النساء آية ۱۷۲
لَنْ يَّسْتَـنْكِفَ الْمَسِيْحُ اَنْ يَّكُوْنَ عَبْدًا لِّـلّٰـهِ وَلَا الْمَلٰۤٮِٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ ۗ وَمَنْ يَّسْتَـنْكِفْ عَنْ عِبَادَ تِهٖ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ اِلَيْهِ جَمِيْعًا
طاہر القادری:
مسیح (علیہ السلام) اس (بات) سے ہرگز عار نہیں رکھتا کہ وہ اﷲ کا بندہ ہو اور نہ ہی مقرّب فرشتوں کو (اس سے کوئی عار ہے)، اور جو کوئی اس کی بندگی سے عار محسوس کرے اور تکبر کرے تو وہ ایسے تمام لوگوں کو عنقریب اپنے پاس جمع فرمائے گا،
English Sahih:
Never would the Messiah disdain to be a servant of Allah, nor would the angels near [to Him]. And whoever disdains His worship and is arrogant – He will gather them to Himself all together.
1 Abul A'ala Maududi
مسیح نے کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو، اور نہ مقرب ترین فرشتے اِس کو اپنے لیے عار سمجھتے ہیں اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے تو ایک وقت آئے گا جب اللہ سب کو گھیر کر اپنے سامنے حاضر کرے گا
2 Ahmed Raza Khan
مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ نفرت نہیں کرتا اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے تو کوئی دم جاتا ہے کہ وہ ان سب کو اپنی طرف ہانکے گا
3 Ahmed Ali
مسیح خدا کا بندہ بننے سے ہرگز عار نہیں کرے گا اور نہ مقرب فرشتے اور جو کوئی اس کی بندگی سے انکار کرے گا اور تکبر کرے گا پھران سب کو اپنی طرف اکھٹاکرے گا
4 Ahsanul Bayan
مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی ننگ و عار نہیں یا تکبر و انکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا اور ان مقرب فرشتوں کو (١) اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے اللہ تعالٰی ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا۔
١٧٢۔١ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح بعض لوگوں نے فرشتوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا تھا، اللہ تعالٰی فرما رہا ہے کہ یہ تو سب کے سب اللہ کے بندے ہیں اور اس سے انہیں قطعاً کوئی انکار نہیں ہے۔ تم انہیں اللہ یا اس کی خدائی میں شریک کس بنیاد پر بناتے ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مسیح اس بات سے عار نہیں رکھتے کہ خدا کے بندے ہوں اور نہ مقرب فرشتے (عار رکھتے ہیں) اور جو شخص خدا کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو خدا سب کو اپنے پاس جمع کرلے گا
6 Muhammad Junagarhi
مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بنده ہونے میں کوئی ننگ و عار یا تکبر وانکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا اور نہ مقرب فرشتوں کو، اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے، اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
عیسیٰ مسیح اللہ کا بندہ ہونے میں اپنے لئے عار نہیں سمجھتے اور نہ ہی مقرب فرشتے اس میں اپنے لئے کوئی عار محسوس کرتے ہیں اور جو اس کی بندگی میں ننگ و عار محسوس کرے گا اور تکبر کرے گا۔ اللہ سب کو جلد اپنی طرف محشور فرمائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
نہ مسیح کو اس بات سے انکار ہے کہ وہ بندئہ خدا ہیں اور نہ ملائکہ مقربین کو اس کی بندگی سے کوئی انکار ہے اور جو بھی اس کی بندگی سے انکار و استکبار کرے گا تو اللہ سب کو اپنی بارگاہ میں محشور کرے گا
9 Tafsir Jalalayn
مسیح اس بات سے عار نہیں رکھتے کہ خدا کے بندہ ہوں اور نہ مقرب فرشتے عار رکھتے ہیں اور جو شخص خدا کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو خدا سب کو اپنے پاس جمع کرلے گا۔
آیت نمبر ١٧٢ تا ١٧٦
