النساء آية ۱۱
يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِىْۤ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَاۤءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۚ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۗ وَلِاَ بَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ۗ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِىْ بِهَاۤ اَوْ دَيْنٍ ۗ اٰبَاۤؤُكُمْ وَاَبْنَاۤؤُكُمْ ۚ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ لَـكُمْ نَفْعًا ۗ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا
طاہر القادری:
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے، اور مُورِث کے ماں باپ کے لئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مُورِث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مُورِث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لئے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مُورِث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے، یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
Allah instructs you concerning your children [i.e., their portions of inheritance]: for the male, what is equal to the share of two females. But if there are [only] daughters, two or more, for them is two thirds of one's estate. And if there is only one, for her is half. And for one's parents, to each one of them is a sixth of his estate if he left children. But if he had no children and the parents [alone] inherit from him, then for his mother is one third. And if he had brothers [and/or sisters], for his mother is a sixth, after any bequest he [may have] made or debt. Your parents or your children – you know not which of them are nearest to you in benefit. [These shares are] an obligation [imposed] by Allah. Indeed, Allah is ever Knowing and Wise.
1 Abul A'ala Maududi
تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے، اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے اگر میت صاحب اولاد ہو تواس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہو ں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ہے پھر اگر نری لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کو ترکہ کی دو تہائی اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کا آدھا اور میت کے ماں باپ کو ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا اگر میت کے اولاد ہو پھر اگر اس کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کا تہا ئی پھر اگر اس کے کئی بہن بھا ئی ہو ں تو ماں کا چھٹا بعد اس و صیت کے جو کر گیا اور دین کے تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تم کیا جانو کہ ان میں کون تمہارے زیادہ کام آئے گا یہ حصہ باندھا ہوا ہے اللہ کی طرف سے بیشک اللہ علم والا حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
الله تعالیٰ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے پھر اگر دو سے زاید لڑکیاں ہوں تو ا ن کے لیے دو تہائی اس مال میں سے ہے جو میت نے چھوڑا اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیئے اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے (یہ حصہ اس) وصیت کے بعد ہوگا جو وہ کر گیا تھا اور بعد ادا کرنے قرض کے تم نہیں جانتے تمہارے باپوں اور تمہارے بیٹوں میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والا ہے الله کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے بے شک الله خبردار حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی تمہیں اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے (١) اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا (٢) اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے اگر اس میت کی اولاد ہو (٣) اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصہ ہے (٤) ہاں اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے (٥) یہ حصے اس کی وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے (٦) یہ حصے اللہ تعالٰی کی طرف سے مقرر کردہ ہیں بیشک اللہ تعالٰی پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے۔
١١۔١ ورثا میں لڑکی اور لڑکے دونوں ہوں تو پھر اس اصول کے مطابق تقسیم ہوگی۔ لڑکے چھوٹے ہوں یا بڑے اسی طرح لڑکیاں چھوٹی ہوں یا بڑی سب وارث ہونگی۔ حتٰی کہ (ماں کے پیٹ میں زیر پرورش بچہ) بھی وارث ہوگا۔ البتہ کافر کی اولاد وارث نہ ہوگی۔
١١۔٢ یعنی بیٹا کوئی نہ ہو تو مال کا دو تہائی دو سے زائد لڑکیوں کو دیئے جائیں گے اور اگر صرف دو ہی لڑکیاں ہوں، تب بھی انہیں دو تہائی حصہ ہی دیا جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ احد میں شہید ہوگئے اور ان کی ۲ لڑکیاں تھیں۔ مگر سعد کے سارے مال پر ان کے بھائی نے قبضہ کر لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں لڑکیوں کو ان کے چچا سے دو تہائی مال دلوایا (ترمذی، ابو داؤد ابن ماجہ، کتاب الفرائض) علاوہ ازیں سورہ نساء کے آخر میں بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی مرنے والے کی وارث صرف دو بہنیں ہوں تو ان کے لیے بھی دو تہائی حصہ ہے لہذا جب دو بہنیں دو تہائی مال کی وارث ہوں گی تو دو بیٹیاں بطریق اولیٰ دو تہائی مال کی وارث ہوں گی جس طرح دو بہنوں سے زیادہ ہونے کی صورت میں انہیں دو سے زیادہ بیٹیوں کے حکم میں رکھا گیا ہے (فتح القدیر) خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ دویا دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو دونوں صورتوں میں مال متروکہ سے دو تہائی لڑکیوں کا حصہ ہوگا۔ باقی مال عصبہ میں تقسیم ہوگا۔
١١۔٣ ماں باپ کے حصے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلی صورت کہ مرنے والے کی اولاد بھی ہو تو مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور باقی دو تہائی مال اولاد پر تقسیم ہو جائے گا مرنے والے کی اگر صرف ایک بیٹی ہو تو نصف مال (یعنی چھ حصوں میں سے تین حصے بیٹی کے ہونگے اور ایک چھٹا حصہ ماں کو اور ایک چھٹا حصہ باپ کو دینے کے بعد مذید ایک چھٹا حصہ باقی بچ جائے گا اس لئے بچنے والا یہ چھٹا حصہ بطور سربراہ باپ کے حصہ میں جائے گا۔ یعنی اس صورت میں باپ کو دو چھٹے حصے ملیں گے۔ ایک باپ کی حیثیت سے اور دوسرے، سربراہ ہونے کی حیثیت سے۔
١١۔٤ یہ دوسری صورت ہے کہ مرنے والے کی اولاد نہیں ہے (یاد رہے کہ پوتا پوتی بھی اولاد میں شامل ہیں) اس صورت میں ماں کے لئے تیسرا حصہ اور باقی دو حصے (جو ماں کے حصے میں دو گنا ہیں) باپ کو بطور عصبہ ملیں گے اور اگر ماں باپ کے ساتھ مرنے والے مرد کی بیوی یا مرنے والی عورت کا شوہر بھی زندہ ہے تو راجح قول کے مطابق بیوی یا شوہر کا حصہ (جس کی تفصیل آرہی ہے) نکال کر باقی ماندہ مال میں سے ماں کے لئے تیسرا حصہ اور باقی باپ کے لئے ہوگا۔
