المؤمن آية ۶۱
اَللّٰهُ الَّذِىْ جَعَلَ لَـكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۗ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ
طاہر القادری:
اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام پاؤ اور دن کو دیکھنے کے لئے روشن بنایا۔ بے شک اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے،
English Sahih:
It is Allah who made for you the night that you may rest therein and the day giving sight. Indeed, Allah is the possessor of bounty for the people, but most of them are not grateful.
1 Abul A'ala Maududi
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں سکون حاصل کرو، اور دن کو روشن کیا حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں آرام پاؤ اور دن بنایا آنکھیں کھولتا بیشک اللہ لوگوں پر فضل والا ہے لیکن بہت آدمی شکر نہیں کرتے،
3 Ahmed Ali
الله ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں آرام کرو اور دن کو ہر چیز دکھانے والا بنایا بے شک الله لوگوں پر بڑے فضل والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے رات بنا دی کہ تم اس میں آرام حاصل کرو (١) اور دن کو دیکھنے والا بنا دیا (٢) بیشک اللہ تعالٰی لوگوں پر فضل و کرم والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزاری نہیں کرتے۔ (۳)
٦١۔١ یعنی رات کو تاریک بنایا، تاکہ کاروبار زندگی معطل ہو جائیں اور لوگ امن اور سکون سے سو سکیں۔ ٦١۔٢ یعنی روشن بنایا تاکہ معاشی محنت اور تگ و دو میں تکلیف نہ ہو۔ ٦١۔٢ اللہ کی نعمتوں کا اور نہ ان کا اعتراف ہی کرتے ہیں یا تو کفر وجحود کی وجہ سے جیسا کہ کافروں کا شیوہ ہے یا منعم کے واجبات شکر سے اہمام و غفلت کی وجہ سے جیسا کہ جاہلوں کا شعار ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (کہ اس میں کام کرو) بےشک خدا لوگوں پر فضل کرنے والا ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے رات بنادی کہ تم اس میں آرام حاصل کرو اور دن کو دیکھنے واﻻ بنا دیا، بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل وکرم واﻻ ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزاری نہیں کرتے
7 Muhammad Hussain Najafi
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام (اور سکون حاصل) کرو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ تم اس میں کام کرو) بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللہ ہی وہ ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پیدا کیا ہے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرسکو اور دن کو روشنی کا ذریعہ قرار دیا ہے بیشک وہ اپنے بندوں پر بہت زیادہ فضل و کرم کرنے والا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس کا شکریہ ادا نہیں کرتی ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (کہ اس میں کام کرو) بیشک خدا لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
آیت نمبر 61 تا 68
