الزمر آية ۷۱
وَسِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا ۗ حَتّٰۤى اِذَا جَاۤءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـتُهَاۤ اَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَتْلُوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُوْنَـكُمْ لِقَاۤءَ يَوْمِكُمْ هٰذَا ۗ قَالُوْا بَلٰى وَلٰـكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ
طاہر القادری:
اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ دوزخ کی طرف گروہ درگروہ ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اُس (جہنم) کے پاس پہنچیں گے تو اُس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس کے داروغے اُن سے کہیں گے: کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تم پر تمہارے رب کی آیات پڑھ کر سناتے تھے اور تمہیں اِس دن کی پیشی سے ڈراتے تھے؟ وہ (دوزخی) کہیں گے: ہاں (آئے تھے)، لیکن کافروں پر فرمانِ عذاب ثابت ہو چکا ہوگا،
English Sahih:
And those who disbelieved will be driven to Hell in groups until, when they reach it, its gates are opened and its keepers will say, "Did there not come to you messengers from yourselves, reciting to you the verses of your Lord and warning you of the meeting of this Day of yours?" They will say, "Yes, but the word [i.e., decree] of punishment has come into effect upon the disbelievers."
1 Abul A'ala Maududi
(اِس فیصلہ کے بعد) وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا جہنم کی طرف گروہ در گروہ ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اُس کے کارندے ان سے کہیں گے "کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے، جنہوں نے تم کو تمہارے رب کی آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایا ہو کہ ایک وقت تمہیں یہ دن بھی دیکھنا ہوگا؟" وہ جواب دیں گے "ہاں، آئے تھے، مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر چپک گیا"
2 Ahmed Raza Khan
اور کافر جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے گروہ گروہ یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن سے ملنے سے ڈراتے تھے، کہیں گے کیوں نہیں مگر عذاب کا قول کافروں پر ٹھیک اترا
3 Ahmed Ali
اور جو کافر ہیں دوزخ کی طرف گروہ گروہ ہانکے جائیں گے یہاں تک کہ جب اسکے پاس آئیں گے تو اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور ان سے اس کے داروغہ کہیں گے کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئےتھے جو تمہیں تمہارے رب کی آیتیں پڑھ کر سناتے تھے اور آج کے دن کےپیش آنے سے تمہیں ڈراتے تھے کہیں گے ہاں لیکن عذاب کا حکم (علم ازلی میں) منکرو ں پر ہو چکا تھا
4 Ahsanul Bayan
کافروں کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے (١) جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اس کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے (٢) اور وہاں کے نگہبان ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ جو تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے رہتے؟ (۳) یہ جواب دیں گے ہاں درست ہے لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا۔ (٤)