ترجمہ : حضرت مسیح علیہ الصلوٰة والسلام سے تم جن کی الوہیت کا عقدہ رکھتے ہو اللہ کا بندہ ہونے سے عار و انکار ہرگز ممکن نہیں اور نہ اللہ کے مقرب فرشتوں کو بندہ ہونے سے عار و انکار ہوسکتا ہے، اور یہ بہترین (طریقہ) استطر اد ہے (یعنی طریقہ تردید ہے) یہ ان لوگوں پر رد کرنے کیلئے ذکر کیا گیا ہے جو فرشتوں کی الوہیت یا اللہ کی بیٹیاں ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، جیسا کہ ماقبل (کے جملہ سے) مذکورہ عقیدہ رکھنے والے (نصاری) پر رد کیا ہے، (یہاں) مقصودِ خطاب نصاری ہی ہیں، اور جو بھی اس کی عبادت سے ننگ وعار (سرتابی و انکار) کرے گا تو اللہ آخرت میں ان سب کو گھیر کر اپنے حضور حاضر کرے گا، سو جن لوگوں نے ایمان لاکر نیک اعمال کئے ہوں گے تو ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا ثواب عطا کرے گا اور ان کو اپنے فضل سے (ان کے استحقاق سے) زیادہ اجر عطا کرے گا (ایسا اجر) کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا اور نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال آیا ہوگا، اور جن لوگوں نے اس کی بندگی سے سرتابی کی اور اس کو عار سمجھا تو ان کو اللہ دردناک سزا دے گا اور وہ دوزخ کی سزا ہے اور وہ لوگ اللہ کے سوا کسی کو حمایتی نہ پائیں گے کہ ان کا دفاع کرسکے اور نہ مددگار کہ (اللہ کے) مقابلہ میں ان کی مدد کرسکے، لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حجت آچکی ہے اور وہ نبی (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ہم نے تمہاری طرف ایک واضح روشنی نازل کی ہے اور وہ قرآن ہے، سو جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس کو مضبوطی سے تھام لیا تو وہ اس کو اپنی خصوصی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا، اور وہ ان کی راہ راست کی طرف رہنمائی کرے گا کہ وہ دین اسلام ہے، (لوگ) کلالہ کے بارے میں آپ سے فتویٰ معلوم کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ خود تم کو کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے، اگر کوئی شخص لاولد فوت ہوجائے، نہ اس کا والد ہو اور نہ ولدایسا شخص ہی کلالہ ہے، اِمْرا اس فعل محذوف کی وجہ سے مرفوع ہے جس کی تفسیر (فعل) ھَلَکَ کررہا ہے اور اس کی ایک بہن ہو حقیقی یا علاّتی، تو اس کو تر کہ کا نصف ملے گا، اور اگر بہن لاولد مرجائے اور بھائی حقیقی ہو یا علاتی، بہن کے تمام متروکہ مال کا وارث ہوگا اگر بہن لاولد ہو، اور اگر بہن کے لڑکا ہو تو بھائی کو کچھ نہ ملے گا اور اگر لڑکی ہو تو بھائی لڑکی کے حصہ سے بچے ہوئے کا مستحق ہوگا، اور بھائی بہن اخیافی (ماں شریک) ہوں تو ان کا حصہ چھٹا ہے جیسا کہ ابتداء سورت میں گذر چکا ہے اور اگر (میت) کے دو یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں تو ان کو بھائی کے ترکہ میں سے دو ثلث ملے گا اس دلیل سے کہ یہ آیت جابر (رض) کے بارے میں نازل ہوئی جو چند بہنیں چھوڑ کر انتقال کرگئے تھے، اور اگر ورثاء کئی بھائی بہن ہوں تو بھائی کو بہن کا دو گنا ملے گا، اللہ تمہارے لئے تمہارے دین کے احکام بیان کرتا ہے، تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ان ہی میں سے میراث ہے، شیخین نے براء بن عازب (رض) سے روایت کیا ہے کہ فرائض کے بارے میں نازل ہونے والی یہ آخری آیت ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَیَسْتَنْکِفَ ، مضارع واحد مذکر غائب مصدر استنکاف، وہ عار سمجھا ہے اور وہ تکبر و سرتابی کرتا ہے، اس کا مادہ نکف ہے، (س ن) نِکْفًا، ونکَفًا، بےجا تکبر کرنا۔
قولہ : اَلْمَلاَ ئِکَةُ المُقَرَّبُوْنَ ، اس کا عطف المسیح پر ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الملائکة المقربون، بترکیب توصیفی مبتداء ہو اور لایستنکفون اس کی خبر محذوف ہے۔
قولہ : ھٰذَا مِنْ اَحْسَنِ الاِسْتِطْرَادِ ، یعنی ولا الملائکة المقربون میں استطر ادا حسن ہے۔
استطراد مطلق کی تعریف : ذکر الشیٰ فی غیر محلہ لمنا سبةٍ ، کسی شئی کو غیر محل میں کسی مناسبت کی وجہ سے ذکر کرنا استطراد ہے۔
استطراد کی دوسری تعریف : مقصود کلام کو اس طرح ذکر کرنا کہ غیر مقصود کو مستلزم ہوجائے۔
استطراد احسن : ایک معنی سے دوسرے معنی کیطرف اسطرح انتقال کرنا کہ اول معنی کو ثانی معنی کے لئے ذریعہ نہ بنایا جائے۔
استطراد حسن : ثانی معنی کے لئے جو کہ مقصود ہوں اول معنی کو ذریعہ بنایا جائے، مفسرّ علاّم نے ھذا من احسن الا ستطراد کہہ کر اشارہ کردیا کہ مذکورہ آیت میں استطراد احسن ہے۔
قولہ : الیہ ای الی اللہ او القرآن .
