الزمر آية ۲۲
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖۗ فَوَيْلٌ لِّلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِۗ اُولٰۤٮِٕكَ فِىْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ
طاہر القادری:
بھلا اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے، (اس کے برعکس) پس اُن لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہو کر) سخت ہوگئے، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں،
English Sahih:
So is one whose breast Allah has expanded to [accept] IsLam and he is upon [i.e., guided by] a light from his Lord [like one whose heart rejects it]? Then woe to those whose hearts are hardened against the remembrance of Allah. Those are in manifest error.
1 Abul A'ala Maududi
اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے (اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے اِن باتوں سے کوئی سبق نہ لیا؟) تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے اس جیسا ہوجائے گا جو سنگدل ہے تو خرابی ہے ان کی جن کے دل یادِ خدا کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں وہ کھلی گمراہی میں ہیں،
3 Ahmed Ali
بھلا جس کا سینہ الله نے دین اسلام کے لئے کھول دیا ہے سو وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی میں ہے سوجن لوگوں کے دل الله کے ذکر سے متاثر نہیں ہوتے ان کے لیے بڑی خرابی ہے یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالٰی نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور ہے (١) اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے (اثر نہیں لیتے) بلکہ سخت ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں۔
٢٢۔١ یعنی جس کو قبول حق اور خیر کا راستہ اپنانے کی توفیق اللہ تعالٰی کی طرف سے مل جائے پس وہ اس شرح صدر کی وجہ سے رب کی روشنی پر ہو، کیا یہ اس جیسا ہو سکتا ہے جس کا دل اسلام کے لئے سخت اور اس کا سینہ تنگ ہو اور وہ گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا جس شخص کا سینہ خدا نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو (تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہوسکتا ہے) پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں۔ اور یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں
6 Muhammad Junagarhi
کیا وه شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نےاسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وه اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور پر ہے اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے (اﺛر نہیں لیتے بلکہ) سخت ہو گئے ہیں۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا وہ شخص جس کے سینہ کو اللہ نے (قبولِ) اسلام کیلئے کھول دیا ہے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نور (ہدایت) پر ہے (قسی القلب لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے) بربادی ہے ان کیلئے جن کے دل ذکرِ خدا سے سخت ہوگئے ہیں یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا وہ شخص جس کے دل کو خدا نے اسلام کے لئے کشادہ کردیا ہے تو وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نورانیت کا حامل ہے گمراہوں جیسا ہوسکتا ہے - افسوس ان لوگوں کے حال پر جن کے دل ذکر خدا کے لئے سخت ہوگئے ہیں تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں
9 Tafsir Jalalayn
بھلا جس شخص کا سینہ خدا نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو (تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہوسکتا ہے ؟ ) پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں
آیت نمبر 22 تا 31
ترجمہ : بھلا جس شخص کا سینہ خدا نے اسلام کیلئے کھول دیا ہو جس کی وجہ سے وہ ہدایت پا گیا پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو تو کیا وہ اس شخص کے مانند ہوسکتا ہے کہ جس کے قلب پر مہر لگا دی گئی ہو بربادی ہے ان لوگوں کے لئے جن کے دل خدا کی یاد سے یعنی قبول قرآن سے غافل ہو رہے ہیں حذف خبر پر ویلٌ دلالت کر رہا ہے، ویلٌ کلمۂ عذاب ہے، یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے وہ ایسی کتاب ہے یعنی قرآن جو آپس میں ملتی جلتی ہے، کتابًا احسنَ الحدیث سے بدل ہے یعنی بعض بعض سے مشابہ ہے الفاظ وغیرہ میں اس میں وعدہ وعید وغیرہ کو بار بار دہرایا گیا ہے، جس سے ان لوگوں کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں (کانپنے لگتے ہیں) جب اس کی وعید ذکر کی جاتی ہے، جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں آخر کار ان کے جسم اور سل اس کے وعدہ کے ذکر کے وقت نرم (مطمئن) ہوجاتے ہیں یہ کتاب اللہ کی ہدایت ہے اس کے ذریعہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور خدا جس کو گمراہ کرتا ہے اس کا کوئی ہادی نہیں بھلا وہ شخص جو قیامت کے دن اپنے چہرے کو بدترین عذاب کیلئے (سپر) ڈھال بنائے گا، یعنی شدید ترین عذاب کیلئے اس طریقہ پر کہ اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن میں باندھ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا، اس شخص جیسا ہوسکتا ہے، جو نار جہنم سے جنت میں داخل ہونے کی وجہ سے محفوظ رہا ؟ ظالموں یعنی کفار مکہ سے کہا جائے گا، اپنے کئے کا (مزا) یعنی اس کی سزا چکھو عذاب آنے کے بارے میں ان سے پہلے والوں نے (بھی) رسولوں کو جھٹلایا سو ان پر عذاب ایسے طور پر آیا کہ ان کو خیال بھی نہ تھا یعنی ایسی جہت سے آیا کہ ان کے دل میں وہم و گمان بھی نہیں تھا سو اللہ نے ان کو دنیوی زندگی میں ذلت و رسوائی کا عذاب چکھا دیا وہ مسخ اور قتل وغیرہ ہے اور آخرت کا عذاب اور بھی بڑا ہے کاش یہ تکذیب کرنے والے اس کے عذاب کو سمجھ جاتے تو تکذیب نہ کرتے اور یقیناً ہم نے لوگوں کیلئے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں بیان کردی ہیں تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں، حال یہ کہ قرآن عربی ہے یہ حال مؤکدہ ہے اس میں کسی قسم کی کجی التباس واختلاف نہیں تاکہ یہ لوگ کفر سے بچیں اللہ تعالیٰ نے مشرک اور موحد جی ایک مثال بیان فرمائی (وہ یہ کہ) ایک شخص (غلام) ہے رجلاً ، مثلاً سے بدل ہے جس میں بد اخلاق، جھگڑالو قسم کے چند لوگ شریک ہیں اور دوسرا وہ شخص (غلام) ہے جو خالص ایک ہی شخص کا (غلام) ہے (تو) کیا ان دونوں کی حالت یکساں ہے ؟ مثلاً تمیز ہے یعنی پوری جماعت کا غلام اور ایک شخص کا غلام برابر نہیں ہوسکتے، اس لئے کہ اول سے جب اس کا ہر مالک ایک ہی وقت میں خدمت طلب کرے گا، تو وہ (غلام) حیران رہ جائے گا، کہ ان میں سے کس کی خدمت کرے یہ مثال مشرک کی ہے، اور دوسری مثال موحد کی ہے اللہ وحدہ کیلئے سب تعریفیں ہیں بات یہ ہے کہ اہل مکہ میں سے اکثر لوگ اس عذاب کو جانتے ہی نہیں ہیں جس کی طرف وہ جا رہے ہیں (اسی عدم علم) کی وجہ سے شرک کر بیٹھتے ہیں یقیناً آپ کو بھی موت آئے گی اور وہ بھی مرنے والے ہیں (یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے) لہٰذا (کسی کی) موت پر خوشی کی کوئی بات نہیں، یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کہ (اہل مکہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کا انتظار کرنے لگے، پھر تم یقیناً سب کے سب اے لوگو ! آپس میں حقوق کے بارے میں قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے جھگڑو گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