٧١۔١ زمر زَمَرَ سے مشتق ہے بمعنی آواز ہر گروہ یا جماعت میں شور اور آوازیں ضرور ہوتی ہیں اس لیے یہ جماعت اور گروہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ کافروں کو جہنم کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا ایک گروہ کے پیچھے ایک گروہ۔ علاوہ ازیں انہیں مار دھکیل کر جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہنکایا جائے گا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا یوم یدعون الی نار جہنم دعا الطور یعنی انہیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جاۓ گا۔
٧١۔۲یعنی ان کے پہنچتے ہی فورا جہنم کے ساتوں دروازے کھول دیۓ جائیں گے تاکہ سزا میں تاخیر نہ ہو۔
٧١۔۳ یعنی جس طرح دنیا میں بحث و تکرار اور جدال و مناظرہ کرتے تھے، وہاں سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جانے کے بعد بحث و جدال کی گنجایش ہی باقی نہ رہے گی، اس لئے اعتراف کیے بغیر چارہ نہ ہوگا۔
٧١۔٤یعنی ہم نے پیغمبروں کی تکذیب اور مخالفت کی اس شقاوت کی وجہ سے جس کے ہم مستحق تھے جب کہ ہم نے حق سے گریز کر کے باطل کو اختیار کیا اس مضمون کو سورۃ الملک میں زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کافروں کو گروہ گروہ بنا کر جہنم کی طرف لے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو اس کے داروغہ ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور اس دن کے پیش آنے سے ڈراتے تھے کہیں گے کیوں نہیں لیکن کافروں کے حق میں عذاب کا حکم متحقق ہوچکا تھا
6 Muhammad Junagarhi
کافروں کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے، جب وه اس کے پاس پہنچ جائیں گے اس کے دروازے ان کے لیے کھول دیے جائیں گے، اور وہاں کے نگہبان ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں درست ہے لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ﺛابت ہو گیا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ (اس خدائی فیصلہ کے بعد) جہنم کی طرف گروہ در گروہ ہانکے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس کے داروغے ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہی میں سے کچھ رسول(ع) نہیں آئے تھے جو تمہیں تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ کر سناتے تھے اور تمہیں اس دن کے پیش آنے سے ڈراتے تھے وہ (جواب میں) کہیں گے کہ ہاں (آئے تو تھے) لیکن (ہم نے نہ مانا کیونکہ) کافروں پر عذاب کا فیصلہ ہو چکا تھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کفر اختیار کرنے والوں کو گروہ در گروہ جہّنم کی طرف ہنکایا جائے گا یہاں تک کہ اس کے سامنے پہنچ جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس کے خازن سوال کریں گے کیا تمہارے پاس رسول نہیں آئے تھے جو آیااُ رب کی تلاوت کرتے اور تمہیں آج کے دن کی ملاقات سے ڈراتے تو سب کہیں گے کہ بیشک رسول آئے تھے لیکن کافرین کے حق میں کلمئہ عذاب بہرحال ثابت ہوچکا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور کافروں کو گروہ گروہ بنا کر جہنم کی طرف لے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ اسکے پاس جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے تو اس کے داروغہ ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور اس دن کے پیش آنے سے ڈراتے تھے ؟ کہیں گے کیوں نہیں لیکن کافروں کے حق میں عذاب کا حکم متحقق ہوچکا تھا
آیت نمبر 71 تا 75
ترجمہ : اور کافروں کے غول کے غول مختلف گروہوں میں شدت کے ساتھ جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے جب وہ جہنم کے پا سپہنچ جائیں گے تو جہنم کے دروازے کھول دئیے جائیں گے (فتحت ابوابھا) اذا کا جواب ہے، وہاں نگران ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تم کو تمہارے رب کی آیتیں قرآن وغیرہ پڑھ کر سناتے تھے ؟ اور تمہیں ان دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے، یہ جواب دیں گے ہاں درست ہے، لیکن کلمہ عذاب یعنی لاملان جھنم (الآیۃ) کافروں پر ثابت ہوگیا حکم دیا جائے گا اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ، جہاں ہمیشہ رہو گے، حال یہ کہ خلود مقدر ہوچکا پس سرکشوں کا ٹھکانہ بہت ہی برا ہے اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کے گروہ کے گروہ جنت کی طرف اکرام کے ساتھ روانہ کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ اس (جنت) کے پاس آجائیں گے، حال یہ کہ دروازے کھلے ہوں گے (وفتحت) میں واؤ حالیہ ہے قَدْ کی تقدیر کے ساتھ اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو خوش حال رہو، تم اس میں ہمیشہ کے لئے چلے جاؤ حال یہ کہ ان کا اس میں ہمیشہ رہنا مقدر ہوچکا ہے، اذا کا جواب مقدر ہے ای دخلوھَا اور ان کو لیجانا اور ان کے آنے سے پہلے دروازوں کا کھلنا یہ ان کا اعزاز ہے، اور کفار کو ہانکنا اور جہنم کے دروازوں کو ان کی آمد پر کھولنا تاکہ جہنم کی حرارت باقی رہے، یہ ان کی توہین ہے، یہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے کہ جس نے ہم سے اپنا جنت کا وعدہ پورا کیا اور ہمیں اس نے زمین کا یعنی جنت کا وارث بنادیا کہ جنت میں ہم جہاں چاہیں قیام کریں اس لئے کہ جنتی ایک مقام کو دوسرے مقام پر ترجیح نہیں دے گا، پس عمل کرنے والوں کا کیا اچھا بدلہ ہے، اور تو فرشتوں کو اس کے چاروں طرف سے عرش کے گردا گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے ہوئے یعنی اس میں مشغول دیکھے گا، یُسبحون، حافین کی ضمیر سے حال ہے یعنی وہ سبحان اللہ وبحمدہٖ کہہ رہے ہوں گے اور ان میں یعنی تمام مخلوق کے درمیان حق یعنی عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا، سو مومنین جنت میں اور کافر دوزخ میں داخل ہوں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ ساری خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہیں، جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے دو فریقوں (یعنی اہل جنت و دوزخ) کا اسقرار، ملائکہ کی حمد پر ختم ہوا۔ (واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم)
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وسیق الذین کفروا بعنفٍ واؤ عاطفہ سیق فعل ماضی مجہول الَّذینَ موسول کفرُوا صلہ، موصول صلہ سے مل کر سیق کا نائب فاعل اِلیٰ جھَنَّمَ سقَ سے متعلق ہے، زمراً حال، زمرٌ زمرۃٌ کی جمع ہے بمعنی جماعت۔
قولہ : بعنفٍ اس کا اضافہ لیجانے میں شدت اور سختی کو بیان کرنے کے لئے ہے اس لئے کہ جہنمہوں کے یہی مناسب حال ہے۔
قولہ : وسیقَ الذینَ اتقوا ربَّھُم بلطفٍ لفط کا اضافہ احترام اور اکرام کو بیان کرنے کے لئے ہے۔
سوال : جہنمیوں اور دوزخیوں، دونوں کے لئے سیق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جہنمیوں کیلئے معنی بیان کئے ” شدت اور سختی سے ہانک کرلیجانا “ ، اور جنتیوں کیلئے معنی بیان کئے ” عزت و احترام کے ساتھ لیجانا “ ، لفظ ایک صیغہ ایک مادہ ایک پھر دونوں جگہ معنی میں فرق کی کیا وجہ ہے۔