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے رات بنادی تاکہ تم اس میں آرام حاصل کرو، اور ان کو دیکھنے والا (روشن) بنادیا، مُبْصِرًا کی اسناد نہار کی جانب مجازی ہے، اس لئے کہ اس میں دیکھا جاتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل و کرم والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر گذاری نہیں کرتے جس کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے یہی اللہ ہے تم سب کا رب ہر چیز کا خالق اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم ایمان سے دلیل کے باوجود کہاں الٹے چلے جارہے ہو ؟ اسی طرح یعنی ان لوگوں کے الٹے چلنے کے مانندوہ لوگ بھی الٹے چلا کرتے تھے جو اللہ کی آیتوں یعنی معجزات کا انکار کیا کرتے تھے، اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو قیام گاہ بنایا اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں، اور تم کو عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو دیں، یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے بہت ہی برکتوں والا اللہ ہے، سارے جہانوں کا رب وہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں شرک سے دین کو خالص کرکے اسی کی بندگی کرو تمام خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے، آپ کہہ دیجئے ! مجھے ان کی عبادت سے روک دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے (یعنی) بندگی کرتے ہو جبکہ میرے پاس رب کی نشانیاں (یعنی) توحید کے دلائل آچکے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام جہانوں کے پروردگار کے تابع فرمان رہوں، وہ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا (یعنی) تمہارے ابا آدم کو مٹی سے پیدا کرکے پھر تم کو نطفہ منی سے پیدا کیا پھر تم کو دم بستہ سے پیدا کیا پھر تم کو بچہ کی صورت میں نکالتا ہے، طفلاً بمعنی اطفالاً ہے پھر تم کو باقی رکھتا ہے تاکہ تم اپنی پوری قوت کو پہنچ جاؤ (یعنی) تمہاری قوت مکمل ہوجائے، تیس سال سے لیکر چالیس سال تک پھر بوڑھے ہوجاؤ شین کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ اور تم میں سے بعض جوانی اور بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں وہ تمہارے ساتھ ایسا اس لئے کرتا ہے تاکہ تم زندہ رہو اور ایک خاص محدود مدت تک پہنچ جاؤ اور تاکہ تم توحید کے دلائل کو سمجھو اور ایمان لے آؤ، وہی ہے جو چلاتا اور مارتا ہے پھر جب وہ کسی کام کے کرنے یعنی موجودہ کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اسے صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہوجا، پس وہ ہوجاتی ہے، نون کے ضمہ کے ساتھ اور اَن کی تقدیر کی وجہ سے فتحہ کے ساتھ یعنی (وہ شئ) اس ارادہ کے بعد موجود ہوجاتی ہے، معنی میں قول مذکورہ کے ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اَللہ الَّذِی جَعَلَ لکمُ اللّیل لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّھَارَ مُبْصِرًا، اللہ مبتداء اَلَّذِیْ اسم موصول جَعَلَ فعل ماضی بمعنی خَلَقَ ، لکم متعلق
بجعل، اللَّیل مفعول بہ، لِتَسْکُنُوْا متعلق بجعل، فِیْہِ متعلق تَسْکُنُوْا سے، واؤ عاطفہ اَلنَّھَارَ ذوالحال مُبْصِرًا حال، حال ذوالحال سے ملکر معطوف اللیل پر معطوف معطوف علیہ سے ملکر مفعول بہ جَعَلَ کا، جَعَلَ جملہ ہو کر صلہ ہوا الّذِی کا، الذی جملہ ہو کر خبر ہوئی اللہ مبتداء کی۔
قولہ : وَالنھارَ مُبصِرًا، منْصِرًا کی النھار کی طرف مبالغہ کے لئے اسناد مجازی ہے یعنی دن کو اس قدر روشن نبایا گویا کہ وہ خود مُبصِر
