المؤمن آية ۳۸
وَقَالَ الَّذِىْۤ اٰمَنَ يٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَهْدِكُمْ سَبِيْلَ الرَّشَادِۚ
طاہر القادری:
اور اس شخص نے کہا جو ایمان لا چکا تھا: اے میری قوم! تم میری پیروی کرو میں تمہیں خیر و ہدایت کی راہ پر لگا دوں گا،
English Sahih:
And he who believed said, "O my people, follow me; I will guide you to the way of right conduct.
1 Abul A'ala Maududi
وہ شخص جو ایمان لایا تھا، بولا "اے میری قوم کے لوگو، میری بات مانو، میں تمہیں صحیح راستہ بتاتا ہوں
2 Ahmed Raza Khan
اور وہ ایمان والا بولا، اے میری قوم! میرے پیچھے چلو میں تمہیں بھلائی کی راہ بتاؤں،
3 Ahmed Ali
اوراس شخص نے کہا جو ایمان لایا تھا اے میری قوم تم میری پیروی کرو میں تمہیں نیکی کی راہ بتاؤں گا
4 Ahsanul Bayan
اور اس ایماندار شخص نے کہا اے میری قوم! (کے لوگو) تم (سب) میری پیروی کرو میں نیک راہ کی طرف تمہاری رہبری کرونگا (١)
٣٨۔١ فرعون کی قوم سے ایمان لانے والا پھر بولا اور کہا کہ دعویٰ تو فرعون بھی کرتا ہے کہ میں تمہیں سیدھے راستے پر چلا رہا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرعون بھٹکا ہوا ہے، میں جس راستے کی نشاندہی کر رہا ہوں وہ سیدھا راستہ ہے اور وہ وہی راستہ ہے، جس کی طرف تمہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام دعوت دے رہے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور وہ شخص جو مومن تھا اس نے کہا کہ بھائیو میرے پیچھے چلو میں تمہیں بھلائی کا رستہ دکھاؤ ں
6 Muhammad Junagarhi
اور اس مومن شخص نے کہا کہ اے میری قوم! (کے لوگو) تم (سب) میری پیروی کرو میں نیک راه کی طرف تمہاری رہبری کروں گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو شخص ایمان لا چکا تھا اس نے کہا اے میری قوم! میری پیروی کرو۔ میں تمہیں سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو شخص ایمان لے آیا تھا اس نے کہا کہ اے قوم والو میرا اتباع کرو تو میں تمہیں ہدایت کا راستہ دکھاسکتا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور وہ شخص جو مومن تھا اس نے کہا کہ بھائیو ! میرے پیچھے چلو، میں تمہیں بھلائی کا رستہ دکھاؤں
آیت نمبر 38 تا 50
ترجمہ : اور اس مومن شخص نے کہا اے میری قوم (کے لوگو) میری پیروی کرو (اتَّبِعونِی) میں اثبات (ی) اور حذف (ی) کے
ساتھ میں تمہاری صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کروں گا تقدّمَ ای تقَدَّمَ قرِیْبًا (یعنی اِلاَّ سبیل الرشاد کے ضمن میں عنقریب گذر چکا ہے) اے میری قوم یہ حیات دنیا نہایت قلیل بہت جلد فنا ہونے والی متاع ہے، یقین مانو (کہ قرار) اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے جس نے گناہ کیا اس کو تو برابر کا بدلہ ہی ہے اور جس نے نیکی کی خواہ مرد ہو یا عورت اور حال یہ کہ وہ باایمان ہو تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے (یُدْخَلُوْنَ ) میں یاء کے ضمہ اور خاء کے فتحہ کے ساتھ اور اس کا عکس (بھی) وہاں بیشمار بافراغت بلامعاوضہ روزی پائیں گے بغیر احسان اور معاوضہ کے اور اے میری قوم یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلارہا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلا رہے ہو، تم مجھے دعوت دے رہے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ اس چیز کو شریک کروں کہ جس کا مجھے کوئی علم نہیں، اور میں تم کو ایسی ذات کی طرف بلا رہا ہوں جو اپنے حکم میں غالب ہے، اور توبہ کرنے والے کو معاف کرنے والا ہے یہ بات یقینی ہے کہ تم جس کی بندگی کرنے کے لئے مجھے دعوت دے رہے ہو وہ نہ تو دنیا میں پکارنے کے قابل ہے اور نہ آخرت میں، یعنی ان میں قبولیت دعاء کی صلاحیت ہی نہیں ہے، اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ ہم سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے اور یقین جانو حد سے گذرنے والے یعنی کافر ہی اہل دوزخ ہیں اور جب تم عذاب کو دیکھو گے تو میری باتوں کو