اے لوگو! بیشک تمہارے پاس یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ تشریف لایا ہے، سو تم (ان پر) اپنی بہتری کے لئے ایمان لے آؤ اور اگر تم کفر (یعنی ان کی رسالت سے انکار) کرو گے تو (جان لو وہ تم سے بے نیاز ہے کیونکہ) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے یقیناً (وہ سب) اﷲ ہی کا ہے اور اﷲ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
O mankind, the Messenger has come to you with the truth from your Lord, so believe; it is better for you. But if you disbelieve – then indeed, to Allah belongs whatever is in the heavens and earth. And ever is Allah Knowing and Wise.
1 Abul A'ala Maududi
لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے، ایمان لے آؤ، تمہارے ہی لیے بہتر ہے، اور اگر انکار کرتے ہو تو جان لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی
2 Ahmed Raza Khan
اے لوگو! تمہارے پاس یہ رسول حق کے ساتھ تمہارے رب کی طرف سے تشریف لائے تو ایمان لاؤ اپنے بھلے کو اور اگر تم کفر کرو تو بیشک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ٹھیک بات لے کر رسول آ چکا سو مان لو تاکہ تمہارا بھلا ہو اور اگر انکار کرو گے تو الله ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور الله سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر رسول آگیا ہے، پس تم ایمان لاؤ تاکہ تمہارے لئے بہتری ہو اور اگر تم کافر ہوگئے تو اللہ ہی کی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے (١) اور اللہ دانا اور حکمت والا ہے۔
١٧٠۔١ یعنی تمہارے کفر سے اللہ کا کیا بگڑے گا جیسے حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا ( اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ) 14۔ ابراہیم;8) (ابراہیم۔٨) اگر تم اور روئے زمین پر بسنے والے سب کے سب کفر کا راستہ اختیار کرلیں تو وہ اللہ کا کیا بگاڑیں گے؟ یقیناً اللہ تعالٰی تو بےپروا تعریف کیا گیا ہے، اور حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے ' اے میرے بندو! اگر تمہارے اوّل وآخر تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں جو تم میں سب میں متقی ہے تو اس سے میری بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اور اگر تمہارے اول و اخر انس و جن اس کے ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں جو تم میں سب میں بڑا نافرمان ہے تو اس سے میری اس سے میری بادشاہی میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تم سب ایک میدان میں جمع ہو جاؤ اور مجھ سے سوال کرو اور میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کروں تو اس سے میرے خزانے میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے (صحیح مسلم کتاب البر، باب تحریم، الظلم)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
لوگو! خدا کے پیغمبر تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے حق بات لے کر آئے ہیں تو (ان پر) ایمان لاؤ (یہی) تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر کفر کرو گے تو (جان رکھو کہ) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب خداہی کا ہے اور خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف حق لے کر رسول آگیا ہے، پس تم ایمان ﻻؤ تاکہ تمہارے لئے بہتری ہو اور اگر تم کافر ہوگئے تو اللہ ہی کی ہے ہر وه چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور اللہ دانا ہے حکمت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے لوگو! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے رسول حق لے کر آگیا ہے۔ پس ان پر ایمان لاؤ۔ یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے۔ اور اگر انکار کروگے تو (اللہ کا کیا نقصان کروگے) جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ وہ اللہ ہی کا ہے۔ اور اللہ بڑا علم والا، بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے انسانو!تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے حق لے کر رسول آگیا ہے لہذا اس پر ایمان لے آؤ اسی میں تمہاری بھلائی ہے اور اگر تم نے کفر اختیار کیا تو یاد رکھو کہ زمین و آسمان کی کل کائنات خدا کے لئے ہے اور وہی علم والا بھی ہے اور حکمت والا بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