ربط آیات : قولہ : افمن شرح اللہ صدرہٗ للإسلامِ یہ کلام مستانف ہے، ما قبل میں مذکور فی ذٰلک الذِکرٰی لاُولِی الاَلباب کیلئے بمنزلہ علت کے ہے یعنی ذکریٰ کو اولی الالباب کے ساتھ خاص کرنے کی علت کے قائم مقام ہے، مطلب یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسنے کے بعد پانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ملہ سے کیسے کیسے عجیب و غریط تغیرات ظاہر فرماتے ہیں، ان کو دیکھ کر عقلمندوں ہی کو اسلام کیلئے شرح صدر ہوتا ہے اور یہی شرح صدر عقلمندوں کیلئے قبول ذکر کا سبب ہوتا ہے (اعراب القرآن ترمیماً ) ہمزہ استفہام انکاری ہے اور فاء عاطفہ ہے معطوف مقدر ہے، ای أکُلُّ النَّاسِ سَواء، من موصولہ ہے اس کے بعد پورا جملہ صلہ ہے، موصول اپنے صلہ سے مل کر مبتداء اس کی خبر محذوف ہے، جیسا کہ مفسر علام نے ظاہر فرما دیا ہے کمَن طُبِعَ عَلیٰ قلبہٖ اور اس حذف خبر پر فَوَیلٌ للقَاسِیَۃ دلالت کر رہا ہے، اور بعض حضرات نے من کو شرطیہ بھی کہا ہے اور بعد والا جملہ اس کی جزاء ہے۔
قولہ : عَنْ ذکر قُبُولِ ال قرآن اس عبارت سے علامہ محلی کا مقصد دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے اول یہ کہ من بمعنی عن ہے، اور یہ کہ کلام میں مضاف محذوف ہے عن ذکر اللہ ای عن قبول ذکر اللہ اور یہ بھی صحیح ہے کہ مِنْ اپنے باب پر ہو اور تعلیل کیلئے ہو ای قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ من اجل ذکر اللہ لفَسَاد قلوبھم وخسرانِھا۔
قولہ : مَثَانِی یہ مَثْنٰی کی جمع ہے مگر یہ مفرد کی بھی صفت واقع ہوسکتا ہے، جیسا کہ یہاں کتاب کی صفت واقع ہے، کتاب گو مفرد ہے مگر بہت سی تفاصیل کو جامع ہونے کی وجہ سے ایک مجموعہ کا نام ہے، لہٰذا اس کی صفت جمع لائی جاسکتی ہے، اس کی نظیر عرب کا یہ قول ہے الانسانُ عُرُوقٌ وعِظامٌ واعصابٌ۔ قولہ : وغیرھما کالقصص والاحکام۔
قولہ : تقشعرُّ منہ عند ذکر وعیدہٖ شارح نے اشارہ کردیا کہ من بمعنی عِنْدَ ہے تقشَعِرُّ ای ترتعدُ وتضطربُ (وبالفارسیۃ) لرزیدن، کانپنا، اس کا مصدر اقشعرار ہے (بالفارسیۃ) موئے برتن خاستین یقال اقشَعَرَّ الشعر ای قام وانتصب من فزعٍ او بردٍ خوف یا سردی کی وجہ سے رونگٹے کھڑے ہونا (لغات القرآن ترمیما وتلخیصاً ) زمخشری نے کہا ہے کہ یہ دراصل القَسَعُ ہے، خشک شدہ چمڑا، اس کو رباعی بنانے کیلئے اس کے آخر میں راء زائد کردی تاکہ زیادتی معنی پر دلالت کرے۔ (لغات القرآن)
قولہ : الیٰ ذکر اللہ ای عند ذکر وَعْدِہٖ اس میں اشارہ ہے کہ الیٰ بمعنی عند ہے۔
قولہ : ذٰلک ای الکتاب الموصوف بتلک الصفات المذکورۃ۔
قولہ : ھُدَی اللہ ای سببٌ فی الھُدٰی یا مبالغہ کے طور پر زیدٌ عدلٌ کے قبیل سے ہے یعنی یہ کتاب اس قدر سبب ہدایت ہے گویا کہ وہ خود ہی ہدایت ہے۔
قولہ : افَمَنْ یتَّقِی ویلقٰی بوجھہٖ سوءَ العذاب ایک نسخہ میں یَلْقٰی کے بجائے یَقِی ہے، مَنْ موصولہ اپنے صلہ سے مل کر جملہ ہو کر مبتداء اس کی خبر محذوف ہے، جس کو علامہ محلی نے کَمْن اَمِنَ منہُ کہہ کر ظاہر کردیا ہے، مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے چہرے کو آگ کیلئے سپر (ڈھال) بنائے، کیا وہ اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے، جو آگ سے مامون و محفوظ ہو۔
قولہ : قِیلَ للظّٰلِمِیْنَ یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے ماضی سے تعبیر کیا ہے، اس کا عطف یتقی پر ہے، للظّٰلِمِینَ اسم ظاہر کو اسم ضمیر کی جگہ ان کی صفت ظلم کو بیان کرنے کیلئے لایا گیا ہے، ورنہ تو وقِیْلَ لَھُمْ کافی تھا۔
قولہ : ای کفار مکۃ کے بجائے مطلقاً کفار کہتے تو زیادہ مناسب ہوتا، اس لئے کہ یہ قول کفار مکہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
