النساء آية ۱۰۱
وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِى الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ۖ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۗ اِنَّ الْـكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَـكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا
طاہر القادری:
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے۔ بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں،
English Sahih:
And when you travel throughout the land, there is no blame upon you for shortening the prayer, [especially] if you fear that those who disbelieve may disrupt [or attack] you. Indeed, the disbelievers are ever to you a clear enemy.
1 Abul A'ala Maududi
اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کر دو (خصوصاً) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ایذا دیں گے بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں،
3 Ahmed Ali
اور جب تم سفر کے لیے نکلو تو تم پر کوئی گناہ نہیں نماز میں سے کچھ کم کر دو اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے بےشک کافر تمہارے صریح دشمن ہیں
4 Ahsanul Bayan
جب تم سفر پر جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے (١) یقیناً کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں۔
١٠١۔١ اس حالت میں سفر میں نماز قصر کرنے (دوگانہ ادا کرنے) کی اجازت دی جا رہی ہے، ان خفتم۔ "اگر تمہیں ڈر ہو۔" غالب احوال کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ اس وقت پورا عرب دارالحرب بنا ہوا تھا۔ کسی طرف بھی خطرات سے خالی نہیں تھا۔ یعنی یہ شرط نہیں ہے کہ سفر میں خوف ہو تو قصر کی اجازت ہے جیسے قرآن مجید میں اور بھی مقامات پر اس قسم کی قیدیں بیان کی گئی ہیں جو اتفاقی یعنی غالب احوال کے اعتبار سے ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً) 3۔ آل عمران;130) (وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا) 24۔ النور;33) تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ اس سے بچنا چاہیں۔"چونکہ بچنا چاہتی تھیں، اس لئے اللہ نے اسے بیان فرما دیا۔ یہ نہیں کہ اگر وہ بدکاری پر آمادہ ہوں تو پھر تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ تم ان سے بدکاری کروا لیا کرو ( وَرَبَاۗىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕكُمُ ) 4۔ النساء;23) بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ذہن میں بھی یہ اشکال آیا کہ اب تو امن ہے ہمیں سفر میں نماز قصر نہیں کرنی چاہئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لئے صدقہ ہے اس کے صدقے کو قبول کرو۔ "(مسند أحمد جلد۱، ص۲۵،۳٦وصحیح مسلم، کتاب المسافرین اور دیگر کتب حدیث)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کرکے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بےشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
6 Muhammad Junagarhi
جب تم سفر میں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناه نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے، یقیناً کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب تم زمین میں سفر کرو۔ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے (بلکہ واجب ہے کہ) نماز میں قصر کر دو۔ (بالخصوص) جب تمہیں خوف ہو کہ کافر لوگ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائیں گے۔ بے شک کافر تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی نمازیں قصر کردو اگر تمہیں کفار کے حملہ کردینے کا خوف ہے کہ کفار تمہارے لئے کھاَلے ہوئے دشمن ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
آیت نمبر ١٠١ تا ١٠٤
