Skip to main content

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَـغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَـهْدِيَهُمْ سَبِيْلًا ۗ

Indeed
إِنَّ
بیشک
those who
ٱلَّذِينَ
وہ لوگ
believed
ءَامَنُوا۟
جو ایمان لائے
then
ثُمَّ
پھر
disbelieved
كَفَرُوا۟
انہوں نے کفر کیا
then
ثُمَّ
پھر
(again) believed
ءَامَنُوا۟
ایمان لاؤ
then
ثُمَّ
پھر
disbelieved
كَفَرُوا۟
کفر کیا
then
ثُمَّ
پھر
increased
ٱزْدَادُوا۟
بڑھ گئے۔ زیادہ ہوگئے
(in) disbelief -
كُفْرًا
کفر میں
not will
لَّمْ يَكُنِ
نہیں ہے
Allah
ٱللَّهُ
اللہ
forgive
لِيَغْفِرَ
تاکہ بخش دے
[for] them
لَهُمْ
ان کو
and not
وَلَا
اور نہ
will guide them
لِيَهْدِيَهُمْ
ہدایت دے ان کو
(to) a (right) way
سَبِيلًۢا
راستے کی

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

رہے وہ لوگ جو ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے، تو اللہ ہرگز ان کو معاف نہ کرے گا اور نہ کبھی اُن کو راہ راست دکھائے گا

English Sahih:

Indeed, those who have believed then disbelieved, then believed then disbelieved, and then increased in disbelief – never will Allah forgive them, nor will He guide them to a way.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

رہے وہ لوگ جو ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے، تو اللہ ہرگز ان کو معاف نہ کرے گا اور نہ کبھی اُن کو راہ راست دکھائے گا

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کافر ہوئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوئے پھر اور کفر میں بڑھے اللہ ہرگز نہ انہیں بخشے نہ انہیں راہ دکھائے،

احمد علی Ahmed Ali

بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کیا پھر کفر میں بڑھتے رہے تو الله ان کو ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ انہیں راہ دکھائے گا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور پھر گئے، پھر ایمان لاکر پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھ گئے اللہ تعالٰی یقیناً انہیں نہ بخشے گا اور نہ انہیں راہ ہدایت سمجھائے گا۔(۱)

(۲) بعض مفسرین نے اس سے مراد یہود لیے ہیں۔ یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے لیکن حضرت عزیر علیہ السلام کا انکار کیا، پھر حضرت عزیر علیہ السلام پر ایمان لائے تو حضرت عیسیٰ کا انکار کیا۔ پھر کفر میں پڑھتے چلے گئے۔ حتی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بھی انکار کیا اور بعض نے اس سے مراد منافقین لئے ہیں،چونکہ مقصد ان کا مسلمانوں کو نقصان پہنچانا تھا، اس لئے وہ بار بار اپنی مسلمانی کا ڈھونگ رچاتے تھے بالآخر کفر وضلالت میں اتنے بڑھ گئے کہ ان کی ہدایت کی امید منقطع ہوگئی۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر کفر میں بڑھتے گئے ان کو خدا نہ تو بخشے گا اور نہ سیدھا رستہ دکھائے گا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

جن لوگوں نے ایمان قبول کر کے پھر کفر کیا، پھر ایمان ﻻکر پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھ گئے، اللہ تعالیٰ یقیناً انہیں نہ بخشے گا اور نہ انہیں راه ہدایت سمجھائے گا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے۔ پھر کفر میں بڑھتے گئے۔ اللہ ہرگز نہ ان کی مغفرت فرمائے گا اور نہ انہیں سیدھی راہ تک پہنچائے گا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

جو لوگ ایمان لائے اور پھر کفر اختیار کرلیا پھر ایمان لے آئے اور پھر کافر ہوگئے اور پھر کفر میں شدید و مزید ہوگئے تو خدا ہرگز انہیں معاف نہیں کرسکتا اور نہ سیدھے راستے کی ہدایت دے سکتا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بیشک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں اوربڑھ گئے تواللہ ہرگز (یہ ارادہ فرمانے والا) نہیں کہ انہیں بخش دے اور نہ (یہ کہ) انہیں سیدھا راستہ دکھائے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

