النساء آية ۱۴۸
لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بِالسُّوْۤءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَۗ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيْعًا عَلِيْمًا
طاہر القادری:
اﷲ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے،
English Sahih:
Allah does not like the public mention of evil except by one who has been wronged. And ever is Allah Hearing and Knowing.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ پسند نہیں کرتا بری بات کا اعلان کرنا مگر مظلوم سے اور اللہ سنتا جانتا ہے،
3 Ahmed Ali
الله کو کسی کی بڑی بات کا ظاہر کرنا پسند نہیں مگر جس پر ظلم ہواہو اور الله سننے والا جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالٰی پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے (١) اور اللہ تعالٰی خوب سنتا اور جانتا ہے۔
١٤٨۔١ شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ۔ اسی طرح کھلے عام اور علی الاعلان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اسے سرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے
البتہ اس سے الگ ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کر سکتے ہو۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شائد وہ ظلم سے باز آ جائے اور اس کی تلافی کی سعی کرے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے لوگ اس سے بچ کر رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو، اس نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر راہ گیر اس پر لعنت ملامت کرتا۔ پڑوسی نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کر لی اور آئندہ کے لیے ایذاء نہ پہنچانے کا فیصلہ کر لیا اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور خدا (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کی اجازت ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا جانتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ علانیہ بدگوئی کو پسند نہیں کرتا سوائے اس کے کہ جس پر ظلم ہوا ہو (کہ اس کے لیے ظالم کی بدگوئی جائز ہے) اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللہ مظلوم کے علاوہ کسی کی طرف سے بھی علی الاعلان اِرا کہنے کو پسند نہیں کرتا اور اللہ ہر بات کا سننے والا اور تمام حالات کا جاننے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
آیت نمبر ١٤٨ تا ١٥٢
ترجمہ : اللہ کسی کی یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کی بدگوئی کرے یعنی بدگوئی پر سزا دے گا، البتہ مظلوم کو (بیان ظلم کی) اجازت ہے، یہ کہ اپنے ظالم کے ظلم کو افشا کرے اور اس کے لئے بد دعاء کرے، (تو اللہ اس افشاء ظلم پر مواخذہ نہ کرے گا) ، اور جو کچھ کہا جاتا ہے اللہ اس کو سننے والا ہے اور جو کچھ کیا جاتا ہے اس کو جاننے والا ہے، اور اگر تم اعمال نیک میں سے کوئی عمل اعلانیہ کرو یا اس کو چھپا کر کرو یا ظلم کو معاف کردو (تو بہت خوب ہے اسلئے کہ اللہ کی بھی یہی صفت ہے) کہ وہ (انتقام پر) قدرت رکھنے کے باوجود بڑا معاف کرنے والا ہے جو لوگ اللہ سے اور اس کے رسول سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں جی اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تقریق کریں بایں طور کہ اللہ پر ایمان لائیں اور رسولوں پر ایمان نہ لائیں، اور وہ کہتے (بھی) ہیں کہ ہم بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے بعض کے منکر ہیں اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ کفر و ایمان کے درمیان کوئی ایسی راہ نکالیں، کہ جس