الصافات آية ۱۳۹
وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَۗ
طاہر القادری:
اور یونس (علیہ السلام بھی) واقعی رسولوں میں سے تھے،
English Sahih:
And indeed, Jonah was among the messengers.
1 Abul A'ala Maududi
اور یقیناً یونسؑ بھی رسولوں میں سے تھا
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک یونس پیغمبروں سے ہے،
3 Ahmed Ali
اور بے شک یونس بھی رسولوں میں سے تھا
4 Ahsanul Bayan
اور بلاشبہ یونس (علیہ السلام) نبیوں میں سے تھے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور یونس بھی پیغمبروں میں سے تھے
6 Muhammad Junagarhi
اور بلاشبہ یونس (علیہ السلام) نبیوں میں سے تھے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور یقیناً یونس(ع) (بھی) پیغمبروں میں سے تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور بیشک یونس علیھ السّلام بھی مرسلین میں سے تھے
9 Tafsir Jalalayn
اور یونس بھی پیغمبروں میں سے تھے
آیت نمبر 139 تا 182
ترجمہ : بلاشبہ یونس (علیہ السلام بھی) پیغمبروں میں سے ہیں (اس وقت کو یاد کرو) جب (یونس علیہ السلام) بھاگ کر بھری ہوئی کشتی کے پاس پہنچے جبکہ وہ اپنی قوم ناراض ہوئے، جب ان پر وہ عذاب نازل نہ ہوا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو کشتی پر سوار ہوگئے کشتی دریا کے بیچوں بیچ جاکر ٹھہرگئی، تو ملاحوں نے کہا کشتی میں کوئی ایسا شخص ہے جو آقا سے بھاگا ہوا ہے، جس کو قرعہ ظاہر کر دے گا، چناچہ کشتی والوں نے قرعہ اندازی کی تو یہ قرعہ کے ذریعہ مغلوب ہوگئے، چناچہ ان کو دریا میں ڈال دیا، تو ان کو مچھلی نے نگل لیا، حال یہ کہ وہ قابل ملامت کام کرنے والے تھے، یعنی اپنے رب کی اجازت کے بغیر دریا کی جانب جانے اور کشتی میں سوار ہونے کا ایسا کام کیا کہ جو قابل ملامت تھا اگر وہ مچھلی کے پیٹ میں بکثرت اپنے قول لاَ اِلٰہَ الاَّ انتَ سبحانَکَ انی کنٹ من الظالمینَ کے ذریعہ ذکر کرنے والے نہ ہوتے تو مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک رہتے (یعنی) مچھلی کا پیٹ قیامت تک ان کیلئے قبر بن جاتا تو ہم نے اس کو مچھلی کے پیٹ سے زمین یعنی ساحل پر اسی دن یا تین دن یا سات دن یا بیس دن یا چالیس دن بعد ڈالدیا اور وہ مضمحل تھے جیسا کہ بےبال ویر کا چوزا ہوتا ہے اور ہم نے ان پر (سایہ کیلئے) ایک بیلدار درخت بھی اگادیا تھا، اور وہ کدو کا درخت تھا جو ان پر سایہ فگن تھا، وہ بیل ان کے معجزے کے طور پر عام بیلوں کے برخلاف تنے دار تھی اور ان کے پاس صبح و شام ایک پہاڑی بکری آتی تھی (یونس علیہ السلام) اس کا دودھ پیتے تھے تاآنکہ آپ قوی ہوگئے، اور ہم نے ان کو اس (واقعہ) کے بعد پہلے کے مانند علاقہ موصل میں نینوا کے لوگوں کی طرف رسول بنا کر ایک لاکھ بلکہ بیس ہزار یا تیس ہزار سے زیادہ کی طرف بھیجا پھر وہ لوگ اس عذاب کو دیکھ کر جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا ایمان لے آئے تھے، تو ہم نے ان کو ان کے ان اسباب راحت سے جو ان کو حاصل تھے نفع حاصل کرنے کیلئے ایک مدت یعنی مدت عمر ختم ہونے تک زندہ رکھا آپ ان کفار مکہ سے توبیخاً دریافت کیجئے کیا آپ نے رب کیلئے بیٹیاں ہیں ؟ (یہ بات) ان کے اس قول کی بناء پر (لازم آتی) ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور (خود) ان کیلئے بیٹے ہیں ؟ یعنی ان کے لئے بیٹے خاص کر دئیے گئے ہیں، یا جب ہم نے فرشتوں کو مؤنث پیدا کیا تھا تو یہ ہماری تخلیق کا مشاہدہ کر رہے تھے ؟ جس کی وجہ سے یہ ایسی بات کرتے ہیں خوب سن لو یہ بہتان تراشی کر رہے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے یہ بات ان کے اس قول سے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں (لازم آرہی ہے) اور بلاشبہ اسمیں جھوٹے ہیں کیا اللہ نے بیٹیوں کو بیٹوں کے مقابلہ میں پسند کیا ہے ؟ (اصطفیٰ ) ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ استفہام کیلئے اس ہمزۂ استفہام کی وجہ سے ہمزۂ وصل سے استغناء ہوگیا جس کی وجہ سے (ہمزۂ استفہام) کو حذف کردیا گیا، اور (اصطفیٰ ) بمعنی اختیار ہے تم کو کیا ہوگیا ؟ کہ تم یہ کس قدر فاسد حکم لگاتے ہو پھر کیا تم اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے (تذکَّرون) میں تاء کو ذال میں ادغام کرکے کیا تمہارے پاس (اس بات پر) کوئی واضح دلیل ہے کہ اللہ کے اولاد ہے ؟ (تو جاؤ) اپنی کتاب تورات لے آؤ اور اس میں مجھے یہ بات دکھاؤ (کہ اللہ کیلئے ولد ہے) اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو اور مشرکین نے اللہ تعالیٰ اور جنات یعنی ملائکہ کے درمیان یہ کہہ کر رشتہ داری ثابت کی کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، فرشتوں کو جنات اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ بھی (جنوں کے مانند) نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں، حالانکہ جنات کا خود یہ عقیدہ ہے کہ وہ یعنی جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں وہ نار جہنم میں حاضر کئے جائیں گے (اور) اس میں عذاب دئیے جائیں گے، اللہ تعالیٰ ان تمام (صفات نقص) سے پاک ہے، جو یہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے، مگر اللہ کے مخلص بندے یعنی مومنین، المؤمنین مستثنیٰ منقطع ہے یعنی مومنین اس کی ان ناقص صفات سے پاکی بیان کرتے ہیں جن کو یہ اس کیلئے ثابت کرتے ہیں یقین مانو کہ تم سب مع ان بتوں کے جن کی تم بندگی کرتے ہو خدا سے کسی کو برگشتہ نہیں کرسکتے اور علیہ، اللہ کا قول فاتنین سے متعلق (مقدم) ہے، بجز اس کے جو علم الٰہی میں واصل بجہنم ہونے والے ہیں، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : ہم فرشتوں کی جماعت میں سے ہر ایک کا آسمانوں میں مقام متعین ہے اسی جگہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا ہے اس سے تجاوز نہیں کرتا اور ہم تو قدم سے قدم ملا کر نماز میں صف بستہ کھڑے ہیں اور ہم تو (اس کی) ان صفات سے پاکی بیان کرتے ہیں جو اس کی شایان شان نہیں ہیں اور یہ لوگ یعنی کافر کہا کرتے تھے اگر ہمارے پاس (بھی) امم سابقہ کی کتابوں میں کوئی کتاب ہوتی تو ہم بھی عبادت میں اللہ کے مخلص بندوں میں سے ہوتے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا پھر وہ اس کتاب (یعنی) قرآن کا جو آسمانی کتابوں میں اشرف ہے، ان کے پاس آئی انکار کر بیٹھے ان کو عنقریب اپنے کفر کا انجام معلوم ہوجائے گا اور البتہ ہمارا رسولوں سے مدد کا وعدہ بہت پہلے صادر ہوچکا ہے اور وہ وعدہ یہ ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب رہیں گے، یا وہ نصرت کا وعدہ اللہ تعالیٰ کا قول انَّھُمْ المنصُورُوْنَ (الآیۃ) ہے، کہ یقیناً ان ہی کی مدد کی جائے گی اور یقیناً ہمارا لشکر یعنی مومنین کفار پر حجت اور نصرت سے دنیا میں غالب رہیں گے، اور اگر ان میں سے بعض دنیا میں منصور نہ ہوئے تو آخرت میں (ضرور) ہوں گے آپ کفار مکہ سے کچھ وقت تک کہ جس میں آپ کو جہاد کی اجازت دی جائے تو کہ ہٹا لیجئے اور ان کو دیکھتے رہئے کہ ان پر عذاب کب نازل ہوتا ہے ؟ وہ بھی اپنے کفر کے انجام کو عنقریب دیکھ لیں گے تو انہوں نے استہزاء کہا یہ عذاب کب نازل ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کو دھمکانے کے طور پر فرمایا کیا یہ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں ؟ (سنو) جب عذاب ان کے صحن میں (یعنی ان پر) نازل ہوگا، فراء نے کہا ہے کہ عرب، قوم کے بجائے، ساحَۃ کے ذکر پر کفایت کرتے ہیں (یعنی ساحۃ بول کر قوم مراد لیتے ہیں) تو اس وقت ان لوگوں کی جن کو ڈرایا جا چکا تھا بری صبح ہوگی اس میں اسم ضمیر کی جگہ اسم ظاہر لایا گیا ہے، آپ کچھ وقت ان کا خیال چھوڑ دیجئے، اور دیکھتے رہئے یہ بھی عنقریب دیکھ لیں گے، کافروں کی تہدید اور آپ کی تسلی کیلئے اس جملہ کو مکرر لایا گیا ہے، آپ کا رب جو بہت بڑی عزت غلبہ والا ہے ان باتوں سے جو یہ کہتے ہیں مثلاً یہ کہ اسکی اولاد ہے پاک ہے اللہ کی توحید اور احکام کے پہنچانے والے رسولوں پر سلام ہو، رسولوں کی نصرت اور کافروں کی ہلاکت پر تمام تعریفوں کا مستحق اللہ رب العالمین ہے