صحبت بد سے بچو
ارشاد ہو رہا ہے کہ جو ایمان لا کر پھر مرتد ہوجائے پھر وہ مومن ہو کر کافر بن جائے پھر اپنے کفر پر جم جائے اور اسی حالت میں مرجائے تو نہ اس کی توبہ قبول نہ اس کی بخشش کا امکان اس کا چھٹکارا، نہ فلاح، نہ اللہ اسے بخشے، نہ راہ راست پر لائے۔ حضرت علی (رض) اس آیت کی تلاوت فرما کر فرماتے تھے مرتد سے تین بار کہا جائے کہ توبہ کرلے۔ پھر فرمایا یہ منافقوں کا حال ہے کہ آخرش ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے پھر وہ مومنوں کو چھوڑ کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں، ادھر بظاہر مومنوں سے ملے جلے رہتے ہیں اور کافروں میں بیٹھ کر ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو انہیں بیوقوف بنا رہے ہیں دراصل ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، پس اللہ تعالیٰ ان کے مقصود اصلی کو ان کے سامنے پیش کر کے اس میں ان کی ناکامی کو بیان فرماتا ہے کہ تم چاہتے ہو ان کے پاس تمہاری عزت ہو مگر یہ تمہیں دھوکا ہوا ہے اور تم غلطی کر رہے ہو بگوش ہوش سنو عزتوں کا مالک تو اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور آیت میں ہے (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا) 35 ۔ فاطر ;10) یعنی عزت اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول اور مومنوں کا حق ہے، لیکن منافق بےسمجھ لوگ ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ اگر حقیقی عزت چاہتے ہو تو اللہ کے نیک بندوں کے اعمال اختیار کرو اس کی عبادت کی طرف جھک جاؤ اور اس جناب باری سے عزت کے خواہاں بنو، دنیا اور آخرت میں وہ تمہیں وقار بنا دے گا، مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص فخر و غرور کے طور پر اپنی عزت ظاہر کرنے کے لئے اپنا نسب اپنے کفار باپ دادا سے جوڑے اور نو تک پہنچ جائے وہ بھی ان کے ساتھ دسواں جہنمی ہوگا۔ پھر فرمان ہے جب میں تمہیں منع کرچکا کہ جس مجلس میں اللہ کی آیتوں سے انکار کیا جا رہا ہو اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اس میں نہ بیٹھو، پھر بھی اگر تم ایسی مجلسوں میں شریک ہوتے رہو گے تو یاد رکھو میرے ہاں تم بھی ان کے شریک کار سمجھے جاؤ گے۔ ان کے گناہ میں تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے جیسے ایک حدیث میں ہے کہ جس دستر خوان پر شراب نوشی ہو رہی ہے اس پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنا چاہئے جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو اس آیت میں جس ممانعت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سورة انعام کی جو مکیہ ہے یہ ( وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ ) 6 ۔ الانعام ;68) جب تو انہیں دیکھے جو میری آیتوں میں غوطے لگانے بیٹھ جاتے ہیں تو تو ان سے منہ موڑ لے۔ حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں اس آیت کا یہ حکم (اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَهَنَّمَ جَمِيْعَۨا) 4 ۔ النسآء ;140) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (وَمَا عَلَي الَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَّلٰكِنْ ذِكْرٰي لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ) 6 ۔ الانعام ;69) سے منسوخ ہوگیا ہے یعنی متقیوں پر ان کے احسان کا کوئی بوجھ نہیں لیکن نصیحت ہے کیا عجب کہ وہ بچ جائیں۔ پھر فرمان باری ہے اللہ تعالیٰ تمام منافقوں کو اور سارے کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔ یعنی جس طرح یہ منافق ان کافروں کے کفر میں یہاں شریک ہیں قیامت کے دن جہنم میں بھی اور ہمیشہ رہنے والے وہاں کے سخت تر دل ہلا دینے والے عذابوں کے سہنے میں بھی ان کے شریک حال رہیں گے۔ وہاں کی سزاؤں میں وہاں کی قید و بند میں طوق و زنجیر میں گرم پانی کے کڑوے گھونٹ اتارنے میں اور پیپ کے لہو کے زہر مار کرنے میں بھی ان کیساتھ ہوں گے اور دائمی سزا کا اعلان سب کو ساتھ سنا دیا جائے گا۔