ص آية ۱
صٓ ۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِى الذِّكْرِۗ
طاہر القادری:
ص (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، ذکر والے قرآن کی قسم،
English Sahih:
Sad. By the Quran containing reminder...
1 Abul A'ala Maududi
ص، قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی
2 Ahmed Raza Khan
اس نامور قرآن کی قسم
3 Ahmed Ali
قرآن کی قسم ہے جو سراسر نصیحت ہے
4 Ahsanul Bayan
ص! اس نصیحت والے قرآن کی قسم (١)
١۔١ جس میں تمہارے لئے ہر قسم کی نصیحت اور ایسی باتیں ہیں، جن سے تمہاری دنیا سنور جائے اور آخرت بھی بعض نے ذی الذکر کا ترجمہ شان اور مرتبت والا، کیے ہیں، امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ اس لئے کہ قرآن عظمت شان کا حامل بھی ہے اور اہل ایمان و تقویٰ کے لئے نصیحت اور درس عبرت بھی، اس قسم کا جواب محذوف ہے کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح کفار مکہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساحر، شاعر یا جھوٹے ہیں، بلکہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں جن پر یہ ذی شان قرآن نازل ہوا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ص۔ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے (کہ تم حق پر ہو)
6 Muhammad Junagarhi
ص! اس نصیحت والے قرآن کی قسم
7 Muhammad Hussain Najafi
ص! قَسم ہے نصیحت والے قرآن کی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ص ۤ نصیحت والے قرآن کی قسم
9 Tafsir Jalalayn
ص۔ قسم ہے قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے (کہ تم حق پر ہو)
آیت نمبر 1 تا 14
ترجمہ : شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، صٓ اللہ ہی اس کی مراد کو بہتر جانتا ہے، قسم ہے ذکر والے یعنی بیان والے یا شان والے قرآن کی، جواب قسم محذوف ہے، یعنی بات ایسی نہیں جیسا کہ کفار متعدد الٰہ کے قائل ہیں بلکہ مکہ کے کافر غرور اور ایمان کے مقابلہ میں تکبر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور عداوت میں پڑے ہیں، اور ہم نے ان سے پہلے بھی یعنی گزشتہ بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا، ان پر نزول عذاب کے وقت انہوں نے ہرچند چیخ و پکار کی لیکن وہ وقت نجات کا وقت نہیں تھا، یعنی وہ وقت فرار کا وقت نہیں تھا، اور لات میں تا زائدہ ہے، اور جملہ نادَوْا کی ضمیر سے حال ہے، یعنی انہوں نے فریاد کی، حالانکہ نہ بھاگنے کا موقع تھا، اور نہ نجات کا، اور مکہ کے کافروں نے ان سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی، اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ انہی میں سے ان کو ایک ڈرانے والا آگیا (یعنی) ان ہی میں کا ایک رسول آگیا، جو بعث کے بعد ان کو آگ سے ڈراتا ہے، اور خوف دلاتا ہے، اور وہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اور کافر کہنے لگے یہ تو جادو گر ہے (اور) جھوٹا ہے، اس میں اسم ضمیر کی جگہ اسم ظاہر ہے، کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کو ایک معبود کردیا ؟ واقعی یہ بڑی عجیب بات ہے، (یہ بات انہوں نے اس وقت کہی کہ) جب ان سے آپ نے کہا کہو ! اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، یعنی پوری مخلوق کے (انتظام) کیلئے ایک معبود کیسے کافی ہوسکتا ہے ؟ ان کے سردار خواجہ ابو طالب کی مجلس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قولوا لا الٰہ الا اللہ سننے کے بعد خواجہ ابو طالب کی مجلس سے یہ کہتے ہوئے چل دئیے کہ بس چلو جی اور اپنے معبودوں یعنی ان کی عبادت پر جمے رہو، یقیناً اس توحید مذکور (کے مطالبہ) میں ہم سے ضرور کوئی غرض ہے، ہم نے تو یہ بات پچھلے دین یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں بھی نہیں سنی، یہ تو محض من گھڑت افتراء ہے کیا ہم میں سے اسی پر کلام الٰہی نازل کیا گیا ہے ؟ حالانکہ وہ نہ ہم سے بڑا ہے اور نہ اشرف یعنی اس پر (کلام الٰہی) نازل نہیں کیا گیا، ء اُنزِلَ میں دنوں ہمزوں میں تحقیق اور دوسرے کی تسہیل اور دونوں ہمزوں کے درمیان دونوں صورتوں میں الف داخل کرکے اور نہ داخل کرکے دراصل یہ لوگ میرے ذکر وحی یعنی قران کے بارے میں شک میں ہیں اس لئے انہوں نے وحی کو لانے والے کو جھٹلا دیا ہے بلکہ (صحیح بات یہ ہے) کہ انہوں نے اب تک (میرا) عزاب چکھا نہیں ہے اور جب یہ اس عذاب کا مزہ چکھیں گے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس بات کی تصدیق کریں گے، جس کو وہ لے کر آئے ہیں (مگر) اس وقت تصدیق سے کوئی فائدہ نہ ہوگا یا کیا ان کے پاس تیرے زبردست فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں ؟ جن میں نبوت وغیرہ بھی شامل ہے، کہ یہ لوگ جس کو چاہیں دیں (اور جس کو چاہیں نہ دیں) یا کیا زمین و آسمان تک رسیاں تان کر چڑھ جائیں (اور) وحی لے آئیں اور بطور خاص جس کو چاہیں دیدیں، اور أم دونوں جگہ ہمزۂ انکاری کے معنی میں ہے، یہاں یعنی تیری تکذیب کے بارے میں شکست خوردہ ایک حقیر سا لشکر ہے مھزومٌ جندٌ کی صفت ہے اور مِنَ الاحزابِ بھی جند کی صفت ہے یعنی (یہ لشکر) ان لشکروں کی جنس کا ہے جو آپ کے پیش رو انبیاء کے بالمقابل جمع ہوگئے تھے، اور وہ مغلوب ہوئے اور ہلاک کئے گئے تھے، اسی طرح ان کو بھی ہلاک کیا جائے گا اس سے پہلے بھی قوم نوح نے قوم کو تانیث معنی کے اعتبار سے ہے اور عاد نے اور میخوں والے فرعون نے بھی تکذیب کی تھی فرعوں جس پر غضبناک ہوتا تھا تو چار میخیں گاڑ دیتا تھا اور ان سے اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر باندھ دیتا تھا اور اس کو سزا دیتا تھا اور ثمود اور قوم لوط نے اور ایکہ کے رہنے والوں نے بھی (اصحاب ایکہ) یعنی جھاڑی والے اور وہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم تھی، یہی (بڑے) لشکر تھے ان لشکروں (گروہوں) میں ایک بھی ایسا نہیں جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کردی اس لئے کہ جب انہوں نے ایک رسول کی تکذیب کردی تو (گویا کہ) تمام رسولوں کی تکذیب کردی اس لئے کہ ان سب کی ایک ہی دعوت تھی اور وہ دعوت توحید تھی سو ان پر میری سزا ثابت ہوگئی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : صٓ اس کو سورة داؤد بھی کہا جاتا ہے (خازن) اس میں پانچ قراءتیں ہیں : (1) جمہور کے نزدیک سکون کے ساتھ، یعنی صاد (2) ضمہ بغیر تنوین، صادُ (3) فتحہ بغیر تنوین، صادَ (4) کسرہ بغیر تنوین صادِ (5) کسرہ مع التنوین صادٍ ، ضمہ بغیر تنوین کی صورت میں مبتداء محذوف کی خبر ہے، ای ھٰذہ صادُ اس صورت میں ص سورت کا نام ہوگا، اور علمیت و تانیث کی وجہ سے غیر منصرف ہوگا، جن حضرات نے مفتوح بغیر تنوین پڑھا ہے، اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں (1) مبنی برفتحہ تخفیفاً جیسا کہ کَیْفَ واَینَ (2) جر تقدیری کے ساتھ حرف قسم مقدر کی وجہ سے (3) نصب فعل مقدر کی وجہ سے یا حرف قسم کے حذف کی وجہ سے۔ (جمل ملخصًا)