جواب : جہنمیوں کیلئے سیق کے لفظ کا استعمال صحیح اور معقول ہے، اس لئے کہ جب ان کے لئے عقاب و عذاب کا فیصلہ کردیا گیا تو ان کی حیثیت ایسے مجرم کی ہوگئی کہ جس کو قید کا حکم دیا جا چکا ہو، ظاہر ہے ایسے باغی اور مجرم کو سختی اور تیزی کے ساتھ لے جایا جاتا ہے تاکہ جلدی سے جلدی اس کو جیل خانہ میں داخل کردیا جائے، البتہ ان لوگوں کے بارے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن کیلئے جنت کا فیصلہ کردیا گیا ہو، ان کو تیزی سے لے جانے کی کیا ضرورت، ان کو بہت عزت و احترام کے ساتھ لیجانا چاہیے، اس کا جواب یہ ہے الذینَ اتَّقَوا ربَّھُم سے پہلے مضاف محذوف ہے، اور وہ مراکب ہے، اب عبارت یہ ہوگی سیق مراکبُ الَّذین اتقوا یعنی اہل جنت کی سواریوں کو تیزی سے چلایا جائے گا تاکہ وہ اپنی آرام گاہ میں جلدی سے جلدی پہنچیں، اور لفظ کو محذوف ماننے کا قرینہ یہ ہے کہ جنتیوں کو پیدل نہیں لیجایا جائے گا، بلکہ قبروں سے نکلتے ہی سواریاں مہیا کی جائیں گی۔ (جمل)
ما اجمل قول الزمخشری فی ھذا الصَدَدِ قال : فان قُلْت کیف عبر عنِ الذِّھاب بالفریقین جمیعًا بلفظ السوق ؟ قلتُ : المراد بسوق اھل النار، طردُھم الیھَا بالھَوَانِ والعنفِ کما یُفْعَلُ ما لا سارٰی والخارجین علی السلطان اذا سیقوا الی حبسٍ او قتلٍ والمراد بسوق اھل الجنۃ : سوق مراکبھم لانَّہٗ لا یذھب بھم الاَّ راکبین وحثُّھا الی دار الکرامۃ والرضوان کما یفعلُ بمن یشرف و یکرم من الفوافدین علیٰ بعض الملوک فشتان بین السوقَین (اعراب القرآن للدرویش) ۔
حتی اذا جاءُوْھَا فتحت ابوابھا۔
قولہ : حتّٰی ابتدائیہ ہے، اذا جاءُوھَا شرط فتحت ابوابھا بالاتفاق جزاء۔ قولہ : حتّٰی اذا جاءُوھا و فتحت ابوابُھا۔
سوال : یہاں وفتحت ابوابھا میں واؤ لایا گیا ہے اس سے ماقبل میں واؤ نہیں لایا گیا، اس میں کیا نکتہ ہے ؟
جواب : اس میں نکتہ یہ ہے کہ جیل خانوں کے دروازے عام طور پر بند رہتے ہیں جب کوئی مجرم لایا جاتا ہے تو اس وقت کچھ دیر کے لئے کھولے جاتے ہیں پھر فوراً ہی بند کر دئیے جاتے ہیں، اس میں آنے والوں کی توہین ہے، لہٰذا اس کیلئے عدم واؤ مناسب ہے، بخلاف مہمان خانوں اور تفریح گاہوں کے دروازوں کے کہ ان کے دروازے آنے والوں کے انتظار میں کھلے رہتے ہیں، نیز اس میں آنے والوں کا اعزاز بھی ہے لہٰذا اس کے مناسب واؤ ہے۔
یہاں اَذَا کے جواب میں تین صورتیں ہوسکتی ہیں (1) وفتحت جواب شرط ہے، واؤ زائدہ ہے یہ کہ کو فیین اور اخفش کی رائے ہے (2) جواب محذوف ہے زمخشری نے کہا ہے کہ خالدین کے بعد محذوف مانا جائے اس لئے کہ متعلقات شرط کے بعد معطوف علیہ کو لایا جاتا ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی اِطمَانوا اور مبرد نے سعدوا مقدر مانا ہے اور محلی نے دخلوھا مقدر مانا ہے (3) بعض حضرات نے کہا ہے کہ جواب وَقَالَ لھُم خزنتُھا ہے واؤ کی زیادتی کے ساتھ۔
قولہ : مُقَدَّرینَ الخلود فیھا اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اس اعتراض کو جواب دینا ہے کہ خٰلدین، فادخلوا کی ضمیر سے حال ہے، اور حال و ذوالحال کا زمانہ ایک ہوا کرتا ہے، حالانکہ یہاں دونوں کا زمانہ ایک نہیں ہے اس لئے کہ دخلول کے بعد خلود ہوگا نہ کہ ساتھ ساتھ، اس کا جواب یہ دیا کہ ان کیلئے خلود مقدر کردیا گیا، یعنی وہ جنت میں داخل ہوں گے حال یہ کہ ان کے لئے خلود مقدر کردیا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
