الزمر آية ۱۰
قُلْ يٰعِبَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۗ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا فِىْ هٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَاَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةٌ ۗ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
طاہر القادری:
(محبوب! میری طرف سے) فرما دیجئے: اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو اپنے رب کا تقوٰی اختیار کرو۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے جو اس دنیا میں صاحبانِ احسان ہوئے، بہترین صلہ ہے، اور اللہ کی سرزمین کشادہ ہے، بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گا،
English Sahih:
Say, "O My servants who have believed, fear your Lord. For those who do good in this world is good, and the earth of Allah is spacious. Indeed, the patient will be given their reward without account [i.e., limit]."
1 Abul A'ala Maududi
(اے نبیؐ) کہو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، اپنے رب سے ڈرو جن لوگوں نے اِس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے اور خدا کی زمین وسیع ہے، صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ اے میرے بندو! جو ایمان لائے اپنے سے ڈرو، جنہوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے اور اللہ کی زمین وسیع ہے صابروں ہی کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی
3 Ahmed Ali
کہہ دو اے میرے بندو جو ایمان لائےہو اپنے رب سے ڈرو ان کے لیے جنھوں نے اس دنیا میں نیکی کی ہے اچھا بدلہ ہے اور الله کی زمین کشادہ ہے بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا
4 Ahsanul Bayan
کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو (١) جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے (٢) اور اللہ تعالٰی کی زمین بہت کشادہ ہے صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے۔
١٠۔١ اس کی اطاعت کرکے، معاصی سے اجتناب کرکے اور عبادت و اطاعت کو اس کے لئے خالص کرکے۔
١٠۔٢ یہ تقویٰ کے فوائد ہیں۔ نیک بدلے سے مراد جنت اور اس کی ابدی نعمتیں ہیں۔ بعض اس کا مفہوم یہ کرتے ہیں، کہ جو نیکی کرتے ہیں ان کے لئے دنیا میں نیک بدلہ ہے ' یعنی اللہ انہیں دنیا میں صحت و عافیت، کامیابی اور غنیمت وغیرہ عطا فرماتا ہے۔ لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہہ دو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے پروردگار سے ڈرو۔ جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے۔ اور خدا کی زمین کشادہ ہے۔ جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بےشمار ثواب ملے گا
6 Muhammad Junagarhi
کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو، جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشاده ہے صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بےشمار اجر دیا جاتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
کہہ دیجئے! اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو! اپنے پروردگار (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ (اور یاد رکھو) جو لوگ اس دنیا میں نیک عمل کرتے ہیں ان کیلئے (آخرت میں) نیک صلہ ہے اور اللہ کی زمین وسیع (کشادہ) ہے بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کہہ دیجئے کہ اے میرے ایماندار بندو! اپنے پروردگار سے ڈرو . جو لوگ اس دار دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیکی ہے اور اللہ کی زمین بہت وسیع ہے بس صبر کرنے والے ہی وہ ہیں جن کو بے حساب اجر دیا جاتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
کہہ دو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے پروردگار سے ڈرو جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے اور خدا کی زمین کشادہ ہے جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا
آیت نمبر 10 تا 21
ترجمہ : آپ کہہ دیجئے اے میرے ایمان والے بندو ! اپنے رب سے ڈرتے رہو یعنی اس کے عذاب سے (ڈرتے رہو) اس طریقہ سے کہ اس کی اطاعت کرو، جو لوگ اس دنیا میں طاعت کے ذریعہ نیکی کرتے ہیں ان کے لئے اچھا صلہ ہے اور وہ جنت ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے، کفار کے درمیان سے اور منکرات کے مشاہدہ سے (بچنے کے لئے) کسی اور سرزمین کی طرف ہجرت کو جاؤ طاعات پر اور ان مصائب پر جن میں ان کو مبتلا کیا گیا ہے، صبر کرنے والوں ہی کو پورا (اور) بیشمار اجر ملتا ہے یعنی بغیر ناپے تولے (اجر ملتا ہے) آپ کہہ دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کروں کہ اسی کے لئے شرک سے دین کو خالص کروں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس قوم میں سے سب سے پہال فرمانبردار بن جاؤں (آپ) کہہ دیجئے کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ کرتا ہوں (آپ) کہہ دیجئے کہ میں تو اللہ ہی کی عبادت اس طرح کرتا ہوں کہ عبادت کو اسی کے لئے شرک سے خالص رکھتا ہوں تم اس کو چھوڑ کر جس کی چاہو بندگی کرو اس میں ان کیلئے تہدید (دھمکی) ہے، اور اس بات کا اعلان ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی نہیں کرتے (اور) آپ ان سے یہ (بھی) کہہ دیجئے کہ حقیقی زیاں کا روہ ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے خود کو جہنم میں ہمیشہ کیلئے ڈال کر اور ان حوروں کو حاصل نہ کرکے جو ان کے لئے جنت میں تیار کی گئی ہیں، اگر وہ ایمان لاتے یاد رکھو، کھلا نقصان یہی ہے کہ ان کے لئے ان کے اوپر سے بھی آگ کے محیط شعلے ہوں گے اور ان کے نیچے سے بھی آگ کے محیط شعلے ہوں گے یہ وہی (عذاب) ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو یعنی مومنین کو ڈراتا ہے تاکہ اس سے ڈریں، اور اس وصف (ایمان) پر یا عِبَادِ فَاتَّقُونِ دلالت کر رہا ہے، اے میرے بندوں مجھ ہی سے ڈرو، اور جن لوگوں نے طاغوت یعنی بتوں کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف متوجہ رہے وہ جنت کی خوشخبری کے مستحق ہیں تو میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں پھر اس میں سے اچھی بات کی اتباع کرتے ہیں اور اچھی بات وہ ہے جس میں فلاح ہے یہی ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے یہی لوگ عقل مند ہیں، بھلا جس شخص پر عذاب کی بات محقق ہوچکی یعنی لاَمَلاَنَّ جھَنَّمَ (الآیۃ) تو کیا آپ ایسے شخص کو جو کہ دوزخ میں ہے چھڑا سکتے ہیں ؟ افَانتَ الخ جواب شرط ہے اور اس میں ضمیر کی جگہ اسم ظاہر رکھا گیا ہے اور ہمزہ انکار کے لئے ہے اور معنی (آیت) کے یہ ہیں کہ آپ اس کی ہدایت پر قادر نہیں ہیں کہ اس کو آگ سے چھڑا سکیں، ہاں جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے بایں طور کہ اس کی اطاعت کی ان کیلئے بالاخانے ہیں جن کے اوپر بھی بالا خانے ہیں جو بنے بنائے تیار ہیں، (اور) ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں یعنی فوقانی اور تحتانی بالا خانوں کے نیچے (نہریں جاری ہیں) یہ اللہ نے وعدہ کیا ہے (وَعْدَ اللہِ ) اپنے فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے، اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا کیا آپ نے اس بات پر نظر نہیں کی ؟ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کو زمین کے سوتوں میں یعنی چشموں کی جگہ داخل کردیتا ہے پھر اس کے ذریعہ مختلف قسم کی کھیتیاں اگائیں پھر وہ خشک ہوجاتی ہیں پھر (اے مخاطب) تو اس کو سبزی کے بعد مثلاً زرد دیکھتا ہے پھر وہ اس کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے اس میں عقلمندوں کیلئے بڑی نصیحت ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اس کے خدا کی وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرنے کی وجہ سے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : باَن تُطیعوہُ یہ تقویٰ کی تفسیر ہے۔ قولہ : للذین احسنوا فی ھٰذہ الدنیا جملہ ہو کر خبر مقدم ہے، اور حَسَنۃٌ مبتداء مؤخر ہے۔