ہوگیا، اسی وجہ سے تعلیل سے حال کی طرف عدول کیا ہے، یعنی مُبصِرًا کو علت کے بجائے حال بنایا ہے۔
قولہ : لَاَِ نَّہٗ یُبْصَرُ فیہِ سے اشارہ کردیا کہ اسناد مجازی کی وجہ علاقۂ ظرفیت ہے، اسناد مجازی کہتے ہیں، کسی ربط وتعلق کی وجہ سے غیر
ماھولہ کی نسبت کرنے کو جیسا کہ آیت میں کہا گیا ہے، ہم نے دن کو دیکھنے والا بنایا، حالانکہ دن دیکھنے والا نہیں ہوتا بلکہ دن دیکھنے کا زمانہ یا وقت ہے یعنی دن میں دیکھا جاتا ہے، اسی تعلق ظرفیت کی وجہ سے دیکھنے کی نسبت نہار کی طرف کردی ہے، یہ نھرٌ جارٍ کے قبیل سے ہے، نہر چونکہ ماء کے لئے ظرف ہے، اس لئے جریان کی نسبت نہر کی طرف کردی۔
قولہ : ذٰلکُمُ اللہُ ، ذٰلکم مبتداء اس کی چار خبریں ہیں، (١) اللہ (٢) ربکم (٣) خالق کل شیئ (٤) لا الہٰ اِلَّا ھو۔
قولہ : الحمدللہ رب العالمین (الآیۃ) اس میں دو احتمال ہیں (١) بندوں کا کلام ہو (٢) رب العالمین کا کلام ہو، اگر بندوں کا کلام ہوگا تو قائلین محذوف کا مقولہ ہو کر حال ہوگا اور اگر اللہ تعالیٰ کا کلام ہو تو کلام مستانف ہوگا اور اپنے بندوں کو طریقہ حمد سکھانے کیلئے ہوگا
قولہ : کذٰلک اول کاف حرف تشبیہ ذَا اسم اشارہ، ل علامت اشارہ بعید، آخری کاف حرف خطاب، کذٰلک سے مذکورہ سابق کی طرف اشارہ ہوتا ہے، بمعنی، ایسے ہی، اسی طرح۔
قولہ : یُوفکُ (ض، س) اَفْکًا اِفکًا أفوکًا پھرنا، اِفْکًا بہتان لگانا، یُوفک مضارع واحد مذکر غائب بمعنی ماضی مجہول۔
قولہ : اُفِکَ الَّذِیْنَ کانوا اُفِکَ فعل ماضی مجہول لاکر اشارہ کردیا کہ یُوْفَکُ مضارع مجہول کے معنی میں ہے۔
قولہ : بمعنی اَطْفَالاً اس میں اشارہ ہے کہ طفل اسم جنس جمع ہے یا یخرجکم کل واحد کی تاویل میں ہے ورنہ تو کَمْ ذوالحال جمع اور طفلاً حال مفرد میں مطابقت نہ ہوگی۔ قولہ : بخلقِ اَبِیْکُمْ آدم مِنہ اس عبارت سے ایک شبہ کا دفع مقصود ہے۔
شبہ : خَلَقَکُمْ مِنْ تُرابٍ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، حالانکہ نبی آدم کی تخلیق نطفہ سے ہوتی ہے۔
دفع : مضاف محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے خَلَقَکُمْ ای خَلَقَ اَبِیْکُمْ آدمَ مِن تُرَابٍ شبہ دفع ہوگیا اور کلام کو بغیر حذف مضاف کے اپنی اصل پر بھی رکھ سکتے ہیں، اس لئے کہ انسان نطفہ سے اور نطفہ غذا سے غذا مٹی سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذاگویا کہ انسان مٹی سے پیدا ہوتا ہے۔
قولہ : اُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ ، اُسْلِمَ یا تو اَلاِ سْلام بمعنی انقیاد سے ماخوذ ہے یا بمعنی خلوص سے ماخوذ ہے، ہر صورت میں مفعول محذوف ہے، پہلی صورت میں تقدیر یہ ہے اُسْلِمَ امری لَہٗ تعالیٰ اور دوسری صورت میں تقدیر یہ ہے خَلَصَ قلبی مِن عبادۃِ غیرہٖ تعالیٰ ۔
قولہ : یُبْقِیکُمْ ، یُبْقِیْکُمْ کو محذوف ماننے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ لِتَبْلُغُوْا، یُبْقِیْکُمْ محذوف کے متعلق ہے اور لتبلغوا اس کی علت ہے۔
قولہ : لِتَبْلُغُوْا اَجَلاً مُسَمًّی لام تعلیل کے لئے ہے جو کہ علت مقدرہ پر معطوف ہے جس کو شارح نے لِتَعِیْشُوا کہہ کر ظاہر کردیا ہے۔