قولہ : والقران واؤ جارہ قسمیہ ہے القرآن، مقسم بہٖ ہے جواب قسم میں چند وجوہ ہیں (1) کم اھلکنا مِن قبلھم جواب قسم ہے اصل میں لَکَمْ اھلکنا تھا، لام کو فصل کثیر کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے، جیسا کہ سورة شمس میں قَدْ اَفْلَحَ جواب قسم سے لام حذف کردیا گیا ہے (2) جواب قسم ان کل الا کذّب الرسُل ہے (3) جواب قسم محذوف ہے، اور وہ لَقَدْ جَاء کم الحق وغیرہ ہے، اور ابن عطیہ نے کہا ہے کہ جواب قسم مَا الْاَمْرُ کَمَا تَزْعَمُوْنَ محذوف ہے، علامہ محلی نے، ما الامر کما قال کفار مکۃ من تعدد الالٰہ قسم محذوف مانی ہے، اور زمخشری نے اِنَّہٗ لمعجز مقدر مانا ہے، اور شیخ نے انک لمِنَ المرسلین مقدر مانا ہے، اور فرمایا یہ یٰسٓ، والقرآن الحکیم اِنَّکَ لمنَ المرسلینَ کی نظیر ہے۔ (جمل ملخصاً )
قولہ : ای کثیراً اس سے اشارہ کردیا کہ کَمْ خبر یہ ہے جو کہ اَھْلکنا کا مفعول ہے مِنْ قرنٍ اس کی تمیز ہے۔
قولہ : ولاتَ حینَ مناص، لاتَ کی تاء کے رسم الخط میں اختلاف ہے، بعض حضرات نے مفصولاً دراز (ت) کی شکل میں لکھا ہے جیسا کہ پیش نظر نسخہ میں ہے، اور بعض حضرات نے (ت) کو حِیْنَ کے ساتھ ملا کر لکھا ہے ای لاَتَحِیْنَ مناصٍ اور اس اختلاف کا مدار وقف پر ہے، بعض حضرات (ت) پر وقف کرتے ہیں تو وہ (ت) کو دراز شکل میں لکھتے ہیں اور بعض حضرات لاَ پر عطف کرتے ہیں
قولہ : مَنَاص (ن) سے مصدر میمی ہے بھاگنا، پناہ لینا، اسم ظرف بھی ہے، پناہ گاہ، جائے قرار اس کے معنی ہیں لیس الحین حین
فرارٍ تاء زائدہ ہے اور جملہ نادَوْا کے فاعل سے حال ہے، مطلب یہ ہے کہ مکذبین رسل نے بہت چیخ پکار کی مگر نہ ان کو کوئی جائے فرار حاصل ہوئی اور نہ جائے نجات، مگر کفار مکہ نے ان کی اس حالت سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی۔
قولہ : ای لیس الحین اس عبارت سے علامہ محلی نے لات میں خلیل اور سیبویہ کے مذہب مختار کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ یہ کہ لات میں لا بمعنی لیس ہے، اور اس کے اسم و خبر محذوف ہیں، اور وہ اسم و خبر لفظ حین ہے، تقدیر عبارت یہ ہے لیس الحینُ حینَ مناصٍ پہلا حین اسم ہے اور دوسرا خبر اور لات میں تؔ تاکید نفی کیلئے زائدہ ہے۔
قولہ : فیہ رضع الظاھر موضع المضمر زیادتی تقبیح کیلئے اسم ضمیر کے بجائے اسم ظاہر استعمال کیا یعنی قالوا کے بجائے قال الکافرین کہا ہے۔ قولہ : عُجاب بڑی عجیب چیز، مبالغہ کا صیغہ، ایسی عجیب چیز جو ناقابل یقین ہو۔
قولہ : اَن امشوا میں ان تفسیر یہ ہے، جیسا کہ مفسر (رح) نے اشارہ کردیا ہے۔ قولہ : انّ ھٰذا لشیئ یُراد یہ اصبروا علیٰ آلھتکم کی علت ہے۔
قولہ : بل ھُمْ فی شَکٍّ یہ مقدر سے اعراض ہے، تقدیر عبارت یہ ہے انکار ھم لذکری لیس عن علمٍ بل ھم فی شکٍ منہ۔
قولہ : بل لمَّا یذوقوا عذاب ای عذابی سبب شک کو بیان کرنے کیلئے اضراب انتقالی ہے یعنی ان کے شک کا سبب یہ ہے کہ ان لوگوں نے ابھی تک میرے عذاب کا مزہ چکھا نہیں ہے، لو ذاقُوْا لَصَدقُوا النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔
قولہ : لمَّا، لم سے اشارہ ہے کہ لَمَّا بمعنی لَمْ ہے۔