قولہ : الزَّ اعِمِیْنَ ذٰلِکَ ، یہ النصاری کی صفت ہے اور ذلک کا اشارہ نصاری کے عقیدہ الوہیت وابنیت، اور تثلیت میں سے ہر ایک کی طرف ہے۔
قولہ : صِرَاطًا مُسْتَقِیْمًا، یہ یھد یھم، کا مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
تفسیر وتشریح
شان نزول : نصاری نجران کے ایک وفد نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرکے شکایت کی کہ آپ ہمارے صاحب کی برائی کیوں بیان کرتے ہیں ؟ کہا آپ نے فرمایا تمہارے صاحب کون ہیں ؟ کہا عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام، آپ نے فرمایا میں ان کے بارے میں کیا کہتا ہوں ؟ آپ ان کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہتے ہیں، تو آپ نے فرمایا اللہ کا بندہ ہونا حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کیلئے کوئی عار کی بات نہیں ہے، تو مذکورہ آیت نازل ہوئی (خازن۔ روح المعانی) یعنی مسیح کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی ننگ و عار نہیں، اور نہ ہی اللہ کے مقرب فرشتوں کو عار ہے اللہ کا بندہ ہونا تو انتہائی شرافت کی بات ہے، ذلت و غیرت تو اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت و بندگی کرنے میں ہے، جیسے نصاری نے حضرت مسیح کو ابن اللہ اور معبود بنالیا اور مشرکین نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیکر ان کی بندگی شروع کردی۔
انبیاء افضل ہیں یا ملائکہ ؟ بعض مفسرین نے اس آیت کے تحت انبیاء و ملائکہ کے درمیان تفاضل کی بحث چھیڑدی ہے اور ایک فریق افضلیت ملائکہ کا قائل ہوگیا ہے، اور دوسرے فریق نے افضلیت انبیاء کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔
بحیثیت مجموعی معتزلہ اور بعض اشاعرہ فریق اول کے ساتھ ہیں، اور جمہور اشاعرہ فریق دوم کے ساتھ لیکن انصاف کی عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ آیت زیر بحث کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، اور نہ اس مسئلہ میں بحث و مناظرہ سے کچھ حاصل، اسلئے کہ اس مسئلہ میں قرآن و حدیث دونوں خاموش ہیں۔
فائدہ : اسَتَدلَّ بھذہ الآیة القائلون بتفضیل الملائکة علی الا نبی ائ، وھم ابوبکر الباقلانی والحلیمی من ائمة الاشعریہ وجمھور المعتزلہ، وقرر زمخشری وجہ الدلالة بما لا یسمن ولا جوع نغنی من جوع، و اَطَالَ البیضاوی وابن المنیر فی الزد علیہ والمصنف یرٰی اِنّ التفاضل فی ھذا قبیل الر جم بالغیب .