لوگو ! خدا کے پیغمبر تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے حق بات لے کر آئے ہیں تو (ان پر) ایمان لاؤ۔ (یہی) تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر کفر کرو گے تو (جان رکھو کہ) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ اور خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔ یاٰیّھا الناس قَدْ جَاء کم الرسول بالحق (الآیة) اس آیت میں تمام جہاں کے انسانوں کو خطاب فرماتے ہیں کہ تمہاری نجات اسی میں ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان لاؤ۔ یا اھل الکتاب لا تغلو فی دینکم، یہاں اہل کتاب سے مراد عیسائی ہیں اور غلو کے معنی ہیں کسی کی تائید یا عداوت میں حد سے گذر جانا، یہود کا جرم یہ تھا کہ وہ عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی مخالفت میں حد سے تجاوز کر گئے تھے اور عیسائیوں کا جرم یہ ہے کہ وہ مسیح کی عقیدت و محبت میں حد سے گذر گئے۔ وَکلمتہ \& القٰھا الی مریم وروح منہ، اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، مفسرین نے کلمہ کے مختلف معانی بیان کئے ہیں۔ (١) امام غزالی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کسی بچے کی پیدائش میں دو عامل کار فرما ہوتے ہیں، ایک عامل نطفہ ہوتا ہے اور دوسرا اللہ کا کلمہ کُن، مذکورہ دونوں عاملوں کے ذریعہ عام طور پر بچہ وجود میں آتا ہے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے حق میں چونکہ پہلا عامل منتقی ہے اسلئے دوسرے عامل کی نسبت کرکے آپ کو کلمہ کہا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مادی اسباب کے واسطہ کے بغیر کلمہ کن سے پیدا ہوئے اور القاھا الی مریم، کا مطلب ہے کہ اللہ نے یہ کلمہ مریم علیہ الصلوٰة والسلام تک پہنچا دیا، جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام پیدا ہوئے۔ (٢) بعض نے کلمہ سے مراد بشارت لی ہے اور بشارت سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام ہیں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی جو بشارت حضرت مریم کو دی تھی اس میں کلمہ کا استعمال کیا گیا ہے \&\& اِذْ قَالَت، الملائکة یٰمَرْیَمُ اِن اللہ یُبَشِّرُک بکلمةٍ \&\& (اے مریم) اللہ تجھ کو ایک کلمہ (عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام) کی خوشخبری دیتا ہے۔ وروح منہ، اس لفظ میں دو باتیں قابل غور ہیں ایک یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کو روح کہنے کے معنی ہیں ؟ اور دوسرے یہ کہ روح کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے اس نسبت کا کیا مطلب ہے ؟ بعض حضرات نے کہا ہے کہ مقصد حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی پاکیزگی کو بیان کرنا ہے مبالغہ کے طور پر اس پر روح کا اطلاق کردیا گیا ہے چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی پیدائش میں نطفہ پدر کو دخل نہیں تھا بلکہ وہ صرف کلمہ کن کے نتیجہ میں پیدا ہوئے تھے اس لئے اپنی نظافت و طہارت میں درجہ کمال پر فائز تھے اسی وجہ سے عرف اور محاورہ کے اعتبار سے ان کو روح کہہ گیا، اور اللہ کی طرف اس کی نسبت تشریفاً کردی جس طرح مساجد کی تعظیم کیلئے ان کو بیت اللہ، کعبة اللہ، مساجد اللہ کہا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے بارے میں عیسائیوں کا غلو : جس طرح سنگ دل یہود حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام، کو پیغمبر ماننا تو کجا ایک اچھے کردار کا انسان بھی ماننے کے لئے تیار نہ تھے، نہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام، پر بلکہ ان کی والدہ ماجدہ پر معاذ اللہ حرف گیری کرتے تھے۔ ادھر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے ماننے والوں نے یہ ستم کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی انسانی حیثیت باکل ختم کردی اور ان کو معاذاللہ خدا یا خدا کا بیٹا یا کم از کم خدا کا حصہ سمجھنے لگے، ظاہر ہے کہ یہ عقیدے نہ عقل میں آسکتے ہیں اور نہ یکجا جمع ہوسکتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کے بندے اور رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ اس نے اس سبب کا بھی ذکر فرمایا ہے جو ایمان کا موجب ہے اور ایمان کے اندر جو فوائد اور عدم ایمان کے اندر جو نقصانات ہیں ان سب کا ذکر کیا ہے۔ پس ایمان کا موجب، سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دینا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ آپ کی تشریف آوری فی نفسہ حق اور جو شریعت آپ لائے ہیں وہ بھی حق ہے۔ عقلمند شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ مخلوق کا اپنی جہالت میں سرگرداں رہنا اور اپنے کفر میں ادھر ادھر مارے مارے پھرنا جبکہ رسالت منقطع ہوچکی ہو۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی رحمت کے لائق نہیں۔ پس یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اور بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے ان کی طرف رسول کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ ان کو گمراہی اور ضلالت میں سے رشد و ہدایت کی پہچان کروائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں مجرد غور و فکر ہی آپ کی نبوت کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ اسی طرح اس عظیم شریعت اور صراط مستقیم میں غور و فکر، جس کے ساتھ آپ تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے کیونکہ اس میں گزشتہ زمانوں اور آئندہ آنے والے زمانوں کے امور غیبیہ، نیز اللہ تعالیٰ اور روز آخرت کے بارے میں ایسی ایسی خبریں دی گئی ہیں کہ کوئی شخص وحی اور رسالت کے بغیر ان کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا اور اس میں ہر قسم کی خیر و صلاح، رشد و ہدایت، عدل و احسان، صدق، نیکی، صلہ رحمی اور حسن اخلاق کا حکم دیا گیا ہے اور ہر قسم کے شر، فساد، بغاوت، ظلم، بدخلقی، جھوٹ اور والدین کی نافرمانی سے روکا گیا ہے جن کے بارے میں قطعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بندے کی بصیرت میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے اس کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے۔ پس یہ ہے وہ سبب جو بندے کو ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ رہی ایمان میں فائدے کی بات تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ﴿خَيْرًا لَّكُمْ ۚ ﴾ ” تمہارے لئے بہتر ہے۔“ خیر، شر کی ضد ہے۔ پس ایمان اہل ایمان کے ابدان، ان کے دلوں، ان کی ارواح اور ان کی دنیا و آخرت میں ان کے لئے بہتر ہے۔ کیونکہ ایمان پر مصالح اور فوائد مترتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر قسم کا ثواب، خواہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو یا آخرت میں، ایمان ہی کا ثمرہ ہے اور فتح و نصرت، ہدایت، علم، عمل صالح، مسرتیں، فرحتیں، جنت اور جنت کی تمام نعمتیں، ان سب کا سبب ایمان ہے۔ جیسے دنیاوی اور آخروی بدبختی عدم ایمان یا نقص کے باعث ہے۔ رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عدم ایمان کا ضرر تو اسے ان فوائد کی ضد سے معلوم کیا جاسکتا ہے جو ایمان کے باعث حاصل ہوتے ہیں اور بندہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ تمام گناہ گاروں کا گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِنَّ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے۔“ یعنی زمین و آسمان میں ہر چیز اس کی مخلوق، اس کی ملکیت اور اس کی تدبیر اور تصرف کے تحت ہے﴿وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيمًا ﴾ ” اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔“ ﴿حَكِيمًا ﴾ ” حکمت والا ہے۔“ وہ اپنے خلق و امر میں حکمت کا مالک ہے۔ پس وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت اور کون گمراہی کا مستحق ہے۔ ہدایت اور گمراہی کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھنے میں وہ حکمت سے کام لیتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey logo ! yeh Rasool tumharay paas tumharay perwerdigar ki taraf say haq ley ker aagaye hain . abb ( inn per ) emaan ley aao , kay tumhari behtari issi mein hai . aur agar ( abb bhi ) tum ney kufr ki raah apnai to ( khoob samajh lo kay ) tamam aasmano aur zameen mein jo kuch hai Allah hi ka hai , aur Allah ilm aur hikmat dono ka malik hai .