النساء آية ۷۷
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰ تُوا الزَّكٰوةَ ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ ۚ لَوْلَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ ۚ وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰىۗ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا
طاہر القادری:
کیا آپ نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جنہیں (ابتداءً کچھ عرصہ کے لئے) یہ کہا گیا کہ اپنے ہاتھ (قتال سے) روکے رکھو اور نماز قائم کئے رہواور زکوٰۃ دیتے رہو (تو وہ اس پر خوش تھے)، پھر جب ان پر جہاد (یعنی کفر اور ظلم سے ٹکرانا) فرض کر دیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ (مخالف) لوگوں سے (یوں) ڈرنے لگا جیسے اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اس سے بھی بڑھ کر۔ اور کہنے لگے: اے ہمارے رب! تو نے ہم پر (اس قدر جلدی) جہاد کیوں فرض کر دیا؟ تو نے ہمیں مزید تھوڑی مدت تک مہلت کیوں نہ دی؟ آپ (انہیں) فرما دیجئے کہ دنیا کا مفاد بہت تھوڑا (یعنی معمولی شے) ہے، اور آخرت بہت اچھی (نعمت) ہے اس کے لئے جو پرہیزگار بن جائے، وہاں ایک دھاگے کے برابر بھی تمہاری حق تلفی نہیں کی جائے گی،
English Sahih:
Have you not seen those who were told, "Restrain your hands [from fighting] and establish prayer and give Zakah"? But then when battle was ordained for them, at once a party of them feared men as they fear Allah or with [even] greater fear. They said, "Our Lord, why have You decreed upon us fighting? If only You had postponed [it for] us for a short time." Say, "The enjoyment of this world is little, and the Hereafter is better for he who fears Allah. And injustice will not be done to you, [even] as much as a thread [inside a date seed]."
1 Abul A'ala Maududi
تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر کہتے ہیں خدایا! یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی؟ ان سے کہو، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے، اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا
2 Ahmed Raza Khan
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا اپنے ہاتھ روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں بعضے لوگوں سے ایسا ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرے یا اس سے بھی زائد اور بولے اے رب ہمارے! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا تھوڑی مدت تک ہمیں اور جینے دیا ہوتا، تم فرما دو کہ دنیا کا برتنا تھوڑا ہے اور ڈر والوں کے لئے آخرت اچھی اور تم پر تاگے برابر ظلم نہ ہوگا
3 Ahmed Ali
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکواة دو پھر جب انہیں لڑنے کا حکم دیا گیا اس وقت ان میں سے ایک جماعت لوگوں سے ایسا ڈرنے لگی جیسا الله کا ڈر ہو یا اس سے بھی زیادہ ڈر اور کہنے لگے اے رب ہمارے تو نے ہم پر لڑنا یوں فرض کیا کیوں نہ ہمیں تھوڑی مدت اور مہلت دی ان سے کہ دو دنیا کا فائدہ تھوڑا ہے اور آخرت پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے اور ایک تاگے کے برابر بھی تم سے بے انصافی نہیں کی جائے گی
4 Ahsanul Bayan
کیا تم نے نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوۃ ادا کرتے رہو، پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالٰی کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اور کہنے لگے اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا (١) کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دیا؟ (٢) آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روانہ رکھا جائے گا۔
٧٧۔١ مکے میں مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے لڑنے کے قابل نہیں تھے اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجود انہیں قتال سے روکے رکھا گیا اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی، ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویے کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ نماز، زکوۃ اور دیگر عبادات و تعلیمات پر عمل کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالٰی سے ربط و تعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جائے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسمانوں کی طاقت مجتمع ہوگئی تو پھر انہیں قتال کی اجازت دے دی گئی اور جب اجازت دے دی گئی تو بعض لوگوں نے کمزوری اور پست ہمتی کا اظہار کیا۔ اس پر آیت میں مکی دور کی ان کی آرزو یاد دلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب یہ مسلمان حکم جہاد سن کر خوف زدہ کیوں ہو رہے ہیں جب کہ یہ حکم جہاد خود ان کی اپنی خوہش کے مطاپق ہے۔ آیات قرآن میں تحریف ; آیت کا پہلا حصہ جس میں کف ایدی (لڑائی سے ہاتھ روکے رکھنے) کا حکم ہے۔
٧٧۔٢ اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس حکم کو کچھ اور مدت کے لئے مؤخر کیوں نہ کر دیا یعنی اَجلٍ قَریبٍ سے مراد موت یا فرض جہاد کی مدت ہے (ابن کثیر)۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو (پہلے یہ) حکم دیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو (جنگ سے) روکے رہو اور نماز پڑھتے رہو اور زکوٰة دیتے رہو پھر جب ان پر جہاد فرض کردیا گیا تو بعض لوگ ان میں سے لوگوں سے یوں ڈرنے لگے جیسے خدا سے ڈرا کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بڑبڑانے لگے کہ اے خدا تو نے ہم پر جہاد (جلد) کیوں فرض کردیا تھوڑی مدت اور ہمیں کیوں مہلت نہ دی (اے پیغمبر ان س) ے کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے اور بہت اچھی چیز تو پرہیزگار کے لئے (نجات) آخرت ہے اور تم پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا
6 Muhammad Junagarhi
کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوٰة ادا کرتے رہو۔ پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیاده، اور کہنے لگے اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا؟ کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دی؟ آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سودمندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رہو اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ پھر جب ان پر جدال و قتال فرض کر دیا گیا۔ تو ان میں سے ایک گروہ انسانوں سے اس طرح ڈرنے لگا، جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے یا اس سے بھی زیادہ۔ اور کہنے لگا پروردگار! تو نے کیوں (اتنا جلدی) ہم پر جہاد فرض کر دیا۔ اور تھوڑی مدت تک ہمیں مہلت کیوں نہ دی؟ (اے نبی) کہہ دیجیے کہ دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور جو متقی و پرہیزگار ہے اس کے لئے آخرت بہت بہتر ہے اور تم پر کھجور کی گھٹلی کے ریشہ برابر (ذرہ بھی) ظلم نہیں کیا جائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو, زکوِٰادا کرو(تو بے چین ہوگئے) اور جب جہاد واجب کردیا گیا تو ایک گروہ لوگوں(دشمنوں) سے اس قدر ڈرتا تھا جیسے خدا سے ڈرتا ہو یا اس سے بھی کچھ زیادہ اور یہ کہتے ہیں کہ خدایا اتنی جلدی کیوں جہاد واجب کردیا کاش تھوڑی مدت تک اور ٹال دیاجاتا پیغمبرآپ کہہ دیجئے کہ دنیا کا سرمایہ بہت تھوڑا ہے اور آخرت صاحبانِ تقوٰی کے لئے بہترین جگہ ہے اور تم پر دھاگہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
بھلا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو (پہلے یہ) حکم دیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو (جنگ سے) روکے رہو اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو پھر جب ان پر جہاد فرض کردیا گیا تو بعض لوگ ان میں سے لوگوں سے یوں ڈرنے لگے جیسے خدا سے ڈرا کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بڑ بڑانے لگے کہ اے خدا تو نے ہم پر جہاد (جلد) کیوں فرض کردیا ؟ تھوڑی مدت اور ہمیں کیوں مہلت نہ دی ؟ (اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے) کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے اور بہت اچھی چیز تو پرہیزگار کے لئے (نجات) آخرت ہے اور تم پر دھاگے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا
آیت نمبر ٧٧ تا ٨٧
ترجمہ : کیا تم نے انھیں نہیں دیکھا جنہیں حکم دیا گیا کہ کافروں کے ساتھ قتال سے ہاتھ روکے رکھو، جبکہ انہوں نے مکہ میں کفار کی ایذا رسانی کی وجہ سے جہاد کا مطالبہ کیا، اور وہ صحابہ کی ایک جماعت تھی اور نماز پڑھتے رہو اور زکوة ادا کرتے رہو، پھر ھب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو اسی وقت ایک جماعت ان میں سے کافروں سے ڈرنے لگی، یعنی قتل کے ذریعہ ان کے عذاب سے جیسا کہ وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں بلکہ اس خوف سے بھی بڑھکر اور اشَدَّ ، کا نصب حال ہونے کی وجہ سے ہے اور \& لَمَّا \& کے جواب پر اذا اور اس کا مابعد دلالت کررہا ہے، یعنی ان کو اچانک خوف لاحق ہوگیا، اور کہنے لگے اے ہمارے پروردگار تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کیا ؟ کیوں نہ ہم کو تھوڑی سی زندگی اور جینے دی ؟ آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی (یعنی) سامان عیش جس سے تم نفع اندوز ہوتے ہو یا نفع اندوز ہونا، تو بہت کم ہے (یعنی) اس کا انجام فنا ہے اور ترک معصیت کرکے اللہ کے عذاب سے ڈرنے کیلئے آخرت یعنی جنت بہتر ہے اور تمہارے اعمال (حسنہ) میں کمی کرکے ایک دھاگے یعنی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی ظلم نہ کیا جائیگا تم جہاں کہیں بھی ہوگے گو تم مضبوط اونچے قلعوں میں ہو موت تم کو آپکڑے گی لہٰذا موت کے خوف سے جہاد سے مت ڈرو، اور اگر یہودیوں کو کوئی بھلائی (مثلاً ) خشک سالی اور مصیبت پہنچتی ہے جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ آمد کے وقت (خشک سالی) لاحق ہوئی تھی، تو کہتے ہیں اے محمد یہ تیری یعنی تیری نحوست کی وجہ سے ہے آپ ان سے کہہ دو یہ سب خواہ بھلائی یا برائی سب اللہ کی طرف سے ہے ان لوگوں کو کیا ہوگیا کہ کوئی بات جو ان کو بتائی جائے سمجھنے کے قریب بھی نہیں ہیں اور \& ما \& استفہام تعجبی کے لئے ہے، ان کی کثرت جہالت سے، قرب فعل کی نفی (نفس) فعل کی نفی سے شدید تر ہوتی ہے اے انسان جو بھی خیر تجھکو پہنچتی ہے سو وہ اللہ کی طرف سے ہے یعنی اس کے فضل سے ہے اور جو مصیبت تجھ کو پہنچتی ہے تو وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے اس طریقہ پر کہ تو گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے جو موجبات مصائب میں سے ہے، اور اے محمد ہم نے تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے رسولا، حال مؤکدہ ہے اور تیری رسالت پر اللہ کی شہادت کافی ہے جو رسول کی اطاعت کرے اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے آپ کی اطاعت سے اعراض کیا تو آپ رنجیدہ نہ ہوں اس لئے کہ ہم نے آپ کو ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا، یعنی ان کے اعمال کا نگران، بلکہ ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، اور ان کا معاملہ ہماری ہی طرف لوٹنے والا ہے، لہٰذا ہم ان کو جزاء دیں گے، اور یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے کا ہے، منافقین جب آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ کی فرمانبرداری ہے مگر جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں (بَیَّتْ طَّآئفة) میں تاء کو طاء میں ادغام کرکے اور بغیر ادغام کے، تو ان میں کی ایک جماعت رات کو اس کے خلاف مشورہ کرتی ہے جو آپ کے حضور طاعت کی بات کرتی ہے یعنی آپ کی نافرمانی کا مشورہ کرتی ہے اور اللہ ان کے اعمال ناموں میں لکھوالیتا ہے جو یہ راتوں کو مشورہ کرتے ہیں۔