قولہ : ارضُ اللہِ واسِعۃٌ مبتدا خبر ہیں۔
قولہ : فیہِ تَھْدِید لھُمْ ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ فاعبُدُوا امر تہدید یعنی دھمکی کے لئے ہے نہ کہ طلب فعل کیلئے۔
قولہ : لھُمْ من فوقِھِم ظُلَلٌ لھم خبر مقدم ہے من فوقھم حال ہے ظُلَلٌ مبتداء مؤخر ہے۔
قولہ : طباق ای قِطَعٌ کبار، بڑے بڑے ٹکڑے، آگ کے بڑے بڑے شعلوں پر ظُلَلٌ کا اطلاق تہکم کے طور پر ہے، ورنہ تو آگ کے شعلوں میں سایہ کا سوال ہی نہیں ہے ظُلَلٌ ظُلَّۃٌ کی جمع ہے بمعنی سائبان۔ قولہ : مِن تحتھم ظُلَلٌ۔
سوال : سائبان کا فوق ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر سائبان کا نیچے ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔
جواب : اس کی صورت یہ ہوگی اگر بالائی طبقہ کے لئے فرش ہوگا تو اس سے نیچے والے طبقہ کیلئے سائبان ہوگا، جیسے کثیر المنزلہ
عمارت میں درمیانی چھت ایک فریق کیلئے فرش ہوتی ہے تو دوسرے فریق کیلئے چھت ہوتی ہے۔
قولہ : ذٰلک تَخویفٌ ای ذکر احوال اھل النار تخویف المؤمنین، ذٰلک کا مرجع ذکر احوال اھل النار ہے۔
قولہ : الاوثان طاغوت کی چند تفاسیر میں سے یہ ایک ہے، بعض نے طاغوت سے شیطان مراد لیا ہے، بعض نے ہر وہ معبود مراد لیا ہے جس کی اللہ کے علاوہ بندگی کی گئی ہو۔
قولہ : اقیم فیہ الظاھر مقام المضمر، یعنی مَن فی النَّارِ اسم ضمیر کی جگہ میں ہے اور ایسا زیادتی شناعت کو بیان کرنے کیلئے کیا گیا ہے تاکہ ان کا ہل نار میں سے ہونا واضح ہوجائے، ورنہ افَانْتَ تُنقِذُہٗ کافی تھا، افَانتَ میں ہمزہ انکار کیلئے ہے افانتَ ، فَمَن حَقَّ علیہِ کا جواب ہے، ہمزہ کا اعادہ کی تاکید کے لئے۔
قولہ : لَھُمْ غُرَفٌ من فوقھا عُرَف اہل جنت کے بارے میں یہ قول مقابلہ میں ہے اہل نار کیلئے اللہ تعالیٰ کے قول لَھُم من فوقھم ظُللٌ من النار ومن تحتھم ظُلَلٌ کے۔ قولہ : بفعلہ المقدر اس کی تقدیر ہے وَعَدَھُم اللہ وعداً ، وعداً کا فعل ناصب وَعَدَ فعل محذوف ہے۔
تفسیر و تشریح
وارض اللہ واسعۃٌ اس سے پہلے جملے میں اعمال صالحہ کا حکم ہے، اس میں کوئی یہ عذر کرسکتا تھا کہ میں شہر یا علاقہ یا ملک میں رہتا ہوں، وہاں کے حالات دینی اعمال اور اسلامی شعار کی ادائیگی کے لئے سازگار نہیں، جس کی وجہ سے میں اعمال صالحہ نہیں کرسکتا، اس کا جواب اس جملہ میں دیدیا گیا کہ اگر کسی خاص ملک و شہر یا علاقہ میں رہتے ہوئے احکام شرعیہ کی پابندی مشکل نظر آئے تو اسکو چھوڑ دو اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، کسی ایسے ملک یا علاقہ میں جاکر رہو جو اطاعت احکام الٰہیہ کیلئے ساز گار ہو، اس میں ایسی جگہ سے ہجرت کرنے کی ترغیب ہے۔
انما یوفی الصّٰبرُون (الآیۃ) ایمان وتقویٰ اور ہجرت کی راہ میں مشکلات ناگزیر اور شہوات و لذت نفس کی قربانی بھی لابدی ہے، جس کے لئے ضرورت ہے، اس لئے صابرین کی فضیلت بھی بیان کردی گئی ہے، کہ ان کو ان کے صبر کے بدلے میں اس طرح پورا پورا اجر دیا جائے گا، کہ اسے حساب کے پیمانوں سے ناپنا ممکن نہیں ہوگا یعنی اس کا اجر غیر متناہی ہوگا، صبر کی یہ وہ عظیم فضیلت ہے جس کی ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے۔
حضرت قتادہ (رض) نے فرمایا کہ حضرت انس (رض) نے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز میزان عدل قائم کی جائے گی، اہل صدقہ آئیں گے تو ان کے صدقات کو تول کر اس کے حساب سے پورا پورا اجر دلایا جائے گا، اسی طرح نماز حج وغیرہ عبادتوں کو تول کر حساب سے ان کا اجر پورا دیدیا جائے گا، پھر جب بلاء اور مصیبتوں پر صبر کرنے والے آئیں گے تو کوئی کَیْل اور وزن نہیں ہوگا، بلکہ بغیر حساب و اندازے کے ان کی طرف اجر وثواب بہا دیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنّما یوفَی الصابرون اجرھم بغیر حساب حتی کہ وہ لوگ جن کی دنیوی زندگی عافیت میں گزری ہوگی تمنا کرنے لگیں گے کہ کاش ہمارے جسم دنیا میں تینچیوں کے ذریعہ کاٹے گئے ہوتے تو ہمیں بھی صبر کا ایسا ہی صلہ ملتا۔