عنقریب یاد کروگے میں اپنا معاملہ اللہ کے حوالہ کرتا ہوں یقیناً اللہ تعالیٰ بندوں کا نگران ہے یہ بات اس (رجل مومن) نے اس وقت کہی جب اس کو (قتل) کی دھمکی دی گئی اس کے ان (کافروں) کی دین کی مخالفت کرنے کی وجہ سے پس اللہ نے اسے تمام مکروہات (مصائب) سے محفوظ رکھ لیا، جو انہوں نے اس کے قتل کی تدبیریں سوچ رکھی تھیں، اور فرعون والوں پر (یعنی) اس کی قوم پر مع اس (فرعون) کے غرق کا بدترین عذاب الٹ پڑا بعد ازاں آگ ہے جس پر یہ ہر صبح وشام پیش کئے جائیں گے یعنی اس میں جلائے جائیں گے اور جس دن قیامت قائم ہوگی فرمان ہوگا، اے فرعونیو ! سخت ترین جہنم کے عذاب میں داخل ہوجاؤ ایک قراءت میں (اَدخِلوا) میں ہمزی کے فتحہ اور خاء کے کسرہ کے ساتھ ہے، یعنی فرشتوں کو حکم ہوگا (کہ انکو جہنم کے عذاب میں ڈالو) (اس وقت کا) ذکر کرو کہ کفار دوزخ میں آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے کمزور طبقے کے لوگ تکبر والوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے ہی پیرو تھے تَبْعٌ تَابِعٌ کی جمع ہے، تو کیا اب تم سے اس آگ کا کچھ حصہ ہٹا سکتے ہو ؟ وہ بڑے (متکبر) لوگ جواب دیں گے ہم تو سب ہی اس آگ میں ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا ہے چناچہ اس نے مومنین کو جنت میں اور کافروں کو دوزخ میں داخل کردیا تمام جہنمی دوزخ کے داروغوں سے کہیں گے کہ تم ہی اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ کسی دن یعنی ایک دن کی مقدار تو ہمارے عذاب میں تخفیف کردے تو جہنم کے داروغے استہزاء جواب دیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے رسول کھلے معجزے لے کر آئے تھے ؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں ؟ (ضرور آئے تھے) یعنی ہم ہی نے ان کا انکار کیا وہ کہیں گے پھر تو تم خود ہی دعاء کرلو ہم کسی کافر کی سفارش نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اور کافروں کی دعاء بےاثر محض اور کالعدم ہے
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : وَقَالَ الَّذِیْ آمَنَ ، الَّذِیْ اٰمَنَ سے مراد آل فرعون کا رجل مومن ہے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ
الصلاۃ والسلام مراد ہیں۔ (بیضاوی)
قولہ : باثبات الیاء وحذفھا، اِتبعُونِی کی یاء میں حذف و اثبات وقف اور وصل دونوں صورتوں میں جائز ہے مگر یہ حذف و اثبات تلفظ کی حد تک ہے، رسم الخط میں حذف لازم ہے، اس لئے کہ یہ یاء زائدہ ہے۔ (جمل)
قولہ : تَمَتّعٌ یَزُوْلُ یعنی دنیاوی زندگی سریع الزوال متاع قلیل ہے متاعٌ میں تنوین تقلیل کے لئے ہے۔
قولہ : بَلا تبعَۃٍ یعنی اس رزق بےحساب کا نہ کوئی معاوضہ ہوگا اور نہ اس پر احسان جتانا، ایک نسخہ میں بلا تَبِعَۃٍ کے بجائے بِلاَ تعبَۃٍ ہے یعنی بلا مشقۃ۔ قولہ : تَدْعُوْنَنِیْ لَاِ الخ یہ تَدْعُوْنَنِیْ اول سے بدل ہے۔
قولہ : لاَجَرَمَ ، یقینا اور حقًّا کے ہم معنی ہے، اور دراصل لامحالہ کے معنی میں ہے، تو سیع استعمال کے بعد قَسَمَ یا حَقَّ فعل ماضی کے معنی میں استعمال ہونے لگا، سیبویہ اور خلیل کا یہی قول ہے، ابوالبقاء نے حَقًّا یعنی مصدری معنی میں قرار دیا ہے، اور اسی کو جمہور کا مسلک کہا ہے، تفسیر ابو مسعود میں لا کو نافیہ اور جَرَمَ کو فعل ماضی بمعنی حَقَّ کے قرار دیا ہے۔ (لغات القرآن ملخصًا)
قولہ : أنَّمَا تَدْعُوْنَنِیْ اِلَیہِ مَا اسم موصول بمعنی الَّذِیْ یعنی اَنَّمَا میں ماموصولہ ہے لہٰذا حق یہ تھا کہ ما کو نون سے علیحدہ لکھتے یعنی أنَّ ما جیسا کہ قاعدہ ہے، لیکن مصحف امام میں ما کو نون کے ساتھ ملا کر لکھا ہے، لہٰذا اسی کی اقتداء میں اسی رسم الخط کو باقی رکھا گیا ہے، جیسا کہ ابن جزری نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (جمل)
قولہ : ثُمَّ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا، ثُمَّ کا اضافہ کلام مستانف ہونے کی طرف اشارہ ہے، اَلنَّارُ مبتداء ہے اور یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا جملہ ہو کر مبتداء کی خبر ہے، مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت سے قیام ساعۃ تک ان کی ارواح کو آگ پر پیش کیا جائے گا۔
