النساء آية ۹۲
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ يَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَـــًٔا ۚ وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَـــًٔا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ يَّصَّدَّقُوْا ۗ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّـكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۗ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِۖ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ ۗ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا
طاہر القادری:
اور کسی مسلمان کے لئے (جائز) نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کر دے مگر (بغیر قصد) غلطی سے، اور جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو (اس پر) ایک مسلمان غلام / باندی کا آزاد کرنا اور خون بہا (کا ادا کرنا) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے (لازم ہے) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پھر اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلام / باندی کا آزاد کرنا (ہی لازم) ہے اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان غلام / باندی کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے۔ پھر جس شخص کو (غلام / باندی) میسر نہ ہو تو (اس پر) پے در پے دو مہینے کے روزے (لازم) ہیں۔ اللہ کی طرف سے (یہ اس کی) توبہ ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
And never is it for a believer to kill a believer except by mistake. And whoever kills a believer by mistake – then the freeing of a believing slave and a compensation payment [diyah] presented to his [i.e., the deceased's] family [is required], unless they give [up their right as] charity. But if he [i.e., the deceased] was from a people at war with you and he was a believer – then [only] the freeing of a believing slave; and if he was from a people with whom you have a treaty – then a compensation payment presented to his family and the freeing of a believing slave. And whoever does not find [one or cannot afford to buy one] – then [instead], a fast for two months consecutively, [seeking] acceptance of repentance from Allah. And Allah is ever Knowing and Wise.
1 Abul A'ala Maududi
کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے، الا یہ کہ اُس سے چوک ہو جائے، اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو خونبہا دے، الا یہ کہ وہ خونبہا معاف کر دیں لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو اس کا کفارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے اور اگر وہ کسی ایسی غیرمسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خون بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا پھر جو غلام نہ پائے وہ پے در پے دو مہینے کے روزے رکھے یہ اِس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے اور اللہ علیم و دانا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور مسلمانوں کو نہیں پہنچتا کہ مسلمان کا خون کرے مگر ہاتھ بہک کر اور جو کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کرے تو اس پر ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا ہے اور خون بہا کر مقتول کے لوگوں کو سپرد کی جائے مگر یہ کہ وہ معاف کردیں پھر اگر وہ اس قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور خود مسلمان ہے تو صرف ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا اور اگر وہ اس قوم میں ہو کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے تو اس کے لوگوں کو خوں بہا سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان مملوک آزاد کرنا تو جس کا ہاتھ نہ پہنچے وہ لگاتار دو مہینے کے روزے یہ اللہ کے یہاں اس کی توبہ ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
اور مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ کسی مسلمان کو قتل کرے مگر غلطی سے اور جو مسلمان کو غلطی سے قتل کرے تو ایک مسلمان کی گردن آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے مگر یہ کہ وہ خون بہا معاف کر دیں پھر اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم میں تھا جس سے تمہاری دشمنی ہے تو ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے اور اگر وہ مقتول مسلمان کسی ایسی قوم میں سے تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہے تو اس کے وارثوں کو خون بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا پھر جو غلام نہ پائے وہ پے درپے دو مہینے کے روزے رکھے الله سےگناہ بخشوانے کے لیے اور الله جاننے والا حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کر دینا زیبا نہیں (١) مگر غلطی سے ہو جائے (٢) (تو اور بات ہے) جو شخص کسی مسلمان کو بلاقصد مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرانا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے (٣) ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں (٤) اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وہ مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرانی لازمی ہے (٥) اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیماں ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا بھی ضروری ہے (٦) پس جو نہ پائے اس کے ذمے لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں (٧) اللہ تعالٰی سے بخشوانے کے لئے اور اللہ تعالٰی بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
٩٢۔١ یہ نفی۔ نہی کے معنی میں ہے جو حرمت کی متقاضی ہے یعنی ایک مومن کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے تمہارے یہ لائق نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچاؤ ' یعنی حرام ہے۔
٩٢۔٢ غلطی کے اسباب و وجوہ متعدد ہو سکتے ہیں مقصد ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا نہ ہو۔ مگر بوجوہ قتل ہو جائے۔
٩٢۔٣ یہ قتل خطا کا جرمانہ بیان کیا جا رہا ہے جو دو چزیں ہیں۔ ایک بطور کفارہ و استغفار ہے یعنی مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور دوسری چیز بطور حق العباد کے ہے اور وہ ہے مقتول کے خون کے بدلے میں جو چیز مقتول کے وارثوں کو دی جائے، وہ دیت کی مقدار حدیث کی روح سے سو اونٹ یا اسکے مساوی قیمت سونے چاندی یا کرنسی کی شکل میں ہوگی۔
٩٢۔٤ معاف کر دینے کو صدقہ سے تعبیر کرنے سے مقصد معافی کی ترغیب دینا ہے۔
٩٢۔٥ یعنی اس صورت میں دیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ بعض نے یہ بیان کی ہے کہ کیونکہ اس کے وارث حربی کافر ہیں، اس لئے وہ مسلمان کی دیت لینے کے حقدار نہیں اس کی وجہ سے اس کے خون کی حرمت کم ہے (فتح القدیر)
٩٢۔٦ یہ ایک تیسری صورت ہے اس میں بھی وہی کفارہ اور دیت ہے جو پہلی صورت میں ہے بعض نے کہا ہے کہ اگر مقتول معاہد (ذمی) ہو تو اس کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہوگی، کیونکہ حدیث میں کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف بیان کی گئی ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس تیسری صورت میں بھی مقتول مسلمان ہی کا حکم بیان کیا جا رہا ہے۔
٩٢۔٧ یعنی اگر گردن آزاد کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پہلی صورت اور اس آخری صورت میں دیت کے ساتھ مسلسل لگاتار (بغیر ناغہ کے) دو مہینے کے روزے ہیں۔ اگر درمیان میں ناغہ ہوگیا تو نئے سرے سے روزے رکھنے ضروری ہونگے۔ جیسے حیض، نفاس یا شدید بیماری، جو روزہ رکھنے میں مانع ہو۔ سفر کے عذر شرعی ہونے میں اختلاف ہے۔ (ابن کثیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کسی مومن کو شایان نہیں کہ مومن کو مار ڈالے مگر بھول کر اور جو بھول کر بھی مومن کو مار ڈالے تو (ایک تو) ایک مسلمان غلام آزاد کردے اور (دوسرے) مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے ہاں اگر وہ معاف کردیں (تو ان کو اختیار ہے) اگر مقتول تمہارے دشمنوں کی جماعت میں سے ہو اور وہ خود مومن ہو تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیئے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو تو وارثان مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیئے اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے یہ (کفارہ) خدا کی طرف سے (قبول) توبہ (کے لئے) ہے اور خدا (سب کچھ) جانتا اور بڑی حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کر دینا زیبا نہیں مگر غلطی سے ہو جائے (تو اور بات ہے)، جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وه لوگ بطور صدقہ معاف کر دیں اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وه مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی ﻻزمی ہے۔ اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیماں ہے تو خون بہا ﻻزم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی (ضروری ہے)، پس جو نہ پائے اس کے ذمے دو مہینے کے لگاتار روزے ہیں، اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لئےاور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے واﻻ اور حکمت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
