النساء آية ۳۴
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَاۤءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّبِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۗ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۗ وَالّٰتِىْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِى الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا ۗاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا
طاہر القادری:
مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں، اور تمہیں جن عورتوں کی نافرمانی و سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) انہیں خواب گاہوں میں (خود سے) علیحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اصلاح پذیر نہ ہوں تو) انہیں (تادیباً ہلکا سا) مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان پر (ظلم کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ سب سے بلند سب سے بڑا ہے،
English Sahih:
Men are in charge of women by [right of] what Allah has given one over the other and what they spend [for maintenance] from their wealth. So righteous women are devoutly obedient, guarding in [the husband's] absence what Allah would have them guard. But those [wives] from whom you fear arrogance – [first] advise them; [then if they persist], forsake them in bed; and [finally], strike them [lightly]. But if they obey you [once more], seek no means against them. Indeed, Allah is ever Exalted and Grand.
1 Abul A'ala Maududi
مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر تم وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالا تر ہے
2 Ahmed Raza Khan
مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لئے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور انہیں مارو پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو ان پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو بیشک اللہ بلند بڑا ہے
3 Ahmed Ali
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس واسطے کہ الله نے ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے اور اس واسطے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں پھر جو عورتیں نیک ہیں وہ تابعدار ہیں مردوں کے پیٹھ پیچھے الله کی نگرانی میں (ان کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتو ں سےتمہیں سرکشی کا خطرہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور سونے میں جدا کر دو اور مارو پھر اگر تمہارا کہا مان جائیں تو ان پر الزام لگانے کے لیے بہانے مت تلاش کرو بے شک الله سب سے اوپر بڑا ہے
4 Ahsanul Bayan
مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالٰی نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں (١) پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں یہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو (٢) بیشک اللہ تعالٰی بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔
٣٤۔١ اس میں مرد کی حاکمیت و قوامیت کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں، ایک مردانہ قوت و دماغی صلاحیت ہے جس میں مرد عورت سے خلقی طور پر ممتاز ہے۔ دوسری وجہ کسبی ہے جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری اور مخصوص تعلیمات کی وجہ سے جنہیں اسلام نے عورت کی عفت و حیا اور اس کے تقدس کے تحفظ کے لئے ضروری قرار دیا، عورت کو معاشی جھمیلوں سے دور رکھا۔ عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بلکل واضح ہے جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے۔ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' وہ قوم ہرگز فلاح یاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کر دیئے۔
٣٤۔٢ نافرمانی کی صورت میں عورت کو سمجھانے کے لئے سب سے پہلے وعظ و نصیحت کا نمبر ہے دوسرے نمبر پر ان سے وقتی اور عارضی علیحدگی ہے جو سمجھدار عورت کے لئے بہت بڑی تنبہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے۔ لیکن یہ مار وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو جیسا کہ جاہل لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اللہ تعالٰی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلم کی اجازت کسی مرد کو نہیں دی۔ اگر وہ اصلاح کرلے تو پھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی مار پیٹ نہ کرو تنگ نہ کرو، یا طلاق نہ دو، گویا طلاق بلکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارہ کار باقی نہ رہے۔ لیکن مرد اس حق کو بھی بہت ناجائز طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات میں فوراً طلاق دے ڈالتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیں، عورت کی بھی اور بچے ہوں تو ان کی بھی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مرد عورتوں پر مسلط وحاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بےشک خدا سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے
6 Muhammad Junagarhi
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں، پس نیک فرمانبردار عورتین خاوند کی عدم موجودگی میں بہ حفاﻇت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وه تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
مرد عورتوں کے محافظ و منتظم (حاکم) ہیں (ایک) اس لئے کہ اللہ نے بعض (مردوں) کو بعض (عورتوں) پر فضیلت دی ہے اور (دوسرے) اس لئے کہ مرد (عورتوں پر) اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔ سو نیک عورتیں تو اطاعت گزار ہوتی ہیں اور جس طرح اللہ نے (شوہروں کے ذریعہ) ان کی حفاظت کی ہے۔ اسی طرح پیٹھ پیچھے (شوہروں کے مال اور اپنی ناموس کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں اور وہ عورتیں جن کی سرکشی کا تمہیں اندیشہ ہو انہیں (نرمی سے) سمجھاؤ (بعد ازاں) انہیں ان کی خواب گاہوں میں چھوڑ دو اور (آخرکار)۔ انہیں مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو پھر ان کے خلاف کوئی اور اقدام کرنے کے راستے تلاش نہ کرو۔ یقینا اللہ (اپنی کبریائی میں) سب سے بالا اور بڑا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خد انے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انہوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے- پس نیک عورتیں وہی ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور ان کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہیں جن کی خدا نے حفاظت چاہی ہے اور جن عورتوں کی نافرمانی کا خطرہ ہے انہیں موعظہ کرو- انہیں خواب گاہ میں الگ کردو اور مارو اور پھر اطاعت کرنے لگیں تو کوئی زیادتی کی راہ تلاش نہ کرو کہ خدا بہت بلند اور بزرگ ہے