زُمرٌ، زمرٌ سے مشتق ہے (ن) زمزاً کے معنی آواذ کرنا، اور گروہ و جماعت میں چونکہ آواز اور شور ضرور ہوتا ہے، اس لئے زمرۃٌ کا لفظ گروہ جماعت کیلئے بھی استعمال ہونے لگا، مطلب یہ ہے کہ کافروں کو گروہوں اور جماعتوں کی شکل میں جہنم کی طرف لیجایا جائے گا، ایک گروہ کے پیچھے دوسرا گروہ ہوگا، علاوہ ازیں انہیں مار دھکیل کر جانوروں کے ریوڑ کی مانند ہنکایا جائے گا، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا : یوم یدعُّونَ الیٰ نار جھنم دعَّا یعنی انہیں جہنم کی جانب سختی کے ساتھ دھکیلا جائے گا۔
وسیق الَّذین اتقوا ربھم الی الجنۃ زمراً (الآیۃ) اہل ایمان وتقویٰ بھی گروہوں کی شکل میں جنت کی طرف لے جائے جائیں گے پہلے مقربین پھر ابرار اسی طرح درجہ بدرجہ ہر گروہ، ہم مرتبہ لوگوں پر مشتمل ہوگا، انبیاء کا گروہ الگ ہوگا صدیقین کا الگ شہدا کا الگ علیٰ ھٰذا القیاس۔ (ابن کثیر)
تم بحمد اللہ
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کا ذکر فرمایا جن کو اس نے تخلیق، رزق اور تدبیر میں اکٹھا کیا، دنیا کے اندر وہ سب اکٹھے رہے، قیامت کے روز بھی اکٹھے ہوں گے مگر ان کی جزا کے وقت ان کے درمیان اسی طرح تفریق کردی جائے گی جس طرح انہوں نے دنیا میں ایمان اور کفر، تقویٰ اور فسق و فجور کے اعتبار سے ان کے درمیان فرق تھا، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ ﴾ ” اور جن لوگوں نے کفر کیا انہیں جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔“ یعنی کافروں کو نہایت سختی سے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ انتہائی سخت فرشتے کوڑوں سے مارتے ہوئے، بہت برے قید خانے، بدترین جگہ، یعنی جہنم کی طرف لے جائیں گے۔ جہاں ہر قسم کا عذاب جمع ہوگا اور ہر قسم کی بدبختی موجود ہوگی۔ جہاں ہر سرور زائل ہوجائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ﴾(الطور:52؍13) ” جس روز انہیں آتش جہنم کی طرف دھکیل دھکیل کرلے جایا جائے گا۔“ یعنی ان کو دھکے دے کر جہنم میں پھینکا جائے گا کیونکہ وہ جہنم میں داخل ہونے سے مزاحمت کریں گے، ان کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ ﴿ زُمَرًا ﴾ متفرق جماعتوں کی صورت میں۔ ہر گروہ اس گروہ کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس کے اعمال مناسبت رکھتے ہوں گے اور جن کے کرتوت ایک دوسرے کے مشابہ ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے کو لعنت ملامت اور ایک دوسرے سے برأت اور بیزاری کا اظہار کریں گے۔ ﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا ﴾ یعنی جب جہنم کے قریب پہنچیں گے ﴿فُتِحَتْ ﴾ ” کھول دیئے جائیں گے“ ان کے لئے یعنی ان کی خاطر ﴿ أَبْوَابُهَا ﴾ ” اس کے دروازے“ ان کی آمد اور مہمانی کرتے ہوئے جہنم کے دروازے کھولے جائیں گے۔ ﴿ وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا ﴾ جہنم کے داروغے ابدی بدبختی اور سرمدی عذاب کی بشارت دیں گے اور ان اعمال پر، جن کے سبب سے وہ اس بدترین جگہ پر پہنچے، انہیں زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ ﴾ ” کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے۔“ یعنی تمہاری جنس میں سے، جنہیں تم پہچانتے اور ان کی صداقت کو خوب جانتے تھے اور تم ان سے ہدایت حاصل کرسکتے تھے؟