قولہ : یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یا تو أدخلوا کا معمول ہے یا یقال محذوف کا معمول ہے، تقدیر عبارت یہ ہے یُقَالُ لَھُمْ یَوْمَ تَقُوٌمُ السَّاعَۃُ أدخلوا۔
قولہ : دَافِعُوْنَ ، مُغْنُوْنَ کی تفسیر دافعونَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ نصیبًا مغنُوْنَ یعنی دافعون کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے منصوب ہے نصیبًا کے نصب کے لئے فعل مقدر ماننے کی ضرورت نہیں۔
قولہ : قَدْرَیومٍ اس کے اضافہ کا مقصدیہ بتانا ہے کہ یوم سے مراد مقدار یوم ہے اس لئے کہ آخرت میں لیل ونہار نہیں ہوں گے جن کے ذریعہ یوم کی تعیین ہوتی ہے اس لئے کہا یوم سے مراد مقدار یوم ہے۔
تفسیر وتشریح
قال۔۔۔ اتبعون . فرعون کی قوم سے ایمان لانے والا پھر بولا دعویٰ تو فرعون بھی کرتا ہے کہ میں تمہیں سیدھے راستہ پر چلا رہا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرعون تو خود بھٹکا ہوا ہے وہ کیا رہنمائی کرے گا، میں جس راستہ کی نشاندہی کررہا ہوں وہ سیدھا راستہ ہے، اور وہ وہی راستہ ہے، جس کی طرف تمہیں حضرت موسیٰ دعوت دے رہے ہیں، اَھْدِکم سَبِیْلَ الرشاد کی تفسیر سابق رکوع میں قریب ہی گذرچ کی ہے، اس چند روزہ سریع الزوال حیات دنیا پر مغرور و فریضتہ مت ہو دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں ایک گھڑی کے برابر نہیں ہے، ہاں البتہ آخرت کی زندگی کو زوال اور فنا نہیں وہاں تو دوام ہے، نہ وہاں سے کوچ ہوگا اور نہ انتقال جنت کی
زندگی ہو یا جہنم کی دونوں زندگیاں ابدی ہوں گی، ایک راحت و آرام کی زندگی ہوگی اور دوسری شقاوت و عذاب کی۔
من۔۔۔ مثلھا (الآیۃ) برائی کی سزا برائی کے برابر ہوگی زیادہ نہیں جو کہ عدل و انصاف کا تقاضہ ہے، اور جن لوگوں نے نیک عمل کئے ہوں گے ساتھ ہی مومن بھی ہوں گے تو ایسے لوگ جنت میں جائیں گے تو وہاں بیشمار وبے حساب روزی پائیں گے، بیشمار وبے حساب کا مطلب یہ ہے کہ انکے انعامات کا ان کے نیک اعمال کے ساتھ موازنہ و مقابلہ نہیں کیا جائے گا، ان کے اعمال صالحہ سے کہیں زیادہ اجر وانعام دیا جائے گا، اس سے یہ بات بھی صاف طور پر معلوم ہوگئی کہ نیک اعمال کی ایمان کے بغیر کوئی حیثیت نہیں اور نہ محض ایمان سے اعمال صالحہ کے بغیر مکمل کامیابی، اللہ کے نزدیک مکمل کامیابی کیلئے ایمان کے ساتھ عمل صالح اور عمل صالح کے ساتھ ایمان ضروری ہے۔
ویٰقوم۔۔۔ النجوٰۃ (الآیۃ) اے میری قوم یہ کیا ناانصافی کی بات ہے کہ میں تو تم کو توحید کی دعوت دے رہا ہوں، جو راہ نجات ہے اور تم مجھے شرک کی دعوت دے رہے ہو جو انسان کو واصل بہ جہنم کرنے والا ہے لاَ جرَمَ یہ بات یقینی ہے یا اس میں جھوٹ نہیں کہ جن معبودان باطلہ کی طرف تم مجھے دعوت دے رہے ہو ان میں سے کوئی بھی پکار (فریاد) سننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ کسی نفع پہنچا سکیں، یا ان کو الوہیت کا استحقاق حاصل ہو ایسی چیزیں بھلا اس لائق ہوسکتی ہیں کہ وہ معبود بن سکیں اور ان کی عبادت کیجائے ؟
فستذکرون۔۔۔ لکم (الآیۃ) یہ کلام بھی آل فرعون کے رجل مومن کا ہے، آخر کار اپنی قوم کے ایمان لانے اور راہ راست پر آنے سے ناامید اور مایوس ہو کر درد بھرے انداز میں کہتا ہے، عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ جب میری باتوں کی صداقت اور جن باتوں سے روکتا ہوں ان کی شناعت تم پر واضح ہوجائے گی، تو اس وقت میری ان باتوں کو یاد کرو گے اور اظہار ندامت کروگے مگر ندامت کا قوت گذر چکا ہوگا اس وقت ندامت سے کچھ فائدہ نہ ہوگا، میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی سے ہر وقت اعانت طلب کرتا ہوں، اور تم سے بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ہر ہر قول و فعل سے واقف ہے، لہٰذا وہ مستحق ہدایت اور مستحق ضلالت سے بخوبی واقف ہے، مستحق ہدایت کو ہدایت سے نوازتا ہے اور مستحق ضلالت کو ضلالت سے ہمکنار کرتا ہے۔