9 Tafsir Jalalayn
مرد عورتوں پر حاکم ومسلط ہیں اس لیے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال و آبرو کی) خبر داری کرتی ہے اور جن عوتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی اور (بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو۔ اگر اس پھر بھی باز نہ آئیں تو پھر زد کو ب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈوں بیشک خدا سب سے اعلی (اور) جلیل القدرر ہے
آیت نمبر ٣٤ تا ٤٢
ترجمہ : مردعورتوں کے حاکم ہیں ان کی تادیب کرتے ہیں اور انکو (ناپسندیدہ باتوں سے) باز رکھتے ہیں، اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر اور عقل میں اور ولایت وغیرہ میں فضیلت دے کر اور اس سے مرد عورتوں پر اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس نیک فرمانبردار عورتیں اپنے شوہروں کی اطاعت گذار خاوند کی عدم موجودگی میں بحفاظت الہٰی اپنی ناموس وغیرہ کی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اس طریقہ پر کہ شوہروں کو ان کی حفاظت کی تاکید فرمائی۔ اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں خوف ہو اس طریقہ پر کہ اس کی علامات ظاہر ہوں، تو انہیں نصیحت کرو یعنی ان کو اللہ سے ڈراؤ، اور ان کو بستروں میں (تنہا) چھوڑ دو یعنی اگر وہ نافرمانی کا مظاہرہ کریں تو ان سے بستر الگ کرلو اگر وہ بستر الگ کرنے پر بھی باز نہ آئیں تو انہیں مار کی سزادو جو (شدید) تکلیف دہ نہ ہو، اور اگر وہ ان سے تمہارے مقصود میں تمہاری اطاعت کریں تو پھر تم انکو ظلمًا زدوکوب کرنے کے بہانے مت تلاش کرو بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی والا ہے لہٰذاتم اس کی سزا سے ڈرتے رہو، اگر تم عورتوں پر ظلم کرو گے اور تمہیں خاوند اور بیوی کے درمیان کشمکش (اَن بَن) کا اندیشہ ہو (شِقَاقَ بَیْنِھِمَا) کے درمیان اضافت بطور اتساع ہے (اصل میں) شَقاقاً بَینھما ہے۔ تو ایک منصف، مردوالوں میں سے اور ایک منصف، عورت والوں میں سے ان کی رضا مندی سے ان کے پاس بھیجو، اور شوہر اپنے منصف کو طلاق اور (طلاق پر) قبول عوض کا اختیار دیدے، اور بیوی اپنے منصف کو خلع کا اختیار دیدے پھر دونوں (حکم، اصلاح) کی کوشش کریں، اور ظالم کو ظلم سے باز آنے کا حکم کریں، یا اگر مناسب سمجھیں تو ان کے درمیان جدائی کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اور دونوں حَکَمْ صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ زوجین کے درمیان موافقت کرادیں گے، بایں طور کہ صلح یا فراق میں سے جو کہ طاعت ہے اس کی ان کو قدرت دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے یعنی مخفی چیزوں سے ظاہر چیزوں کے مانند باخبر ہے۔
اللہ وَحْدَہ \& کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو ( یعنی) ان کے ساتھ نیکی اور فروتنی سے پیش آؤ، اور قرابت داروں کے ساتھ اور مسکینوں اور پاس والے پڑوسیوں یعنی جو تم سے پڑوس میں یا نسب میں قریب ہیں کے ساتھ اور دور والے پڑوسی کے ساتھ یعنی جو تم سے پڑوس یا نسب میں دور ہوں اور ہم مجلس کے ساتھ یعنی جو ہم سفر یا ہم پیشہ ہو اور کہا گیا ہے کہ مراد بیوی ہے، اور مسافر کے ساتھ جو سفر جاری رکھنے سے عاجز ہوگیا ہو، اور ان کے ساتھ جو تمہاری ملکیت میں ہیں (غلام اور باندیاں) یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنیوالوں اور مال وغیرہ جو ان کو عطا کیا ہے اس کی وجہ سے دوسروں پر شیخی خوروں کو پسند نہیں کرتا اور جو لوگ واجبات میں بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں الَّذِیْنَ مبتداء ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جو ان کو اپنے فضل سے علم ومال وغیرہ عطا کیا ہے اس کو چھپالیتے ہیں اور وہ یہود ہیں، اور مبتداء کی خبر لَھُمْ وَعیدشدید، ہے اور کافروں کے لئے ہم نے اس وجہ سے اور اس کے علاوہ کی وجہ سے ذلت والا عذاب تیار کر رکھا ہے اور جو لوگ اپنا مال لوگوں کو دکھانے کیلئے خرچ کرتے ہیں اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے جیسا کہ منافقین اور اہل مکہ اور جس کا رفیق شیطان ہو تو وہ اس کے حکم کے مطابق عمل کرتا ہے جیسا کہ یہ لوگ ہیں۔ تو وہ بد ترین رفیق ہے۔ بھلا ان کا کیا نقصان تھا اگر یہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اللہ نے جو ان کو دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے یعنی اس میں کوئی نقصان نہیں تھا۔ بلکہ نقصان اس میں ہے جو وہ کررہے ہیں۔ اللہ انہیں خوب جانتا ہے لہذا ان کے اعمال کی جزاء ان کو دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر (یعنی) صغیر ترین چیونٹی کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا بایں طور کہ اس کی نیکیاں کم کردے یا اس کے گناہوں میں اضافہ کردے اور اگر مومن کی نیکی (ایک) ذرہ کے برابر ہو تو اسے دس گنے سے سات سو گنے سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ اور ایک قراءت میں حسنة رفع کیساتھ ہے تو اس صورت میں تَکُ ، تامہ ہوگا اور ایک قراءت میں \& یُضَعِّفُھا \& تشدید کے ساتھ ہے، اور خاص اپنی رحمت سے مضاعفتہ کے علاوہ بہت بڑا اجردیتا ہے کہ اس پر کسی کو قدرت حاصل نہیں، پس کفارکا کیا حال ہوگا ؟ کہ جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے کہ وہ ان پر ان کے عمل کی شہادت دے گا اور وہ اس امت کا نبی ہوگا، اور آپ کو لانے کے دن اے محمد ہم ان لوگوں پر گواہ بنا کرلائیں گے ( یومئذ سے یوم المجیٔ مراد ہے) جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش ! ان کو زمین کے ہموار کردیا جاتا (تسوّٰی) مجہول اور معروف کے صیغہ کے ساتھ ہے، اصل میں ایک تاء کو حذف کرکے، اور تاء کو سین میں ادغام کرکے، ای تُتَسَوّیٰ بھم، کہ وہ زمین کے مانند ہوجاتے، اس دن کی ہولناکی کی وجہ سے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے، \&\& یقول الکافر یٰلیتنی کنت ترابا \&\& اور اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے یعنی اپنے اعمال میں سے کوئی عمل چھپانہ سکیں گے، اور دوسرے وقت میں چھپا سکیں گے، واللہ ربنا ما کنا مشرکین .
