النساء آية ۳۶
وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْــًٔـا ۗ وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَالْجَـارِ ذِى الْقُرْبٰى وَالْجَـارِ الْجُـنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ وَمَا مَلَـكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۗ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا ۙ
طاہر القادری:
اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو،
English Sahih:
Worship Allah and associate nothing with Him, and to parents do good, and to relatives, orphans, the needy, the near neighbor, the neighbor farther away, the companion at your side, the traveler, and those whom your right hands possess. Indeed, Allah does not like those who are self-deluding and boastful,
1 Abul A'ala Maududi
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کر ے
2 Ahmed Raza Khan
اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بیشک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والے بڑائی مارنے والا
3 Ahmed Ali
اور الله کی بندگی کرو اورکسی کو اس کا شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اورپاس بیٹھنے والے او رمسافر او راپنے غلاموں کے ساتھ بھی نیکی کرو بے شک الله اترانے والے بڑائی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا
4 Ahsanul Bayan
اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے (١) اور پہلو کے ساتھی سے (٢) اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) (٣) یقیناً اللہ تعالٰی تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔(٤)
٣٦۔١الجار، الجنب، قرابت دار پڑوسی کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ایسا پڑوسی جس سے قرابت داری نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ پڑوسی سے بہ حیثیت پڑوسی کے حسن و سلوک کیا جائے رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار، جس طرح کہ حدیث میں بھی اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔
٣٦۔٢ اس سے مراد رفیق سفر، شریک کار، بیوی اور وہ شخص ہے جو فائدے کی امید پر کسی کی قربت و ہم نشینی اختیار کرے بلکہ اسکی تعریف میں وہ لوگ بھی آسکتے ہیں جنہیں تحصیل علم، تعلم صناعت (کوئی کام سیکھنے) کے لئے یا کسی کاروباری سلسلہ میں آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملے (فتح القدیر)
٣٦۔٣ اس میں گھر، دکان اور کارخانوں، ملوں کے ملازم اور نوکر چاکر بھی آجاتے ہیں۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید حدیث میں آئی ہے۔
٣٦۔٤ فخر و غرور اور تکبر اللہ تعالٰی کو سخت ناپسند ہے بلکہ ایک حدیث میں یہاں تک آتا ہے کہ "وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔ " (صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ حدیث نمبر۔۹۱) یہاں کبر کی بطور خاص مذمت سے یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالٰی کی عبادت اور جن جن لوگوں سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ اس پر عمل وہی شخص کر سکتا ہے جس کا دل کبر سے خالی ہوگا۔ متکبر اور مغرور شخص صحیح معنوں میں نہ حق عبادت ادا کر سکتا ہے اور نہ اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا
6 Muhammad Junagarhi
اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راه کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں، (غلام کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اور پہلو میں بیٹھنے والے رفیق اور مسافر، اپنے مملوکہ (غلاموں کنیزوں) کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ بے شک اللہ مغرور و متکبر اور شیخی بگھارنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شے کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اور قرابتداروں کے ساتھ اور یتیموں, مسکینوں, قریب کے ہمسایہ, دور کے ہمسایہ, پہلو نشین, مسافر غربت زدہ, غلام و کنیز سب کے ساتھ نیک برتاؤ کرو کہ اللہ مغرور اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا
9 Tafsir Jalalayn
اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ وہ واحد اور لاشریک ہے۔ یہ درحقیقت اس کی عبودیت کے دائرے میں داخل ہونے، محبت، تذلل اور ظاہری اور باطنی تمام عبادات میں اخلاص کے ساتھ اس کے تمام اوامرونواہی کی تعمیل کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ شرک اصغر اور شرک اکبر ہر قسم کے شرک سے روکتا ہے۔ کسی فرشتہ، کسی نبی، ولی یا دیگر مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے سے منع کرتا ہے جو خود اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور دوبارہ اٹھانے پر قدرت نہیں رکھتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص واجب ہے۔ جو ہر لحاظ سے کمال مطلق کا مالک ہے۔ وہ کائنات کی پوری تدبیر کر رہا ہے جس میں اس کا کوئی شریک ہے نہ معاون اور مددگار ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنے حقوق کے قیام کا حکم دینے کے بعد حقوق العباد کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ (حقوق العباد کے مراتب میں اصول یہ قائم فرمایا ہے۔) جو سب سے زیادہ قریب ہے اس کے سب سے زیادہ حقوق ہیں۔ فرمایا : ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾” ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو“ یعنی ان کے ساتھ احسان کرو ان سے اچھی گفتگو، ان کے ساتھ تخاطب میں نرمی اور فعل جمیل کر کے ان کے حکم کی اطاعت، ان کے ممنوعہ امور سے اجتناب اور ان کی ضروریات پر خرچ کر کے، ان کے دوستوں اور دیگر متعلقین کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ کر کے اور ان رشتے داریوں کو قائم اور ان کے حقوق ادا کر کے، جن سے صرف والدین کی وجہ سے رشتے داری ہے۔
احسان (یعنی حسن سلوک) کی دو اضداد ہیں، برا سلوک اور عدم احسان (حسن سلوک نہ کرنا) اور ان دونوں سے روکا گیا ہے۔ فرمایا ﴿وَبِذِي الْقُرْبَىٰ﴾ ” اور قرابت والوں کے ساتھ۔“ یعنی دیگر اقرباء کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ۔ یہ آیت کریمہ تمام اقارب کو شامل ہے۔ خواہ وہ زیادہ قریبی ہوں یا قدرے دور کے رشتہ دار ہوں۔ ان کے ساتھ قول و فعل کے ذریعے سے حسن سلوک سے پیش آئے اور اپنے قول و فعل سے ان کے ساتھ قطع رحمی نہ کرے۔ ﴿وَالْيَتَامَىٰ﴾ ” اور یتیموں کے ساتھ“ یعنی وہ چھوٹے بچے جو اپنے باپ سے محروم ہوگئے ہوں تمام مسلمانوں پر ان کا حق ہے۔ خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں کہ وہ ان کی کفالت کریں ان کے ساتھ نیک سلوک کریں، ان کی دلجوئی کریں، ان کو ادب سکھائیں اور ان کے دینی اور دنیاوی مصالح میں ان کی بہترین تربیت کریں۔ ﴿وَالْمَسَاكِينِ﴾یہ وہ لوگ ہیں جن کو فقر و حاجت نے بے حرکت اور عاجز کردیا ہو جنہیں اتنی ضروریات زندگی حاصل نہ ہوں جو ان کو کفایت کرسکیں اور نہ ان کو جن کے یہ کفیل ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کو ضروریات زندگی مہیا کی جائیں، ان کا فقر و فاقہ دور کیا جائے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دی جائے اور حتی الامکان ان امور کا انتظام کیا جائے۔ ﴿وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ ﴾ ” اور رشتہ دار ہمسایوں کے ساتھ“ یعنی رشتہ دار پڑوسی، اس کے دو حقوق ہیں۔ پڑوس کا حق اور قرابت کا حق۔ پس وہ اپنے پڑوسی پر حق رکھتا ہے اور اس کے حسن سلوک کا مستحق ہے۔ یہ سب عرف کی طرف راجع ہے۔
