الاحزاب آية ۴۱
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا ۙ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو،
English Sahih:
O you who have believed, remember Allah with much remembrance
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو الله کو بہت یاد کرو
4 Ahsanul Bayan
مسلمانوں اللہ تعالٰی کا ذکر بہت کیا کرو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے اہل ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو
6 Muhammad Junagarhi
مسلمانو! اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت زیاده کرو
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! اللہ کو بکثرت یاد کیا کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والواللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو
9 Tafsir Jalalayn
اے اہل ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو
آیت نمبر 41 تا 52
ترجمہ : اے ایمان والو ! تم اللہ کا ذکر خوب کثرت سے کیا کرو اور صبح وشام یعنی اول دن اور آخر دن میں (یعنی ہمیشہ) اس کی پاکی بیان کیا کرو وہ ایسا (رحیم) ہے کہ وہ تم پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے (بھی) تمہارے لئے دعاء رحمت کرتے ہیں، تاکہ تم کو ظلمت یعنی کفر سے نور یعنی ایمان کی طرف نکالے، یعنی اس خروج کو دوام بخشے، اور اللہ تعالیٰ مومنوں پر مہربان ہے، جس دن وہ اللہ سے ملیں گے تو ان کے لئے تحفہ اللہ کی جانب سے فرشتوں کی زبانی سلام ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے عمدہ صلہ تیار کررکھا ہے اور وہ جنت ہے اور اے نبی یقیناً ہم ہی نے آپ کو مُرسَل الیھم (یعنی) امت پر گواہ بنا کر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرنے والے کو جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر اور آپ کی تکذیب کرنے والے کو جہنم سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اس کے حکم سے اللہ کی اطاعت کی جانب بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا یعنی چراغ کے مانند ہے، اس کے ذریعہ ہدایت حاصل کرنے میں اور آپ مومنین کو خوشخبری سنا دیجئے کہ ان کے اوپر اللہ کی جانب سے بہت بڑا فضل ہونے والا ہے اور وہ جنت ہے اور ان باتوں میں جو تیری شریعت کے خلاف ہوں، کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانئے اور ان کی طرف سے ایذاء رسانی کو نظر انداز کیجئے، اور اس ایذا رسانی پر انتقام نہ لیجئے جب تک کہ ان سے انتقام لینے کا حکم نہ دیا جائے اور اللہ پر بھروسہ رکھئے اس لئے کہ وہ آپ کے لئے کافی ہے اور اللہ کارسازی کے لئے کافی ہے یعنی (کاموں کو) اس کے سپرد کرنے کے اعتبار سے کافی ہے، اے مومنو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر (حقیقۃً یا حکماً ) ہمبستری سے پہلے ہی ان کو طلاق دیدو اور ایک قراءت میں تُمَاسُّوھُنَّ ہے اور معنی تُجَامِعُوْھُنَّ کے ہیں تو (اس صورت) میں تمہارا ان پر کوئی حق عدت نہیں کہ جس کو تم حیض وغیرہ کے ذریعہ شمار کرنے لگو تو تم ان کو دیدو یعنی ان کو کچھ (مال) دیدو جس سے وہ فائدہ حاصل کریں، اور یہ اس صورت میں ہے کہ ان کا مہر متعین نہ ہو اہو، ورنہ تو ان کے لئے نصف مہر کافی ہے، ابن عباس (رض) نے بھی یہی فرمایا ہے، اور یہی امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک ہے، اور خوبی کے ساتھ ان کو رخصت کردو یعنی بغیر کوئی نقصان (تکلیف) پہنچائے ان کو خوبی کے ساتھ رخصت کردو، اے نبی ہم نے آپ کے لئے یہ عورتیں جن کے آپ مہر ادا کرچکے ہیں حلال کردی ہیں، اور وہ عورتیں بھی جو اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں یعنی کافروں میں سے قید کے ذریعہ جیسا کہ صفیہ (رض) اور جویریہ (رض) اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو اور وہ مومن عورت بھی حلال ہے جس نے خود کو نبی کے (بغیر مہر) حوالہ کردیا، بشرطیکہ نبی اس سے نکاح قبول فرمالے، یعنی (نبی) ان سے بلا مہر نکاح کرنا منظور کرلے یہ آپ کی خصوصیت ہے نہ کہ دوسرے مسلمانوں کے لئے یعنی بغیر مہر لفظ ہبہ سے نکاح (آپ کی خصوصیت ہے) ہم کو وہ احکام معلوم ہیں جو ہم نے ان پر یعنی مومنوں پر ان کی بیویوں کے بارے میں مقرر کئے ہیں یہ کہ چار عورتوں سے زیادہ نکاح نہ کریں اور (وہ احکام بھی معلوم ہیں) جو ان کو باندیوں کے بارے میں ہم نے مقرر کئے ہیں، وہ باندیاں (خواہ) خرید کر ملکیت میں آئی ہوں یا کسی دوسرے طریقہ سے، باندی ایسی ہو کہ جو مالک کے لئے حلال ہو، جیسا کہ کتابیہ، بخلاف مجوسیہ اور بت پرست کے اور یہ کہ وطی سے قبل تنقیۂ رحم کرلے تاکہ نکاح میں آپ پر تنگی نہ ہو (لِکَیْلاَ ) اس کا تعلق ماقبل یعنی انّا اَحَلَلْنَالکَ سے ہے، اور اللہ تعالیٰ اس (امر) میں جس سے بچنا دشوار ہو غفور ہے اور اس میں سہولت مہیا کرکے رحم کرنے والا ہے ان بیویوں میں سے جس کو آپ چاہیں اس کی باری سے الگ رکھیں، اور جس کو چاہیں ساتھ رکھیں یعنی اس کی باری اس کو دیدیں تُرْجِیْ ہمزہ کے ساتھ اور ہمزہ کے بجائے ی کے ساتھ بمعنی تؤخِّرہُ اور جس کی باری آپ نے موقوف کردی تھی پھر آپ اس کی باری شروع کرنا چاہیں تو اس شروع کرنے اور اپنے ساتھ لگانے میں آپ پر کوئی حرج نہیں ہے (اولاً ) آپ پر باری مقرر کرنا واجب تھا، بعد میں آپ کو باری مقرر کرنے کے بارے میں اختیار دیدیا گیا اس تخییر میں زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں، اور وہ کبیدہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ بھی آپ مخیرّفیہ میں سے ان کو دیدیں گے اس پر سب کی سب راضی رہیں گی کُلُّھُنَّ ، یَرْضَیْنَ کے فاعل کی تاکید ہے، عورتوں کے معاملہ اور ان میں سے بعض کی جانب (زیادہ) رغبت کے بارے میں اللہ کو