تحقیق و ترکیب وتسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : قَوَّامُوْنَ ، یہ قَوَّام کی جمع ہے، صیغہ مبالغہ کا ہے یعنی سرپرست، مصلح۔ نگراں۔
قولہ : لِفُرُوجِھِنَّ اس میں حَافِطات کے مفعول محذوف کی طرف اشارہ ہے مفسر علام نے للغیب کی تفسیر فی غَیْبَةٍ ، سے کرکے اشارہ کردیا کہ لام بمعنی فی ہے۔
قولہ : باَنْ ظَھَرَتْ اَماراتُہ \& یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : ظاہر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں سے اگر نافرمانی کا اندیشہ ہو تو ان کے بارے میں نصیحت اعتزال اور ضرب وغیرہ کے احکام ہیں حالانکہ احکام کا ترتب صرف اندیشہ اور خوف پر نہیں ہوتا بلکہ وقوع پر ہوتا ہے، اس کا سوال
کا جواب مفسرّعلاّم نے اِن ظَھَرتْ اَمَاراتُہ \& سے دیدیا کہ عورت سے جب نافرمانی کا ظہور ہو تو اس وقت یہ احکام جاری ہوں گے۔
قولہ : ضربًاغَیْرَمُبْرِّحِ ، ای الضرب الذی لایکسر عظمًا ولایشین عضوًا، ای ضر بًا غیر شدید .
قولہ : والا ضَافةُ لِلْاتّسَاعِ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے
سوال : مصدر کی اضافت فاعل یا مفعول کی طرف ہوتی ہے اور یہاں شقاق کی اضافت بَیْن کی طرف ہورہی ہے جو کہ ظرف ہے۔
جواب : ظرف میں اتساع درست ہے اسلئے کہ مشہور قاعدہ ہے یجوزفی الظرف مالا یجوز فی غیرہ، نیز ظرف، مفعول کے قائم مقام ہے، جیسے یا سارق اللیل، میں۔
قولہ : وَاَحْسِنُوا .
سوال : مفسرّعلّام نے اَحْسِنُوا کس فائدہ کے لئے محذوف مانا ہے ؟
جواب : اس سے ایک سوال مقدر کا جواب دینا مقصود ہے۔
سوال : یہ ہے کہ وبلوالدین احسانا، جملہ خبر یہ ہے اس کا عظف وَاعْبُدُوا اللّٰہَ پر ہے جو کہ انشائیہ ہے عطف خبر علی الانشاء درست نہیں ہے۔
جواب : مفسرّ علام نے اَحْسِنُوا فعل امر مقدر مان کردیا کہ معطوف بھی جملہ انشائیہ ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔
قولہ : الجُنُب بضَمَّتَیْنِ ، بمعنی بعید پڑوسی اس کا اطلاق مذکرومؤنث وتثنیہ وجمع سب پر ہوتا ہے۔
قولہ : والصاحَب بِا لجَنْبِ بفتح الجیم و سکون النون بمعنی رفیق، کارخیرکا ساتھی، مثلاً تعلیم صنعت وحرفت وسفروغیرہ کا ساتھی
قولہ : الذین الخ مبتداء ہے اس کی خبر مخدوف ہے، جس کو مفسرّعلاّم نے، لَھُم وعید شَدِیْد، سے ظاہر کردیا ہے اور بعض حضرات نے الذین کو ھُمْ مبتداء مخذوف کی خبر قرار دیا ہے۔
تفسیر وتشریح
ربط آیات : عورتوں کے متعلق جو احکام گذر چکے ہیں، ان میں ان کی حق تلفی کی ممانعت بھی مذکورہ ہوئی اب آگے مردوں کے حقوق کا ذکر ہے۔
مردوں کی حاکمیت : الّرِجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ ، اس میں عورتوں پر مردوں کی حاکمیت کا بیان ہے اس میں حاکمیت کی دو جہتیں بیان کی گئی ہیں، ایک وہبی ہے جو مردانہ قوت اور ذہنی صلاحیت ہے جس میں مرد عورت سے فطری طور پر ممتاز ہے، یہ خدا داد فضیلت ہے اس میں مرد کی سعی وعمل اور عورت کی کوتاہی اور بےعملی کو کوئی دخل نہیں۔
دوسری جہت کسبی اور اختیاری ہے، جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری کی وجہ سے معاشی جھمیلوں سے دور رکھا ہے، عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بالکل واضح ہے، جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے \&\& وہ قوم ہرگز فلاح یاب نہیں ہوگی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کردیئے \&\&۔ (بخاری، کتاب المغازی)
فائدہ : آیت میں حاکمیت کی دو جہتوں کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کسی کو ولایت و حکومت کا استحقاق محض زورو تغلب سے قائم نہیں ہوتا، بلکہ کام کی صلاحیت واہلیت ہی اس کو حکومت کا مستحق بناسکتی ہے مردوں کو عورتوں پر مذکورہ فضیلت جنسی اور مجموعہ کے اعتبار سے ہے، جہاں تک افراد کا تعلق ہے تو بہت ممکن ہے کہ کوئی عورت کمالات علمی اور علمی میں کسی مرد سے فائق ہو اور صفت حاکمیت میں مرد سے بڑھ جائے، مگر حکم جنس اور مجموعہ پر ہی لگے گا۔
اسلام میں عورتوں کے حقوق اور ان کا درجہ : وَلَھُنَّ مِثلُ الَّذِی عَلَیھِنَّ بالمَعْرُوْفِ ، یعنی عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں کے ذمہ، اس آیت میں دونوں کے حقوق کی مماثلت کا حکم دیکر اس کی تفصیلات کو عرف کے حوالہ کرکے جاہلیت جدیدہ وقدیمہ کی تمام ظالمانہ رسموں کو یکسر ختم کردیا، البتہ یہ ضروری نہیں کہ دونوں کے حقوق صورةً بھی مماثل ہوں، بلکہ عورت پر اگر ایک قسم کی ذمہ داری لازم ہے تو اس کے بالمقابل مرد پر دوسری قسم کی ذمہ داری واجب ہے، عورت امورخانہ داری اور بچوں کی تربیت و حفاظت کی ذمہ دار ہے، تو مرد ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسب معاش کا ذمہ دار ہے، عورت کے ذمہ مرد کی خدمت و اطاعت ہے تو مرد کے ذمہ عورت کے اخراجات کا انتظام۔