﴿ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ﴾ ” وہ تم کو تمہارے رب کی آیتیں پڑھ کر سناتے تھے“ جن آیات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء و مرسلین کو مبعوث فرمایا تھا جو روشن ترین دلائل و براہین کے ذریعے سے حق الیقین پر دلالت کرتی تھیں۔ ﴿ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا ﴾ ” اور وہ تمہیں ان دن کے پس آنے (ملاقات) سے ڈراتے تھے۔“ اور یہ چیز اس دن کے ڈر کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہارے ان رسولوں کی اتباع اور اس دن کے عذاب سے بچنے کی موجب تھی، مگر تمہارا حال اس مطلوبہ حال کے بالکل برعکس تھا۔ ﴿ قَالُوا ﴾ وہ اپنے گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہونے کا اعتراف و اقرار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿ بَلَىٰ ﴾ کیوں نہیں ! ہمارے پاس ہمارے رب کے رسول واضح دلائل اور نشانیوں کے ساتھ آئے، انہوں نے ان نشانیوں کو ہمارے سامنے پوری طرح واضح کردیا تھا اور انہوں نے ہمیں آج کے دن سے ڈرایا تھا ﴿وَلَـٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴾ ” لیکن عذاب کا حکم (وعدہ) کافروں پر ثابت ہو کر رہا۔“ یعنی ان کے کفر کے سبب سے ان پر عذاب واجب ہوگیا۔ یہ عذاب ہر اس شخص کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتا ہے اور اس چیز کو جھٹلاتا ہے جسے لے کر انبیاء و رسل مبعوث ہوئے۔ پس یہ کفار اپنے گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی حجت کے قائم ہونے کا اعتراف کریں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہنم کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا ﴾ اور جنت کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَفُتِحَتْ ﴾ یعنی واؤ کے ساتھ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل جہنم کے وہاں مجرد پہنچنے پر جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، انہیں انتظار کی مہلت نہیں دی جائے گی، جہنم کے دروازے ان کے پہنچنے پر اور ان کے سامنے اس لئے کھلیں گے کہ اس کی حرارت بہت زیادہ اور اس کا عذاب انتہائی شدید ہوگا۔
رہی جنت، تو یہ بہت ہی عالی مرتبہ مقام ہے، جہاں ہر شخص نہیں پہنچ سکتا۔ صرف وہی شخص جنت تک پہنچ سکتا ہے جو ان وسائل کو اختیار کرتا ہے جو جنت تک پہنچاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ جنت میں داخل ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل تکریم ہستی کی سفارش کے محتاج ہوں گے۔ مجرد وہاں پہنچنے پر ان کے لئے جنت کے دروازے نہیں کھول دیئے جائیں گے بلکہ وہ جناب نبی مصطفی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سفارش کرائیں گے، آپ اہل ایمان کی سفارش کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش کو قبول فرمائے گا۔
یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ جہنم اور جنت کے دروازے ہوں گے، جو کھولے اور بند کئے جا سکیں گے۔ اور ہر دروازے پر داروغہ مقرر ہوگا۔ یہ خالص گھر میں جہاں صرف وہی شخص داخل ہوسکے گا جو ان کا مستحق ہوگا بخلاف عام گھروں اور جگہوں کے، جہاں ہر کوئی داخل ہوسکتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jinn logon ney kufr apnaya tha , unhen jahannum ki taraf girohon ki shakal mein haanka jaye ga , yahan tak kay jab woh uss kay paas phonch jayen gay to uss kay darwazay kholay jayen gay , aur uss kay mohafiz unn say kahen gay kay : kiya tumharay paas tumharay apney logon mein say payghumber nahi aaye thay jo tumhen tumharay rab ki aayaten parh ker sunatay hon , aur tumhen iss din ka samna kernay say khabar daar kertay hon-? woh kahen gay kay : beyshak aaye thay , lekin azab ki baat kafiron per sachi ho ker rahi .