ترجمہ : اور جب تم سفر کرو تو نماز میں قصر کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں، بایں طور کہ تم چار (رکعت) کی دو کرلو، اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تمہیں تکلیف پیش آئے گی کہ کافر تمہیں ستائیں گے، یہ نزول کے وقت کے واقعہ کا بیان ہے لہٰذا اس کا مفہوم مراد نہیں ہے، اور سنت نے بیان کیا ہے کہ سفر سے سفر طویل مراد ہے اور وہ چار برید ہیں جو مساوی ہے دو مرحلوں کے، اور اللہ کے قول \&\& فلَیْسَ عَلَیکُمْ جُنَاح \&\& سے سمجھا جاتا ہے کہ قصر رخصت ہے نہ کہ واجب اور امام شافعی (رح) تعالیٰ کا مذہب ہے، یقینا کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں (یعنی) ان کی عداوت کھلی ہوئی ہے، اور اے محمد جب آپ ان میں موجود ہوں اور تم کو دشمن کا خوف ہو اور (صحابہ کو) باجماعت نماز پڑھائیں اور آپ کو خطاب ہے (نہ کہ لوگوں کو) قرآنی اسلوب خطاب کے مطابق ہے، لہٰذا اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں ہے، تو چاہیے کہ (صحابہ) کا ایک گروہ آپ کے ساتھ (نماز میں) کھڑا ہوجائے اور (بقیہ دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ کے لئے) مؤخر رہے (یعنی جماعت میں شریک نہ ہو) اور جو گروہ آپ کے ساتھ (نماز میں) کھڑا ہے وہ بھی ہتھیار بند رہے اور جب یہ گروہ نماز میں مشغول ہو تو دوسرے گروہ کو چاہیے کہ وہ تم لوگوں کے پیچھے دشمن کے مقابلہ میں رہے اور حفاظت کرتا رہے یہاں تک کہ یہ گروہ (اپنی) نماز پوری کرے اور (اب) یہ گروہ چلا جائے اور حفاظت کرے، اور دوسرا گروہ اگر وہ کہ جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے آئے اور آپ کی ساتھ نماز پڑھے اور اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار اپنے ساتھ لئے رہے یہاں تک کہ یہ گروہ بھی نماز پوری کرلے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطن نخلہ میں ایسا ہی کیا تھا، (رواہ الشیخان) کافر چاہتے ہیں کہ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو رو تم کسی طرح اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہوجاؤ، تو اچانک ٹوٹ پڑیں بایں طور کہ تم پر حملہ کردیں اور تم کو اچانک آدبوچیں اور یہ ہتھیار بند رہنے کے حکم کی علت ہے، الاّ یہ کہ تم کو بارش کی وجہ زحمت ہو رہی ہو یا تم مریض ہو تو تمہارے لئے اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم ہتھیار اتار کر رکھ دو یعنی مسلح نہ رہو، اس سے معلوم ہوا کہ عذر نہ ہونے کی صورت میں ہتھیار بند رہنا واجب ہے، اور امام شافعی (رح) تعالیٰ کے دو قولوں میں سے یہ ایک قول ہے اور دوسرا قول یہ کہ ہتھیار بند رہنا سنت ہے، بیشک اللہ نے کافروں کے لئے ایک رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے اور جب تم نماز سے فارغ ہوجاؤ تو تھلیل، تکبیر کے ذریعہ اللہ کا ذکر کرتے رہو کھڑے کھڑے بیٹھے بیٹھے اور لیٹے لیٹے (یعنی) ہرحال میں، پھر جب تم مامون ہوجاؤ تو نماز قائم کرو اس کے حقوق یعنی (ارکان و شرائط) کے ساتھ ادا کرو یقینا نماز مومنوں پر اس کے اوقات میں فرض ہے یعنی اس کے وقت مقرر میں، لہٰذا تم اس کو اس سے مؤخرنہ کرو، اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جماعت کو غزوہ احد سے فارغ ہونے کے بعد ابو سفیان اور اس کے اصحاب کے تعاقب میں روانہ کیا تو ان لوگوں نے زخموں (سے دردمند ہونے) کی شکایت کی تو یہ آیت نازل ہوئی اور کافر قوم کے تعاقب میں ان کے ساتھ قتال کرنے سے ہمت نہ ہارو اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے یعنی زخموں کی تکلیف لاحق ہوئی ہے تو ان کو بھی تمہاری طرح تکلیف پہنچی ہے جیسی کہ تم کو تکلیف پہنچی ہے اور وہ تمہارے ساتھ قتال کرنے سے ہمت نہیں ہارے اور تم اللہ سے نصرت کی اور (جہاد) پر ثواب کی امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے لہٰذا تم طریقہ سے ان پر فوقیت رکھتے ہو لہٰذا تم کو تو جنگ میں ان سے زیادہ راغب ہونا چاہیے، اور اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جو ہر شئی کا جاننے والا اور اپنی صنعت میں حکمت والا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : بَیَان لِلْوَاقِعِ ، اس اضافہ کا مقصد خوارج کا رد ہے، خوارج کے نزدیک قصر صلوة کے لئے خوف کی شرط ہے اور استدلال ک اللہ تعالیٰ کے قول \&\& اِنْ خِفْتم \&\& سے کرتے ہیں۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے اِنْ خفتم زمانہ نزول کے واقعہ کے مطابق ہے اسلئے کہ نزول کے زمانہ میں عام طور پر مسلمانوں کو سفر میں دشمن کا خطرہ درپیش ہوتا تھا، لہٰذا اس کا مفہوم مخالف مراد نہ ہوگا کہ اگر خوف نہ ہو تو قصر نہیں ہوگی۔
قولہ : بَیِّنَ الْعَدَاَوَةِ ، اس میں اشارہ ہے کہ مُبِیْناً متعدی بمعنی لازم ہے۔
قولہ : المُبَاح، المباح کی قید سے سفر معصیت کو خارج کرنا مقصود ہے۔
قولہ : فَلَاَ مَفْھُوْمَ لہ، اس کے اضافہ کا مقصد امام ابو یوسف پر رد کرنا ہے اس لئے کہ امام ابو یوسف اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ آپ کے وصال کے بعد خوف جائز نہیں ہے، دیگر ائمہ کے نزدیک جائز ہے رہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب تو یہ قرآن عادت کے مطابق ہے۔