اسی طرح ﴿وَالْجَارِ الْجُنُبِ﴾” اور اجنبی ہمسایوں کے ساتھ۔“ یعنی وہ پڑوسی جو قریبی نہ ہو۔ پڑوسی کا دروازہ جتنا زیادہ قریب ہوگا اس کا حق اتنا ہی زیادہ مؤکد ہوگا۔ پڑوسی کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ہدیہ اور صدقہ دیتا رہے، اس کو دعوت پر بلاتا رہے اقوال و افعال میں نرمی اور ملاطفت سے پیش آیا کرے اور قول و فعل سے اس کو اذیت دینے سے بازر رہے۔
﴿وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ﴾ ” اور پہلو کے ساتھی سے حسن سلوک کرو“ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد شریک سفر ہے۔ بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد بیوی ہے اور بعض اہل علم اس کا اطلاق مطلق ساتھی پر کرتے ہیں اور یہی زیادہ قرین صحت ہے۔ کیونکہ یہ لفظ اس کو شامل ہے جو سفر و حضر میں ساتھ رہے اور یہ لفظ بیوی کو بھی شامل ہے۔ ساتھی پر ساتھی کا حق عام مسلمان بھائی سے بڑھ کر ہے یعنی دینی اور دنیاوی امور میں اس کی مدد کرنا، اس کی خیر خواہی کرنا، آسانی اور تنگی، خوشی اور غمی میں اس کے ساتھ وفا کرنا، جو اپنے لیے پسند کرنا اس کے لیے بھی وہی پسند کرنا اور جو اپنے لیے ناپسند کرنا وہ اس کے لیے بھی ناپسند کرنا، صحبت جتنی زیادہ ہوگی، یہ حق اتنا ہی زیادہ اور مؤکد ہوگا۔
﴿وَابْنِ السَّبِيلِ ﴾ وہ غریب الوطن شخص جو دور اجنبی شہر میں ہو، وہ خواہ محتاج ہو یا نہ ہو، اس کی شدت احتیاج اور وطن سے دور ہونے کی وجہ سے مسلمانوں پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے نہایت انس و اکرام کے ساتھ اس کے مقصد تک پہنچائیں۔ ﴿وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ ” اور جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے“ یعنی آپ کی ملکیت میں آدمی ہوں یا بہائم ان کی ضروریات کا انتظام رکھنا، ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا، بوجھ اٹھانے میں ان کی مدد کرنا، ان کی مصلحت اور بھلائی کی خاطر ان کی تادیب کرنا ان کا آپ پر حق ہے۔ پس جو ان احکامات کی تعمیل کرتا ہے وہ اپنے رب کے سامنے جھکنے والا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ انکساری سے پیش آنے والا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر اور اس کی شریعت کی پیروی کرتا ہے۔ یہی شخص ثواب جزیل (بہت زیادہ ثواب) اور ثنائے جمیل کا مستحق ہے اور جو ان احکامات پر عمل نہیں کرتا وہ اپنے رب سے روگردانی، اس کے اوامر کا نافرمان اور مخلوق کے لیے غیر متواضع ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آنے والا، خود پسند اور بے حد فخر کرنے والا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴾ ” یقیناً اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“ یعنی وہ خود پسند ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ تکبر سے پیش آتا ہے ﴿فَخُورًا﴾ ” اپنی بڑائی بیان کرنے والا ہے“ وہ لوگوں کے سامنے فخر اور گھمنڈ کے ساتھ اپنی تعریفیں کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا فخر اور تکبر ان حقوق کو ادا کرنے سے مانع رہتا ہے، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
aur Allah ki ibadat kero , aur uss kay sath kissi ko shareek naa thehrao , aur walaiden kay sath acha sulook kero , neez rishta daaron , yateemon , miskeeno , qareeb walay paroshi , door walay paroshi , sath bethay ( ya sath kharray ) huye shaks aur raah geer kay sath aur apney ghulam baandiyon kay sath bhi ( acha bartao rakho ) beyshak Allah kissi itraney walay shekhi baaz ko pasand nahi kerta .