تمہارے دلوں کا حال معلوم ہے ہم آپ کی سہولت کے لئے بیویوں کے بارے میں آپ کی مطلوبہ میں اختیار دیدیا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے بارے میں بخوبی علم رکھتا ہے اور ان کو سزا کے بارے میں حلیم ہے آپ کے لئے ان نو عورتوں کے علاوہ جنہوں نے آپ کو اختیار کرلیا آپ کے لئے حلال نہیں ہیں یَحِلُّ میں تا اور یا دونوں ہیں اور نہ آپ کے لئے یہ درست ہے کہ ان بیویوں کی جگہ دوسری کرلیں بایں طور کہ ان سب کو یا ان میں سے بعض کو طلاق دیدیں، اور مطلقہ کے بدلے میں دوسری کرلیں اگرچہ آپ کو ان (دوسروں) کا حسن اچھا معلوم ہو، مگر وہ باندیاں جو آپ کی مملوکہ ہوں تو ان میں آپ کے لئے (تبدیلی) حلال ہے، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیویوں کے بعد ماریہ قبطیہ کے مالک ہوئے اور آپ کے ان سے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے، جن کا انتقال آپ کی حیات ہی میں ہوگیا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پورا نگہبان ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : ھُوَالَّذیْ یُصَلّیِ عَلَیْکُمْ جملہ مستانفہ ہے اور امر بالذکرو التسبیح کی علت ہے یعنی جب ذکر و تسبیح کا حکم دیا گیا تو سوال پیدا ہوا کہ کیوں ذکر و تسبیح کی جائے ؟ تو جواب دیا اس لئے کہ وہ تمہارے اوپر رحمت نازل کرتا ہے۔
قولہ : اَیْ یَرْحَمُکُمْ کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ صلوٰۃ کی نسبت جب اللہ کی طرف ہوتی ہے تو نزول رحمت مراد ہوتی ہے۔
قولہ : ملائِکَتُہٗ اس کا عطف یُصَلِّیْ کی ضمیر مستتر پر ہے، مگر یہاں یہ اعتراض ہوگا کہ ضمیر مرفوع متصل پر عطف کے لئے ضمیر منفصل کے ذریعہ تاکید ضروری ہوتی ہے جو یہاں موجود نہیں ہے۔
جواب : یہ ہے کہ چونکہ عَلَیْکُمْ کا فاصل موجود ہے اس لئے ضمیر کے ذریعہ تاکید کی ضرورت نہیں، اور ملاَئِکَتُہٗ کے بعد یستغفرون کے اضافہ سے مقصد یہ بتانا ہے کہ صلوٰۃ کی نسبت جب ملائکہ کی طرف ہوتی ہے تو طلب استغفار مراد ہوتی ہے۔
قولہ : لِیُخْرِجَکُمْ کی تفسیر لِیُدِیْمَ سے کرنے کا مقصد ایک سوال کا جواب دینا ہے، سوال یہ ہے کہ اہل ایمان کا ظلمت کفر سے نکلنا نفس ایمان ہی سے ثابت ہے پھر دوبارہ نکالنے کا کیا مطلب ہے ؟ یہ تو تحصیل حاصل ہے ؟
جواب : کا حاصل یہ ہے کہ اس تفسیر کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ خروج سے دوام و استقرار مراد ہے، اس لئے کہ جب خالق سے غفلت زیادہ ہوجاتی ہے تو ایمان سے خروج کا سبب بن جاتی ہے۔ (العیاذ باللہ ) ۔
سوال : اَلظُّلُمَات کو جمع اور النُّورُ کو واحد لانے میں کیا مصلحت ہے ؟
جواب : کفر کی انواع چونکہ متعدد ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اس کی ظلمات بھی متعدد ہوتی ہیں، اور ایمان چونکہ شئ واحد ہے اس میں
تعداد نہیں ہے، جو لوگ تعدد کے قائل ہیں وہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں۔ (صاوی)
قولہ : بِاِذْنِہٖ کی تفسیر بِاَمْرِہٖ سے کرنے کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : اِذْن و اجازت تو اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شاھِدًا ومبشِّرًا سے مستفاد ہے، پھر دوبارہ اجازت کی کیا ضرورت ؟
جواب : کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں اِذْن سے امر (حکم) مراد ہے، اور اذن اور امر میں فرق ظاہر ہے۔
قولہ : دَعْ اَذَاھُمْ یہ اضافت مصدر الی الفاعل کے قبیل سے ہے، تقدیر عبارت یہ ہے دَعْ اَذِیَّتَھُمْ اِیّاکَ یعنی آپ ان کی ایذا رسانی کو درگذر فرمائیں ان سے ان کی ایذا رسانی کا انتقام نہ لیں، یا پھر اضافتِ مصدر الی المفعول کے قبیل سے ہے اَیْ اُتْرُکْ اَذِیّتَکَ لَھُمْ یعنی آپ ان کو اذیت پہنچانے کو ترک کیجئے، ان کو سزا دینے میں عجلت نہ کیجئے تاآنکہ آپ کو اجازت نہ مل جائے، چناچہ آیات قتال کے ذریعہ اجازت مل گئی، اور عفو و درگذر کا حکم منسوخ ہوگیا۔
قولہ : وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ کی مثال میں مفسر علام نے صفیہ (رض) بنت حیی بن اخطب اور جویریہ (رض) بنت الحارث الخزاعیہ کیا ہے، اس کا مقتضیٰ ہے کہ مَامَلَکتْ کا عطف اٰتَیْتَ اُجورَھُنَّ پر ہو مگر یہ ظاہر کے خلاف ہے، ظاہر یہ ہے کہ اس کا عطف ازْوَاجَکَ پر ہو مگر اس صورت میں مَامَلَکَتْ کی مثال میں صفیہ (رض) اور جویریہ (رض) کو پیش کرنا درست نہیں ہے اس لئے کہ یہ مَامَلَکَتْ میں نہیں بلکہ ازواج مطہرات (رض) میں سے ہیں، صفیہ اور جویریہ کے بجائے ماریہ قبطیہ اور ریحانہ کو پیش کرنا چاہیے چونکہ یہ دونوں آپ کی باندیوں میں سے ہیں۔
قولہ : مِمَّا اَفَاءَ اللہ علیْکَ مِمّا اَفَاءَ اللہ ماملکَتْ کا بیان ہے مَا مَلَکَتْ قید اخترازی نہیں ہے بلکہ تغلیبی ہے چونکہ آپ کی اکثر باندیاں مال غنیمت میں آپ کو حاصل ہوئی تھیں اس لئے مامملکت کی قید لگائی ہے ورنہ تو خرید کردہ باندیوں کا بھی وہی حکم ہے جو بطور غنیمت حاصل ہونے والوں کا ہے (یعنی حلت) ۔
قولہ : اِمْرأۃً مؤمِنَۃً اس کا عطف بھی اَحْلَلْنَا لَکَ کے مفعول اَزْوَاجَکَ پر ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ کے لئے مومن عورتیں حلال ہیں کافرہ نہیں۔
قولہ : اِنْ اَرَادَ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ وھبتْ نفسَھَا کی شرط ہے، یعنی عورت کا محض اپنے نفس کو ہبہ کردینا نکاح کے تام ہونے کے لئے کافی نہیں بلکہ آپ کا قبول کرنا بھی شرط ہے۔
قولہ : خَالِصَۃً لکَ. خَالِصَۃً کے منصوب ہونے کی تین وجود ہوسکتی ہیں (١) وَھَبَتْ کے فاعل سے حال ہونے کی وجہ سے ای حال کونھا خَالصۃً لکَ دونَ غیرکَ (٢) اِمرأۃً سے حال واقع ہونے کی وجہ سے، دونوں صورتوں میں معنی ایک ہی ہوں گے (٣) مصدر محذوف کی صفت ہونے کی وجہ منصوب ہو، ای ھبَۃً خالِصَۃً لکَ دونَ غیرکَ.