قولہ : ای جزاءَہٗ اس میں اشارہ ہے مضاف محذوف ہے، ای ذوقوا جزاءَ ما کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ ۔ قولہ : لَوْ کانوا یعلَمُونَ ، لَوْ شرطیہ ہے کانوا فعل ناقص اس کے اندر ضمیر وہ اسم، یَعلَمونَ جملہ ہو کر کَانَ کی خبر کان اسم و خبر سے مل کر شرط، جواب شرط محذوف جس کو مفسر نے ما کذبوا نکال کر ظاہر کردیا، اور عذَابَھَا مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ یعلمونَ کا مفعول محذوف ہے۔
قولہ : وَلَقَدْ ضَرَبْنَا، لَقَدْ میں لام قسم محذوف کے جواب پر داخل ہے اور ضَرَبْنَا بمعنی بَیَّنَّاواَوْ ضَحْنَا ہے۔
قولہ : قرآنًا عربیًّا، ھٰذا القرآن کے لئے حال مؤکدہ ہے۔
قولہ : مُتَشَاکِسُوْنَ اسم فاعل جمع مذکر غائب، جھگڑالو شَکُسَ یشکُسُ (ک) شکاسۃً بدخلق ہونا، قال زمخشری (رح) التشاکُس والتَّشَاخُسْ ای الاختلاف۔
قولہ : ھل یستویان، مثلاً تمیزٌ، مثلاً تمیز ہے جو فاعل سے منقول ہے تقدیر عبارت یہ ہے ای لا یستوی مثلھما وصِفَتُھما۔
قولہ : میتٌ فرّا نے کہا ہے یاء کی تشدید کے ساتھ وہ شخص جو ابھی مرانہ ہو اور عنقریب مرنے والا ہو اور مَیْتٌ (ی) کی تخفیف کے ساتھ مردہ، بعض حضرات نے کہا ہے کہ دونوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
تفسیر و تشریح
افمن شرح۔۔۔۔ للاسلام (الآیۃ) شرحٌ کے لغوی معنی کھولنے اور پھیلانے اور وسیع کرنے کے ہیں، شرح صدر کا مطلب ہے وسعت قلب یعنی قلب میں قبول حق کی استعداد و صلاحیت کا پیدا ہوجانا کیا وہ شخص کہ جس میں قبول حق اور کار خیر پر عمل کرنے کی استعداد و صلاحیت پیدا ہوگئی، اس جیسا ہوسکتا ہے جس کا دل اسلام کیلئے سخت اور سینہ تنگ ہو، اور گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہو، شرح صدر کے بالمقال ضیق قلب ہے، جیسا کہ اسی آیت میں قاسیۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ آیت افَمَن شرح اللہ صدرَہٗ تلاوت فرمائی تو ہم نے آپ سے دریافت کیا کہ شرح صدر کا کیا مطلب ہے ؟ تو آپ نے فرمایا جب نور ایمان انسان کے قلب میں داخل ہوتا ہے تو اس کا قلب وسیع ہوجاتا ہے، جس سے احکام الٰہیہ کا سمجھنا اور عمل کرنا اس کیلئے آسان ہوجاتا ہے ہم نے دریافت کیا، یا رسول اللہ اس (شرح صدر) کی علامت کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : الإنابۃُ الیٰ دار الخلود والتجا فی عن دار الغرور والتأھبُ للموت قبل نزول الموت۔ (رواہ الحاکم، فی المستدرک والبیھقی فی شعب الایمان، مظھری) ” ہمیشہ رہنے والے گھر کی طرف راغب اور مائل ہونا اور دھوکے کے گھر یعنی دنیا کے (لذائذ اور زینت) سے دور رہنا اور موت کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرنا “۔
افمن شرح اللہ صدرہٗ (الآیۃ) اس آیت کو حرف استفہام سے شروع فرمایا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا ایسا شخص جس کا دل اسلام کیلئے کھول دیا گیا ہو اور وہ اپنے رب کی طرف سے آئے ہوئے نور پر ہو (یعنی اس کی روشنی میں سب کام کرتا ہو) اور وہ آدمی جو تنگ دل اور سخت دل ہو کہیں برابر ہوسکتے ہیں ؟ اس کے بالمقابل سخت دل کا ذکر اگلی آیت میں ویل سے کیا گیا ہے فویلٌ للقٰسِیَۃِ قُلُوبُھُمْ ، قاسیۃٌ، قساوۃٌ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں سخت دل ہونا، جس کو کسی پر رحم نہ آئے اور جو اللہ کے ذکر اور اس کے احکام سے کوئی اثر قبول نہ کرے۔ (معارف)