افضلیت ملائکہ کے بارے میں معتزلہ کا عقیدہ : معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ انبیاء کرام سے افضل ہیں، صاحب کشاف نے مذکورہ آیت سے افضلیت ملائکہ پر استدلال کیا ہے۔
تمہید : معتزلہ کا دعویٰ ہے کہ آیت مذکورہ کا مقصد عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے مقام عبدیت کی نفی اور ابنیت کا اثبات ہے اور ابن چونکہ اَبْ کا جزء ہوتا ہے لہٰذا بنیت کا ثبوت جزئیت کا ثبوت ہے۔
طریق استدلال : لن یستنکف المسیح ان یکون عبدًا للہ ولا الملائکة المقربون، میں لن یستنکف المسیح معطوف علیہ اور ولا الملائکة معطوف ہے، ترقی من الاذنی الی الاعلی کے قاعدہ سے معطوف، معطوف علیہ سے اعلی و افضل ہوتا ہے، تاکہ معطوف معطوف علیہ کے لئے بمنزلہ دلیل کے ہو، مذکورہ آیت میں حضرت مسیح علیہ الصلوٰة والسلام کا عبدیت سے عدم استنکاف (عارمحسوس نہ کرنا) معطوف علیہ ہے اور ملائکہ کا عدم استنکاف معطوف ہے اور بقول معتزلہ معطوف معطوف علیہ سے افضل ہوتا ہے، مذکورہ قاعدہ کی روشنی میں معتزلہ کے نزدیک آیت کا مطلب ہوگا، مسیح علیہ الصلوٰة والسلام اللہ کی عبدیت سے ننگ و عار محسوس نہیں کرتے، اسلئے کہ فرشتے افضل ہونے کے باوجود عبدیت سے عار محسوس نہیں کرتے، گویا کہ فرشتوں کا عدم استنکاف مسیح علیہ الصلوٰة والسلام کے عدم استنکاف کی دلیل ہے اسی وجہ سے لا یَسْتنکفُ فلان عن خدمتی ولا اباہ بولا جاتا ہے، اس مثال میں ترقی من الا دنی الی الاعلی ہے، اسلئے کہ اب ابن سے اعلی ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بیان فضیلت کے موقع پر لا یستنکف فلان عن خدمتی ولا غلامہ \&، نہیں بولا جاتا، اسی طرح کہا جاتا ہے \&\& لن یستنکف من ھذا الامر الوزیرُ ولا السطان نہ کہ اس کا برعکس، لہٰذا آیت کے معنی قاعدہ مذکورہ کے مقتضیٰ کے مطابق ہوں گے، لا یستنکف المسیح ولا مَن فو قَہ .
معتزلہ کے استدلال ککا جواب : آیت مذکورہ کا مقصد اصلی نصاری کے عقیدہ ابنیت کو رد کرنا ہے لیکن ضمناً طردًا للباب افادہ تام کے لئے ادنی مناسبت سے ملائکہ کے بارے میں مشرکوں کے عقیدہ بنتگی کی بھی تردید کردی حالانکہ یہ مشرکین کے مذکورہ عقیدہ کی تردید کا محل نہیں ہے اسلئے کہ ماسبق سے روئے سخن کتاب خصوصاً نصاریٰ کی طرف ہے، مشرکین کے عقیدہ کی تردید کا موقع و محل تو سورة زخرف آیت ١٥ : وَجَعَلوالَہ \& مِن عبادہ جزئً اِنّ الانسانَ لکفور مبین، ہے معلوم ہوا کہ زیربحث آیت میں فرشتوں کے استنکاف کا ذکر تو طرداً للباب افادہ تام کے لئے ضمناً وتبعاً التزم مالا یلتزم کے طور پر آگیا ہے، ورنہ مقصود اصلی تو حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے استنکاف کو بیان کرنا ہے، گویا کہ مذکورہ عقیدہ رکھنے والوں سے کہا جارہا ہے کہ جو تم عقیدہ رکھتے ہو بات ایسی نہیں ہے اسلئے کہ جو بیٹا یا بیٹی (یعنی اولاد) ہوتا ہے وہ اَبْ کا عبد (غلام) ہونے میں ننگ و عار محسوس کرتا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی عار نہیں ہے اگر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام ابن اللہ ہوتے تو عبداللہ ہونے میں عار محسوس کرتے اور یہی صورت فرشتوں کی ہے، لہٰذا معلوم ہوگیا کہ بطور معطوف فرشتوں کا بعد میں ذکر کرنا فرشتوں کی افضلیت پر دلالت نہیں کرتا۔
اللہ کا بندہ ہونا اعلیٰ درجہ کی شرافت اور عزت ہے : لن یستنکف المسیح علیہ الصلوٰة والسلام، یعنی مسیح کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی عار نہیں اور نہ ہی اللہ کے مقرب فرشتوں کو عار ہے، اسلئے کہ اللہ کا بندہ ہونا اور اس کی بندگی کرنا تو اعلی درجہ کی شرافت ہے حضرت مسیح علیہ الصلوٰة والسلام اور ملائکہ مقربین سے اس نعمت کی قدر و قیمت پوچھئے، ان کو اس سے کیسے ننگ وعار ہوسکتی ہے، البتہ ذلت و غیرت تو غیر اللہ کی بندگی کرنے میں ہے، جیسے نصاری نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کو ابن اللہ اور معبود بنالیا اور مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مان کر ان کے بت بنا کر ان کی بندگی کرنے لگے تو ایسے لوگوں کیلئے دائمی عذاب وذلت ہے۔