قولہ : فَعَلَ ذٰلک بِکُمْ اس عبارت کو مقدر ماننے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ، لِتَبلُغُوْا کا عطف لیعیشُوا محذوف سابق میں مذکور افعال باری تعالیٰ کی علت ہے، اس طرح مذکورہ افعال باری تعالیٰ کی دو علتیں ہوں گی یعیشوا اور یبلغوا یعنی اللہ وہ ذات ہے
جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، اور تم کو بچہ بنا کر نکالا تاکہ تم زندہ رہو اور وقت مقرر کو پہنچو۔
قولہ : فَیَکُوْنُ رفع کی صورت میں مبتداء محذوف کی خبر ہوگی ای فَھُو یکُوْنُ اور نصب کی صورت میں اَنْ مقدر کی وجہ سے منصوب
ہوگا، ای فاَنْ یکُوْنَ ۔
قولہ : اِذَاقَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُولُ لَہٗ کُنْ فیکُوْنُ کی تشریح مفسر علام نے اپنے۔ قول عَقْبَ الْاِرَادَۃِ التیھی معنی القول المذکور سے کی ہے، اس کا مقتضٰی یہ ہے کہ آیت کہ تحلیل اس طرح ہو، ای اِذَا اَزَادَ ایِجَادَ شیئٍ فَاِنَّمَا یُرِیْدُ اِیْجِادَہٗ اور اس تحلیل کے کوئی معنی نہیں، اس لئے کہ اس تحلیل کی صورت میں مطلب یہ ہوگا، جب اللہ تعالیٰ کسی شئ کے ایجاد کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو وہ شئ موجود ہوجاتی ہے یعنی شئ سے ارادہ کا تعلق دو مرتبہ ہوتا ہے اور یہ درست نہیں ہے لہٰذا بہتر اور صحیح صورت یہ ہے کہ یقول کن فیکون کو سرعۃ ایجاد سے کنایہ مانا جائے، تو اس صورت میں تحلیل عبارت یہ ہوگی اِنْ اَرَادَ ایجادَ شَیْئٍ وُجِدَ سریْعًا غیر توقفٍ علیٰ شیئٍ مفسر علام نے ای یُوْجَدُ کہہ کر بتادیا کہ کُنْ فَیَکُوْنُ میں امر سے مراد حقیقۃً امر نہیں ہے، اس لئے کہ اگر حقیقۃ امر مراد ہو تو دو حال سے خالی نہیں، یا تو کُنْ کہنے کے وقت وہ شئ جس کی ایجاد کا ارادہ کیا ہے موجود ہوگی یا نہیں، اگر موجود ہے تو کُنْ کہنے کے کیا معنی ؟ اس لئے کہ یہ تحصیل حاصل ہے، اور اگر وہ شئ کُنْ کہنے کے وقت موجود نہیں ہے تو پھر معدوم کو خطاب لازم آتا ہے، جو ظاہر البطلان ہے اسلئے کہ معدوم شئ مخاطب نہیں ہوا کرتی، اسلئے اللہ تعالیٰ کے قول کن فیکونُ کو سرعۃِ ایجاد سے کنایہ مانا جائے، اب مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی شئ کے ایجاد کا ارادہ فرماتے ہیں تو وہ شئ ارادہ کے متعلق ہونکے بعد فوراً بلاتا خیر موجود ہوجاتی ہے (جمل، ترویح الا رواح)
تفسیر وتشریح
اللہ۔۔۔ اللیل (الآیۃ) مذکورہ آیات میں حق تعالیٰ کے انعامات اور قدرت کاملہ کے چند مظاہر پیش کرکے توحید کی دعوت دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے رات تاریک بنائی تاکہ کاروبار زندگی معطل ہوجائیں، اور لوگ امن و سکون سے سو سکیں، قدرت نے تمام انسانی طبقہ میں بلکہ جانوروں کے لئے بھی فطری طور پر نیند کا ایک مقرر کردیا ہے، اور اس وقت کو تاریک بنا کر نیند کے لئے مناسب بنادیا ہے، اور دن کو روشن بنایا تاکہ معاشی تگ و دو میں تکلیف نہ ہو اگر ظلمت ہی ظلمت ہوتی تو لوگوں کے کام کاج معطل ہوجاتے، اور جب تم کو یہ معلوم ہوا کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ومالک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو پھر اس کی عبادت سے کیوں بدکتے اور بھاگتے ہو اور اس کی توحید سے کیوں منہ موڑتے اور اینٹھتے ہو۔
