النساء آية ۳۱
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبٰۤٮِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْـكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا
طاہر القادری:
اگر تم کبیرہ گناہوں سے جن سے تمہیں روکا گیا ہے بچتے رہو تو ہم تم سے تمہاری چھوٹی برائیاں مٹا دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ میں داخل فرما دیں گے،
English Sahih:
If you avoid the major sins which you are forbidden, We will remove from you your lesser sins and admit you to a noble entrance [into Paradise].
1 Abul A'ala Maududi
اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جا رہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے
2 Ahmed Raza Khan
اگر بچتے رہو کبیرہ گناہوں سے جن کی تمہیں ممانعت ہے تو تمہارے اور گناہ ہم بخش دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے،
3 Ahmed Ali
اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچو گے جن سے تمہیں منع کیا گیا تو ہم تم سے تمہارے چھوٹے گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کریں گے
4 Ahsanul Bayan
اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے (١) تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔
٣١۔١ کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ گناہ ہیں جن پر حد مقرر ہے، بعض کے نزدیک وہ گناہ جس پر قرآن میں یا حدیث میں سخت وعید یا لعنت آئی ہے، بعض کہتے ہیں ہر وہ کام جس سے اللہ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تحریم کے روکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کسی گناہ میں پائی جائے تو کبیرہ ہے۔ یہاں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان کبیرہ گناہوں مثلاً شرک، حقوق والدین، جھوٹ وغیرہ سے اجتناب کرے گا، تو ہم اس کے صغیرہ گناہ معاف کر دیں گے۔ سورہ نجم میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے البتہ وہاں کبائر کے ساتھ فواحش (بے حیائی کے کاموں) سے اجتناب کو بھی صغیرہ گناہوں کی معافی کے لئے ضروی قرار دیا گیا ہے علاوہ ازیں صغیرہ گناہوں پر اصرار ومداومت بھی صغیرہ گناہوں کو کبائر بنا دیتی ہے اسی طرح اجتناب کبائر کے ساتھ احکام و فرائض اسلام کی پابندی اور اعمال صالحہ کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شریعت کے مزاج کو سمجھ لیا تھا اس لئے انہوں نے صرف وعدہ مغفرت پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ مغفرت و رحمت الہی کے یقینی حصول کے لئے مزکورہ تمام ہی باتوں کا اہتمام کیا جب کہ ہمارا دامن عمل سے تو خالی ہے لیکن ہمارے قلب امیدوں اور آرزووں سے معمور ہیں
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے
6 Muhammad Junagarhi
اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہوگے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناه دور کر دیں گے اور عزت وبزرگی کی جگہ داخل کریں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اگر تم ان بڑے (گناہوں) سے بچتے رہو، جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے۔ تو ہم تمہاری (چھوٹی) برائیاں دور کر دیں گے (معاف کر دیں گے) اور تمہیں ایک معزز (جنت) میں داخل کریں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا گیا ہے پرہیز کرلو گے تو ہم دوسرے گناہوں کی پردہ پوشی کردیں گے اور تمہیں باعزّت منزل تک پہنچادیں گے
9 Tafsir Jalalayn
اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے
اِنْ تَجْتَنِبُواکَبَائِرَمَاتُنْھَوْنَ عَنْہُ نکفِّرعَنْکُمْ سَیّئاتٰکم (الآیة) کبیرہ گناہ کی تعریف میں علماء کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک وہ گناہ کبیرہ ہے جس پر حدمقرر ہے، بعض کے نزدیک وہ ہے جس پر قرآن یا حدیث میں سخت وعید یا لعنت آئی ہے جس پر جہنم کی وعید آئی ہو۔
مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ گناہوں کی قسمیں ہیں کبیرہ اور صیغرہ۔ اگر کوئی شخص ہمت کرکے گناہ سے بچ جائے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کے صغیرہ گناہوں کو معاف فرمادیں گے، فرائض وواجبات کا ترک بھی کبائر میں داخل ہے۔
اعمال صالحہ صغائر کا کفارہ ہوجاتے ہیں : کفارہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ صالحہ کو صغیرہ گناہوں کا کفارہ بنا کر اس کا حساب بےباق کردیں گے، مگر گناہ کبیرہ صرف توبہ ہی سے معاف ہوتے ہیں۔
کبیرہ گناہوں کی تعداد : کبیرہ گناہوں کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے، امام ابن حجر مکی نے اپنی کتاب \&\& الزواجر \&\& میں ان تمام گناہوں کی فہرست اور ہر ایک کی مکمل تشریح بیان فرمائی ہے، جو مذکورة الصدر تعریف کی رو سے کبائر ہیں، ان کی اس کتاب میں کبائر کی تعداد چار سو سڑسٹھ تک پہنچی ہے ابن حجر کے علاوہ دیگر علماء نے بھی اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں، مثلاً \&\& الکبائر للذھبی \&\& الزواجرعن اقتراف الکبائر للھیثمی وغیرہ۔
ابن عباس (رض) کے سامنے کسی نے کبیرہ گناہوں کی تعداد سات بتلائی تو آپ نے فرمایا سات نہیں سات سو کہا جائے تو مناسب ہے، مذکورہ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جس نے گناہ کے بڑے ابواب شمار کرنے پر اکتفاء کیا ہے تو تعداد کم لکھی ہے اور جس نے ان کی تفصیلات و انواع و اقسام کو پورا لکھا ہے اس کے نزدیک تعداد زیادہ ہوگئی، اسلئے اس میں کوئی تعارض نہیں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مختلف مقامات پر کبائر کو بیان فرمایا ہے، حالات کی مناسبت سے کہیں تین اور کہیں چھ اور کہیں سات اور کہیں اس سے بھی زیادہ بیان فرمائے، اس لئے علماء امت نے یہ سمجھا ہے کہ کسی تعداد میں انحصار مقصود نہیں ہے۔
گناہ کبیرہ کے بارے میں معتزلہ اور اہل سنت کا اختلاف : معتزلہ اور ان کے موافقین نے مذکورہ آیت کے مضمون سے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے یعنی کبیرہ گناہ ایک بھی نہ کرو گے تو پھر صغائر خواہ کتنے بھی ہوں ضرور معاف کردیئے جائیں گے، اور صغائر کے ساتھ کبیرہ ایک بھی شامل ہوگیا تو اب معافی ممکن نہیں سزا ضرور ملے گی، اور اہل سنت کہتے ہیں کہ مذکورہ دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کو معافی اور مواخذہ کا اختیار بدستور حاصل ہے، اول صورت میں معافی کا لازم ہونا اور دوسری صورت میں مواخذہ کو واجب سمجھنا معتزلہ کی کم فہمی ہے، گو اس آیت کے ظاہری الفاظ سے سرسری طور پر معتزلہ کا مذہب راجح معلوم ہوتا ہے، اس کا جواب کسی نے یہ دیا ہے کہ انتفاء شرط سے انتفاء مشروط کوئی ضروری امر ہرگز نہیں، اور کسی نے یہ جواب دیا ہے کہ آیت میں مذکورہ کبائر سے اکبرالکبائر یعنی شرک مراد ہے، اور کبائر کو لفظ جمع کے ساتھ لانا شرک کی مختلف انواع کے اعتبار سے ہے۔
معتزلہ کا اصل جواب : یہ تو ظاہر ہے کہ ارشاد خداوندی \&\& اِنْ تجتنبواکبائرمَاتنھونَ عنہ نکفرعنکم سیّاٰ تِکم \&\& جو یہاں مذکور ہے اور آیت والذین یجتنبُوْنَ کبائرالاثم والفواحشَ اِلّااللممجو سورة نجم میں مذکور ہے ان دونوں کا مدعا ایک ہے صرف لفظوں میں قدرے فرق ہے لہذا جو مطلب ایک آیت کا ہوگا وہی دوسری کا لیا جائے گا، سورة نجم کی آیت کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس کا ارشاد بخاری وغیرہ کتب حدیث میں صاف موجود ہے عن ابن عباس قال مَا رأیتُ شیئاً اشبہ باللمم مما قال ابوھریرة عن النبیصلی اللّٰہ علیہ وسلم اِنَ اللّٰہ کتب علی ابن آدم حَظَّہ \& من الزنااد رک ذلک لامحالة فزناالعین النظروزنااللسان المنطق والنفس تمنی وتشتھِیْ والفرج یصدق ذلک ویکذبُ بہ، اس حدیث سے مذکورہ دونوں آیتوں کی حقیقی مراد معلوم ہوگئی، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ لمم اور علی ھذا القیاس سیّاٰت دونوں کا مفہوم ایک ہے، حضرت ابن عباس نے جو نکتہ اور جو بات اس سے نکالی ہے وہ ایسی