بائبل میں عورت کے حقوق : بائبل نے عورت کو درجہ دیا ہے اس کا اندازہ بائبل کی مندرجہ ذیل عبارتوں سے بخوبی ہوسکتا ہے۔
خداوند خدا نے عورت سے کہا اپنے خصم (شوہر) کی طرف تیرا شوق ہوگا، اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔ (پیدائش ٣: ١٦)
اے بیویو ! اپنے شوہر کی ایسی تابع رہو جیسے خدا وند کی، کیونکہ شوہر بیوی کا سر ہے، جیسے کہ مسیح کلیسا کا سر ہے، اور وہ خود بدن کا بچا نیوالا ہے، لیکن جیسے کلیسا مسیح کے تابع ہے ایسے ہی بیویاں ہر بات میں اپنے شوہر کے تابع ہیں۔ (افسیون ٥: ٢٢: ٢٤)
قرآن خدا کا کلام ہے اور ہمیشہ حق ہی کہتا ہے، وہ کلیسا کی کونسلوں اور منوسمرتی کی طرح عورت کی تحقیر و تذلیل کا ہرگز قائل نہیں، لیکن ساتھ ہی اسے جاہلیت قدئم و جاہلیت جدید کی زن پرستی سے بھی اتفاق نہیں، وہ عورت کو ٹھیک وہی مرتبہ ومقام دیتا ہے جو نظام کائنات میں خالق نے اسے دے رکھا ہے عورت بہ حیثیت عبد اور مکلف مخلوق کے مرد کے مساوی اور ہم رتبہ ہے لیکن انتظامی معاملات میں مرد کے تابع اور ماتحت ہے۔
اسلام سے پہلے عورت کی مظلومیت : عورت کی مظلومیت کی تاریخ اتنی ہی طویل اور قدیم ہے جتنی کہ خود ظلم کی، مطلب یہ ہے کہ جس وقت ظلم شروع ہوا اسی وقت سے عورت مظلوم رہی ہے، اسلام نے آکر نہ صرف یہ کہ عورت کی مظلومیت کو ختم کیا بلکہ اس کو اس کا جائز مقام دے کر وقار اور سر بلندی بخشی۔
عورت کے بارے میں رومن نظریہ : رومن زمانہ میں عورت مشترک قومی ملک سمجھی جاتی تھی، جس سے ہر شخص کو استفادہ کا حق ہوتا تھا۔
عورت کے بارے میں یوحنا کا نظریہ : عورت کے بارے میں یوحنا کا نظریہ یہ تھا کہ عورت شر کی بیٹی اور امن و سلامتی کی دشمن ہے۔
عورت کے بارے میں عیسائیت کا نظریہ : عیسائی نظریہ کے مطابق عورت انسان تو درکنار حیوان بھی نہیں، ٥٨٦ ء میں تمام عیسائی دنیا کے علماء یورپ میں اس مسئلہ پر بحث کرنے کے لئے جمع ہوئے کہ عورت میں روح ہے یا نہیں، بہت بحث و مباحثہ اور ردوکد کے بعدیہ طے ہوا کہ عورت میں روح ہے۔
عورت کے بارے میں ہندی نظریہ : ہندو قدیم تہذیب میں شوہر کے انتقال کے بعد عورت کو اچھوت اور منحوس سمجھا جاتا تھا اور ایسے حالات پیدا کردیئے جاتے تھے کہ وہ زندگی پر جل کر مرنے کو ترجیح دیتی تھی، بیوہ عورت کا بستر الگ کردیا جاتا تھا اس کو اس بات کے اجازت نہیں تھی کہ وہ دوسرے کے بستر پر بیٹھ سکے، اس کے برتن الگ کردیئے جاتے تھے، شادی بیاہ یا کسی خوشی کی تقریب میں بیوہ عورت کی شرکت منحوس سمجھی جاتی تھی، یہی وہ حالات اور اسباب تھے کہ جن کے پیش نظر وہ ایسی ذلت کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتی تھی، اور مذہبی ٹھیکیداروں نے اسے مذہبی تقدس کا نام دے رکھا تھا، اور جو عورت حالات کی مجبوریوں کی وجہ سے شوہر کے ساتھ اس کی چتا میں جل جاتی تھی اس کو شوہر کی باوفا ( پتی ور تا پتنی) شمار کیا جاتا تھا۔
نافرمان بیوی اور اس کی اصلاح کا طریقہ : قرآن کریم نے ان کی اصلاح کے تین طریقہ بیان فرمائے ہیں، وَاللّٰتی تخافون نُشُوزَ ھُنَّ فعِظُو ھُنّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی المَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ، یعنی عورتوں کی طرف سے اگر نافرمانی کا صدور یا اندیشہ ہو، تو پہلا درجہ ان کی اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے ان کو سمجھاؤ اور اگر وہ محض سمجھانے سے باز نہ آئین تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کا بستر الگ کردو تاکہ ان کو شوہر کی ناراضگی کا احساس ہو اور اپنے فعل پر نادم ہوں فی المضاجع، کے لفظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جدائی صرف بستر میں ہو نہ کہ مکان میں، قومہ اس میں عورت کو رنج بھی زیادہ ہوگا اور فساد بڑھنے کا اندیشہ بھی نہ بڑھے گا۔
جو عورت شریفانہ تنبیہ سے متاثر نہ ہو تو پھر معمولی ضرب تادیبی کی بھی اجازت ہے جس سے اس کے بدن پر نشان نہ پڑے، اور چہرہ پر مارنے سے مطلقا منع فرمایا، ہلکی تادیبی ما کی اگرچہ اجازت ہے مگر اس کے ساتھ ہی حدیث میں ارشاد ہے وَلَنْ یَّضْرِبَ خِیَارُ کُمْ ، بھلے مرد عورتوں کو مار کی سزا نہ دیں۔