فوقٰہ۔۔۔ مکروا یعنی رجل مومن کے اظہار حق کی وجہ سے قوم قبط نے اس کے خلاف جو تدبیریں اور سازشیں سوچ رکھی تھیں، اللہ نے ان سب کو ناکام بنادیا، بلکہ ان کی تدبیریں ان ہی پر پلٹ گئیں جس کے نتیجے میں غرق دریا کردیئے گئے اور آخرت میں ان کے لئے دوزخ کا سخت ترین عذاب ہے۔
النار۔۔ عشیًا (الآیۃ) فرعون اور فرعونیوں کو برزخ میں اس آگ پر صبح وشام پیش کیا جاتا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود
(رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ آل فرعون کی ردحیں سیاہ پرندوں کی شکل میں روزانہ صبح و شام دو مرتبہ جہنم کی سامنے لائی جاتی ہیں اور جہنم میں انکے مقام کو دکھلا کر انسے کہا جاتا ہے کہ تمہارا ٹھکانہ یہ ہے (اخرجہ عبدالرزاق، مظھری، معارف)
عذاب قبر حق ہے : مذکورہ حدیث قبر کا اثبات ہوتا ہے، عذاب قبر کا بعض لوگ انکار کرتے ہیں احادیث میں تو بڑی وضاحت سے عذاب قبر کو بیان کیا گیا ہے، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے سوال کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نعم عذاب القبر حقٌّ (بخاری شریف کتاب الجنائز باب ماجاء فی عذاب القبر) منکرین عذاب قبر قرآن و حدیث دونوں کی صراحتوں کو قبول نہیں کرتے۔ مذکورہ آیت سے صاف واضح ہے کہ آل فرعون کی صبح وشام آگ پر پیشی قیام قیامت سے پہلے کا واقعہ ہے، اور یہ زندگی برزخ اور قبر ہی کی ہے، قیامت کے روز ان کو قبر (برزخی) زندگی سے نکال کر جہنم کے سخت ترین عذاب میں ڈال دیا جائے گا، بعض بےیقینوں کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں تو قبر میں مردہ آرام سے پڑا نظر آتا ہے اگر اسے عذاب ہو رہا ہوتا تو اس طرح سکون سے پڑا ہوا نظر نہ آتا، ان کا یہ کہنا لغو اور بےعقلی کی بات ہے، اس لئے کہ عذاب کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمیں نظر بھی آئے، اللہ تعالیٰ ہر طرح عذاب دینے پر قادر ہے، کیا یہ سامنے کی بات نہیں کہ خواب میں بعض اوقات ایک شخص نہایت خوفناک اور المناک مناظر دیکھ کر سخت کرب و اذیت محسوس کرتا ہے مگر دیکھنے والوں کو ذرا بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ خوابیدہ شخص شدید تکلیف سے دوچار ہے، اس مشاہدہ اور روزمرہ کے تجربہ کے باوجود عذاب قبر کا انکار، محض ہٹ دھرمی اور بےجا تحکم ہے۔
وقال۔۔۔ اربکم (الآیۃ) آخر کار جہنمی کے نگران فرشتوں سے سفارش کرنے کی درخواست کریں گے کہ ہماری تو حق تعالیٰ کے دربار میں کوئی شنوائی ہو نہیں رہی، تم ہی رب العالمین سے دعا کرو کہ کسی دن تو ہمارے عذاب میں کچھ تخفیف کردے، فرشتے جواب دیں گے کہ ہم ایسے لوگوں کے حق میں کیوں کر کچھ کہہ سکتے ہیں کہ جن کے پاس دنیا میں اللہ کے پیغمبر دلائل و معجزات لے آئے لیکن انہوں نے پرواہ نہیں کی ؟ جہنم کے نگران فرشتے دوزخیوں سے کہہ دیں گے کہ تم خود ہی دعا کرلو، بالآخر جب وہ خود دعاء کریں گے لیکن ان کی دعاء اور فرماد کی کوئی شنوائی نہیں ہوگی، اس لئے کہ دنیا میں حجت تمام کی جاچکی ہے، آخرت، توبہ، ایمان اور عمل کی جگہ نہیں، آخرت تو دارلجزاء ہے، دنیا میں جیسا کیا ہوگا بھگتنا ہوگا۔
عذاب قبر اور اس کی حقیقت : عرف عام میں عالم کی دو قسمیں کی جاتی ہیں، عالم آخرت، اور عالم برزخ جس کا دوسرا نام عالم قبر بھی ہے وہ اسی دنیا کا حصہ ہے جس میں عالم آخرت کے کچھ احکام متر شیخ ہوتے ہیں، عالم برزخ کی حیثیت عالم دنیا اور عالم آخرت کے درمیان ایک واسطہ کی سی ہے دوزخ یا جنت کا فیصلہ ہونے تک انسان کی روح اسی عالم میں رہتی ہے، مسند ہند شاہ ولی اللہ (رح) تعالیٰ ایک نیا عالم ثابت کرتے ہیں اور اس کا نام عالم ” مثال “ رکھتے ہیں، حضرت فرماتے ہیں کہ بہت سی احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ کائنات میں ایک عالم ایسا بھی پایا جاتا ہے جو غیر مادی ہے یعنی عناصر اربعہ سے بنا ہوا نہیں ہے، اس عالم میں معانی یعنی حقائق کیلئے بھی جسم ہے اور یہ اجسام مثالی ہیں، ہر معنی کو اس کی حالت کا لحاظ کرکے جسم دیا جاتا ہے، مثلاً بزدلی کو خرگوش کا، یا