Skip to main content

وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۤؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۤءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا ۗ وَسَاۤءَ سَبِيْلًا

And (do) not
وَلَا
اور نہ
marry
تَنكِحُوا۟
تم نکاح کرو
whom
مَا
جس سے
married
نَكَحَ
نکاح کرچکے
your fathers
ءَابَآؤُكُم
تمہارے باپ (دادا وغیرہ)
of
مِّنَ
سے
the women
ٱلنِّسَآءِ
عورتوں میں
except
إِلَّا
مگر
what
مَا
جو
has
قَدْ
تحقیق
passed before
سَلَفَۚ
گزر چکا
indeed it
إِنَّهُۥ
بیشک
was
كَانَ
وہ ہے
an immorality
فَٰحِشَةً
بےحیائی کا کام
and hateful
وَمَقْتًا
اور دشمنی کا سبب
and (an) evil
وَسَآءَ
اور بہت برا ہے
way
سَبِيلًا
راستہ

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرنا مگر (جاہلیت میں جو ہوچکا سو ہوچکا) یہ نہایت بےحیائی اور (خدا کی) ناخو شی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا۔
آیت نمبر ٢٢
ترجمہ : اور تم پر تمہاری ماؤں سے نکاح کرنا حرام کردیا گیا ہے اور اس حکم میں دادیاں اور نانیاں بھی شامل ہیں، اور تمہاری بیٹیاں اور اس میں پوتیاں بھی داخل ہیں اگرچہ نیچے تک ہوں، اور علاتی اور اخیافی بہنیں (اور حقیقی بہنیں) تمہارے لئے حرام کردی گئی ہیں، اور تمہاری پھوپھیاں یعنی تمہارے باپ دادوں کی بہنیں اور تمہاری خالائیں یعنی تمہاری ماؤں اور دادیوں کی بہنیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور اس میں ان کی لڑکیاں بھی شامل ہیں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دو سال مکمل ہونے سے پہلے پانچ گھونٹ دودھ پلایا ہو جیسا کہ حدیث نے اس کو بیان کیا ہے، اور تمہاری رضاعی بہنیں، اور ان کے ساتھ ازروئے حدیث رضاعی بیٹیاں بھی لاحق کردی گئی ہیں اور وہ ایسی لڑکیاں ہیں جن کو ان کی موطوئہ نے دودھ پلایا ہو، اور (رضاعی) پھوپیاں اور خالائیں، اور (رضاعی) بھتیجیاں اور (رضاعی) بھانجیاں (اس قاعدہ کی رو سے) کہ جو نسب سے حرام ہوجاتی ہے وہ رضاعت سے بھی حرام ہوجاتی ہے، (رواہ البخاری و مسلم) اور تمہاری خوش دامنیں، اور تمہاری ربیبائیں، رَبَائب رَبیْبَۃ کی جمع ہے اور وہ اس کی بیوی کی لڑکی ہے دوسرے شوہر سے، کہ جو تمہاری پرورش میں ہوں یعنی جن کی تم پرورش کرتے ہو، (أیْ حجورکم) صفت غالب کے اعتبار سے ہے، لہٰذا اس کے مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں ہے، (یعنی اس قید کا کوئی اعتبار نہیں ہے) (اور) ان بیویوں سے ہوں کہ جن سے تم ہم بستر رہ چکے ہو یعنی ان سے جماع کرچکے ہو لہٰذا اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو ان کی بیٹیوں سے نکاح کرنے میں تمہارے لئے کوئی گناہ نہیں ہے، جبکہ تم بیویوں کو الگ کردو، اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں بخلاف ان بیٹوں کی بیویوں کے کہ جن کو تم نے متبنّٰی بنا لیا ہے تمہارے لئے ان کی بیویوں سے نکاح جائز ہے۔ اور یہ کہ تم دو نسبی یا رضاعی بہنوں کو نکاح میں جمع کرو (حرام ہے) اور ازروئے حدیث بیویوں اور ان کی پھوپھیوں اور ان کی خالاؤں کو بیک وقت جمع کرنا حرام کردیا گیا ہے۔ ہاں، ہر ایک سے الگ الگ نکاح درست ہے۔ اور ان کا مالک ہونا بھی درست ہے مگر وطی ان میں سے ایک ہی سے کرے۔ البتہ جو ہوچکا سو ہوچکا زمانہ جاہلیت میں مذکورہ میں سے بعض کے ساتھ نکاح سے، لہٰذا تمہارے لئے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ اس کو معاف کرنے والا ہے جو ممانعت سے پہلے تم سے ہوچکا اس معاملہ میں تم پر رحم کرنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اَنْ تَنْکِحُوْھُنّ اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : حُرِّمَتْ عَلیکم اُمَّھٰتکم، میں حرمت کی نسبت امھات کی ذات کی طرف کی گئی ہے حالانکہ ذوات کی حرمت کوئی معنی نہیں ہیں اسلئے کہ حرمت و حلت افعال کی صفت ہیں۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ امھات کی حرمت سے ان سے نکاح کی حرمت مراد ہے چونکہ نکاح متبادر الی لفہم ہے اسلئے حذف کردیا گیا ہے، اسلئے کہ جو وصف اہم مقصود ہوا کرتا ہے وہ متبادر الی الفہم ہوا کرتا ہے، جیسا کہ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَۃُ ظاہر ہے کہ مراد اس کا کھانا ہے نہ کہ نفس میتہ اور مثلاً حُرِّمِتْ عَلَیْکم الخمرُ ، مراد شرب خمر کی حرمت ہے نہ کہ ذات حرمت۔
قولہ : مَوْطوئتہٗ ای موطوءۃ الرجل۔ قولہ : حلَائل۔ بیویاں حَلِیْلَۃ، کی جمع ہے اور یہ حَلّ سے مشتق ہے جس کے معنی گرہ کھولنے، اترنے اور حلال ہونے کے ہیں چونکہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا ازار کھولتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اترتے ہیں اور ایک دوسرے کیلئے حلال ہیں اسلئے حلیل اور حلیلۃ کہلاتے ہیں۔
اللغۃ والبلاغۃ
الرَّبائب : جمع ربیبۃ، وھی بنت الزوجۃ من غیرہ۔ الحجور : جمع حَجْرٍ بفتح الحاء وکسرھا، گود، تربیت، پرورش، فی حجورکم، تمہاری پرورش میں۔ الکنایۃ فی قولہ ” دَخَلْتُمْ بِھِنَّ “ فھِیَ کنایۃ عن الجماع اَوِالْخَلوۃِ ۔
الُامّھات، جمع اُمّ فالھاءُ زائدۃٌ فی الجمع فرقاً بین العقلاء وغیرھم یقال فی العقلاء امھات وفی غیرھم اُمَات، اُخت وبنت، اَصْلھما اَخْوٌ وبَنْوٌ، حذفت واؤھما وعوض عنھا التاء۔
تفسیر و تشریح
وَلَاتَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اَبَآءُکُمْ ، زمانہ جاہلیت میں اس میں کوئی باک نہیں تھا کہ باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کرلیتے تھے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بےشرمی اور بےحیائی کے کام سے منع فرمایا ہے اور اس کو اپنی ناراضگی کا سبب بتایا ہے ظاہر ہے کہ یہ کیسی اخلاق کی موت اور کردار کا دیوالیہ پن ہے کہ جس کو ایک عرصہ تک ماں کہتے رہے اسکو باپ کی موت کے بعد ہی بیوی بنا لیا
مسئلہ : آیت شریفہ میں باپ کی منکوحہ سے نکاح حرام قرار دیا گیا ہے، اس میں اس بات کی قید نہیں لگائی کہ باپ نے اس سے وطی بھی کی ہو، لہٰذا کسی عورت سے اگر باپ کا عقد بھی ہوجائے تو اس عورت سے بیٹے کیلئے نکاح کبھی حلال نہیں، اسی طرح بیٹے کی بیوی سے باپ کا کبھی نکاح کرنا درست نہیں، اگرچہ بیٹے کا صرف نکاح ہی ہوا ہو۔ قال الشامی، وتحرم زوجۃ الاصل والفرع بمجرد العَقْدِ دَخَلَ بِھَا اَوْلاَ ۔ مسئلہ : اگر باپ نے کسی عورت سے زنا کرلیا تو بھی بیٹے کو اس عورت سے نکاح کرنا حلال نہیں ہے۔

English Sahih:

And do not marry those [women] whom your fathers married, except what has already occurred. Indeed, it was an immorality and hateful [to Allah] and was evil as a way.

1 Abul A'ala Maududi

اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا در حقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے، ناپسندیدہ ہے اور برا چلن ہے