١١۔٥ تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ مرنے والے کے بھائی بہن زندہ ہیں۔ وہ بھائی چاہے سگے یعنی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں اور اگر اولاد بیٹا یا بیٹی اگر الگ باپ سے ہوں تو وراثت کے حقدار نہیں ہونگے۔ لیکن ماں کے لئے حجب (نقصان کا سبب) بن جائیں گے یعنی جب ایک سے زیادہ ہونگے تو مال کے (تیسرے حصے) کو چھ حصوں میں تبدیل کر دیں گے۔ باقی سارا مال (۵/٦) باپ کے حصے میں چلا جائے گا بشرطیکہ کوئی اور وارث نہ ہو۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک دو بھائیوں کا بھی وہی حکم ہے جو دو سے زیادہ بھائیوں کا مذکور ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک بھائی یا بہن ہو تو اس صورت میں مال میں ماں کا حصہ ثلث برقرار رہے گا وہ سدس میں تبدہل نہیں ہوگا۔ (تفسی ابن کثیر)
١١۔٦ اس لئے تم اپنی سمجھ کے مطابق وراثت تقسیم مت کرو، بلکہ اللہ کے حکم کے مظابق جس کا جتنا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے، وہ ان کو دے دو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں ان کادو تہائی۔ اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو۔ اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ۔ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادؤں اور بیٹوں پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے، یہ حصے خدا کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اوﻻد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیاده ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے، اگر اس (میت) کی اوﻻد ہو، اور اگر اوﻻد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصہ ہے، ہاں اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے۔ یہ حصے اس وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے واﻻ کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد، تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہچانے میں زیاده قریب ہے، یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کرده ہیں بے شک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ برابر ہے دو لڑکیوں کے اب اگر لڑکیاں ہی وارث ہوں اور ہوں بھی دو سے اوپر تو ان کو دو تہائی ترکہ دیا جائے گا اور ایک لڑکی (وارث) ہو تو اسے آدھا ترکہ دیا جائے گا۔ اور اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے ترکہ کا چھٹا حصہ ہوگا (اور باقی اولاد کا) اور اگر بے اولاد ہو۔ اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا (باقی ۳/۲ باپ کو ملے گا) اور اگر اس (مرنے والے) کے بھائی (بہن) ہوں تو پھر اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا (باقی ۶/۵ بہن بھائیوں کو ملے گا) مگر یہ تقسیم اس وقت ہوگی، جب میت کی وصیت پوری کر دی جائے۔ جو وہ کر گیا ہو اور اس کا قرضہ ادا کر دیا جائے گا جو اس پر ہو۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ یا تمہاری اولاد میں سے نفع رسانی کے لحاظ سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں، یقینا اللہ بڑا جاننے والا اور بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے، پس اگر لڑکیاں دو سے زائد ہوں تو ترکے کا دو تہائی ان کا حق ہے اور اگر صرف ایک لڑکی ہے تو نصف (ترکہ) اس کا ہے اور میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر میت کی اولاد نہ ہو بلکہ صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں تواس کی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا، پس اگر میت کے بھائی ہوں تو ماں کوچھٹا حصہ ملے گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور اس کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی، تمہیں نہیں معلوم تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں فائدے کے حوالے سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے، یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں، یقینا اللہ بڑا جاننے والا، باحکمت ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں انکا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو۔ یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں، پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
آیت نمبر ١١ تا ١٤
ترجمہ : اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں (آئندہ) مذکور کا حکم دیتا ہے اولاد میں سے ایک لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے جبکہ دو لڑکیاں ایک لڑکے کے ساتھ ہوں، لڑکے کیلئے مال (متروکہ) کا نصف ہے اور دونوں لڑکیوں کے لئے نصف (اور) اگر ایک لڑکے کے ساتھ ایک لڑکی ہو تو لڑکی کیلئے ایک ثلث اور لڑکے کیلئے دو ثلث اور اگر لڑکا تنہا ہو تو پورا مال لے لیگا۔ اور اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں، دو سے زیادہ تو ان کیلئے میت کے متروکہ مال کا دو ثلث ہے اور اسی طرح جبکہ لڑکیاں صرف دو ہوں اسلئے کہ دو تہائی دو بہنوں کیلئے ہے اللہ تعالیٰ کے قول : فَلَھُمَا الثُّلُثَانِ مِمّا تَرَکَ ، کی وجہ سے، لہٰذا دو لڑکیاں اس کی بطریق اولیٰ مستحق ہونگی۔ اور اس لئے کہ لڑکی لڑکے کے ساتھ ایک تہائی کی مستحق ہوتی ہے تو مؤنث کے ساتھ بطریق اولیٰ مستحق ہوگی۔ اور لفظ فوق، کہا گیا ہے کہ صلہ یعنی (زائد ہے اور کہا گیا ہے کہ لڑکیوں کی تعداد کے زیادہ ہونے کی صورت میں حصہ کے زیادہ ہونے کے وہم کو دفع کرنے کے لئے ہے کہ دو لڑکیوں کا دو ثلث کا مستحق ہونا لڑکے کے ساتھ ایک لڑکی ہونے کی صورت میں ایک ثلث سے سمجھا گیا، اور اگر اولاد میں فقط ایک لڑکی ہو تو لڑکی کو (ترکہ) کا نصف ہے، اور ایک قراءت میں (واحدۃٌ) رفع کے ساتھ ہے، تو اس صورت میں ’ کَانَ ‘ تامہ ہوگا اور میت کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے متروکہ مال سے چھٹا حصہ ہے اگر میت کی اولاد ہو، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، اور (لِکُلِّ وَاحدٍ ) اَبْوَیْہِ سے بدل ہے، اور بدل میں نکتہ یہ ہے کہ اس بات کا فائدہ ہوگیا کہ دونوں ایک سدس میں شریک نہ ہوں گے، (بلکہ ہر ایک کو سدس) ملے گا، اور ولد کے ساتھ ولد الابن اور اب کے ساتھ جد بھی شامل کردیا گیا ہے اور اگر (میت) کے اولاد نہ ہو اور وارث فقط اس کے والدین ہی ہوں یا مرنے والے کا زوج بھی ہو (بیوی یا شوہر) تو (میت) کی والدہ کیلئے کل مال کا ایک تہائی ہے یا زوج کو دینے کے بعد مابقیہ کا ایک تہائی ہے، اور باقی والدہ کیلئے ہے۔ (فَلُامِّہٖ ) کا ہمزہ ضمہ کے ساتھ، اور کسرہ کے ساتھ بھی ہے، ضمہ سے کسرہ کی طرف انتقال سے بچنے کے لئے اس کے ثقیل ہونے کی وجہ سے دونوں جگہوں میں، اور اگر میت کے دو یا دو سے زیادہ بھائی یا بہن تو میت کی والدہ کے لئے ایک سدس ہے اور باقی والد کے لئے ہے، اور بھائی بہنوں کے لئے کچھ نہیں ہے اور مذکورین کے لئے مذکورہ حصے میت کی وصیت کو نافذ کرنے یا قرض ادا کرنے کے بعد ہیں (یُوْصِیٰ ) معروف و مجہول دونوں طریقہ پر ہے اور وصیت کی دین پر تقدیم اس کے اہتمام کی وجہ سے ہے اگرچہ اداء میں مؤخر ہے تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ دنیا و آخرت میں تم کو فائدہ پہنچانے میں تمہارے کون زیادہ قریب ہے ؟ (آبَاؤُکُمْ وَاَبْنَآءُکُمْ ) مبتداء ہے اور لَاتَدْرُوْنَ ، اس کی خبر ہے، یہ گمان کرنے والا کہ اس کا بیٹا اس کے لئے زیادہ مفید ہے تو اس کو میراث دیدیتا ہے حالانکہ اس کا باپ اس کیلئے زیادہ نافع ہوتا ہے اور اس کا عکس بھی ہوسکتا ہے اس کا جاننے والا تو درحقیقت اللہ ہی ہے جس وجہ سے اس نے تمہارے لئے میراث (کے حصے) مقرر کر دئیے، یہ حصے اللہ کی جانب سے مقرر کردہ ہیں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے بارے میں باخبر ہے اور اس میں با حکمت ہے، جو اس نے ان کے لئے مقرر کیا ہے یعنی وہ اس صفت کے ساتھ ہمیشہ متصف ہے اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ مریں اس کا تمہارے لئے نصف ہے اگر ان کے تم سے یا دوسرے شوہر سے اولاد ہو تو متروکہ مال میں تمہارے لئے چوتھائی ہے ان کی وصیت کو نافذ کرنے یا ان کے قرض کو ادا کرنے کے بعد، اور اس حکم میں بیٹے کے ساتھ پوتا بالا جماع ملایا گیا ہے، اور بیویوں کیلئے متعدد ہوں یا نہ ہوں تمہارے متروکہ مال کا چوتھائی ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری اولاد ہو خواہ ان سے ہو یا دوسری بیویوں سے، تو ان کے لئے تمہارے متروکہ مال میں سے آٹھواں حصہ ہے ان کی وصیت کو نافذ اور قرض کو ادا کرنے کے بعد، اور پوتا اس حکم میں بالاجماع بیٹے کی مانند ہے، اور مورث مرد ہو یا عورت کَلٰلَۃ ہو یعنی نہ اس کے بیٹا ہو اور نہ باپ (یورث) رجلٌ کی صفت ہے اور کَلٰلَۃً ، کَانَ کی خبر ہے اور اگر عورت، مورث کَلٰلَۃ ہو اور مورث کلٰلہ کے ماں شریک بھائی یا بہن ہو، اور یہ قراءت ابن مسعود وغیرہ کی ہے، تو متروکہ مال میں سے ان میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہے اور اگر ماں شریک بھائی اور بہن ایک سے زائد ہوں تو یہ سب کے سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، اور مذکر اور مؤنث اس میں برابر ہوں گے، وصیت کے نافذ کرنے اور قرض کے ادا کرنے کے بعد، جبکہ دوسروں کا نقصان نہ ہو (غیرَ مضارّ ) یوصٰی، کی ضمیر سے حال ہے یعنی ورثاء کو ضرر پہنچانے والا نہ ہو، اس طریقہ سے کہ ثلث سے زیادہ کی وصیت کرے یہ حکم اللہ کا مقرر کیا ہوا ہے وصیۃ، یوصیکم کی تاکید کیلئے ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کی حکمت خوب جانتا ہے جو فرائض اس نے اپنی مخلوق کے لئے مقرر کئے ہیں اور ان احکام کی مخالفت کرنے والے سے سزا مؤخر کرنے میں بردبار ہے اور سنت رسول نے مذکورہ توریث اس وارث کے لئے خاص کی ہے جس میں (وراثت سے) کوئی مانع نہ ہو مثلاً قتل یا اختلاف دِیْن یا رِقَیت یتیموں کا معاملہ اور اس کے بعد کے یہ احکام مذکورہ، اللہ کی حدود ہیں یعنی اس کے احکام ہیں جن کو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر فرمایا ہے تاکہ اس پر عمل کریں اور ان سے تجاوز نہ کریں اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی مذکورہ احکام میں اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا (یُدْخلہ، نُدْخلہ) دونوں طریقوں سے ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا ایسوں کیلئے رسوا کن عذاب ہے یعنی اہانت آمیز اور دونوں آیتوں کی ضمیروں میں لفظ مَنْ ، کی رعایت کی گئی ہے اور خلدین، میں معنی کی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یُوْصِیْ (ایصاءً ) مضارع واحد مذکر غائب معروف، وہ وصیت کرتا ہے وہ حکم دیتا ہے۔ وصیت کے اصل معنی ہیں انتقال کے وقت وصیت و نصیحت وغیرہ کرنا۔
قولہ : یَأمُرُکُمْ ، وصیت کے حقیقی معنی چونکہ ذات باری تعالیٰ کیلئے محال ہیں اسلئے مفسر علام نے یوصی کی تفسیر یأمُرُ سے کی ہے۔
قولہ : شان۔ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : اَوْلاد، یأمُرُ ، کا ظرف ہے حالانکہ اولاد کا ظرف بننا صحیح نہیں ہے اسلئے کہ اولاد میں ظرف بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ جواب : شان کی تقدیر صحت ظرفیت ہی کو بیان کرنے کے لئے ہے۔
قولہ : مِنْھم۔ سوال : مفسر علام نے مِنْھُمْ ، کس فائدہ کے لئے محذوف مانا ہے۔
جواب : لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ، یہ وصیت کی تشریح ہے لہٰذا ضمیر عائد کا ہونا ضروری ہے جو اولاد کی طرف راجع ہو، مگر عائس اس کے ظہور پر اعتماد کرتے ہوئے حذف کردیا گیا ہے، جیسا کہ ” اَلسَّمنُ مَنْوَانِ بِدرْھَمٍ “ میں مِنْہٗ کو ظاہر سے مفہہوم ہونے کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے۔
قولہ : فَاِنْ کُنَّ ای اَلْاَوْلَادُ ۔ سوال : کُنَّ ، کی تفسیر مفسر علام نے، اَوْلَاْدٌ سے کی ہے جو کہ مذکر ہے تو پھر کُنَّ ، مؤنث کی ضمیر کیوں لائے ہیں ؟ جواب : کُنَّ کی خبر نسآءٌ چونکہ مؤنث ہے لہٰذا خبر کی رعایت کرنے کی وجہ سے ضمیر کو مؤنث لائے ہیں۔
قولہ ؛ فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ، اِنْ حرف شرط کُنَّ فعل ناقص، شرط، اس کے اندر ضمیر ھُنَّ وہ اس کا اسم نِسَاءً موصوف اور فَوْقَ اثْنَتَیْنِ صفت، موصوف صفت سے مل کر کُنَّ کی خبر کُنَّ اپنے اسم و خبر سے مل کر شرط، فَلَھُنَّ جواب شرط۔
قولہ : وفوق صلۃ وقیل لدفع تو ھم زیادۃ النصیب بزیادۃ العدد اس عبارت کے اضافہ کا مقصد حضرت ابن عباس (رض) کے تفرد کا جواب دینا ہے۔ اس عبارت میں دو جوابوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ابن عباس (رض) کا تفرّدیہ ہے کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ دو ثلث، لڑکیوں کو اس وقت ملے گا کہ جب لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں حالانکہ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ لڑکیاں اگر دو بھی ہوں تب بھی ان کو دو ثلث ملیں گے، اس تفرد کے دو جواب دئیے ہیں، اول جواب کا حاصل یہ ہے کہ لفظ فوق زائد محض صلہ کے لئے ہے، جیسے فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ ، میں لفظ فوق زائد، محض صلہ ہے وقیل لدفع توھم الخ، یہ دوسرا جواب ہے اس کا مقصد اس وہم کو دفع کرنا ہے کہ لفظ فوق سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ لڑکیوں کے عدد کے بڑھنے سے انکا حصہ بھی بڑھے گا، اسلئے کہ جب ایک لڑکی ایک لڑکے کے ساتھ ہو تو ایک تہائی حصہ ہے اور دو ہوں تو دو تہائی ہے اس سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کی تعداد جس قدر بڑھتی رہے گی ان کے حصوں میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا، حالانکہ ایسا نہیں ہے اور یہ شبہ پیدا ہوا ہے لفظ فوق سے لہٰذا یہ کہہ کر کہ لفظ فوق زائد برائے صلہ ہے شبہ اس کو دفع کردیا۔
قولہ : وَیُبْدَلُ مِنْھَا، یہ ایک شبہ کا جواب ہے شبہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ وَلِاَبَوَیْہِ السُّدس، السدس مبتداءٌ مؤخرٌ اور لابویہ خبر مقدم فرماتے تو مختصر بھی ہوتا اور دال برمقصود بھی مبتداء اور خبر کے درمیان لِکلّ واحدٍ منھما، کا فصل کس مصلحت سے فرمایا۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ عدم فصل کی صورت میں یہ شبہ ہوتا کہ ایک سدس میں اب اور ام دونوں شریک سمجھے جاتے حالانکہ ہر ایک سدس کا مستحق ہے۔ اسلئے لِکل واحدٍ مِنھُمَا کو اَبَویْہِ سے بدل قرار دیا اور بدل مبدل منہ سے مل کر خبر مقدم اور السدس مبتداء مؤخر، اس طرح شرکت کا شبہ ختم ہوگیا۔