قولہ : لَکَیْلاَ یہ اپنے ماقبل یعنی خالِصَۃً سے متعلق ہے۔ قولہ : تُرْجِیْ یہ ارجَاءٌ مضارع واحد مذکر حاضر ہے، تو ڈھیل دے، تو مؤخر کر
قولہ : تُؤوِیْ. اِیْواءٌ سے واحد مذکر حاضر ہے، تو جگہ دے، تو ساتھ رکھ، تو ملالے۔
قولہ : وَمَنْ ابْتَغَیْتَ من شرطیہ ہے اِبتَغَیْتَ کا مفعول ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے، فلا جناح جواب شرط ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مَنْ موصولہ ہو اور مبتداء ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہو اور جُنَاحَ علیکَ مبتدا کی خبر۔
تفسیر وتشریح
یٰایھا۔۔۔ کثیرا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر جتنے بھی انعامات و احسانات فرمائے ہیں ان سب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ایک احسان عظیم اور نعمت بےبہا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، مذکورہ آیت میں ادائے شکر کثرت سے ذکر کا حکم دیا گیا ہے، یوں تو خدا کی ہر طاعت و بندگی خدا کا شکر ہے خواہ مالی ہو یا بدنی مگر ان میں ذکر لسانی سب سے آسان اور سہل ہے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ نے اپنے بندوں پر ذکر اللہ کے سوا کوئی فرض اور طاعت ایسی لازم نہیں کی کہ جس کی کوئی حد مقرر نہ ہو، ہر عبادت و بندگی زمان ومکان کی حدود میں محدود ہے، مگر ذکر اللہ ایسی عبادت ہے کہ اس کی کوئی حد اور تعداد متعین نہیں، اور نہ کسی خاص زمان و مکان کی پابند اور نہ اس کے لئے کسی مخصوص ہئت کی ضرورت اور نہ اسکے لئے طاہر اور باوضو ہونا شرط، اس کو ہرحال اور ہر وقت کرسکتے ہیں، اسی لئے ذکر اللہ بکثرت کرنے کا حکم ہے، سفر ہو یا حضر، تندرستی ہو یا بیماری، خشکی ہو یا تری، رات ہو یا دن ہرحال میں ذکر اللہ کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کے ترک میں انسان کا کوئی عذر مسموع نہیں، اور اس کے فضائل و برکات بھی بیشمار ہیں۔ اللہ کو بکثرت یاد کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تم پر فرشتوں کے واسطے سے اپنی رحمت نازل فرماتا ہے، یہی رحمت و برکت تمہارا ہاتھ پکڑ کر جہالت و ضلالت کی اندھریوں سے علم و عرفان کے اجالے میں لاتی ہے، ذاکرین کو یہ صلہ تو دنیا میں ملا، آخرت کا اعزاز واکرام آئندہ آیت میں مذکورہ ہے، جنت میں مومنوں کو سب سے عظیم تحفہ خدا کا سلام ہوگا، اور فرشتے بھی سلام کرتے ہوئے ملاقات کریں گے، نیز جنتی آپس میں بھی ہدیۂ سلام لا نذرانہ پیش کریں گے، اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے دن سے کونسا دن مراد ہے ؟ امام راغب وغیرہ نے فرمایا اس سے قیامت کا دن مراد ہے، اور بعض ائمہ بعض ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ جنت میں داخلہ کا وقت مراد ہے، اور بعض حضرات مفسرین نے ملاقات کا دن موت کے دن کو قرار دیا ہے۔
مسئلہ : اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا آپس میں تحیہ السلام علیکم ہونا چاہیے خواہ بڑے کی طرف سے چھوٹے کو ہو یا چھوٹے کی طرف سے بڑے کو آج کل جو جدید فیشن آداب، تسلیمات، تا صباحاً ہالخیر وغیرہ کا نکلا ہے یہ سراسر اسلامی تہذیب کے خلاف ہے۔
یٰایھا۔۔۔ شاھدا (الآیۃ) یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاص صفات کمالیہ اور مناقب عالیہ کے بیان کی طرف عود ہے، اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پانچ صفات کا ذکر فرمایا ہے، شاہد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ، سراج منیر، شاہد سے مراد یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے دن امت کے لئے شہادت دیں گے، جیسا کہ صحیح بخاری، نسائی، ترمذی وغیرہ میں حضرت ابوسعید خدری (رض) سے ایک طویل حدیث منقول ہے، جس کے بعض جملے یہ ہیں کہ قیامت کے روز حضرت نوح (علیہ السلام) پیش ہوں گے
تو ان سے سوال کیا جائے گا، کیا آپ نے ہمارا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا تھا، وہ عرض کریں گے کہ میں نے پہنچا دیا تھا، پھر ان کی امت پیش ہوگی، وہ اس سے انکار کرے گی، اس وقت نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ آپ جو پیغام حق پہنچانے کا دعویٰ کرتے ہیں اس پر آپ کا کوئی شاہد بھی ہے ؟ حضرت نوح (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت گواہ ہے، بعض روایات میں ہے کہ وہ گواہی میں امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش کریں گے، امت محمدیہ ان کے حق میں گواہی دے گی، تو نوح (علیہ السلام) کی امت اس پر جرح کرے گی کہ یہ ہمارے معاملہ میں کیسے گواہی دے سکتے ہیں، یہ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، اس جرح کا جواب امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا جائیگا۔ امت محمدیہ جواب دے گی کہ بیشک ہم اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے، اور نہ اس موقع پر موجود تھے، مگر ہم نے اس کی خبر اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی، جس پر ہمارا ایمان و اعتقاد ہے، اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی امت کے اس قول کی تصدیق کے لئے شہادت طلب کی جائے گی، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی توثیق و تصدیق فرمائیں گے کہ بیشک میں نے ان کو یہ اطلاع دی تھی۔ اور امت پر شاہد ہونے کا ایک مفہوم عام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے سب افراد کے اچھے برے اعمال کی شہادت دیں گے، اور یہ شہادت اس بناء پر ہوگی کہ امت کے اعمال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہر روز صبح وشام اور بعض روایات میں ہفتہ میں ایک بار پیش ہوتے ہیں، اور آپ امت کے ایک ایک فرد کو اس کے اعمال کے ذریعہ پہچانتے ہیں، اس لئے آپ امت کے شاہد بنائے جائیں گے۔ (رواہ ابن المبارک عن سعید بن مسیب، مظھری ملخصًا)
بعض لوگ شاہد کے معنی حاضر وناظر کے کرتے ہیں جو قرآن کریم کی تحریف معنوی ہے اور ایسا عقیدہ نصوص قرآنی کے خلاف ہے۔ جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں، اسی طرح آپ کے ذریعہ بھی کفر وشرک کی تاریکیاں دور ہوئیں، علاوہ ازیں اس چراغ سے کسب ضیاء کرکے جو شخص کمال وسعادت حاصل کرنا چاہے کرسکتا ہے اس لئے کہ یہ چراغ قیامت تک روشن رہے گا، سابق میں فرمایا تھا کہ اللہ کی رحمت مومنین کو اندھیرے سے نکال کر اجالے میں لاتی ہے، یہاں بتانا مقصود ہے کہ وہ اجالا اس روشن چراغ سے پھیلا ہے۔ بیہقی وقت قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں کہ آپ کی صفت داعی الی اللہ تو ظاہر اور زبان کے اعتبار سے ہے، اور سراج منیر آپ کی صفت آپ کے قلب مبارک کے اعتبار سے ہے کہ جس طرح سارا عالم آفتاب سے روشنی حاصل کرتا ہے اسی طرح تمام مومنین کے قلوب آپ کے نور قلب سے منورہ ہوتے ہیں، اسی لئے صحابہ کرام جنہوں نے اس عالم میں آپ کی صحبت پائی، وہ پوری امت سے اعلیٰ اور افضل قرار پائے، چونکہ ان کے قلوب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلوب مبارک سے بلا واسطہ فیض حاصل کیا، باقی امت کو یہ نور صحابہ کے واسطہ سے اور واسطہ در واسطہ سے پہنچا۔
سوال : کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول سراجاً منیراً میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چراغ سے تشبیہ دی ہے نہ کہ سورج سے حالانکہ سورج روشنی میں اتم اور اکمل ہے ؟
جواب : چراغ سے سورج ہی مراد ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول جَعَلْنَا الشمسَ سراجاً.