نوٹ : بَیَّتَ ، کی تفسیر اَضْمَرْتَ سے تسامح ہے، اسلئے کہ عصیان و نافرمانی کا تعلق آپ کے پاس سے نکلنے سے متعلق نہیں تھا بلکہ مجلس میں موجودگی کی صورت میں عصیان و نافرمانی ان کے دلوں میں ہوتی تھی، لہٰذا بیّت کی تفسر رات کو مشورہ کرنا انسب ہے، سو آپ ان سے درگزر کرکے منہ پھیر لیں اور اللہ پر بھروسہ کریں، اسلئے کہ وہ آپ کے لئے کافی ہے، اللہ کارسازی کیلئے کافی ہے کیا یہ لوگ قرآن میں اور اس کے معانی میں غور نہیں کرتے جو اس میں موجود ہیں اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے، یعنی اس کے معانی میں تناقض اور نظم میں تباین پاتے جہاں ان کے پاس کوئی بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سرایا کی پہنچی جو ان کو آئی خواہ نصرت کی ہو یا ھزیمت کی تو اس کو شہرت دینا شروع کردیتے ہیں (یہ آیت) منافقین کی ایک جماعت یا کمزور ایمان والے مومنوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ایسا کرتے تھے، اور اگر یہ لوگ رسول کو اور صحابہ میں سے ذمہ دار اکابر صحابہ کو پہنچادیتے یعنی اگر یہ لوگ سکوت اختیار کرتے تاآنکہ ان کو اس معاملہ کی خبر دیدی جاتی، تو یہ لوگ جو اس خبر کی تحقیق کے درپے ہیں اور اس خبر کی جانکاری حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ وہی شہرت دینے والے لوگ ہیں تو اس بات کو جان لیتے کہ یہ خبر شہرت دینے کی لائق ہے یا نہیں، اور اگر اسلام کے ذریعہ تم پر اللہ کا فضل اور قرآن کے ذریعہ تم پر اس کی رحمت نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم بےحیائی کی باتوں میں جن کا تم کو شیطان حکم کرتا ہے شیطان کے پیروبن جاتے اے محمد تو خدا کی راہ میں جہاد کرتا رہ تجھ کو تیری ذات کی نسبت حکم دیا جاتا ہے لہٰذا آپ سے ان کے پیچھے رہ جانے پر آپ رنجیدہ نہ ہوں، مطلب یہ کہ تم جہاد کرو اگرچہ تم تنہا ہو اس لئے نصرت کا وعدہ آپ سے ہے، اور ایمان والوں کو رغبت دلاتے رہئے یعنی مومنوں کو جہاد پر آمادہ کرتے رہئے اور ان کو رغبت دلاتے رہئے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی جنگ کو روک دے اور اللہ تعالیٰ ان سے باعتبار موت کے باعتبار عذاب کے ان سے شدید تر ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کہ جس کے قبضہ میں میری کان ہے میں ضرور (جہاد کیلئے) نکلوں گا اگرچہ میں اکیلا ہی کیوں نہ ہوں، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (صرف) ستر (٧٠) سواروں کے ساتھ بدر صغریٰ کی جانب نکل پڑے تو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے حملہ کو انکے دلوں میں رعب ڈال کر روک دیا، اور ابوسفیان کو (جنگ کے لئے) نکلنے سے روک کر، جیسا کہ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے، جو شخص لوگوں کے درمیان شریعت کے مطابق بھلائی کی سفارش کرے تو اس کو بھی اس کی وجہ سے اجر کا حصہ ملے گا، اور جو شخص شریعت کے خلاف برائی کرے گا تو اس سفارش کی وجہ سے گناہ کا ایک حصہ ملے گا، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے لہٰذا ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا، اور جب تم کو سلام کیا جائے مثلا تم سے کہا جائے سلام علیکم، تو تم سلام کرنے والے کو اس کے سلام سے اچھا جواب دو اس طریقہ پر کہ تم اس سے کہو وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ \&، یا ان ہی الفاظ کو لوٹا دو ، اس طریقہ پر کہ جیسا اس نے کہا ہے تم بھی ویسا ہی کہدو، یعنی ان میں سے ایک واجب ہے، مگر پہلا افضل ہے بلا شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والے ہیں، لہٰذا ہر (عمل) کی جزاء دے گا، اور ان ہی میں سے سلام کا جواب دینا بھی ہے، اور شریعت نے مستثنیٰ کردیا ہے کافر کو اور بدعتی کو اور قضائے حاجت کرنیوالے پر سلام کرنے والے کو اور اس شخص پر جو حمام میں ہو اور کھانے والے پر کہ ان کو سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے بلکہ اخیر کے علاوہ میں مکروہ ہے اور کافر کے جواب میں کہا جائیگا وعَلَیْکَ (یعنی تجھ پر بھی) اللہ وہ ہے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تم کو یقینا رتمہاری قبروں سے قیامت کے دن جمع کرے گا اس میں کوئی شک نہیں، اور اللہ سے زیادہ بات والا کون ہوگا ؟ کوئی نہیں۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : مِنْ خَشْیَتِھمْ الخ اس میں اشارہ ہے کہ اس کا عطف کخشیة اللہ پر ہے۔
قولہ : ونَصْب علی الحال یعنی کخشیة اللہ سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے تقدیر عبارت یہ ہے یخشَوْنَ الناسَ مِثلَ خَشْیةِ اللہ .
قولہ : اَوْاَشَدَّ خَشْیَةً بھی حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اسلئے کہ اس کا عطف کخشیةِ اللہ پر ہے، اس میں ان لوگوں کے قول کی تردید ہے جو کہتے ہیں خشیة اللہ مصدریة کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : جَوابُ لَمَّادَلَّ علیہ اِذا، مناسب یہ تھا کہ مفسرّعلاّم و جواب لمّا اِذَا وَ مَا بعدھا، فرماتے۔
قولہ : اِذافَرِیْق مِّنْھُمْ ، میں اذا مفاجاتیہ قائم مقام فاء ہے فَلَمّا کَتَبَ ، لَمَّا کا جواب ہے۔
قولہ : جَزَعاً مِنَ الْمَوْتِ ، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ لِمَ کتبتَ علینا القتال، بطور اعتراض نہیں تھا بلکہ موت سے خوف طبعی کی وجہ سے تھا اسلئے کہ قائلین خیار صحابہ تھے۔
قولہ : مایُتَمتّعُ بہ، اس میں اشارہ ہے کہ متاع مصدر بمعنی مفول ہے۔
قولہ : اولاِ سْتِمْتَاعُ بھا اس میں اشارہ ہے کہ مَتَاع سے مصدری مراد ہوسکتے ہیں۔
قولہ : بِھَا، ای بعین المتاع .
قولہ : بَیَّتَ طَائِفَة، بیّتَ کا فاعل طائفة ہے، طائفة چونکہ مؤنث غیر حقیقی ہے جس کے لئے فعل کا مذکر اور مؤنث دونوں لانا جائز ہے، مفسر علام نے، بَیَّتَ ، کی تفسیر اضمرت سے کی ہے، اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ منافقین جب آپ کے پاس سے باہر آتے تھے تو آپ کے قول کے برخلاف دل میں پوشیدہ رکھتے تھے حالانکہ یہ مفہوم مناسب نہیں اسلئے کہ آپ کے قول کے برخلاف تو ان کے دلوں میں اس وقت بھی مضمر ہوتا تھا جبکہ وہ آپ کی مجلس میں ہوتے تھے اسلئے کہ منافقین مجلس میں سمعنا وعصینا کہا کرتے تھے، مفسر علام اگر بیّتَ کی تفسیر تدبیر الامر لیلاً سے کرتے تو زیادہ مناسب ہوتا اسلئے کہ منافقین خفیہ تدبیریں کرتے تھے۔