قولہ : فقط او مع زوج، زوج کا اطلاق زوج اور زوجہ دونوں پر ہوتا ہے۔
سوال : مفسر علام کے فقط اور مع زوج، کے اضافہ کا کیا مقصد ہے ؟
جواب : اس کا مقصد ابوین کی میراث کے بارے میں جمہور اور حضرت ابن عباس (رض) کے مسلک کے درمیان فرق کو واضح کرنا ہے۔ جمہور کے نزدیک اگر میت لا ولدہو اور اس کے وارث صرف اسکے والدین ہوں تو والدہ کو ثلث کل ملے گا اور مَا بَقِیَ دو ثلث والد کو ملے گا، اور اگر مرنے والے کے والدین کے ساتھ ساتھ زوج یا زوجہ بھی ہو تو اس صورت میں زوج یا زوجہ کو اقل مخرج میں سے دینے کے بعد مابقی کا ثلث ملے گا اور باقی دو ثلث والد کو ملیں گے۔ مگر حضرت ابن عباس (رض) کے مسلک کے مطابق دونوں صورتوں میں ماں کو ثلث کل ہی ملے گا، مفسر علام نے فَقَطْ اَوْمَع زَوْجٍٍٍ ، کہہ کر جمہور کے مسلک کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : بضم الھمزۃ وبکسر ھا فرارًا من الانتقال من ضمّۃ الی کسرۃ لِثِقْلَہٖ ، بضم الھمذۃ الخ سے فلِاُمِّہٖ میں دو قراءتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، اور فَلِاُمِّہٖ ، کے ہمزرہ کے کسرہ کی علت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، مشہور قراءت ہمزہ کے جمہ کے ساتھ ہے یعنی فلِاُمِّہٖ ، اور دوسری قراءت میں ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ فَلِامَّہٖ ، ہے مفسر علام نے اس قراءت کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ فَلِاْمِّہٖ ، کی صورت میں ضمہ سے کسرہ کی طرف انتقال لازم آتا ہے جو کہ ثقیل ہے اسلئے ہمزہ کو بھی کسرہ دیدیا۔
قولہ : وَاِرْثُ مَنْ ذُکِرَ مَا ذُکِرَ یعنی مذکورین کی وراثت، بیان کردہ اصول کے مطابق ہوگی۔
قولہ : من بعد وصیۃ ما قبل میں بیان کردہ تقسیم، میراث کے اصول سے ہے مطلب یہ ہے کہ سابق میں ترکہ کے تقسیم کے اصول کے مطابق تقسیم، وصیت کے نفاذ اور اداء قرض کے بعد ہوگی، اگر میت نے وصیت کی ہو، اور مقروض ہو تو وصیت اور دین میں سے دین کو مقدم کیا جائے گا۔
قولہ : فَفَرَض لکم المیراث، یہ عبارت مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ فریضۃٌ فعل محذوف کا مصدر (مفعول مطلق) ہے نہ کہ یُوْصِیْکم اللہ کا مصدر۔ قولہ : یورَث صفۃ، یعنی یورث رجلٌ کی صفت ہے لہٰذا رَجَلٌ کا مبتداء بننا درست ہے اور کلالَۃ مبتداء کی خبر ہے۔
قولہ ؛ المَوْرُوْث، بروزن مفعول ثلاثی مجرد سے ای المیت۔ قولہ : وَرُوْعِیَ فِی الضمائر فی الْاَیتَیْنِ لفظُ مِنْ وفی خٰلِدِین مَعْنَاھَا، دونوں جگہ یُدْخِلْہٗ کی ضمیر کو مفرد مذکر مَنْ کے لفظ کی رعایت سے لایا گیا ہے اور خٰلِدِین کو جمع مذکر مَنْ ، کے معنی کی رعایت سے لایا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ (الآیۃ) اگر ورثاء میں لڑکی اور لڑکے دونوں ہوں خواہ بالغ ہوں یا نابالغ حتی کہ اگر رحم مادر میں جنین کی صورت میں ہوں تب بھی لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ کے اصول کے مطابق میراث تقسیم ہوگی اور جنین کو لڑکا فرض کر کے اس کا حصۃ رکھا جائے گا، لڑکی پیدا ہونے کی صورت میں زائد مال پھر ورثاء میں بحصہ رسد تقسیم کردیا جائیگا۔
فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ، اور اگر لڑکا کوئی نہ ہو اور لڑکیاں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو مال کا دو تہائی لڑکیوں کو دیا جائے گا، لفظ، فوق جمہور کے نزدیک محض صلہ کے طور پر ہے، حضرت ابن عباس (رض) کا مسلک یہ ہے کہ دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی دیا جائیگا مگر جمہور کے نزدیک جو حکم دو سے زیادہ لڑکیوں کا ہے، دو کا بھی وہی حکم ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ سعد بن ربیع (رض) احد میں شہید ہوگئے تھے ان کی دو لڑکیاں تھیں، سعد کے بھائی نے تمام مام پر قبضہ کرلیا لڑکیوں کی ماں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس معاملہ کی شکایت کی تو آپ نے ان لڑکیوں کو دو تہائی مال دلوایا، واقعہ کی تفصیل سابق میں گزر چکی ہے۔ (ترمذی ابو داؤد، ابن ماجہ کتاب الفرائض) ۔ علاوہ ازیں سورة نساء کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ اگر کسی مرنے والے کے وارث صرف دہ بہنیں ہوں تو اس کے لئے بھی دو تہائی حصہ ہے لہٰذا جب وہ بہنیں دو تہائی کی وارث ہوں گی تو دو بیٹیاں بطریق اولیٰ دو تہائی کی وارث ہوں گی جس طرح دو بہنوں سے زیادہ ہونے کی صورت میں انہیں دو سے زیادہ بیٹیوں کے حکم میں رکھا گیا ہے، اسی طرح یہاں بھی ہوگا۔
وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً (الآیۃ) ماں باپ کے حصوں کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔
(١) اگر مرنے والئ کی اولاد بھی ہو خواہ لڑکی ہو یا لڑکا تو مت باپ میں سے ہر ایک کو ایک ایک سدس ملے گا یعنی باقی چار سدس اولاد پر تقسیم ہوگا البتہ اگر میت کی اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو اس میں سے چونکہ تین سدس یعنی نصف مال بیٹی کا ہوگا، اور ایک سدس ماں کو اور ایک سدس باپ کو دینے کے بعد ایک سدس باقی بچ جائیگا اس لئے بچا ہوا یہ سدس بطور عصبہ باپ کے حصہ میں جائیگا۔ اس طرح باپ کے حصہ میں دو سدس آئیں گے ایک ذوالفرض ہونے کی حیثیت سے اور ایک عصبہ ہونے کی حیثیت سے۔
(٢) دوسری صورت یہ ہے کہ مرنے والے کی اولاد نہ ہو اور اولاد میں پوتے پوتیاں بھی شامل ہیں، اس صورت میں ماں کیلئے کل مال کا تیسرا حصہ ہے، باقی دو حصے باپ کو بطور عصبہ ملیں گے اور اگر ماں باپ کے ساتھ مرنے والے مرد کی بیوی یا مرنے والی عورت کا شوہر بھی زندہ ہے تو جمہور کے مذہب پر بیوی یا شوہر کا حصہ نکال کر باقی ماندہ مال سے ماں کے لئے ایک تہائی اور باقی باپ کیلئے ہوگا۔
(٣) تیسری صورت یہ ہے کہ اگر ماں باپ کے ساتھ، مرنے والے کے بھائی بہن حیات ہیں وہ بھائی خواہ سگے ہوں یا اخیافی (ماں شریک) یا علاتی (باب شریک) اگرچہ یہ بھائی بہن میت کے باپ کی موجودگی میں وراثت کے حق دار نہیں ہوں گے لیکن ماں کے لئے حجب نقصان کا سبب بن جائیں گے، یعنی جب ایک بھائی سے زیادہ ہوں گے تو ماں کے ثلث یعنی تیسرے حصہ کو چھٹے حصہ میں تبدیل کردیں گے باقی ماندہ ما، باپ کے حصہ میں جائیگا بشرطیکہ کوئی اور وارث نہ ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو اس صورت میں مال میں ماں کا حصہ ثلث برقرار رہے گا وہ سدس میں تبدیل نہ ہوگا۔ (تفسیر ابن کثیر)
آبَآءُکُمْ وَاَبْنَآءُکُمْ لَاتَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا فَرِیْضَۃً مِّنَ اللہِ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلیْمًا حَکِیْمًا، حصص مقررہ بیان فرمانے کے بعد، متوجہ کیا گیا کہ تم اپنی سمجھ کے مطابق وراثت تقسیم مت کرو بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم کرو، اسلئے ہوسکتا ہے کہ جس کو تم نافع سمجھ کر زیادہ حصہ دے رہے ہو وہ تمہارے لئے نافع نہ ہو اور جس کو تم غیر نافع سمجھ کر کم حصہ دے رہے ہو وہ تمہارے لیے نافع ہو اس حقیقت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے لہٰذا اس نے جس کا حصہ مقرر کیا ہے اس میں ردوبدل نہ کرو اور تمہیں پورے اطمینان قلبی کے ساتھ اس کو قبول کرنا چاہیے، تمہارے خالق ومالک کا یہ حکم بہترین حکمت و مصلحت پر مبنی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
