Skip to main content

رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ ۚ يُلْقِى الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَاۤءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ ۙ

Possessor of the Highest Ranks
رَفِيعُ
بلند
Possessor of the Highest Ranks
ٱلدَّرَجَٰتِ
درجوں والا ہے
Owner (of) the Throne
ذُو
والا ہے
Owner (of) the Throne
ٱلْعَرْشِ
عرش (والا ہے)
He places
يُلْقِى
ڈالتا ہے
the inspiration
ٱلرُّوحَ
وحی کو
by
مِنْ
سے
His Command
أَمْرِهِۦ
اپنے حکم (سے)
upon
عَلَىٰ
پر
whom
مَن
جس پر
He wills
يَشَآءُ
وہ چاہتا ہے
of
مِنْ
سے
His slaves
عِبَادِهِۦ
اپنے بندوں میں (سے)
to warn
لِيُنذِرَ
تاکہ وہ خبردار کرے
(of the) Day
يَوْمَ
دن(سے)
(of) the Meeting
ٱلتَّلَاقِ
ملاقات کے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

وہ بلند درجوں والا، مالک عرش ہے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح نازل کر دیتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن سے خبردار کر دے

English Sahih:

[He is] the Exalted above [all] degrees, Owner of the Throne; He places the inspiration of His command [i.e., revelation] upon whom He wills of His servants to warn of the Day of Meeting.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

وہ بلند درجوں والا، مالک عرش ہے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح نازل کر دیتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن سے خبردار کر دے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

بلند درجے دینے والا عرش کامالک ایمان کی جان وحی ڈالتا ہے اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہے کہ وہ ملنے کے دن سے ڈرائے

احمد علی Ahmed Ali

وہ اونچے درجوں والا عرش کا مالک ہے اپنے حکم سے اپنےبندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے وحی بھیجتا ہے تاکہ وہ ملاقات (قیامت) کے دن سے ڈرائے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

بلند درجوں والا عرش کا مالک وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تاکہ ملاقات کے دن ڈرائے۔

۱٥۔۱ روح سے مراد وحی ہے جو وہ بندوں میں سے ہی کسی کو رسالت کے لیے چن کر اس پر نازل فرماتا ہے وحی کو روح سے اس لیے تعبیر فربایا کہ جس طرح روح میں انسانی زندگی کی بقا و سلامتی کا راز مضمر ہے اسی طرح وحی سے بھی ان انسانی قلوب میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے جو پہلے کفر وشرک کی وجہ سے مردہ ہوتے ہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

مالک درجات عالی اور صاحب عرش ہے۔ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے وحی بھیجتا ہے تاکہ ملاقات کے دن سے ڈراوے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

بلند درجوں واﻻ عرش کامالک وه اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے، تاکہ وه ملاقات کے دن سے ڈرائے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

(وہ) بلند درجوں والا (اور) عرش کا مالک ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح (وحی) کو نازل کرتا ہے تاکہ وہ بارگاہِ الٰہی میں حضوری والے دن سے ڈرائے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

وہ خدا بلند درجات کا مالک اور صاحبِ عرش ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے وحی کو نازل کرتا ہے تاکہ ملاقات کے دن سے لوگوں کو ڈرائے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

درجات بلند کرنے والا، مالکِ عرش، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے روح (یعنی وحی) اپنے حکم سے القاء فرماتا ہے تاکہ وہ (لوگوں کو) اکٹھا ہونے والے دن سے ڈرائے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