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : انَّ یُوْنُس لمن المرسلین یونس ابن متّٰی تاء کی تشدید کے ساتھ بتثلیث النون، متّٰی یونس (علیہ السلام) کے والد کا نام ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کی والدہ کا نام ہے، اور کشف الاسرار میں ہے کہ ان کے والد کا نام متّٰی ہے اور ان کی والدہ کا نام تنجیس ہے، حضرت یونس (علیہ السلام) حضرت ہود (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں، ” ذوالنون “ اور ” صاحب الحوت “ بھی آپ کا ہی لقب ہے۔
قولہ : اذ ابق ماضی واحد مذکر غائب اپنے مولا سے بھاگا (س ض ن) اِلاِ باق غلام کا آقا سے بھاگنا، حضرت یونس (علیہ السلام) چونکہ اللہ تعالیٰ جو کہ مولائے حقیقی ہے کہ اجازت کے بغیر قوم کو چھوڑ کر چلے ائے تھے، اس لئے ان کو مجازاً آبق کہا گیا ہے اِذْ اَبَقَ اُذکر فعل محذوف کا ظرف ہے۔
قولہ : حین غاضَبَ قومہٗ ای غضب قومہٗ ، غَاضَبَ اپنے معنی میں نہیں ہے اسلئے کہ مفاعلۃ کی خاصیت طرفین سے فعل کا تقاضا کرتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ غاضب اپنے باب پر ہو، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) اور ان کی قوم دونوں آپس میں ایک دوسرے پر غصہ ہوئے۔ قولہ : ساھَمَ ، مُساھَمَۃً سے قرعہ اندازی کی۔
قولہ : المدحَضِیْنَ ، ادحَاضٌ (افعال) سے اسم مفعول، مغلوب ہونے والا، قرعہ اندازی میں ہارنے والا۔ (لغات القرآن)
قولہ : مُلِیْمٗ یہ التقمہٗ کی ضمیر مفعولی سے حال ہے۔ قولہ : مُلیمٌ اسم فاعل واحد مذکر غائب مصدر الامَۃٌ (افعال) مستحق ملامت، ایسا کام کرنے والا جس پر ملامت کی جائے، او ھو ملیم نفسہ۔
قولہ : کثیراً اس کا تعلق کان سے ہے (جمل) اور لا الٰہَ الاَّ انتَ الآیۃ یہ قول کا مقولہ ہے اور کثرت کے معنی باب تفعیل سے مستفاد ہیں۔ قولہ : بالعراء ای فی العراء، العراء المکانُ الخالی عَنِ النِبَاء والنبات والاشجارِ (چٹیل میدان) ۔
قولہ : کالفرخ الممعط بضم المیم الاولیٰ وتشدید الثانیۃ پر اکھڑا ہوا چوزہ، ممَّعَطْ اصل میں مُنْمَعَط تھا (انفعال) نون کو میم میں مدغم کردیا معط وامتعط ای سَقَطَ شعرہٗ من الداء ونحوہٖ ۔ (جمل)
قولہ : وَعِلَۃً پہاڑی بکری (ج) وعلات۔ قولہ : التوراۃ صحیح بات یہ ہے کہ یہاں تورات کہنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ مخاطب مشرکین ہیں اور وہ اہل کتاب نہیں ہیں۔
قولہ : ان کنتم صادقین، یہ جملہ شرطیہ ہے ماقبل کی دلالت کی وجہ سے جواب شرط محذوف ہے ای قالُوْا۔
قولہ : لَقَدْ علمت الجنَّۃُ انَّھُم لمحضرون واؤ حالیہ ہے، قد حرف تحقیق لام جواب قسم کا ہے اِنَّھُمْ لمحضرونَ انَّ اپنے اسم و خبر سے مل کر علمت کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے انَّ کی خبر پر لام داخل ہونے کی وجہ سے اِنَّ کے ہمزہ کو کسری دیدیا گیا ہے، ورنہ تو أنَّ ہونا چاہیے۔ قولہ : الا عباد اللہ المخلصین، محضرون سے مستثنیٰ منقطع ہے یعنی نیک بندے گرفتار شدگان میں نہیں ہیں، مستثنیٰ منہ، یا تو جَعَلُوْا کا فاعل ہے یا تصفُونَ کا فاعل ہے یا محضرون کی ضمیر ہے الاَّ عبَادَ اللہ المخلصینَ مستثنیٰ متصل بھی ہوسکتا ہے، جبکہ مُحّضَرُونَ سے مستثنیٰ ہو ای اِنَّھُم یحضرون النار الاَّ من اخلص اس صورت میں جملہ تسبیح جملہ معترضہ ہوگا۔ (فتح القدیر شوکانی)