قولہ : المُذِیْعُوْنَ افواہ پھیلا نیوالے۔
تفسیر وتشریح
شان نزول : الم تَرَاِلَی الَّذِیْنَ قیل لَھُمْ کُفُّوْااَیْدیَکم مکہ میں ہجرت سے پہلے کافر مسلمانوں کو بہت ستایا کرتے تھے کوئی دن ایسا نہیں گذرتا تھا کہ ایک نہ ایک مسلمان مشرکوں کے دست ستم سے زخم خوردہ ہو کر نہ آتا ہو، مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا اس وقت مسلمانوں کی تعداد مکہ میں اچھی خاصی ہوچکی تھی، مسلمان سوچنے پر مجبور ہوئے کہ آخر کب تک ہم اسی طرح ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے ؟ مسلمانوں کی ایک جماعت جس میں عبدالرحمٰن بن عوف اور دیگر چند اصحاب شامل تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا نبی اللہ جب ہم مشرک تھے تو باعزت تھے اور جبکہ ہم مسلمان ہوگئے تو ذلیل ہوگئے، تو آپ نے فرمایا، مجھے درگذر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا تم قوم سے مقابلہ نہ کرو، (حضرت ابن عباس (رض) سے نسائی وابن جریرو ابن ابی حاتم وغیرہ نے نقل کیا ہے) ۔
ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کو جہاد کا حکم ہوا تو ان کو حوش ہونا چاہیے تھا کہ ہماری دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور بارگاہ ایزدی میں دعاء شرف قبولیت کو پہنچی، مگر بعض ضعیف الایمان مسلمان کافروں کے مقابلہ سے ایسے خوف زدہ ہونے لگے جیسا کہ اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے، اور سوچنے لگے کہ کاش تھوڑی مدت اور قتال کا حکم نہ آتا، اس پر مذکورہ آیتیں نازل ہوئیں۔
ظاہر بات ہے کہ مسلمانوں کی جہاد سے مہلت کی تمنا درحقیقت کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ یہ ایک طبعی اور فطری بات تھی، دوسری بات یہ تھی کہ جب مسلمان مکہ میں تھے تو مشرکوں کی ایذاؤں سے تنگ آکر جہاد کے حکم کی تمنا کررہے تھے، گویا کہ تنگ آمد، کا مصداق تھے، لیکن جب مدینہ میں آکر قدرے سکون نصیب ہوا، ایسی صورت میں جب قتال کا حکم نازل ہوا تو سابق جذبہ کم ہوچکا تھا۔
بعض مفسرین کے نزدیک آیت کا تعلق مسلمانوں سے نہیں بلکہ منافقین سے ہے اس صورت میں کسی قسم کا اشکال نہیں۔ (فتح القدیر، تفسیر کبیر، معارف)
10 Tafsir as-Saadi
جب مسلمان مکہ مکرمہ میں تھے تو انہیں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا گیا تھا، یعنی محتاجوں کی غمگساری کرنا اور اس سے مراد وہ معروف زکوٰۃ نہیں جو ایک مخصوص نصاب کے مطابق اور مخصوص شرائط کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ یہ زکوٰۃ مدینہ منورہ میں فرض ہوئی تھی اسی طرح اس وقت تک متعدد فوائد کی بنا پر جہاد کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ مثلاً
(١) اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے بندوں پر شریعت کے احکام اس طرح فرض کرے کہ وہ ان پر شاق نہ گزریں۔ سب سے پہلے اہم ترین امر کا حکم دے، پھر آسان امور سے ابتدا کر کے بتدریج مشکل امور کا حکم دے۔
(٢) اگر اہل ایمان پر ان کی قلت تعداد و قلت سامان اور کثرت اعداء کے باوجود قتل فرض کردیا جاتا تو یہ چیز اسلام کو مضمحل کردیتی۔ اس لیے چھوٹی مصلحت کو نظر انداز کر کے بڑی مصلحت کی رعایت رکھی گئی اور اس میں اس قسم کی دیگر حکمتیں تھیں۔
بعض اہل ایمان چاہتے تھے کہ اس حال میں بھی ان پر قتال فرض کردیا جاتا مگر ان حالات میں ان پر جہاد فرض کیا جانا مناسب نہ تھا۔ اس وقت ان لوگوں کے لیے مناسب یہی تھا کہ وہ توحید، نماز، زکوٰۃ اور اس نوع کے دیگر احکام پر عمل کرتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا ﴾(النساء :4؍66) ” اگر یہ اس نصیحت پر عمل کرتے جو ان کو کی جاتی ہے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور دین میں زیادہ ثابت قدمی اور استقامت کا باعث ہوتا۔ “
جب مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور اسلام قوی ہوگیا تومناسب وقت پر ان پر قتال فرض کردیا گیا۔ وہ لوگ جو اس سے قبل قتال فرض ہونے کے لیے جلدی مچاتے تھے ان میں سے ایک گروہ نے لوگوں کے خوف، کمزوری اور بزدلی کی وجہ سے کہا۔ ﴿ رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ﴾ ” اے ہمارے رب تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟“ ان الفاظ سے ان کی تنگ دلی اور اللہ تعالیٰ پر اعتراض کا اظہار ہوتا ہے حالانکہ ان کے لیے مناسب حال یہ تھا کہ وہ اس سے متضاد رویہ کا اظہار کرتے یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا اور اس کے اوامر پر صبر کرنا، مگر جو کچھ ان سے مطلوب تھا انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ پس انہوں نے کہا ﴿لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ﴾ ” تھوڑی مدت اور ہمیں کیوں مہلت نہ دی۔“ یعنی تو نے قتال کی فرضیت کچھ عرصہ اور مؤخر کیوں نہ کردی۔ غالب طور پر اس قسم کی صورت ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو غیر سنجیدہ ہوتے ہیں اور تمام امور میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا غالب رویہ یہ ہوتا ہے کہ ان امور کے نازل ہونے پر یہ لوگ صبر نہیں کرسکتے۔ یہ امور ان کے لیے بوجھل تو نہیں مگر یہ لوگ بہت ہی کم صبر سے بہرہ ور ہیں۔
جن حالات میں وہ جہاد سے جی چرا کر بیٹھ رہے ان سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو نصیحت کی چنانچہ فرمایا : ﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ﴾ ” آپ کہہ دیجیے دنیا کا فائدہ تو بہت ہی کم ہے اور آخرت اس شخص کے لیے بہتر ہے جو متقی ہے“ یعنی دنیا کی لذت اور راحت سے فائدہ اٹھانا بہت ہی کم عرصہ کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں تھوڑی سی مدت کے لیے بھاری بوجھ اٹھانا نفوس انسانی کے لیے آسان اور ہلکا ہوتا ہے کیونکہ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشقت جو وہ برداشت کر رہا ہے طویل عرصے کے لیے نہیں ہے تو اس کے لیے اس کو برداشت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ تب کیا کیفیت ہوگی جب تو دنیا اور آخرت کا موازنہ کرے اور معلوم ہو کہ آخرت اپنی ذات اور لذات میں اور زمان کے اعتبار سے دنیا سے کہیں بہتر ہے۔ جنت کی ذات کے بارے میں ایک صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” جنت میں ایک کوڑے کے برابر جگہ دینا اور اس کی موجودات سے کہیں بہتر ہے۔“ [جامع ترمذي، تفسير، باب و من سورة آل عمران، حديث: 3513]