قولہ : فلیَرْتَقُوا فی الاسباب فاشرط مقدر کے جواب میں واقع ہے، جیسا کہ مفسر علام نے تقدیر عبارت نکال کر اشارہ کردیا ہے ای اِن زَعَمُوا ذٰلک فَلْیَرْ تَقُوْا فی الاسباب۔
قولہ : ای ھُمْ جندٌ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جُنْدٌ مبتداء محذوف کی خبر ہے اور تنوین تقلیل و تحقیر کیلئے ہے اور ما، قلت کی تاکید کیلئے ہے۔
قولہ : ھُنالِکَ ، جندٌ یا مھزوم کا ظرف ہے، اور مھزوم بمعنی مغلوب و مقہور ہے، مطلب یہ ہے کہ قریش رسولوں کے خلاف جماعت بندی کرنے والی ایک حقیر و قلیل جماعت ہے جو عنقریب شکست خوردہ ہوگی۔
قولہ : صفۃ جندٍ ایضا یہاں جندٌ کی تین صفات بیان کی گئی ہیں، پہلی صفت ما دوسری مھزومٌ تیسری مِنَ الاَحزاب۔
قولہ ؛ اُولٰئکَ الاحزاب یہ طوائف مذکورہ سے بدل ہے۔ قولہ : لانَّھم الخ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ اِنْ کُلُّ الا کذَّب الرُّسُلَ کیوں کہا گیا ہے باوجود یکہ ہر قوم نے صرف ایک رسول کی تکذیب کی ہے، جواب یہ ہے کہ چونکہ تمام انبیاء و رسل کے اصول دین اور دعوت ایک ہی ہیں لہٰذا ایک رسول کی تکذیب تمام رسولوں کی تکذیب شمار ہوگی۔
تفسیر و تشریح
صٓ، والقرآن ذِی الذِّکْرِ اس نصیحت والے قرآن کی قسم جس میں تمہارے لئے ہر قسم کی نصیحت اور ایسی باتیں ہیں جن
سے تمہاری دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی، بعض حضرات نے ذی الذکر کا ترجمہ شان اور مرتبہ والا بھی کیا ہے، امام ابن کثیر نے کہا ہے کہ دونوں ہی معنی صحیح ہیں، اس لئے کہ قرآن عظمت و شان کا حامل بھی ہے، اور اہل ایمان وتقویٰ کیلئے نصیحت اور درس عبرت بھی، یہ بات تاکید کے لئے قسم کھا کر کہی گئی ہے، جواب قسم محذوف ہے یعنی بات اس طرح نہیں جس طرح کفار مکہ کہتے ہیں، کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساحر یا شاعر، یا کاذب ہیں، بلکہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں، جن پر ذی شان قرآن نازل ہوا۔
بل الذین۔۔۔۔ وشقاقٍ یعنی یہ قرآن تو یقیناً شک و شبہ سے پاک اور نصیحت ہے، البتہ ان کافروں کو اس سے فائدہ اس لئے نہیں پہنچ رہا ہے کہ ان کے دماغوں میں استکبار اور غرور ہے اور دلوں میں مخالفت وعناد، عزَّۃٌ کے معنی ہیں حق کے مقابلہ میں اکڑنا۔
کم اھلکنا الخ ان کفار مکہ سے پہلے ایسی قومیں گزری ہیں کہ جو زور و قوت میں ان سے کہیں زیادہ تھیں، لیکن کفر و تکذیب کی وجہ سے برے انجام سے دو چار ہوئیں، اور انہوں نے عذاب کے آثار دیکھنے کے بعد بہت ہائے پکار کی اور توبہ پر اظہار آمادگی کیا، مدد کے لئے لوگوں کو پکارا، لیکن وہ وقت نہ توبہ و فریاد رسی کا تھا اور نہ فرار کا، اس لئے نہ ان کا ایمان نافع ہوا، اور نہ وہ بھاگ کر عذاب سے بچ سکے، لاتَ یہ دراصل لا ہے اس میں ت کا اضافہ کردیا گیا ہے، جیسے ثُمَّ میں ثمّت۔
اجعل۔۔۔ واحدًا یعنی ایک ہی اللہ ساری کائنات کا نظام چلانے والا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، اسی طرح عبادت اور نذر و نیاز کا صرف وہی مستحق ہے یہ ان کے لئے ناقابل یقین اور بڑی عجیب بات تھی۔
