اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں تو ان کے لئے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقیناً کھلی گمراہی میں بھٹک گیا،
English Sahih:
It is not for a believing man or a believing woman, when Allah and His Messenger have decided a matter, that they should [thereafter] have any choice about their affair. And whoever disobeys Allah and His Messenger has certainly strayed into clear error.
1 Abul A'ala Maududi
کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا
2 Ahmed Raza Khan
اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بیشک صر یح گمراہی بہکا،
3 Ahmed Ali
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو لائق نہیں کہ جب الله اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دے تو انہیں اپنے کام میں اختیار باقی رہے اور جس نے الله اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ صریح گمراہ ہوا
4 Ahsanul Bayan
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا (١) یاد رکھو اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کی بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔
٣٦۔١ یہ آیت حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، جو کہ اصلا عرب تھے، لیکن کسی نے انہیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ کے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب کو نکاح کا پیغام بیجھا، جس پر انہیں اور ان کے بھائی کو خاندانی وضاحت کی بنا پر تامل ہوا، کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں اور ہمارا تعلق ایک اونچے خاندان سے ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا اختیار بروئے کار لائے۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سر تسلیم خم کردے چنانچہ یہ آیت سننے کے بعد حضرت زینب وغیرہ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا باہم نکاح ہوگیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا
6 Muhammad Junagarhi
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو انہیں اپنے (اس) معاملے میں کوئی اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا وہ بڑی کھاَلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا
9 Tafsir Jalalayn
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا
10 Tafsir as-Saadi
جو شخص ایمان سے متصف ہے اس کے لئے اس کے سوا اور کچھ مناسب نہیں کہ وہ فوراً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کی طرف سبقت کرے، ان کی ناراضی سے بچے، ان کے حکم کی تعمیل کرے اور جس کام سے وہ روک دیں، اس سے اجتناب کرے۔ کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لائق نہیں کہ ﴿ إِذَا قَضَى اللّٰـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا ﴾ ” جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ کردیں“ اور اس کی تعمیل کو لازم قرار دے دیں تو ﴿ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ﴾ ” ان کے لئے اس فیصلے پر عمل کا اختیار باقی رہے“ کہ آیا وہ اس کام کو کریں یا نہ کریں؟ بلکہ مومن مرد اور مومن عورتیں جانتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جانوں سے بڑھ کر عزیز ہیں، اس لئے وہ اپنے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان، اپنی کسی خواہش نفس کو حجاب نہ بنائیں۔ ﴿ وَمَن يَعْصِ اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴾ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہ ہوگیا۔“ یعنی وہ واضح طور پر گمراہ ہوگیا کیونکہ اس نے صراط مستقیم کو ترک کر کے، جو اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک جاتا ہے، دوسرا راستہ اختیار کرلیا جو درد ناک عذاب تک پہنچتا ہے۔ سب سے پہلے اس سبب کا ذکر کیا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے عدم معارضہ کا موجب ہے اور وہ ہے ایمان، پھر اس سے مانع کا ذکر فرمایا اور وہ ہے گمراہی سے ڈرانا، جو عذاب اور سزا پر دلالت کرتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab Allah aur uss ka Rasool kissi baat ka hatmi faisla kerden to naa kissi momin mard kay liye yeh gunjaeesh hai naa kissi momin aurat kay liye kay unn ko apney moamlay mein koi ikhtiyar baqi rahey . aur jiss kissi ney Allah aur uss kay Rasool ki nafarmani ki , woh khuli gumrahi mein parr-gaya .
12 Tafsir Ibn Kathir
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام کو رد کرنا گناہ عظیم ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زید بن حارث (رض) کا پیغام لے کر حضرت زینب بنت جحش (رض) کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا " میں اس سے نکاح نہیں کروں گی آپ نے فرمایا ! ایسا نہ کہو اور ان سے نکاح کرلو۔ حضرت زینب (رض) نے جواب دیا کہ اچھا پھر کچھ مہلت دیجئے میں سوچ لوں۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وحی نازل ہوئی اور یہ آیت اتری۔ اسے سن کر حضرت زینب (رض) نے فرمایا۔ یا رسول اللہ ! کیا آپ اس نکاح سے رضامند ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ تو حضرت زینب (رض) نے جواب دیا کہ بس پھر مجھے کوئی انکار نہیں، میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی نہیں کروں گی۔ میں نے اپنا نفس ان کے نکاح میں دے دیا اور روایت میں ہے کہ وجہ انکار یہ تھی کہ نسب کے اعتبار سے یہ بہ نسبت حضرت زید کے زیادہ شریف تھیں۔ حضرت زید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت عقبہ بن ابو معیط کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد سب سے پہلے مہاجر عورت یہی تھی۔ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اپنا نفس آپ کو ہبہ کرتی ہوں۔ آپ نے فرمایا مجھے قبول ہے۔ پھر حضرت زید بن حارث (رض) سے ان کا نکاح کرا دیا۔ غالباً یہ نکاح حضرت زینب (رض) کی علیحدگی کے بعد ہوا ہوگا۔ اس سے حضرت ام کلثوم ناراض ہوئیں اور ان کے بھائی بھی بگڑ بیٹھے کہ ہمارا اپنا ارادہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نکاح کا تھا نہ کہ آپ کے غلام سے نکاح کرنے کا، اس پر یہ آیت اتری بلکہ اس سے بھی زیادہ معاملہ صاف کردیا گیا اور فرما دیا گیا کہ ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا ) 33 ۔ الأحزاب :6) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیٰ ہیں۔ پس آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا 36ۭ ) 33 ۔ الأحزاب :36) خاص ہے اور اس سے بھی جامع آیت یہ ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک انصاری کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اپنی لڑکی کا نکاح جلیبیب (رض) سے کردو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اچھی بات ہے۔ میں اس کی ماں سے بھی مشورہ کرلوں۔ جا کر ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا، ہم نے فلاں فلاں ان سے بڑے بڑے آدمیوں کے پیغام کو رد کردیا اور اب جلیبیب (رض) سے نکاح کردیں۔ انصاری اپنی بیوی کا یہ جواب سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جانا چاہتے ہی تھے کہ لڑکی جو پردے کے پیچھے سے یہ تمام گفتگو سن رہی تھی بول پڑی کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو رد کرتے ہو ؟ جب حضور اس سے خوش ہیں تو تمہیں انکار نہ کرنا چاہیے۔ اب دونوں نے کہا کہ بچی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ بیچ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس نکاح سے انکار کرنا گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام اور خواہش کو رد کرنا ہے، یہ ٹھیک نہیں۔ چناچہ انصاری سیدھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا آپ اس بات سے خوش ہیں ؟ آپ نے فرمایا ! ہاں میں تو اس سے رضامند ہوں۔ کہا پھر آپ کو اختیار ہے آپ نکاح کر دیجئے، چناچہ نکاح ہوگیا۔ ایک مرتبہ اہل اسلام مدینہ والے دشمنوں کے مقابلے کے لئے نکلے، لڑائی ہوئی جس میں حضرت جلیبیب (رض) شہید ہوگئے انہوں نے بھی بہت سے کافروں کو قتل کیا تھا جن کی لاشیں ان کے آس پاس پڑی ہوئی تھیں۔ حضرت انس (رض) کا بیان ہے کہ میں نے خود دیکھا ان کا گھر بڑا آسودہ حال تھا۔ تمام مدینے میں ان سے زیادہ خرچیلا کوئی نہ تھا۔ ایک اور روایت میں حضرت ابو بردہ اسلمی (رض) کا بیان ہے کہ حضرت جلیبیب (رض) کی طبیعت خوش مذاق تھی اس لئے میں نے اپنے گھر میں کہہ دیا تھا کہ یہ تمہارے پاس نہ آئیں۔ انصاریوں کی عادت تھی کہ وہ کسی عورت کا نکاح نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ یہ معلوم کرلیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی بابت کچھ نہیں فرماتے۔ پھر وہ واقعہ بیان فرمایا جو اوپر مذکور ہوا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت جلیبیب (رض) نے سات کافروں کو اس غزوے میں قتل کیا تھا۔ پھر کافروں نے یک مشت ہو کر آپ کو شہید کردیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو تلاش کرتے ہوئے جب ان کی نعش کے پاس آئے تو فرمایا سات کو مار کر پھر شہید ہوئے ہیں۔ یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔ دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا پھر قبر کھدوا کر اپنے ہاتھوں پر انہیں اٹھا کر قبر میں اتارا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دست مبارک ہی ان کا جنازہ تھا اور کوئی چار پائی وغیرہ نہ تھی۔ یہ بھی مذکور نہیں کہ انہیں غسل دیا گیا ہو۔ اس نیک بخت انصاریہ عورت کے لئے جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کی عزت رکھ کر اپنے ماں باپ کو سمجھایا تھا کہ انکار نہ کرو۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ اس پر اپنی رحمتوں کی بارش برسا اور اسے زندگی کے پورے لطف عطا فرما۔ تمام انصار میں ان سے زیادہ خرچ کرنے والی عورت نہ تھی۔ انہوں نے جب پردے کے پیچھے سے اپنے والدین سے کہا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات رد نہ کرو اس وقت یہ آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا 36ۭ ) 33 ۔ الأحزاب :36) نازل ہوئی تھی۔ حضرت ابن عباس (رض) سے حضرت طاؤس نے پوچھا کہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھ سکتے ہیں ؟ آپ نے منع فرمایا اور اسی آیت کی تلاوت کی پس یہ آیت گو شان نزول کے اعتبار سے مخصوص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے ہوتے ہوئے نہ تو کوئی مخالفت کرسکتا ہے نہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار کسی کو باقی رہتا ہے۔ نہ رائے اور قیاس کرنے کا حق، نہ کسی اور بات کا۔ جیسے فرمایا ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65) 4 ۔ النسآء :65) ، یعنی قسم ہے تیرے رب کی لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک کہ وہ آپس کے تمام اختلافات میں تجھے حاکم نہ مان لیں۔ پھر تیرے فرمان سے اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی نہ رکھیں بلکہ کھلے دل سے تسلیم کرلیا۔ صحیح حدیث میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوگا جب تک کہ اس کی خواہش اس چیز کی تابعدار نہ بن جائے جسے میں لایا ہوں۔ اسی لئے یہاں بھی اس کی نافرمانی کی برائی بیان فرما دی کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنے والا کھلم کھلا گمراہ ہے۔ جیسے فرمان ہے (فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63) 24 ۔ النور :63) یعنی جو لوگ ارشاد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلاف کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو ان پر کوئی فتنہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب ہو۔