جنت کی لذتیں ہر قسم کی کدورتوں سے پاک ہیں بلکہ لذت کا جو تصور بھی فکر و خیال کی گرفت میں آسکتا ہے۔ جنت کی لذتیں اس پر فوقیت رکھتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ ﴾(السجدہ :32؍17) ” کوئی انسان نہیں جانتا کہ ان کے لیے (جنت میں) کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔“ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر فرمایا :” میں نے (جنت میں) اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی کے خیال میں ان کا کبھی گزر ہوا ہے۔“ [مسند احمد: 2؍ 438]
رہی دنیا کی لذتیں تو یہ مختلف قسم کی کدورتوں کے شائبے سے پاک نہیں ہوتیں۔ اگر ان لذات کا ان آلام و مصائب اور غم و ہموم سے مقابلہ کیا جائے جو ان لذات کے ساتھ ملے ہوتے ہیں تو جنت کی لذتوں کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے ان کی کوئی نسبت ہی نہیں۔ رہا ان لذات کا زمانہ، تو دنیا آخر کار ختم ہوجائے گی اور انسان کی عمر، دنیا کی نسبت سے نہایت ہی معمولی سا عرصہ ہے۔ آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں اور وہاں کے رہنے والوں کے لیے ہمیشہ کی زندگی ہے۔ جب عقلمند شخص ان دو گھروں کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے اور ان کی حقیقت کا تصور کرتا ہے جیسا کہ تصور کرنے کا حق ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ ان میں سے کو نسا گھر ترجیح کا مستحق ہے؟ کس کے لیے کوشش کرنی چاہئے اور کس کی طلب میں اسے جدوجہد کرنی چاہئے؟ ﴿ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ﴾” اور پرہیز گار کے لیے آخرت تو بہت اچھی چیز ہے۔“ یعنی جو کوئی شرک اور دیگر تمام محرمات سے بچتا ہے اس کے لیے آخرت بہتر ہے۔ ﴿وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا﴾” اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا“ تم آخرت کے گھر کے لیے جو دوڑ دھوپ کرو گے تو اس کا کامل اور وافر اجر پاؤ گے جس میں کچھ بھی کم نہ ہوگی۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tum ney unn logon ko nahi dekha jinn say ( makki zindagi mein ) kaha jata tha kay apney haath rok ker rakho , aur namaz qaeem kiye jao aur zakat detay raho . phir jab unn per jang farz ki gaee to unn mein say aik jamat ( dushman ) logon say aesi darney lagi jaisay Allah say dara jata hai , ya uss say bhi ziyada darney lagi , aur aesay log kehney lagay kay aey humaray perwerdigar ! aap ney hum per jang kiyon farz kerdi , thori mauddat tak hamen mohlat kiyon nahi di-? keh do kay duniya ka faeeda to thora saa hai , aur jo shaks taqwa ikhtiyar keray uss kay liye aakhirat kahen ziyada behtar hai , aur tum per aik tagay kay barabar bhi zulm nahi hoga .
12 Tafsir Ibn Kathir
اولین درس صبر و ضبط
واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ ابتدائے اسلام میں جب مکہ شریف میں تھے کمزور تھے حرمت والے شہر میں تھے کفار کا غلبہ تھا یہ انہی کے شہر میں تھے وہ بکثرت تھے جنگی اسباب میں ہر طرح فوقیت رکھتے ہیں، اس لئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد و قتال کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ ان سے فرمایا تھا کہ کافروں کی ایذائیں سہتے چلے جائیں ان کی مخالفت برداشت کریں، ان کے ظلم و ستم برداشت کریں، جو احکام اللہ نازل ہوچکے ہیں ان پر عامل رہیں نماز ادا کرتے رہیں زکوٰۃ دیتے رہا کریں، گو ان میں عموماً مال کی زیادتی بھی نہ تھی لیکن تاہم مسکینوں اور محتاجوں کے کام آنے کا اور ان کی ہمدردی کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا مصلحت الٰہی کا تقاضہ یہ تھا کہ سردست یہ کفار سے نہ لڑیں بلکہ صبر و ضبط سے کام لیں ادھر کافی بڑی دلیری سے ان پر ستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے ہر چھوٹے بڑے کو سخت سے سخت سزائیں دے رہے تھے، مسلمانوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا اس لئے ان کے دل میں رہ رہ کر جوش اٹھتا تھا اور زبان سے الفاظ نکل جاتے تھے کہ اس روز مرہ کی مصیبتوں سے تو یہی بہتر ہے کہ ایک مرتبہ دل کی بھڑاس نکل جائے، دو دو ہاتھ میدان میں ہو لیں کاش کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جہاں کا حکم دے دے، لیکن اب تک حکم نہیں ملا تھا، جب انہیں ہجرت کی اجازت ملی اور مسلمان اپنی زمین، زر، رشتہ، کنبے، اللہ عزوجل کے نام پر قربان کر کے اپنا دین لے کر مکہ سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے یہاں انہیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی سہولت دی امن کی جگہ دی امداد کے لئے انصار مدینہ دئیے، تعداد میں کثرت ہوگئی قوت و طاقت قدر بڑھ گئی تو اب اللہ حاکم مطلق کی طرف سے اجازت ملی کہ اپنے لڑنے والوں سے لڑو، جہاد کا حکم اترتے ہی بعض لوگ سٹ پٹائے، خوف زدہ ہوئے جہاد کا تصور کر کے میدان میں قتل کئے جانے کا تصور عورتوں کے رنڈاپے کا خیال، بچوں کی یتیمی کا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا گھبراہٹ میں کہہ اٹھے کہ اے اللہ ابھی سے جہاد کیوں فرض کردیا کچھ تو مہلت دی ہوتی۔ اسی مضمون کو دوسری آیتوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ( وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ ۚ فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّذُكِرَ فِيْهَا الْقِتَالُ ) 47 ۔ محمد :20) مختصر مطلب یہ ہے کہ ایماندار کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی جاتی جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں جہاد کا ذکر ہوتا ہے تو بیمار دل لوگ چیخ اٹھتے ہیں ٹیڑھے تیوروں سے تجھے گھورتے ہیں اور موت کی غشی والوں کی طرح اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہی ان پر افسوس ہے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور آپ کے ساتھی مکہ شریف میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اے نبی اللہ ہم کفر کی حالت میں منع کرتے ہیں جن سے کفار کی جرأت بڑھ گئی ہے۔ اور وہ ہمیں ذلیل کرنے لگے ہیں تو آپ ہمیں مقابلہ کی اجازت کیوں نہیں دیتے ؟ ) لیکن آپ نے جواب دیا مجھے اللہ کا حکم یہی ہے کہ ہم درگزر کریں کافروں سے جنگ نہ کریں۔ پھر جب مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی اور جہاد کے احکام نازل ہوئے تو لوگ ہچکچانے لگے اس پر یہ آیت اتری (نسائی حاکم ابن مردویہ) سدی فرماتے ہیں صرف صلوۃ و زکوٰۃ کا حکم ہی تھا تو تمنائیں کرتے تھے کہ جہاد فرض ہو جب فریضہ جہاد نازل ہوا تو کمزور دل لوگ انسانوں سے ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ کہنے لگے اے رب تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کیا کیوں ہمیں اپنی موت کے صحیح وقت تک فائدہ نہ اٹھانے دیا۔ انہیں جواب ملتا ہے کہ دنیوی نفع بالکل ناپائیدار اور بہت ہی کم ہے ہاں متقیوں کے لئے آخرت دنیا سے بہتر اور پاکیزہ تر ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری ہے، جواباً کہا گیا کہ پرہیزگاروں کا انجام آغاز سے بہت ہی اچھا ہے۔ تمہیں تمہارے اعمال پورے پورے دیئے جائیں گے کامل اجر ملے گا ایک بھی نیک عمل غارت نہ کیا جائے گا ناممکن ہے کہ ایک بال برابر ظلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کیا جائے۔ اس جملے میں انہیں دنیا سے بےرغبتی دلائی جا رہی ہے آخرت کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جہاد کی رغبت دی جا رہی ہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ اس بندے پر رحم کرے جو دنیا کے ساتھ ایسا ہی رہے ساری دنیا اول سے آخرت تک اس طرح ہے جیسے کوئی سویا ہوا شخص اپنے خواب میں اپنی پسندیدہ چیز کو دیکھے لیکن آنکھ کھلتے ہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو مصہر کا یہ کلام کتنا پیارا ہے
ولا خیر فی الدنیا لمن لم یکن لہ
من اللہ فی دار المقام نصیب
فان تعجب الدنیا رجالا فانھا
متاع قلیل والزوال قریب
یعنی اس شخص کے لئے دنیا بھلائی سے یکسر خالی ہے جسے کل آخرت کا کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔ گو دنیا کو دیکھ دیکھ کر بعض لوگ ریجھ رہے ہیں لیکن دراصل یہ یونہی سا فائدہ ہے اور وہ بھی جلد فنا ہوجانے والا۔ پھر ارشاد باری ہے کہ آخرش موت کا مزا ہر ایک چکھنا ہی ہے کوئی ذریعہ کسی کو اس سے بچا نہیں سکتا، جسے فرمان ہے (كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ) 55 ۔ الرحمن :26) جتنے یہاں ہیں سب فانی ہیں، اور جگہ ارشاد ہے (كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ) 3 ۔ آل عمران :185) ہر ہر جاندار مرنے والا ہے فرماتا ہے (وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ) 21 ۔ الانبیآء :34) تجھ سے اگلے لوگوں میں سے بھی کسی کے لئے ہم نے ہمیشہ کی زندگی مقرر نہیں کی۔ مقصد یہ ہے کہ خواہ جہاد کرلے یا نہ کرے ذات اللہ کے سوا موت کا مزا تو ایک نہ ایک روز ہر کسی کو چکھنا ہی پڑے گا۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے اور ہر ایک کی موت کی جگہ معین ہے، حضرت خالد بن ولید (رض) اس قوت جبکہ آپ بستر مرگ پر ہیں فرماتے ہیں اللہ کی قسم فلاں جگہ فلاں جگہ غرض بیسیوں لڑائیوں میں سینکڑوں معرکوں میں گیا ثابت قدمی پامردی کے ساتھ دلیرانہ جہاد کئے آؤ دیکھ لو میرے جسم کا کوئی عضو ایسا نہ پاؤ گے جہاں کوئی نہ کوئی نشان نیزے یا برچھے یا تیر یا بھالے کا تلوار اور ہتھیار کا نہ ہو لیکن چونکہ میدان جنگ میں موت نہ لکھی تھی اب دیکھو اپنے بسترے پر اپنی موت کے پنجے سے بلند وبالا مضبوط اور مضبوظ قلعے اور محل بھی بچا نہیں سکتے۔ بعض نے کہا مراد اس سے آسمان کے برج ہیں، لیکن یہ قول ضعیف ہے صحیح یہی ہے کہ مراد محفوظ مقامات ہیں یعنی کتنی ہی حفاظت موت سے کی جائے۔ لیکن وہ اپنے وقت سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتی زہیر کا شعر ہے کہ موت سے بھاگنے والا گو زینہ لگا کر اسباب آسمانی بھی جمع کرلے تو بھی اسے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا، ایک قول ہے مشیدہ بہ تشدید مشید بغیر تشدید ایک ہی معنی میں ہیں اور بعض ان دونوں میں فرق کے قائل ہیں کہتے ہیں کہ اول کا معنی مطول دوسرے کا معنی مزین یعنی چونے سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں اس موقعہ پر ایک مطول قصہ بزبان حضرت مجاہد مروی ہے کہ اگلے زمانے میں ایک عورت حاملہ تھی جب اسے درد ہونے لگے اور بچی تولد ہوئی تو اس نے اپنے ملازم سے کہا کہ جاؤ کہیں سے آگ لے آؤ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا لڑکی یا لڑکا ؟ اس نے کہا لڑکی ہوئی ہے کہا سن یہ لڑکی ایک سو آدمیوں سے زنا کرائے گی پھر اس کے ہاں اب جو شخص ملازم ہے اسی سے اس کا نکاح ہوگا اور ایک مکڑی اس کی موت کا باعث بنے گی۔ یہ شخص یہیں سے پلٹ آیا اور آتے ہی ایک تیز چھری لے کر اس لڑکی کے پیٹ کو چیر ڈالا اور اسے مردہ سمجھ کر وہاں سے بھاگ نکلا اس کی ماں نے یہ حال دیکھ کر اپنی بچی کے پیٹ کو ٹانکے دئیے اور علاج معالجہ شروع کیا جس سے اس کا زخم بھر گیا اب ایک زمانہ گزر گیا ادھر یہ لڑکی بلوغت کو پہنچ گئی اور تھی بھی اچھی شکل و صورت کی بدچلنی میں پڑگئی ادھر ملازم سمندر کے راستے کہیں چلا گیا کام کاج شروع کیا اور بہت رقم پیدا کی کل مال سمیٹ کر بہت مدت بعد یہ پھر اسی اپنے گاؤں میں آگیا ایک بڑھیا عورت کو بلا کر کہا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں گاؤں میں جو بہت خوبصورت عورت ہو اس سے میرا نکاح کرا دو ، یہ عورت گئی اور چونکہ شہر بھر میں اس لڑکی سے زیادہ خوش شکل کوئی عورت نہ تھی یہیں پیغام بھیجا، منظور ہوگیا، نکاح بھی ہوگیا اور وداع ہو کر یہ اس کے ہاں آ بھی گئی دونوں میاں بیوی میں بہت محبت ہوگئی، ایک دن ذکر اذکار میں اس عورت نے اس سے پوچھا آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں یہاں کیسے آگئے ؟ وغیرہ اس نے اپنا تمام ماجرا بیان کردیا کہ میں یہاں ایک عورت کے ہاں ملازم تھا اور وہاں سے اس کی لڑکی کے ساتھ یہ حرکت کرکے بھاگ گیا تھا اب اتنے برسوں کے بعد یہاں آیا ہوں تو اس لڑکی نے کہا جس کا پیٹ چیر کر تم بھاگے تھے میں وہی ہوں یہ کہہ کر اپنے اس زخم کا نشان بھی اسے دکھایا تب تو اسے یقین ہوگیا اور کہنے لگا جب تو وہی ہے تو ایک بات تیری نسبت مجھے اور بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تو ایک سو آدمیوں سے مجھ سے پہلے مل چکی ہے اس نے کہا ٹھیک ہے یہ کام تو مجھ سے ہوا ہے لیکن گنتی یاد نہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے تیری نسبت ایک اور بات بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تیری موت کا سبب ایک مکڑی بنے گی، خیر چونکہ مجھے تجھ سے بہت زیادہ محبت ہے میں تیرے لئے ایک بلند وبالا پختہ اور اعلیٰ محل تعمیر کرا دیتا ہوں اسی میں تو رہ تاکہ وہاں تک ایسے کیڑے مکوڑے پہنچ ہی نہ سکیں چناچہ ایسا ہی محل تیار ہوا اور یہ وہاں رہنے لگی، ایک مدت کے بعد ایک روز دونوں میاں بیوی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک چھت پر ایک مکڑی دکھائی دی اسے دیکھتے ہیں اس شخص نے کہا دیکھو آج یہاں مکڑی دکھائی دی عورت بولی اچھا یہ میری جان لیوا ہے ؟ تو میں اس کی جان لوں گی غلاموں کو حکم دیا کہ اسے زندہ پکڑ کر میرے سامنے لاؤ نوکر پکڑ کرلے آئے اس نے زمین پر رکھ کر اپنے پیر کے انگوٹھے سے اسے مل ڈالا اس کی جان نکل گئی لیکن اس میں سے پیپ کا ایک آدھ قطرہ اس کے انگوٹھے کے ناخن اور گوشت کے درمیان اڑ کر چپک گیا اس کا زہر چڑھا پیر سیاہ پڑگیا اور اسی میں آخر مرگئی، حضرت عثمان (رض) پر جب باغی چڑھ دوڑے تو آپ نے امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خیر خواہی اور ان کے اتفاق کی دعا کے بعد دو شعر پڑھے جن کا مطلب بھی یہی ہے کہ موت کو ٹالنے والی کوئی چیز اور کوئی حیلہ کوئی قوت اور کوئی چالاکی نہیں، حضر کے بادشاہ ساطرون کو کسرفی شاپور ذوالا کناف نے جس طرح قتل کیا وہ واقعہ بھی ہم یہاں لکھتے ہیں، ابن ہشام میں ہے جب شاہ پور عراق میں تھا تو اس کے علاقہ یر ساطرون نے چڑھائی کی تھی اس کے بدلے میں جب اس نے چڑھائی کی تو یہ قلعہ بند ہوگیا دو سال تک محاصرہ رہا لیکن قلعہ فتح نہ ہوسکا ایک روز ساطرون کی بیٹی نضیرہ اپنے باپ کے قلعہ کا گشت لگا رہی تھی اچانک اس کی نظر شاہ پور پر پڑھ گئی یہ اس وقت شاہانہ پر تکلف ریشمی لباس میں تاج شاہی سر پر رکھے ہوئے تھا نضیرہ کے دل میں آیا کہ اس سے میری شادی ہوجائے تو کیا ہی اچھا ہو ؟ چناچہ اس نے خفیہ پیغام بھیجنے شروع کیے اور وعدہ ہوگیا کہ اگر یہ لڑکی اس قلعہ پر شاہ پور کا قبضہ کرا دے تو شاہ پور اس سے نکاح کر لیگا اس کا باپ ساطرون بڑا شرابی تھا اس کی ساری رات نشہ میں کٹتی تھی اس کی لڑکی نے موقعہ پا کر رات کو اپنے باپ کو نشہ میں مد ہوش دیکھ کر اس کے سرہانے سے قلعہ کے دروازے کی کنجیاں چپکے سے نکال لیں اور اپنے ایک با اعتماد غلام کے ہاتھ ساطرون تک پہنچا دیں جس سے اس نے دروازہ کھول لیا اور شہر میں قتل عام کرایا اور قابض ہوگیا یہ بھی کہا گیا کہ اس قلعہ میں ایک جادو تھا جب تک اس طلسم کو توڑا نہ جائے قلعہ کا فتح ہونا ناممکن تھا اس لڑکی نے اس کے توڑنے کا گر اسے بتادیا کہ ایک چت کبرا کبوتر لے کر اس کے پاؤں کسی باکرہ کے پہلے حیض کے خون سے رنگ لو پھر اس کبوتر کو چھوڑو وہ جا کر قلعہ کی دیوار پر بیٹھے تو فوراً وہ طلسم ٹوٹ جائے گا اور قلعہ کا پھاٹک کھل جائے گا چناچہ شاہ پور نے یہی کیا اور قلعہ فتح کر کے ساطرون کو قتل کر ڈالا تمام لوگوں کو تیغ کیا اور تمام شہر کو اجاڑ دیا اور اس لڑکی کو اپنے ہمراہ لے گیا اور اس سے نکاح کرلیا۔ ایک رات جبکہ لڑکی نضیرہ اپنے بسترے پر لیٹی ہوئی تھی اسنے نیند نہ آرہی تھی سلملا رہی تھی اور بےچینی سے کروٹیں بدل رہی تھی تو شاہ پور نے پوچھا کیا بات ہے اس نے کہا میرے بستر میں کچھ ہے جس سے مجھے نید نہیں آرہی، شمع جلائی گئی بستر ٹٹولا گیا تو گل آس کی ایک بتی نکلی شاہ پور اس نزاکت پر حیران رہ گیا کہ ایک اتنی چھوٹی سی بتی بستر میں ہونے پر اسے نیند نہیں آئی ؟ پوچھا تیرے والد کے ہاں تیرے لئے کیا ہوتا تھا ؟ اس نے کہا نرم ریشم کا بسترا تھا صرف باریک نرم ریشمی لباس تھا صرف نلیوں کا گودا کھایا کرتی تھی اور صرف انگوری خالص شراب پیتی تھی۔ یہ انتظام میرے باپ نے میرے لئے کر رکھا تھا۔ یہ تھی بھی ایسی کہ اس کی پنڈلی کا گودا تک باہر سے نظر آتا تھا۔ ان باتوں سے شاہ پور پر ایک اور رنگ چڑھا دیا اور اس نے کہا جس باپ نے تجھے اس طرح پالا پوسا اس کے ساتھ تو نے یہ سلوک کیا کہ میرے ہاتھوں اسے قتل کرایا اس کے مالک کو تاخت و تاراج کرایا پھر مجھے تجھ سے کیا امید رکھنی چاہیے ؟ اللہ جانے میرے ساتھ تو کیا کرے ؟ اسی وقت حکم دیا کہ اس کے سر کے بال گھوڑے سے باندھ دیئے جائیں اور گھوڑے کو بےلگام چھوڑ دیا جائے، چناچہ یہی ہوا گھوڑا بد کا بھاگا اچھلنے کودنے لگا اور اس کی ٹاپوں سے زمین پر پچھاڑیں کھاتے ہوئے اس کے جسم کا چورا چورا ہوگیا۔ چناچہ اس واقعہ کو عرب شعراء نے نظم بھی کیا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر انہیں خوش حالی پھلواری اولاد و کھیتی ہاتھ لگے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر قحط سالی پڑے تنگ روزی ہو موت ہونے کا یہ پھل ہے صاحب ایمان بننے کا، فرعونی بھی اسی طرح برائیوں کو حضرت موسیٰ اور مسلمانوں سے منسوب بد شگونی لیا کرتے تھے جیسے کہ قرآن نے اس کا ذکر کیا ہے ایک آیت میں ہے (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ ) 22 ۔ الحج :11) یعنی بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک کنارے کھڑے رہ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں یعنی اگر بھلائی ملی تو باچھیں کھل جاتی ہیں اور اگر برائی پہنچے تو الٹے پیروں پلٹ جاتے ہیں۔ یہ ہیں جو دونوں جہان میں برباد ہوں گے پس یہاں بھی ان منافقوں کی جو بظاہر مسلمان ہیں اور دل کے کھوٹے ہیں برائی بیان ہو رہی ہے۔ کہ جہاں کچھ نقصان ہوا اور بہک گئے کہ اسلام لانے کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا۔ سدی فرماتے ہیں کہ حسنہ سے مراد یہاں بارشوں کا ہونا جانوروں میں زیادتی ہونا بال بچے بہ کثرت ہونا خوشحالی میسر آنا وغیرہ ہے اگر یہ ہوا تو کہتے کہ یہ سب من جانب اللہ ہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو اس بےبرکتی کا باعث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتاتے اور کہتے یہ سب تیری وجہ سے ہے یعنی ہم نے اپنے بڑوں کی راہ چھوڑ دی اور اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تابعداری اختیار کی اس لئے اس مصیبت میں پھنس گئے اور اس بلا میں گرفتار ہوئے پس پروردگار ان کے ناپاک قول اور اس پلید عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، اس کی قضا و قدر ہر بھلے برے فاسق فاجر نیک بد مومن کافر پر جاری ہے، بھلائی برائی سب اس کی طرف سے ہے پھر ان کے اس قول کی جو محض شک و شبہ کم علمی بےوقوفی جہالت اور ظلم کی بنا پر ہے تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہیں کیا ہوگیا ہے ؟ بات سمجھنے کی قابلیت بھی ان سے جاتی رہی۔ " ایک غریب حدیث جو (آیت کل من عند اللہ) کے متعلق ہے اسے بھی سنئے " بزار میں ہے ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھے تھے کہ کچھ لوگوں کے ہمراہ حضرت ابوبکر (رض) آئے ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب آ کر دونوں صاحب بیٹھ گئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کہ بلند آواز گفتگو کیا ہو رہی تھی ؟ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر (رض) تو کہہ رہے تھے ؟ حضرت عمر نے کہا میں کہہ رہا تھا کہ دونوں باتیں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہیں آپ نے فرمایا یہی بحث اول اول حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل وہی کہتے تھے جو ابوبکر (رض) اور حضرت عمر فاروق (رض) تم کہ رہے ہو۔ پس آسمان والوں میں جب اختلاف ہوا تو زمین والوں میں تو ہونا لازمی تھا، آخر حضرت اسرافیل کی طرف فیصلہ گیا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ حسنات اور سیات دونوں اللہ مختار کل کی طرف سے ہیں، پھر آپ نے دونوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا میرا فیصلہ سنو اور یاد رکھو اگر اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی کے عمل کو نہ چاہتا تو ابلیس کو پیدا ہی نہ کرتا، لیکن شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباس حضرت ابن تیمیہ (رح) فرماتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے اور تمام ان محدثین کا جو حدیث کی پرکھ رکھتے ہیں اتفاق ہے کہ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب فرماتے ہیں جس سے مراد عموم ہے یعنی سب سے ہی خطاب ہے کہ تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کا فضل لطف رحمت اور جو برائی پہنچتی ہے وہ خود تمہاری طرف سے تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے، جیسے اور آیت میں ہے (وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ) 42 ۔ الشوری :30) یعنی جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے۔ وہ تمہارے بعض اعمال کی وجہ سے اور بھی تو اللہ تعالیٰ بہت سی بد اعمالیوں سے دو گزر فرماتا رہتا ہے (مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ۭوَاَرْسَلْنٰكَ للنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ وَكَفٰى باللّٰهِ شَهِيْدًا) 4 ۔ النسآء :79) میں فَمِنْ نَّفْسِكَ سے مراد بسبب گناہ ہے یعنی شامت اعمال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کا ذرا سا جسم کسی لکڑی سے جل جائے یا اس کا قدم پھسل جائے یا اسے ذرا سی محنت کرنی پڑے جس سے پسینہ آجائے تو وہ بھی کسی نہ کسی گناہ پر ہوتا ہے اور ابھی تک تو اللہ تعالیٰ جن گناہوں سے چشم پوشی فرماتا ہے جنہیں معاف کردیتا ہے وہ بہت سارے ہیں، اس مرسل حدیث کا مضمون ایک متصل حدیث میں بھی ہے حضور فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایمان دار کو رنج یا جو بھی تکلیف و مشقت پہنچتی ہے یہاں تک کہ جو کانٹا بھی لگتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کا کفارہ بنا دیتا ہے، ابو صالح فرماتے ہیں مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو برائی تجھے پہنچتی ہے اس کا باعث تیرا گناہ ہے ہاں اسے مقدر کرنے والا اللہ تعالیٰ آپ ہے، حضرت مطرف بن عبداللہ فرماتے ہیں تم تقدیر کے بارے میں کیا جانتے ہو ؟ کیا تمہیں سورة نساء کی یہ آیت کافی نہیں، پھر اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں اللہ سبحانہ کی قسم لوگ اللہ سبحانہ کی طرف سونپ نہیں دئیے گئے انہیں حکم دیئے گئے ہیں اور اسی کی طرف وہ لوٹتے ہیں یہ قول بہت قوی اور مضبوط ہے قدریہ اور جبریہ کی پوری تردید کرتا ہے، تفسیر اس بحث کا موضوع نہیں، پھر فرماتا ہے کہ تیرا کام اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شریعت کی تبلیغ کرنا ہے اس کی رضامندی اور ناراضگی کے کام کو اس کے احکام اور اس کی ممانعت کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے، اللہ کی گواہی کافی ہے کہ اس نے تجھے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنا کر بھیجا ہے، اسی طرح کی گواہی اس امر پر بھی کافی ہے کہ تو نے تبلیغ کردی تیرے ان کے درمیان جو ہو رہا ہے کہ اسے بھی وہ مشاہدہ کر رہا ہے یہ جس طرح کفار عناد اور تکبر تیرے ساتھ برتتے ہیں اسے بھی وہ دیکھ رہا ہے۔