عجیب اور مدلل ہے کہ جس سے دونوں آیتوں کا مضمون محقق ہوگیا، اور اسی سے معتزلہ کا جواب بھی ہوگیا، جس کی وضاحت یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ سورة نجم کی آیت میں جو لمم، فرمایا اس کے معنی کی تعیین کے متعلق حدیث ابوھریرہ سے بہتر کوئی چیز نہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کے ذمہ جو زنا کا حصہ مقرر فرمایا ہے وہ اس کو ضرور مل کررہے گا سو فعل زنا میں آنکھ کا حصہ دیکھنا ہے اور زبان کا حصہ باتیں کرنا ہے یعنی ایسی باتیں کرنا کہ جو زناکے مقدمات اور اسباب ہیں، اور نفس کا حصہ یہ ہے کہ زنا کی تمنا اور خواہش کرے، لیکن فعل زنا کا تحقیق یا بطلان دراصل شرمگاہ پر موقوف ہے یعنی اگر شرمگاہ سے زنا کا صدور ہوگیا تو زبان اور دل سب کا زنا متحقق ہوجائیگا، اور اگر باوجود جملہ اسباب ومقدمات کے شرمگاہ سے فعل کا صدور نہ ہوا بلکہ زنا سے توبہ واجتناب نصیب ہوگیا تو اب تمام وسائل زنا کہ جو فی نفسہ مباح تھے فقط زنا کی تبعیت کے باعث گناہ قرار دیئے گئے تھے وہ سب کے سب لائق مغفرت ہوگئے ان کا زنا ہونا باطل ہوگیا، یعنی ان کا قلب ماہیت ہوکربجائے گناہ کے عبادت بن گئے اسلئے کہ فی نفسہ تو وہ اعمال نہ معصیت تھے اور نہ عبادت بلکہ مباح تھے اس لئے کہ وہ زنا کے لئے وسیلہ بنے تھے معصیت میں شمار ہوگئے تھے جب زنا کے لئے وسیلہ نہ رہے بلکہ زناہی بوجہ اجتناب معدوم ہوگیا تو اب ان وسائل کا زنا کے ذیل میں شمار ہونا اور ان کو معصیت قرار دینا انصاف کے صریح خلاف ہے، مثلاً ایک شخص چوری کے ارادہ سے مسجد میں گیا مگر مسجد میں پہنچ کر اس کو تنبہ ہوا اور چوری سے توبہ عبادت کا ذریعہ بن گئی، اس حدیث ابوھریرہ کو سن کر حضرت ابن عباس سمجھ گئے کہ لمم وہ باتیں ہیں کہ جو دراصل گناہ نہیں مگر گناہ کا سبب اور زریعہ بن کر گناہ ہوجاتی ہیں، تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ بڑے گناہ سے تو بچتے ہیں البتہ، لمم، کا صدور ہوجاتا ہے مگر بڑے اور اصلی گناہ کے صدور سے پہلے ہی وہ تائب ہوجاتے ہیں، تو ابن عباس (رض) نے جیسے حدیث ابوھریرہ سے سورة نجم کا مطلب سمجھ لیا ہم کو بھی چاہیے کہ وہی معنی ابن عباس کے ارشاد کے مطابق آیت سورة نساء کے بےتکلف سمجھ لیں، جس کے بعد الحمداللہ نہ ہم کو اس کی ضرورت ہوگی کہ اس آیت کی توضیح میں گناہ کبیرہ کی مختلف تفسیریں نقل کریں، اور نہ معتزلہ کے استدلال کے جواب کا فکر ہوگا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر وہ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کریں گے تو وہ ان کے تمام گناہ اور برائیاں بخش دے گا اور انہیں اچھا ٹھکانا عطا کرے گا جہاں خیر کثیر ہوگا اور وہ ہے جنت جو ایسی نعمتوں پر مشتمل ہے جو کسی آنکھ نے کبھی دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی بشر کے حاشیہ خیال میں ان کا گزر ہوا ہے۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب میں ان فرائض کا بجا لانا بھی شامل ہے جن کو ترک کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ نماز پنجگانہ، نماز جمعہ اور رمضان کے روزے رکھنا وغیرہ۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نماز پنجگانہ، اور جمعہ سے جمعہ اور رمضان سے رمضان کے مابین جو گناہ سر زد ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو مٹا دیتا ہے بشرطیکہ کبائر سے بچتے رہیں۔“ [صحيح مسلم، الصلوة، باب الصلوات الخمس.... الخ، حديث: 552]
گناہ کبیرہ کی بہترین تعریف یہ ہے : گناہ کبیرہ وہ گناہ ہے جو دنیا میں حد کا موجب ہو یا آخرت میں اس پر سخت وعید آئی ہو یا اس کے مرتکب کے ایمان کی نفی یا اس پر لعنت کی گئی ہو یا اس گناہ پر سخت غصے کا اظہار کیا گیا ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
agar tum unn baray baray gunahon say perhez kero jinn say tumhen roka gaya hai to tumhari choti buraiyon ka hum khud kaffara kerden gay , aur tum ko aik ba-izzat jagah dakhil keren gay .