دوسرا جواب : چراغ میں یہ خوبی ہے کہ اس سے ہزارہا چراغ روشن کئے جاسکتے ہیں، بخلاف سورج کے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نور سے ہدایت و ادشاد کے ذریعہ صحابہ نے کسب فیض کیا اور صحابہ کے واسطہ سے تابعین علیٰ ہذا القیاس قیامت تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ
فیضان ہدایت جاری رہے گا۔
ولا۔۔۔ المنافقین بعض منافقین و مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین سے نرمی کا برتاؤ اور امتیازی سلوک کرنے کا مشورہ دیتے تھے کہ جب مکہ کے سردار آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کریں تو آپ ان فقراء کو اپنی مجلس سے اٹھادیا کیجئے، یا کم از کم دونوں کی مجلسیں الگ کردیجئے اس لئے کہ مکہ کے سردار ان فقراء کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ ان کے جسموں اور کپڑوں سے بدبو آتی ہے، جو ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے، مشرکین کی اسی بات کو رد کرنے کے لئے فرمایا گیا کہ آپ ان کا مشورہ نہ مانئے، اور ان کے ساتھ مداہنت اور نرمی سے کام نہ لیجئے اس لئے کہ اس میں مسلمانوں کی دل شکنی ہوگی، اور آپ ان کی موافقت و مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ پر بھروسہ کیجئے۔
یٰایھا۔۔۔ المؤمنٰت (الآیۃ) سابقہ آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چند صفات کمال اور مخصوص شان کا ذکر تھا، آئندہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چند خصوصیات کا ذکر ہے جو نکاح و طلاق سے تعلق رکھتی ہیں، عام امت کی بہ نسبت آپ کو ان میں ایک امتیاز حاصل ہے، اس سے طلاق سے متعلق ایک عام حکم ذکر کیا گیا ہے، جو سب مسلمانوں کے لئے عام ہے۔
آیت مذکورہ میں اس کے متعلق تین احکام بیان کئے گئے ہیں :
پہلا حکم : اگر کسی عورت سے نکاح کرلینے کے بعد خلوت صحیحہ سے پہلے ہی کسی وجہ سے طلاق کی نوبت آجائے تو مطلقہ پر کوئی عدت واجب نہیں، اگر چاہے تو فوراً ہی نکاح کرسکتی ہے، آیت میں ہاتھ لگانے سے صحبت حقیقی اور حکمی مراد ہے، اور صحبت حکمی سے خلوت صحیحہ اور صحبت حقیقی سے ہمبستری مراد ہے۔
دوسرا حکم : یہ ہے کہ مطلقہ کو شرافت اور حسن خلق کے ساتھ توفیق کچھ دیکر رخصت کردینا پر مطلقہ کے لئے مستحب ومسنون ہے، اور بعض صورتوں میں واجب ہے، نیز مومنات کی طرح کتابیات کا بھی یہی حکم ہے، آیت میں مومنات کی قید شرط کے طور پر نہیں ہے بلکہ ایک ترغیبی ہدایت ہے کہ مومن کے لئے اپنے نکاح کے لئے مسلمان عورت کا ہی انتخاب کرنا بہتر ہے، گو نکاح کتابیات سے بھی درست ہے، آیت قرآنی ” لفظ متاع “ کیا گیا ہے، یہ لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے ہر اس چیز کے لئے جس سے فائدہ اٹھایا جائے، اس میں عورت کے حقوق واجبہ وغیرہ بھی شامل ہیں، اگر اب تک مہر نہ دیا ہو تو طلاق کے وقت خوش دلی سے ادا کردے، اور غیر واجبہ حقوق مثلاً مطلقہ کو رخصت کرتے وقت کپڑوں کا ایک جوڑا حسب میثیت یا متوسط درجہ کا دینا مستحب ہے جو ہر مطلقہ کو دینا جاہئے، ” متعۂ طلاق “ سے مراد وہ لباس ہے جو عورت گھر سے نکلتے وقت لازمی طور پر پہنتی ہے جس میں ایک بڑی چارد کو پورا جسم چھپالے شامل ہے۔
اسلام حقوق انسانیت اور حسن معاشرت کا پاسدار ہے : دنیا میں حقوق کی ادائیگی عام طور پر صرف دوستوں عزیزوں اور
زیادہ سے زیادہ عام لوگوں تک محدود رہتی ہے، حسن اخلاق، حسن معاشرت کا سارا زور صرف یہیں تک خرچ ہوتا ہے، اپنے دشمنوں کے حقوق پہچاننا اس کے لئے قوانین بنانا صرف شریعت اسلام ہی کا کام ہے، اس زمانہ میں اگرچہ حقوق انسانیت کی حفاظت کے لئے دنیا میں مستقل ادارے قائم کئے گئے ہیں اور اس کے لئے کچھ ضابطے قاعدے بھی بنائے ہوئے ہیں، اس مقصد کے لئے اقوام عالم سے لاکھوں ڈالر کا سرمایہ بھی جمع کیا جاتا ہے، اول تو ان اداروں پر سیاسی مقاصد چھائے ہوئے ہیں، جو کچھ مصیبت زدگان کی امداد کی جاتی ہے وہ بھی بےغرض اور ہر جگہ نہیں بلکہ جہاں اپنے سیاسی مقاصد پورے ہوتے ہیں، اور بالفرض یہ ادارے بالکل صحیح طور پر بھی خدمت خلق انجام دیں تو ان کی امداد زیادہ سے زیادہ اسوقت پہنچ سکتی ہے جب کسی خطۂ زمین میں کوئی عام حادثہ طوفان وبائی امراض وغیرہ کا پیش آجائے، افراد و آحاد کی تکلیف کی کس کو خبر ہوتی ہے ؟ کون مدد کو پہنچ سکتا ہے ؟ شریعت اسلام کی حکیمانہ تعلیم دیکھئے کہ طلاق کا معاملہ ظاہر ہے کہ باہمی مخالفت کی بنیاد پر قائم ہوا تھا وہ اب اس کی نقیص بن کر نفرت، دشمنی، انتقامی جذبات کا مجموعہ بن جاتا ہے، قرآن کریم کی آیت مذکورہ اور اس قسم کی بہت سی آیات نے عین طلاق کے موقع پر مسلمانوں کو ہدایات دی ہیں ایسی ہیں کہ ان میں حسن خلق اور حسن معاشرت کا پورا امتحان ہوتا ہے، نفس کا تقاضہ ہوتا ہے کہ جس عورت نے ہمیں ستایا اذیت دی یہاں تک کہ قطع تعلق پر مجبور ہوئی اس کو خوب ذلیل کرکے نکالا جائے، اور جو انتقام اس سے لیا جاسکتا ہے لے لیا جائے۔ مگر قرآن کریم نے عام مطلقہ عورتوں کے لئے تو ایک بڑی پابندی عدت کی ایام عدت بھی شوہر کے مکان میں گذارنے کی لگادی، طلاق دینے والے پر فرض کردیا کہ اس مدت کے اندر عورت کو اپنے گھر سے نہ نکالے اور عورت کو بھی پابند کردیا کہ اس کے گھر سے نہ نکلے، دوسرے شوہر پر فرض کردیا کہ مدت عدت کا نفقہ بدستور جاری رکھے، تیسرے شوہر کے لئے مستحب کردیا کہ عدت پوری ہونے کے بعد بھی جب اس کو رخصت کرے تو ایک جوڑا لباس دیکر عزت کے ساتھ رخصت کرے۔
تیسرا حکم : یہ دیا گیا کہ سَرِّحُوْھُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلاً یعنی ان کو خوبی کے ساتھ رخصت کرو جس سے پابندی لگادی گئی کہ زبان سے بھی کوئی سخت بات نہ کہیں، طعن وتشنیع کا طریقہ اختیار نہ کریں، مخالفت کے وقت حقوق کی رعایت وہی کرسکتا ہے جو اپنے نفس کے جذبات پر قابو رکھے اسلام کی تمام تعلیمات میں اس کی رعایت رکھی گئی ہے۔
انآ۔۔۔ اجورھن آیات مذکورہ میں نکاح و طلاق وغیرہ سے متعلق ان سات احکامات کا ذکر ہے، جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہیں، اور یہ خصوصیت آپ کی ایک امتیازی شان اور خصوصی اعزاز کی علامت ہے، ان میں سے بعض احکام تو ایسے ہیں کہ ان کی خصوصیت تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بالکل واضح ہے، اور بعض ایسے ہیں جو اگرچہ سب مسلمانوں کے لئے عام ہیں مگر ان میں کچھ قیدیں، شرطیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہیں ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