وراثت کے احکام اور اصحاب وراثت :۔
یہ آیات اور اس سورت کی آخری آیت وراثت کی آیات ہیں اور وراثت کے احکام پر مشتمل ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح بخاری میں مروی ہے ” میراث کے مقرر حصے ان کے حق داروں کو دو جو بچ جائے وہ اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے“ ان آیات کو اس حدیث سے ملایا جائے تو یہ دونوں وراثت کے بڑے بڑے، بلکہ تمام احکام پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ ابھی تفصیل سے واضح ہوگا، سوائے نانی کی وراثت کے، کیونکہ اس کا ذکر ان میں نہیں ہے، مگر سنن میں حضرت مغیرہ بن شعبہ اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کی نانی کو وراثت کا چھٹا حصہ عطا کیا، اس پر علماء کا بھی اجماع ہے۔
وراثت میں میت کی اولاد کا حصہ :۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾” اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں وصیت (حکم) فرماتا ہے۔“ یعنی اے والدین کے گروہ ! تمہاری اولاد تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں وصیت کی ہے تاکہ تم ان کے دینی اور دنیاوی مصالح کی دیکھ بھال کرو۔ تم ان کو تعلیم دو ادب سکھاؤ، انہیں برائیوں سے بچاؤ، انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور تقویٰ کے دائمی التزام کا حکم دو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ﴾ (التحریم :6؍66)
پس اولاد کے بارے میں والدین کو وصیت کی گئی ہے۔ اس لیے چاہیں تو وہ اس وصیت پر عمل کریں تب ان کے لیے بہت زیادہ ثواب ہے اور چاہیں تو اس وصیت کو ضائع کردیں تب وہ سخت وعید اور عذاب کے مستحق ہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ان کے والدین سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے کیونکہ اس نے والدین کو ان کی اولاد کے بارے میں وصیت کی درآں حالیکہ والدین اپنی اولاد کے لیے کمال شفقت کے حامل ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اولاد کے لیے وراثت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ﴾یعنی اگر اصحاب الفروض نہ ہوں یا اصحاب الفروض کو دینے کے بعد ترکہ بچ جائے تو صلبی اولاد اور بیٹے کی اولاد کے لیے وراثت کا حکم یہ ہے کہ وہ لڑکیوں کا حصہ ایک لڑکے کے برابر ہے۔ اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے نیز اگر میت کی صلبی اولاد موجود ہو تو وراثت انہی میں تقسیم ہوگی۔ اگر میت کے بیٹے بیٹیاں ہیں تو پوتے پوتیوں کو وراثت نہیں ملے گی۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ میت کے بیٹے اور بیٹیاں دونوں موجود ہیں یہاں دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت کہ صرف بیٹے ہوں، اس کا ذکر آگے آئے گا۔ دوسری صورت کہ صرف بیٹیاں ہوں، اس کا ذکر ذیل میں ہے۔
بیٹیوں کے لیے وراثت کے احکام :۔
اگر صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ ﴾ یعنی اگر صلیبی بیٹیوں یا پوتیوں کی تعداد تین یا تین سے زیادہ ہے﴿ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ ﴾ ” تو ان سب کے لیے دو تہائی ترکہ ہے۔“ ﴿وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ﴾ ”اور اگر ایک بیٹی (یا پوتی) ہے تو اس کے لیے نصف ترکہ ہے“ اور اس پر علماء کا اجماع ہے۔
باقی رہی یہ بات کہ اس پر اجماع کے بعد یہ اصول کہاں سے مستفاد ہوا کہ دو بیٹیوں کے لیے ترکہ میں سے دو تہائی حصہ ہے؟۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اصول اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ﴾ سے ماخوذ ہے، کیونکہ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے اگر بیٹی ایک سے زائد ہو تو وراثت کا حصہ بھی نصف سے منتقل ہو کر آگے بڑھے گا اور نصف کے بعد دو تہائی حصہ ہی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ﴾ جب میت نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہو تو ترکہ میں سے بیٹے کے لیے دو تہائی حصہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس کا یہ حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دو بیٹیوں کے لیے دو تہائی حصہ ہے۔ نیز اگر بیٹی اپنے بھائی کی معیت میں وراثت میں سے ایک تہائی حصہ لیتی ہے درآں حالیکہ بھائی بہن کی نسبت وراثت میں اس کے لیے زیادہ نقصان کا باعث ہے تو بہن کی معیت میں بیٹی کا وراثت سے حصہ لینا زیادہ اولیٰ ہے۔
نیز بہنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ﴾(النساء :4؍ 176)
” اگر دو بہنیں ہوں تو ان دونوں کے لیے ترکے میں سے دو تہائی حصہ ہے۔“ دو بہنوں کے لیے دو تہائی ترکہ کے بارے میں یہ واضح نص ہے۔ جب دو بہنیں میت سے رشتہ میں بعد کے باوجود اس کے ترکہ میں سے دو تہائی حصہ لیتی ہیں تو دو بیٹیاں میت سے رشتہ میں قرب کی بنا پر دو تہائی ترکہ لینے کی زیادہ مستحق ہیں۔ نیز صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی ترکہ عطا کیا۔
باقی رہا یہ اعتراض کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَوْقَ اثْنَتَيْنِ ﴾ ” اگر بیٹیاں دو سے زیادہ ہوں“ کا کیا فائدہ؟ کہا جاتا ہے کہ اس کا فائدہ یہ ہے۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔ کہ یہ معلوم ہوجائے کہ زیادہ سے زیادہ حصہ دو تہائیاں ہی ہیں۔ وارث بیٹیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ وراثت کا حصہ دو تہائی سے زیادہ نہیں ہوگا۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جب میت کی صلب میں سے ایک بیٹی ہو اور ایک یا ایک سے زائد پوتیاں ہوں تو بیٹی کے لیے نصف ترکہ ہے اور اس دو تہائی میں سے جو اللہ تعالیٰ نے ایک سے زائد بیٹیوں یا پوتیوں کے لیے مقرر کیا ہے۔ چھٹا حصہ باقی بچ جاتا ہے تو یہ حصہ پوتی یا پوتیوں کو دیا جائے گا۔ اسی وجہ سے اس چھٹے حصے کو ” دو تہائی کا تکملہ“ کہا جاتا ہے اور اس کی مثال پوتی کی معیت میں وہ پوتیاں ہیں جو اس سے زیادہ نیچے ہیں۔
یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اگر بیٹیاں یا پوتیاں پورے کا پورا دو تہائی حصہ لے لیں تو وہ پوتیاں جو زیادہ نیچے ہیں ان کا حصہ ساقط ہوجائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لیے صرف دو تہائی کا حصہ مقرر کیا ہے جو کہ پورا ہوچکا ہے۔ اگر ان کا حصہ ساقط نہ ہو تو اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے لیے دو تہائی سے زیادہ حصہ مقرر ہو اور یہ بات نص کے خلاف ہے اور ان تمام احکام پر علماء کا اجماع ہے۔ وللہ الحمد
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ مِمَّا تَرَكَ ﴾ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ میت ترکہ میں جو کچھ بھی چھوڑتی ہے خواہ وہ زمین کی صورت میں جائیداد ہو، گھر کا اثاثہ یا سونا چاندی وغیرہ حتیٰ کہ دیت بھی جو اس کے مرنے کے بعد ہی واجب ہوتی ہے اور وہ قرضے جو میت کے ذمہ واجب الادا ہیں۔ ورثاء ان سب چیزوں کے وارث ہوں گے۔