کسی مسلمان کے لئے روا نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کرے مگر غلطی سے۔ اور جو کوئی کسی مؤمن کو غلطی سے قتل کرے (تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ) ایک مؤمن غلام آزاد کیا جائے اور خون بہا اس کے گھر والوں (وارثوں) کو ادا کیا جائے، مگر یہ کہ وہ لوگ خود (خون بہا) معاف کر دیں۔ پھر اگر مقتول تمہاری دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو، مگر وہ خود مسلمان ہو تو پھر (اس کا کفارہ) ایک مؤمن غلام کا آزاد کرنا ہے اور اگر وہ (مقتول) ایسی (غیر مسلم) قوم کا فرد ہو جس کے اور تمہارے درمیان (جنگ نہ کرنے کا) معاہدہ ہے۔ تو (کفارہ میں) ایک خون بہا اس کے وارثوں کے حوالے کیا جائے گا۔ اور ایک مسلمان غلام بھی آزاد کیا جائے گا اور جس کو (غلام) میسر نہ ہو تو وہ مسلسل دو مہینے روزے رکھے گا۔ یہ اللہ کی طرف سے (اس گناہ کی) توبہ مقرر ہے۔ خدا بڑا جاننے والا اور بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کسی مومن کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مومن کو قتل کردے مگر غلطی سے اور جو غلطی سے قتل کردے اسے چاہئے کہ ایک غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو دیت دے مگر یہ کہ وہ معاف کردیں پھر اگر مقتول ایسی قوم سے ہے جو تمہاری دشمن ہے اور(اتفاق سے) خود مومن ہے تو صرف غلام آزاد کرنا ہوگا اور اگر ایسی قوم کا فرد ہے جس کا تم سے معاہدہ ہے تو اس کے اہل کو دیت دینا پڑے گی اور ایک مومن غلام آزاد کرنا ہوگا اور غلام نہ ملے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہوں گے یہی اللہ کی طرف سے توبہ کا راستہ ہے اور اللہ سب کی نیتوں سے باخبر ہے اور اپنے احکام میں صاحب هحکمت بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور کسی مومن کو شایان نہیں کہ مومن کو مار ڈالے مگر بھول کر اور جو بھول کر بھی مومن کو مار ڈالے تو (ایک تو) ایک مسلمان غلام آزاد کریں اور (دوسرے) مقتول کے وارثوں کو خون بہادے ہاں اگر وہ معاف کریں (تو ان کو اختیار ہے) اگر مقتول تمہارے دشمنوں کی جماعت میں سے ہو اور وہ خود مومن ہو تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو تو وارثان مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہے اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے متواتر روزے رکھے یہ (کفارہ) خدا کی طرف سے (قبول) توبہ (کے لیے) ہے اور خدا (سب کچھ) جانتا (اور) بڑی حکمت والا ہے
آیت نمبر ٩٢ تا ٩٦
ترجمہ : کسی مومن کے لئے یہ روا نہیں کہ کسی مومن کو قتل کرے یعنی مومن کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس سے مومن کا قتل سرزد ہو، سوائے غلطی کے یعنی بلا ارادہ غلطی سے قتل ہوجائے (تو اور بات) اور جو کوئی مومن غلطی سے قتل کردے بایں طور کہ نشانہ غیر مومن مثلاً شکار یا درخت کو لگایا مگر مومن کو لگ گیا یا کسی ایسے آلہ سے قتل کردیا کہ جس سے عام طور پر قتل نہیں کیا جاتا تو اس پر ایک مومن غلام آزاد کرنا لازم ہے اور خون بہا بھی جو اس کے عزیزوں کے حوالہ کیا جائیگا، یعنی مقتول کے ورثاء کو، سوا اس کے کہ اسکے (عزیز) دیت معاف کردیں، اور سنت نے بیان کیا ہے کہ دیت سو (١٠٠) اونٹ ہیں بیس (٢٠) بنت مخاض، اور اتنی ہی بنت لبون، اور بنولبون، اور حقے اور جذعے اور یہ دیت قاتل کے اہل خاندان پر ہے اور وہ اصل وفرع کے عصبہ ہیں، جو عصبات پر تقسیم کی جائیگی، (اس کی مدت) تین سال ہوگی ان میں سے مالدار پر نصف دینار سالانہ اور متوسط پر ربع دینار سالانہ اور اگر یہ لوگ ادا نہ کرسکیں تو بیت المال سے ادا ہوگی، اور اگر یہ بھی دشوار ہو تو جانی (قاتل) پر واجب ہوگی، اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم (دارلحرب) سے ہو حال یہ کہ وہ مومن ہو تو اس کے قاتل پر ایک غلام آزاد کرنا واجب ہے بطور کفارہ، نہ کہ بطور دیت، تاکہ اس کے اہل خانہ کو سپرد کردی جائے ان کے ساتھ محاربہ ہونے کی وجہ سے اور اگر مقتول ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہے جیسا کہ اہل ذمہ، اور اس کے قاتل پر ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے سو اگر جو شخص غلام نہ پائے اس وجہ سے کہ غلام دستیاب نہ ہو یا اتنا مال نہ ہو کہ جس سے غلام خرید سکے، تو اس کا کفارہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے طعام کی طرف رجوع کا ذکر نہیں فرمایا جیسا کہ ظہار میں فرمایا ہے، اور امام شافعی (رح) تعالیٰ نے اپنے دونوں قولوں میں سے صحیح ترین قول میں اسی کو لیا ہے، اور اللہ کی جانب سے توبہ کی قبولیت ہے، توبة، مصدر ہے فعل مقدر (تاب) کی وجہ سے منصوب ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے بارے میں باخبر ہے، (اور) اس نے جو نظام قائم کیا ہے اس میں حکمت ہے اور جو شخص کسی مومن کو قصداً قتل کردے اس طریقہ پر کہ اس کو ایسی چیز سے قتل کا ارادہ کرکے کہ جس سے غالباً قتل کیا جاتا ہے اس کے ایمان سے واقف ہونے کے باوجود، تو ایسے شخص کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اس کو رحمت سے دوری ہے، اور اس کیلئے (اللہ نے) جہنم میں بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے، اور یہ (آیت) مؤوّل ہے اس شخص کے ساتھ جو مومن کے قتل کو حلال سمجھے یا اس طریقہ پر کہ یہ اس کی سزاء ہے اگر سزا دیا جائے، اور وعید کے تخلف میں کوئی ندرت نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا قول \&\& ویغفر مادون ذلک لمن یشاء \&\& کی وجہ سے اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت اس کے ظاہر پر محمول ہے اور مغفرت کی دیگر آیتوں کیلئے ناسخ ہے اور سورة بقرہ کی آیت نے بیان کیا ہے کہ عمداً قتل کرنے والا قتل کی وجہ سے قتل کیا جائیگا، اور یقینا اس پر دیت واجب ہے اگرچہ اس کو معاف کردیا جائے اور دیت کی تعداد سابق میں گذر چکی ہے، اور سنت نے بیان کیا ہے کہ قتل عمد اور قتل خطاء کے درمیان ایک قتل اور ہے جس کا نام شبہ عمد ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسی چیز سے قتل کردے کہ جس سے عام طور پر قتل کیا جاتا، تو اس میں قصاص نہیں ہے بلکہ اس میں دیت ہے صفت میں قتل عمد کے مانند اور تاجیل (تاخیر) اور خاندان والوں پر ڈالنے میں قتل خطاء کے مانند، قتل شبہ عمد اور قتل عمد کفارہ کے (وجوب) کیلئے قتل خطاء سے اولیٰ ہے، اور نازل ہوئی (آئندہ آیت) اس وقت جبکہ صحابہ کی ایک جماعت کا بنی سلیم کے ایک شخص کے پاس سے گذر ہوا اور وہ بکریاں لے جارہا تھا اس شخص نے ان لوگوں کو سلام کیا تو ان لوگوں نے کہا اس نے سلام محض جان بچانے کے لئے کیا ہے، چناچہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا اور اس کی بکریوں کو ہانک لائے، (تو آیت یٰا یھا الذین آمنوا نازل ہوئی) اے ایمان والو جب تم خدا کے راستہ میں جہادی سفر کررہے ہو تو تحقیق کرلیا کرو اور ایک قراءت میں دونوں جگہ ثاء مثلثہ کے ساتھ ہے، (فَتَثبتوا) انتظار کیا کرو اور جو تمہیں سلام علیک کرے (سلام) الف کے ساتھ اور بدون الف کے ہے، اور کلمہ شہادت کے ذریعہ جو کہ اس کے اسلام کی علامت ہے انقیاد (فرمانبرداری) کا اظہار کرے تو تم یہ نہ کہ دو یا کرو کہ تو مسلمان نہیں ہے تو نے تو یہ کلمہ اپنی جان اور مال بچانے کے لئے کہا ہے، دنیاوی سامان مال غنیمت طلب کرنیکے لئے اس کو قتل کردو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت غنیمتیں ہیں تو وہ غنیمتیں تم کو اس کے مال کے لئے اس کے قتل سے مستغنی کردے گی، اس سے پہلے تم بھی ایسے ہی تھے تمہاری جانیں اور تمہارے اموال محض تمہارے کلمہ شہادت کی وجہ سے محفوظ رکھے جاتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر ایمان کی شہرت اور استقامت کے ذریعہ احسان فرمایا تو تم تحقیق کرلیا کرو (ایسا نہ ہو کہ) تم کسی مومن کو قتل کردو اور اسلام میں داخل ہونے والے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرو جیسا تمہارے ساتھ کیا گیا، بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے، جن کی وہ تم کو جزاء دے گا، بغیر کسی عذر کے جہاد سے بیٹھے رہنے والے مومن (غیرُ ) رفع کے ساتھ حفت ہونے کی وجہ سے، اور نصب کے ساتھ استثناء کی وجہ سے، اپاہج یا اندھا وغیرہ ہونے کی وجہ سے، اور اللہ کے راستہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرنے والوں کو عذر کی وجہ سے جہاد نہ کرنے والوں پر فضیلت بخشی ہے دونوں کے نیت میں مساوی ہونے اور مجاہد کے عملی طور پر جہاد کرنے کی وجہ سے، اور (یوں تو) اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں سے اچھائی کا وعدہ کررکھا ہے اور مجاہدین کو عذر بیٹھے رہنے والوں پر بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے اور درجاتٍ منہ (اجراً ) سے بدل ہے اپنی طرف سے مرتبے کی جو عزت میں ایک سے بڑھ کر ہے اور مغفرت اور رحمة میں دونوں اپنے مقدر فعلوں کی وجہ سے منصوب ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو معاف کرنے والا اور اسکی اطاعت کرنے والوں پر رحم کرنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : مُخْطِئاً فی قَتْلہ، اس میں اشارہ ہے کہ خَطَأ، حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور مصدر بمعنی اسم فاعل ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہو اور محذوف کی صفت ہو، ای اِلَّا قَتْلاً خَطأَ.