پہلا حکم : انآ۔۔ لک (الآیۃ) ہم نے موجودہ ازواج کو جن کا آپ مہر ادا کرچکے ہیں آپ کے لئے حلال کردیا، یہ حکم بظاہر سب ہی مسلمانوں کے لئے عام ہے، مگر اس میں وجہ خصوصیت یہ ہے کہ نزول آیت کے وقت آپ کے نکاح میں چار سے زیادہ عورتیں تھیں اور عام مسلمانوں کیلئے چار سے زائد عورتوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا حلال نہیں، یہ آپ کی خصوصیت تھی کہ چار سے زائد عورتوں کو نکاح میں رکھنا آپ کے لئے حلال کردیا گیا۔
التی۔۔۔ اجورھن یہ قید احترازی نہیں ہے یعنی یہ مطلب نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت میں بعض ایسی عورتیں تھیں کہ
آپ نے جن کا مہر ادا نہیں کیا تھا، اس قید کے ذریعہ ان عورتوں کو آپ پر حرام کردیا گیا ہے بلکہ یہ قید تو بیان واقعہ کے لئے ہے یعنی حقیقت یہ تھی کہ آپ نے اپنی تمام ازواج کا مہر پہلے ہی ادا کردیا تھا، حضرت صفیہ اور حضرت جویریہ کا مہران کی آزادی کو قراردیا تھا، ان کے علاوہ کا بصورت نقد سب کا مہر ادا کیا، صرف ام حبیبہ کا مہر نجاشی نے ادا کیا۔
دوسرا حکم : وما۔۔۔ علیک یعنی اللہ نے آپ کے لئے وہ باندیاں بھی حلال کردیں جو اللہ نے آپ کو بطور فَی عطا کی ہیں، اَفَاءَ ، فَئْ سے مشتق ہے، اس کے معنی لوٹنے کے ہیں اور اصلاح میں اس مال کو کہتے ہیں جو کفار سے بغیر جنگ کے یا بطور مصالحت کے حاصل ہوجائے اور کبھی مطلق مال غنیمت کو بھی لفظ فَیْ سے تعبیر کردیتے ہیں، یہاں بھی فَئ کی قید شرط کے طور پر نہیں کہ آپ کے لئے صرف وہ باندیاں حلال ہوں جو بطور فئ حاصل ہوتی ہوں، بلکہ خرید کردہ باندی بھی اس حکم میں شامل ہے، یہ قید اغلبی اور اکثری ہے
مذکورہ حکم کی بظاہر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی خصوصیت معلوم نہیں ہوتی اس لئے کہ یہ حکم کہ جو باندی جس کے حصہ میں آئے یا خرید کر ملکیت میں آئے مالک کے لئے حلال ہوتی ہے، یہ حکم ہر مسلمان کے لیے عام ہے پھر ضصوصیت کے طور پر بیان کرنے کا کیا مقصد ہے ؟ روح المعانی میں باندیوں کی حلت سے متعلق یہ خصوصیت بیان فرمائی ہے کہ جس طرح آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات سے کسی امتی کا نکاح حلال نہیں اسی طرح آپ کے آپ کی کنیز بھی کسی کے لئے حلال نہیں، حکیم الامت حضرت تھانوی (رح) تعالیٰ نے بیان القرآن میں اور دو خصوصیت بیان فرمائی ہیں جو مذکورہ خصوصیات سے زیادہ واضح ہیں۔
اول : یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ اختیار خصوصی دیا گیا تھا کہ مال غنیمت کو تقسیم کرنے سے پہلے اگر آپ اس میں سے کسی چیز کو اپنے لئے انتخاب فرمالیں تو یہ آپ کی ملک خاص ہوجاتی تھی، اس خاص چیز کو اصلاح میں صفیُّ النبی کہا جاتا تھا، جیسا کہ غزوۂ خیبر کی غنیمت میں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صفیہ کو اپنے لئے مخصوص فرمالیا تھا، تو ملک یمین کے مسئلہ میں یہ آپ کی خصوصیت ہے۔
دوم : خصوصیت یہ کہ دارالحرب سے کسی غیر مسلم کی طرف سے اگر کوئی ہدیہ مسلمانوں کے امیر المومنین کے نام آئے تو حکم شرعی یہ ہے کہ اس کا مالک امیر المومنین نہیں ہوتا، بلکہ وہ بیت المال کی ملکیت ہوتا ہے، بخلاف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہ ایسا ہدیہ آپ کے لئے خصوصیت سے حلال کردیا گیا جیسا کہ ماریہ قبطیہ کا معاملہ ہے کہ مقوقس نے بطور ہدیہ و تحفہ آپ کی خدمت میں پیش کی تھی تو یہ آپ ہی کی ملکیت قرار پائیں۔ (واللہ اعلم) ۔ (بیان القرآن بحوالہ معارف القرآن)
تیسرا حکم : وبنات۔۔۔ عمتک اس آیت میں عَمٌّ اور خَالٌ کو مفرد اور عمات وخالات کو جمع لایا گیا ہے، اس کی مفسرین حضرات نے بہت سی توجیہات کی ہیں، تفسیر روح المعانی میں ابوحیان کی اس توجیہ کو اختیار کیا گیا ہے کہ عرب کا محاورہ اسی طرح ہے کہ عمّ کی جمع استعمال نہیں کرتے، اور اشعار سے استشہاد پیش کیا ہے، علامہ شیخ محمد بن ابی بکر بن عبدالقادر رازی صاحب المختار (رح) تعالیٰ نے انموذج میں یہ توحید کی ہے کہ عَمٌّ ضَمٌّ کے وزن پر مصدر ہے اور اسی طرح خَالٌ بروزن قَالٌ لہٰذا اس میں مفرد، تثنیہ، جمع سب برابر ہیں، بخلاف عَمِّۃٌ خالۃٌ کے اور اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا قول خَتَمَ اللہُ علیٰ قُلُوْبِھمْ وَعَلیٰ سَمْعِھِمْ وَعَلیٰ اَبْصَارِھِمْ ہے اور اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ جواب اللہ تعالیٰ کے قول اَوْ بُیُوْتِ اعْمَامِکُمْ اَوْبُیُوْتِ اَخْوَالِکُمْ سے منقوض ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ عَمٌّ اور خَالٌ حقیقت میں مصدر نہیں ہیں بلکہ مصدر کے وزن پر ہیں، لہٰذا یہاں بالمصدر ہونے کا اعتبار کیا گیا اور وہاں ان کی حقیقت یعنی مصدر نہ ہونے کا اعتبار کیا گیا ہے تاکہ ان کی دونوں پر عمل ہوجائے بخلاف سمعٌ کے چونکہ یہ حقیقۃً مصدر ہے لہٰذا قرآن کریم میں ہر جگہ مفرد ہی استعمال ہوا ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے لئے چچا اور پھوپھی کی لڑکیاں اور ماموں، خالہ کی لڑکیاں حلال کردی گئیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لڑکیوں سے نکاح کا حلال ہونا تو آپ کی خصوصیت نہیں ہے سب مسلمانوں کا یہی حکم ہے، لیکن اس میں یہ قید ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی ہو، خواہ آپ کے ساتھ یا پہلے یا بعد میں، ہمسفر رہنا شرط نہیں ہے، لہٰذا اب یہ خصوصیت ہوگی کہ عام مسلمانوں کے لئے تو مذکورہ لڑکیوں سے نکاح حلال ہے خواہ ہجرت کی ہو یا نہ کی ہو، مگر آپ کے لئے انہیں لڑکیوں سے نکاح حلال تھا کہ جنہوں نے ہجرت کی ہو، جیسا کہ آپ کے چچا ابو طالب کی بیٹی ام ہانی (رض) نے فرمایا کہ مجھ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح نہیں تھا کہ میں نے مکہ سے ہجرت نہیں کی تھی، بلکہ میرا شمار طلقاء میں تھا، طلقاء ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کو فتح مکہ کے وقت رسول اللہ نے انتم الطلقاء کہہ کر آزاد کردیا تھا نہ قتل کیا اور نہ غلام بنایا۔ (روح، حصاص)
اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح کے لئے مہاجرت کی شرط صرف آپ کے والدین کے خاندان کی لڑکیوں کے لئے تھی عام امت کی لڑکیوں میں ہجرت کی شرط نہ تھی، بلکہ ان کا صرف مسلمان ہونا کافی تھا۔