شان نزول : اس سورت کی ابتدائی آیات کا شان نزول اور پس منظر یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب مسلمان نہ ہونے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری نگہداشت اور حمایت کرتے تھے، جب خواجہ ابو طالب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے ایک مجلس مشاورت منعقد کی، جس میں ابو جہل، عاص بن وائل، اسود بن عبد المطلب، اور اسود بن عبد یغوث اور دوسرے رؤساء شریک تھے، مشورہ یہ ہوا کہ ابو طالب شدید بیمار ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان کا اسی بیماری میں انتقال ہوجائے، ان کے انتقال کے بعد اگر ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے نئے دین سے باز رکھنے کے لئے کوئی سخت اقدام کیا تو عرب کے لوگ ہمیں یہ طعنہ دیں گے کہ جب تک ابو طالب زندہ تھے، اس وقت تک تو یہ لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہ بگاڑ سکے، اور جب ان کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے آپ کو ہدف بنا لیا، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ابو طالب کی زندگی ہی میں ان سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ کا تصفیہ کرلیں تاکہ وہ ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دیں۔
چناچہ یہ لوگ ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جاکر ان سے کہا تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے آپ انصاف سے کام لیکر ان سے کہئے کہ وہ جس خدا کی چاہیں عبادت کریں، لیکن ہمارے معبودوں کو کچھ نہ کہیں، (حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی ان کے بتوں کو اس کے سوا کچھ نہ کہتے تھے کہ بےحس اور بےجان ہیں نہ تمہارے خالق ہیں اور نہ رازق نہ تمہارا کوئی نفع ان کے قبضہ میں ہے اور نہ نقصان) ابو طالب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجلس میں بلوایا، اور آپ سے کہا بھتیجے یہ لوگ تمہاری شکایت کر رہے ہیں کہ تم ان کے معبودوں کو برا کہتے ہو، تم انہیں ان کے مذہب پر چھوڑ دو ، اور تم اپنے خدا کی عبادت کرتے رہو، درمیان درمیان میں قریش کے لوگ بھی بولتے رہے۔ بالآخر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا چچا جان ! کیا میں انہیں اس چیز کی دعوت نہ دوں جس میں ان کی بہتری ہے ؟ ابوطالب نے کہا وہ کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا میں ان سے ایک ایسا کلمہ کہلوانا چاہتا ہوں جس کے ذریعہ سارا عرب ان کے آگے سرنگوں ہوجائے گا، اور یہ پورے عرب کے مالک ہوجائیں گے، اس پر ابوجہل نے کہا، بتاؤ وہ کلمہ کیا ہے ؟ تمہارے باپ کی قسم، ہم ایک کلمہ نہیں دس کلمے کہنے کو تیار ہیں، اس پر آپ نے فرمایا بس لاَا الٰہَ اَلاَّ اللہُ کہہ دو ، یہ سن کر سب لوگ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے، اور کہنے لگے، کیا ہم سارے معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک کو اختیار کرلیں ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے، اس موقع پر سورة صٓ کی یہ آیات نازل ہوئیں۔ (تفسیر ابن کثیر، ص 27/28، ج 4)
وانطلقَ الملأ منھُمْ الخ سے اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے، مشرکین مکہ کا کہنا تھا کہ توحید کا مسئلہ خود اس کا من گھڑت اور اختراع ہے ورنہ عیسائیت میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو الوہیت میں شریک تسلیم کیا گیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ مکہ اور طائف میں بڑے بڑے چوہدری اور رئیس ہیں، اگر اللہ کو کسی کو نبی بنانا ہی تھا تو ان میں سے کسی کو نبی بناتا، ان کو چھوڑ کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب بھی عجیب ہے ؟