وصور۔۔۔ کم . ان کی شکل و صورت سب سے اعلیٰ اور ممتاز بنائی، متناسب اعضاء عطا فرمائے، سوچنے سمجھنے کے لئے عقل عطا فرمائی، اور سب کچھ کرنے والا اور دینے والا وہی ہے، دوسرا کوئی نہ اختیارات میں شریک اور نہ بنانے میں، تو عبادت کا مستحق بھی وہی ایک اللہ ہے، لہٰذا استمداد و استغاثہ بھی اسی سے کرو کہ وہی سب کی فریادیں اور التجائیں سننے والا ہے، دوسرا کوئی بھی مافوق الاسباب طریقہ سے کسی کی بات سننے والا نہیں، جب یہ بات ہے تو مشکل کشائی اور حاجت روائی دوسرا کون کرسکتا ہے ؟
لما۔۔۔ ربی (الآیۃ) یہ وہی عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے اللہ کی توحید اور رب ہونے کا اثبات ہوتا ہے جو قرآن میں جابجا
ذکر کئے گئے ہیں، ” اسلام “ کے معنی ہیں اطاعت وانقیاد کے لئے جھک جانا، سراطاعت خم کردینا، آئندہ آیت میں پھر کچھ قدرت کاملہ اور توحید کے دلائل ذکر کئے گئے ہیں، مثلاً تمہارے باپ آدم کو مٹی سے بنایا، جو ان کی اولاد کے مٹی سے پیدا ہونے کو مستلزم ہے، پھر اس کے بعد نسل انسانی کے تسلسل اور اس کی بقاء و تحفظ کے لئے انسانی تخلیق کو نظفہ سے وابستہ کردیا، اب ہر انسان اس نطفے سے پیدا ہوتا ہے، جو صلب پدر سے رحم مادہ میں جاکر قرار پکڑتا ہے، سوائے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کہ ان کی پیدائش معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی، جیسا کہ قرآن کریم میں بیان کردہ تفصلات سے واضح ہوتا ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
آیات کریمہ میں غور و فکر کیجیے، جو اللہ تعالیٰ کے بے پایاں رحمت، اس کے لامحدود و فضل و کرم، اس کے لئے و جوب شکر، اس کی قدرت کاملہ، اس کی عظیم طاقت، اس کے وسیع اقتدار، تمام اشیا کو اس کے تخلیق کرنے، اس کی حیات کاملہ اور اس کی تمام صفات کاملہ اور افعال حسنہ سے موصوف ہونے کی بنا پر ہر قسم کی حمد و ثنا سے متصف ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ آیات کریمہ اس کی کامل ربوبیت اور اس ربوبیت میں اس کے متفرد ہونے پر دلالت کرتی ہیں، نیز اس عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام تدابیر، ماضی، حال اور مستقبل کے اوقات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ہستی کو کوئی قدرت و اختیار نہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود حقیقی ہے اس کے سوا جس طرح کوئی ہستی ربوبیت کی مستحق نہیں اسی طرح عبودیت کی بھی مستحق نہیں۔ یہ حقیقت اس امر کا موجب ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت، اس کے خوف اور اس پر امید سے لبریز ہوں۔
یہ دو امور ہیں جن کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کو تخلیق فرمایا اور وہ ہیں معرفت الٰہی اور عبادت الٰہی یہی دو امور ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقصد قرار دیا ہے یہی دو امور ہر قسم کی بھلائی، خیر و فلاح، دینی اور دنیاوی سعادت کی منزل تک پہنچاتے ہیں، یہی دو امور اللہ کریم کی طرف سے پانے بندوں کے لئے بہترین عطیہ ہیں اور یہی دو امور علی الاطلاق لذیذ ترین چیزیں ہیں۔ اگر بندہ ان دو چیزوں سے محروم ہوجائے تو وہ ہر خیر سے محروم ہو کر ہر شر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو اپنی معرفت اور محبت سے لبریز کر دے، ہماری باطنی اور ظاہری تمام حرکات صرف اس کی رضا کے لئے اور صرف اسی کے حکم کے تابع ہوں، کوئی سوال اس کے لئے پورا کرنا مشکل ہے نہ اس کی کوئی عطا اسے لاچار کرسکتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿اللّٰـهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ﴾ “ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی“ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری خاطر رات کو سیاہ بنایا ﴿لِتَسْكُنُوا فِيهِ﴾ ” تاکہ تم اس میں آرام کرسکو“ تاکہ تم اپنی حرکات سے سکون پاؤ۔ اگر یہ حرکات دائمی ہوتیں تو تمہیں نقصان پہنچتا۔ سکون کے حصول کے لئے تم اپنے بستروں میں پناہ لیتے ہو، اللہ تعالیٰ تم پر نیند طاری کردیتا ہے جس سے انسان کا قلب و بدن آرام پاتے ہیں۔ نیند انسانی ضروریات کا حصہ ہے انسان اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور رات کے وقت ہر حبیب اپنے حبیب کے پاس آرام کرتا ہے، فکر مجتمع ہوتی ہے اور مشاغل کم ہوجاتے ہیں۔
﴿وَ﴾ ” اور“ بنایا اللہ تعالیٰ نے ﴿النَّهَارَ مُبْصِرًا﴾ ” دن کو کھلانے والا“ یعنی روشنی والا جو اپنے مدار میں رواں دواں سورج کی روشنی سے روشن ہوتا ہے اور تم اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے روز مرہ کے دینی اور دنیاوی امور میں مشغول ہوجاتے ہو، کوئی ذکر اور قراءت قرآن میں مشغول ہے، کوئی نماز پڑھ رہا ہے، کوئی طلب علم میں مصروف ہے اور کوئی خرید و فروخت اور کاروبار کر رہا ہے کوئی معمار ہے تو کوئی لوہار سب اپنے کام اور صنعت میں مصروف ہیں۔ کوئی بری یا بحری سفر کر رہا ہے، کوئی کھیتی باڑی کے کاموں میں لگ گیا ہے تو کوئی اپنے جانوروں اور مویشیوں کے بندوبست میں مصروف ہے۔
﴿ إِنَّ اللّٰـهَ لَذُو فَضْلٍ﴾ ” بے شک اللہ فضل والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ عظیم فضل و کرم کا مالک ہے جیسا کہ اس )فَضْل) کی تنکیر دلالت کرتی ہے۔ ﴿عَلَى النَّاسِ ﴾ ” تمام لوگوں پر۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان مذکورہ اور دیگر نعمتوں سے نوازا اور ان سے مصائب کو دور کیا اور یہ چیز ان پر کامل شکر اور کامل ذکر کو واجب کرتی ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴾ مگر اکثر لوگ اپنے ظلم اور جہالت کی بنا پر اللہ تعالیٰ کا شکر نہیں کرتے جیسا کہ فرمایا : ﴿وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ﴾(السبا:34؍13) “” اور میرے بندوں میں کم ہی لوگ شکر گزار ہوتے ہیں“ جو اپنے رب کی نعمت کا اقرار کر کے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوں، اس سے محبت کرتے ہوں، ان نعمتوں کو اپنے آقا کی رضا کے مطابق استعمال کرتے ہو۔ ﴿ذَٰلِكُمُ﴾ ” یہ ہے“ وہ ہستی جس نے ان تمام امور کی تدبیر کی ہے اور تمہیں ان نعمتوں سے بہرہ ور کیا ہے۔
﴿ اللّٰـهُ رَبُّكُمْ ﴾ ” اللہ تمہارا رب ہے“ ﴿فَتَبَارَكَ اللّٰـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” پس تمام جہانوں کا پروردگار اللہ بہت ہی بابرکت ہے“ جس کی بھلائی اور احسانات بہت زیادہ ہیں جو تمام جہانوں کی اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تربیت کرتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah hi to hai jiss ney tumharay liye raat banai , takay tum uss mein sukoon hasil kero , aur din ko dekhney wala banaya . haqeeqat yeh hai kay Allah logon per fazal farmaney wala hai , lekin aksar log shukar ada nahi kertay .