12 Tafsir Ibn Kathir
حقوق العباد اور حقوق اللہ
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی عبادت کا حکم دیتا ہے اور اپنی توحید کے ماننے کو فرماتا ہے اور اپنے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے روکتا ہے اس لئے کہ جب خالق رزاق نعمتیں دینے والا تمام مخلوق پر ہر وقت اور ہر حال میں انعام کی بارش برسانے والا صرف وہی ہے تو لائق عبادت بھی صرف وہی ہوا۔ حضرت معاذ (رض) سے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت زیادہ جاننے والے ہیں آپ نے فرمایا یہ کہ وہ اسی کی عبادت کریں اسی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں پھر فرمایا جانتے ہو جب بندے یہ کریں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ کیا ہے ؟ یہ کہ انہیں وہ عذاب نہ کرے، پھر فرماتا ہے ماں باپ کے ساتھ احسان کرتے رہو وہی تمہارے عدم سے وجود میں آنے کا سبب بنے ہیں۔ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ہی ماں باپ سے سلوک و احسان کرنے کا حکم دیا ہے جیسے فرمایا (اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ) 31 ۔ لقمان :14) اور (وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا) 17 ۔ الاسراء :23) یہاں بھی یہ بیان فرما کر پھر حکم دیتا ہے کہ اپنے رشتہ داروں سے بھی سلوک و احسان کرتے رہو۔ حدیث میں ہے مسکین اور صدقہ دینا اور صلہ رحمی کرنا بھی، اسی حسن سلوک کی شاخ ہے پھر حکم ہوتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ بھی سلوک و احسان کرو اس لئے کہ ان کی خبر گیری کرنے والا ان کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرنے والا ان کے ناز، لاڈ اٹھانے والا نہیں محبت کے ساتھ کھلانے پلانے والا ان کے سر سے اٹھ گیا ہے۔ پھر مسکینوں کے ساتھ نیکی کرنے کا ارشاد کیا کہ وہ حاجت مند ہے ہاتھ میں محتاج ہیں ان کی ضرورتیں تم پوری کرو ان کی احتیاج تم رفع کرو ان کے کام تم کردیا کرو۔ فقیرو مسکین کا پورا بیان سورة براۃ کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ
پڑوسیوں کے حقوق
اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو ان ان کے ساتھ بھی برتاؤ اور نیک سلوک رکھو خواہ وہ قرابت دار ہوں یا نہ ہو، خواہ مسلمان یا یہود و نصرانی ہوں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جارذی القربی سے مراد بیوی ہے اور جار الجنت سے مراد مرد رفیق سفر ہے، پڑوسیوں کے حق میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں کچھ سن لیجئے۔ مسند احمد میں بیان ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مجھے حضرت جبرائیل پڑوسیوں کے بارے میں یہاں تک وصیت و نصیحت کرتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ پڑوسیوں کو وارث بنادیں گے، فرماتے ہیں بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ہمراہیوں کے ساتھ خوش سلوک زیادہ ہو اور پڑوسیوں کو وارث بنادیں گے، فرماتے ہیں بہتر ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو ہمسایوں سے نیک سلوک میں زیادہ ہو، فرماتے ہیں انسان جو نہ چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی آسودگی بغیر خود شکم سیر ہوجائے۔ ایک مرتبہ آپ صحابہ (رض) سے سوال کیا زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ لوگوں نے کہا وہ حرام ہے اللہ نے اور اس کے رسول سے اسے حرام کیا ہے اور قیامت تک وہ حرام ہی رہے گا، آپ نے فرمایا سنو دس عورتوں سے زناکاری کرنے والا اس شخص کے گناہ سے کم گنہگار ہے جو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے پھر دریافت فرمایا تم چوری کی نسبت کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام کیا ہے اور وہ بھی قیامت تک حرام ہے آپ نے فرمایا سنو دس گھروں سے چوری کرنے والے گناہ کا اس شخص کے گناہ سے ہلکا ہے جو اپنے پڑوسی کے گھر سے کچھ چرائے، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضرت ابن مسعود (رض) سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی ایک نے تجھے پیدا کیا ہے میں نے پوچھا پھر کونسا ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے زناکاری کرے۔ ایک انصاری صحابی (رض) فرماتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے گھر سے چلا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب کھڑے ہیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف متوجہ ہیں میں نے خیال کیا کہ شاید انہیں آپ سے کچھ کام ہوگا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہیں اور ان سے باتیں ہو رہی ہیں بڑی دیر ہوگئی یہاں تک کہ مجھے آپ کے تھک جانے کے خیال نے بےچین کردیا بہت دیر کے بعد آپ لوٹے اور میرے پاس آئے میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم نے انہیں دیکھا میں نے کہا ہاں خوب اچھی طرح دیکھا فرمایا جانتے ہو وہ کون تھے ؟ وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے مجھے پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید کرتے رہے یہاں تک ان کے حقوق بیان کئے کہ مجھے کھٹکا ہوا کہ غالباً آج تو پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے ( مسند احمد) مسند عبد بن حمید میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص عوالی مدینہ سے آیا اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت جبرائیل (علیہ الصلوۃ والسلام) اس جگہ نماز پڑھ رہے تھے جہاں جنازوں کی نماز پڑھی جاتی ہے جب آپ فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہ دوسرا شخص کون نماز پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا تم نے انہیں دیکھا ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا تو نے بہت بڑی بھلائی دیکھی یہ جبرائیل تھے مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ عنقریب اسے وارث بنادیں گے آٹھویں حدیث بزار میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پڑوسی تین قسم کے ہیں ایک حق والے یعنی ادنی، دو حق والے اور تین حق والے یعنی اعلیٰ ، ایک حق والا وہ ہے جو مشرک ہو اور اس سے رشتہ داری نہ ہو، دو حق والا وہ ہے جو مسلمان ہو اور رشتہ دار نہ ہو، ایک حق اسلام دوسرا حق پڑوس، تین حق والا وہ ہے جو مسلمان بھی ہو پڑوسی بھی ہو اور رشتے ناتے کا بھی ہو تو حق اسلام کا حق ہمسائیگی حق صلہ رحمی تین تین حق اس کے ہوگئے۔ حدیث مسند احمد میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ میرے دو پڑوسی ہیں میں ایک کو ہدیہ بھیجنا چاہتی ہوں تو کسے بھیجواؤں ؟ آپ نے فرمایا جس کا دروازہ قریب ہو۔ دسویں حدیث طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا لوگوں نے آپ کے وضو کے پانی کو لینا اور ملنا شروع کیا آپ نے پوچھا ایسا کیوں کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت میں آپ نے فرمایا جسے یہ خوش لگے کہ اللہ اور اس اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہئے کہ جب بات کرے سچ کرے اور جب امانت دیا جائے تو ادا کرے۔ (تفسیر ابن کثیر میں یہ حدیث یہیں پر ختم ہے لیکن شاید اگلا جملہ اس کا سہوا رہ گیا ہے جس کا صحیح تعلق اس مسئلہ سے ہے وہ یہ کہ اسے چاہیے پڑوسی کے ساتھ سلوک و احسان کرے۔ مترجم) گیا رھویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جو جھگڑا اللہ کے سامنے پیش ہوگا وہ دو پڑوسیوں کا ہوگا۔ پھر حکم ہوتا ہے صاحب بالجنت کے ساتھ سلوک کرنے کا۔ اس سے مراد بہت سے مفسرین کے نزدیک عورت ہے اور بہت سے فرماتے ہیں مراد سفر کا ساتھی ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد دوست اور ساتھی ہے عام اس سے کہ سفر میں وہ یا قیام کی حالت میں ابن سبیل سے مراد مہمان ہے اور یہ بھی جو سفر میں کہیں ٹھہر گیا ہو اگر مہمان بھی یہاں مراد لی جائے کہ سفر میں جاتے جاتے مہمان بنا تو دونوں ایک ہوگئے، اس کا پورا بیان سورة براۃ کی تفسیر میں آ رہا ہے انشاء اللہ تعالی۔
غلاموں کے بارے میں احکامات
