اور جو شخص رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے،
English Sahih:
And whoever opposes the Messenger after guidance has become clear to him and follows other than the way of the believers – We will give him what he has taken and drive him into Hell, and evil it is as a destination.
1 Abul A'ala Maududi
مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو، تو اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی
3 Ahmed Ali
اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اسے دوزح میں ڈال دینگے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے
4 Ahsanul Bayan
جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے (١) وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔
١١٥۔١ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے، اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو۔ اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر و ضلال ہی ہے۔ بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء وفقہا کا اتفاق۔ یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اتفاق یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں۔ جن میں فی الواقع امت کے تمام علما و فقہا کا اتفاق ہو۔ تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے ' کہ اللہ تعالٰی میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے "۔ (صحیح ترمذی)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالف کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے
6 Muhammad Junagarhi
جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو راہِ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کے راستے کے خلاف چلے، تو ہم اسے ادھر ہی جانے دیں گے، جدھر وہ گیا ہے (ہم اسے کرنے دیں گے جو کچھ وہ کرتا ہے)۔ اور اسے آتش دوزخ کا مزا چکھائیں گے اور یہ بہت بری جاءِ بازگشت ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو شخص بھی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول سے اختلاف کرے گا اور مومنین کے راستہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا اسے ہم ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھر گیا ہے اور جہّنم میں جھونک دیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے
10 Tafsir as-Saadi
یعنی جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت میں آپ سے عناد رکھتا ہے ﴿مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ﴾” سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد“ یعنی دلائل قرآنی اور براہین نبویہ کے ذریعے سے ہدایت کا راستہ واضح ہوجانے کے بعد ﴿وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ﴾” اور مومنوں کے راستے کے خلاف چلے“ اہل ایمان کے راستے سے مراد ان کے عقائد و اعمال ہیں ﴿ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ﴾ ” ہم اس کو پھیر دیتے ہیں اسی طرف جس طرف وہ پھرتا ہے“ یعنی ہم اسے اور اس چیز کو جو اس نے اپنے لئے اختیار کی ہے چھوڑ کر اس سے الگ ہوجاتے ہیں اور ہم اسے بھلائی کی توفیق سے محروم کردیتے ہیں۔ کیونکہ اس نے حق کو جان بوجھ کر ترک کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی جزا عدل و انصاف پر مبنی ہے کہ وہ اسے اس کی گمراہی میں حیران و پریشان چھوڑ دیتا ہے اور وہ اپنی گمراہی میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوبَهُمْ﴾ (الصف :61؍5) ” جب انہوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا“ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام :6؍110) ” اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے جیسے وہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہ لائے تھے (اب بھی ایمان نہ لائیں گے۔ “ ) اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہیں کرتا اور مومنین کے راستے کی اتباع کرتا ہے۔ اس کا مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع، اور مسلمانوں کی جماعت کی معیت کا التزام کرنا ہے، تب اگر اس سے کوئی گناہ صادر ہوتا ہے یا نفس کے تقاضے اور طبیعت کے غلبے کی بنا پر گناہ کا ارادہ کر بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے نہیں کرتا بلکہ اپنے لطف و کرم سے اس کا تدارک کرد یتا ہے اور اسے برائی سے بچا کر اس پر احسان کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا : ﴿ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ﴾ (یوسف: 12؍24) ” تاکہ ہم اس طرح اس سے برائی اور بے حیائی کو روک دیں بلاشبہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔“ یعنی یوسف علیہ السلام کے اخلاص کے سبب سے ان سے برائی کو دور کردیا اور اللہ تعالیٰ اپنے ہر چنے ہوئے بندے کے ساتھ یونہی کرتا ہے، جیسا کہ علت کی عمومیت اس پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ﴾ ” اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے۔“ یعنی ہم جہنم میں اسے بہت بڑے عذاب سے دوچار کریں گے ﴿وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴾” اور وہ بری جگہ ہے۔“ یعنی انجام کار یہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ یہ وعید، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کی مخالفت پر مرتب ہوتی ہے گناہ کے چھوٹا بڑا ہونے کے اعتبار سے اس کے بہت سے مراتب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ ان میں سے بعض مراتب ایسے ہیں جو جہنم میں خلود کا باعث ہوں گے۔ باقی تمام اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور دوری کا موجب ہیں۔ بعض گناہوں کا مرتبہ کمتر ہے۔ شاید دوسری آیت اس آیت کریمہ کے اطلاق کی تفصیل کی طرح ہے۔ یعنی شرک کو اللہ تعالیٰ کبھی نہیں بخشے گا کیونکہ شرک اللہ رب العالمین اور اس کی توحید میں نقص اور مخلوق کو جو خود اپنے نفع و نقصان کی مالک نہیں، اس اللہ کے برابر قرار دینا ہے جو نفع و نقصان کا مالک ہے، ہر قسم کی نعمت صرف اسی کی طرف سے ہے، تمام تکلیفوں کو صرف وہی دور کرنے والا ہے ہر اعتبار سے کمال مطلق اور تمام وجوہ سے غنائے تام کا وہی مالک ہے۔ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ جس ہستی کی یہ عظمت و شان ہو، اس کی عبادت کے لئے اخلاص نہ ہو اور جو صفات کمال اور صفات غنا میں سے کسی چیز کی بھی مالک نہ ہو، بلکہ وہ عدم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا وجود نیست ہے، کمال نیست ہے، بے نیازی نیست ہے اور ہر لحاظ سے محتاجی ہی محتاجی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo shaks apney samney hidayat wazeh honey kay baad bhi Rasool ki mukhalifat keray , aur mominon kay raastay kay siwa kissi aur raastay ki perwi keray , uss ko hum ussi raah kay hawalay kerden gay jo uss ney khud apnai hai , aur ussay dozakh mein jhonken gay , aur woh boht bura thikana hai .