12 Tafsir Ibn Kathir
کفار کی آخری منزل۔
بدنصیب منکرین حق، کفار کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ وہ جانوروں کی طرح رسوائی، ذلت ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکی سے جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے۔ جیسے اور آیت میں یدعون کا لفظ ہے یعنی دھکے دیئے جائیں گے اور سخت پیاسے ہوں گے، جیسے اللہ جل و علا نے فرمایا (یوم نحشر المتقین) الخ، جس روز ہم پرہیزگاروں کو رحمان کے مہمان بناکر جمع کریں گے اور گنہگاروں کو دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے۔ اس کے علاوہ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہوں گے اور منہ کے بل گھسیٹ کر لائیں گے یہ اندھے گونگے اور بہرے ہوں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا جب اس کی آتش دھیمی ہونے لگے ہم اسے اور تیز کردیں گے۔ یہ قریب پہنچیں گے دروازے کھل جائیں گے تاکہ فوراً ہی عذاب نار شروع ہوجائے۔ پھر انہیں وہاں کے محافظ فرشتے شرمندہ کرنے کیلئے اور ندامت بڑھانے کیلئے ڈانٹ کر اور گھرک کر کہیں گے کیونکہ ان میں رحم کا تو مادہ ہی نہیں سراسر سختی کرنے والے سخت غصے والے اور بڑی بری طرح مار مارنے والے ہیں کہ کیا تمہارے پاس تمہاری ہی جنس کے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں آئے تھے ؟ جن سے تم سوال جواب کرسکتے تھے اپنا اطمینان اور تسلی کرسکتے تھے ان کی باتوں کو سمجھ سکتے تھے ان کی صحبت میں بیٹھ سکتے تھے، انہوں نے اللہ کی آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں اپنے لائے ہوئے سچے دین پر دلیلیں قائم کردیں۔ تمہیں اس دن کی برائیوں سے آگاہ کردیا۔ آج کے عذابوں سے ڈرایا۔ کافر اقرار کریں گے کہ ہاں یہ سچ ہے بیشک اللہ کے پیغمبر ہم میں آئے۔ انہوں نے دلیلیں بھی قائم کیں ہمیں بہت کچھ کہا سنا بھی۔ ڈرایا دھمکایا بھی۔ لیکن ہم نے ان کی ایک نہ مانی بلکہ ان کے خلاف کیا مقابلہ کیا کیونکہ ہماری قسمت میں ہی شقاوت تھی۔ ازلی بدنصیب ہم تھے۔ حق سے ہٹ گئے اور باطل کے طرفدار بن گئے۔ جیسے سورة تبارک کی آیت میں ہے جب جہنم میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا۔ اس سے وہاں کے محافظ پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں آیا تو تھا لیکن ہم نے اس کی تکذیب کی اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا تم بڑی بھاری غلطی میں ہو۔ اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو آج دوزخیوں میں نہ ہوتے۔ یعنی اپنے آپ کو آپ ملامت کرنے لگیں گے اپنے گناہ کا خود اقرار کریں گے۔ اللہ فرمائے گا دوری اور خسارہ ہو۔ لعنت و پھٹکار ہو اہل دوزخ پر، کہا جائے گا یعنی ہر وہ شخص جو انہیں دیکھے گا اور ان کی حالت کو معلوم کرے گا وہ صاف کہہ اٹھے گا کہ بیشک یہ اسی لائق ہیں۔ اسی لئے کہنے والے کا نام نہیں لیا گیا بلکہ اسے مطلق چھوڑا گیا تاکہ اس کا عموم باقی رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے عدل کی گواہی کامل ہوجائے ان سے کہہ دیا جائے گا کہ اب جاؤ جہنم میں یہیں ہمیشہ جلتے بھلستے رہنا نہ یہاں سے کسی طرح کسی وقت چھٹکارا ملے نہ تمہیں موت آئے آہ ! یہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے جس میں دن رات جلنا ہی جلنا ہے۔ یہ ہے تمہارے تکبر کا اور حق کو نہ ماننے کا بدلہ۔ جس نے تمہیں ایسی بری جگہ پہنچایا اور یہیں کردیا۔