قولہ : عَلَیْہِ : اس میں اشارہ ہے کہ تحریر، مبتداء ہے اور اس کی خبر محذوف ہے، ای فعلیہ تحریر یا مبتداء محذوف کی خبر ہے ای فالو اجب علیہ تحریر رقبةٍ اور فعل محذوف کا فاعل بھی ہوسکتا ہے ای فیجب علیہ تحریر رقبةٍ ، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علیہ شرط کی جزاء ہو اور چونکہ جزاء کے لئے جملہ ہونا شرط ہے، لہٰذا علیہ کو محذوف مانا ہو۔
قولہ : وَدِیَة، اس کا عطف تحریر پر ہے وَدیة اصل میں مصدر ہے مال ماخوز پر اس کا اطلاق کیا گیا ہے اسی وجہ سے اس کی صفت مُسَلَّمة لائی گئی ہے اور یہ اصل میں وَدِی تھا داؤکو حذف کردیا اس کے عوض آخر میں تاء تانیث کا اضافہ کردیا، دیة ہوگیا۔
قولہ : نِصْفُ دِیْنَارِ ، یہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک ہے۔
قولہ : ثُلُثاَ عُشْرِھا، یہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کا مذہب ہے۔
قولہ : مَصْدَر مَنْصُوْب بِفِعْلِہِ الْمُقَدَّرِ ای تاَبَ علیکم تَوْبَةً.
قولہ : عَالِماً باِیْمَانِہ، یعنی مذکورہ عذاب کا مستحق اس وقت ہوگا جبکہ اس کو مومن سمجھ کر قتل کیا ہو، اور اگر حربی سمجھ کر قتل کیا گیا ہو تو مستحق نہ ہوگا۔
قولہ : بِمَنِ اسْتَحَلَّہ \&، اس کا اضافہ کا مقصد معتزلہ پر رد کرنا ہے اسلئے کہ جہنم میں دائمی دخول تو کافر کے لئے ہوگا، اسلئے کہ کتاب اور اجماع کے دلائل قطعیہ اس میں صریح ہیں کہ عصاة المسلمین کا دایمی طور پر داخلہ نہیں ہوگا، بخلاف معتزلہ کے کہ یہاں مرتکب گناہ کبیرہ اگر بغیر توبہ کے مرجائے تو وہ بھی دائمی جہنمی ہے۔
قولہ : لا بِدْعَ ای لْا نُدْرَةَ ، ابن عباس (رض) کے نزدیک آیت ظاہر پر محمول ہے، غالباً اس سے مقصد شدت کو ظاہر کرنا ہے، اسلئے کے حضرت ابن عباس (رض) ہی سے اس خلاف بھی مروی ہے۔
قولہ : فیِ قِرَائَ ةٍ بِالْمُثَلَّثَةِ ای بالثائ، ای فَتَثَبَّتُوْا . (یعنی انتظار کیا کرو) ۔
قولہ : بالرَّفْعِ صِفَةً ، یعنی غیر مرفوع ہے قاعدون کی صفت ہونے کی وجہ سے۔
سوال : القاعِدُوْنَ الف لام کی وجہ سے معرفہ ہے اور غیر نکرہ ہے لہٰذا صفت واقع ہونا درست نہیں ہے۔
پہلا جواب : غیر ھب دومتضاد کے درمیان واقع ہوتا ہے تو بھی معرفہ ہوجاتا ہے۔
دوسرا جواب : القاعدون میں الف لام جنس کا ہے جس کی وجہ سے مشابہ بنکرہ ہے۔
تیسرا جواب : القاعدون سے چونکہ کوئی متعین قوم مراد نہیں ہے لہٰذا وہ نکرہ ہی ہے معرفہ جب ہوتا جب متعین قوم مراد ہوتی، ظاہر یہ ہے کہ غیر، القاعدون سے بدل ہے اور ندل و مبدل منہ میں تعریف وتنکیر میں، طابقت ضروری نہیں ہے، اور غیر پر نصب بھی جائز ہے القاعدون سے استثناء کی وجہ سے۔
قولہ : من الزَمَانَةِ ، یہ للضرر کا بیان ہے۔
قولہ : مَنْصُوْ بانِ بِفِعْلِھمَا الْمقَدَّرِ یعنی مغفرةً ورحمةً دونوں اپنے اپنے فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہیں نہ کہ اَجْرًا، پر معطوف ہونے کی وجہ سے، تقدیر عبارت یہ ہے غفر اللہ لھم مغفرةً ورحمھم اللہ رحمةً.
تفسیر وتشریح
وَمَا کان لِمؤمِنٍ (الایة) یہ نفی بمعنی نہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول \& وَمَا کان لکم أب تُؤ ذُوْا رسول اللہ \& میں نفی بمعنی نہی ہے اور اگر نفی اپنے معنی پر ہو تو یہ خبر ہوگی اور اس کا صادق ہونا صروری ہوگا، جس کی صورت یہ ہوگی کہ کسی مومن کا قتل صادر نہ ہو حالانکہ یہ واقعہ کے خلاف ہے۔
شان نزول : عبدبن حمید ابن جریر وغیرہ نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ عیاش بن ابی ربیعہ نے ایک مومن شخص کو نادانستہ قتل کردیا تھا جس کے بارے میں مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
واقعہ کی تفصیل : ابھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت نہیں فرمائی تھی، ایک صاحب عیاش بن ابی ربیعہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے تھے، مگر قریش کے ظلم وستم نے ان کو اس کا موقع نہ دیا کہ وہ اپنے اسلام کا علی الاعلان اظہار کردیں اور انھیں اس بات کا بھی خوف تھا کہ کہیں ان کے مسلمان ہونے کی اطلاع ان کے گھر والوں کو نہ ہوجائے جس کی وجہ سے ان کی دقتوں میں اور زیادہ اضافہ ہوجائے، اس وقت مدینہ مسلمانوں کیلئے پناہ گاہ بن چکا تھا اکاّ دکاّ مصیبت زدہ مسلمان مدینہ کا رخ کررہے تھے، عیاش بن ابی ربیعہ اور ابوجہل آپس میں سوتیلے بھائی تھے، دونوں کی ماں ایک اور والد الگ الگ تھے ماں کی پریشانی نے ابوجہل کو اضطراب اور پریشانی میں ڈالدیا، ابوجہل کو کسی طرح معلوم ہوگیا کہ عیاش مدینہ میں پناہ گزیں ہوگیا ہے چناچہ ابوجہل خود اور اس کا دوسرا بھائی حارث اور ایک تیسرا شخص حارث بن زید بن ابی انیسہ مدینہ پہنچے، انہوں نے عیاش کو ان کی والدہ کی رو رو کر پوری حالت سنائی اور پورا یقین دلایا کہ تم صرف اپنی ماں سے مل آؤ، اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں چاہتے، حضرت عیاش نے اپنی والدہ کی بےچینی اور بھائیوں کے وعدہ پر اعتماد کرکے خود ان کے سپرد کردیا اور مکہ کے لئے ان کے ساتھ روانہ ہوگئے، مدینہ سے دو منزل مسافت طے کرنے کے بعد ان لوگوں نے غداری کی اور وہی سب کچھ کیا جس کا اندیشہ تھا، بڑی بےدردی سے پہلے تو ان کے ہاتھ پیر باندھے اور اس کے بعد تینوں نے بڑی بےرحمی سے ان پر اتنے کوڑے برسائے کہ پورابدن چھلنی کردیا، جس ماں کے لئے یہ سب کچھ کیا تھا اس نے عیاش کو تپتی ہوئی دھوپ میں ڈلوادیا کہ جب تک خدا اور اس کے رسول سے نہ پھروگے یوں ہی دھوپ میں جلتے رہو گے۔
یہ شہادت کی الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
لہو میں ڈوبا ہوا بدن، جکڑے ہوئے ہاتھ پاؤں، سفر کی تکلیف، ماں کا یہ ستم، بھائیوں کی یہ درندگی، مکہ کی تپتی ہوئی پتھریلی زمین آخر کب تک ؟ آخر مجبوراً عیاش کو وہ الفاظ کہنے پڑے جنھیں کہنے کے لئے ان کا دل ہرگز آمادہ نہیں تھا، تب کہیں اس عذاب سے چھٹکارا نصیب ہوا، ان کی اس بےکسی پر طعن کرتے ہوئے حارث بن زید نے ایک زبردست چوٹ کی کہنے لگے کیوں عیاش تمہارا دین بس اتنا ہی تھا ؟ عیاش غصہ کا گھونٹ پی کر رہ گئے اور قسم کھالی کہ جب بھی موقع ملے گا اس کو قتل کردوں گا، حضرت عیاش پھر کسی طرح مدینہ پہنچ گئے، ان ہی دنوں حارث بن زید بھی مکہ مکرمہ سے نکل کر مدینہ منورہ حاضر ہو کر جاں نثارانِ نبوت کی صف میں شامل ہوگئے، حضرت عیاش کو حارث بن زید کے اسلام قبول کرنے کی بالکل خبر نہ تھی، ایک روز اتفاق سے قباء کے نواح میں دونوں کا آمنا سامنا ہوگیا، حضرت عیاش (رض) کو حارث بن زید کی ساری حرکتیں یاد تھیں، سمجھے کہ پھر کسی بےکس کے ہاتھ پاؤں باندھنے آئے ہوں گے، اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوتے حضرت عیاش کی تلوار اپنا کام کرچکی تھی، اس واقعہ کے بعد لوگوں نے عیاش کو صورت حال سے آگاہ کیا کہ حارث بن زید تو مسلمان ہو کر مدینہ آئے تھے، حضرت عیاش آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انتہائی افسوس کے ساتھ عرض کیا حضور آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ حضرت حارث نے میرے ساتھ کیا کچھ کیا تھا میرے دل میں ان سب باتوں کا زخم تھا اور مجھے بالکل معلوم نہ تھا کہ وہ مشرف باسلام ہوچکے ہیں، ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی۔
قتل کی تین قسمیں اور ان کا شرعی حکم :
پہلی قسم : قتلِ عمد، جو قصداً ایسے آلہ کے ذریعہ واقع ہو جو آہنی ہو یا تفریق اجزاء میں آہنی آلہ کے مانند ہو جیسے دھار دار پتھر یا بانس وغیرہ۔
دوسری قسم : قتل شبہ عمد، جو قصداً تو ہو مگر ایسے آلہ سے نہ ہو جس سے اجزاء میں تفریق ہوسکتی ہو، یا قتل ایسی چیز سے ہو جس سے عام طور پر قتل نہ ہونا ہو۔