پر وہ چلیں، یقینا یہ لوگ پکے کافر ہیں (حَقَّا) سابقہ جملے کے مضمون کی تاکید ہے، اور ہم کے کافروں کے لئے اھانت آمیز سزا تجویز کررکھی ہے، اور وہ دوزخ کی سزا ہے، اور جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے تمام رسولوں پر بھی (ایمان رکھتے ہیں) اور ان میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے ان لوگوں کو اللہ ان کے اعمال خیر کا ضرور اجر دے گا (یّؤتیھم) نون اور یاء کے ساتھ ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں سے بڑا درگذر کرنے والا اور اپنی اطاعت کرنے والوں پر بڑا رحم کرنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اَلجَھرِ ، رفع الصوت بالقول وغیرہ، جھر بالقول سے مطلقاً اظہار مرد ہے خواہ جہر ہو یا نہ ہو۔
قولہ : مِنْ احدٍ ، یہ مستثنیٰ منہ مقدر ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ اِلاّ مَنْ ظلم، کا استثناء ماقبل سے درست ہے، اور الجھر مصدر م کا فاعل مخدوف ہے، اور مصدر کے فاعل کا حذف جائز ہے، اور مَنْ ظلم، اسی فاعل محذوف سے، مستثنیٰ ہے، یا مضاف محذوف مانا جائے تقدیر عبارت یہ ہوگی \&\& اَلاّ جَھْرَ مَنْ ظُلِمَ \&\& مذکورہ دونوں صورتوں میں مستثنیٰ متصل ہوگا۔
قولہ : ای یُعَاقِبُ علیہ، اس میں اشارہ ہے کہ عدم محبت سے غضب اور عقاب مراد ہے۔
قولہ : فاِنَّ اللہ کان عَفُوًّ اقَدِیْرًا، یہ جملہ جواب شرط ہے، اور اِنْ تُبْدُوا اور اَو تُخْفوہ، اور اوتعفوا عن سُوئ، یہ تینوں جملے بذریعہ عطف شرط ہیں۔
جواب شرط سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصود تیسرے جملہ یعنی اَوْ تعفوا کا جواب شرط ہے اور اگر ابداء خیر اور اخفاء خیر بھی مقصود بالشرط میں فقط فاِن اللہ کان عفوًا قدیرًا، پر اکتفاء درست یہ ہوگا، اس سے معلوم ہوا کہ ابداء خیر اور اخفاء خیر کو محض بطور تمہید لایا گیا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ علانیہ یا پوشیدہ طریقہ سے کار خیر کرنا بھی نیکی ہے مگر قدرت علی الا نتقام کے بادجود معاف کرنا نیکی ہے اسلئے کہ یہی صفت اللہ تعالیٰ کی بھی ہے۔
تفسیر وتشریح
ہتک عزت سے ممانعت : لا یحب اللہ الجھر بالسوء (الآیة) اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت ہی بلند درجہ کی اخلاقی تعلم دی گئی ہے، غیبت و ندگوئی کو قانونی زبان میں \&\& ہتک عزت \&\& کہا جاتا ہے بالکل ناجائز قرار دیا ہے، بلا ضرورت اور بلا مصلحت شرعی کسی کی بدگوئی کو کسی حال میں بھی روا نہیں رکھا، البتہ مظلوم اپنے دل کا بخار بک جھک کر شکوہ شکایت کرکے نکال سکتا ہے اور حاکم کے سامنے داد خواہی اور فریاد رسی کرسکتا ہے، شریعت اسلامی نے انسانی طبعی تقاضوں اور اضطراری یا نیم اضطراری ضرورتوں کا اس حد تک لحاظ رکھا ہے کہ کسی اور نے نہیں رکھا، اس میں کوئی شک نہیں کی شریعت اسلامی مظلام کو اس بات کا حق دیتی ہے کہ ظالم کی بدگوئی کرسکتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ یہ خدا کے نزدیک کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے بلکہ افضل اور پسندیدہ یہ ہے کہ تم عفو و درگذر سے کام لو اور اپنے اندر خدائی اخلاق پیدا کرو جس کی شان یہ ہے کہ وہ نہایت حلیم و بردبار ہے سخت سے سخت مجرموں تک کی روزی بند نہیں کرتا اور بڑے سے بڑے قصور داروں کو درگذر کئے چلا جاتا ہے، لہٰذا تم تخلقوا با خلاق اللہ کو پیش نظر رکھکر عالی حوصلہ اور وسیع الظرف بنو۔
یہ ہے رفع ظلم اور اصلاح معاشرہ کا قرآنی اصول کہ ایک طرف مظلوم کو برابر کے مقام کا حق دے کر عدل و انصاف کا قانون بنادیا اور دوسری طرف اعلیٰ اخلاق تعلیم دے کر عفو و درگذر پر آمادہ کیا، جس کا لازمی نتیجہ وہ ہے جس کو قرآن کریم نے دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا ہے۔