قولہ : بفاتنین اسم فاعل جمع مذکر با زائدہ ہے مصدر فتنۃٌ ہے اس کا مفعول احدًا محذوف ہے جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کردیا ہے تم کسی کو (خدا) سے برگشتہ نہیں کرسکتے، گمراہ نہیں کرسکتے۔
قولہ : صالِ اسم فاعل داخل ہونے والا پہنچنے والا، اصل میں صَالِیٌ تھا، آخر سے یا حذف ہوگئی۔
قولہ : العِبَادَۃَ لہٗ مفسر علام نے مخلصین کے مفعول العبادۃ کو ظاہر کردیا ہے، مگر مفعول کی تقدیر اس صورت میں درست ہوگی کہ جب مخلصین کا لام کے کسرہ کے ساتھ پڑھیں جیسا کہ مدنی اور کوفی کے علاوہ کی قراءت ہے۔
قولہ : وفیہِ اقامۃُ الظاھر مقام المضمر زیادتی تقبیح کیلئے ضمیر کے بجائے اسم طاہر لائے ہیں، اصل میں فَس۔ اءَ صَبَاحھُم تھا، اور صباح سے مراد یوم یا وقت ہے۔
تفسیر و تشریح
وان یونس لمن المرسلین، یہ اس سورت کا آخری قصہ ہے، یہ واقعہ پہلے بی متعدد مقامات پر گزر چکا ہے، تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں، خلاصہ یہ ہے کہ بعض مفسرین نے اس پر بحث کی ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے واقعہ سے پہلے ہی نبی بنا دئیے گئے تھے یا بعد میں نبی بنائے گئے، لیکن قرآن کریم کے ظاہری اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ مچھلی کے واقعہ سے پہلے ہی آپ کو نبی بنادیا گیا تھا، اور بیشتر روایات سے بھی یہی راجح معلوم ہوتا ہے، اَبَقَ اِبَاقٌ سے مشتق ہے، اس کے معنی ہیں غلام کا اپنے آقا سے بھاگ جانا، یہاں یہ لفظ حضرت یونس (علیہ السلام) کیلئے صرف اس لئے استعمال ہوا ہے کہ آپ اپنے پروردگار کی طرف سے بذریعہ وحی اجازت سے پہلے روانہ ہوگئے تھے، انبیاء (علیہم السلام) چونکہ مقرب بندے ہوتے ہیں، ان کی معمولی سی لغزش بھی گرفت کا سبب بن جاتی ہی، مقولہ مشہور ہے، حسناتُ الابرارِ سیّئاتُ المقربینَ شیخ سعدی (رح) تعالیٰ نے فرمایا ہے : ؎
مقرباں را بیش بود حیرانی
حضرت یونس (علیہ السلام) عراق کے علاوہ نینویٰ (موضودہ موصل) میں نبی بنا کر بھیجے گئے تھے، یہ آشور یوں کا پایہ تخت تھا، انہوں نے ایک لاکھ اسرائیلیوں کو قیدی بنا رکھا تھا، چناچہ ان کی ہدایت و رہنمائی کیلئے یونس (علیہم السلام) کو بھیجا گیا، لیکن یہ قوم آپ پر ایمان نہیں لائی، بالآخر آپ نے اپنی قوم کو ڈرایا کہ عنقریب تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے، جب عذاب میں تاخیر ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ہی اپنے طور پر نکل گئے، اور سمندر پر جاکر ایک کشتی میں سوار ہوگئے، کشتی بیچ منجدھار میں خلاف عادت بلا سبب ظاہری کے رک گئی اور ڈگمگانے لگی، ملاحوں نے کہا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ایسی صورت اسی وقت پیش آتی ہے جب کشتی میں اپنے آقا سے مفرور کوئی غلام ہوتا ہے، لہٰذا اگر کشتی میں کوئی ایسا شخص ہے تو بتادے تاکہ کشتی میں سوار دیگر لوگوں کی جان بچ جائے ورنہ تو تمام کشتی والے غرق ہوجائیں گے، ازخود جب کوئی تیار نہ ہوا تو قرعہ اندازی کی گئی اور تین بار کی گئی ہر بار حضرت یونس (علیہ السلام) ہی کے نام قرعہ نکلا آخر کار مجبور ہو کر ان کو دریا میں ڈال دیا گیا، مگر قرآنی الفاظ اور سیاق وسباق سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کشتی میں گنجائش سے زیادہ وزن ہوجانے کی وجہ سے کشتی کا توازن بگڑ گیا تھا، جس کی وجہ سے کشتی کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہوگیا، وزن کم کرنے کیلئے کسی کو بھی دریا میں ڈالنے کی تجویز سامنے آئی تو قرین قیاس یہ بات تھی کہ جو شخص بعد میں آیا ہے اسی کو کم کردیا جائے ابق الی الفلک المشحون سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) ہی بعد میں آئے تھے، لہٰذا مناسب یہی معلوم ہوا ہوگا کہ یونس (علیہ السلام) ہی کو دریا میں ڈال دیا جائے مگر چونکہ حضرت یونس (علیہ السلام) شکل و صورت سے بھلے اور نیک معلوم ہوتے تھے اس لئے ہمت نہیں ہو رہی تھی اور ممکن ہے کہ کچھ ان کو جانتے بھی ہوں چناچہ عبد اللہ بن مسعود کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، فرماتے ہیں انَّہٗ اتی قومًا فی سفینۃ فحملوہ وعرفوہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشتی میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود پاس لحاظ کی خاطر حضرت یونس (علیہ السلام) کو کشتی میں سوار کرلیا، چناچہ جب یونس (علیہ السلام) کشتی پر سوار ہوگئے تو جب منجدھار میں پہنچی تو موجوں میں گھر کر کھڑی ہوگئی اور ڈگمگانے لگی، حضرت یونس (علیہ السلام) نے دریافت کیا کہ کشتی اس طرح کیوں ہو رہی ہے تو ملاحوں نے جواب دیا کہ نہ معلوم ایسا کیوں ہو رہا ہے، تب حضرت یونس (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے معلوم ہے یہ کشتی اس طرح کیوں کر رہی ہے، وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ کشتی میں اپنے مالک سے بھاگا ہوا غلام ہے، جس کی نحوست سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے، اور واللہ جب تک اس کو دریا میں نہ ڈالو گے کسی طرح چلے گی نہیں، اہل کشتی نے کہا اے نبی اللہ آپ کو تو ہم دریا میں نہیں ڈال سکتے، تب آپ نے فرمایا قرعہ اندازی کرلو جسکے نام قرعہ نکلے اسکو ڈالدو، چناچہ قرعہ ڈالا گیا، حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام کلا احتیاطاً تین مرتبہ قرعہ ڈالا گیا ہر بار یونس (علیہ السلام) ہی کے نام نکلا، لہٰذا حضرت یونس (علیہ السلام) نے خود اپنے کو دریا میں ڈال دیا، (روح المعانی ملخصاً ) ادھر واقعہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو حکم دیا کہ وہ یونس (علیہ السلام) کو اپنے پیٹ میں بحفاظت رکھ لے، وہ اسکی خوراک نہیں ہیں، آپ مچھلی کے پیٹ میں کتنے دن رہے، اس میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں : سدی، کلبی، مقاتل بن سلیمان نے کہا ہے کہ چالیس روز رہے، ضحاک نے کہا ہے بیس روز رہے، اور عطاء نے کہا ہے سات روز رہے، اور مقاتل بن حیان نے کہا ہے تین دن رہے۔
فنبَذْناہُ بالعراءِ وھُوَ سَقِیْم ” عراء “ بےآب وگیاہ چٹیل میدان کو کہتے ہیں، ہم نے ان کو چٹیل میدان میں مضمحل حالت میں ڈال دیا، بعض حضرات کو یہ شبہ ہوا کہ اس آیت میں اور دوسری آیت لَوْ لآ ان تدارکَہٗ نعمۃٌ من ربہ لنبذ بالعراء وھو مذمومٌ یہ آیت چٹیل میدان میں نہ ڈالنے پر اور پہلی آیت ڈالنے پر دلالت کرتی ہے، نحاس وغیرہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس بات کی خبر دی ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو میدان میں ڈال دیا، حال یہ ہے کہ وہ مذموم نہیں تھے، اور دوسری آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو حالت مذمومہ میں ڈالے جاتے لہٰذا اب کوئی تعارض نہیں ہے۔ (فتح القدیر شوکانی)
قرعہ اندازی کا حکم : قرعہ اندازی کوئی حجت شرعیہ نہیں ہے، قرعہ اندازی کے ذریعہ نہ کسی کا حق ثابت کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی کو حق سے محروم کیا جاسکتا ہے، مثلاً یہ کہ قرعہ اندازی کسی کو چور ثابت کیا جائے، یا مثلاً دو فریقوں کے درمیان ملکیت کا جھگڑا ہو تو اس کا فیصلہ بھی ہو اور وہ جس طریقہ کو اپنے اختیار سے متعین کرنا چاہے تو کرسکے، ایسی صورت میں اگر قرعہ اندازی کے ذریعہ کسی ایک صورت کو ترجیح دینا چاہیے تو اس کو اختیار ہے مثلاً اگر کسی کی ایک سے زائد بیویاں ہوں اس کو شرعی اختیار حاصل ہے کہ وہ جس بیوی کو چاہے سفر میں ساتھ لیجائے، البتہ اگر قرعہ اندازی سے متعین کرے تو بہتر و افضل ہے تاکہ شکایت کا موقع نہ ہو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی یہی عادت مبارکہ تھی۔