نوٹ : مگر کتب فقہ میں یہ اختلاف مذکورہ نہیں ہے۔ (کما قال وصاحب المدارک) ۔
قولہ : باَن یَحْمِلُواَ عَلَیْکُمْ فَیَاْ خُذُوْ کُم، یہ ولیا خُذُوا حِذْرَھم کی علت ہے، یعنی ہتھیار اس لئے ساتھ رکھو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اچانک تمہارے اوپر ٹوٹ پڑیں۔
قولہ : اَنْتُمْ تاکید کے لئے ہے تاکہ کفار کی طرف ذہن نہ جائے۔
تفسیر وتشریح
ربط آیات : سابقہ آیات میں جہاد اور ہجرت کا ذکر تھا چونکہ اکثر حالات میں جہاد اور ہجرت کے لئے سفر کرنا پڑتا ہے اور ایسے سفر میں مخالف کی جانب سے گزند کا اندیشہ بھی ہوتا ہے اس لئے سفر اور خوف کی رعایت سے نماز میں جو خصوصی رعایتیں اور سہولتیں دی گئی ہیں آگے ان کا ذکر ہے، وَاذا ضربتم فی الارض اس آیت میں آیت میں نماز کے قصر کا حکم بیان فرمایا جارہا ہے حضرت علی فرماتے ہیں کہ بنو نجار کے کچھ آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمیں اکثر سفر کی نوبت پیش آتی ہے ایسی حالت میں نماز پڑھنے کی کیا صورت ہوگی اس پر یہ آیت نازل ہوئی (١) اگرچہ قصر کا حکم مخصوص حالات میں نازل ہوا تھا لیکن حالات بدل جانے ہر بھی اس سہولت کو باقی رکھا گیا، اب اس کا مدار سفر کی مسافت پر خواہ سفر آرام دہ ہو یا تکلیف دہ حضرت یعلی بن امیہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر سے عرض کیا کہ قصر کے بارے میں تو خوف کی لگی ہوئی ہے اور اب حالات بالکل بدل گئے ہیں پھر بھی اجازت کیوں ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا میرے دل میں بھی یہ بات کھٹکتی تھی میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم کیا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ لہ عنایت و کرم ہے لہٰذا اس کو قبول کرو۔ (مسلم)
سفر اور قصر کے احکام :
(١) جو سفر تین منزل سے کم ہو اس میں قصر کی اجازت نہیں م تین منزل کی مسافت انگریزی میل کے حساب سے ٤٨ میل تقریباً (٢٥.٧٧) کلومیٹر ہوتا ہے۔
(٢) جس سفر میں قصر کی اجازت ہے اس میں پوری نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عمر، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت ابن عباس، حضرت حسن بصری حضرت عمر بن عبدالعزیز، حضرت قتادہ اور حضرت امام ابوحنیفہ (رض) کے نزدیک قصر ضروری ہے دوسری طرف حضرت عثمان غنی حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل (رض) کے نزدیک مسافر کے لئے قصر کرنا اور نہ کرنا دونوں جائز ہیں۔
(٣) سفر معصیت میں امام ابوحنیفہ کے نزدیک قصر کی اجازت ہے دیگر ائمہ کرام اجازت نہیں دیتے۔
(٤) مسافر اپنی آبادی سے نکلتے ہی قصر کرسکتا ہے اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے البتہ امام مالک کا فتوی یہ بھی کہ مسافر آبادی سے کم از کم تین میل نکلنے کے بعد قصر کرے۔
(٥) دوران سفر اگر کسی جگہ اقامت کی نیت کرلی جائے تو امام مالک و شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک صرف چاروں اقامت کی نیت سے قصر کی اجازت ختم ہوجائے گی، امام احمد کے نزدیک بیس نمازوں سے زائد کی اقامت کی نیت کی قصر کی اجازت ختم ہوجائے گی امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر پندرہ دن ایک ہی جگہ قیام کی نیت کی قصر کی تو اجازت ختم ہوجائے گی۔
(٦) جنگل میں خیموں وغیرہ کی صورت میں کسی عارضی پڑاؤ پر اقامت کی نیت شرعاً غیر معتبر ہے مسافر ہی شمار ہوگا۔
(٧) اگر کسی جگہ پندرہ دن اقامت کا ارادہ نہ ہو مگر کسی وجہ سے قیام طویل ہوگیا تو قصر ہی کرے گا اگرچہ سالہا سال ہی کیوں نہ گذر جائیں، امام شافعی (رح) تعالیٰ کا ایک فتوی سترہ روز کا بھی ہے۔
(٨) کسی ایسی کشتی کا ملاح جس میں وہ بال بچوں کے ساتھ رہتا ہو یا ایسا کوئی شخص جو ہو وقت سفر میں رہتا ہو ہمیشہ قصر کریگا، امام احمد البتہ اس کی اجازت نہیں دیتے۔
(٩) اگر کوئی مسافر کسی مقیم کا مقتدی ہو تو اس کو پوری نماز پڑھنی ہوگی اقتداء خواہ پوری نماز میں کی ہو یا کسی ایک جز میں، امام مالک کے نزدیک کم از کم ایک رکعت میں اقتداء ضروری ہے۔ حضرت اسحٰق بن راہو یہ فرماتے ہیں کہ مسافر مقیم کا مقتدی ہونے کے باوجود قصر کرسکتا ہے۔
(١٠) اگر کوئی شخص حالت سفر میں حالت اقامت کی نمازوں کی قضا کرے تو اس کو پوری نماز پڑہنی ہوگی۔
(١١) حالت سفر کی نمازوں کی قضا اقامت میں امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزیک قصر کے ساتھ کی جائے گی
وَاِذَاکُنْتَ فیھم فَاقمتَ لھم الصلوٰۃ (الایۃ) ان آیات میں عین حالات جنگ میں نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا گیا ہے، نیز نماز کے اوقات کی پابندی پر زور دیا گیا ہے۔
