Skip to main content

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ۖ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ اِيْمَانَهٗۤ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّىَ اللّٰهُ وَقَدْ جَاۤءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ۗ وَاِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ ۗ وَاِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِىْ يَعِدُكُمْ ۚ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِىْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ

And said
وَقَالَ
اور کہا
a man
رَجُلٌ
اس شخص نے
believing
مُّؤْمِنٌ
مومن
from
مِّنْ
سے
(the) family
ءَالِ
آل
(of) Firaun
فِرْعَوْنَ
فرعون میں (سے)
who conceal(ed)
يَكْتُمُ
جو چھپائے ہوئے تھا
his faith
إِيمَٰنَهُۥٓ
اپنا ایمان
"Will you kill
أَتَقْتُلُونَ
کیا تم قتل کردو گے
a man
رَجُلًا
ایک شخص کو
because
أَن
کہ
he says
يَقُولَ
وہ کہتا ہے
"My Lord
رَبِّىَ
میرا رب
(is) Allah"
ٱللَّهُ
اللہ ہے
and indeed
وَقَدْ
حالانکہ تحقیق
he has brought you
جَآءَكُم
وہ لایا تمہارے پاس
clear proofs
بِٱلْبَيِّنَٰتِ
روشن دلائل
from
مِن
سے
your Lord?
رَّبِّكُمْۖ
تمہارے رب کی طرف (سے)
And if
وَإِن
اور اگر
he is
يَكُ
ہے وہ
a liar
كَٰذِبًا
جھوٹا
then upon him
فَعَلَيْهِ
تو اس پر ہے
(is) his lie;
كَذِبُهُۥۖ
جھوٹ اس کا
and if
وَإِن
اور اگر
he is
يَكُ
ہے وہ
truthful
صَادِقًا
سچا
(there) will strike you
يُصِبْكُم
پہنچے گا تم کو
some (of)
بَعْضُ
بعض
(that) which
ٱلَّذِى
وہ چیز
he threatens you
يَعِدُكُمْۖ
وہ وعدہ کرتا ہے تم سے
Indeed
إِنَّ
بیشک
Allah
ٱللَّهَ
اللہ
(does) not
لَا
نہیں
guide
يَهْدِى
ہدایت دیتا
(one) who
مَنْ
جو کوئی ہو
[he]
هُوَ
وہ
(is) a transgressor
مُسْرِفٌ
حد سے گزرنے والا
a liar
كَذَّابٌ
جھوٹا۔ جھٹلانے والا

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن شخص، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، بول اٹھا; "کیا تم ایک شخص کو صرف اِس بنا پر قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بینات لے آیا اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ پڑے گا لیکن اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج کا وہ تم کو خوف دلاتا ہے ان میں سے کچھ تو تم پر ضرور ہی آ جائیں گے اللہ کسی شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذاب ہو

English Sahih:

And a believing man from the family of Pharaoh who concealed his faith said, "Do you kill a man [merely] because he says, 'My Lord is Allah' while he has brought you clear proofs from your Lord? And if he should be lying, then upon him is [the consequence of] his lie; but if he should be truthful, there will strike you some of what he promises you. Indeed, Allah does not guide one who is a transgressor and a liar.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن شخص، جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، بول اٹھا: "کیا تم ایک شخص کو صرف اِس بنا پر قتل کر دو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بینات لے آیا اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ پڑے گا لیکن اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج کا وہ تم کو خوف دلاتا ہے ان میں سے کچھ تو تم پر ضرور ہی آ جائیں گے اللہ کسی شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور کذاب ہو

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور بولا فرعون والوں میں سے ایک مرد مسلمان کہ اپنے ایمان کو چھپاتا تھا کیا ایک مرد کو اس پر مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور بیشک وہ روشن نشانیاں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے لائے اور اگر بالفرض وہ غلط کہتے ہیں تو ان کی غلط گوئی کا وبال ان پر، اور اگر وہ سچے ہیں تو تمہیں پہنچ جائے گا کچھ وہ جس کا تمہیں وعدہ دیتے ہیں بیشک اللہ راہ نہیں دیتا اسے جو حد سے بڑھنے والا بڑا جھوٹا ہو

احمد علی Ahmed Ali

اور فرعون کی قوم میں سے ایک ایمان دار آدمی نے کہا جو اپنا ایمان چھپاتا تھا کیاتم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب الله ہے اوروہ تمہارے پاس وہ روشن دلیلیں تمہارے رب کی طرف سے لایا ہے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اسی پر ا س کے جھوٹ کا وبال ہے اور اگر وہ سچا ہے تو تمہیں کچھ نہ کچھ وہ (عذاب) جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے پہنچے گا اور الله اس کو راہ پر نہیں لاتا جو حد سے بڑھنے والا بڑا جھوٹا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے (١) اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا، (۲) اللہ تعالٰی اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں۔ (۳)