دنیا کو ایسی بوڑھی بدصورت عورت کا جسم دیا گیا کہ جس کے سر کے بال کھچڑی ہورہے ہیں، بالوں کی کھچڑی ہونے سے اس طرف اشارہ ہے کہ دنیا کی عمر کا زیادہ حصہ ختم ہوگیا، کم حصہ باقی ہے، اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے رشتے ناتے کو پیدا فرمایا تو وہ کھڑا ہوگیا، اور اس نے عرض کیا یہ قطع رحمی سے آپ کی پناہ چاہنے والے کی جگہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تو اس پر راضی ہے کہ جو تجھے کاٹے میں اس کو اپنے کاٹوں اور کو تجھے جوڑے میں اسے اپنے سے جوڑوں، رشتے ناتے، نے جواب دیا میں اس پر راضی ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جا، یہ تیرے لئے ہے، یعنی میں اس کی گارنٹی دیتا ہوں۔ (مشکوٰۃ، باب البر والصلۃ، حدیث ٤٩١٩)
یہ بخاری و مسلم کی روایت ہے حدیث طویل ہے، رحِم (بچہ دانی) مراد یہ کہ ددھیالی اور ننھیالی رشتہ داری نے کھڑے ہو کر رحمان کی کمر میں کوْ لی بھرلی، رحمان نے پوچھا کیا بات ہے ؟ تب اس نے مذکورہ جملہ کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ جس طرح پناہ لینے کے لئے ماں کی کمر میں کو لی پھرتا ہے، رحم نے بھی کو لی بھرلی اور قطع رحمی سے پناہ چاہی، جس پر اس سے رحمان نے مذکورہ وعدہ کیا۔ غورکیجئے، رشتہ ناتہ ایک معنوی چیز ہے اس کا جسم نہیں ہے، مگر یہ حدیث اس کے جسم دار ہونے پر دلالت کرتی ہے، یہ جسم مثالی وہ جسم ہے جو اس کو عالم مثال میں ملا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اعمال حاضر ہوں گے پس (سب سے پہلے) نماز آئے گی، پھر خیرات آئے گی، پھر روزہ آئے گا (علیٰ ھٰذا القیاس) حدیث طویل ہے، (مسند احمد اور مشکوٰۃ کتاب الرقاق، حدیث ٥٢٢٤) یہاں صرف اتنی بات سے غرض ہے کہ اعمال جو جسم دار نہیں ہیں، قیامت کے دن اپنے مثالی اجسام کے ساتھ حاضر ہوں گے، حدیث شریف میں روزہ کی حالت میں غیبت کرنے والی عورت کا واقعہ مشہور ہے، کہ وہ بھوک اور پیاس کی شدت کی وجہ سے لب دم ہوگئی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا اس نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا ہے، جس کی وجہ سے اس کی یہ کیفیت ہوئی ہے، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو روزہ سے ہے اس نے کچھ کھایا پیا نہیں ہے، آپ نے ارشاد فرمای حلال چیز سے روزہ رکھا مگر حرام چیز یعنی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا ہے، اس حدیث میں غیبت جو کہ معنوی چیز ہے اس کو عالم مثال میں گوشت کی شکل دی گئی، مذکورہ قسم کی بہت سی روایات ہیں جو عالم مثال کے وجود پر دلالت کرتی ہیں، شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس قسم کی ١٠ روایتیں بیان فرمائی ہیں، اور حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب مدظلہ پالنپوری، استاد حدیث دورلعلوم دیوبندنے حجۃ اللہ البالغہ کی اپنی بہترین شرح (رح) الواسعہ میں اس مضمون کو نہایت بسط و تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔
مذکوۃ بالا آیات میں غور کرنے کے تین طریقے :
(١) ان روایات کو ظاہر پر محمول کیا جائے یعنی بظاہر ان کا جو مفہوم ہے اس کو مان لیا جائے، اس صورت میں عالم مثال تسلیم کرنا پڑے گا، کیونکہ ان روایات کی توجیہ عالم مثال کو تسلیم کئے بغیر ممکن نہیں، عالم مثال کو مان کر یہ توجیہ ہوگی کہ مذکورہ بالا روایات میں بیان فرمودہ تمام باتیں واقعی اور نفس الامری ہیں اور ان کے اجسام ان کے مثالی پیکر ہیں، محدثین کرام کا اصول اسی بات کا متقاضی ہے کہ ان روایات کو ان کے ظاہر پر مجمول کیا جائے، ان کی کوئی تاویل نہ کی جائے، شاہ صاحب قدس سرہ نے ان ہی روایات کی بنیاد پر عالم مثال ثابت کیا ہے۔
(٢) ان روایات کی یہ تاویل کی جائے کہ وہ صرف آدمی کا احساس ہے خارج میں ان میں سے کوئی چیز موجود نہیں، جیسے
خواب دیکھنے والا جو امور خواب میں دیکھتا ہے، وہ صرف اس کا احساس ہوتا ہے ان میں سے کوئی چیز خارج میں موجود نہیں ہوتی، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے اسی قسم کی توجیہ درج ذیل آیت میں کی ہے، سورة دخان آیت ١١، ١٠ میں ارشاد ہے۔