ماں باپ کے لیے وراثت کے احکام :۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے لیے وراثت کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَلِأَبَوَيْهِ ﴾ اس سے مراد ماں اور باپ دونوں ہیں ﴿ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ﴾ یعنی اگر میت کا ایک یا ایک سے زائد صلبی بیٹا یا بیٹی، پوتا یا پوتی موجود ہوں۔ تو پس ماں اولاد (بیٹے یا پوتے) معیت میں چھٹے حصے سے زیادہ نہیں لے گی۔
باپ کے لیے وراثت کے احکام :۔
اگر میت کی نرینہ اولاد موجود ہے تو ان کی معیت میں باپ چھٹے حصے سے زیادہ نہیں لے گا۔ اگر اولاد بیٹی یا بیٹیاں ہیں اور مقررہ حصے ادا کرنے کے بعد کچھ نہ بچے، جیسے ماں باپ اور دو بیٹیاں ہوں، تو باپ کا استحقاق عصبہ باقی نہیں رہے گا۔
اور اگر بیٹی یا بیٹیوں کے حصے کے بعد کچھ بچ جائے تو باپ چھٹا حصہ مقررہ حصے کے طور پر اور باقی مال عصبہ ہونے کے اعتبار سے لے گا۔ اس لیے کہ اصحاب الفروض کو ان کے حصے دینے کے بعد جو بچ جائے تو اس کا وہ مرد زیادہ مستحق ہوتا ہے جو میت کے زیادہ قریب ہو، اس لیے اس صورت میں باپ بھائی اور چچا وغیرہ سے زیادہ قریب ہے۔
﴿فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ﴾ ” اور اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے“ یعنی باقی ترکہ باپ کے لیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال کی اضافت بیک وقت ماں اور باپ کی طرف کی ہے پھر ماں کا حصہ مقرر کردیا، تو یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ باقی مال باپ کے لیے ہے۔
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ میت کی اولاد کی عدم موجودگی میں میت کا باپ اصحاب فروض میں شمار نہیں ہوتا بلکہ وہ عصبہ کی حیثیت سے تمام مال یا مقرر کردہ حصوں (فروض) سے بچے ہوئے باقی مال کا حق دار ہوگا۔
اگر ماں باپ کی موجودگی میں میت کا خاوند یا بیوی بھی موجود ہو۔ جن کو (عمریتین) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔ تو خاوند بیوی اپنا حصہ لیں گے، ماں باقی میں سے ایک تہائی لے گی اور جو بچ رہے گا اس کا مالک میت کا باپ ہوگا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ﴾ یعنی جس مال کے وارث ماں باپ ہوں اس کا ایک تہائی حصہ ماں کے لیے ہے اور وہ ان دو صورتوں میں یعنی میت کے خاوند، ماں اور باپ کے وارث ہونے کی صورت میں چھٹا حصہ، اور میت کی بیوی، ماں اور باپ کے وارث ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ ہے۔ پس یہ آیت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ میت کی ماں، میت کی اولاد کی عدم موجودگی میں تمام مال کی ایک تہائی کی وارث ہے۔ جب تک یہ نہ کہا جائے کہ یہ مذکورہ دو صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ اس کی مزید توضیح اس سے ہوتی ہے کہ خاوند یا بیوی جو حصہ لیتی ہے، وہ اس حصے کی طرح ہے جو قرض خواہ لیتے ہیں، اس لیے وہ سارے مال سے ہوگا اور باقی مال کے وارث ماں باپ ہوں گے۔ کیونکہ اگر ہم کل مال کا تیسرا حصہ ماں کو عطا کردیں تو اس سے میت کے خاوند کی معیت میں ماں کا حصہ باپ کے حصے سے بڑھ جائے گا یا میت کی بیوی کی معیت میں باپ کا حصہ ماں کی نسبت چھٹے حصے کے نصف سے زیادہ ہوجائے گا جس کی کوئی نظری نہیں، کیونکہ اصول یہ ہے کہ ماں، باپ کے مساوی حصہ لے گی یا باپ اس سے دگنا لے گا جو ماں کے حصہ میں آتا ہے۔
﴿فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ﴾ ” اگر مرنے والے کے بھائی ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے“ یعنی حقیقی بھائی ہوں، یا باپ کی طرف سے (علاتی بھائی) ہوں یا ماں کی طرف سے (اخیافی بھائی) ہوں خواہ وہ مرد ہو یا عورتیں۔۔۔ وارث بنتے ہوں یا وہ باپ یا دادا کی موجودگی میں معجوب ہوں۔
مگر کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ ﴾کا ظاہر غیر ورثاء کو شامل نہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ محجوب کو نصف حصہ نہیں پہنچتا۔۔۔ تب اس صورت میں میت کے وارث بننے والے بھائیوں کے سو ا ماں کو ایک تہائی حصہ سے کوئی بھائی محجوب نہیں کرسکتا۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ میت کے بھائیوں کی ماں کو ایک تہائی حصے سے محجوب کردینے میں حکمت یہ ہے کہ کہیں ان کے لیے مال میں کچھ بڑھ نہ جائے حالانکہ وہ معدوم ہے۔ مگر یہاں ایک شرط عائد کی گئی ہے کہ بھائی دو یا دو سے زائد ہوں۔ البتہ اس میں اشکال یہ ہے کہ یہاں ﴿ إِخْوَةٌ﴾ جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں جمع مقصود نہیں بلکہ مجرد تعداد (متعدد ہونا) مقصود ہے اور یہ تعدد دو کے عدد پر بھی صادق آتا ہے۔ کبھی جمع کا صیغہ تو بول لیا جاتا ہے، مگر اس سے مراد دو ہوتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ ﴾(الانبیاء :21؍78) ” اور ہم ان کے فیصلے کو دیکھ رہے تھے۔“ اللہ تعالیٰ نے اخیافی بھائیوں کے بارے میں فرمایا ﴿إِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ ﴾ (النساء :4؍12) ” اگر ایسے مرد یا عورت کی وراثت ہو جو کلالہ ہو یعنی جس کی اولاد ہو نہ باپ، مگر اس کے بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔“ پس یہاں بھی جمع کے لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے مگر بالا جماع اس سے مراد دو اور دو سے زائد افراد ہیں۔
اس صورت میں اگر میت اپنے پیچھے ماں، باپ اور کچھ بھائی وارث چھوڑتا ہے تو ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے اور باقی ترکے کا وارث باپ ہے پس انہوں نے ماں کو ایک تہائی حصے سے محجوب کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ باپ نے ان کو بھی محجوب کردیا۔ البتہ اس میں ایک دوسرا احتمال موجود ہے، جس کی رو سے ماں کے لیے ایک تہائی اور باقی ترکہ باپ کے لیے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah tumhari aulad kay baaray mein tum ko hukum deta hai kay : mard ka hissa do aurton kay barabar hai . aur agar ( sirf ) aurten hi hon , do ya do say ziyada , to marney walay ney jo kuch chorra ho , unhen uss ka do tehai hissa milay ga . aur agar sirf aik aurat ho to ussay ( tarkay ka ) aadha hissa milay ga . aur marney walay kay walaiden mein say her aik ko tarkay ka chata hissa milay ga , ba-shartey-kay marney walay ki koi aulad ho , aur agar uss ki koi aulad naa ho aur uss kay walaiden hi uss kay waris hon to uss ki maa tehai hissay ki haq daar hai . haan agar uss kay kaee bhai hon to uss ki maa ko chata hissa diya jaye ga ( aur yeh sari taqseem ) uss wasiyyat per amal kernay kay baad hogi jo marney walay ney ki ho , ya agar uss kay zimmay koi qarz hai to uss ki adaegi kay baad . tumhen iss baat ka theek theek ilm nahi hai kay tumharay baap beton mein say kon faeeda phonchanay kay lehaz say tum say ziyada qareeb hai ? yeh to Allah kay muqarrar kiye huye hissay hain ; yaqeen rakho kay Allah ilm ka bhi malik hai , hikmat ka bhi malik .