روز قیامت سب اللہ کے سامنے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ اپنی کبریائی اور عظمت اور اپنے عرش کی بڑائی اور وسعت بیان فرماتا ہے۔ جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے جیسے ارشاد ہے ( مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ ۝ۭ ) 70 ۔ المعارج ;3) ، یعنی وہ عذاب اللہ کی طرف سے ہوگا جو سیڑھیوں والا ہے۔ کہ فرشتے اور روح اس کے پاس چڑھ کر جاتے ہیں۔ ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے اور اس بات کا بیان انشاء اللہ آگے آئے گا کہ یہ دوری ساتویں زمین سے لے کر عرش تک کی ہے، جیسے سلف و خلف کی ایک جماعت کا قول ہے اور یہی راجح بھی ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ عرش سرخ رنگ یاقوت کا ہے جس کے دو کناروں کی وسعت پچاس ہزار سال کی ہے اور جس کی اونچائی ساتویں زمین سے پچاس ہزار سال کی ہے اور اس سے پہلے اس حدیث میں جس میں فرشتوں کا عرش اٹھانا بیان ہوا ہے یہ بھی گذر چکا ہے کہ ساتوں آسمانوں سے بھی وہ بہت بلند اور بہت اونچا ہے وہ جس پر چاہے وحی بھیجے۔ جیسے ( يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ ۝) 16 ۔ النحل ;2) ، وہ فرشتوں کو وحی دے کر اپنے حکم سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کردو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں مجھ سے ڈرتے رہو اور جگہ فرمان ہے ( وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ\019\02ۭ ) 26 ۔ الشعراء ;192) یعنی یہ قرآن تمام جہانوں کے رب کا اتارا ہوا ہے۔ جسے معتبر فرشتے نے تیرے دل پر اتارا ہے۔ تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے۔ یہاں بھی یہی فرمایا کہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرا دے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ بھی قیامت کا ایک نام ہے جس سے اللہ نے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے۔ جس میں حضرت آدم خود اور ان کی اولاد میں سے سب سے آخری بچہ ایک دوسرے سے مل لے گا۔ ابن زید فرماتے ہیں بندے اللہ سے ملیں گے۔ قتادہ فرماتے ہیں آسمان والے اور زمین والے آپس میں ملاقات کریں گے۔ خالق و مخلوق، ظالم و مظلوم ملیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر ایک دوسرے سے ملاقات کرے گا۔ بلکہ عامل اور اس کا عمل بھی ملے گا۔ آج سب اللہ کے سامنے ہوں گے۔ بالکل ظاہر باہر ہوں گے، چھپنے کی تو کہاں سائے کی جگہ بھی کوئی نہ ہوگی۔ سب اس کے آمنے سامنے موجود ہوں گے۔ اس دن خود اللہ فرمائے گا کہ آج بادشاہت کس کی ہے ؟ کون ہوگا جو جواب تک دے ؟ پھر خود ہی جواب دے گا کہ اللہ اکیلے کی جو ہمیشہ واحد واحد ہے اور سب پر غالب و حکمراں ہے۔ پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائے گا۔ میں بادشاہ ہوں، میں جبار ہوں متکبر ہوں۔ زمین کے بادشاہ اور جبار اور متکبر لوگ آج کہاں ہیں ؟ صور کی حدیث میں ہے کہ اللہ عزوجل جب تمام مخلوق کی روح قبض کرلے گا۔ اور اس وحدہ لاشریک لہ کے سوا اور کوئی باقی نہ رہے گا۔ اس وقت تین مرتبہ فرمائے گا آج ملک کس کا ہے ؟ پھر خود ہی جواب دے گا اللہ اکیلے غالب کا۔ یعنی اس کا جو واحد ہے اس کا جو ہر چیز پر غالب ہے جس کی ملکیت میں ہر چیز ہے۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ قیامت کے قائم ہونے کے وقت ایک منای ندا کرے گا کہ لوگو ! قیامت آگئی جسے مردے زندے سب سنیں گے۔ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرمائے گا اور کہے گا آج کس کے لئے ملک ہے صرف اللہ اکیلے غلبہ والے کے لئے، پھر اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ ذرا سا بھی ظلم اس دن نہ ہوگا بلکہ نیکیاں دس دس گنی کر کے ملیں گی اور برائیاں اتنی ہی رکھی جائیں گی۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اے میرے بندوں میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر بھی حرام کرلیا ہے اور تم پر بھی حرام کردیا ہے۔ پس تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے آخر میں ہے اے میرے بندو یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں۔ جن پر میں نگاہ رکھتا ہوں اور جن کا پورا بدلہ دوں گا۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے تئیں ہی ملامت کرے۔ پھر اپنے جلد حساب لینے کو بیان فرمایا کہ ساری مخلوق سے حساب لینا اس پر ایسا ہے جیسے ایک شخص کا حساب لینا جیسے ارشاد باری ہے ( مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ 28؀) 31 ۔ لقمان ;28) یعنی تم سب کا پیدا کرنا اور تم سب کو مرنے کے بعد زندہ کردینا میرے نزدیک ایک شخص کے پیدا کرنے اور زندہ کردینے کی مانند ہے اور آیت میں ہے اللہ عزوجل کا فرمان ہے ( وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ 50؀) 54 ۔ القمر ;50) یعنی ہمارے حکم کے ساتھ ہی کام ہوجاتا ہے اتنی دیر میں جیسے کسی نے آنکھ بند کر کے کھول لی۔