Skip to main content

وَهَلْ اَتٰٮكَ نَبَؤُا الْخَصْمِۘ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَۙ

And has (there)
وَهَلْ
اور کیا آئی
come to you
أَتَىٰكَ
تیرے پاس
(the) news
نَبَؤُا۟
خبر
(of) the litigants
ٱلْخَصْمِ
جھگڑنے والوں کی
when
إِذْ
جب
they climbed over the wall
تَسَوَّرُوا۟
وہ دیوار پھاند کر آتے تھے
(of) the chamber?
ٱلْمِحْرَابَ
عبادت خانے میں

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

پھر تمہیں کچھ خبر پہنچی ہے اُن مقدمے والوں کی جو دیوار چڑھ کر اُس کے بالا خانے میں گھس آئے تھے؟

English Sahih:

And has there come to you the news of the adversaries, when they climbed over the wall of [his] prayer chamber –

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

پھر تمہیں کچھ خبر پہنچی ہے اُن مقدمے والوں کی جو دیوار چڑھ کر اُس کے بالا خانے میں گھس آئے تھے؟

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور کیا تمہیں اس دعوے والوں کی بھی خبر آئی جب وہ دیوار کود کر داؤد کی مسجد میں آئے

احمد علی Ahmed Ali

اور کیا آپ کو دو جھگڑنے والوں کی خبر بھی پہنچی جب وہ عبادت خانہ کی دیوار پھاند کر آئے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی (بھی) خبر ملی؟ جبکہ وہ دیوار پھاند کر محراب میں آگئے (١)۔

٢١۔١ مِحْرَاب سے مراد کمرہ ہے جس میں سب سے علیحدہ ہو کر یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے۔ دروازے پر پہرے دار ہوتے، تاکہ کوئی اندر آکر عبادت میں مخل نہ ہو۔ جھگڑا کرنے والے پیچھے سے دیوار پھاند کر اندر آگئے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

بھلا تمہارے پاس ان جھگڑنے والوں کی بھی خبر آئی ہے جب وہ دیوار پھاند کر عبادت خانے میں داخل ہوئے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی (بھی) خبر ملی؟ جبکہ وه دیوار پھاند کر محراب میں آگئے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

(اے رسول(ص)) کیا آپ تک مقدمہ والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر (ان کے) محرابِ عبادت میں داخل ہوگئے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور کیا آپ کے پاس ان جھگڑا کرنے والوں کی خبر آئی ہے جو محراب کی دیوار پھاند کر آگئے تھے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور کیا آپ کے پاس جھگڑنے والوں کی خبر پہنچی؟ جب وہ دیوار پھاند کر (داؤد علیہ السلام کی) عبادت گاہ میں داخل ہو گئے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

