مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو (جہاد سے جی چرا کر) بغیر کسی (عذر) تکلیف کے (گھروں میں) بیٹھ رہنے والے ہیں اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والے ہیں (یہ دونوں درجہ و ثواب میں) برابر نہیں ہوسکتے۔ اللہ نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر مرتبہ میں فضیلت بخشی ہے اوراللہ نے سب (ایمان والوں) سے وعدہ (تو) بھلائی کا (ہی) فرمایا ہے، اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو (بہر طور) بیٹھ رہنے والوں پر زبردست اجر (و ثواب) کی فضیلت دی ہے،
English Sahih:
Not equal are those believers remaining [at home] – other than the disabled – and the mujahideen, [who strive and fight] in the cause of Allah with their wealth and their lives. Allah has preferred the mujahideen through their wealth and their lives over those who remain [behind], by degrees. And to all [i.e., both] Allah has promised the best [reward]. But Allah has preferred the mujahideen over those who remain [behind] with a great reward –
1 Abul A'ala Maududi
مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے اگرچہ ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے، مگر اُس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے
2 Ahmed Raza Khan
برابر نہیں وہ مسلمان کہ بے عذر جہاد سے بیٹھ رہیں اور وہ کہ راہ خدا میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کا درجہ بیٹھنے والوں سے بڑا کیا اور اللہ نے سب سےبھلائی کا وعدہ فرمایا اور اللہ نے جہاد والوں کو بیٹھنے والوں پر بڑے ثواب سے فضیلت دی ہے،
3 Ahmed Ali
مسلمانوں میں سے جو لوگ کسی عذر کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو الله کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں دونوں برابر نہیں ہیں الله نے بیٹھنے والوں پر جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑھایا دیا ہے اگرچہ ہر ایک سے الله نے بھلائي کا وعدہ کیا ہے اور الله نے لڑنے والوں کو بیٹھنے والوں سے اجر عظیم میں زیادہ کیا ہے
4 Ahsanul Bayan
اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھے رہنے والے مومن برابر نہیں (١) اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر اللہ تعالٰی نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالٰی نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیا (۲) ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے۔
٩٥۔١ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم (نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ لینے سے مجبور ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر و ثواب حاصل نہیں کر سکیں گے، اس پر اللہ تعالٰی نے (غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ)"بغیر عذر کے" کا استثناء نازل فرما دیا یعنی عذر کے ساتھ بیٹھ رہنے والے، مجاھدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ انہیں عذر نے روکا ہوا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد) ۹۵۔۲ یعنی جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہوگی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے۔ تاہم اللہ تعالٰی نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہوا ہے اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے لیں تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اور جو خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے خدا نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے
6 Muhammad Junagarhi
اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راه میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعده دیا ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
مسلمانوں میں سے بلا عذر گھر میں بیٹھے رہنے والے اور راہِ خدا میں مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو درجہ کے اعتبار سے بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دی ہے اور یوں تو اللہ نے ہر ایک سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے۔ مگر اس نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے ساتھ فضیلت دی ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اندھے بیمار اور معذور افراد کے علاوہ گھر بیٹھ رہنے والے صاحبانِ ایمان ہرگز ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو راسِ خدا میں اپنے جان و مال سے جہاد کرنے والے ہیں- اللہ نے اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر امتیاز عنایت کئے ہیں اور ہر ایک سے نیکی کا وعدہ کیا ہے اور مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں اج» عظیم عطا کیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے اور وہ جو خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ نے درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے خدا نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے شان نزول : لا یستوی القاعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر (الآیة) جب یہ آیت نازل ہوئی کہ گھروں میں بیٹھے رہنے والے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے، تو حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم (رض) (نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ نہیں لے سکتے جس کی وجہ سے ہم جہاد کے اجر وثواب سے محروم رہیں گے، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے \&\& غیرُ اولی الضرر \&\& استثناء نازل فرمایا، یعنی عذر کی وجہ سے جہاد میں حصہ نہ لینے والے اجرو ثواب میں مجاہدین کے شریک ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اہل ایمان میں سے وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ذریعے سے جہاد کرتا ہے اور وہ شخص جو جہاد کے لیے نہیں نکلتا اور اللہ کے دشمنوں کے ساتھ قتال نہیں کرتا، دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلنے کی ترغیب ہے اور سستی اور کسی عذر کے بغیر جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنے سے ڈرایا گیا ہے۔ رہے وہ لوگ جو کسی تکلیف میں مبتلا ہیں مثلاً مریض، اندھا اور لنگڑا وغیرہ اور وہ شخص جس کے پاس جہاد پر جانے کے لیے سامان وغیرہ نہیں، تو یہ لوگ بغیر عذر گھر بیٹھ رہنے والوں میں شمار نہیں ہوں گے۔ ہاں ! وہ شخص جو کسی تکلیف میں مبتلا ہے اور وہ اپنے گھر بیٹھ رہنے پر خوش اور راضی ہے اور وہ یہ نیت بھی نہیں رکھتا کہ اگر یہ مانع موجود نہ ہوتا تو وہ جہاد میں ضرور شریک ہوتا اور اس کے دل میں کبھی جہاد کی خواہش بھی نہیں ہوئی تو ایسا شخص بغیر عذر گھر بیٹھ رہنے والوں میں شمار ہوگا۔ جو کوئی یہ عزم رکھتا ہے کہ اگر یہ مانع موجود نہ ہوتا تو وہ اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا، وہ جہاد کی تمنا اور آرزو کرتا ہے اور اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ہے تو ایسا شخص جہاد کرنے والوں میں شمار ہوگا، کیونکہ نیت جازم کے ساتھ جب وہ عمل مقرون ہوتا ہے جو قولاً یا فعلاً نیت کرنے والے کے اختیار میں ہے تو وہ اس صاحب نیت کو فاعل کے مقام پر فائز کردیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نہایت صراحت کے ساتھ مجاہدین کو گھر بیٹھ رہنے والوں پر بلندی درجات کی فضیلت سے نوازا ہے۔ یہ فضیلت اجمالاً بیان فرمائی ہے۔ اس کے بعد صراحت کے ساتھ اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے رب کی طرف سے مغفرت اور رحمت کا وعدہ فرمایا جو ہر بھلائی کے حصول اور ہر برائی کے سدباب پر مشتمل ہے۔ صحیحین میں مروی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان درجات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ’ ’جنت کے اندر سو درجے ہیں اور ان ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان کے درمیان۔ اس جنت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے۔“[ صحیح بخاری، الجھاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ، حدیث :2890] یہ ثواب جو اللہ تعالیٰ نے جہاد پر مرتب کیا ہے اس کی نظیر سورۃ صف کی یہ آیات ہیں: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ- تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ) (الصف :61؍10۔12) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو کیا میں تمہیں ایسی تجارت نہ بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دے، تم اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنے مال سے جہاد کرو۔ اگر تم علم رکھتے ہو تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں جنت میں داخل کرے گا۔ جن میں نہریں بہہ رہی ہیں اور جنت جاوداں میں پاکیزہ آرام گاہوں میں داخل کرے گا۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ “ ذرا حسن انتقال پر غور فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک حالت سے دوسری بلند تر حالت کی طرف منتقل ہونے کا کیسے ذکر فرمایا ہے۔ سب سے پہلے مجاہد اور غیر مجاہد کے درمیان مساوات (برابر ہنے) کی نفی فرمائی، پھر تصریح فرمائی کہ مجاہد کو گھر بیٹھ رہنے والے پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے، پھر مغفرت، رحمت اور بلند درجات کے ذریعے سے مجاہد کو فضیلت عطا کرنے کی طرف انتقال فرمایا۔ فضیلت اور مدح کے موقع پر فروتر سے بلند تر حالت کی طرف اور مذمت اور برائی کے موقع پر بلند تر حالت سے فروتر حالت کی طرف یہ انتقال، لفظوں کے اعتبار سے حسین تر اور نفوس انسانی میں کارگر ہونے کے اعتبار سے مؤثر تر ہے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دیتا ہے جب کہ دونوں ہی کو فضیلت حاصل ہوتی ہو وہ ایسے لفظ کے ساتھ فضیلت بیان کرنے سے احتراز کرتا ہے جو دونوں کا جامع ہو۔ تاکہ کسی کو یہ وہم لاحق نہ ہو کہ کم تر فضیلت کی حامل چیز کی مذمت بیان کی ہے۔ جیسا کہ یہاں بیان فرمایا : ﴿وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ﴾ ”اللہ نے سب کے ساتھ اچھا وعدہ کیا ہے۔“ اور جیسا کہ محولہ بالا سورۃ صف کی آیات میں فرمایا : ﴿وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾” مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے“ فرمایا : ﴿لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ ﴾(الحدید :57؍10) ” تم میں سے جس شخص نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا (اور جس نے فتح مکہ کے بعد یہ کام کئے) برابر نہیں“ پھر فرمایا : ﴿وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ﴾ (الحدید: 57؍10) ” اور اللہ نے سب کے ساتھ اچھا وعدہ کیا ہے۔“ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ ﴾(الانبیاء :21؍ 79)” پس فیصلہ کرنے کا طریقہ ہم نے سلیمان کو سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو علم و حکمت عطا کی تھی۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