پھر غلاموں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ بھی نیک سلوک رکھو اس لئے کہ وہ غریب تمہارے ہاتھوں اسیر ہے اس پر تو تمہارا کامل اختیار ہے تو تمہیں چاہیے کہ اس پر رحم کھاؤ اور اس کی ضرورت کا اپنے امکان بھر خیال رکھو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اپنے آخری مرض الموت میں بھی اپنی امت کو اس کی وصیت فرما گئے فرماتے ہیں لوگو نماز کا اور غلاموں کا خوب خیال رکھنا بار بار اسی کو فرماتے رہے یہاں تک کہ زبان رکنے لگی مسند کی حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں تو جو خود کھائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے بچوں کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنی بیوی کھلائے وہ بھی صدقہ ہے جو اپنے خادم کو کھلائے وہ بھی صدقہ ہے مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے ایک مرتبہ داروغہ سے فرمایا کہ کیا غلاموں کو تم نے ان کی خوراک دے دی ؟ اس نے کہا اب تک نہیں دی فرمایا جاؤ دے کر آؤ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی خوراک کا وہ مالک ہے ان سے روک رکھے، مسلم میں ہے مملوکہ ماتحت کا حق ہے کہ اسے کھلایا پلایا پہنایا اڑھایا جائے اور اس کی طاقت سے زیادہ کام اس سے نہ لیا جائے، بخاری شریف میں ہے جب تم میں سے کسی کا خادم اس کا کھانا لے کر آئے تو تمہیں چاہیے کہ اگر ساتھ بٹھا کر نہیں کھلاتے تو کم از کم اسے لقمہ دو لقمہ دے دو خیال کرو کہ اس نے پکانے کی گرمی اور تکلیف اٹھائی ہے اور روایت میں ہے کہ چاہیے تو یہ کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے اور اگر کھانا کم ہو تو لقمہ دو لقمے ہی دے دیا کرو، آپ فرماتے ہیں تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کردیا ہے پس جس کے ہاتھ تلے اس کا بھائی ہو اسے اپنے کھانے سے کھلائے اور اپنے پہننے میں سے پہنائے اور ایسا کام نہ کرے کہ وہ عاجز ہوجائے اگر کوئی ایسا ہی مشکل کام آپڑے تو خود بھی اس کا ساتھ دے (بخاری مسلم) پھر فرمایا کہ خودبین، معجب، متکبر، خود پسند، لوگوں پر اپنی فوقیت جتانے والا، اپنے آپ کو تولنے والا اپنے تئیں دوسروں سے بہتر جاننے والا اللہ کا پسندیدہ بندہ نہیں، وہ گو اپنے آپکو بڑا سمجھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ذلیل ہے لوگوں کی نظروں میں وہ حقیر ہے بھلا کتنا اندھیر ہے کہ خود تو اگر کسی سے سلوک کرے تو اپنا احسان اس پر رکھے لیکن رب کی نعمتوں کا جو اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھی ہیں شکر بجا نہ لائے لوگوں میں بیٹھ کر فخر کرے کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میرے پاس یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے حضرت ابو رجاہروی (رح) فرماتے ہیں کہ ہر بدخلق متکبر اور خود پسند ہوتا ہے پھر اسی آیت کو تلاوت کیا اور فرمایا ہر ماں باپ کا نافرمان سرکش اور بدنصیب ہوتا ہے پھر آپ نے (وَځ ا بِوَالِدَتِيْ ۡ وَلَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا) 19 ۔ مریم :32) پڑھی، حضرت عوام بن حوشب (رح) بھی یہی فرماتے ہیں حضرت مطرب (رح) فرماتے ہیں مجھے حضرت ابوذر (رض) کی ایک روایت ملی تھی میرے دل میں تمنا تھی کہ کسی وقت خود حضرت ابوذر (رض) سے مل کر اس روایت کو انہی کی زبانی سنوں چناچہ ایک مرتبہ ملاقات ہوگئی تو میں نے کہا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو دوست رکھتا ہے اور تین قسم کے لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے حضرت ابوذر (رض) نے فرمایا ہاں یہ سچ ہے میں بھلا اپنے خلیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہتان کیسے باندھ سکتا ہوں ؟ آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اسے تو تم کتاب اللہ میں پاتے بھی ہو، بنو ہجیم کا ایک شخص رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتا ہے مجھے کچھ نصیحت کیجئے آپ نے یرمایا کپڑا ٹخنے سے نیچا نہ لٹکاؤ کیونکہ یہ تکبر اور خود پسندی ہے جسے اللہ ناپسند رکھتا ہے۔