٢٨۔١ یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔ ٢٨۔ یہ اس نے بطور تنزل کے کہا کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اس سے تعرض نہ کیا جائے اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالٰی خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقینا وہ نمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے تم پر ان میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔
٢٨۔۳ اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہوتا جیسا کہ تم باور کراتے ہو تو اللہ تعالٰی اسے دلائل معجزات سے نہ نوازتا جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالٰی خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص جو اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتا تھا کہنے لگا کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے اور وہ تمہارے پروردگار (کی طرف) سے نشانیاں بھی لے کر آیا ہے۔ اور اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس کے جھوٹ کا ضرر اسی کو ہوگا۔ اور اگر سچا ہوگا تو کوئی سا عذاب جس کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے تم پر واقع ہو کر رہے گا۔ بےشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو بےلحاظ جھوٹا ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ کیا تم ایک شحض کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وه کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے، اگر وه جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وه سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وه تم سے وعده کر رہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ تو تم پر آ پڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور فرعون کے خاندان میں سے ایک مردِ مؤمن نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپائے رکھتا تھا۔ کیا تم ایک شخص کو صرف اس بات پر قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس بیّنات (معجزات) لے کر آیا ہے اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) کی وہ تمہیں دھمکی دیتا ہے تو اس کا کچھ حصہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گا۔ بیشک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا اور بڑا جھوٹا ہو۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو حُھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور ملّتِ فرعون میں سے ایک مردِ مومن نے کہا جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا: کیا تم ایک شخص کو قتل کرتے ہو (صرف) اس لئے کہ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے، اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر آیا ہے، اور اگر (بالفرض) وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا بوجھ اسی پر ہوگا اور اگر وہ سچا ہے تو جس قدر عذاب کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے تمہیں پہنچ کر رہے گا، بے شک اﷲ اسے ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزرنے والا سراسر جھوٹا ہو،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ایک مرد مومن کی فرعون کو نصیحت۔
مشہور تو یہی ہے کہ یہ مومن قبطی تھے ( (رح) تعالیٰ ) اور فرعون کے خاندان کے تھے۔ بلکہ سدی فرماتے ہیں فرعون کے یہ چچا زاد بھائی تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے بھی حضرت موسیٰ کے ساتھ نجات پائی تھی۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں۔ بلکہ جن لوگوں کا قول ہے کہ یہ مومن بھی اسرائیلی تھے۔ آپ نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ اسرائیلی ہوتے تو نہ فرعون اس طرح صبر سے ان کی نصیحت سنتا نہ حضرت موسیٰ کے قتل کے ارادے سے باز آتا۔ بلکہ انہیں ایذاء پہنچاتا۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے آل فرعون میں سے ایک تو یہ مرد ایمان دار تھا اور دوسرے فرعون کی بیوی ایمان لائی تھیں۔ تیسرا وہ شخص جس نے حضرت موسیٰ کو خبر دی تھی کہ سرداروں کا مشورہ تمہیں قتل کرنے کا ہو رہا ہے۔ یہ اپنے ایمان کو چھپاتے رہتے تھے لیکن قتل موسیٰ کی سن کر ضبط نہ ہوسکی اور یہی درحقیقت سب سے بہتر اور افضل جہاد ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے انسان کلمہ حق کہہ دے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے، اور فرعون کے سامنے اس سے زیادہ بڑا کلمہ کوئی نہ تھا۔ پس یہ شخص بہت بلند مرتبے کے مجاہد تھے۔ جن کے مقابلے کا کوئی نظر نہیں آتا۔ البتہ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ایک واقعہ کئی روایتوں سے مروی ہے جس کا ماحاصل یہ ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے ایک مرتبہ پوچھا کہ سب سے بڑی ایذاء مشرکوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا پہنچائی ہے ؟ آپ نے فرمایا سنو ایک روز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ شریف میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کو پکڑ لیا اور اپنی چادر میں بل دے کر آپ کی گردن میں ڈال کر گھسیٹنے لگا جس سے آپ کا گلا گھٹنے لگا۔ اسی وقت حضرت صدیق اکبر (رض) دوڑے دوڑے آئے اور اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ قریشیوں کا مجمع جمع تھا جب آپ وہاں سے گذرے تو انہوں نے کہا کیا تو ہی ہے ؟ جو ہمیں ہمارے باپ دادوں کے معبودوں کی عبادت سے منع کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں میں ہی ہوں۔ اس پر وہ سب آپ کو چمٹ گئے اور کپڑے گھسیٹنے لگے۔ حضرت ابوبکر نے آ کر آپ کو چھڑایا اور پوری آیت اتقتلون کی تلاوت کی۔ پس اس مومن نے بھی یہی کہا کہ اس کا قصور تو صرف اتنا ہی ہے کہ یہ اپنا رب اللہ کو بتاتا ہے اور جو کہتا ہے اس پر سند اور دلیل پیش کرتا ہے۔ اچھا مان لو بالفرض یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اللہ سبحان و تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں سزا دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ستایا دکھ دیا تو یقینا تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا جیسے کہ وہ کہہ رہا ہے۔ پس عقلاً لازم ہے کہ تم اسے چھوڑ دو جو اس کی مان رہے ہیں مانیں۔ تم کیوں اس کے درپے آزار ہو رہے ہیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی فرعون اور قوم فرعون سے یہی چاہا تھا۔ جیسے کہ آیت ( وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ كَرِيْمٌ 17؀ۙ ) 44 ۔ الدخان ;17) تک ہے یعنی ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا ان کے پاس رسول کریم کو بھیجا۔ اس نے کہا کہ اللہ کے بندوں کو مجھے سونپ دو ۔ میں تمہاری طرف رب کا رسول امین ہوں۔ تم اللہ سے بغاوت نہ کرو۔ دیکھو میں تمہارے پاس کھلی دلیلیں اور زبردست معجزے لایا ہوں۔ تم مجھے سنگسار کردو گے اس سے میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں، اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھے چھوڑ دو ، یہی جناب رسول آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف مجھے پکارنے دو تم میری ایذاء رسانی سے باز رہو۔ اور میری قرابت داری کو خیال کرتے ہوئے مجھے دکھ نہ دو ۔ صلح حدیبیہ بھی دراصل یہی چیز تھی جو کھلی فتح کہلائی۔ وہ مومن کہتا ہے کہ سنو مسرف اور جھوٹے آدمی راہ یافتہ نہیں ہوتے۔ ان کے ساتھ اللہ کی نصرت نہیں ہوتی۔ ان کے اقوال و افعال بہت جلد ان کی خباثت کو ظاہر کردیتے ہیں۔ برخلاف اس کے یہ نبی اللہ اختلاف و اضطراب سے پاک ہیں۔ صحیح سچی اور اچھی راہ پر ہیں۔ زبان کے سچے عمل کے پکے ہیں۔ اگر یہ حد سے گذر جانے والے اور جھوٹے ہوتے تو یہ راستی اور عمدگی ان میں ہرگز نہ ہوتی، پھر قوم کو نصیحت کرتے ہیں اور انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں بھائیو ! تمہیں اللہ نے اس ملک کی سلطنت عطا فرمائی ہے۔ بڑی عزت دی ہے۔ تمہارا حکم جاری کر رکھا ہے۔ اللہ کی اس نعمت پر تمہیں اس کا شکر کرنا چائے اور اس کے رسولوں کو سچا ماننا چاہئے۔ یاد رکھو اگر تم نے ناشکری کی اور رسول کی طرف بری نظریں ڈالیں۔ تو یقیناً عذاب اللہ تم پر آجائے گا۔ بتاؤ اس وقت کسے لاؤ گے۔ جو تمہاری مدد پر کھڑا ہو اور اللہ کے عذاب کو روکے یا ٹالے ؟ یہ لاؤ لشکر یہ جان و مال کچھ کام نہ آئیں گے۔ فرعون سے اور تو کوئی معقول جواب بن نہ پڑا کھسایانہ بن کر قوم میں اپنی خیر خواہی جتانے لگا کہ میں دھوکا نہیں دے رہا جو میر اخیال ہے اور میرے ذہن میں ہے وہی تم پر ظاہر کر رہا ہوں۔ حالانکہ دراصل یہ بھی اس کی خیانت تھی۔ وہ بھی جانتا تھا کہ حضرت موسیٰ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ جیسے فرمان باری ہے (لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا\010\02 ) 17 ۔ الإسراء ;102) یعنی حضرت موسیٰ نے فرمایا اے فرعون تو خوب جانتا ہے کہ یہ عجائبات خاص آسمان و زمین کے پروردگار نے بھیجے ہیں۔ جو کہ بصیرت کے ذرائع ہیں اور آیت میں ہے ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14۝ۧ) 27 ۔ النمل ;14) ، یعنی انہوں نے باوجود دلی یقین کے از راہ ظلم و زیادتی انکار کردیا۔ اسی طرح اس کا یہ کہنا بھی سراسر غلط تھا کہ میں تمہیں حق کی سچائی کی اور بھلائی کی راہ دکھاتا ہوں۔ اس میں وہ لوگوں کو دھوکا دے رہا تھا اور رعیت کی خیانت کر رہا تھا۔ لیکن اس کی قوم اس کے دھوے میں آگئی اور فرعون کی بات مان لی۔ فرعون نے انہیں کسی بھلائی کی راہ نہ ڈالا۔ اس کا عمل ہی ٹھیک نہیں تھا اور جگہ اللہ عزوجل فرماتا ہے فرعون نے اپنی قوم کو بہا دیا اور انہیں صحیح راہ تک نہ پہنچنے دیا نہ پہنچایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو امام اپنی رعایا سے خیانت کر رہا ہو وہ مر کر جنت کی خوشبو بھی نہیں پاتا۔ حالانکہ وہ خوشبو پانچ سو سال کی راہ پر آتی ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ الموفق للصواب