شان نزول : حضرت ابوعیاش (رض) فرماتے ہیں کہ ہم مقام عسفان اور مقام ضبحنان پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھے، مشرکین سے ہماری مڈبھیڑ ہوگئی، خالد بن ولید جو کہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، مشرکین کے فوج کے سپہ سالار تھے، اسی اثناء میں وقت ظہر آگیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باجماعت نماز ادا فرمائی، مسلمان جب نماز سے فارغ ہو کر مقابلہ پر آئے تو کافروں میں چہ میگوئی شروع ہوئی کہ بڑا اچھا موقع ہاتھ سے نکل گیا، اگر نماز کی حالت میں مسلمانوں پر حملہ کردیا جاتا تو میدان صاف تھا، اس پر ان ہی میں سے ایک بولا ابھی کچھ دیر میں ایک اور نماز کا وقت آنے والا ہے اور وہ نماز ان کو جان ومال سے بھی زیادہ عزیز ہے، مشرکین کا اشارہ عصر کی نماز کی طرف تھا، ادھر مشرکین میں یہ مشورہ ہورہا تھا کہ حضرت جبرئیل مذکورہ آیات کے کر نازل ہوئے۔
صلوة خوف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء میں : جب عصر کا وقت آیا تو آپ نے پورے لشکر کا مسلح ہونے کا حکم دیا اس کے بعد پورے لشکر نے دو صفیں بنا کر آپ کی اقتداء میں نماز شروع کی، پورے لشکر نے ایک رکعت رکوع اور قیام کے ساتھ پڑھی، جب سجدہ کا موقع آیا تو پہلی صف والوں نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا اور دوسری صف والے کھڑے رہے تاکہ مشرکین سب مسلمانوں کو سجدہ میں دیکھ کر آگے بڑھنے کی ہمت نہ کرسکیں، جب پہلی صف کے لوگ آپ کے ساتھ سجدہ کرچکے اور کھڑے ہوگئے تو دوسری صف والوں نے اپنی اپنی جگہ سجدہ ادا کیا، ان لوگوں کے سجدہ کرلینے کے بعد اگلی صف والے پچھلی صف میں اور پچھلی صف والے اگلی صف میں پہنچ گئے اور دوسری رکعت رکوع اور قیام کے ساتھ ایک ساتھ پڑھی گئی، اور سجدہ کے وقت پھر یہی صورت ہوئی کہ پہلی صف والوں نے سجدہ کیا اور دوسری صف والے رکے رہے، اس طرح آپ نے نماز پوری فرمائی۔
آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز قبلہ رو ہو کے زمین بوس ہوئی قوم حجاز
صلوة خوف کے مختلف طریقے : یہ بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ جنگ کا میدان عیدگاہ کا میدان نہیں ہوتا کہ ہمیشہ ایک ہی انداز سے نماز پڑھی جاتی رہے بلکہ یہ تلواروں کی چمک، تیروں کی بوچھار، بندوقوں کی باڑھ توپوں کی آتش بازی، جہازوں کی بم باری کی حالت میں ادا کی جاتی ہے اسلئے لازمی طور ہر جنگی حالات کے اعتبار سے اس کی صورت بھی مختلف ہوگی۔ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز چودہ طریقوں سے منقول ہے ائمہ کرام نے اپنی اپنی صواب دید کے مطابق ان ہی صورتوں میں سے کوئی ایک یا چند صورتیں پسند فرمائی ہیں مثلا امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ نے یہ صورت پسند فرمائی ہے۔
امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ طریقہ : فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اور دوسرا حصہ دوسرا حصہ دشمن کے مقابل رہے، پھر جب ایک رکعت پوری ہوجائے تو پہلا سلام پھیر کر دشمن کے مقابل چلا جائے اور دوسرا حصہ آکر دوسری رکعت امام کے ساتھ پوری کرے اس طرح امام کی دو رکعتیں ہوں گی اور فوج کی ایک ایک رکعت اسی صورت کو ابن عباس، جابربن عبداللہ اور مجاہد (رض) نے روایت کیا ہے۔
صلوة خوف کا دوسرا طریقہ : دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھکر چلا جائے پھر دوسرا دوسرا حصہ آکر ایک رکعت امام کے پیچھے پڑھے، اس کے بعد دونوں حصے باری باری سے آکر اپنی چھوٹی ہوئی ایک ایک رکعت بطور خود ادا کرے، اس طرح دونوں حصوں کی ایک ایک رکعت امام کے پیچھے ادا ہوگئی اور ایک ایک رکعت انفرادی طور پر۔
صلوة خوف کا تیسرا طریقہ : تیسرا طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور جب امام دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تو مقتدی بطور ایک رکعت مع تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیں، پھر دوسرا حصہ آکر اس حال میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کہ ابھی دوسری ہی رکعت میں ہو، اور یہ لوگ بقیہ نماز امام کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ایک رکعت خود اٹھ کر پڑھ لیں، اس صورت میں امام کو دوسری رکعت کا قیام طویل کرنا ہوگا، تیسرے طریقہ کو حسن بصری نے ابوبکرہ سے روایت کیا ہے اور چوتھے طریقے کو امام شافعی اور امام مالک نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ ترجیح دی ہے اس کا ماخذ سہل بن ابی خیثمہ کی روایت ہے۔
