے ہیں اور اس کے عتاب و غضب اور مواخذہ و عذاب سے ڈرتے بھی ہیں، محض امید ہی امید نہیں رکھتے کہ عمل سے بھے پرواہ ہوجائیں (جیسا کہ بےعمل اور بدعمل لوگوں کا شیوہ ہے) اور نہ عذاب ومواخذہ کا اتنا خوف طاری کرلیتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے مایوس ہوجائیں کہ یہ مایوسی بھی کفر و ضلالت ہے۔
فائدہ : انفاق میں صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں شامل ہیں اہل ایمان حسب اسطاعت دونوں کا اہتمام کرتے ہیں۔
فلا تعلم نفسٌ میں نفس نکرہ ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا یعنی ان نعمتوں کی حقیقت کو کما حقہٗ کوئی نہیں جانتا جو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ اہل ایمان کے لئے مخفی رکھی ہیں، ان کی تفسیر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا گذر ہوا۔ (صحیح بخاری تفسیر سورة سجدہ)
تنبیہ : اس حدیث کو لے کر سر سید وغیرہ نے جنت کی جسمانی نعمتوں کا انکار کیا ہے، مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی کا اس کے جواب میں ” ہدیہ سنیہ “ کے نام سے ایک مضمون چھپا ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔ (فوائد عثمانی)
اَفَمَنْ کانَ مؤمنًا (الآیۃ) یہ استفہام انکاری ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے یہاں مومن و کافر، فرمانبردار اور نافرمان برابر نہیں ہوسکتے، اگر دونوں کا انجام برابر ہوجائے تو یہ عدل کے خلاف ہوگا (نعوذ باللہ) یہ اندھیرنگری جیسا معاملہ ہوجائے گا، بلکہ ان دونوں فریقوں کے درمیان بڑا فرق ہوگا، مومن اللہ کے مہمان ہوں گے نیز اعزاز واکرام کے مستحق، اور فاسق و کافر تعزیر و عقوبت کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے جہنم کی آگ میں جھلسیں گے، جہنم کے عذاب کی شدت اور ہولناکی سے گھبرا کر جہنمی باہر نکلنا چاہیں گے یا کبھی کبھی آگ کے شعلے جہنمیوں کو دروازے کی طرف پھیک دیں گے اس وقت شاید نکلنے کا خیال کریں فرشتے پھر ادھر ہی دھکیل دیں گے کہ جاتے کہاں ہو ؟ جس چیز کو جھٹلاتے تھے ذرا اس کا مزہ چکھو (فوائد عثمانی) آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے دینوی چھوٹے عذاب مثلاً دنیا کی مصیبتیں امراض، بعض کے نزدیک ادنیٰ عذاب سے وہ قتل مراد ہے جس سے کافر غزوۂ بدر میں دوچار ہوئے تھے، یا وہ قحط سالی کو مکہ والوں پر مسلط کی گئی تھی مراد ہے، دینوی مصائب وآلام بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ جس کے لئے رجوع کی توفیق مقدر ہے وہ خدا کی طرف رجوع ہوجائے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کے روز ان کے اپنی طرف لوٹنے کے بارے میں ذکر کرنے کے بعد، اپنے حضور ان کی حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ ﴾ ” اور اگر آپ دیکھیں، جب کہ گناہ گار“ جنہوں نے بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کیا ﴿نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ﴾ خشوع و خضوع اور انکساری کے ساتھ سرنگوں ہوکر، اپنے جرائم کا اقرار کرتے ہوئے، واپس لوٹائے جانے کی درخواست کرکے عرض کریں گے : ﴿ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا ﴾ ” اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا۔“ یعنی تمام معاملہ ہمارے سامنے واضح ہوگیا ہم نے اسے عیاں طور پر دیکھ لیا اور ہمارے لیے عین الیقین بن گیا۔ ﴿ فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ﴾ ” ہم کو (دنیا میں) واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں بلاشبہ ہم یقین کرنے والے ہیں۔“ یعنی جن حقائق کو ہم جھٹلایا کرتے تھے اب ہمیں ان کا یقین آگیا ہے، تو آپ بہت برا معاملہ، ہولناک حالات، خائب و خاسر لوگ اور نامقبول دعائیں دیکھیں گے، کیونکہ مہلت کا وقت تو گزر چکا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur kaash tum woh manzar dekho jab yeh mujrim log apney rab kay samney sar jhukaye huye ( kharray ) hon gay , ( keh rahey hon gay kay : ) humaray perwerdigar ! humari aankhen aur humaray kaan khul gaye , iss liye hamen ( duniya mein ) dobara bhej dijiye , takay hum naik amal keren . hamen achi tarah yaqeen aa-chuka hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
ناعاقبت اندیشو اب خمیازہ بھگتو
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ گنہگار اپنا دوبارہ جینا خود اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور نہایت ذلت و حقارت کے ساتھ نادم ہو کر گردنیں جھکائے سر ڈالے اللہ کے سامنے کھڑے ہونگے۔ اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہماری آنکھیں روشن ہوگئیں کان کھل گئے۔ اب ہم تیرے احکام کی بجا آوری کے لئے ہر طرح تیار ہیں اس دن خوب سوچ سمجھ والے دانا بینا ہوجائیں گے۔ سب اندھا و بہرا پن جاتا رہے گا خود اپنے تئیں ملامت کرنے لگیں گے اور جہنم میں جاتے ہوئے کہیں گے ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو ہم نیک اعمال کر آئیں ہمیں اب یقین ہوگیا ہے کہ تیری ملاقات سچ ہے تیرا کلام حق ہے۔ لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ اگر دوبارہ بھی بھیجے جائیں تو یہی حرکت کریں گے۔ پھر سے اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے دوبارہ نبیوں کو ستائیں گے۔ جیسے کہ خود قرآن کریم کی آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27) 6 ۔ الانعام :27) میں ہے۔ اسی لئے یہاں فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے جیسے فرمان ہے۔ اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کا ایک ایک رہنے والا مومن بن جاتا۔ لیکن اللہ کا یہ فیصلہ صادر ہوچکا ہے کہ انسان اور جنات سے جہنم پر ہونا ہے۔ اللہ کی ذات اور اس کے پورپورے کلمات کا یہ اٹل امر ہے۔ ہم اس کے تمام عذابوں سے پناہ چاہتے ہیں۔ دوزخیوں سے بطور سرزنش کے کہا جائے گا کہ اس دن کی ملاقات کی فراموشی کا مزہ چکھو۔ اور اس کے جھٹلانے کا خمیازہ بھگتو۔ اسے محال سمجھ کر تم نے وہ معاملہ کیا کہ جو ہر ایک بھولنے والا کیا کرتا ہے۔ اب ہم بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔ اللہ کی ذات حقیقی نسیان اور بھول سے پاک ہے۔ یہ تو صرف بدلے کے طور پر فرمایا گیا ہے۔ چناچہ اور روایت میں بھی ہے آیت ( وَقِيْلَ الْيَوْمَ نَنْسٰـىكُمْ كَمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا وَمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ 34) 45 ۔ الجاثية :34) آج ہم تمہیں بھول جاتے جیسے اور آیت میں ہے ( لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا 24ۙ ) 78 ۔ النبأ :24) وہاں ٹھنڈک اور پانی نہ رہے گا سوائے گرم پانی اور لہو پیپ کے اور کچھ نہ ہوگا۔