حضرت یونس (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی قرعہ اندازی سے کسی کو مجرم ثابت کرنا مقصود نہیں تھا، بلکہ پوری کشتی کو بچانے کے لئے کسی کو بھی دریا میں ڈالا جاسکتا تھا، قرعہ کے ذریعہ اس کی تعیین کی گئی۔ (معارف)
فلولا انَّہٗ کانَ من المسبِّحیْنَ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مصائب و آلام کو دفع کعنے میں تسبیح و استغفار کو خاص اہمیت حاصل ہے، سورة انبیاء میں یہ گزر چکا ہے کہ جب حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں تھے تو یہ کلمہ خاص طور پر پڑھتے تھے، لآ اِلٰہَ الاَّ انتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ من الظَّالمینَ اللہ تعالیٰ نے اسی کلمہ کی برکت سے انہیں آزمائش سے نجات دی۔
ابو داؤد میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت یونس (علیہ السلام) نے جو دعاء مچھلی کے پیٹ میں کی تھی یعنی لا الٰہَ الاَّ انتَ سُبْحَانَکَ اِنّیْ کُنْتُ من الظَّالِمِینَ اسے جو مسلمان بھی کسی مقصد کے لئے پڑھے گا اس کی دعاء قبول ہوگی۔ (قرطبی)
فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعنھم الیٰ حین یعنی جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان کو ایک زمانہ تک عیش و آرام دیا یعنی جب تک وہ دوبارہ کفر کے مرتکب نہ ہوگئے، اس وقت تک ہم نے ان کو خوش عیش اور خوشحال رکھا۔
فاتوا۔۔۔ صدقین، مطلب یہ ہے کہ عقل تو اس عقیدے کی صحت کو تسلیم نہیں کرتی کہ اللہ کی اولاد ہے، اور وہ بھی مؤنث (لاؤ) کوئی نقلی دلیل ہی دکھا دو یعنی کوئی کتاب جو اللہ نے اتاری ہو، اس میں اللہ کی اولاد کا اعتراف یا حوالہ ہو، قریش اور بعض قبائل عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، ان کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جنات سے رشتہ ازدواج قائم کیا، جس سے لڑکیاں پیدا ہوئیں، یہی بنات اللہ فرشتے ہیں، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے اور اس بات کو جنات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں سزا بھگتنے
کیلئے ضرور جہنم میں جانا پڑے گا، اگر اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری ہوتی تو یہ صورت حال نہ ہوتی۔
سبحن اللہ عما یصفون یہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں صفات نقص بیان کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے بالکل پاک اور بری ہے، اللہ کے مخلص بندے اللہ کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کرتے، یہ مشرکین ہی کا شیوہ ہے کہ اللہ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں (یا مطلب یہ ہے) کہ جہنم میں جنات اور مشرکین ہی حاضر کئے جائیں گے، اللہ کے برگزیدہ بندے نہیں، ان کیلئے تو اللہ نے جنت تیار کر رکھی ہے، اس صورت میں لمحضرون سے استثناء ہے اور تسبیح جملہ معترضہ ہے۔
لو انَّ عند نا ذکرًا من الاولین، یعنی یہ کفار نزول قرآن سے پہلے کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس بھی اگر کوئی آسمانی کتاب ہوتی جیسا کہ پہلے لوگوں کیلئے تورات وغیرہ نازل ہوئی تھیں یا کوئی ہادی و منذر ہمیں وعظ و نصیحت کرنے والا ہوتا تو ہم بھی اس کے خالص بندے بن جاتے، مگر جب ان کی آرزو اور تمنا کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہادی و رہبر بن کر آئے اور قرآن بھی نازل کردیا گیا، تو ان پر ایمان لانے کی بجائے ان کا انکار کردیا۔
فاذا نزل۔۔۔۔ المنذرین فرّاء نے کہا ہے کہ عرب ” لفظ قوم “ کے بجائے سَاحۃٌ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، چناچہ مسلمان جب خیبر پر حملہ آور ہوئے تو یہودی مسلمانوں کو دیکھ کر گھبراگئے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا : خَرِبت خبیرُ انَّا اِذَا نزلنَ ابسَاحَۃِ قومٍ فساءَ صباحُ المُنذَرینَ ۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ)