فَارْتَقِبْ یَومَ تَاتِی السَّمَاءُ بِدُخَانٍ منین (الآیۃ) سو آپ (کفار مکہ کے لئے) اس دن کا انتظار کیجئے جبکہ آسمان ایک واضح دھواں لے آئے، جو ان سب لوگوں پر عام ہوجائے، یہ دردناک سزا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ یہ نشانی پائی جاچکی ہے مکہ میں سخت قحط پڑا، لوگوں نے مراد، چمڑے اور ہڈیاں تک کھائیں، اور صورت حال یہ ہوئی کہ جب وہ آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو بھوک کی وجہ سے ان کو دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا، آسمان نظر ہی نہیں آتا تھا، حالانکہ خارج میں کوئی دھواں نہیں تھا، یہ صرف ان بھوکوں کا احساس تھا یہ روایت درمنشور میں ج ٦ ص ٢٨ میں ہے۔ ( (رح) الواسعۃ) ۔
(٣) یا ان روایات کو مضمون فہمی کے لئے پیرایۂ بیان قرار دیا جائے، مثلاً قبر میں پہنچنے والی تکلیف اور راحت کو مختلف انداز سے سمجھایا گیا ہے، کہ سوال و جواب ہوں گے کوئی صحیح جواب دے گا، اور کوئی ” ہاہا “ کرکے وہ جائے گا، کسی کو قبر بھینچے گی، تو کسی کے لئے کشادہ کی جائے گی، کسی کیلئے جنت کی طرف ردیچہ کھولا جائے گا، تو کسی پر فرشتے گرز بجائیں گے، اور اسکو سانپ بچھو نوچیں گے، یہ سب قبر میں پیش آنے والے رنج و راحت کو سمجھانے کیلئے پیرایۂ بیان ہے، اور بس۔ مگر شاہ صاحب کے نزدیک جو شخص صرف یہ تیسری توجیہ کرتا ہے وہ اہل حق میں سے نہیں ہے، گمراہ ہے، باطل فرقے نصوص کی اسی طرح کی تاویل کیا کرتے ہیں۔
امام غزالی (رح) تعالیٰ اور عذاب قبر کی حقیقت : امام غزالی (رح) تعالیٰ نے احیاء علوم الدین میں عذاب قبر کی بحث میں نصوص کی توجیہ کے تینوں طریقے بیان کئے ہیں، آپ نے اول قبر میں پہنچنے والی رنج و راحت کی روایات لکھی ہیں، پھر ارشاد فرمایا ہے کہ ان روایات کے ظاہری معنی درست ہیں، اور ان میں مخفی راز ہیں کو اہل بصیرت پر واضح ہیں، اس لئے اگر عوام کی سمجھ میں ان کی حقیقتیں نہ آئیں تو بھی ان کے ظاہری معنی کا انکار نہیں کرنا چاہیے، ایمان کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ ان کو مان لیا جائے۔
سوال : یہ روایات ہم کیسے تسلیم کرلیں، یہ روایات تو مشاہدہ کے خلاف ہیں ؟ بعض لاشیں عرصہ دراز تک کسی مصلحت سے محفوظ رکھی جاتی ہیں ان کو دفن نہیں کیا جاتا، ممی کرکے ان کو رکھا جاتا ہے، جیسا کہ دنیا کے سب سے بڑے کافر فرعون مصر کی لاش آج بھی مصر کے عجائب خانے میں موجود ہے، مگر وہاں نہ کوئی سانپ ہے اور نہ بچھو، پھر ہم مشاہدہ کے خلاف عذاب قبر کی یہ روایات کیسے مان لیں ؟
جواب : اس قسم کی روایات کے ماننے کی تین صورتیں ہیں :
(١) جو زیادہ واضح، زیادہ صحیح ہے، اور زیادہ محفوظ ہے، وہ یہ ہے کہ عذاب قبر کی تمام روایات کو ظاہر پر محمول کیا جائے، اور مان لیا جائے کہ یہ تمام معاملات قبر میں پیش آتے ہیں، گو ہمیں نظر نہیں آتے، اس لئے کہ ہماری یہ آنکھیں عالم مشاہدہ کو دیکھنے کے لئے جائے کہ یہ تمام معاملات قبر میں پیش آتے ہیں، گو ہمیں نظر نہیں آتے، اس لئے کہ ہماری یہ آنکھیں عالم مشاہدہ کو دیکھنے کے لئے ہیں عالم غیب کی چیزوں کا یہ آنکھیں مشاہدہ نہیں کرسکتیں جیسے حدیث شریف میں وارد ہے کہ مجالس ذکر میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اہل مجلس کو گھیرے میں لے لیتے ہیں مگر وہ ہمیں نظر نہیں آتے، اس لئے کہ فرشتے دوسرے عالم (عالم الغیب) کی مخلوقق ہیں، اسی طرح حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تشریف لاتے تھے، اور صحابہ کرام اس کو تسلیم بھی کرتے تھے، اگرچہ صحابہ کرام حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو نہیں دیکھتے تھے، اور وہ یہ بھی جانتے اور مانتے تھے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس بات کو جسے صحابہ مانتے تھے نہیں مانتا تو ایسے شخص کو اپنے شخص کو اپنے ایمان ہی کی خبر لینی چاہیے، اس کا وحی اور فرشتوں پر ایمان ہی صحیح نہیں ہے، اور جو شخص اسے مانتا ہے اور اس کے نزدیک یہ بات ممکن ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو چیزیں نظر آئیں جو عام امت کو نظرنہ آئیں تو پھر عذاب قبر میں وہ بات کیوں ممکن نہیں مانتا، غرض قبر میں جو عذاب ہوتا ہے، اور جو راحتیں پہنچتی ہیں وہ واقعی چیزیں ہیں، مگر وہ دوسری دنیا کی چیزیں ہیں اس لئے وہ ہمیں نظر نہیں آتیں۔