آیت مذکورہ کا شان بزول : زید بن زبیر نے اپنی لڑکی حبیبہ کا نکاح حضرت سعد بن ربیع سے کردیا تھا آپسی کسی نزاع سے حضرت سعد نے حبیبہ کو ایک طمانچہ مار دیا حبیبہ نے اپنے والد سے شکایت کی والد ان کو لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے حکم دیا کہ حبیبہ کو حاصل ہے کہ جس زور سے سعد نے ان کو طمانچہ مارا ہے وہ بھی اتنی ہی زور سے ان کو طمانچہ ماریں۔
یہ دونوں حکم نبوی سنکر انتقام کے ارادہ سے چلے اسی وقت آیت مذکورہ نازل ہوئی، آنحضرت نے ان دونوں کو واپس بلوا کر حق تعالیٰ کا حکم سنایا اور انتقام لینے کا پہلا حکم منسوخ فرمادیا۔
اصلاح کا ایک چوتھا طریقہ : اگر گھر کے اندر مذکورہ تینوں طریقے کار گر ثابت نہ ہوں تو چوتھا طریقہ ہے حکمین اور زوجین اصلاح کے سلسلہ میں مخلص ہوں گے تو یقینا ان کی سعی اصلاح کامیاب ہوگی، تاہم ناکامی کی صورت میں حکمین کو تفریق بین الزوجین کا اختیار ہے یا نہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے۔
فقہاء میں سے ایک جماعت کہتی ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے البتہ تصفیہ کی جو صورت ان کے نزدیک مناسب ہو اس کے لئے سفارش کرسکتے ہیں ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے، ہاں البتہ اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کرنے کا وکیل بنایا ہو تو البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کے لئے واجب ہوگا، یہ حنفی اور شافعی علماء کا مسلک ہے، دوسرے فقہاء کا قول ہے، ایک تیسرا فریق ہے جس کا قول ہے کہ ان پنچوں کو ملانے اور جدا کرنے کے پورے اختیارات ہیں، یہ ابن عباس (رض) سعید بن جبیر وغیرہ کی رائے ہے۔
حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) کے فیصلوں کی نظیر : حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) کے فیصلوں کی نظیریں جو معلوم ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات پنچ مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے ان کو حاکمانہ اختیار دیدیا کرتے تھے، چناچہ عقیل بن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمان (رض) کی عدالت میں پیش ہوا تو انہوں نے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباس (رض) کو اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو مقرر کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان کے درمیان تفریق کردینا ہی مناسب ہو تو تفریق کردیں، اسی سے طرح ایک مقدمہ میں حضرت علی (رض) حاکم مقرر کئے گئے اور ان کو اختیار دیا چاہیں لادیں اور چاہیں جدا کردیں، اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطور خود تو عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہوگا۔
قولہ : والجَارِ الجُنُبِ یہ جملہ قرابتدار پڑوسی کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے ایسا پڑوسی کہ جو قرابتدار نہ ہو، مطلب یہ کہ پڑوسی سے بحیثیت پڑوسی کے سلوک کیا جائے خواہ رشتہ دار ہو یا نہ ہو، احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔
قولہ : والصّاحب بالجَنْبِ ، اس سے مراد رفیق سفر اور شریک کار اور بیوی نیز وہ شخص ہے جو فائدہ کی امید پر کسی کی قربت یا ہمنشینی اختیار کرے۔
فخروغرور اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے، حدیث شریف میں یہاں تک آیا ہے کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائیگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھہ تکبر ہوگا۔ (صحیح مسلم کتاب الا یمان )
جو چیزیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں حائل ہوتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ مہلک خودبینی اور خود پسندی نیز نمائش اور حب جاہ۔
فخر و غرور کے بعد تیسرا بڑا مانع بخل ہے مالی بخل کا مراد ہونا ظاہر ہی ہے دولت علم دین میں بخل کو بھی حضرات نے اسی میں داخل کیا ہے۔
اللہ کے فضل کو چھپانے کی صورت : یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو چھپانا ہے کہ آدمی اسطرح رہے کہ گویا اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے مثلا اللہ نے کسی کو دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گر کررہے نہ اپنی ذات پر اور نہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اور نہ بندگان خدا کی مدد کرے نہ نیک کاموں میں حصہ لے لوگ دیکھ کر سمجھیں کہ بیچارہ بڑا خستہ حال ہے، یہ دراصل نعمت کی ناشکری ہے حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا \&\& اِنّ اللہ اذَااَنْعَمَةً علی عَبْدٍ اَحَبَّ ان یَظھَرَ اَثَرُھا علَیْہِ \&\& اللہ جب بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو، یعنی اس کے کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس اور مسکین اور اس کی دادودہش ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا اظہار ہوتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے ﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ ﴾” مرد عورتوں کے نگران اور محافظ ہیں“ یعنی مرد عورتوں سے اللہ تعالیٰ کے حقوق کا التزام کروانے والے، ان سے ان کے فرائض کی حفاظت کروانے والے اور ان کو مفاسد سے روکنے والے ہیں، اور اس اعتبار سے وہ عورتوں پر قوام ہیں اور مردوں پر فرض ہے کہ وہ عورتوں سے ان امور کا التزام کروائیں۔ وہ عورتوں پر اس اعتبار سے بھی قوام ہیں کہ وہ ان پر خرچ کرتے ہیں اور انہیں لباس اور مسکن مہیا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر کیا ہے جو عورتوں پر مردوں کے قوام ہونے کا موجب ہے، فرمایا : ﴿بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ ﴾ ” اس لیے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لیے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔“ یعنی اس سبب سے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے نیز اس سبب سے کہ وہ ان پر خرچ کرتے ہیں۔ پس مردوں کی عورتوں پر فضیلت کی متعدد وجوہات ہیں۔
(١) تمام بڑے بڑے منصب مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں، نبوت، رسالت، اور بہت سی عبادات مثلاً جہاد، عیدین اور جمعات وغیرہ میں مردوں کو اختصاص حاصل ہے۔
(٢) اللہ تعالیٰ نے مردوں کو وافر عقل، وقار، صبر اور وہ جفاکشی عطا کی ہے جو عورتوں میں نہیں پائی جاتی۔
(٣) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اپنی بیویوں پر خرچ کرنے کی ذمہ داری عطا کی ہے بلکہ بہت سے اخراجات ایسے ہیں جو صرف مردوں سے مختص ہیں اور اس اعتبار سے عورتوں سے ممتاز ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَبِمَا أَنفَقُوا ﴾ ” اور اس لیے بھی کہ وہ (مرد) خرچ کرتے ہیں۔“ کا یہی سرنہاں ہے یہاں جملے میں مفعول کو حذف کرنا، عمومی نان و نفقہ اور اخراجات کی دلیل ہے۔
ان تمام توضیحات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد عورت کے آقا اور والی کی حیثیت رکھتا ہے اور عورت اپنے شوہر کے پاس ایک اسیر کی مانند ہے۔ پس مرد کی ذمہ داری اور اس کا کام یہ ہے کہ وہ ان امور کا انتظام کرے جن کی رعایت رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور عورت کی ذمہ داری اور اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے رب اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے، بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ ﴾ ” تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مطیع ہوتی ہیں۔“ یعنی وہ اللہ کی اطاعت کرنے والی ہیں،﴿حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ ﴾ یعنی وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کرنے والی ہیں حتیٰ کہ وہ ان کی عدم موجودگی میں بھی ان کی اطاعت کرتی ہیں۔ اپنی عفت کی حفاظت کے ذریعے سے اپنے شوہر کی اور اس کے مال کی حفاظت کرتی ہیں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی توفیق سے ہے ان کی طرف سے کچھ بھی نہیں، کیونکہ نفس تو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے مگر جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو رنج میں ڈالنے والے دینی اور دنیاوی امور میں اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔
پھر فرمایا : ﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ ﴾ ” اور وہ عورتیں، جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو“ یعنی ان کا اطاعت سے باہر نکلنا، قول و فعل کے ذریعے سے اپنے شوہر کی نافرمانی کرنا۔ اس صورت میں شوہر آسان سے آسان طریقے سے اس کی تادیب کرے۔ ﴿فَعِظُوهُنَّ ﴾” ان کو نصیحت کرو۔“ یعنی شوہر کی اطاعت اور اس کی نافرمانی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکام بیان کر کے ان کو نصیحت کرو۔ شوہر کی اطاعت کی ترغیب دو اور اس کی نافرمانی سے ڈراؤ۔ اگر وہ نافرمانی سے باز آجائیں تو یہی چیز مطلوب ہے اور اگر وہ اپنا رویہ نہ بدلیں تو شوہر اسے اس کے بستر پر تنہا چھوڑ دے، اس کے بستر پر سوئے نہ اس کے ساتھ مجامعت کرے۔ یہ سزا بس اسی قدر ہو جس سے مقصد حاصل ہوجائے۔ اگر پھر بھی نافرمانی ترک نہ کرے تو شوہر اس کو ایسی مار مارے جو نقصان دہ نہ ہو۔ اگر ان مذکورہ طریقوں میں سے کسی طریقے سے مقصد حاصل ہوجائے اور وہ تمہاری اطاعت کرنے لگ جائیں ﴿فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ ﴾” تونہ نڈھنڈو ان پر کوئی راہ“ پس جو مقصد تم حاصل کرنا چاہتے تھے تمہیں حاصل ہوگیا، اس لیے اب تم گزشتہ معاملات میں ان پر عتاب کرنا اور ان کو کریدنا چھوڑ دو جن کے ذکر سے نقصان پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے شرپیدا ہوتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ﴾” بے شک اللہ سب سے اعلیٰ، جلیل القدر ہے۔“ ہر پہلو اور ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ علو مطلق (مطلق بلندی) کا مالک ہے۔ اس کی ذات بلند ہے، وہ قدرت کے اعتبار سے بلند ہے اور وہ قہر اور غلبہ کے اعتبار سے بھی بلند ہے۔ وہ بڑا ہے جس سے کوئی بڑا نہیں اس سے زیادہ جلیل اور اس سے زیادہ عظیم کوئی ہستی نہیں۔ وہ اپنی ذات میں اور صفات میں بڑا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
mard aurton kay nigran hain , kiyonkay Allah ney unn mein say aik ko doosray per fazilat di hai , aur kiyonkay mardon ney apney maal kharch kiye hain . chunacheh naik aurten farmanbardaar hoti hain , mard ki ghair mojoodgi mein Allah ki di hoi hifazat say ( uss kay huqooq ki ) hifazat kerti hain . aur jinn aurton say tumhen sarkashi ka andesha ho to ( pehlay ) unhen samjhao , aur ( agar iss say kaam naa chalay to ) unhen khuwab gaahon mein tanha chorr do , ( aur iss say bhi islaah naa ho to ) unhen maar saktay ho . phir agar woh tumhari baat maan len to unn kay khilaf kaarawai ka koi raasta talash naa kero . yaqeen rakho kay Allah sabb kay oopper , sabb say bara hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مرد عورتوں سے افضل کیوں ؟
جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ مرد عورت کا حاکم رئیس اور سردار ہے ہر طرح سے اس کا محافظ و معاون ہے اسی لئے کہ مرد عورتوں سے افضل ہیں یہی وجہ ہے کہ نبوۃ ہمیشہ مردوں میں رہی بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی مرد ہی بن سکتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں وہ لوگ کبھی نجات نہیں پاسکتے جو اپنا والی کسی عورت کو بنائیں۔ (بخاری) اسی طرح ہر طرح کا منصب قضا وغیرہ بھی مردوں کے لائق ہی ہیں۔ دوسری وجہ فضیلت کی یہ ہے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں جو کتاب و سنت سے ان کے ذمہ ہے مثلاً مہر نان نفقہ اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا۔ پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے اور بہ اعتبار نفع کے اور حاجت براری کے بھی اس کا درجہ بڑا ہے۔ اسی بنا پر مرد کو عورت پر سردار مقرر کیا گیا جیسے اور جگہ فرمان ہے (وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ) 2 ۔ البقرۃ :228) ابن عباس (رض) فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کی اطاعت کرنی پڑے گی اس کے بال بچوں کی نگہداشت اس کے مال کی حفاظت وغیرہ اس کا کام ہے۔ حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں ایک عورت نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنے خاوند کی شکایت کی کہ ایک انصاری (رض) اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ پس آپ نے بدلہ لینے کا حکم دیا ہی تھا جو یہ آیت اتری اور بدلہ نہ دلوایا گیا ایک اور روایت کہ ایک انصار (رض) اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا جس کا نشان اب تک میرے چہرے پر موجود ہے آپ نے فرمایا اسے حق نہ تھا وہیں یہ آیت اتری کہ ادب سکھانے کے لئے مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ تو آپ نے فرمایا میں نے اور چاہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اور چاہا۔ شعبہ (رح) فرماتے ہیں مال خرچ کرنے سے مراد مہر کا ادا کرنا ہے دیکھو اگر مرد عورت پر زنا کاری کی تہمت لگائے تو لعان کا حکم ہے اور اگر عورت اپنے مرد کی نسبت یہ بات کہے اور ثابت نہ کرسکے تو اسے کوڑے لگیں گے۔ پس عورتوں میں سے نیک نفس وہ ہیں جو اپنے خاوندوں کی اطاعت گزار ہوں اپنے نفس اور خاوند کے مال کی حفاظت والیاں ہوں جسے خود اللہ تعالیٰ سے محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں بہتر عورت وہ ہے کہ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے بجا لائے اور جب کہیں باہر جائے تو اپنے نفس کو برائی سے محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کے مال کی محافظت کرے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب کوئی پانچوں وقت نماز ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے تو چاہے جنت میں چلی جا، پھر فرمایا جن عورتوں کی سرکشی سے ڈرو یعنی جو تم سے بلند ہونا چاہتی ہو نافرمانی کرتی ہو بےپرواہی برتتی ہو دشمنی رکھتی ہو تو پہلے تو اسے زبانی نصیحت کرو ہر طرح سمجھاؤ اتار چڑھاؤ بتاؤ اللہ کا خوف دلاؤ حقوق زوجیت یاد دلاؤ اس سے کہو کہ دیکھو خاوند کے اتنے حقوق ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو حکم کرسکتا کہ وہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ سب سے بڑا حق اس پر اسی کا ہے بخاری شریف میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بسترے پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں صحیح مسلم میں ہے۔ کہ جس رات کوئی عورت روٹھ کر اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑے رہے تو صبح تک اللہ کی رحمت کے فرشتے اس پر لعنتیں نازل کرتے رہتے ہیں، تو یہاں ارشاد فرماتا ہے کہ ایسی نافرمان عورتوں کو پہلے تو سمجھاؤ بجھاؤ پھر بستروں سے الگ کرو، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یعنی سلائے تو بستر ہی پر مگر خود اس سے کروٹ موڑ لے اور مجامعت نہ کرے، بات چیت اور کلام بھی ترک کرسکتا ہے اور یہ عورت کی بڑی بھاری سزا ہے، بعض مفسرین فرماتے ہیں ساتھ سلانا ہی چھوڑ دے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال ہوتا ہے کہ عورت کا حق اس کے میاں پر کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ جب تو کھا تو اسے بھی کھلا جب تو پہن تو اسے بھی پہنا اس کے منہ پر نہ مار گالیاں نہ دے اور گھر سے الگ نہ کر غصہ میں اگر تو اس سے بطور سزا بات چیت ترک کرے تو بھی اسے گھر سے نہ نکال پھر فرمایا اس سے بھی اگر ٹھیک ٹھاک نہ ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ یونہی سی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے بھی راہ راست پر لاؤ۔ صحیح مسلم میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجتہ الوداع کے خطبہ میں ہے کہ عورتوں کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو وہ تمہاری خدمت گزار اور ماتحت ہیں تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ جس کے آنے جانے سے تم خفا ہو اسے نہ آنے دیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں یونہی سے تنبیہہ بھی تم کرسکتے ہو لیکن سخت مار جو ظاہر ہو نہیں مار سکتے تم پر ان کا حق یہ ہے کہ انہیں کھلاتے پلاتے پہناتے اڑھاتے رہو۔ پس ایسی مار نہ مارنی چاہیے جس کا نشان باقی رہے جس سے کوئی عضو ٹوٹ جائے یا کوئی زخم آئے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے تو فدیہ لو اور طلاق دے دو ۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی لونڈیوں کو مارو نہیں اس کے بعد ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق (رض) آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عورتیں آپ کے اس حکم کو سن کر بہت سی عورتیں شکایتیں لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایا سنو میرے پاس عورتوں کی فریاد پہنچی یاد رکھو تم میں سے جو اپنی عورتوں کو زدوکوب کرتے ہیں وہ اچھے آدمی نہیں (ابو داؤد وغیرہ) حضرت اشعث (رح) فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں حضرت فاروق اعظم (رض) کا مہمان ہوا اتفاقاً اس روز میاں بیوی میں کچھ ناچاقی ہوگئی اور حضرت عمر (رض) نے اپنی بیوی صاحبہ کو مارا پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث تین باتیں یاد رکھ جو میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر یاد رکھی ہیں ایک تو یہ کہ مرد سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی عورت کو کس بنا پر مارا ؟ دوسری یہ کہ وتر پڑھے بغیر سونا مت اور اور تیسری بات راوی کے ذہن سے نکل گئی (نسائی) پھر فرمایا اگر اب بھی عورتیں تمہاری فرمانبردار بن جائیں تو تم ان پر کسی قسم کی سختی نہ کرو نہ مارو پیٹو نہ بیزاری کا اظہار کرو۔ اللہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے۔ یعنی اگر عورتوں کی طرف سے قصور سرزد ہوئے بغیر یا قصور کے بعد ٹھیک ہوجانے کے باوجود بھی تم نے انہیں ستایا تو یاد رکھو ان کی مدد پر ان کا انتقام لینے کے لئے اللہ تعالیٰ ہے اور یقینا وہ بہت زرو اور زبردست ہے۔