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اپنے بندے اور یونس بن مَتّیٰ کی مدح و ثنا ہے، جیسا کہ اس نے آپ کے بھائی دیگر انبیاء و مرسلین کو نبوت، رسالت اور دعوت الی اللہ کے ذریعے سے مدح و ثنا سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ذکر فرمایا کہ اس نے حضرت یونس علیہ السلام کو دنیاوی عقوبت میں مبتلا کیا، پھر آپ کے ایمان اور اعمال صالحہ کے سبب سے آپ کو اس عذاب سے نجات دی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur yaqeenan Younus bhi payghumberon mein say thay ,
12 Tafsir Ibn Kathir
واقعہ حضرت یونس (علیہ السلام) ۔
حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصہ سورة یونس میں بیان ہوچکا ہے۔ بخاری مسلم میں حدیث ہے کہ کسی بندے کو یہ لائق نہیں کہ وہ کہے میں یونس بن متی سے افضل ہوں۔ یہ نام ممکن ہے آپ کی والدہ کا ہو اور ممکن ہے والد کا ہو۔ یہ بھاگ کر مال و اسباب سے لدی ہوئی کشتی پر سوار ہوگئے۔ وہاں قرعہ اندازی ہوئی اور یہ مغلوب ہوگئے کشتی کے چلتے ہی چاروں طرف سے موجیں اٹھیں اور سخت طوفان آیا۔ یہاں تک کہ سب کو اپنی موت کا اور کشتی کے ڈوب جانے کا یقین ہوگیا۔ سب آپس میں کہنے لگے کہ قرعہ ڈالو جس کے نام کا قرعہ نکلے اسے سمندر میں ڈال دو تاکہ سب بچ جائیں اور کشتی اس طوفان سے چھوٹ جائے۔ تین دفعہ قرعہ اندازی ہوئی اور تینوں مرتبہ اللہ کے پیارے پیغبمر حضرت یونس (علیہ السلام) کا ہی نام نکلا۔ اہل کشتی آپ کو پانی میں بہانا نہیں چاہتے تھے لیکن کیا کرتے بار بار کی قرعہ اندازی پر بھی آپ کا نام نکلتا رہا اور خود آپ کپڑے اتار کر باوجود ان لوگوں کے روکنے کے سمندر میں کود پڑے۔ اس وقت بحر اخضر کی ایک بہت بڑی مچھلی کو جناب باری کا فرمان سرزد ہوا کہ وہ دریاؤں کو چیرتی پھاڑتی جائے اور حضرت یونس کو نگل لے لیکن نہ تو ان کا جسم زخمی ہو نہ کوئی ہڈی ٹوٹے۔ چناچہ اس مچھلی نے پیغمبر اللہ کو نگل لیا اور سمندروں میں چلنے پھرنے لگی۔ جب حضرت یونس پوری طرح مچھلی کے پیٹ میں جا چکے تو آپ کو خیال گذرا کہ میں مرچکا ہوں لیکن جب ہاتھ پیروں کو حرکت دی اور ہلے جلے تو زندگی کا یقین کر کے وہیں کھڑے ہو کر نماز شروع کردی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ اے پروردگار میں نے تیرے لئے اس جگہ مسجد بنائی ہے جہاں کوئی نہ پہنچا ہوگا۔ تین دن یا سات دن یا چالیس دن ایک ایک دن سے بھی کم یا صرف ایک رات تک مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ اگر یہ ہماری پاکیزگی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے، یعنی جبکہ فراخی اور کشادگی اور امن وامان کی حالت میں تھے اس وقت ان کی نیکیاں اگر نہ ہوتیں ایک حدیث بھی اس قسم کی ہے جو عنقریب بیان ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ابن عباس کی حدیث میں ہے آرام اور راحت کے وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو تو وہ سختی اور بےچینی کے وقت تمہاری مدد کرے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ پابند نماز نہ ہوتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر مچھلی کے پیٹ میں نماز نہ پڑھتے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ (لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87ښ) 21 ۔ الأنبیاء :87) کے ساتھ ہماری تسبیح نہ کرتے چناچہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں ہے کہ اس نے اندھیروں میں یہی کلمات کہے اور ہم نے اس کی دعا قبول فرما کر اسے غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیتے ہیں۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت یونس نے جب مچھلی کے پیٹ میں ان کلمات کو کہا تو یہ دعا عرش اللہ کے اردگرد منڈلانے لگی اور فرشتوں نے کہا اللہ یہ آواز تو کہیں بہت ہی دور کی ہے لیکن اس آواز سے ہمارے کان آشنا ضرور ہیں۔ اللہ نے فرمایا اب بھی پہچان لیا یہ کس کی آواز ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں پہچانا فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے نیک اعمال اور مقبول دعائیں ہمیشہ آسمان پر چڑھتی رہتی تھیں ؟ اللہ اس پر تو ضرور رحم فرما اس کی دعا قبول کر وہ تو آسانیوں میں بھی تیرا نام لیا کرتا تھا۔ اسے بلا سے نجات دے۔ اللہ نے فرمایا ہاں میں اسے نجات دوں گا۔ چناچہ مچھلی کو حکم ہوا کہ میدان میں حضرت یونس کو اگل دے اور اس نے اگل دیا اور وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کی نحیفی کمزوری اور بیماری کی وجہ سے چھاؤں کے لئے کدو کی بیل اگا دی اور ایک جنگلی بکری کو مقرر کردیا جو صبح شام ان کے پاس آجاتی تھی اور یہ اس کا دودھ پی لیا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت سے یہ واقعات مرفوع احادیث سے سورة انبیاء کی تفسیر میں بیان ہوچکے ہیں۔ ہم نے انہیں اس زمین میں ڈال دیا جہاں سبزہ روئیدگی گھاس کچھ نہ تھا۔ دجلہ کے کنارے یا یمن کی سر زمین پر یہ لادے گئے تھے۔ وہ اس وقت کمزور تھے جیسے پرندوں کے بچے ہوتے ہیں۔ یا بچہ جس وقت پیدا ہوتا ہے۔ یعنی صرف سانس چل رہا تھا اور طاقت ہلنے جلنے کی بھی نہ تھی۔ یقطین کدو کے درخت کو بھی کہتے ہیں اور ہر اس درخت کو جس کا تنہ نہ ہو یعنی بیل ہو اور اس درخت کو بھی جس کی عمر ایک سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ کدو میں بہت سے فوائد ہیں یہ بہت جلد اگتا اور بھڑتا ہے اس کے پتوں کا سایہ گھنا اور فرحت بخش ہوتا ہے کیونکہ وہ بڑے بڑے ہوتے ہیں اور اس کے پاس مکھیاں نہیں آتیں۔ یہ غذا کا کام دے جاتا ہے اور چھلکے اور گودے سمیت کھایا جاتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کدو یعنی گھیا بہت پسند تھا اور برتن میں سے چن چن کر اسے کھاتے تھے۔ پھر انہیں ایک لاکھ بلکہ زیادہ آدمیوں کی طرف رسالت کے ساتھ بھیجا گیا۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس سے پہلے آپ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ تھے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے ہی آپ اس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ دونوں قولوں سے اس طرح تضاد اٹھ سکتا ہے کہ پہلے بھی ان کی طرف بھیجے گئے تھے اب دوبارہ بھی ان ہی کی طرف بھیجے گئے اور وہ سب ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی۔ بغوی کہتے ہیں مچھلی کے پیٹ سے نجات پانے کے بعد دوسری قوم کی طرف بھیجے گئے تھے۔ یہاں او معنی میں بلکہ کے ہے اور وہ ایک لاکھ تیس ہزار یا اس سے بھی کچھ اوپر۔ یا ایک لاکھ چالیس ہزار سے بھی زیادہ یا ستر ہزار سے بھی زیادہ یا ایک لاکھ دس ہزار اور ایک غریب مرفوع حدیث کی رو سے ایک لاکھ بیس ہزار تھے۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسانی اندازہ ایک لاکھ سے زیادہ ہی کا تھا۔ ابن جریر کا یہی مسلک ہے اور یہی مسلک ان کا آیت (اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً 74) 2 ۔ البقرة :74) اور آیت (اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً 77) 4 ۔ النسآء :77) اور آیت (اَوْ اَدْنٰى ۚ ) 53 ۔ النجم :9) میں ہے یعنی اس سے کم نہیں اس سے زائد ہے۔ پس قوم یونس سب کی سب مسلمان ہوگئی حضرت یونس کی تصدیق کی اور اللہ پر ایمان لے آئے ہم نے بھی ان کے مقررہ وقت یعنی موت کی گھڑی تک دنیوی فائدے دئے اور آیت میں ہے کسی بستی کے ایمان نے انہیں (عذاب آچکنے کے بعد) نفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے وہ جب ایمان لائے تو ہم نے ان پر سے عذاب ہٹا لئے اور انہیں ایک معیاد معین تک بہرہ مند کیا۔