چوتھا حکم : وامر۔۔۔ للنبی (الآیۃ) یعنی اگر کوئی مسلمان عورت اپنے نفس کو آپ کے لئے ہبہ کردے یعنی بغیر مہر کے آپ سے نکاح کرنا چاہے اور آپ اس کو منظور فرمالیں تو آپ کے لئے بلا مہر بھی نکاح جائز ہے، اور یہ حکم آپ کے ساتھ خاص ہے دوسرے مومنوں کے لئے جائز نہیں ہے، اگر بلا ذکر مہر یا مہر کی نفی کے ساتھ نکاح ہوا تو مہر مثل دینا لازم ہوگا، علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آیایا نہیں، بعض نے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور بعض حضرات نے ایسا نکاح ثابت کیا ہے (روح المعانی) اس حکم کے ساتھ خَالِصَۃً کا جو جملہ آیا ہے اس کو بعض حضرات نے صرف اسی حکم چہارم کے ساتھ لگایا ہے، اور زمخشری وغیرہ نے اس جملہ کو ان تمام احکام کے ساتھ لگایا ہے جو اوپر مذکور ہوئے ہیں۔
پانچواں حکم : جو آیت مذکورہ میں مؤمنۃ کی قید سے مستفاد ہے، وہ یہ کہ اگرچہ عام مسلمانوں کے لئے یہود و نصاریٰ کی عورتوں یعنی کتابیات سے نکاح بنص قرآنی حلال ہے، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے عورت کا مومنہ ہونا شرط ہے کتابیہ سے آپ کا نکاح نہیں ہوسکتا تھا۔ مذکورہ پانچوں احکام کی خصوصیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد عام مسلمانوں کا حکم اجمالاً ذکر فرمایا قَد علِمنا ما فَرضنَا علیھِم (الآیۃ) یعنی احکام مذکورہ آپ کے لئے مخصوص ہیں، باقی مسلمانوں کے نکاح کے لئے جو ہم نے فرض کیا ہے وہ ہم جانتے ہیں، مثلاً عام مسلمانوں کا نکاح بغیر مہر کے نہیں ہوسکتا، اور کتابیات سے ان کا نکاح ہوسکتا ہے، مذکورہ جملہ متعلق اور متعلق کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔
چھٹا حکم : ترجی۔۔۔ ارجاء سے مشتق ہے، اس کے معنی مؤخر کرنے کے ہیں اور تُؤْوی ایوَاءٌ ہے جس کے معنی قریب کرنے اور ملانے
کے ہیں، اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک اور خصوصیات بیان کی گئی ہے، وہ یہ کہ ازواج مطہرات کے درمیان باری مقرر کرنے کے بارے میں آپ کو اختیار دیدیا گیا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس کی باری چاہیں موقوف کردیں یعنی اسے نکاح میں رکھتے ہوئے اس سے مباشرت نہ کریں اور جس سے چاہیں تعلق قائم رکھیں، اسی طرح آپ کو یہ اجازت بھی دیدی کہ جن بیویوں کی باری آپ نے موقوف کردی تھی اگر آپ چاہیں تو اس باری کو دوبارہ جاری کرسکتے ہیں، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رخصت سے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا اور ہمیشہ برابری کا التزام رکھا، صحیح بخاری میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگر کسی بی بی کی باری میں ان کے یہاں جانے سے کوئی عذر ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے اجازت لے لیتے تھے۔ اور یہ حدیث بھی سب کتب میں معروف ہے کہ مرض وفات میں جب آپ کے لئے چلنا پھرنا دشوار ہوگیا تو آپ نے سب ازواج سے اجازت حاصل کرکے حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر میں بیماری کے ایام گذارنا اختیار فرمایا تھا۔
ذلک۔۔۔ اعینھن اس کا تعلق بھی آپ کے اسی طرز عمل سے ہے کہ آپ پر تقسیم اگرچہ دوسروں کی طرح واجب نہیں تھی، اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تقسیم کو اختیار فرمایا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور آپ کے اس حسن سلوک اور عدل و انصاف سے خوش ہوجائیں کہ آپ نے خصوصی اختیارات استعمال کرنے کے بجائے ان کی دلجوئی اور دلداری کا اہتمام فرمایا، بعض حضرات نے مذکورہ آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تقسیم نوبت کی فرضیت کو ختم کردینے اور آپ کو ہر طرح کا اختیار دیدینے کی علت اور حکمت کا بیان ہے کہ آپ کو عام اختیار دینے کی مصلحت یہ ہے کہ سب ازواج مطہرات کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اوت جتنا کچھ ان کو حصہ ملے اس پر راضی رہیں۔ یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ یہ حکم تو بظاہر ازواج مطہرات کی مرضی اور منشاء کے خلاف بلکہ ان کے لئے رنج کا سبب ہوسکتا ہے، اس کو ازواج کی خوشی کا سبب کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل ناراضگی کا اصل سبب اپنا استحقاق ہوتا ہے اور جب کسی پر استحقاق ہی نہ ہو تو رنج و غم کی کوئی بات ہی نہیں، بلکہ پھر جو کچھ بھی مہربانی کردے وہ خوشی ہی خوشی ہے، یہاں بھی جب بتلادیا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر برابری رکھنا ضروری نہیں ہے بلکہ آپ مختار ہیں تو اب جس بیوی کا جتنا حصہ بھی آپ کی توجہ اور صحبت کا ملے وہ اس کو ایک احسان وتبرع سمجھ کر خوشی ہوگی۔
واللہ۔۔۔ قلوبکم (الآیۃ) آیات مذکورہ میں اوپر سے یہاں تک ان احکام کا ذکر چلا آتا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح کے سلسلہ میں کسی نہ کسی قسم کی خصوصیات رکھتے ہیں، آئندہ بھی بعض ایسے ہی احکام کا ذکر آرہا ہے، درمیان میں یہ آیت کہ ” اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کا حال جانتا ہے اور علیم و حلیم ہے “ بظاہر ماقبل اور مابعد سے کوئی ربط اور جوڑ نہیں رکھتا، روح المعانی میں ہے کہ احکام مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار سے زائد ازواج کی اجازت اور بلا مہر کے نکاح کی اجازت سے کسی کے دل میں شیطانی وساوس پیدا ہوسکتے تھے، اس لئے درمیان میں اس آیت نے یہ ہدایت دیدی کہ مسلمان اپنے دلوں کی ایسے وساوس سے حفاظت کریں، اور اس پر ایمان پختہ رکھیں، کہ یہ سب خصوصیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، جو بہت سی مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہیں نفسانی خواہشات کی تکمیل کا یہاں گذر نہیں۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زاہدانہ زندگی اور اس کے ساتھ تعداد ازواج : اعداء اسلام نے ہمیشہ مسئلہ تعدد ازواج اور خصوصاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کثرت ازواج کو اسلام کی مخالفت میں موضوع بحث بنایا ہے، لیکن اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری زندگی کو سامنے رکھا جائے تو کسی شیطان کو بھی شان رسالت کے خلاف وسوسہ پیدا کرنے کی گنجائش نہیں رہتی، صحیح احادیث اور معتبر روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلا نکاح عنفواں شباب پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ (رض) سے کیا جو بیوہ، سن رسیدہ، صاحب اولاد تھیں، اور آپ سے پہلے دو شوہروں کے نکاح میں رہ چکی تھیں، اور پچاس سال کی عمر تک صرف اسی بیوہ اور سن رسیدہ بیوی کے ساتھ شباب کا پورا زمانہ گذارا یہ پچاس سالہ دور مکہ کے لوگوں کے سامنے گذرا، چالیس سال کی عمر میں اعلان نبوت کے بعد شہر میں آپ کی مخالفت شروع ہوئی، اور مخالفین نے آپ کو ستانے اور عیب لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، شاعر