اللہ نزَّل۔۔۔۔ متشابِھًا (الآیۃ) اس سے پہلی آیت میں اللہ کے مقبول بندوں کی کیفیت میں بیان کیا گیا تھا کہ یستمعون القولَ فیتَّبِعُوْنَ احسنَہٗ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ پورا قرآن ہی احسن الحدیث ہے، لغت میں حدیث اس کلام یا قصہ کو کہتے ہیں جس کو بیان کیا جاتا ہے، قرآن کو احسن الحدیث کہنے کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو کچھ کہتا بولتا ہے اس سب میں قرآن احسن الکلام ہے، یہ مطلب نہیں کہ قرآن کا کچھ حصہ احسن اور کچھ غیر احسن ہے، جیسا کہ یتبعوْنَ احسنَہٗ سے شبہ ہوتا ہے، آگے قرآن کی چند صفات ذکر فرمائی ہیں : (1) پہلی صفت متشابھًا ہے، متشابہ سے یہاں مراد متماثل ہے، یعنی مضامین قران ایک دوسرے سے مربوط و مماثل ہیں کہ ایک آیت کی تصدیق و تشریح دوسری آیت سے ہوجاتی ہے، اس کلام میں تضاد و تعارض کا نام نہیں ہے (2) دوسری صفت مثانی ہے جو مثنیٰ کی جمع ہے، جس کے معنی مکرر کے ہیں یعنی وعد، وعید بعض مضامین کو ذہن میں مستحضر کرنے کیلئے بار بار دہرایا جاتا ہے (3) تیسری صفت۔
تقشعر منہ۔۔۔۔ ربھم (الآیۃ) یعنی اللہ کی عظمت سے متأثر ہو کر ایسے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے (4) چوتھی صفت ثُمَّ تلینُ جُلودھم (الآیۃ) یعنی تلاوت قرآن کا کبھی اثر نہ ہوتا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کبھی مغفرت اور رحمت خداوندی کی آیات سن کر یہ حال ہوتا ہے کہ بدن اور قلب سب اللہ کی یاد میں نرم ہوجاتے ہیں۔ (قرطبی، معارف)
حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس بندے کے بدن پر اللہ کے خوف سے بال کھڑے ہوجائیں تو اللہ اس کے بدن کو آگ پر حرام کردیتے ہیں۔ (قرطبی)
جب اللہ کی رحمت اور اس کے لطف و کرم کی امید ان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے تو ان کے اندر سوز و گداز پیدا ہوجاتا ہے اور وہ اللہ کے ذکر میں مصروف ہوجاتے ہیں، حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ اس میں اولیاء اللہ کی صفت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے خوف سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں، اور ان کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمینان نصیب ہوتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ وہ مدہوش اور حواس باختہ ہوجائیں اور عقل و ہوش باقی نہ رہے کیونکہ یہ بدعتیوں کا طریقہ ہے، اور اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔ (ابن کثیر)
افمن یَّتَّقِی بوجھہٖ اس میں جہنم کی سخت ہولناکی کا بیان ہے، حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کافروں کو دست و پابستہ جہنم کی طرف لیجائے گے اور اس میں پھینک دیں گے، اور سب سے پہلے آگ اس کے چہرے کو مس کرے گی، انسان کی عادت دنیا میں یہ ہے کہ اگر کوئی تکلیف کی چیز چہرے کے سامنے آجائے تو اپنے ہاتھوں سے اسے دفع کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر خدا کی پناہ، جہنمیوں کو ہاتھوں سے مدافعت بھی نصیب نہ ہوگی، اس لئے کہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہوں گے، ان پر جو عذاب آئے گا وہ براہ راست چہروں پر پڑے گا، وہ اگر مدافعت بھی کرنا چاہیں گے تو چہروں ہی کو آگے کرنا ہوگا۔ (قرطبی، معارف)
ثم انکم۔۔۔۔ تختصمون حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ انکُمْ میں مومن اور کافر اور مسلمان، ظالم اور مظلوم سب داخل ہیں، یہ سب اپنے اپنے مقدمات اپنے رب کی عدالت میں پیش کریں گے، اور اللہ تعالیٰ ظالم سے مظلوم کا حق دلوائیں گے، اور حقوق کی ادائیگی کی صورت وہ ہوگی جو صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے آئی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کے ذمہ کسی کا حق ہے اس کو چاہیے کہ دنیا ہی میں اس کو معاف کرا کر فارغ ہوجائے، اس لئے کہ آخرت میں درہم و دینار تو ہوں گے نہیں، اگر ظالم کے پاس کچھ اعمال صالحہ ہوں گے، تو بمقدار ظلم یہ اعمال اس سے لیکر مظلوم کو دیدیئے جائیں گے، اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو مظلوم کے گناہ ظالم پر ڈال دئیے جائیں گے۔
اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز صحابہ کرام (رض) سے سوال فرمایا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ مفلس کون ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم تو مفلس اس کو سمجھتے ہیں جس کے پاس نہ کوئی نقد رقم ہو اور نہ ضروریات کا سامان ہو، آپ کے فرمایا : اصلی اور حقیقی مفلس میری امت میں وہ شخص ہے جو قیامت میں بہت سے نیک اعمال، نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ لے کر آئے گا، مگر اس کا حال یہ ہوگا کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تمہت لگائی ہوگی، کسی کا مال ناجائز طور پر کھایا ہوگا یا کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو مار پیٹ سے ستایا ہوگا، یہ سب مظلوم اللہ کے سامنے اپنے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں گے اور اس ظالم کی نیکیاں مظلوموں میں تقسیم کردی جائیں گی، پھر جب اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور حقوق باقی رہ جائیں گے تو مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے اور اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
ظالم کے تمام نیک اعمال حقوق کے عوض دیدئیے جائیں گے مگر ایمان نہیں دیا جائے گا : تفسیر مظہری میں مذکور روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مظلوموں کے حقوق میں ظالموں کے نیک اعمال دینے کا جو ذکر آیا ہے اس کی مراد ایمان کے علاوہ دیگر اعمال ہیں، اس لئے کہ جتنے مظالم ہیں وہ سب عملی گناہ ہیں کفر نہیں ہیں، اور عملی گناہ کی سزا محدود ہوگی، بخلاف ایمان کے کہ وہ غیر محدود عمل ہے اس کی جزاء بھی غیر محدود یعنی ہمیشہ جنت میں رہنا ہے، اگرچہ وہ ابتداءً کچھ سزا بھگتنے کے بعد ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو قبول کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لئے وسعت ہو اور وہ اسلام کے معاملے میں انشراح صدر اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے ساتھ بصیرت کی راہ پر گامزن ہو۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ﴾ ” پس وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہو۔“ سے یہی مراد ہے۔۔۔ اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جو ان مذکورہ اوصاف سے محروم ہے؟
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللّٰـهِ﴾ ” پس ہلاکت ہے ان کے لئے جن کے دل اللہ کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں۔“ یعنی ان کے سخت دل اس کی کتاب کو سمجھنے کے لئے نرم ہوتے ہیں نہ اس کی آیات سے نصیحت پکڑتے ہیں اور نہ اس کے ذکر سے اطمینان ہی حاصل کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے رب سے روگردانی کر کے غیر کی طرف التفات کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لئے شدید ہلاکت اور بہت بڑی برائی ہے۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔“ اس شخص کی گمراہی سے بڑھ کر کون سی گمراہی ہے جو اپنے والی اور سرپرست سے منہ موڑتا ہے جس کی طرف التفات میں ہر قسم کی سعادت ہے، جس کا دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بارے میں پتھر کے مانند سخت ہے اور وہ اس چیز کی طرف متوجہ ہے جو اس کے لئے نقصان دہ ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
bhala kiya woh shaks jiss ka seena Allah ney Islam kay liye khol diya hai , jiss kay nateejay mein woh apney perwerdigar ki ata ki hoi roshni mein aa-chuka hai , ( sang dilon kay barabar hosakta hai ? ) haan ! barbadi unn ki hai jinn kay dil Allah kay ziker say sakht hochukay hain . yeh log khuli gumrahi mein parray huye hain .