اے لوگو تمہارے پاس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شکل میں ایک دلیل محکم آچکی ہے، اور ہم تمہاری طرف قرآن کی شکل میں ایک نور مبین نازل کرچکے ہیں، سبحان اللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب دلیل محکم کہہ کر اور قرآن کی جانب نور مبین کہ کر کیا روح پرور اشارہ فرمایا، اب جن کا سران دونوں کی تعلیمات پر جھکا ان کو بشارت دی جارہی ہے کہ آخرت میں بھی ان کو نہال کردیں گے اور دنیا میں بھی خدا پرست زندگی آسان کردیں گے۔
یَسْتَفْتُوْنَکَ قل اللہ یفتیکم فی الکلالة، اس آیت میں کلالہ کی میراث کا حکم بیان فرمایا گیا ہے، چونکہ کلالہ کے لئے اردو زبان میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے کہ جس سے پورا مفہوم سمجھ میں آسکے، اسلئے اولاً کلالہ کا مصداق سمجھنا ضروری ہے کہ کلالہ کونسی میت اور کونسا وارث ہے ؟
(١) کلالہ ایسی میت کو کہتے ہیں کہ جس کے ودثاء میں بیٹا پوتا اور باپ دادانہ ہوں، ان کے علاوہ کوئی اور وارث ہو، یہی قول حضرت علی بن ابی طالب اور عبداللہ بن مسعود (رض) کا ہے۔
(٢) جو شخص ایسی میت کا وارث قرار پائے وہ بھی کلالہ کہلاتا ہے، یہ سعید بن جبیر کا قول ہے۔
(٣) وارث اور میت کی نسبت کلالہ کہلاتی ہے۔
(٤) حضرت ابوبکر (رض) سے کلالہ کی وضاحت پوچھی گئی تو ارشاد فرمایا کہ میں اس لفظ کے بارے میں اپنی سمجھ کے مطابق ایک بات کہتا ہوں اگر درست ہو تو اللہ کا فضل سمجھئے اور اگر غلط ہو تو میری غلطی سمجھنا، غالبًا اس سے مقصود باپ اور بیٹے کے علاوہ دوسرے رشتہ دار ہیں حضرت عمر (رض) کا زمانہ آیا تو غالباً کسی سائل کے جواب میں فرمایا کہ اس بات سے خدا سے ندامت آتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے کوئی بات کہی ہو اور میں اس کی تردید کروں۔ (رواہ البیھقی)
(٥) حضرت براء (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلالہ کے بارے میں تفصیل چاہی تو آپ نے فرمایا کہ جو باپ بیٹے کے علاوہ ہو۔ (اخرجہ ابوالشیخ)
(٦) حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے اپنا وارث باپ اور بیٹا نہ چھوڑا ہو تو اس کا وارث (جو بھی ہو) کلالہ کہلائیگا۔ (اخرجہ ابو داؤد فی المراسیل)
اگر کوئی شخص وفات پاجائے اس طرح کہ اس کے کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی بہن موجود ہو تو بہن کیلئے مرنے والے کی میراث کا آدھا ہے اور اولاد سے بیٹا، بیٹی نیچے تک سب مراد ہیں اور بہن سے مراد سگی بہن ہے۔
اور حقیقی بھائی اپنی حقیقی بہن کا پوری میراث کا حق دار ہوگا بشرطیکہ بہن نے اولاد نہ چھوڑی ہو اور نہ باپ دادا موجود ہوں۔
ختم شد
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کے بارے میں نصاریٰ کے غلوکاذ کر فرمایا اور بیان فرمایا کہ جناب عیسیٰ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، تو اب یہاں یہ بھی واضح کردیا کہ حضرت عیسیٰ اپنے رب کی عبادت میں عار نہیں سمجھتے تھے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روگردانی نہیں کرتے تھے۔ ﴿وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ﴾” اور نہ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے“ اس کی عبادت سے منہ موڑتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اس چیز سے پاک رکھا ہے کہ وہ اس کی عبادت کو عار سمجھیں اور تکبر و استکبار سے پاک ہونا تو بدرجہ اولیٰ ان کی صفت ہے۔ کسی چیز کی نفی سے اس کی ضد کا اثبات ہوتا ہے۔۔۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے تو اپنے رب کی عبادت میں رغبت رکھتے ہیں، اس کی عبادت کو پسند کرتے ہیں اور اپنے اپنے حسب احوال اس کی عبادت میں سعی کرتے ہیں۔ ان کی یہ عبادت ان کے لئے بہت بڑے شرف اور فوز عظیم کی موجب ہے۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں اپنے آپ کو بندے سمجھنے میں عار محسوس نہیں کی بلکہ وہ ہر طرح سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کا محتاج سمجھتے ہیں۔