مفسرین نے یہاں پر ایک قصہ بیان کیا ہے لیکن اس کا اکثر حصہ بنو اسرائیل کی روایاتوں سے لیا گیا ہے۔ حدیث سے ثابت نہیں۔ ابن ابی حاتم میں ایک حدیث ہے لیکن وہ بھی ثابت نہیں کیونکہ اس کا ایک راوی یزید رقاشی ہے گو وہ نہایت نیک شخص ہے لیکن ہے ضعیف۔ پس اولیٰ یہ ہے کہ قرآن میں جو ہے اور جس پر یہ شامل ہے وہ حق ہے۔ حضرت داؤد کا انہیں دیکھ کر گھبرانا اس وجہ سے تھا کہ وہ اپنے تنہائی کے خاص خلوت خانے میں تھے اور پہرہ داروں کو منع کیا تھا کہ کوئی بھی آج اندر نہ آئے اور یکایک ان دونوں کو جو دیکھا تو گھبرا گئے۔ عزنی الخ، سے مطلب بات چیت میں غالب آجانا دوسرے پر چھا جانا ہے۔ حضرت داؤد سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے پس وہ رکوع سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھک پڑے۔ مذکور ہے کہ چالیس دن تک سجدہ سے سر نہ اٹھایا پس ہم نے اسے بخش دیا۔ یہ یاد رہے کہ جو کام عوام کے لئے نیکیوں کے ہوتے ہیں وہی کام خواص کے لئے بعض مرتبہ بدیوں کے بن جاتے ہیں۔ یہ آیت سجدے کی ہے یا نہیں ؟ اس کی بات امام شافعی کا جدید مذہب تو یہ ہے کہ یہاں سجدہ ضروری نہیں یہ تو سجدہ شکر ہے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ ص ضروری سجدوں میں سے نہیں ہاں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (بخاری وغیرہ) نسائی میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہاں سجدہ کر کے فرمایا یہ سجدہ حضرت داؤد کا تو توبہ کے لئے تھا اور ہمارا شکر کے لئے ہے۔ ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے خواب میں دیکھا گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور نماز میں میں نے سجدے کی آیت تلاوت کی اور سجدہ کیا تو میرے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا اور میں نے سنا کہ وہ یہ دعا مانگ رہا تھا یعنی اے اللہ ! میرے اس سجدے کو تو میرے لئے اپنے پاس اجر اور خزانے کا سبب بنا اور اس سے تو میرا بوجھ ہلکا کر دے اور اسے مجھ سے قبول فرما جیسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد کے سجدے کو قبول فرمایا۔ ابن عباس فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سجدے کی آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا اور اس سجدے میں وہی دعا پڑھی جو اس شخص نے درخت کی دعا نقل کی تھی۔ ابن عباس اس آیت کے سجدے پر یہ دلیل وارد کرتے تھے کہ قرآن نے فرمایا ہے اس کی اولاد میں سے داؤد سلیمان ہیں جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی پس تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ہدایت کی پیروی کر پس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی اقتداء کے مامور تھے اور یہ صاف ثابت ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے سجدہ کیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہ سجدہ کیا۔ ابو سعید خدری (رض) کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں سورة ص لکھ رہا ہوں جب آیت سجدہ تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ قلم اور دوات اور میرے آس پاس کی تمام چیزوں نے سجدہ کیا۔ انہوں نے اپنا یہ خواب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا پھر آپ اس آیت کی تلاوت کے وقت برابر سجدہ کرتے رہے (احمد) ابو داؤد میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر سورة ص پڑھی اور سجدے کی آیت تک پہنچ کر منبر سے اتر کر آپ سجدہ تک پہنچے تو لوگوں نے سجدے کی تیاری کی آپ نے فرمایا یہ تو ایک نبی کی توبہ کا سجدہ تھا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم سجدہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہو چناچہ آپ اترے اور سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اسے بخش دیا۔ قیامت کے دن اس کی بڑی منزلت اور قدر ہوگی نبیوں اور عادلوں کا درجہ وہ پائیں گے۔ حدیث میں ہے عادل لوگ نور کے ممبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے۔ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ عادل وہ ہیں جو اپنی اہل و عیال میں اور جن کے وہ مالک ہوں عدل و انصاف کرتے ہیں۔ اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ اللہ کے دوست اور سب سے زیادہ اس کے مقرب وہ بادشاہ ہوں گے جو عادل ہوں اور سب سے زیادہ دشمن اور سب سے سخت عذاب والے وہ ہوں گے جو ظالم بادشاہ ہوں۔ (ترمذی وغیرہ) حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں قیامت کے دن حضرت داؤد (علیہ السلام) کو عرش کے پائے کے پاس کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اے داؤد جس پیاری درد ناک میٹھی اور جاذب آواز سے تم میری تعریفیں دنیا میں کرتے تھے اب بھی کرو۔ آپ فرمائیں گے باری تعالیٰ اب وہ آواز کہاں رہی ؟ اللہ فرمائے گا میں نے وہی آواز آج تمہیں پھر عطا فرمائی۔ اب حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنی دلکش اور دلربا آواز نکال کر نہایت وجد کی حالت میں اللہ کی حمد وثناء بیان کریں گے جسے سن کر جنتی اور نعمتوں کو بھی بھول جائیں گے اور یہ سریلی آواز اور نورانی گلا انہیں سب نعمتوں سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرے گا۔