تیسری قسم : قتل شبہ عمد، خطایا تو قصدوظن میں ہو کہ انسان کو شکار سمجھ بیٹھا، یا نشانہ خطا کر گیا کہ نشانہ چوک کر کسی انسان کو لگ گیا، ان دونوں قسموں میں قاتل پر دیت واجب ہے اور قاتل گنہگار بھی ہے مگر دونوں کی دیت میں فرق ہے، دوسری اور تیسری قسم کی دیت (١٠٠) اونٹ ہے، مگر اس تفصیل سے کہ چاروں قسم یعنی بنت لبون، جِذعہ، حِقہ ہر ایک قسم میں سے پچیس پچیس اور تیسری قسم میں اس تفصیل سے کہ اونٹ کی پانچ مع (بنولبون) قسموں میں سے ہر ایک میں بیس بیس، البتہ دیت اگر نقد کی صورت میں دی جائے تو مذکورہ دونوں قسموں میں دس ہزار درہم شرعی یا ایک ہزار دینار شرعی ہیں، اور گناہ دوسری قسم میں زیادہ ہے اسلئے کہ اس میں قصد کو دخل ہے اور تیسری قسم میں کم اور وہ بےاحتیاطی کا گناہ ہے۔ (معارف)
مسلہ : دیت کی مذکورہ مقدار اس وقت ہے کہ جب مقتول مرد ہو اور عورت ہو تو دیت اس کی نصف ہوگی۔ (کذافی الھدایة)
مسلہ : دیت مسلم اور ذمی کی برابر ہے حدیث میں ہے آپ نے فرمایا \&\& دِیَّة کل ذمی عھد فی عھدہ الف دینار \&\&. (اخرجَہ \& ابو داؤد)
مسلہ : کفارہ یعنی تحریر رقبہ یا روزے رکھنا خود قاتل کے ذمہ ہیں، اور دیت قاتل کے (خاندان) اہل نصرت پر ہے جس کو اصلاح شرع میں عاقلہ کہتے ہیں۔ (معارف)
مسلہ : مقتول کی دیت مقتول کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگی اور جو اپنا حصہ معاف کردے گا اس قدر معاف ہوجائیگا اور اگر سب معاف کردیں گے تو پوری دیت معاف ہوجائیگی۔
مسلہ : جس مقتول کا وارث شرعی نہ ہو اس کی دیت بیت المال میں جمع ہوگی۔
خلاصہ کلام : کسی کو قتل کرنے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ جان بوجھ کر عمداً قتل کیا جائے اور دوسرے یہ کہ نادانستہ ایسا ہوجائے، دانستہ بلا قصور قتل کرنے کے مسائل سورة بقرہ آیت \&\& کتب علیکم القصاص \&\& کی تفسیر میں گذر چکے ہیں، نادانستہ قتل کے مسائل کی تفصیل حسب ذیل ہے، نادانستہ قتل کی کل چار صورتیں ممکن ہیں۔
(١) یہ کہ مقتول مومن ہو۔
(٢) یہ کہ مقتول کافر ہو، مگر ذمیّ یا مستامن ہو جسکی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہو۔
(٣) یہ کہ مقتول کافر معاہد ہو، یعنی اس ملک کا ہو کہ جس کے ساتھ معاہدۂ امن ہو۔
(٤) یہ کہ مقتول کا فرحربی ہو۔
ان میں سے ہر ایک کی دو صورتیں ہیں، (١) اسے عمداً قتل کیا ہو، (٢) یا غلطی سے قتل ہوا ہو، اس طرح کل آٹھ صورتیں ہوجاتی ہیں۔
(١) مومن اگر بلا قصور جان بوجھ کر قتل کردیا جائے تو اس کی دنیاوی سزا سورة بقرہ میں بیان فرمائی گئی ہے اور آخرت کی سزا آیت ” ومَنْ قتل مؤمناً متعمدٌا “ میں آرہی ہے۔
(٢) مومن کو اگر نادانستہ قتل کردیا گیا تو اس کی سزا یہ ہے کہ ورثاء کو خون بہا ادا کیا جائے اور ایک غلام آزاد کیا جائے اور غلام میسر نہ ہونے کی صورت میں لگا تار دو مہینے کے روزے رکھے جائیں۔
(٣) مقتول اگر ذمی ہو اور عمداً قتل کیا گیا ہو تو اس کی سزا یہ ہے کہ قتل کے بدلے قتل کردیا جائے یعنی جو سزا مومن کو عمداً قتل کرنے کی ہے وہی ذمی کو قتل کرنے کی بھی ہے، یہ امام صاحب کا مسلک ہے۔
(٤) ذمی اگر نا دانستہ قتل کردیا جائے تو اس کے وارثوں کو خون بہا (خون کی قیمت) ادا کیا جائے گا، خون بہا کی مقدار میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے۔
(٥) اگر مقتول معاہدہو اور قصداً قتل کردیا گیا تو اس کے قتل کی سزا میں اختلاف ہے، البتہ خون بہا ادا کرنا ضروری ہے۔
(٦) اگر معاہدہ امن کرنے والا نادانستہ قتل ہوجائے تو اس کے لئے تو وہی قانون ہے جو ذمی کے قاتل کے لئے ہے یعنی وارثوں کو خون بہا دیا جائے۔
(٧) ، (٨) اگر مقتول حربی (مسلمانوں کا دشمن) تھا تو اس کا قتل خواہ دانستہ ہو یا نا دانستہ اس کے قاتل پر نہ قصاص ہے اور نہ دیت کیونکہ وہ حالت جنگ میں ہے۔
خون بہا کی مقدار : اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ خون بہا کا دارومدار قیل کی نوعیت پر ہے، ایک صورت تو یہ ہے کہ قاتل پر عمداً قتل کا الزام ثابت ہوچکا ہو مگر کسی وجہ سے قصاص کے بجائے خون بہا پر معاملہ ٹھہرا ہے تو یہ سب سے اہم خون بہا سمجھا جائیگا۔
اگر واقعہ کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل کرنا مقصود نہیں تھا، یعنی عام حالات میں ایسے واقعہ میں آدمی مرتا نہیں ہے مگر اتفاق سے یہ شخص مرگیا، اس صورت میں جو خون بہا ہوگا وہ یقینا پہلی صورت سے ہلکا ہوگا، تیسری صورت یہ ہے کہ محض غلطی سے قتل کا صدور ہوگیا، ایسی صورے میں خون بہا دوسری صورت سے بھی ہلکا ہوگا۔
اگر خون بہا اونٹوں کی شکل میں ہو تو سو (١٠٠) اونٹ ہوں گے، اور گائے کی شکل میں ہو تو دو سو (٢٠٠) گائے ہوں گی اور بکریوں کی صورت میں ہو تو ایک ہزار بکریاں ہوں گی، اور اگر کپڑوں کی شکل میں ہو تو دو سو (٢٠٠) جوڑے ہوں گے، اس کے علاوہ اگر کسی اور چیز سے خون بہا ادا کیا جائے تو ان ہی چیزوں کی بازاری قیمت کے لحاظ سے متعین کیا جائیگا، مثلاً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں سو اونٹوں کی قیمت آٹھ سو (٨٠٠) دیناریا آٹھ ہزار (٨٠٠٠) درہم تھے جب حضرت عمر (رض) کا زمانہ آیا تو فرمایا کہ اب اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی ہے لہٰذا اب دیت سونے کی صورت میں ایک ہزار دینار اور چاندی کی صورت میں بارہ ہزار درہم خون بہا دلوایا جائیگا۔ عورت کا خون بہا : عورت کا خون بہا مرد کا آدھا ہے اور باندی و غلام کا خون بہا اس کی ممکن قیمت ہوتی ہے، خون بہا کے معاملہ میں مسلم اور غیر مسلم امام صاحب کے نزدیک دونوں برابر ہیں، جو خون بہا اس کے بجائے قاتل کے ذمہ واجب ہوا ہے وہ صرف قاتل کے ذمہ ہوگا، اور جو خون بہا دوسری کسی وجہ سے عائد ہوتا ہے اس میں قاتل کے تمام رشتہ دار شریک ہو کر بطور چندہ ادا کریں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
آیت کریمہ کا یہ اسلوب، امتناع یعنی ناممکن ہونے کے اظہار کے اسالیب میں سے ہے یعنی یہ ممتنع اور محال ہے کہ ایک مومن سے دوسرے مومن کا جان بوجھ کر قتل صادر ہو۔ اس آیت کریمہ میں قتل مومن کی تحریم کو نہایت شدت سے بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مومن کا قتل ایمان کے سخت منافی ہے۔ مومن کا قتل یا تو کافر سے صادر ہوتا ہے یا ایسے فاسق و فاجر سے صادر ہوتا ہے جس کے ایمان میں بہت زیادہ کمی ہو۔ ایسے فاسق و فاجر سے اس سے بھی بڑے اقدام کا ڈر ہے۔ اس لیے کہ ایمان صحیح مومن کو اپنے مومن بھائی کے قتل سے باز رکھتا ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اخوت ایمانی کا رشتہ جوڑا ہے جس کا تقاضا محبت و موالات اور اپنے بھائی سے اذیتوں کو دور کرنا ہے اور قتل سے بڑھ کر کون سی اذیت ہے؟ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مصداق ہے (لاترجعوا بعدی کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض) ” میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو“ [صحيح البخاري، الديات، باب ﴿و من أحيا......﴾، حديث: 6868]
پس معلوم ہوا کہ قتل مومن عملی کفر ہے اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا ﴾” اور کسی مومن کے شایان نہیں کہ مومن کو مار ڈالے۔“ تمام احوال کے لیے عام ہے اور مون کسی بھی اعتبار سے اپنے مومن بھائی کے قتل کا ارتکاب نہیں کرسکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ قتل خطا کو مستثنیٰ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿إِلَّا خَطَأً ﴾ ” مگر غلطی سے‘‘ اس لیے کہ قتل خطا کا مرتکب شخص قتل اور گناہ کا قصد نہیں رکھتا، نہ وہ اللہ تعالیٰ کے محارم کا ارتکاب کرتا ہے۔ مگر چونکہ اس نے ایک بہت ہی قبیح فعل کا ارتکاب کیا ہے اور اس کی ظاہری شکل اس کی قباحت کے لیے کافی ہے، اگرچہ اس کا مقصد اس کو قتل کرنا ہرگز نہیں تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے کفارہ اور دیت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا : ﴿ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً ﴾” جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے“ قاتل خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا، عاقل ہو یا پاگل اور مسلمان ہو یا کافر جیسا کہ لفظ (مَنْ) عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔ یہاں لفظ (مَن) کو لانے کا یہی سرنہاں ہے کیونکہ سیاق کلام تو تقاضا کرتا ہے کہ یہاں لفظ (فَاِنْ قَتَلَه) استعمال ہوتا مگر یہ لفظ وہ معنی ادا نہیں کرتا جو (مَنْ) ادا کرتا ہے۔ اسی طرح مقتول خواہ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا (آیت کریمہ تمام صورتوں کو شامل ہے) جیسا کہ سیاق شرط میں نکرہ عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔
﴿فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ﴾ قاتل پر کفارہ کے طور پر مومن غلام کا آزاد کرنا واجب ہے۔ یہ غلام قاتل کے مال سے آزاد کیا جائے گا۔ بعض علماء کے نزدیک یہ آیت کریمہ چھوٹے بڑے، مرد عورت، بے عیب اور عیب دار، ہر قسم کے غلام کو شامل ہے، مگر حکمت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ عیب زدہ غلام کو کفارہ میں آزادانہ کیا جائے۔ اس لیے کہ آزادی عطا کرنے کا مقصد آزاد کئے جانے والے کو نفع پہنچانا ہے اور اس کو ملکیت میں رکھنا خود اپنے آپ کو نفع پہنچانا ہے۔ پس جب آزادی عطا کرنے سے یہ نفع ضائع ہوجاتا ہے اور غلامی میں اسے باقی رکھنا اس کے لیے زیادہ نفع مند ہے تو اس کو آزاد کرنا کافی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ) کا معنی اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ یہاں آزادی عطا کرنے سے مراد کسی ایسے شخص کے منافع کا استحقاق خود اس کے لیے خالص کرنا ہے جس کے منافع کا استحقاق کسی دوسرے کے پاس ہو۔ پس اگر اس میں (عیب زدہ ہونے کی وجہ سے) کوئی منفعت نہیں تو آزادی کے وجود کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں غور کیجیے یہ بالکل واضح ہے۔
رہی دیت، تو یہ قاتل کی برادری اور اس کے رشتہ داروں پر واجب ہے۔ دیت قتل خطا اور قتل شبہ عمد میں واجب ہوتی ہے۔ ﴿ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ ﴾ ” مقتول کے وارثوں کو ادا کرے۔“ یعنی مقتول کے وارثوں کی دل جوئی کی خاطر ان کے حوالے کرے۔ (یہاں (أَهْلِهِ) سے مراد مقتول کے ورثاء ہیں کیونکہ یہی لوگ میت کے ترکہ کے وارث ہوتے ہیں، نیز دیت بھی ترکہ میں داخل ہے اور دیت میں بہت سی تفاصیل ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔﴿إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ﴾ ” ہاں اگر وہ معاف کردیں۔“ یعنی مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف کر کے دیت اس کو بخش دیں۔ تب یہ دیت بھی ساقط ہوجائے گی۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے معاف کردینے کی ترغیب دی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس معافی کو صدقہ کے نام سے موسوم کیا ہے اور صدقہ ہر وقت مطلوب ہے۔﴿ فَإِن كَانَ﴾ ” پس اگر وہ ہو“ یعنی مقتول ﴿ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ ﴾ ” ایسی قوم سے جو تمہاری دشمن ہے“ یعنی اگر مقتول حربی کفار میں سے ہو ﴿وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ ﴾ ” اور وہ مومن ہو تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے“ یعنی تب اس صورت میں تم پر مقتول کے (کافر) ورثاء کو دیت ادا کرنا واجب نہیں، کیونکہ ان کی جان اور مال کا احترام واجب نہیں۔
﴿وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ ﴾” اور اگر وہ (مقتول) اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہو تو خون بہا لازمی ہے جو اس کے کنبے والے کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی ضروری ہے“ یہ ان کے ساتھ عہد و میثاق کی بنا پر مقتول کے ورثاء کے احترام کی وجہ سے ہے۔ ﴿فَمَن لَّمْ يَجِدْ ﴾ ” اور جس کو یہ میسر نہ ہو۔“ یعنی جس کے پاس تنگ دستی کی وجہ سے آزاد کرنے کے لیے غلام یا اس کی قیمت نہیں ہے اور بنیادی ضروریات و حوائج کے اخراجات کے بعد اتنی رقم نہیں بچتی جس سے غلام کو آزاد کیا جا سکے ﴿فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ﴾” تب دو مہینے مسلسل روزے رکھے“ اور ان کے دوران بغیر کسی عذر کے روزہ نہ چھوڑے۔ اگر کسی عذر کی بنا پر روزہ چھوٹ جائے مثلاً مرض اور حیض وغیرہ تو اس سے تسلسل نہیں ٹوٹتا اگر اس نے بغیر کسی عذر کے روزہ چھوڑ دیا ہے تو اس سے تسلسل منقطع ہوجائے گا اور اسے نئے سرے سے روزے شروع کرنے پڑیں گے۔ ﴿تَوْبَةً مِّنَ اللَّـهِ ﴾ ”یہ (کفارہ) اللہ کی طرف سے (قبول) توبہ کے لیے ہے۔“ یعنی یہ کفارات جو اللہ تعالیٰ نے قاتل پر واجب کئے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت توبہ، ان پر رحمت اور ان کے گناہوں کی تکفیر ہے جو ممکن ہے کسی کوتاہی اور عدم احتیاط کی وجہ سے ان سے سر زد ہوئے ہوں، جیسا کہ قتل خطا کے مرتکب سے اکثر واقع ہوتے ہیں۔ ﴿وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ ” اور اللہ سب کچھ جانتا اور بڑی حکمت والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کامل علم اور کامل حکمت والا ہے۔ زمین و آسمان میں کسی جگہ اور کسی وقت چھوٹی یا بڑی ذرہ بھر چیز اس سے پوشیدہ نہیں۔
تمام مخلوقات اور تمام شرائع اس کی حکمت سے خالی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تخلیق اور جو کچھ مشروع کیا ہے وہ حکمت پر مبنی ہے۔ یہ اس کی علم و حکمت ہے کہ اس نے قاتل پر کفارہ واجب کیا جو اس سے صادر ہونے والے گناہ سے مناسبت رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک قابل احترام جان کو معدوم کرنے کا سبب بنا اور اسے وجود سے نکال کر عدم میں لے گیا۔ اس جرم سے یہ چیز مناسبت رکھتی ہے کہ وہ غلام آزاد کرے، اس کو مخلوق کی غلامی سے نکال کر مکمل آزادی عطا کرے۔ اگر وہ غلام آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دو مہینوں کے مسلسل روزے رکھے۔ یوں وہ اپنے آپ کو شہوات، اور ان لذات حسیہ کی غلامی سے آزاد کر کے جو بندے کو ابدی سعادت سے محروم کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے تقرب کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف لائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزے رکھنے کے لیے شاق گزرنے والی طویل مدت مقرر کی ہے اور اس میں روزوں کے تسلسل کو واجب قرار دیا ہے اور ان تمام مقامات پر عدم مناسبت کی بنا پر، روزے رکھنے کی بجائے مسکینوں کو کھانا کھلانا مشروع قرار نہیں دیا۔ اس کے برعکس ظہار میں روزوں کی بجائے مسکینوں کو کھانا کھلانا مشروع ہے۔ اس کا ذکر انشاء اللہ آئے گا۔
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت ہے کہ قتل خواہ خطاہی سے کیوں نہ ہو، اس نے اس میں دیت واجب ٹھہرائی ہے تاکہ دیت اور دیگر اسباب کے ذریعے سے قتل کے جرائم کا سدباب ہوسکے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے قتل خطا میں دیت قاتل کے پدری (باپ کی طرف سے) رشتہ داروں (یعنی عاقلہ) پر فرض کی ہے۔ اس پر فقہاء کا اجماع ہے۔ کیونکہ گناہ کی نیت سے قاتل نے قتل کا ارتکاب نہیں کیا تھا کہ اس دیت کا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا جائے جو اس کے لیے سخت مشقت کا باعث ہو۔ اس لیے یہ امر مناسبت رکھتا ہے کہ حصول مصالح اور سد مفاسد کی خاطر اس کے اور اس کے رشتہ داروں کے درمیان تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ ہو۔ شاید یہ چیزیں اس شخص کو قتل سے روکنے کا سبب بن جائے جس کی طرف سے وہ دیت ادا کرتے ہیں تاکہ انہیں دیت کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے، نیز ان کی طاقت اور ان کے احوال کے مطابق ان پر دیت کو تقسیم کرنے سے دیت کے بوجھ میں تخفیف ہوجائے گی، نیز دیت کی ادائیگی کی مدت تین سال مقرر کر کے اس میں مزید تخفیف پیدا کردی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کا علم ہے کہ اس نے اس دیت کے ذریعے سے جو اس نے قاتل کے اولیاء پر واجب کی ہے، مقتول کے ورثاء کی مصیبت میں ان کے نقصان کی تلافی کی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kissi musalman ka yeh kaam nahi hai kay woh kissi doosray musalman ko qatal keray , illa yeh kay ghalati say aisa hojaye . aur jo shaks kissi musalman ko ghalati say qatal ker bethay to uss per farz hai kay woh aik musalman ghulam azad keray aur diyat ( yani khoon baha ) maqtool kay warison ko phonchaye , illa yeh kay woh moaaf kerden . aur agar maqtool kissi aesi qoam say talluq rakhta ho jo tumhari dushman hai , magar woh khud musalman ho to , bus aik musalman ghulam ko azad kerna farz hai , ( khoon baha dena wajib nahi ) . aur agar maqtool unn logon mein say ho jo ( musalman nahi , magar ) unn kay aur tumharay darmiyan koi moahida hai , to bhi yeh farz hai kay khoon baha uss kay warison tak phonchaya jaye , aur aik musalman ghulam ko azad kiya jaye . haan agar kissi kay paas ghulam naa ho to uss per farz hai kay do maheenay tak musalsal rozay rakhay . yeh tauba ka tareeqa hai jo Allah ney muqarrar kiya hai , aur Allah aleem o hakeem hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