jinn musalmanon ko koi maazoori laahaq naa ho aur woh ( jihad mein janey kay bajaye ghar mein ) beth rahen woh Allah kay raastay mein apney maal o jaan say jihad kernay walon kay barabar nahi hain . jo log apney maal o jaan say jihad kertay hain unn ko Allah ney beth rehney walon per darjay mein fazilat di hai . aur Allah ney sabb say achai ka wada ker rakha hai . aur Allah ney mujahideen ko beth rehney walon per bari fazilat dey ker bara sawab bakhsha hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مجاہد اور عوام میں فرق صحیح بخاری میں ہے کہ جب اس آیت کے ابتدائی الفاظ اترے کہ گھروں میں بیٹھ رہنے والے جہاد کرنے والے مومن برابر نہیں، تو آپ اسے حضرت زید کو بلوا کر لکھوا رہے تھے اس وقت حضرت ابن ام مکتوم نابینا آئے اور کہنے لگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو نابینا ہوں معذور ہوں اس پر الفاظ غیر اولی الضرر نازل ہوئے یعنی وہ بیٹھ رہنے والے جو بےعذر ہوں ان کا ذکر ہے۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت زید اپنے ساتھ قلم دوات اور شانہ لے کر آئے تھے اور حدیث میں ہے کہ ام مکتوم نے فرمایا تھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو میں ضرور جہاد میں شامل ہوتا اس پر وہ آیت اتری اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ران حضرت زید کی ران پر تھی ان پر اس قدر بوجھ پڑا قریب تھا کہ ران ٹوٹ جائے۔ وہ حدیث میں ہے کہ جس وقت ان آیات کی وحی اتری اور اس کے بعد طمانیت آپ پر نازل ہوئی میں آپ کے پہلو میں تھا اللہ کی قسم مجھ پر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ران کا ایسا بوجھ پڑا کہ میں نے اس سے زیادہ بوجھل چیز زندگی بھر کوئی اٹھائی پھر وحی ہٹ جانے کے بعد آپ نے عظیما تک آیت لکھوائی اور میں نے اسے شانے کی ہڈی پر لکھ لیا اور حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ابھی تو ابن ام مکتوم کے الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے جو آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی، حضرت زید فرماتے ہیں وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بعد میں اترے ہوئے الفاظ کو میں نے ان کی جگہ پر اپنی تحریر میں بعد میں بڑھایا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مراد بدر کی لڑائی میں جانے والے اور اس میں حاضر نہ ہونے والے ہیں، غزوہ بدر کے موقعہ پر حضرت عبداللہ بن جعش اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم آکر حضور سے کہنے لگے ہم دونوں نابینا ہیں کیا ہمیں رخصت ہے ؟ تو انہیں آیت قرآنی میں رخصت دی گئی، پس مجاہدین کو جس قسم کے بیٹھ رہنے والوں پر فضلیت دی گئی ہے وہ وہ ہیں جو صحت و تندرستی والے ہوں، پس پہلے تو مجاہدین کو جس قسم کے بیٹھ رہنے والوں پر فضلیت دی گئی ہے وہ وہ ہیں جو صحت و تندرستی والے ہوں، پس پہلے تو مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر مطلقاً فضلیت تھی لیکن اسی وحی میں جو الفاظ اترے اس نے ان لوگوں کو جنہیں مباح عذر ہوں عام بیٹھ رہنے والوں سے مستثنیٰ کردیا جیسے اندھے لنگڑے لولے اور بیمار، یہ مجاہدین کے درجے میں ہیں۔ پھر مجاہدین کی جو فضلیت بیان ہوئی ہے وہ ان لوگوں پر بھی ہے جو بےوجہ جہاد میں شامل نہ ہوئے ہوں، جیسے کہ ابن عباس کی تفسیر گذری اور یہ ہونا بھی چاہئے بخاری میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مدینہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم جس جہاد کے لئے سفر کرو اور جس جنگل میں کوچ کرو وہ تمہارے ساتھ اجر میں یکساں ہیں، صحابہ نے کہا باوجودیکہ وہ مدینے میں مقیم ہیں، آپ نے فرمایا اس لئے کہ انہیں عذر نے روک رکھا ہے اور روایت میں ہے کہ تم جو خرچ کرتے ہو اس کا ثواب بھی جو تمہیں ملتا ہے انہیں بھی ملتا ہے، اسی مطلب کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں یارا حلین الی البیت العتیق لقد سر تم جسو ماو سرنا نحن ارواحا انا اقمنا علی عذروعن قدر ومن اقام علی عذر فقدراحا یعنی اے اللہ کے گھر کے حج کو جانے والو ! اگر تم اپنے جسموں سمیت اس طرف چل رہے ہو لیکن ہم بھی اپنی روحانی روش سے اسی طرف لپکے جا رہے ہیں، سنو ہماری جسمانی کمزوری اور عذر نے ہمیں روک رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ عذر سے رک جانے والا کچھ جانے والے سے کم نہیں پھر فرمایا ہے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ جنت کا اور بہت بڑے اجر کا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے، پھر ارشاد ہے، مجاہدین کو غیر مجاہدین پر بڑی فضلیت ہے۔ پھر ان کے بلند درجات ان کے گناہوں کی معافی اور ان پر جو برکت و رحمت ہے اس کا بیان فرمایا اور اپنی عام بخشش اور عام رحم کی خبر دی۔ بخاری مسلم میں ہے جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے راہ کے مجاہدین کے لئے تیار کیا ہے ہر دو درجوں میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین میں، اور حدیث میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے اسے جنت کا درجہ ملتا ہے ایک شخص نے پوچھا درجہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ تمہارے یہاں کے گھروں کے بالا خانوں جتنا نہیں بلکہ دو درجوں میں سو سال کا فاصلہ ہے۔