ان کے علاوہ صلوة خوف کی اور بھی صورتیں ہیں جن کی تفصیل مبسوطات میں مل سکتی ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ظاہری کے بعد صلوة خوف کا مسٔلہ : ائمہ کرام کے حلقہ میں تنہا امام ابو یوسف کا مسلک یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صلوة خوف پڑھنا جائز نہیں، اسلئے کہ آپ کے بعد اب کوئی ایسی ہستی باقی نہیں کہ تمام لوگ اسی کے پیچھے نماز پڑھنے پر مصر ہوں، بلکہ اب یہ صورت ہوسکتی ہے کہ لشکر کے مختلف حصے کرکے الگ الگ امام کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے۔
محض دشمن کے خوف کے اندیشے کے پیش نظر صلوة خوف جائز نہیں : دشمن کے محض خیالی اندیشے سے صلوة خوف درست نہیں تاوقتیکہ دشمن آنکھوں کے سامنے نہ ہو، نیز جس طرح دشمن کا خوف ہوسکتا ہے اسی طرح درندے یا کسی چیز کا بھی ہوسکتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ دو آیات کریمہ سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت اور نماز خوف کے لیے اصل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” جب چلو تم زمین میں“ یعنی سفر کے دوران آیت کریمہ کا ظاہر سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت کا تقاضا کرتا ہے سفر خواہ کیسا ہی ہو، خواہ معصیت کا سفر ہی کیوں نہ ہوجیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ جمہور فقہاء یعنی ائمہ ثلاثہ اور دیگر اہل علم آیت کے معنی اور مناسبت کے اعتبار سے آیت کے عموم کی تخصیص کرتے ہوئے معصیت کے سفر کے دوران نماز میں قصر کی رخصت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ کیونکہ رخصت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے سہولت ہے کہ جب وہ سفر کریں تو نماز میں قصر کرلیا کریں اور روزہ چھوڑ دیا کریں۔ یہ تخفیف گناہ کا سفر کرنے والے شخص کے حال سے مناسبت نہیں رکھتی۔ ﴿فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ ﴾” تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں“ یعنی تم پر کوئی حرج اور گناہ نہیں۔ یہ چیز قصر کے افضل ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ میں مذکورہ نفی حرج اس وہم کا ازالہ کرتی ہے جو بہت سے نفوس میں واقع ہوتا ہے۔ بلکہ یہ تو نماز قصر کے واجب ہونے کے بھی منافی نہیں جیسا کہ اس کی نظیر سورۃ بقرہ کی اس آیت میں گزر چکی ہے ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ ۖ ﴾(البقرہ :2؍ 158) ” صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔۔۔ آیت کے آخر تک“
اس مقام پر وہم کا ازالہ ظاہر ہے کیونکہ مسلمانوں کے ہاں نماز کا وجوب اس کی اس کامل صفت کے ساتھ متحقق ہے اور یہ وہم اکثر نفوس سے اس وقت تک زائل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس امر کا ذکر نہ کیا جائے جو اس کے منافی ہے۔ اتمام پر قصر کی افضلیت کو دو امور ثابت کرتے ہیں۔
اول : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے تمام سفروں کے دوران میں قصر کا التزام کرنا۔
ثانی: قصر، بندوں کے لیے وسعت، رخصت اور رحمت کا دروازہ ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی رخصتوں سے استفادہ کیا جائے۔ جس طرح وہ یہ بات ناپسند کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی کا کوئی کام کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ ﴾” نماز میں سے کچھ کم کر دو“ اور یہ نہیں فرمایا (أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ) ” نماز کو کم کر دو‘‘ اس میں دو فائدے ہیں۔
اول :۔ اگر یہ کہا ہوتا کہ ” نماز کو کم کردو“ تو قصر غیر منضبط اور غیر محدود ہوتی۔ اور بسا اوقات یہ بھی سمجھا جاسکتا تھا کہ اگر نماز کا بڑا حصہ کم کردیا جائے اور صرف ایک رکعت پڑھ لی جائے، تو کافی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے (مِنَ الصَّلَاةِ) کا لفظ استعمال فرمایا، تاکہ وہ اس امر پر دلالت کرے کہ قصر محدود اور منضبط ہے اور اس بارے میں اصل مرجع وہ نماز قصر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام کے فعل سے ثابت ہے۔