یہ نہ سمجھا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام یا کسی اور کو اس مرتبے سے بڑھانا، جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا ہے، ان کے لئے کوئی کمال ہے بلکہ یہ تو عین نقص اور مذمت و عذاب کا محل و مقام ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا﴾ ” اور جو شخص اللہ کا بندہ ہنے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب کو اپنے پاس جمع کرلے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی عبادت کو عار سمجھنے والوں، متکبروں اور اپنے مومن بندوں، سب کو عنقریب جمع کرے گا اور ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور اپنی جزا سے نوازے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
maseeh kabhi iss baat ko aar nahi samajh saktay kay woh Allah kay banday hon , aur naa muqarrab farishtay ( iss mein koi aar samajhtay hain ) . aur jo shaks apney perwerdigar ki bandagi mein aar samjhay , aur takabbur ka muzahira keray , to ( woh achi tarah samajh ley kay ) Allah unn sabb ko apney paas jama keray ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
اس کی گرفت سے فرار ناممکن ہے !
مطلب یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) اور اعلیٰ ترین فرشتے بھی اللہ کی بندگی سے انکار اور فرار نہیں کرسکتے، نہ یہ ان کی شان کے لائق ہے بلکہ جو جتنا مرتبے میں قریب ہوتا ہے، وہ اسی قدر اللہ کی عبادت میں زیادہ پابند ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ فرشتے انسانوں سے افضل ہیں۔ لیکن دراصل اس کا کوئی ثبوت اس آیت میں نہیں، اس لئے یہاں ملائکہ کا عطف مسیح پر ہے اور استنکاف کا معنی رکنے کے ہیں اور فرشتوں میں یہ قدرت بہ نسبت مسیح کے زیادہ ہے۔ اس لئے یہ فرمایا گیا ہے اور رک جانے پر زیادہ قادر ہونے سے فضیلت ثابت نہیں ہوتی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح حضرت مسیح (علیہ السلام) کو لوگ پوجتے تھے، اسی طرح فرشتوں کی بھی عبادت کرتے تھے۔ تو اس آیت میں مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کی عبادت سے رکنے والا بتا کر فرشتوں کی بھی یہی حالت بیان کردی، جس سے ثابت ہوگیا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ خود اللہ کو پوجتے ہیں، پھر ان کی پوجا کیسی ؟ جیسے اور آیت میں ہے آیت (وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء :26) اور اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ جو اس کی عبادت سے رکے، منہ موڑے اور بغاوت کرے، وہ ایک وقت اسی کے پاس لوٹنے والا ہے اور اپنے بارے میں اس کا فیصلہ سننے والا ہے اور جو ایمان لائیں، نیک اعمال کریں، انہیں ان کا پورا ثواب بھی دیا جائے گا، پھر رحمت ایزدی اپنی طرف سے بھی انعام عطا فرمائے گی۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ اجر تو یہ ہے کہ جنت میں پہنچا دیا اور زیادہ فضل یہ ہے کہ جو لوگ قابل دوزخ ہوں، انہیں بھی ان کی شفاعت نصیب ہوگی، جن سے انہوں نے بھلائی اور اچھائی کی تھی، لیکن اس کی سند ثابت شدہ نہیں، ہاں اگر ابن مسعود کے قول پر ہی اسے روایت کیا جائے تو ٹھیک ہے۔ پھر فرمایا جو لوگ اللہ کی عبادت و اطاعت سے رک جائیں اور اس سے تکبر کریں، انہیں پروردگار درد ناک عذاب کرے گا اور یہ اللہ کے سوا کسی کو دلی و مددگار نہ پائیں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ ) 40 ۔ غافر :60) جو لوگ میری عبادت سے تکبر کریں، وہ ذلیل و حقیر ہو کر جہنم میں جائیں گے، یعنی ان کے انکار اور ان کے تکبر کا یہ بدلہ انہیں ملے گا کہ ذلیل و حقیر خوار و بےبس ہو کر جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