قتل مسلم، قصاص و دیت کے مسائل اور قتل خطا
ارشاد ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو لائق نہیں کہ کسی حال میں اپنے مسلمان بھائی کا خون ناحق کرے صحیح میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں ایک تو یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرے شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرے دین اسلام کو چھوڑ دینے والا جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ جب ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام کسی سے واقع ہوجائے تو رعایا میں سے کسی کو اس کے قتل کا اختیار نہیں البتہ امام یا نائب امام کو بہ عہدہ قضا کا حق ہے، اس کے بعد استثناء منقطع ہے، عرب شاعروں کے کلام میں بھی اس قسم کے استثناء بہت سے ملتے ہیں، اس آیت کے شان نزول میں ایک قول تو یہ مروی ہے کہ عیاش بن ابی ربیعہ جو ابو جہل کا ماں کی طرف سے بھائی تھا جس ماں کا نام اسماء بنت مخرمہ تھا اس کے بارے میں اتری ہے اس نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا جسے وہ اسلام لانے کی وجہ سے سزائیں دے رہا تھا یہاں تک کہ اس کی جان لے لی، ان کا نام حارث بن زید عامری تھا، حضرت عیاش (رض) کے دل میں یہ کانٹا رہ گیا اور انہوں نے ٹھان لی کہ موقعہ پا کر اسے قتل کردوں گا اللہ تعالیٰ نے کچھ دنوں بعد قاتل کو بھی اسلام کی ہدایت دی وہ مسلمان ہوگئے اور ہجرت بھی کرلی لیکن حضرت عیاش (رض) کو یہ معلوم نہ تھا، فتح مکہ والے دن یہ ان کی نظر پڑے یہ جان کر کہ یہ اب تک کفر پر ہیں ان پر اچانک حملہ کردیا اور قتل کردیا اس پر یہ آیت اتری دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت ابو درداء (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ انہوں نے ایک شخص کافر پر حملہ کیا تلوار سونتی ہی تھی تو اس نے کلمہ پڑھ لیا لیکن ان کی تلوار چل گئی اور اسے قتل کر ڈالا، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ بیان ہوا تو حضرت ابو درداء (رض) نے اپنا یہ عذر بیان کیا کہ اس نے صرف جان بچانے کی غرض سے یہ کلمہ پڑھا تھا، آپ ناراض ہو کر فرمانے لگے کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ یہ واقعہ صحیح حدیث میں بھی ہے لیکن وہاں نام دوسرے صحابی کا ہے، پھر قتل خطا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس میں دو چیزیں واجب ہیں ایک تو غلام آزاد کرنا دوسرے دیت دینا، اس غلام کے لئے بھی شرط ہے کہ وہ ایماندار ہو، کافر کو آزاد کرنا کافی نہ ہوگا چھوٹا نابالغ بچہ بھی کافی نہ ہوگا جب تک کہ وہ اپنے ارادے سے ایمان کا قصد کرنے والا اور اتنی عمر کا نہ ہو، امام ابن جریر کا مختار قول یہ ہے کہ اگر اس کے ماں باپ دونوں مسلمان ہوں تو جائز ہے ورنہ نہیں، جمہور کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان ہونا شرط ہے چھوٹے بڑے کی کوئی قید نہیں، ایک انصاری سیاہ فام لونڈی کو لے کر حاضر حضور ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے ذمے ایک مسلمان گردن کا آزاد کرنا ہے اگر یہ مسلمان ہو تو میں اسے آزاد کردوں، آپ نے اس لونڈی سے پوچھا کیا تو گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟ اس نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا مرنے کے بعد جی اٹھنے کی بھی تو قائل ہے ؟ اس نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا اسے آزاد کردو اس نے اسناد صحیح ہے اور صحابی کون تھے ؟ اس کا مخفی رہنا سند میں مضر نہیں، یہ روایت حدیث کی اور بہت سی کتابوں میں اس طرح ہے کہ آپ نے اس سے پوچھا اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا آسمانوں میں دریافت کیا میں کون ہوں ؟ جواب دیا آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں آپ نے فرمایا اسے آزاد کردو۔ یہ ایماندار ہے پس ایک تو گردن آزاد کرنا واجب ہے دوسرے خوں بہا دینا جو مقتول کے گھر والوں کو سونپ دیا جائے گا یہ ان کے مقتول کا عوض ہے یہ دیت سو اونٹ ہے پانچ سو قسموں کے، بیس تو دوسری سال کی عمر کی اونٹنیاں اور بیس اسی عمر کے اونٹ اور بیس تیسرے سال میں لگی ہوئی اونٹنیاں اور بیس پانچویں سال میں لگی ہوئی اور بیس چوتھے سال میں لگی ہوئی یہی فیصلہ قتل خطا کے خون بہا کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے ملاحظہ ہو سنن و مسند احمد۔ یہ حدیث بروایت حضرت عبداللہ موقوف بھی مروی ہے، حضرت علی (رض) اور ایک جماعت سے بھی یہی منقول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دیت چار چوتھائیوں میں بٹی ہوئی ہے یہ خون بہا قاتل کے عاقلہ اور اس کے عصبہ یعنی وارثوں کے بعد کے قریبی رشتہ داروں پر ہے اس کے اپنے مال پر نہیں امام شافعی فرماتے ہیں میرے خیال میں اس امر میں کوئی بھی مخالف نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت کا فیصلہ انہی لوگوں پر کیا ہے اور یہ حدیث خاصہ میں کثرت سے مذکور ہے امام صاحب جن احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ بہت سی ہیں، بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں آپس میں لڑیں ایک نے دوسرے کو پتھر مارا وہ حاملہ تھی بچہ بھی ضائع ہوگیا اور وہ بھی مرگئی قصہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس بچہ کے عوض تو ایک لونڈی یا غلام دے اور عورت مقتولہ کے بدلے دیت قاتلہ عورت کے حقیقی وارثوں کے بعد کے رشتے داروں کے ذمے ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قتل عمد خطا سے ہو وہ بھی حکم میں خطاء محض کے ہے۔ یعنی دیت کے اعتبار سے ہاں اس میں تقسیم ثلث پر ہوگی تین حصے ہونگے کیونکہ اس میں شباہت عمد یعنی بالقصد بھی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے بنو جذیمہ کی جنگ کے لئے حضرت خالد بن ولید (رض) کو حضور نے ایک لشکر پر سردار بنا کر بھیجا انہوں نے جا کر انہیں دعوت اسلام دی انہوں نے دعوت تو قبول کرلی لیکن بوجہ لا علمی بجائے اسلمنا یعنی ہم مسلمان ہوئے کے " صبانا " کہا یعنی ہم بےدین ہوئے، حضرت خالد بن ولید (رض) نے انہیں قتل کرنا شروع کردیا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر جناب باری میں عرض کی یا اللہ خالد کے اس فعل میں اپنی بیزاری اور برات تیرے سامنے ظاہر کرتا ہوں، پھر حضرت علی (رض) کو بلا کر انہیں بھیجا کہ جاؤ ان کے مقتولوں کی دیت چکاؤ اور جو ان کا مالی نقصان ہوا ہو اسے بھی کوڑی کوڑی چکاؤ، اس سے ثابت ہوا کہ امام یا نائب امام کی خطا کا بوجھ بیت المال پر ہوگا۔ پھر فرمایا ہے کہ خوں بہا جو واجب ہے اگر اولیاء مقتول از خود اس سے دست بردار ہوجائیں تو انہیں اختیار ہے وہ بطور صدقہ کے اسے معاف کرسکتے ہیں۔ پھر فرمان ہے کہ اگر مقتول مسلمان ہو لیکن اس کے اولیاء حربی کافر ہوں تو قاتل پر دیت نہیں، قاتل پر اس صورت میں صرف آزادگی گردن ہے اور اگر اس کے ولی وارث اس قوم میں سے ہوں جن سے تمہاری صلح اور عہد و پیمان ہے تو دیت دینی پڑے گی اگر مقتول مومن تھا تو کامل خون بہا اور اگر مقتول کافر تھا تو بعض کے نزدیک تو پوری دیت ہے بعض کے نزدیک آدھی بعض کے نزدیک تہائی، تفصیل کتب احکام میں ملاحظہ ہو اور قاتل پر مومن بردے کو آزاد کرنا بھی لازم ہے اگر کسی کو اس کی طاقت بوجہ مفلسی کے نہ ہو تو اس کے ذمے دو مہینے کے روزے ہیں جو لگاتار پے درپے رکھنے ہوں گے اگر کسی شرعی عذر مثلاً بیماری یا حیض یا نفاس کے بغیر کوئی روزہ بیچ میں سے چھوڑ دیا تو پھر نئے سرے سے روزے شروع کرنے پڑیں گے، سفر کے بارے میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ بھی شرعی عذر ہے دوسرے یہ کہ یہ عذر نہیں۔ پھر فرماتا ہے قتل خطا کی توبہ کی یہ صورت ہے کہ غلام آزاد نہیں کرسکتا تو روزے رکھ لے اور جسے روزوں کی بھی طاقت نہ ہو وہ مسکینوں کو کھلا سکتا ہے یا نہیں ؟ تو ایک قول تو یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے جیسے کہ ظہار کے کفارے میں ہے، وہاں صاف بیان فرما دیا یہاں اس لئے بیان نہیں کیا گیا کہ یہ ڈرانے اور خوف دلانے کا مقام ہے آسانی کی صورت اگر بیان کردی جاتی تو ہیبت و عظمت اتنی باقی نہ رہتی، دوسرا قول یہ ہے کہ روزے کے نیچے کچھ نہیں اگر ہوتا تو بیان کے ساتھ ہی بیان کردیا جاتا، حاجب کے وقت سے بیان کو موخر کرنا ٹھیک نہیں (یہ بظاہر قول ثانی ہی صحیح معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم۔ مترجم) اللہ علیم وحکیم ہے، اس کی تفسیر کئی مرتبہ گذر چکی ہے۔
قتل عمداً اور قتل مسلم
قتل خطا کے بعد اب قتل عمداً کا بیان ہو رہا ہے، اس کی سختی برائی اور انتہائی تاکید والی ڈراؤنی وعید فرمائی جا رہی ہے یہ وہ گناہ جسے اللہ تعالیٰ نے شرک کے ساتھ ملا دیا ہے فرماتا ہے (وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا) 25 ۔ الفرقان :68) یعنی مسلمان بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود ٹھہرا کر نہیں پکارتے اور نہ وہ کسی شخص کو ناحق قتل کرتے ہیں، دوسری جگہ فرمان ہے ( قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ) 6 ۔ الانعام :151) یہاں بھی اللہ کے حرام کئے ہوئے کاموں کا ذکر کرتے ہیں شرک کا اور قتل کا ذکر فرمایا ہے اور بھی اس مضمون کی آیتیں بہت سی ہیں اور حدیث بھی اس باب میں بہت سی منقول ہوئی ہیں، بخاری مسلم میں ہے کہ سب سے پہلے خون کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا، ابو داؤد میں ہے ایماندار نیکیوں اور بھلائیوں میں بڑھتا رہتا ہے جب تک کہ خون ناحق نہ کرے اگر ایسا کرلیا تو تباہ ہوجاتا ہے، دوسری حدیث میں ہے ساری دنیا کا زوال اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے کم درجے کا ہے اور حدیث میں ہے اگر تمام روئے زمین کے اور آسمان کے لوگ کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے، اور حدیث میں ہے جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہا ہوگا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے، حضرت ابن عباس کا تو قول ہے کہ جس نے مومن کو قصداً قتل کیا اس کی توبہ قبول ہی نہیں، اہل کوفہ جب اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہیں تو ابن جیبر ابن عباس کے پاس آکر دریافت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں یہ آخری آیت ہے جسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا، اور آپ فرماتے ہیں کہ دوسری (وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا) 25 ۔ الفرقان :68) جس میں تو یہ ذکر ہے کہ وہ اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی ہے، پس جبکہ کسی شخص نے اسلام کی حالت میں کسی مسلمان کو غیر شرعی وجہ سے قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، حضرت مجاہد سے جب یہ قول عباس بیان ہوا تو فرمانے لگے مگر جو نادم ہو، سالم بن ابو الجعد فرماتے ہیں، حضرت ابن عباس جب نابینا ہوگئے تھے ایک مرتبہ ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو ایک شخص آیا اور آپ کو آواز دے کر پوچھا کہ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالا آپ نے فرمایا اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اللہ کا اس پر غضب ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور اس کے لئے عذاب عظیم تیار ہے، اس نے پھر پوچھا اگر وہ توبہ کرے نیک عمل کرے اور ہدایت پر جم جائے تو ؟ فرمانے لگے اس کی ماں اسے روئے اسے توبہ اور ہدایت کہاں ؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے میں نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بنا ہے اس کی ماں اسے روئے جس نے مومن کو جان بوجھ مار ڈالا ہے وہ قیامت کے دن اسے دائیں یا بائیں ہاتھ سے تھامے ہوئے رحمن کے عرش کے سامنے آئے گا اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور اللہ سے کہے گا کہ اے اللہ اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ اس اللہ عظیم کی قسم جس کے ہاتھ میں عبداللہ کی جان ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات تک اسے منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری، اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی وحی اترے گی حضرت زید بن ثابت، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن، عبید بن عمیر، حسن، قتادہ، ضحاک بھی حضرت ابن عباس کے خیال کے ساتھ ہیں۔ ابن مردویہ میں ہے کہ مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے لائے گا دوسرے ہاتھ سے اپنا سر اٹھائے ہوئے ہوگا اور کہے گا میرے رب اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ قاتل کہے گا پروردگار اس لئے کہ تیری عزت ہو اللہ فرمائے گا پس یہ میری راہ میں ہے۔ دوسرا مقتول بھی اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے لائے گا اور یہی کہے گا، قاتل جواباً کہے گا اس لئے کہ فلاں کی عزت ہو اللہ فرمائے گا قاتل کا گناہ اس نے اپنے سر لے لیا پھر اسے آگ میں جھونک دیا جائے گا جس گڑھے میں ستر سال تک تو نیچے چلا جائے گا۔ مسند احمد میں ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے، لیکن ایک تو وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جو کسی مومن کا قصداً قاتل بنا۔ ابن مردویہ میں بھی ایسی ہی حدیث ہے اور وہ بالکل غریب ہے، محفوظ وہ حدیث ہے جو بحوالہ مسند بیان ہوئی۔ ابن مردویہ میں اور حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایماندار کو مار ڈالنے والا کافر ہے۔ یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔ حمید کہتے ہیں میرے پاس ابو العالیہ آئے میرے دوست بھی اس وقت میرے پاس تھے ہم سے کہنے لگے تم دونوں کم عمر اور زیادہ یادداشت والے ہو آؤ میرے ساتھ بشر بن عاصم کے پاس چلو جب وہاں پہنچے تو بشر سے فرمایا انہیں بھی وہ حدیث سنا دو انہوں نے سنانی شروع کی کہ عتبہ بن مالک لیثی نے کہا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا اس نے ایک قوم پر چھاپہ مارا وہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ان کے ساتھ ایک شخص بھاگا جا رہا تھا اس کے پیچھے ایک لشکری بھاگا جب اس کے قریب ننگی تلوار لئے ہوئے پہنچ گیا تو اس نے کہا میں تو مسلمان ہوں۔ اس نے کچھ خیال نہ کیا تلوار چلا دی۔ اس واقعہ کی خبر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوئی تو آپ بہت ناراض ہوئے اور سخت سست کہا یہ خبر اس شخص کو بھی پہنچی۔ ایک روز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اس قاتل نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی قسم اس نے تو یہ بات محض قتل سے بچنے کے لئے کہی تھی آپ نے اس کی طرف سے نگاہ پھیرلی اور خطبہ سناتے رہے۔ اس نے دوبارہ کہا آپ نے پھر منہ موڑ لیا، اس سے صبر نہ ہوسکا، تیسری باری کہا تو آپ نے اس کی طرف توجہ کی اور ناراضگی آپ کے چہرے سے ٹپک رہی تھی، فرمانے لگے مومن کے قاتل کی کوئی بھی معذرت قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ انکار کرتے ہیں تین بار یہی فرمایا یہ روایت نسائی میں بھی ہے پس ایک مذہب تو یہ ہوا کہ قاتل مومن کی توبہ نہیں دوسرا مذہب یہ کے کہ توبہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے جمہور سلف وخلف کا یہی مذہب ہے کہ اگر اس نے توبہ کی اللہ کی طرف رجوع کیا خشوع خضوع میں لگا رہا نیک اعمال کرنے لگ گیا تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلے گا اور مقتول کو اپنے پاس سے عوض دے کر اسے راضی کرلے گا اللہ فرماتا ہے (اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَــنَّةَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ شَـيْــــــًٔا) 19 ۔ مریم :60) یہ خبر اور خبر میں نسخ کا احتمال نہیں اور اس آیت کو مشرکوں کے بارے میں اور اس آیت کو مومنوں کے بارے میں خاص کرنا بظاہر خلاف قیاس ہے اور کسی صاف دلیل کا محتاج ہے واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ) 39 ۔ الزمر :53) اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یہ آیت اپنے عموم کے اعتبار سے ہر گناہ پر محیط ہے خواہ کفر و شرک ہو خواہ شک و نفاق ہو خواہ قتل وفسق ہو خواہ کچھ ہی ہو، جو اللہ کی طرف رجوع کرے اللہ اس کی طرف مائل ہوگا جو توبہ کرے اللہ اسے معاف فرمائے گا۔ فرماتا ہے (اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ) 39 ۔ الزمر :53) اللہ تعالیٰ شرک کو بخشتا نہیں اس کے سوا کے تمام گناہ جسے چاہے بخش دے۔ اللہ اس کی کریمی کے صدقے جائیے کہ اس نے اسی سورت میں اس آیت سے پہلے بھی جس کی تفسیر اب ہم کر رہے ہیں اپنی عام بخشش کی آیت بیان فرمائی اور پھر اس آیت کے بعد ہی اسے دوہرا دیا اسی طرح اپنی عام بخشش کا اعلان پھر کیا تاکہ بندوں کو اس کی کامل فطرت سے کامل امید بندہ جائے واللہ اعلم۔ بخاری مسلم کی وہ حدیث بھی اس موقعہ پر یاد رکھنے کے قابل ہے جس میں ہے کہ ایک بنی اسرائیلی نے ایک سو قتل کئے تھے۔ پھر ایک عالم سے پوچھتا ہے کہ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ تجھ میں اور تیری توبہ میں کون ہے جو حائل ہے ؟ جاؤ اس بدبستی کو چھوڑ کر نیکوں کے شہر میں بسو چناچہ اس نے ہجرت کی مگر راستے میں ہی فوت ہوگیا اور رحمت کے فرشتے اسے لے گئے یہ حدیث پوری پوری کئی مرتبہ ہوچکی ہے جبکہ بنی اسرائیل میں یہ ہے تو اس امت مرحومہ کے لئے قاتل کی توبہ کے لئے دروازے بند کیوں ہوں ؟ ہم پر تو پہلے بہت زیادہ پابندیاں تھیں جن سب سے اللہ نے ہمیں آزاد کردیا اور رحمتہ اللعالمین جیسے سردار انبیاء کو بھیج کر وہ دین ہمیں دیا جو آسانیوں اور راحتوں والا سیدھا صاف اور واضح ہے، لیکن یہاں جو سزا قاتل کی بیان فرمائی ہے اس سے مرادیہ ہے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ اسے سزا ضرور دی جائے۔ چناچہ حضرت ابوہریرہ اور سلف کی ایک جماعت بھی یہی فرماتی ہے، بلکہ اس معنی کی ایک حدیث بھی ابن مردویہ میں ہے لیکن سنداً وہ صحیح نہیں اور اسی طرح ہر وعید کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی عمل صالح وغیرہ اس کے مقابل میں نہیں تو اس بدی کا بدلہ وہ ہے جو وعید میں واضح بیان ہوا ہے اور یہی طریقہ وعید کے بارے میں ہمارے نزدیک نہایت درست اور احتیاط والا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب، اور قاتل کا مقدر جہنم بن گیا۔ چاہے اس کی وجہ توبہ کی عدم قبولیت کہا جائے یا اس کے متبادل کسی نیک عمل کا مفقود ہونا خواہ بقول جمہور دوسرا نیک عمل نجات دہندہ نہ ہونے کی وجہ سے ہو۔ وہ ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا بلکہ یہاں خلود سے مراد بہت دیر تک رہنا ہے جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ جہنم میں سے وہ بھی نکل آئیں گے جن کے دل میں رائی کے چھوٹے سے چھوٹے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا۔ اوپر جو ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بجز کفر اور قتل مومن کے معاف فرما دے۔ اس میں " عسی " ترجی کا مسئلہ ہے ان دونوں صورتوں میں ترجی یعنی امید گو اٹھ جائے پھر بھی وقوع پذیر ہوتا یعنی ایسا ہونا ان دونوں میں سے ایک بھی ممکن نہیں اور وہ قتل ہے، کیونکہ شرک وکفر کا معاف نہ ہونا تو الفاظ قرآن سے ثابت ہوچکا اور جو حدیثیں گذریں جن میں قاتل کو مقتول لے کر آئے گا وہ بالکل ٹھیک ہیں چونکہ اس میں انسانی حق ہے وہ توبہ سے ٹل نہیں جاتا۔ بلکہ انسانی حق تو توبہ ہونے کی صورت میں بھی حقدار کو پہنچانا ضروری ہے اس میں جس طرح قتل ہے اسی طرح چوری ہے غضب ہے تہمت ہے اور دوسرے حقوق انسان ہیں جن کا توبہ سے معاف نہ ہونا اجماعاً ثابت ہے بلکہ توبہ کے لئے صحت کی شرط ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے۔ اور جب ادائیگی محال ہے تو قیامت کے روز اس کا مطالبہ ضروری ہے۔ لیکن مطالبہ سے سزا کا واقع ہونا ضروری نہیں۔ ممکن ہے کہ قاتل کے اور سب اعمال صالحہ مقتول کو دے دئیے جائیں یا بعض دے دئیے جائیں اور اس کے پاس پھر بھی کچھ رہ جائیں اور یہ بخش دیا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل کا مطالبہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اپنے پاس سے اور اپنی طرف سے حور و قصور اور بلند درجات جنت دے کر پورا کر دے اور اس کے عوض وہ اپنے قاتل سے درگذر کرنے پر خوش ہوجائے اور قاتل کو اللہ تعالیٰ بخش دے وغیرہ۔ واللہ اعلم۔ جان بوجھ کر مارا ڈالنے والے کے لئے کچھ تو دنیوی احکام ہیں اور کچھ اخروی۔ دنیا میں تو اللہ نے مقتول کے ولیوں کو اس پر غلیہ دیا ہے فرماتا ہے (آیت ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا الخ، ) جو ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے پیچھے والوں کو غلبہ دیا ہے کہ انہیں اختیار ہے کہ یا تو وہ بدلہ لیں یعنی قاتل کو بھی قتل کرائیں یا معاف کردیں یا دیت یعنی خون بہا یعنی جرمانہ وصول کرلیں اور اس کے جرمانہ میں سختی ہے جو تین قسموں پر مشتمل ہے۔ تیس تو چوتھے سال کی عمر میں لگے ہوئے اونٹ، تیس پانچویں سال میں لگے ہوئے، چالیس حاملہ اونٹنیاں جیسے کہ کتب احکام میں ثابت ہیں، اس میں ائمہ نے اختلاف کیا ہے کہ اس پر غلام کا آزاد کرنا یا دو ماہ کے پے درپے روزے رکھے یا کھانا کھلانا ہے یا نہیں ؟ پس امام شافعی اور ان کے اصحاب اور علماء کی ایک جماعت تو اس کی قائل ہے کہ جب خطا میں یہ حکم ہے تو عمداً میں بطور ادنیٰ یہی حکم ہونا چاہئے اور ان پر جواباً جھوٹی غیر شرعی قسم کے کفارے کو پیش کیا گیا ہے اور انہوں نے اس کا عذر عمداً چھوڑ دی ہوئی دی نماز کو قضا قرار دیا ہے جیسے کہ اس پر اجماع ہے خطا میں، امام احمد کے اصحاب اور دوسرے کہتے ہیں قتل عمداً ناقابل کفارہ ہے۔ اس لئے اس یعنی کفارہ نہیں اور اسی طرح جھوٹی قسم اور ان کے لئے ان دونوں صورتوں میں اور عمداً چھوٹی ہوئی نماز میں فرق کرنے کی کوئی راہ نہیں، اسلئے کہ یہ لوگ حضرت واثلہ بن اسقع کے پاس آئے اور کہا کوئی ایسی حدیث بھی ہے جو مسند احمد میں مروی ہے کہ لوگ حضرت واثلہ بن اسقع کے پاس آئے اور کہا کوئی ایسی حدیث سناؤ جس میں کمی زیادتی نہ ہو تو وہ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے کیا تم قرآن لے کر پڑھتے ہو تو اس میں کمی زیادتی بھی کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا حضرت ہمارا مطلب یہ ہے کہ خود رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ نے جو سنی ہو کہا ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنوں میں سے ایک آدمی کی بابت حاضر ہوئے جس نے بوجہ قتل کے اپنے تئیں جہنمی بنا لیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا اس کی طرف سے ایک غلام آزاد کرو اس کے ایک ایک عضو کے بدلہ اس کا ایک ایک عضو اللہ تعالیٰ جہنم سے آزاد کردے گا۔