(ثانی): حرف جار (مِنْ) تبعیض کا فائدہ دیتا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ صرف بعض فرض نمازوں میں قصر ہے تمام نمازوں میں جائز نہیں۔ کیونکہ فجر اور مغرب کی نماز میں قصر نہیں۔ صرف ان نمازوں میں قصر کر کے دو رکعت پڑھی جاتی ہیں جن میں چار رکعتیں فرض کی گئی ہیں۔ جب یہ بات متحقق ہوگئی کہ سفر میں نماز قصر ایک رخصت ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ مفسرین میں اس قید کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں وارد ہوئی ہے۔ ﴿إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” اگر تم اس بات سے ڈرو کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے“ جس کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ نماز قصر اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ یہ دو امور ایک ساتھ موجود نہ ہوں سفر اور خوف۔ ان کے اختلاف کا حاصل یہ ہے کہ (أَن تَقْصُرُوا )سے مراد صرف عدد رکعات میں کمی ہے؟ یا عدد رکعات اور صفت نماز دونوں میں کمی ہے؟
اشکال صرف پہلی صورت میں ہے اور یہ اشکال امیر المومنین جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لاحق ہوا تھا۔ حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ” یا رسول اللہ ! ہم نماز میں قصر کیوں کرتے ہیں حالانکہ ہم مامون ہوتے ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا : ﴿إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾” اگر تمہیں کافروں کا خوف ہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا :” یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر صدقہ ہے پس تم اللہ تعالیٰ کے صدقہ کو قبول کرو۔“ (او کما قال علیہ السلام)
[صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا، حدیث:1083 ]
اس صورت میں یہ قید ان غالب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عائد کی گئی تھی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام دوچار تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر سفر جہاد کے لیے ہوتے تھے۔
اس میں دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قصر کی رخصت کی مشروعیت میں حکمت اور مصلحت بیان کی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں وہ انتہائی مشقت بیان کی گئی ہے، جس کا قصر کی رخصت کے بارے میں تصور کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے سفر اور خوف کا اجتماع اور اس سے یہ بات لازم نہیں کہ اکیلے سفر میں قصر نہ کی جائے جو کہ مشقت کا باعث ہے۔ رہی قصر کی دوسری صورت یعنی عدد رکعات اور نماز کی صفت میں قصر تو یہ قید اپنے اپنے باب کے مطابق ہوگی۔ یعنی انسان کو اگر سفر اور خوف دونوں کا سامنا ہو تو عدد اور صفت دونوں میں قصر کی رخصت ہے۔ اگر وہ بلا خوف کسی سفر پر ہے تو صرف عدد رکعات میں قصر ہے اور اگر صرف دشمن کا خوف لاحق ہے تو صرف وصف نماز میں قصر ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ میں نماز خوف کی صفت بیان فرمائی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab tum zameen mein safar kero aur tumhen iss baat ka khof ho kay kafir log tumhen pareshan keren gay , to tum per iss baat mein koi gunah nahi hai kay tum namaz mein qasar kerlo . yaqeenan kafir log tumharay khulay dushman hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
صلوۃ نصر ؟
فرمان الٰہی ہے کہ تم کہیں سفر میں جا رہے ہو۔ یہی الفاظ سفر کے لئے سورة مزمل میں بھی آئے ہیں۔ تو تم پر نماز کی تخفیف کرنے میں کوئی گناہ نہیں، یہ کمی یا تو کمیت میں یعنی بجائے چار رکعت کے دو رکعت ہے جیسے کہ جمہور نے اس آیت سے سمجھا ہے گو پھر ان میں بعض مسائل میں اختلاف ہوا ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط ہے کہ سفر اطاعت کا ہو مثلاً جہاد کے لئے یا حج و عمرے کے لئے یا طلب و زیارت کے لئے وغیرہ۔ ابن عمر عطاء یحییٰ اور ایک روایت کی رو سے امام مالک کا یہی قول ہے، کیونکہ اس سے آگے فرمان ہے اگر تمہیں کفار کی ایذار سانی کا خوف ہو، بعض کہتے ہیں اس قید کی کوئی ضرورت نہیں کہ سفر قربت الہیہ کا ہو بلکہ نماز کی کمی ہر مباح سفر کے لئے ہے جیسے اضطرار اور بےبسی کی صورت میں مردار کھانے کی اجازت ہے، ہاں یہ شرط ہے کہ سفر معصیت کا نہ ہو، امام شافعی وغیرہ ائمہ کا یہی قول ہے، ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں تجارت کے سلسلے میں دریائی سفر کرتا ہوں تو آپ نے اسے دو رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا، یہ حدیث مرسل ہے، بعض لوگوں کا مذہب ہے کہ ہر سفر میں نماز کو قصر کرنا جائز ہے سفر خواہ مباح ہو خواہ ممنوع ہو یہاں تک کہ اگر کوئی ڈاکہ ڈالنے کے لئے اور مسافروں کو ستانے کے لئے نکلا ہوا ہے اسے بھی نماز قصر کرنے کی اجازت ہے، ابوحنیفہ ثوری اور داؤد کا یہی قول ہے کہ آیت عام ہے، لیکن یہ قول جمہور کے قول کے خلاف ہے۔ کفار سے ڈر کی جو شرط لگائی ہے یہ باعتبار اکثریت کے ہے آیت کے نازل ہونے کے وقت چونکہ عموماً یہی حال تھا اس لئے آیت میں بھی اسے بیان کردیا گیا، ہجرت کے بعد سفر مسلمانوں کے سب کے سب خوف والے ہی ہوتے تھے قدم قدم پر دشمن کا خطرہ رہتا تھا بلکہ مسلمان سفر کے لئے نکل ہی نہ سکتے تھے بجز اس کے کہ یا تو جہاد کو جائیں یا کسی خاص لشکر کے ساتھ جائیں اور یہ قاعدہ ہے کہ جب منطوق بہ اعتبار غالب کے آئے تو اس کا مفہوم معتبر نہیں ہوتا۔ جیسے اور آیت میں ہے اپنی لونڈیوں کو بدکاری کے لئے مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامنی کرنا چاہیں اور جیسے فرمایا ان کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں جن عورتوں سے تم نے محبت کی ہے۔ پس جیسے کہ ان دونوں آیتوں میں قید کا بیان ہے لیکن اس کے ہونے پر ہی حکم کا دارومدار نہیں بلکہ بغیر اس کے بھی حکم وہی ہے یعنی لونڈیوں کو بدکاری کے لئے مجبور کرنا حرام ہے چاہے وہ پاکدامنی میں ہو یا نہ ہو، حالانکہ دونوں جگہ قرآن میں یہ قید موجود ہے، پس جس طرح ان دونوں موقعوں میں بغیر ان قیود کے بھی حکم یہی ہے اسی طرح یہاں بھی گوخوف نہ ہو تو بھی محض سفر کی وجہ سے نماز کو قصر کرنا جائز ہے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ نے حضرت عمر فاروق سے پوچھا کہ نماز کی تخفیف کا حکم تو خوف کی حالت میں ہے اور اب تو امن ہے ؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ یہی خیال مجھے ہوا تھا اور یہی سوال میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے تم اس کے صدقے کو قبول کرو۔ مسلم اور سنن وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے بالکل صحیح روایت ہے۔ ابو حنظلہ حذاء نے حضرت عمر سے سفر کی نماز کا پوچھا تو آپ نے فرمایا دو رکعت ہیں انہوں نے کہا قرآن میں تو خوف کے وقت دو رکعت ہیں اور اس وقت تو پوری طرح امن وامان ہے تو آپ نے فرمایا یہی سنت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (ابن ابی شیبہ) ایک اور شخص کے سوال پر حضرت عمر نے فرمایا تھا آسمان سے تو یہ رخصت اتر چکی ہے اب اگر تم چاہو تو اسے لوٹا دو ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مکہ اور مدینہ کے درمیان ہم نے باوجود امن کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دو رکعت پڑھیں (نسائی وغیرہ) اور حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے مکہ کی طرف چلے تو اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ تھا اور آپ برابر دو رکعت ہی ادا فرماتے رہے۔ بخاری کی حدیث میں ہے کہ واپسی میں بھی یہی دو رکعت آپ پڑھتے رہے اور مکہ میں اس سفر میں آپ نے دس روز قیام کیا تھا۔ مسند احمد میں حضرت حارثہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منی میں ظہر کی اور عصر کی نماز دو دو رکعت پڑھی ہیں حالانکہ اس وقت ہم بکثرت تھے اور نہایت ہی پر امن تھے، صحیح بخاری میں ہے حضرت عبداللہ کے ساتھ (سفر میں) دو رکعت پڑھی ہیں، لیکن حضرت عثمان (رض) کی چار رکعات کا ذکر آیا تو آپ نے اناللہ الخ، پڑھ کر فرمایا میں نے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی منی میں دو رکعت پڑھی ہیں اور صدیق اکبر کے ساتھ بھی اور عمر فاروق کے ساتھ بھی کاش کہ بجائے ان چار رکعات کے میرے حصے میں دو ہی مقبول رکعات آئیں، پس یہ حدیثیں کھلم کھلا دلیل ہیں اس بات کی کہ سفر کی دو رکعات کے لئے خوف کا ہونا شرط نہیں بلکہ نہایت امن و اطمینان کے سفر میں بھی دو گانہ ادا کرسکتا ہے، اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں کیفیت میں یعنی قرآت قومہ رکوع سجود وغیرہ میں قصر اور کمی مراد ہے نہ کہ کمیت میں یعنی تعداد رکعات میں تخفیف کرنا، ضحاک، مجاہد اور سدی کا یہی قول ہے جیسے کہ آرہا ہے، اس کی ایک دلیل امام مالک کی روایت کردہ یہ حدیث بھی ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں نماز دو دو رکعتیں ہی سفر حضر میں فرض کی گئی تھی پھر سفر میں تو وہی دو رکعتیں رہیں اور اقامت کی حالت میں دو اور بڑھا دی گئیں، پس علماء کی یہ جماعت کہتی ہے کہ اصل نماز دو رکعتیں تھی تو پھر اس آیت میں قصر سے مراد کمیت یعنی رکعتوں کی تعداد میں کمی کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس قول کی بہت بڑی تائید صراحتاً اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مسند احمد میں حضرت عمر کی روایت سے ہے کہ بہ زبان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر کی دو رکعتیں ہیں اور ضحی کی نماز بھی دو رکعت ہے اور عیدالفطر کی نماز بھی دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز بھی دو رکعت ہے یہ یہی پوری نماز ہے قصر والی نہیں، یہ حدیث نسانی، ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں بھی ہے اس کی سند بشرط مسلم ہے۔ اس کے راوی ابن ابی لیلیٰ کا حضرت عمر سے سننا ثابت ہے جیسے کہ امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھا ہے اور خود اس روایت اور اس کے علاوہ بھی صراحتاً موجود ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے انشاء اللہ۔ گو بعض محدثین سننے پر فیصلہ دینے کے قائل نہیں، لیکن اسے مانتے ہوئے بھی اس سند میں کمی واقع نہیں ہوتی کیونکہ بعض طرق میں ابن ابی لیلیٰ کا ایک ثقہ سے اور ان کا حضرت عمر سے سننا مروی ہے، اور ابن ماجہ میں ان کا کعب بن عجرہ سے روایت کرنا اور ان کا حضرت عمر سے روایت کرنا بھی مروی ہے فاللہ اعلم۔ مسلم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی نماز کو اقامت کی حالت میں چار رکعت فرض کی ہے اور سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت۔ پس جیسے کہ قیام میں اس سے پہلے اور اس کے پیچھے نماز پڑھتے تھے یا پڑھی جاتی تھی اسی طرح سفر میں بھی اور اس روایت میں اور حضرت عائشہ والی روایت میں جو اوپر گذری کہ حضر میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعتیں ہی فرض کی تھیں گویا مسافات سے مشروط ہیں اس لئے کہ اصل دو ہی تھیں بعد میں دو اور بڑھا دی گئیں پھر حضر کی چار رکعت ہوگئیں تو اب کہہ سکتے ہیں کہ اقامت کی حالت میں فرض چار رکعتیں ہیں۔ جیسے کہ ابن عباس کی اس روایت میں ہے واللہ اعلم۔ الغرض یہ دونوں روایتیں اسے ثابت کرتی ہیں کہ سفر میں دو رکعت نماز ہی پوری نماز ہے کم نہیں اور یہی حضرت عمر کی روایت سے بھی ثابت ہوچکا ہے۔ مراد اس میں قصر کمیت ہے جیسے کہ صلوۃ خوف میں ہے اسی لئے فرمایا ہے اگر تم ڈرو اس بات سے کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے اور اس کے بعد فرمایا جب وقت ان میں ہو اور نماز پڑھو تو بھی۔ پھر قصر کا مقصود صفت اور کیفیت بھی بیان فرما دی امام المحدثین حضرت بخاری نے کتاب صلوۃ خوف کو اسی (وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ڰ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ اِنَّ الْكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا) 4 ۔ النسآء :101) تک لکھ کر شروع کیا ہے، ضحاک اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ لڑائی کے وقت ہے انسان اپنی سواری پر نماز دو تکبیریں پڑھ لے اس کا منہ جس طرف بھی ہو اسی طرف صحیح ہے۔ سدی فرماتے ہیں کہ سفر میں جب تو نے دو رکعت پڑھیں تو وہ قصر کی پوری مقدار ہے ہاں جب کافروں کی فتنہ انگیزی کا خوف ہو تو ایک ہی رکعت قصر ہے البتہ یہ کسی سنین خوف کے بغیر جائز نہیں۔ مجاہد فرماتے ہیں اس آیت سے مراد وہ دن ہے جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام صحابہ کے ساتھ حسب معمول چار رکعتیں پوری ادا کیں پھر مشرکین نے سامان و اسباب کو لوٹ لینے کر ارادہ کیا، ابن جریر اسے مجاہد اور سدی اور جابر اور ابن عمر سے روایت کرتے ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں اور اسی کو کہتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے۔ حضرت خالد بن اسید حضرت عبداللہ بن عمر سے کہتے ہیں صلوۃ خوف کے قصر کا حکم تو ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں لیکن صلوۃ مسافر کے قصر کا حکم کتاب اللہ میں نہیں ملتا تو حضرت ابن عمر جواب دیتے ہیں ہم نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفر میں نماز کو قصر کرتے ہوئے پایا اور ہم نے بھی اس پر عمل کیا۔ خیال فرمائیے کہ اس میں قصر کا اطلاق صلوۃ خوف پر کیا اور آیت سے مراد بھی صلوۃ خوف لی اور صلوۃ مسافر کو اس میں شامل نہیں کیا اور حضرت ابن عمر نے بھی اس کا اقرار کیا۔ اس آیت سے مسافرت کی نماز کا قصر بیان نہیں فرمایا بلکہ اس کے لئے فعل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سند بتایا۔ اس سے زیادہ صراحت والی روایت ابن جریر کی ہے کہ حضرت سماک آپ سے صلوۃ پوچھتے ہیں آپ فرماتے ہیں سفر کی نماز دو رکعت ہے اور یہی دو رکعت سفر کی پوری نماز ہے قصر نہیں، قصر تو صلوۃ خوف میں ہے کہ امام ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھاتا ہے دوسری جماعت دشمن کے سامنے ہے پھر یہ چلے گئے وہ آگئے ایک رکعت امام نے انہیں پڑھائی تو امام کی دو رکعت ہوئیں اور ان دونوں جماعتوں کی ایک ایک رکعت ہوئی۔