(٢) قبر میں پیش آنے والے معاملات اگرچہ خارج میں موجود نہیں ہوتے مگر میت کو وہ محسوس ہوتے ہیں جیسا کہ خواب کا معاملہ ہے، کوئی خواب میں خود کو بادشاہ پاتا ہے، اور ٹھاٹھ سے حکمرانی کرتا ہے اور کوئی جیل میں پہنچایا جاتا ہے، پولیس والے اس پر ڈنڈے بجاتے ہیں اور وہ بری طرح چیختا چلاتا ہے، مگر جب آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلایہ تو خواب تھا حقیقت کچھ بھی نہیں۔ خواب دیکھنے والا جب تک خواب ریکھتا رہتا ہے تو خواب میں دیکھے ہوئے معاملہ کو حقیقت سمجھتا ہے، حالانکہ حقیقت میں وہاں کچھ نہیں ہوتا، مگر خواب ہونا آنکھ کھلنے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے اسی طرح قبر کا معاملہ ہے مگر قبر قیامت تک آنکھ نہیں کھلے گی، اس لئے وہ واقعات حقیقت ہی رہیں گے۔ غرض خواب میں جس طرح خواب دیکھنے والے کے دل و دماغ میں یہ کیفیت پیدا کردی جاتی ہے، اور خارج میں ان چیزوں کا وجود نہیں ہوتا، اسی طرح عذاب قبر کا معاملہ ہے، اور جس طرح خواب دیکھنے والے کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو کچھ نظر نہیں آتا اسی طرح زندوں کو میت کے پاس کچھ نظر نہیں آتا، مگر میت کے احساس میں سب کچھ ہوتا ہے اور خواب دیکھنے والے کو خواب میں پیش آنے والے واقعات سے رنج و راحت کا احساس محض نے حقیقت یا صرف خیالی نہیں ہوتا، بلکہ اس کی ایک حقیقت ہوتی ہے، جو بعض اوقات انسان کے جسم پر نمایاں ہوجاتی ہے، یہ بات مشاہدہ اور تجربہ کی ہے کہ بعض اوقات خواب دیکھنے والا کوئی خوفناک خواب دیکھنے کے بعد بیدار ہوتا ہے تو وہ گھبرایا ہوا اور پسینہ میں شرابور ہوتا ہے، اور جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو خواب تھا تب جاکر اس کو تسلی اور راحت محسوس ہوتی ہے، یہ بات بھی تجربہ اور سامنے کی ہے کہ شیر خوار بچہ جب گہری نیند سو رہا ہوتا ہے تو بعض اوقات اچانک رونے یا ہنسنے لگتا ہے، دیکھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ بچہ خواب دیکھتا ہے، ایک شخص ہے کہ جو خواب میں اپنی محبوبہ سے ملاقات کرتا ہے اور وہ سب کچھ کرتا ہے جو خارج میں ہوتا ہے حالانکہ دور دور تک خارج میں کہیں اس کی محبوبہ کا نام و نشان تک نہیں ہوتا، مگر خواب دیکھنے والا اسی طرح لطف اندوز ہوتا ہے جس طرح خارج میں حقیقۃً ، اور یہ لطف اندوزی محض خیالی اور بےبنیاد نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ خواب میں پیش آنے والے معاملات کا اثر خارج میں جسم پر بھی بعض اوقات نمایاں ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے آلہ تناسل کا انتشار حتی کہ احتلام تک ہوجاتا ہے، اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، اسی طرح عالم برزخ جو کہ ایک طویل خواب ہی ہے، قرآن کریم میں بھی حیات برزخی کو خواب سے یا قبر کو خوابگاہ سے تعبیر کیا گیا ہے، قالوا یا ویلنامن بعثنا من مرقدنا ” کہیں گے ہائے ہماری کمبختی ہمیں ہماری خواب گاہ سے (یاخواب سے) کس نے اٹھا دیا “ (سورۂ یٰسٓ ٥٢) قبر کو خوابگاہ یا حیات برزخی کو خواب سے تعبیر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبر میں ان کو عذاب نہیں ہوگا، بلکہ بعد میں جو ہولناک مناظر اور عذاب کی شدت دیکھیں گے اس کے مقابلہ میں انہیں قبر کی زندگی ایک خواب محسوس ہوگی، حیات برزخی میں رنج و راحت کا تعلق روح سے ہوگا، اس کے بعد روح کو جسم دے کر دوزخ یا جنت میں داخل کردیا جائے گا۔