فاذا الذی بینک وبینہ \& عداؤة کانہ \& ولی حمیم، یعنی جس شخص اور تمہارے درمیان دشمنی تھی اس طرز سے وہ تمہارا مخلص دوست بن جائیگا۔
عدالتی فیصلہ اور ظلم کا انتقام وقتی اور عارضی طور پر تو ظلم کی روک تھام کرسکتے ہیں لیکن فریقین کی دلی کدورت کو دور کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتے، بخلاف اس اخلاقی درس کے جو قرآن کریم نے دیا ہے اس کے نتیجے میں گہری اور پرانی عداوتیں دوستوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی علانیہ بری بات کہے، یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص سے سخت ناراض ہوتا ہے اور اس پر سزا دیتا ہے۔ اس میں وہ تمام برے اقوال شامل ہیں جو تکلیف دہ اور صدمہ پہنچانے والے مثلاً گالی گلوچ، قذف اور سب وشتم کرنا۔ اس لئے کہ ایسے تمام اقوال سے منع کیا گیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اچھی بات کو پسند کرتا ہے مثلاً ذکر الٰہی اچھا اور نرم پاکیزہ کلام، وغیرہ ﴿إِلَّا مَن ظُلِمَ ﴾ ” مگر وہ جو مظلوم ہو۔“ یعنی جس شخص پر ظلم کیا گیا ہو وہ ظلم کرنے والے کے لئے بد دعا کرسکتا ہے، شکایت کرسکتا ہی اور اس شخص کو علانیہ بری بات کہہ سکتا ہے جس نے اعلانیہ بری بات کہی ہے، البتہ اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس پر بہتان لگائے یا اس کے ظلم سے بڑھ کر زیادتی کرے یا ظالم کے علاوہ کسی اور کو گالی وغیرہ دے۔ بایں ہمہ معاف کردینا اور ظلم و زیادتی میں مقابلہ نہ کرنا اولیٰ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ ﴾ (الشوری : 42؍40) ” پس جس کسی نے معاف کردیا اور اصلاح کی اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ “
﴿وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيعًا عَلِيمًا ﴾” اور اللہ (سب کچھ) سنتا، جانتا ہے۔“ چونکہ آیت کریمہ برے، اچھے اور مباح کلام کے احکام پر مشتمل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ وہ سننے والا ہے، تمہارے اقوال سنتا ہے اس لئے ایسی بات کہنے سے بچو جو تمہارے رب کی ناراضی کا باعث بنے اور وہ تمہیں سزا دے۔ اس آیت کریمہ میں اچھی بات کہنے کی بھی ترغیب ہے۔ ﴿عَلِيمًا﴾وہ تمہاری نیتوں اور تمہارے اقوال کے مصدر کو جانتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah uss baat ko pasand nahi kerta kay kissi ki burai aelania zaban per laee jaye , illa yeh kay kissi per zulm huwa ho . aur Allah sabb kuch sunta , her baat janta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مظلوم کو فریاد کا حق ہے
حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو دوسرے کو بد دعا دینا جائز نہیں، ہاں جس پر ظلم کیا گیا ہو اسے اپنے ظالم کو بد دعا دینا جائز ہے اور وہ بھی اگر صبر و ضبط کرلے تو افضل یہی ہے۔ ابو داؤد میں ہے " حضرت عائشہ صدیقہ کی کوئی چیز چور چرا لے گئے تو آپ ان پر بد دعا کرنے لگیں۔ حضور رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا ! کیوں اس کا بوجھ ہلکا کر رہی ہو ؟ " حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں اس پر بد دعا نہ کرنی چاہئے بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے دعا (اللھم اعنی علیہ واستخرج حقی منہ) یا اللہ اس چور پر تو میری مدد کر اور اس سے میرا حق دلوا دے، آپ سے ایک اور روایت میں مروی ہے کہ اگرچہ مظلوم کے ظالم کو کو سنے کی رخصت ہے مگر یہ خیال رہے کہ حد سے نہ بڑھ جائے۔ عبدالکریم بن مالک جزری (رح) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں " گالی دینے والے کو یعنی برا کہنے والے کو برا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بہتان باندھنے والے پر بہتان نہیں باندھ سکتے۔ " ایک اور آیت میں ہے (وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّنْ سَبِيْلٍ ) 42 ۔ الشوری :41) جو مظلوم اپنے ظالم سے اس کے ظلم کا انتقام لے، اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں " دو گالیاں دینے والوں کا وبال اس پر ہے، جس نے گالیاں دینا شروع کیا۔ ہاں اگر مظلوم حد سے بڑھ جائے تو اور بات ہے۔ حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں جو شخص کسی کے ہاں مہمان بن کر جائے اور میزبان اس کا حق مہمانی ادا نہ کرے تو اسے جائز ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے میزبان کی شکایت کرے، جب تک کہ وہ حق ضیافت ادا نہ کرے۔ ابو داؤد، ابن ماجہ وغیرہ میں ہے " صحابہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی کہ آپ ہمیں ادھر ادھر بھیجتے ہیں۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ ہماری مہمانداری نہیں کرتے " آپ نے فرمایا " اگر وہ میزبانی کریں تو درست، ورنہ تم ان سے لوازمات میزبانی خود لے لیا کرو۔ مسند احمد کی روایت میں فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ " جو مسلمان کسی اہل قبلہ کے ہاں مہمان بن کر جائے اور ساری رات گذر جائے لیکن وہ لوگ اس کی مہمانداری نہ کریں تو ہر مسلمان پر اس مہمان کی نصرت ضروری ہے تاکہ میزبان کے مال سے اس کی کھیتی سے بقدر مہمانی دلائیں۔ مسند کی اور حدیث میں ہے " ضیافت کی رات ہر مسلمان پر واجب ہے، اگر کوئی مسافر صبح تک محروم رہ جائے تو یہ اس میزبان کے ذمہ قرض ہے، خواہ ادا کرے خواہ باقی رکھے " ان احادیث کی وجہ سے امام احمد (رح) وغیرہ کا مذہب ہے کہ ضیافت واجب ہے، ابو داؤد شریف وغیرہ میں ہے " ایک شخص سرکار رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے میرا پڑوسی بہت ایذاء پہنچاتا ہے، آپ نے فرمایا ایک کام کرو، اپنا کل مال اسباب گھر سے نکال کر باہر رکھ دو ۔ اس نے ایسا ہی کیا راستے پر اسباب ڈال کر وہیں بیٹھ گیا، اب جو گذرتا وہ پوچھتا کیا بات ہے ؟ یہ کہتا میرا پڑوسی مجھے ستاتا ہے میں تنگ آگیا ہوں، راہ گزر اسے برا بھلا کہتا، کوئی کہتا رب کی مار اس پڑوسی پر۔ کوئی کہتا اللہ غارت کرے اس پڑوسی کو، جب پڑوسی کو اپنی اس طرح کی رسوائی کا حال معلوم ہوا تو اس کے پاس آیا، منتیں کر کے کہا " اپنے گھر چلو اللہ کی قسم اب مرتے دم تک تم کو کسی طرح نہ ستاؤں گا۔ " پھر ارشاد ہے کہ اے لوگو تم کسی نیکی کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو تم پر کسی نے ظلم کیا ہو اور تم اس سے درگزر کرو تو اللہ کے پاس تمہارے لئے بڑا ثواب، پورا اجر اور اعلیٰ درجے ہیں۔ خود وہ بھی معاف کرنے والا ہے اور بندوں کی بھی یہ عادت اسے پسند ہے، وہ انتقام کی قدرت کے باوجود معاف فرماتا رہتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ " عرش کو اٹھانے والے فرشتے اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ " بعض تو کہتے ہیں " دعا (سبحانک علی حلمک بعد علمک) یا اللہ تیری ذات پاک ہے کہ تو باوجود جاننے کے پھر بھی برد باری اور چشم پوشی کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں دعا (سبحانک علی عفوک بعد قدرتک اے قدرت کے باوجود درگذر کرنے والے اللہ تمام پاکیاں تیری ذات کے لئے مختص ہیں۔ صحیح حدیث شریف میں ہے صدقے اور خیرات سے کسی کا مال گھٹتا نہیں، عفو و درگذر کرنے اور معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ اور عزت بڑھاتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم سے تواضع، فروتنی اور عاجزی اختیار کرے اللہ اس کا مرتبہ اور توقیر مزید بڑھا دیتا ہے۔ "