ام عندھم۔۔۔۔۔۔ الوھاب، مطلب یہ ہے کہ اہل مکہ کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نبوت کیلئے منتخب ہونا بھی پسند نہیں تھا، بلکہ ان کی دلی خواہش یہ تھی کہ جس کو وہ چاہیں اس کو نبوت کے لئے منتخب کیا جائے، گویا کہ وہ رحمت خداوندی کے خزانوں کے مالک ہیں، رحمت کے خزانوں میں سے اعلیٰ درجہ کی رحمت نبوت بھی ہے، اب جبکہ مشرکین مکہ کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پسند نہیں ہے تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو نبوت کا منبع اور سرچشمہ ہے وہاں جائیں اور اس سلسلہ کو منقطع کرائیں اور اپنے کسی پسندیدہ شخص کے نام جاری کرالیں۔
جندٌ ما۔۔۔۔ الاحزاب، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد اور کفار کی شکست کا وعدہ ہے یعنی کفار کا لشکر باطل لشکروں میں سے ایک لشکر ہے یہ لشکر بڑا ہے یا چھوٹا، اس کی ہرگز پرواہ نہ کریں اور نہ اس سے خوف زدہ ہوں، شکست ان کا مقدر ہے ھنالک مکان بعید کی طرف اشارہ ہے جو جنگ بدر اور یوم فتح مکہ کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے جہاں کفار عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئے۔
و فرعون ذو الاوتاد اس کے لفظی معنی ہیں میخوں والا فرعون، اس کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، بعض حضرات نے فرمایا، اس سے اس کی سلطنت کے استحکام کی طرف اشارہ ہے، استحکام کی طرف اشارہ کرنے کو ” کھونٹے گڑنا “ بولتے ہیں، حضرت تھانوی (رح) تعالیٰ نے ترجمہ کیا ہے وہ فرعون، جس کے کھونٹے گڑ گئے تھے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ فرعون جب کسی کو سزا دیتا تو اس کے چاروں ہاتھ پیروں میں میخیں گاڑ دیتا تھا، اور اس پر سانپ اور بچھو چھوڑ دیتا تھا، اسی طرح اذیت ناک سزا دیکر ہلاک کردیتا تھا، اور بعض نے کہا ہے کہ فرعون رسیوں اور میخوں کا کوئی کھیل کھیلا کرتا تھا، اس وجہ سے اس کو ذوالاوتاد کہا گیا ہے۔ (معارف، قرطبی)
اولئک الاحزابُ اس کی ایک تفسیر تو یہ ہے کہ یہ جملہ مھزومٌ من الاحزاب کا بیان ہے، یعنی جن گروہوں کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہیں، ایک تفسیر اس کی یہ بھی کی گئی ہے ” گروہ وہ تھے “ یعنی اصل طاقت و قوت جس کو طاقت کہنا چاہیے، اس کے مالک وہ لوگ تھے، یعنی قوم نوح، اور عاد وثمود وغیرہ، مشرکین مکہ کی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں، جب وہ لوگ عذاب الٰہی سے نہ بچ سکے تو ان کی کیا ہستی ہے ؟ (قرطبی)
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کے حال اور قرآن کو جھٹلانے والوں کے حال کا بیان ہے جو انہوں نے قرآن اور قرآن لانے والے کے ساتھ روا رکھا۔ فرمایا : ﴿ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ﴾ ” ص، قسم ہے قرآن کی جو سراسر نصیحت ہے۔“ یعنی جو قدر عظیم اور شرف کا حامل ہے، جو بندوں کو ہر اس چیز کی یاد دہانی کراتا ہے جس کے وہ محتاج ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال کا علم، احکام شرعیہ کا علم اور قیامت اور جزا و سزا کا علم۔ قرآن انہیں ان کے دین کے اصول و فروع کا علم عطا کرتا ہے۔ جس چیز پر قسم کھائی گئی ہے یہاں اس کو ذکر کرنے کی حاجت نہیں، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جس کی قسم کھائی گئی ہے اور جس پر قسم کھائی گئی ہے دونوں ایک ہی چیز کے نام ہیں اور وہ ہے قرآن، جو اس وصف جلیل سے موصوف ہے۔ جب قرآن اس وصف سے موصوف ہے تو معلوم ہوا کہ بندوں کے لئے اس کی ضرورت ہر ضرورت سے بڑھ کر ہے اور بندوں پر فرض ہے کہ وہ ایمان اور تصدیق کے ساتھ اس کو قبول کریں۔ اس سے ان امور کا استباط کریں جن سے نصیحت حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کو ہدایت سے نوازا، اس کو اس کی طرف راہ دکھا دی۔