12 Tafsir Ibn Kathir
مزید مسائل میراث جن کا ہر مسلمان کو جاننا فرض ہے
یہ آیت کریمہ اور اس کے بعد کی آیت اور اس سورت کے خاتمہ کی آیت علم فرائض کی آیتیں ہیں، یہ پورا علم ان آیتوں اور میراث کی احادیث سے استنباط کیا گیا ہے، جو حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر اور توضیح ہیں، یہاں ہم اس آیت کی تفسیر لکھتے ہیں باقی جو میراث کے مسائل کی پوری تقریر ہے اور اس میں جن دلائل کی سمجھ میں جو کچھ اختلاف ہوا ہے اس کے بیان کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر، اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے، علم فرائض سیکھنے کی رغبت میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں، ان آیتوں میں جن فرائض کا بیان ہے یہ سب سے زیادہ اہم ہیں، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے علم دراصل تین ہیں اور اس کے ماسوا فضول بھرتی ہے، آیات قرآنیہ جو مضبوط ہیں اور جن کے احکام باقی ہیں، سنت قائمہ یعنی جو احادیث ثابت شدہ ہیں اور فریضہ عادلہ یعنی مسائل میراث جو ان دو سے ثابت ہیں۔ ابن ماجہ کی دوسری ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ فرائض سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ۔ یہ نصف علم ہے اور یہ بھول بھول جاتے ہیں اور یہی پہلی وہ چیز ہے جو میری امت سے چھن جائے گی، حضرت ابن عینیہ (رح) فرماتے ہیں اسے آدھا علم اس لئے کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو عموماً یہ پیش آتے ہیں، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ میں بیمار تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) میری بیمار پرسی کے لئے بنو سلمہ کے محلے میں پیادہ پا تشریف لائے میں اس وقت بیہوش تھا آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر وضو کے پانی کا چھینٹا مجھے دیا جس سے مجھے ہوش آیا، تو میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اپنے مال کی تقسیم کس طرح کروں ؟ اس پر آیت شریفہ نازل ہوئی، صحیح مسلم شریف نسائی شریف وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے، ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں مروی حے کہ حضرت سعد بن ربیع (رض) کی بیوی صاحبہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دونوں حضرت سعد کی لڑکیاں ہیں، ان کے والد آپ کے ساتھ جنگ احد میں شریک تھے اور وہیں شہید ہوئے ان کے چچا نے ان کا کل مال لے لیا ہے ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا اور یہ ظاہر ہے کہ ان کے نکاح بغیر مال کے نہیں ہوسکتے، آپ نے فرمایا اس کا فیصلہ خود اللہ کرے گا چناچہ آیت میراث نازل ہوئی، آپ نے ان کے چچا کے پاس آدمی بھیج کر حکم بھیجا کہ دو تہائیاں تو ان دونوں لڑکیوں کو دو اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو دو اور باقی مال تمہارا ہے، بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر کے سوال پر اس سورت کی آخری آیت اتری ہوگی جیسے عنقریب آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس لئے کہ ان کی وارث صرف ان کی بہنیں ہی تھیں لڑکیاں تھیں ہی نہیں وہ تو کلالہ تھے اور یہ آیت اسی بارے میں یعنی حضرت سعد بن ربیع کے ورثے کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے راوی بھی خود حضرت جابر ہیں ہاں حضرت امام بخاری (رح) نے اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر میں وارد کیا ہے اس لئے ہم نے بھی ان کی تابعداری کی، واللہ اعلم مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں عدل سکھاتا ہے، اہل جاہلیت تمام مال لڑکوں کو دیتے تھے اور لڑکیاں خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ بھی مقرر کردیا ہاں دونوں کے حصوں میں فرق رکھا، اس لئے کہ مردوں کے ذمہ جو ضروریات ہیں وہ عورتوں کے ذمہ نہیں مثلاً اپنے متعلقین کے کھانے پینے اور خرچ اخراجات کی کفالت تجارت اور کسب اور اسی طرح کی اور مشقتیں تو انہیں ان کی حاجت کے مطابق عورتوں سے دوگنا دلوایا، بعض دانا بزرگوں نے یہاں ایک نہایت باریک نکتہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے، ماں باپ کو ان کی اولادوں کے بارے میں وصیت کر رہا ہے، پس معلوم ہوا کہ ماں باپ اپنی اولاد پر اتنے مہربان نہیں جتنا مہربان ہمارا خالق اپنی مخلوق پر ہے۔ چناچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیدیوں میں سے ایک عورت کا بچہ اس سے چھوٹ گیا وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتی پھرتی تھی اور جیسے ہی ملا اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیکھ کر اپنے اصحاب سے فرمایا بھلا بتاؤ تو کیا یہ عورت باوجود اپنے اختیار کے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ لوگوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرگز نہیں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ پہلے حصہ دار مال کا صرف لڑکا تھا، ماں باپ کو بظور وصیت کے کچھ مل جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کیا اور لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دلوایا اور ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ دلوایا اور تیسرا حصہ بھی اور بیوی کو آٹھواں حصہ اور چوتھا حصہ اور خاوند کو آدھا اور پاؤ۔ فرماتے ہیں میراث کے احکام اترنے پر بعض لوگوں نے کہا یہ اچھی بات ہے کہ عورت کو چوتھا اور آٹھواں حصہ دلوایا جا رہا ہے اور لڑکی کو آدھوں آدھ دلوایا جا رہا ہے اور ننھے ننھے بچوں کا حصہ مقرر کیا جا رہا ہے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی نہ لڑائی میں نکل سکتا ہے، نہ مال غنیمت لاسکتا ہے اچھا تم اس حدیث سے خاموشی برتو شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بھول جائے ہمارے کہنے کی وجہ سے آپ ان احکام کو بدل دیں، پھر انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ لڑکی کو اس کے باپ کا آدھا مال دلوا رہے ہیں حالانکہ نہ وہ گھوڑے پر بیٹھنے کے لائق نہ دشمن سے لڑنے کے قابل، آپ بچے کو ورثہ دلا رہے ہیں بھلا وہ کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے ؟ یہ لوگ جاہلیت کے زمانہ میں ایسا ہی کرتے تھے کہ میراث صرف اسے دیتے تھے جو لڑنے مرنے کے قابل ہو سب سے بڑے لڑکے کو وارث قرار دیتے تھے (اگر مرنے والے کے لڑکے لڑکیاں دونوں ہو تو تو فرما دیا کہ لڑکی کو جتنا آئے اس سے دوگنا لڑکے کو دیا جائے یعنی ایک لڑکی ایک لڑکا ہے تو کل مال کے تین حصے کر کے دو حصے لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو دے دیا جائے اور اگر صرف لڑکی کو دے دیا جائے اب بیان فرماتا ہے کہ اگر صرف لڑکیاں ہوں تو انہیں کیا ملے گا ؟ مترجم) لفظ فوق کو بعض لوگ زائد بتاتے ہیں جیسے آیت (فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ) 8 ۔ الانفال :12) آیت میں لفظ فوق زائد ہے لیکن ہم یہ نہیں مانتے نہ اس آیت میں نہ اس آیت میں، کیونکہ قرآن میں کوئی ایسی زائد چیز نہیں ہے جو محض بےفائدہ ہو اللہ کے کلام میں ایسا ہونا محال ہے، پھر یہ بھی خیال فرمائیے کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو اس کے بعد آیت (فلہن) نہ آتا بلکہ (فلہما) آتا۔ ہاں اسے ہم جانتے ہیں کہ اگر لڑکیاں دو سے زیادہ نہ ہوں یعنی صرف دو ہوں تو بھی یہی حکم ہے یعنی انہیں بھی دو ثلث ملے گا کیونکہ دوسری آیت میں دو بہنوں کو دو ثلث دلوایا گیا ہے اور جبکہ دو بہنیں دو ثلث پاتی ہیں تو دو لڑکیوں کو دو ثلث کیوں نہ ملے گا ؟ ان کے لئے تو دو تہائی بطور اولی ہونا چاہئے، اور حدیث میں آچکا ہے دو لڑکیوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو تہائی مال ترکہ کا دلوایا جیسا کہ اس آیت کی شان نزول کے بیان میں حضرت سعد کی لڑکیوں کے ذکر میں اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے پس کتاب و سنت سے یہ ثابت ہوگیا اسی طرح اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی اگر ہو یعنی لڑکا نہ ہونے کی صورت میں تو اسے آدھوں آدھ دلوایا گیا ہے پس اگر دو کو بھی آدھا ہی دینے کا حکم کرنا مقصود ہوتا تو یہیں بیان ہوجاتا جب ایک کو الگ کردیا تو معلوم ہوا کہ دو کا حکم وہی ہے جو دو سے زائد کا ہے واللہ اعلم۔ پھر ماں باپ کا حصہ بیان ہو رہا ہے ان کے ورثے کی مختلف صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ مرنے والے کی اولاد ایک لڑکی سے زیادہ ہو اور ماں باپ بھی ہوں تو تو انہیں چھٹا چھٹا حصہ ملے گا یعنی چھٹا حصہ ماں کو اور چھٹا حصہ باپ کو، اگر مرنے والے کی صرف ایک لڑکی ہی ہے تو آدھا مال تو وہ لڑکی لے لے گی اور چھٹا حصہ ماں لے لے گی چھٹا حصہ باپ کو ملے گا اور چھٹا حصہ جو باقی رہا وہ بھی بطور عصبہ باپ کو مل جائے گا پس اس حالت میں باپ فرض اور تنصیب دونوں کو جمع کرلے گا یعنی مقررہ چھٹا حصہ اور بطور عصبہ بچت کا مال دوسری صورت یہ ہے کہ صرف ماں باپ ہی وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ مل جائے گا اور باقی کا کل ماں باپ کو بطور عصبہ کے مل جائے گا تو گویا دو ثلث مال اس کے ہاتھ لگے گا یعنی بہ نسبت مال کے دگنا باپ کو مل جائے گا اب اگر مرنے والی عورت کا خاوند بھی ہے مرنے والے مرد کی بیوی ہے یعنی اولاد نہیں صرف ماں باپ ہیں اور خاوند سے یا بیوی تو اس پر تو اتفاق ہے کہ خاوند کو آدھا اور بیوی کو پاؤ ملے گا، پھر علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ماں کو اس صورت میں اس کے بعد کیا ملے گا ؟ تین قول ہیں ایک تو یہ کہ جو مال باقی رہا اس میں سے تیسرا حصہ ملے گا دونوں صورتوں میں یعنی خواہ عورت خاوند چھوڑ کر مری ہو خواہ مرد عورت چھوڑ کر مرا ہو اس لئے کہ باقی کا مال ان کی نسبت سے گویا کل مال ہے اور ماں کا حصہ باپ سے آدھا ہے تو اس باقی کے مال سے تیسرا حصہ یہ لے لے اور وہ تیسرے حصے جو باقی رہے وہ باپ لے لے گا حضرت عمر حضرت عثمان اور بہ اعتبار زیادہ صحیح روایت حضرت علی (رض) کا یہی فیصلہ ہے، حضرت ابن مسعود اور حضرت زید بن ثابت (رض) کا یہی قول ہے، ساتوں فقہاء اور چاروں اماموں اور جمہور علماء کا بھی فتویٰ ہے دوسرا قول یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں بھی ماں کو کل مال کا ثلث مل جائے گا، اس لئے کہ آیت عام ہے خاوند بیوی کے ساتھ ہو تو اور نہ ہو تو عام طور پر میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ماں کو ثلث دلوایا گیا ہے، حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے، حضرت علی اور حضرت معاذ بن جبل سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ حضرت شریح اور حضرت داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں، حضرت ابو الحسین بن لبان بصری بھی اپنی کتاب ایجاز میں جو علم فرائض کے بارے میں ہے اسی قول کو پسند کرتے ہیں، لیکن اس قول میں نظر ہے بلکہ یہ قول ضعیف ہے کیونکہ آیت نے اس کا یہ حصہ اس وقت مقرر فرمایا ہے جبکہ کل مال کی وراثت صرف ماں باپ کو ہی پہنچتی ہو، اور جبکہ زوج یا زوجہ سے اور وہ اپنے مقررہ حصے کے مستحق ہیں تو پھر جو باقی رہ جائے گا بیشک وہ ان دونوں ہی کا حصہ ہے تو اس میں ثلث ملے گا، کیونکہ اس عورت کو کل مال کی چوتھائی ملے گی اگر کل مال کے بارہ حصے کئے جائیں تو تین حصے تو یہ لے گی اور چار حصے ماں کو ملے گا باقی بچے پانچ حصے وہ باپ لے لے گا لیکن اگر عورت مری ہے اور اس کا خاوند موجود ہے تو ماں کو باقی مال کا تیسرا حصہ ملے گا اگر کل مال کا تیسرا حصہ اس صورت میں بھی ماں کو دلوایا جائے تو اسے باپ سے بھی زیادہ پہنچ جاتا ہے مثلاً میت کے مال کے چھ حصے کئے تین تو خاوند لے گیا دو ماں لے گئی تو باپ کے پلے ایک ہی پڑے گا جو ماں سے بھی تھوڑا ہے، اس لئے اس صورت میں چھ میں سے تین تو خاوند کو دئے جائیں گے ایک ماں کو اور دو باپ کو، حضرت امام ابن سیرین (رح) کا یہی قول ہے، یوں سمجھنا چاہئے کہ یہ قول دو قولوں سے مرکب ہے، ضعیف یہ بھی ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے واللہ اعلم، ماں باپ کے احوال میں سے تیسرا حال یہ ہے کہ وہ بھائیوں کے ساتھ ہوں خواہ وہ سگے بھائی ہوں یا صرف باپ کی طرف سے یا صرف ماں کی طرف سے تو وہ باپ کے ہوتے ہوئے اپنے بھائی کے ورثے میں کچھ پائیں گے نہیں لیکن ہاں ماں کو تہائی سے ہٹا کر چھٹا حصہ دلوائیں گے اور اگر کوئی اور وارث ہی نہ ہو اور صرف ماں کے ساتھ باپ ہی ہو تو باقی مال کل کا کل باپ لے لے گا اور بھائی بھی شریعت میں بہت سے بھائیوں کے مترادف ہیں جمہور کا یہی قول ہے، ہاں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت عثمان (رض) سے کہا کہ دو بھائی ماں کو ثلث سے ہٹا کر سدس تک نہیں لے جاتے قرآن میں اخوۃ جمع کا لفظ ہے دو بھائی اگر مراد ہوتے اخوان کہا جاتا خلیفہ ثالث نے جواب دیا کہ پہلے ہی سے یہ چلا آتا ہے اور چاروں طرف یہ مسئلہ اسی طرح پہنچا ہوا ہے تمام لوگ اس کے عامل ہیں میں اسے نہیں بدل سکتا، اولاً تو یہ اثر ثابت ہی نہیں اس کے راوی حضرت شعبہ کے بارے میں حضرت امام مالک کی جرح موجود ہے پھر یہ قول ابن عباس کا نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ خود حضرت ابن عباس کے خاص اصحاب اور اعلی شاگرد بھی اس کے خلاف ہیں حضرت زید فرماتے ہیں دو کو بھی اخوۃ کہا جاتا ہے، الحمد للہ میں نے اس مسئلہ کو پوری طرح ایک علیحدہ رسالے میں لکھا ہے حضرت سعید بن قتادہ سے بھی اسی طرح مروی ہے، ہاں میت کا اگر ایک ہی بھائی ہو تو ماں کو تیسرے حصے سے ہٹا نہیں سکتا، علماء کرام کا فرمان ہے کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ میت کے بھائیوں کی شادیوں کا اور کھانے پینے وغیرہ کا کل خرچ باپ کے ذمہ ہے نہ کہ ماں کے ذمے اس لئے متقضائے حکمت یہی تھا کہ باپ کو زیادہ دیا جائے، یہ توجیہ بہت ہی عمدہ ہے، لیکن حضرت ابن عباس سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہ چھٹا حصہ جو ماں کا کم ہوگیا انہیں دیدیا جائے گا یہ قول شاذ ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں حضرت عبداللہ کا یہ قول تمام امت کے خلاف ہے، ابن عباس کا قول ہے کہ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کا بیٹا اور باپ نہ ہو۔ پھر فرمایا وصیت اور قرض کے بعد تقسیم میراث ہوگی، تمام سلف خلف کا اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے اور فحوائے آیت کو بھی اگر بغور دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے، ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت علی بن ابو طالب (رض) فرماتے ہیں تم قرآن میں وصیت کا حکم پہلے پڑھتے ہو اور قرض کا بعد میں لیکن یاد رکھنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرض پہلے ادا کرایا ہے، پھر وصیت جاری کی ہے، ایک ماں زاد بھائی آپس میں وارث ہوں گے بغیر علاتی بھائیوں کے، آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہوگا نہ اس کا جس کی ماں دوسری ہو، یہ حدیث صرف حضرت حارث سے مروی ہے اور ان پر بعض محدثین نے جرح کی ہے، لیکن یہ حافظ فرائض تھے اس علم میں آپ کو خاص دلچسپی اور دسترس تھی اور حساب کے بڑے ماہر تھے واللہ اعلم۔ پھر فرمایا کہ ہم نے باپ بیٹوں کو اصل میراث میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے والا بنایا اور جاہلیت کی رسم ہٹا دی بلکہ اسلام میں بھی پہلے بھی ایسا ہی حکم تھا کہ مال اولاد کو مل جاتا ماں باپ کو صرف بطور وصیت کے ملتا تھا جیسے حضرت ابن عباس سے پہلے بیان ہوچکا یہ منسوخ کر کے اب یہ حکم ہوا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ تمہیں باپ سے زیادہ نفع پہنچے گا یا اولاد نفع دے گی امید دونوں سے نفع کی ہے یقین کسی پر بھی ایک سے زیادہ نہیں، ممکن ہے باپ سے زیادہ بیٹا کام آئے اور نفع پہنچائے اور ممکن ہے بیٹے سے زیادہ باپ سے نفع پہنچے اور وہ کام آئے، پھر فرماتا ہے یہ مقررہ حصے اور میراث کے یہ احکام اللہ کی طرف سے فرض ہیں اس میں کسی کمی پیشی کی کسی امید یا کسی خوف سے گنجائش نہیں نہ کسی کو محروم کردینا لائق سے نہ کسی کو زیادہ دلوا دینا، اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے جو جس کا مستحق ہے اسے اتنا دلواتا ہے ہر چیز کی جگہ کو وہ بخوبی جانتا ہے تمہارے نفع نقصان کا اسے پورا علم ہے اس کا کوئی کام اور کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں تمہیں چاہئے کہ اس کے احکام اس کے فرمان مانتے چلے جاؤ۔