12 Tafsir Ibn Kathir
احسانات و انعامات کا تذکرہ۔
اللہ تعالیٰ احسان بیان فرماتا ہے کہ اس نے رات کو سکون و راحت کی چیز بنائی۔ اور دن کو روشن چمکیلا تاکہ ہر شخص کو اپنے کام کاج میں، سفر میں، طلب معاش میں سہولت ہو۔ اور دن بھر کا کسل اور تھکان رات کے سکون و آرام سے اتر جائے۔ مخلوق پر اللہ تعالیٰ بڑے ہی فضل و کرم کرنے والا ہے۔ لیکن اکثر لوگ رب کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ ان چیزوں کو پیدا کرنے والا اور یہ راحت و آرام کے سامان مہیا کردینے والا ہی اللہ واحد ہے۔ جو تمام چیزوں کا خالق ہے۔ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، نہ اس کے سوا اور کوئی مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے۔ پھر تم کیوں اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہو ؟ جو خود مخلوق ہیں۔ کسی چیز کو انہوں نے پیدا نہیں کیا۔ بلکہ جن بتوں کی تم پرستش کر رہے ہو وہ تو خود تمہارے اپنے ہاتھوں کے گھڑے ہوئے ہیں، ان سے پہلے کے مشرکین بھی اسی طرح بہکے اور بےدلیل و حجت غیر اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ خواہش نفسانی کو سامنے رکھ کر اللہ کے دلائل کی تکذیب کی۔ اور جہالت کو آگے رکھ کر بہکتے بھٹکتے رہے اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لئے قرار گاہ بنایا۔ یعنی ٹھہری ہوئی اور فرش کی طرح بچھی ہوئی کہ اس پر تم اپنی زندگی گزارو چلو پھر آؤ جاؤ۔ پہاڑوں کو اس پر گاڑ کر اسے ٹھہرا دیا کہ اب ہل جل نہیں سکتی۔ اس نے آسمان کو چھت بنایا جو ہر طرح محفوظ ہے۔ اسی نے تمہیں بہترین صورتوں میں پیدا کیا۔ ہر جوڑ ٹھیک ٹھاک اور نظر فریب بنایا۔ موزوں قامت مناسب اعضا سڈول بدن خوبصورت چہرہ عطا فرمایا۔ نفیس اور بہتر چیزیں کھانے پینے کو دیں۔ پیدا کیا، بسایا، اس نے کھلایا پلایا، اس نے پہنایا اوڑھایا۔ پس صحیح معنی میں خالق و رازق وہی رب العالمین ہے۔ جیسے سورة بقرہ میں فرمایا۔۔ الخ، یعنی لوگو اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے اگلو کو پیدا کیا تاکہ تم بچو۔ اسی نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے بارش نازل فرما کر اس کی وجہ سے زمین سے پھل نکال کر تمہیں روزیاں دیں پس تم ان باتوں کے جاننے کے باوجود اللہ کے شریک اوروں کو نہ بناؤ۔ یہاں بھی اپنی یہ صفتیں بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ یہی اللہ تمہارا رب ہے۔ اور سارے جہان کا رب بھی وہی ہے۔ وہ بابرکت ہے۔ وہ بلندی پاکیزگی برتری اور بزرگی والا ہے، وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ وہ زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں۔ وہی اول و آخر ظاہر و باطن ہے۔ اس کا کوئی وصف کسی دوسرے میں نہیں۔ اس کا نظیر یا برابر کوئی نہیں۔ تمہیں چاہئے کہ اس کی توحید کو مانتے ہوئے اس سے دعائیں کرتے رہو، اور اس کی عبادت میں مشغول رہو۔ تمام تر تعریفوں کا مالک اللہ رب العالمین ہی ہے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں اہل علم کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ لا الہ الا اللہ پڑھنے والے کو ساتھ ہی الحمد للہ رب العالمین بھی پڑھنا چاہئے تاکہ اس آیت پر عمل ہوجائے۔ ابن عباس سے بھی یہ مرودی ہے حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہی جب تک فادعو اللہ مخلصین لہ الدین پڑھے تو لا الہ الا اللہ کہہ لیا کر اور اس کے ساتھ ہی الحمد للہ رب العالمین پڑھ لیا کر۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ہر نماز کے سلام کے بعد (لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک والہ الحمد وھو علی کل شی قدیر) پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کلمات کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ (مسلم ابو داؤد، نسائی)