11 Mufti Taqi Usmani
suaad , qasam hai naseehat bharay Quran ki ,
12 Tafsir Ibn Kathir
حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفسیر سورة بقرہ کے شروع میں گذر چکی ہے۔ یہاں قرآن کی قسم کھائی اور اسے پند و نصیحت کرنے والا فرمایا۔ کیونکہ اس کی باتوں پر عمل کرنے والے کی دین و دنیا دونوں سنور جاتی ہیں اور آیت میں ہے ( لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 10ۧ) 21 ۔ الأنبیاء :10) اس قرآن میں تمہارے لئے نصیحت ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قرآن شرافت میں بزرگ عزت و عظمت والا ہے۔ اب اس قسم کا جواب بعض کے نزدیک تو ( اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ 14 ) 38 ۔ ص :14) ، ہے۔ بعض کہتے ہیں ( اِنَّ ذٰلِكَ لَحَــقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ 64 ) 38 ۔ ص :64) ، ہے لیکن یہ زیادہ مناسب نہیں ملعوم ہوتا۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں اس کا جواب اس کے بعد کی آیت ہے۔ ابن جریر اسی کو مختار بتاتے ہیں۔ بعض عربی داں کہتے ہیں اس کا جواب ص ہے اور اس لفظ کے معنی صداقت اور حقانیت کے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ پوری سورت کا خلاصہ اس قسم کا جواب ہے۔ واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے یہ قرآن تو سراسر عبرت و نصیحت ہے مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں ایمان ہے کافر لوگ اس فائدے سے اس لئے محروم ہیں کہ وہ متکبر ہیں اور مخالف ہیں یہ لوگ اپنے سے پہلے اور اپنے جیسے لوگوں کے انجام پر نظر ڈالیں تو اپنے انجام سے ڈریں۔ اگلی امتیں اسی جرم پر ہم نے تہ وبالا کردی ہیں عذاب آ پڑنے کے بعد تو بڑے روئے پیٹے خوب آہو زاری کی لیکن اس وقت کی تمام باتیں بےسود ہیں۔ جیسے فرمایا ( فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَنَآ اِذَا هُمْ مِّنْهَا يَرْكُضُوْنَ 12ۭ ) 21 ۔ الأنبیاء :12) ہمارے عذابوں کو معلوم کر کے ان سے بچنا اور بھاگنا چاہا۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا تھا ؟ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اب بھاگنے کا وقت نہیں نہ فریاد کا وقت ہے، اس وقت کوئی فریاد رسی نہیں کرسکتا۔ چاہو جتنا چیخو چلاؤ محض بےسود ہے۔ اب توحید کی قبولیت بےنفع، توبہ بیکار ہے۔ یہ بےوقت کی پکار ہے۔ لات معنی میں لا کے ہے۔ اس میں " ت " زائد ہے جیسے ثم میں بھی " ت " زیادہ ہوتی ہے اور ربت میں بھی۔ یہ مفصولہ ہے اور اس پر وقف ہے۔ امام ابن جریر کا قول ہے کہ یہ " ت " حین سے ملی ہوئی ہے یعنی ولاتحین ہے، لیکن مشہور اول ہی ہے۔ جمہور نے حین کو زبر سے پڑھا ہے۔ تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ وقت آہو زاری کا وقت نہیں۔ بعض نے یہاں زیر پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لغت میں نوص کہتے ہیں پیچھے ہٹنے کو اور بوص کہتے ہیں آگے بڑھنے کو پس مقصد یہ ہے کہ یہ وقت بھاگنے اور نکل جانے کا وقت نہیں واللہ الموفق۔