اصل رنج و راحت جسم کو نہیں بلکہ روح احساس کو ہوتی ہے، جسم کے جس حصہ میں روح احساس نہیں ہوتی وہاں دکھ درد کا حساس بھی نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ بال اور ناخن کاٹنے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی، بال اور ناخن میں روح حیات تو ہوتی ہے مگر روح احساس نہیں ہوتی، اس لئے کہ اگر ان میں روح حیات نہ ہو تو ان کا نشو و نما نہیں ہوسکتا، حالانکہ ان کا نشوو نما مشاہدہ ہے، اس پوری بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عالم برزخ میں معاملات سے روح احساس ہی متاثر ہوتی ہے، روح احساس اور روح حیات میں عام خاص مطلق کی نسبت ہے، جسم میں روح احساس روح حیات کے بغیر نہیں رہ سکتی، اگر روح احساس ہوگی تو روح حیات ضرور ہوگی البتہ روح حیات روح احساس کے بغیر رہ سکتی ہے، جیسا کہ بال اور ناخن میں روح حیات ہوتی ہے مگر روح احساس نہیں ہوتی ہے
(٣) عذاب قبر کی روایات کو ایک پیرایۂ بیان قرار دیا جائے ان روایات سے مقصود یہ مضمون سمجھانا ہے کہ مرنے کے بعد قبر میں میت کس قسم کی تکالیف سے دو چار ہوتی ہے، اور مقصود صرف پیرایۂ نہیں ہے بلکہ وہ حقیقت مقصود ہے جس کو سمجھانے کے لئے یہ پیرایۂ بیان اختیار کیا گیا ہے، مثلاً زہر کا سرایت کرنا بھی اصل مقصود نہیں، مقصود وہ تکلیف ہے جو زہر کی وجہ سے محسوس ہوتی ہے، بعض لوگ اپنے بدن کو مختلف تدابیر سے ” زہر پروف “ بنا لیتے ہیں، پھر وہ اپنے بدن کو سانپ بچھوؤں سے ڈسواتے ہیں ان کو ان کے کاٹنے اور ڈسنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی، ان کے حق میں سانپ کا کاٹنا دونوں برابر ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسباب مقصود نہیں ہوتے، مقصود ان کا نتیجہ ہوتا ہے، مثلاً کھانے سے مقصد شکم سیری ہے، اور پانی پینے سے مقصود سیرابی ہے، اگر کوئی کھائے بغیر شکم سیر ہوجائے یا پانی پیے بغیر سیراب ہوجائے تو مقصود حاصل ہوگیا، اگرچہ صورت نہیں پائی گئی، صول وصال کی حدیث میں ارشاد نبوی ہے اِنَّ رَبِّی یُطعمنی و تسْقِیْنِیْ اس حدیث میں یہی حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ اسباب کے بغیر اگر نتیجہ حاصل ہوجائے تو اسباب کو اختیار کی ضرورت نہیں ہوتی، جیسا کہ صوم وصال کی صورت میں آپ نے فرمایا، میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے، یعنی کھانے اور پانی کے استعمال کے بغیر ہی مجھے سیری اور سیرابی ہوجاتی ہے، اسی طرح قبر میں سانپوں کا کاٹنا جو کہ سبب الم ہے، وہ مقصود نہیں ہے، مقصود اس کا نتیجہ ہے جو عذاب قبر کی شکل میں موجود ہے گو صورت موجود نہیں۔ (رحمۃ اللہ الواسعۃ ملخصًا)
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَقَالَ الَّذِي آمَنَ﴾ اس صاحب ایمان نے اپنی قوم کو دوبارہ نصیحت کرتے ہوئے کہا : ﴿يَا قَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ﴾ ” اے میری قوم ! میری اتباع کرو، میں تمہیں بھلائی کا راستہ دکھاؤں گا۔“ ہدایت کا راستہ وہ نہیں جو فرعون کہتا ہے کیونکہ وہ صرف گمراہی اور فساد کی راہ دکھاتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo shaks emaan ley aaya tha uss ney kaha : aey meri qoam ! meri baat maano , mein tumhen hidayat kay raastay per ley jaon ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
قوم فرعون کے مرد مومن کی سہ بارہ نصیحت۔
فرعون کی قوم کا مومن مرد جس کا ذکر پہلے گذر چکا ہے اپنی قوم کے سرکشوں خود پسندوں اور متکبروں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم میری مانو میری راہ چلو میں تمہیں راہ راست پر ڈال دوں گا۔ یہ اپنے اس قول میں فرعون کی طرح کاذب نہ تھا۔ یہ تو اپنی قوم کو دھوکا دے رہا تھا اور یہ ان کی حقیقی خیر خواہی کر رہا تھا، پھر انہیں دنیا سے بےرعبت کرنے اور آخرت کی طرف متوجہ کرنے کیلئے کہتا ہے کہ دنیا ایک ڈھل جانے والا سایہ اور فنا ہوجانے والا فائدہ ہے۔ لازوال اور قرار و ہمیشگی والی جگہ تو اس کے بعد آنے والی آخرت ہے۔ جہاں کی رحمت و زحمت لبدی اور غیر فانی ہے، جہاں برائی کا بدلہ تو اس کے برابر ہی دیا جاتا ہے ہاں نیکی کا بدلہ بےحساب دیا جاتا ہے۔ نیکی کرنے والا چاہے مرد ہو۔ چاہے عورت ہو۔ ہاں یہ شرط ہے کہ ہو باایمان۔ اسے اس نیکی کا ثواب اس قدر دیا جائے گا جو بیحد وبے حساب ہوگا۔