کہا، کاہن کہا، مجنون کہا، مگر کھبی کسی دشمن کو بھی آپ کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کرنے کا موقع نہیں مل سکا جو تقویٰ و طہارت کو مشکوک کرسکے، پچاس سال عمر شریف گذرنے اور حضرت خدیجہ (رض) کی وفات کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سودہ (رض) سے نکاح فرمایا، یہ بھی بیوہ تھیں، ہجرت مدینہ اور عمر شریف چوّن سال ہوجانے کے بعد ٢ ھ میں حضرت صدیقہ عائشہ (رض) کی رخصتی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں ہوئی، اس کے ایک سال بعد حضرت حفصہ (رض) سے اور کچھ دنوں کے بعد حضرت زینب (رض) بنت خزیمہ سے نکاح ہوا، حضرت زینب (رض) چند ماہ بعد وفات پاگیئں، ٤ ھ میں حضرت ام سلمہ (رض) جو صاحب اولاد بیوہ تھیں آپ کے نکاح میں آئیں، ٥ ھ میں زینب (رض) بنت حجش سے بحکم خداوندی نکاح ہوا، جس کا ذکر سورة احزاب کے شروع میں آچکا ہے، اس وقت آپ کی عمر شریف اٹھاون سال تھی، آخری پانچ سال میں باقی ازواج مطہرات آپ کے حرم میں داخل ہوئیں۔ پیغمبر کی خانگی زندگی اور گھریلو معاملات سے متعلق احکام، دین کا ایک بہت بڑا حصہ ہوتے ہیں، ان نو ازواج مطہرات سے جس قدر دین کی اشاعت ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ صرف حضرت صدیقہ عائشہ (رض) سے دو ہزار دو سو دس احادیث اور حضرت ام سلمہ (رض) سے تین سو اڑسٹھ احادیث کی روایت معتبر کتب احادیث میں جمع ہیں، حضرت ام سلمہ (رض) نے جو احکام وفتاویٰ لوگوں کو بتلائے ان کے متعلق حافظ ابن قیم نے علام الموقعین میں لکھا ہے، کہ اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک مستقل کتاب بن جائے، دو سو سے زائد حضرات صحابہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے شاگرد ہیں، جنہوں نے حدیث، فقہ و فتاویٰ ان سے سیکھے ہیں۔
ساتواں حکم : لا۔۔۔ بعد (الآیۃ) یعنی اس کے بعد آپ کے لئے دوسری عورتوں سے نکاح حلال نہیں کہ موجودہ ازواج میں سے
کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری بدلیں، اس آیت میں لفظ مِنْ بَعْدُ کی دو تفسیریں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ من بعد سے مراد یہ ہو کہ ان عورتوں کے بعد جو اس وقت آپ کے نکاح میں ہیں اور کسی سے آپ کا نکاح حلال نہیں، بعض صحابہ سے یہی تفسیر منقول ہے، جیسا کہ حضرت انس (رض) نے فرمایا، آیت تخییر کے نزول کے بعد ازواج مطہرات نے دنیا کے اسباب عیش و راحت کے مقابلہ میں عسرت کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہنا پسند کیا تھا اس کا صلہ اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان ازواج کے علاوہ (جن کی تعداد اس وقت نو تھی) دیگر عورتوں سے نکاح کرنے یا ان میں سے کسی کو طلاق دیکر اس کی جگہ کسی اور سے نکاح سے منع فرمادیا، بعض حضرات کہتے ہیں کہ بعد میں آپ کو اختیار دیدیا گیا تھا، لیکن آپ نے کوئی نکاح نہیں کیا، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایت سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔
حضرت عکرمہ (رض) ، ابن عباس (رض) سے روایت میں لفظ من بعد کی یہ تفسیر نقل کرتے ہیں کہ مِنْ بعدِ الْاَ صنافِ المذکورۃِ یعنی شروع آیت میں آپ کے لئے عورتوں کی جتنی اقسام حلال کی گئی ہیں، اس کے بعد یعنی ان کے سوا کسی اور قسم کی عورت سے آپ کا نکاح حلال نہیں، مثلاً شروع آیت میں اپنے خاندان کی عورتوں میں سے صرف وہ عورتیں حلال کی گئیں جنہوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی، اسی طرح مومنہ کی قید لگا کر آپ کے لئے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح ناجائز قرار دیدیا گیا، تو آیت میں مِنْ بعد کا مطلب یہ ہے کہ جتنی قسمیں آپ کے لئے حلال کردی گئی ہیں صرف انہی سے آپ کا نکاح ہوسکتا ہے، اس تفسیر کے مطابق یہ سابقہ حکم ہی کی تاکید ہے کوئی نیا حکم نہیں، وَلَا اَنْ تَبَدَّلَ ازواج کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح حلال ہے، مگر یہ جائز نہیں کہ ایک کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری کو بدلیں، اور اگر پہلی تفسیر مراد لیں تو معنی یہ ہوں گے کہ آئندہ نہ کسی عورت کا اضافہ کرسکتے ہیں اور نہ کسی کی تبدیلی کرسکتے ہیں کہ ان میں سے کسی کو طلاق دیکر اس کی جگہ دوسری کرلیں (واللہ اعلم) ۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ تہلیل و تحمید اور تسبیح و تکبیر وغیرہ کے ذریعے سے کہ جن میں سے ہر کلمہ تقرب الٰہی کا وسیلہ ہے نہایت کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں۔ قلیل ترین ذکر یہ ہے کہ انسان صبح شام اور نمازوں کے بعد کے اذکار کا التزام کرے نیز مختلف عوارض اور اسباب کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے۔ اور مناسب یہی ہے کہ تمام اوقات اور تمام احوال میں اللہ تعالیٰ کے ذکر پر دوام کرے، کیونکہ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے ذریعے سے عمل کرنے والا آرام کرتے ہوئے بھی سبقت لے جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی معرفت کی طرف دعوت دیتا ہے، بھلائی پر مددگار ہے اور زبان کو گندی باتوں سے باز رکھتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! Allah ko khoob kasrat say yaad kiya kero ,
12 Tafsir Ibn Kathir
بہترین دعا۔
بہت سی نعمتوں کے انعام کرنے والے اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ہمیں اس کا بکثرت ذکر کرنا چاہئے اور اس پر بھی ہمیں نعمتوں اور بڑے اجرو ثواب کا وعدہ دیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تمہارے بہتر عمل اور بہت ہی زیادہ پاکیزہ کام اور سب سے بڑے درجے کی نیکی اور سونے چاندی کو راہ اللہ خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر اور جہاد سے بھی افضل کام نہ بتاؤں ؟ لوگوں نے پوچھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کیا ہے ؟ فرمایا اللہ عزوجل کا ذکر (ترمذی ابن ماجہ وغیرہ) یہ حدیث پہلے والذاکرین کی تفسیر میں بھی گذر چکی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں۔ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دعا سنی ہے جسے میں کسی وقت ترک نہیں کرتا۔ دعا یہ ہے ( اللہم اجعلنی اعظم شکرک واتبع نصیحتک واکثر ذکرک واحفظ وصیتک) یعنی اے اللہ تو مجھے اپنا بہت بڑا شکر گزار، فرماں بردار، بکثرت ذکر کرنے والا اور تیرے احکام کی حفاظت کرنے والا بنا دے۔ (ترمذی وغیرہ) دو اعرابی رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ ایک نے پوچھا سب سے اچھا شخص کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو لمبی عمر پائے، اور نیک اعمال کرے۔ دوسرے نے پوچھاحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احکام اسلام تو بہت سارے ہیں مجھے کوئی چوٹی کا حکم بتا دیجئے کہ اس میں چمٹ جاؤں آپ نے فرمایا ذکر اللہ میں ہر وقت اپنی زبان کو تر رکھ (ترمذی) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ذکر میں ہر وقت مشغول رہو یہاں تک کہ لوگ تمہیں مجنوں کہنے لگیں (مسند احمد) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا بہ کثرت ذکر کرو یہاں تک کہ منافق تمہیں ریا کار کہنے لگیں۔ (طبرانی) فرماتے ہیں جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور وہاں اللہ کا ذکر نہ کریں وہ مجلس قیامت کے دن ان پر حسرت افسوس کا باعث بنے گی۔ (مسند) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ما فرماتے ہیں ہر فرض کام کی کوئی حد ہے۔ پھر عذر کی حالت میں وہ معاف بھی ہے لیکن ذکر اللہ کی کوئی حد نہیں نہ وہ کسی وقت ٹلتا ہے۔ ہاں کوئی دیوانہ ہو تو اور بات ہے۔ کھڑے بیٹھے لیٹے رات کو دن کو خشکی میں تری میں سفر میں حضر میں غنا میں فقر میں صحت میں بیماری پوشیدگی میں ظاہر میں غرض ہر حال میں ذکر اللہ کرنا چاہیے۔ صبح شام اللہ کی تسبیح بیان کرنی چاہیے۔ تم جب یہ کرو گے تو اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا اور فرشتے تمہارے لئے ہر وقت دعاگو رہیں گے۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی احادیث و آثار ہیں۔ اس آیت میں بھی بکثرت ذکر اللہ کرنے کی ہدایت ہو رہی ہے۔ بزرگوں نے ذکر اللہ اور وظائف کی بہت سی مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ جیسے امام نسائی امام معمری وغیرہ۔ ان سب میں بہترین کتاب اس موضوع پر حضرت امام نووی (رح) کی ہے، صبح شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ جیسے فرمایا ( فسبحان اللہ حین ( فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ 17) 30 ۔ الروم :17) اللہ کے لئے پاکی ہے۔ جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو، اسی کے لئے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور بعد از زوال اور ظہر کے وقت، پھر اس کی فضیلت بیان کرنے اور اس کی طرف رغبت دلانے کے لئے فرماتا ہے وہ خود تم پر رحمت بھیج رہا ہے۔ یعنی جب وہ تمہاری یاد رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ تم اس کے ذکر سے غفلت کرو ؟ جیسے فرمایا ( كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ\015\01ړ) 2 ۔ البقرة :151) جس طرح ہم نے تم میں خود تمہی میں سے رسول بھیجا جو تم پر ہماری کتاب پڑھتا ہے اور وہ سکھاتا ہے جسے تم جانتے ہی نہ تھے۔ پس تم میرا ذکر کرو میں تمہاری یاد کروں گا اور تم میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔ حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اس کی جماعت سے بہتر ہوتی ہے۔ صلوۃ جب اللہ کی طرف مضاف ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھلائی اپنے فرشتوں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ اور قول میں ہے مراد اس کی رحمت ہے۔ اور دونوں قولوں کا انجام ایک ہی ہے۔ فرشتوں کی صلوۃ ان کی دعا اور استغفار ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ ) 40 ۔ غافر :7) ، عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس والے اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرتے ہیں، اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومن بندوں کے لئے استغفار کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے ہر چیز کو رحمت و علم سے گھیر لیا ہے۔ اے اللہ تو انہیں بخش جو توبہ کرتے ہیں اور تیری راہ پر چلتے ہیں۔ انہیں عذاب جہنم سے بھی نجات دے۔ انہیں ان جنتوں میں لے جا جن کا تو ان سے وعدہ کرچکا ہے۔ اور انہیں بھی ان کے ساتھ پہنچا جو ان کے باپ دادوں بیویوں اور اولادوں میں سے نیک ہیں، انہیں برائیوں سے بچا لے۔ وہ اللہ اپنی رحمت کو تم پر نازل فرما کر اپنے فرشتوں کی دعا کو تمہارے حق میں قبول فرما کر تمہیں جہالت و ضلالت کی اندھیریوں سے نکال کر ھدایت و یقین کے نور کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں مومنوں پر رحیم و کریم ہے۔ دنیا میں حق کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے اور روزیاں عطا فرماتا ہے اور آخرت میں گھبراہٹ اور ڈر خوف سے بچا لے گا۔ فرشتے آکر انہیں بشارت دیں گے کہ تم جہنم سے آزاد ہو اور جنتی ہو۔ کیونکہ ان فرشتوں کے دل مومنوں کی محبت و الفت سے پُر ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ اپنے اصحاب کے ساتھ راستے سے گزر رہے تھے۔ ایک چھوٹا بچہ راستے میں تھا اس کی ماں نے ایک جماعت کو آتے ہوئے دیکھا تو میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی اور بچے کو گود میں لے کر ایک طرف ہٹ گئی۔ ماں کی اس محبت کو دیکھ کر صحابہ نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیال تو فرمائیے کیا یہ اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مطلب کو سمجھ کر فرمانے لگے قسم اللہ کی ! اللہ تعالیٰ بھی اپنے دوستوں کو آگ میں نہیں ڈالے گا۔ ( مسند احمد) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قیدی عورت کو دیکھا کہ اس نے اپنے بچے کو دیکھتے ہی اٹھا لیا اور اپنے کلیجے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی آپ نے فرمایا بتاؤ تو اگر اس کے اختیار میں ہو تو کیا یہ اپنی خوشی سے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ صحابہ نے کہا ہرگز نہیں آپ نے فرمایا قسم ہے اللہ کی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے، اللہ کی طرف سے ان کا ثمرہ جس دن یہ اس سے ملیں گے سلام ہوگا۔ جیسے فرمایا (سلام قولا من رب رحیم) قتادہ (رض) فرماتے ہیں آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرے گا۔ اس کی تائید بھی آیت ( دَعْوٰىھُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ\0\010 ) 10 ۔ یونس :10) ، سے ہوتی ہے۔ اللہ نے ان کے لئے اجر کریم یعنی جنت مع اس کی تمام نعمتوں کے تیار کر رکھی ہے۔ جن میں سے ہر نعمت کھانا پینا پہننا اوڑھنا عورتیں لذتیں منظر وغیرہ ایسی ہیں کہ آج تو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتیں۔ چہ جائیکہ دیکھنے میں یا سننے میں آئیں۔