حضرت امام مالک (رح) تعالیٰ علیہ نے اس آیت میں ” صابرین “ سے وہ لوگ مراد لئے ہیں جو دنیا کے مصائب اور آلام پر صبر کرنے والے ہیں، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ صابرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو معاصی سے اپنے نفس کو روکیں، مفسر قرطبی فرماتے ہیں کہ لفظ صابر جب بغیر کسی دوسرے لفظ کے بالا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ہوتا ہے جو اپنے نفس کو گناہوں سے باز رکھنے کی مشقت پر صبر کرے، اور مصیبت پر صبر کرنے والے کے لئے صابر علیٰ کذا بولا جاتا ہے یعنی فلاں مصیبت پر صبر کرنے والا، (واللہ اعلم بالصواب)
فسل کہ۔۔۔ یَنَابِیْعٌ، ینبُوعٌ کی جمع ہے، زمین سے ابلنے والے چشمے یعنی بارش کے ذریعہ پانی آسمان سے اترتا ہے پھر وہ زمین میں حذب ہوجاتا ہے، پھر چشموں کی شکل میں نکلتا ہے یاتالابوں اور نہروں اور پہاڑوں پر برف کی شکل میں جمع ہوجاتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ پانی کو محفوظ کرنے کا اس طرح نظام نہ کرتا تو انسان اس سے صرف بارش کے وقت یا اس کے متصل چند روز تک فائدہ اٹھا سکتا تھا، حالانکہ پانی پر انسانی زندگی کا دار و مدار ہے اور پانی ایسی ضرورت ہے کہ اس سے ایک دن بھی مستغنی نہیں رہ سکتا، اس لئے حق تعالیٰ نے اس نعمت کے صرف نازل کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اس کے محفوظ کرنے کے عجیب عجیب سامان فرما دئیے، کچھ زمین کے گڑھوں، تالابوں، حوضوں میں محفوظ ہوجاتا ہے، اور بہت بڑا ذخیرہ برف کی شکل میں پہاڑوں پر لاد دیا جاتا ہے، جس سے اس کے سڑنے اور خراب ہونے کا بھی امکان نہیں رہتا پھر وہ برف آہستہ آہستہ پگھل کر پہاڑوں کی رکوں کے ذریعہ زمین میں اتر جاتا ہے، اور جا بجا ابلنے والے چشموں کی شکل میں ابلنے لگتا ہے، اور ندیوں کی شکل میں زمین پر بہنے لگتا ہے، اور زیر زمین ذخیرہ ہوجاتا ہے جس کو کنواں کھود کر اور دیگر طریقوں سے نکالا جاتا ہے۔ یعنی اس پانی سے جو ایک ہوتا ہے، انواع و اقسام کی چیزیں پیدا فرماتا ہے جس کا رنگ، ذائقہ، خوشبو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، یہ بھی خدا کی قدرت کی نشانیوں میں سے عظیم نشانی ہے پھر وہ کھتیاں شادابی اور تر و تازگی کے بعد سوکھ کر زرد ہوتی ہیں، اور شکست و ریخت کا شکار ہو کر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں۔
انَّ فی ذلک لذکری۔۔ الالبابِ ۔ یعنی اہل دانش اس سے سمجھ لیتے ہیں کہ دنیا کی مثال بھی اسی طرح ہے وہ بھی بہت جلد زوال و فنا سے ہمکنار ہوجائے گی، اس کی رونق و بہجت، اس کی شادابی اور زینت اور اس کی لذتیں اور آسائشیں عارضی اور وقتی ہیں، جن سے انسان کو دل نہیں لگانا چاہیے، بلکہ اس موت کی تیاری میں شغول رہنا چاہیے جس کے بعد کی زندگی دائمی اور لافانی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اشرف المخلوقات یعنی اہل ایمان کو دینی امور میں سے سب سے بہتر چیز تقویٰ کا حکم دیتے ہوئے کہہ دیجیے اور ان کے سامنے اس سبب کا بھی ذکر کیجیے جو تقویٰ کا موجب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اس کی نعمتوں کا اقرار، جو ان سے تقویٰ اختیار کرنے کا تقاضا کرتی ہیں اور ان میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اس نے ان کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا، جو تقویٰ کا موجب ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کسی سخی شخص سے کہیں ” اے سخی ! صدقہ کر“ اور کسی بہادر شخص سے کہیں ” اے بہادر ! لڑائی کر“ پھر اللہ تعالیٰ نے ثواب کا ذکر فرمایا جو دنیا میں ان کے اندر نشاط پیدا کرتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا﴾ ” جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی“ اپنے رب کی عبادت کے ذریعے سے تو ان کے لئے ﴿حَسَنَةٌ﴾ ” بھلائی“ لامحدود رزق، نفس مطمئنہ اور انشراح قلب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً﴾ (النحل :16؍97) ” جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو، ہم اسے نہایت پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔ “
﴿وَأَرْضُ اللّٰـهِ وَاسِعَةٌ﴾ ” اور اللہ کی زمین وسیع ہے۔“ یعنی اگر تمہیں زمین کے کسی خطے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک دیا جائے تو زمین کے کسی دوسرے خطے کی طرف ہجرت کر جاؤ جہاں تم اپنے رب کی عبادت کرسکو اور جہاں تمہارے لئے اقامت دین ممکن ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ﴾ اور چونکہ یہ نص عام ہے، لہٰذا اس مقام پر بعض لوگوں کے لئے یہ کہنے کی مجال تھی کہ جو شخص بھی نیک کام کرے گا اس کے لئے دنیا میں بھلائی ہے، تو اس شخص کا کیا حال ہے جو کسی خطہ زمین میں ایمان لایا بایں ہمہ وہ مظلوم اور محکوم و مجبور ہے اور وہ اس بھلائی سے محروم ہے؟ اس لئے اس گمان کا جواب ان الفاظ میں فرمایا : ﴿وَأَرْضُ اللّٰـهِ وَاسِعَةٌ﴾ ” اور اللہ کی زمین بڑی فراخ ہے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس بشارت کو ان الفاظ میں منصوص فرمایا :” میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، کسی کا ان سے علیحدہ ہونا اور مخالفت کرنا انہیں کوئی نقصان نہ دے سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچے گا اور یہ گروہ حق اسی نہج پر ہوگا۔“ [صحیح البخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿انما قولنا لشئی إذا أردنٰه﴾ ح :7460 و صحیح مسلم، الجھاد باب قولہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لانزال طائفۃ من أمتی۔۔۔ ح :1920]
یہ آیت کریمہ اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس کی زمین بہت کشادہ ہے اس لئے جب کبھی بھی کسی جگہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک دیا جائے تو تم کسی دوسری جگہ ہجرت کر جاؤ۔ ہر زمان و مکان میں یہ حکم عام ہے۔ تب لازم ٹھہرا کہ ہر ہجرت کرنے والے مومن کے لئے مسلمانوں کے اندر کوئی ٹھکانا ہو جہاں وہ پناہ لے سکے اور ایک جگہ ہو جہاں وہ اپنے دین کو قائم کرسکے۔ ﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ ” جو صبر کرنے والے ہیں، انہیں بے شمار ثواب ملے گا۔“ یہ آیت کریمہ صبر کی تمام انواع کے لئے عام ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر پر اس طرح صبر کرنا کہ اس میں ناراضی کا شائبہ نہ ہو، گناہ اور معاصی کے مقابلے میں صبر کرتے ہوئے ان کے ارتکاب سے بچنا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرتے ہوئے اس پر قائم رہنا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے صبر شعار لوگوں کے لئے بے حساب اجر کا وعدہ کیا ہے۔ یعنی کسی حد، تعداد اور مقدار کے بغیر یہ صبر کی فضیلت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا موقع و محل ہے اور بلاشبہ یہ ہر معاملے میں متعین ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
keh do kay : aey meray emaan walay bando ! apney perwerdigar ka khof dil mein rakho . bhalai unhi ki hai jinhon ney iss duniya mein bhalai ki hai , aur Allah ki zameen boht wasee hai , jo log sabar say kaam letay hain , unn ka sawab unhen bey hisab diya jaye ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
ہرحال میں اللہ کی اطاعت لازمی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے ایمان دار بندوں کو اپنے رب کی اطاعت پر جمے رہنے کا اور ہر امر میں اس کی پاک ذات کا خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے کہ جس نے اس دنیا میں نیکی کی اس کو اس دنیا میں اور آنے والی آخرت میں نیکی ہی نیکی ملے گی۔ تم اگر ایک جگہ اللہ کی عبادت استقلال سے نہ کرسکو تو دوسری جگہ چلے جاؤ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ معصیت سے بھاگتے رہو شرک کو منظور نہ کرو۔ صابروں کو ناپ تول اور حساب کے بغیر اجر ملتا ہے جنت انہی کی چیز ہے۔ مجھے اللہ کی خالص عبادت کرنے کا حکم ہوا ہے اور مجھ سے یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ اپنی تمام امت سے پہلے میں خود مسلمان ہوجاؤں اپنے آپ کو رب کے احکام کا عامل اور پابند کرلوں۔